ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

راہ فقر دا پرے پریرے اوڑک کوئی نہ دسّے ھو
ناں اُتھے پڑھن پڑھاون کوئی ناں اُتھے مسلے قصّے ھو
ایہا دنیا ہے بت پرستی مت کوئی اس تے وِسّے ھو
موت فقیری جیں سر آوے باھوؒ معلم تھیوے تسّے ھو

The path of faqr is far away and its ultimate is out of sight Hoo

There is no study neither there is discussion of issues and stories delight Hoo

This world is idol worshiping no one should trust it Hoo

To whom death and poverty reaches Hazrat Bahoo ra he will be aware of it Hoo

Rah faqr da paray pareray oo’Rak koi no dissay Hoo

Na’N othay pa’Rhan pa’Rhawan koi na’N ohtay maslay qissay Hoo

Eiha duniya ha but prasti mat koi es tay wissay Hoo

 

Moot faqeeri je’N sar Aaway ‘Bahoo’ muallam thiway tissay Hoo

 تشریح:

ہر کوئی فقر کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا- فقر تو معرفتِ الٰہی  اور وصال ِ یار کا راستہ ہے اوریہ اس قدر طویل  ہے کہ ا س کی انتہا ہی نہیں،جیساکہ آپؒ فرماتے ہیں کہ:

’’فقر حضرت محمد مصطفےٰ(  ﷺ)  کاورثہ ہے،سرِّ فقرأ سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے ہے‘‘-[1]

بہت سے لوگ فقیری کا دعویٰ ضرور کرتے ہیں لیکن حقیقت فقر تک ہزاروں میں سے کوئی ایک ہی پہنچتا ہے- جیسا کہ آپ اپنی تصنیف امیر الکونین میں فرماتے ہیں:

’’پس معلوم ہوا کہ یہ لافزن مدعیان فقر جو صاحب فقر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان میں سے بعض تو صرف قالِ فقر تک پہنچے-بعض حال فقر تک بعض احوالِ فقر تک بعض اقوالِ فقر تک اور بعض افعالِ فقر تک پہنچے ہیں-ہزاروں میں سے کوئی ایک ہی ہوتا ہے جو معرفت میں سلطان الفقر کے لازوال مراتب پر پہنچ کر وصالِ عین جمال کا مشاہدہ کرتا ہے اور مراتب فقر پر پہنچتا ہے‘‘-[2]

باھو! حق راست گو فقرش چہ چیز

 

فقر بیرون از عقل فکرش تمیز[3]

’’اے باھوؒ!سچ بتایئے فقر کیاچیز ہے؟سن!فقرعقل وفکروتمیز سے ماورٰی نعمت ہے‘‘-

2- حضرت سُلطان باھُو اپنے نثری فرمودات میں ایک جگہ فرماتے ہیں :

’’یادرکھ اے مردِ فہیم!کہ ترک دنیا ہے سنت ِ عظیم -اللہ سے ڈر اے صاحب ِ قلب ِسلیم اورکردے راہِ خدامیں گھر کو ویران اوربیٹے کو یتیم‘‘-

فقر ظاہری علوم کی طرح کوئی علم نہیں ہے کہ پڑھنے پڑھانے سے حاصل ہو جائے بلکہ فقر وہ خاص دولت ہے جو فضل الٰہی سے حاصل ہوتی ہے فقر ایک ایسی منزل ہے جو اس دنیا سے پرے ہے- جب فقر کااتمام ہوجاتا ہے تو وہاں اللہ ہی اللہ ہوتاہے اورعلم کامقصود اورغرض وغایت بھی یہی ہے کہ اللہ کا قرب ووصال حاصل  ہوجائے-آپؒ کے فرمان مبارک کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں تعلیم وتعلم کا سلسلہ رک جاتا ہے،بلکہ مقصود یہ ہے کہ وہاں تعلیم وتعلم کے وہ ذرائع نہیں ہوتےجن کا عام بندہ محتاج ہوتا ہے بلکہ وہاں اللہ پاک سے براہ راست الہام،کشف،ارواح مبارکہ سے بلاواسطہ فیض رشد و ہدایت کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ ایک مقام پہ آپؒ فرماتے ہیں :

’’فقر قدرت ِربّانی کا ایک راز ہے جس کی شرح کا دفتر دل ہے نہ کہ دفاتر ِکتب- جہاں فقر ہے وہاں علم ہے نہ دانش و مطالعہ ہے نہ عقل و شعور ہے نہ وہم و خیال ہے اور نہ ذکر مذکور ہے- وہاں نورٌعلیٰ نور ہے جہاں پر طالب بشوق مسرور ہے‘‘-[4]

