ابیات باھوؒ: فَجری ویلے وقت سویلے نِت آن کَرن مَزدُوری ھو

ابیات باھوؒ: فَجری ویلے وقت سویلے نِت آن کَرن مَزدُوری ھو

ابیات باھوؒ: فَجری ویلے وقت سویلے نِت آن کَرن مَزدُوری ھو

مصنف: Translated By M.A Khan اکتوبر 2022

ف:فَجری ویلے وقت سویلے نِت آن کَرن مَزدُوری ھو
کانْواں ہِلّاں ہکسی گلاں تَریجھی رَلی چَنڈوری ھو
مَارن چِیخاں تے کَرن مُشقت پَٹ پَٹ سَٹن انگوری ھو
سَاری عُمر پِٹیندیاں گُزری باھوؒ کدی نہ پئی آ پُوری ھو

Early in the morning, they start labouring Hoo

Crows and vultures are same and thirdly joined Chanduri Hoo

They would scream and struggle and they plunk out buds as insane Hoo

Whole of life spent in lamenting Bahoo but in shortage remain Hoo

Fajri welay waqt swelay nit ‘Aan karan mazdoori Hoo

Kanwaa’N hilla’N hiksi galla’N tareejhi rally chan’Dori Hoo

Maaran che’Kha’N tay karan mushaqat pat pat su’Tan an’Gori Hoo

Saari umar pi’Taindiya’N guzri Bahoo kadi na pai ‘Aa poori Hoo

تشریح: 

غلغلِ تسبیحِ زاہد گرچہ مقبول است و لیک

 

آہِ درد آلودِ رندان را صفائِ دیگر است

1-’’ زاہد کی تسبیح خوانی مراتب ِقبولیت تک ضرور پہنچ جاتی ہے مگر رندوں کی درد آلود آہوں کی اثر آفرینی کا قرینہ ہی کچھ اور ہے ‘‘-

اس مصرع کا مخاطب زاہد لوگ ہیں جو صبح سویرے اُٹھ کر ذکر اذکار شروع کردیتے ہیں اوراُن کی عبادت کا مقصد محض ثواب کمانا یا زیادہ سے زیادہ آخرت یعنی جنت کا حصول ہوتا ہے- سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھوؒ نے ایسے زُہد کی کئی مقامات پہ نفی فرمائی ہے- جیساکہ آپؒ فرماتے ہیں :

’’جان لے کہ عشق بلند پروازی کا نام ہے، مکھی چاہے ہاتھ ملے یا سر مارے یا ہزار ہا اڑانیں بھرتی پھرے پروانے یا شہباز کے منصب و مرتبے پر نہیں پہنچ سکتی- اِسی طرح زاہد جتنی بھی ریاضت کر لے صاحب ِراز نہیں بن سکتا‘‘-

عبادت کا مقصد تو فقط اللہ عزوجل کی معرفت وپہچان،مجلس ِ محمدی (ﷺ) کی حضور ی ہوتا ہے لیکن بعض اوقات کچھ  لوگ (عبادت گزار) نفس وشیطان کی چنگل میں پھنس کر  ریاکاری یاپھر نام وناموس کے چکرمیں پڑجاتے ہیں- جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں:

’’دنیا میں علمائے عامل بہت ہیں، متقی و زاہد علماء بھی بے شمار ہیں اور اہل ِ دکان صاحب ِنام و ناموس پیر بھی بہت ہیں لیکن صاحب ِقربِ پروردگار عارف باﷲ فنا فی اﷲ فقیر بہت قلیل ہیں‘‘-مزید ارشاد فرماتے ہیں:’’الغرض اِس دنیا میں اہل ِعلم عالم فاضل بہت ہیں اور زاہد و عابد و متقی و فقیہ بھی بہت ہیں مگر گمنام رہنے والا خفیہ صاحب ِباطن کامل فقیر ہزاروں میں سے کوئی ایک ہی ہوتاہے جو مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی دائمی حضوری میں کامل ہوتا ہے‘‘-

اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہاں اس زُہد کی نفی کی جارہی ہےجس کا مقصد قُربِ خداوندی کی بجائے محض درجات کی بلندی یا عقبٰی کا خوف یا لالچ ہوورنہ بی بی راستیؒ اور سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھوؒ نے جو عبادت وریاضت کی وہ اپنی مثال آپ ہے جیسا کہ آپؒ خود اپنے بارے میں ایک مقام پہ ارشادفرماتے ہیں کہ ’’میرازندگی بھرایک مستحب بھی قضا نہیں ہوا‘‘-اندازہ لگائیں کہ کائنات میں اس سے بڑھ کرزُہد کی کوئی مثال ہو سکتی ہے -لیکن آپؒ اس چیز پہ زور دیتے ہیں کہ زہد کو صرف ظاہر تک محدود نہیں رہناچاہیے بلکہ اس کا مقصد باطن کی آباد کاری ہونا چاہیے-جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں:

’’پس اے زاہد ! ریاضت ِ باطنی اختیار کر کہ ریاضت ِ باطنی مرتبۂ خاص کے کمال تک پہنچاتی ہے اور ریاضت ِظاہری عوام میں شہرت و ریا سے ہمکنار کرتی ہے‘‘-

2-3:’’کوا،چیل ،چنڈوری(پرندوں کے نام ) یہ سب اصطلاحیں دنیا داروں کیلیے استعمال کی گئی ہیں(کیونکہ)دنیادار کا دین و قبلہ درمِ دنیا ہوتا ہے‘‘- اس کی ساری تگ و دو دُنیا اور حُصول ِ دنیاکیلئے ہوتی ہے-آپؒ نے اپنے نثری کلام میں کئی اصطلاحوں سے دنیاداروں کو تنبیہ فرمائی ہے- جیسا کہ آپؒ نے ارشادفرمایا:

’’اگر کوئی فقر اور اللہ عزوجل کے نام سے برگشتہ ہوتا ہے اور ہمت و اِستقامت کو چھوڑکر دنیا و اہل ِدنیا کی طرف مراجعت کرتا ہے تو وہ مرتبۂ شہبازیٔ فقر و راز سے منہ موڑتا ہے- وہ گویا چیل ہے جس کی نظر مردار پرا ٹکی ہوئی ہے اِس لئے وہ دونوں جہان میں ذلیل و خوار ہے- اُس کا دل دنیا سے سیر نہیں ہوتا - اُس کی آنکھ میں دنیا کی بھوک بھری رہتی ہے-وہ فقرِحقیقی اور سلطان الفقرِ تحقیقی تک نہیں پہنچ سکتا کہ وہ طالب ِدنیا ہے بلکہ زندیق ہے‘‘- ایک اورمقام پہ ارشادفرماتے ہیں:’’اگر تُو آئے تو دروازہ کھلا ہے - اِس دروازے سے فقط طالب ِ دیدار شہبازعارف ہی آتا ہے- لالچی و حریص طالب ِدنیا چیل اِس دروازے میں داخل ہونے سے گریز کرتا ہے‘‘- مزید ارشاد فرمایا:’’بدنسل ، کینہ ور اور بے خبر کتے کے سوا اور کون ہے جو مردار کی طرف مائل ہو؟طالب ِ دنیا آدمی بظاہر کتنی ہی شان و شوکت اور عزت و عظمت کا مالک کیوں نہ ہوبباطن کتے سے بھی کمتر و کمینہ ہوتاہے‘‘ -

4:یہ پرندےچونکہ اپنی فطرت کے لحاظ سے حرص،ہوس اور بے صبر ی کی علامت ہیں، محنت و مشقت کے باوجود پرندوں کی دنیا میں ان کا کوئی مقام نہیں ،اسی طرح دنیادار بھی ساری زندگی محنت ومشقت میں گزارتا ہے لیکن نہ تو اُس کی تگ ودو مکمل ہوتی ہے اور نہ اُس کو منزل ملتی ہے-آپؒ طالب اللہ کو نصیحت کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :

’’شہنشاہ دارا اِس جہان سے کوچ کر گیا مگر جاہ و حشمت کو اپنے ساتھ نہ لے جا سکا، ایران کا بادشاہ کاؤس بھی اِس جہان سے چلا گیا لیکن وہ بھی اپنا مقصود اپنے ساتھ نہ لے جا سکا - تُو اسبابِ جہان میں دل نہ لگا کہ جمشید جیسا بادشاہ بھی جامِ جہاں نما کی حکایت کے سوااپنے ساتھ دنیا سے کچھ نہ لے جا سکا -الغرض ! کوئی بھی اِس جہان سے اپنے ساتھ کچھ نہ لے جا سکا ‘‘-مزید ارشادفرمایا :’’تُو نفس و شیطان و دنیا کو بھول کر اپنے قلب و روح کو ذکر اللہ میں اِس طرح غرق کر دے کہ تُو ہر وقت عشق و محبت ِ الٰہی اور اسرارِ الٰہی کا مشاہدہ کرتا رہے اور تیرے وجود میں حرص و حسد، کبر و ہوا اور شہوات کا نام و نشان باقی نہ رہے، تُو جو کام بھی کرے اللہ کے لئے کرے ، جو پہنے اللہ کے لئے پہنے اور جو پیئے اللہ کے لئے پیئے‘‘-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر