ل: لَہٗ ھُوْ غیری دَھندے ہِک پَل مُول نہ رہندے ھو
عِشق نے پَٹے رُکھ جَڑھاں تھِیں اِک دم ہول نہ سہندے ھو
جہڑے پَتھر وانگ پہاڑاں آہے اوہ لون وانگوں گَل وَہندے ھو
عِشق سوکھا لا جے ہوندا باھوؒ سبھ عاشق ہی بن بہندے ھو
Besides He they never let any other business remain there Hoo
Ishq will up root from its roots and does not leave any fear for a moment where Hoo
Such rocks like mountains will melt like salt Hoo
If ishq was such easy Bahoo than everyone would become aashiq exalt Hoo
Lahoo Hoo ‘Ghairi dhanday hik pal mool na rahanday Hoo
Ishq nay pattay j’Rha’N thi’N ek dam hol na sahnday Hoo
Jeh’Ray pathar wang pahara’N aahay oah lon wango’N gull wahanday Hoo
Ishq sokha la jay honda Bahoo sabh aashiq ban hi ban bahnday Hoo
تشریح:
:’’ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) ہر وقت مشاہدۂ معرفت اور قربِ اِلٰہی میں غرق رہتے تھے اور مشاہدۂ توحید و نور حضور میں اُن کی محویت اِس قدرہوتی تھی کہ دم بھر کے لیے بھی مشاہدۂ حضورِربانی سے فارغ نہیں ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی لامحدود و بے انداز محبت کا درد اور آتش ِعشقِ توحید کی تپش اُنہیں ایک پل کے لیے بھی آسودہ نہیں رہنے دیتی تھی‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)
لہ بھی اسم اعظم ہے اور ھُو بھی اسم اعظم ہے اس علاوہ جو کچھ ہے وہ سب غیر اللہ کا کھیل تماشا ہے اللہ والے اسم اعظم کے علاوہ کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ، اللہ عزوجل کے مقربین اورمحبین بھی اللہ عزوجل اور حبیب مکرم (ﷺ) کی اس سُنت پہ عمل کرتے ہیں جیساکہ حضرت سُلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
’’محبوبِ سُبحانی سیّدنا الشیخ عبدالقادرجیلانیؒ حضور نبی رحمت(ﷺ) کے چار یاروں کے دوست،اہل ِسنت وجماعت اور نائب ِمحمد رسول اللہ (ﷺ)ہیں اور ظاہر باطن میں ایسے طاعت گزار ہیں کہ ایک لمحہ کے لئے بھی بندگی ٔخدا سے فارغ نہیں ہوتے‘‘(کلیدالتوحیدکلاں)-آپؒ اپنے بارے میں فرماتے ہیں:’’مائی راستیؒ کا بیٹا باھُودین ِحق میں صادق قدم ہے، اُس کی دونوں آنکھیں ہر وقت محو ِدیداررہتی ہیں‘‘-(عین الفقر)
2: سیّدنا غوث الاعظم پیر دستگیرؒ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا:’’ خدا وندا ! عشق کیا چیز ہے ؟ ‘‘ جواب ملا : ’’ عشق وہ ہے جو ہر ماسویٰ اللہ کو جلا کر راکھ کر دے ‘‘ - جیسا کہ فرمایاگیا ہے:عشق ایک آگ ہے جو دل سے ہر نقش ِغیر کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے‘‘ (محک الفقرکلاں)-اے باھُو ! واصل باللہ مرشد عشق سوز ہوتے ہیں جو ہر وقت، ہر گھڑی اور ہر دم سوزِ عشق میں جلتے رہتے ہیں‘‘(عین الفقر)- آپؒ اپنے بارے میں فرماتے ہیں :فقر کی ابتدا و انتہا مجھ پر ختم ہو چکی ہے اور سوزِ عشق سے میرے وجود میں نفس جل کر راکھ ہو چکا ہے‘‘- (اسرارالقادری)
3:’’ تُو جانتا ہے کہ عشق کیا چیز ہے ؟ اپنے نفس کو مار دینے کا نام عشق ہے- عشق وہ چیز ہے کہ جس کی کاٹ سے دل ہر وقت سوزش میں مبتلا رہتا ہے-مزید ارشادفرمایا :’’عشق آگ ہے جو اگر وجود میں داخل ہو جا ئے تو گرمی پیدا کرتا ہے اور وجود کو جلا کر صفائی بخشتا ہے ‘‘-( محک الفقرکلاں)
یادرہے کہ انسانی وجود میں خواہشاتِ نفسانی کے جو بُت ہیں وہ ظاہری بتوں سے کہیں زیادہ سخت اورایمان لیوا ہیں جیساکہ آپؒ فرماتے ہیں:
’’نفس کے ہر بال و رگ میں کفار سے زیادہ سخت بلکہ سخت ترین اکہتر ہزار زنار پڑے ہوئے ہیں جو ہرگز نہیں ٹوٹتے جب تک کہ وہ دیدار ِپروردگار سے مشرف ہو کر صاحب ِحضور نہ ہو جائے‘‘-(امیرالکونین)
لیکن یہ عشق ان بتوں اورزناروں کو ریزہ ریزہ کرکے نہ صرف اڑا دیتا ہے بلکہ اس کی جگہ وحدت و محبت کے باغ وپھو ل کھلادیتا ہے جن کی خوشبوؤں سے نہ صرف یہ جہاں بلکہ دونوں جہان معطرہوتے ہیں جیساکہ آپؒ فرماتے ہیں :
’’وجود گویا لکڑی ہے اور عشق اُس کے اندر بھری ہوئی آگ ہےجو خام ہو تو بھڑکتی نہیں،لیکن جب یہ بھڑکتی ہے تو دم بھر میں لکڑی کو ختم کرکے راکھ کردیتی ہے‘‘(کلیدالتوحیدکلاں)- مزید ارشادفرمایا :’’ اگر تیرے دل میں ذرہ بھر بھی عشق ِاِلٰہی پیدا ہو جائے تو وہ تیرےلیے دونوں جہان کی عبادت سے افضل ہوگا‘‘-( کلیدالتوحیدکلاں)
4:’’سن!بہت سے لوگ بظاہر لبا سِ فقر میں نظر آتے ہیں لیکن بباطن خوار ہوتے ہیں- ہزاروں میں سے کوئی ایک آدھ ہی صاحب ِفقر ہو کر اللہ تعالیٰ کے عشق و محبت کے گلشن ِبہار کے مزے لوٹتاہے - فقیر مشکل کشا و عین نما کو کہتے ہیں- یہ ہوا وہوس کے قیدی نفس پرست و خود پسند لوگ فقیر نہیں ہوتے‘‘ (نورالھدٰی)- مزید ارشادفرمایا :راہِ خدا بال سے بھی زیادہ باریک ہے کہ اِس میں فنا فی اللہ ذات ہونا پڑتا ہے جو فرمانِ حق کے مطابق ایسے ہے کہ جیسے سُوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا-فقیری ایک پُردرد کشالہ ہے نہ کہ اماں و خالہ کے گھر کا حلوہ و چرب نوالہ، بلکہ رات دن سوزِ عشق میں جلنا ہے‘‘- (عین الفقر)
یہ پورابیت مبارک عشق کے بارے میں ہے ، حضرت سُلطان باھوؒنے اپنی تعلیمات مبارکہ میں کئی مقامات پہ اس چیز کا تذکرہ فرمایا ہے کہ عشق مصطفٰے (ﷺ) ایک انمول اور متاعِ بے بہا ہے جو طالب کو ہر مقام ومرتبے تک پہنچا دیتا ہے ، اس کے حصول کے بارے میں آپؒ فرماتے ہیں:’’عشق کی چھت بہت بلند ہے، اُس پر پہنچنے کے لئے اسم اَللّٰہُ ذات کی سیڑھی استعمال کر جو تجھے ہر منزل و ہر مقام بلکہ لامکان تک پہنچا دے‘‘-(عین الفقر)