اگر محض ظاہری علم سے فقر ملتا تو ابلیس جس نے 50 ہزار سال اللہ کی بارگاہ سے علم حاصل کیا تھا وہ حقیقت فقر تک پہنچ جاتا-

فقر یک نور است بقدرت خدا
فقر یک گنج است از
کانِ کرم

 

فقر یک امر است برحمت عطا
ہرکہ بیند روی فقرش نیست غم[5]

’’فقر قدرت خداوندی کا ایک نور ہے فقر عطائے رحمت کا امر خداوندی ہے- فقر کان کرم کا ایک خزانہ ہے، جسے روئے فقر دیکھنا نصیب ہوگیا وہ ہر غم سے آزاد ہوگیا- فقر حکم و حکمت خداوندی کا علم ہے جس سے فقیر قم باذن اللہ کَہ کر مردے کو زندہ کرتا ہے‘‘-

3-طالبان مولیٰ کے نزدیک دنیا کو اختیار کرنا بھی بت پرستی ہے کیونکہ دنیا کی محبت خواہشات نفسانی سے پیدا ہوئی اور یہ خواہشات ہی باطن کا شرک ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوَاہُ‘‘[6]         ’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے‘‘-

حضور اکرم(ﷺ) کا فرمان مبارک بھی ہے:

’’دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے اور ترک دنیا تمام اچھائیوں کی جڑ ہے‘‘-[7]

صوفیاء کی تعلیمات میں حب دنیا کی مذمت سے مراد ترک دنیا اور رہبانیت قطعاً نہیں ہے ان کے کہنے کا مقصود فقط یہ ہے کہ تم دنیا میں رہو دنیا تم میں نہ رہے - فقر محمد ی (ﷺ) سراپادین ہے اور دنیا راہِ فقرمیں ایک راہزن کی مثل ہے اس لیے  آپ ؒ  فرماتے ہیں:

’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:حب دنیا ظلمت ہے‘‘-دنیاکی مرادوں کے پیچھے وہ آدمی بھاگتاہے جو بے شرم ہو،اگر کوئی اہلِ دنیا کسی طالب اللہ سے کہے کہ دنیا قبول کرلے ورنہ میں تیری گردن اڑاتا ہوں ،تو طالب اللہ کے لیے بہتر ہے کہ وہ مرناقبول کرلے لیکن دنیا قبول نہ کرے ‘‘-[8]

دوسرے مقام پر آپ (قدس اللہ سرّہٗ) طالب مولیٰ کو نصیحت کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں کہ:

’’اے عزیز!اگرتواللہ عزّوجل سے ملناچاہتاہے تو کوہ ِقاف سے زیادہ وزنی درمِ دنیاکی اس بلاکو اپنے سر سے کھینچ لے-لعنت کے اس طوق کو اپنے گلے سے اتاردے اور شیطان کے اس سلسلے سے نکل جا-بندے کو یہ زیب نہیں دیتاکہ وہ فقر ِمحمدی (ﷺ)جیسی نعمت کو ٹھکرادے اورکتے کی طرح ہڈی کاطالب بن جائے،اگرکوئی ایساکرتا ہے تو وہ بندہ نہیں بلکہ کتاہے ،حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام کا فرمان ہے :اَلدُّنْیَا جِیْفَۃْ وَطَالِبُھَا کِلَابْ (دنیامردارہے اوراس کے طالب کتےہیں) ‘‘-[9]

4- فقیری تو یگانگت کا نام ہے جو اسے حاصل ہوتی ہے جو راہِ فقر میں ’’موتوقبل ان تموتو‘‘ کے مقام سے گزرتا ہے یعنی جو مرنے سے پہلے مرجاتا ہے یعنی جو اپنے نفس کو خواہشات سے علیحدہ کرلیتا ہے اور اپنے قلب کو ذات باری تعالیٰ کی طرف جھکا دیتا ہے وہی فقیری کو پاتا ہے- جیساکہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)  ارشادفرماتے ہیں:

اوّلاً موت است بعد از معرفت

 

و ز چہاربہ گزرد یکتا صفت[10]

’’پہلے (’’مُوْتُوْقَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘والی) موت ہے اس کے بعد معرفت ہے-لہٰذا ربعہ عناصر سے باہر آتاکہ تجھے خداکے ساتھ یکتائی نصیب ہو‘‘-


[1](امیر الکونین)

[2](امیر الکونین)

[3](کلید التوحید کلاں)

[4](عقل بیدار)

[5](عقل بیدار)

[6](الجاثیہ:23)

[7](شعب الایمان، ج:7، ص:338)

[8](عین الفقر)

[9](ایضاً)

[10](امیر الکونین)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر