چوتھی دو روزہ انٹرنیشنل کانفرنس مولانا رومیؒ وحضرت سلطان باھوؒ

چوتھی دو روزہ انٹرنیشنل کانفرنس مولانا رومیؒ وحضرت سلطان باھوؒ

چوتھی دو روزہ انٹرنیشنل کانفرنس مولانا رومیؒ وحضرت سلطان باھوؒ

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ ستمبر 2022

9 مئی 2022ء، پہلا دن 

یونیورسٹی آف پنجاب لاہور، مسلم انسٹیٹیوٹ اور جی سی یونیورسٹی لاہور نے مشترکہ طور پر پنجاب یونیورسٹی لاہور میں 9 اور 10 مئی 2022ء بروز پیر اور منگل کو ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا - کانفرنس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی - کانفرنس میں ایرانی وفد نے بھی شرکت اختیار کی اور اپنی تحقیق پیش کی- کانفرنس میں مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے :

 

 

افتتاحی سیشن

ابتدائی کلمات

پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر 

) پرو وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی لاہور وائس چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا )

ہمیں ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو انسانیت کے احترام اور دیگر تمام مکاتب ِفکر کے لیے عزت و وقار کی حوصلہ افزائی کرے- یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے لوگوں کے نقطۂ نظر اور کسی بھی مسئلے کے بارے میں ان کی رائے کا احترام کیا جائے- مَیں صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اور مَیں ہمیشہ ان تقریبات سے لطف اندوز ہوتا ہوں- پاکستان ہمیشہ فارسی زبان اور ثقافت کا احترام کرتا ہے- اس مقصد کے لیے بہت سے مراکز پاکستان میں کام کر رہے ہیں جو کہ کوئٹہ، بہاولپور اور اسلام آباد میں بطور مرکز کے قائم ہیں اور فارسی ثقافت کے دوسرے مراکز اس حوالے سے بہت اچھا کام کر رہے ہیں-

 

 

افتتاحی خطاب

عزت مآب صاحبزادہ سلطان احمد علی

(دیوان آف جوناگڑھ اسٹیٹ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)

حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومیؒ کی تعلیمات اور ان کے طریقِ تربیت اس خطے کے لوگوں کے لئے اجنبی نہیں رہیں- جن اعلیٰ اقدار اور اعلیٰ روایات کو ہم شمار کرتے ہیں وہ اس تربیت کا فیضان تھا جو حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومیؒ کی تعلیمات سے پھیلیں- انہوں نے نہ صرف شاعری کی، نہ صرف کلام اور کتب لکھیں بلکہ انہوں نے ایسے سلسلوں اور ایسی درسگاہوں کی بنیاد رکھی جہاں پر لوگ آتے تھے اور بزرگان ان کو اپنی تھیوری کا پریکٹیکل سمجھاتے تھے- آج ہمیں جس وجہ سے ان بزرگوں یا ان کی تعلیمات کی طرف زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے وہ کشش صرف ان کی فصاحت و بلاغت کی نہیں ہے وہ صرف ان کی زبان دانی یا کوئی بہت اچھا قادر الکلام شاعر ہونے کی نہیں ہے بلکہ اس کشش کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ ان کی درسگاہوں میں بہت اعلیٰ انسان تیار ہوئے جو صدیوں تک ہمارے رول ماڈل رہے ہیں- ان لوگوں کی درسگاہوں کا دائرہ کار اتنا وسیع تھا کہ پاک و ہند کی سوسائٹی کا کوئی ایک حصہ بھی ایسا نہیں جس کے اوپر ان بزرگوں کے افکار اور نظریات کی چھاپ نہ ہو- فن تعمیر، موسیقی، لباس ، زبان،غرضیکہ آپ کسی بھی چیز کودیکھ لیں آپ کو اس میں ان بزرگوں کا عملی حصہ نظر آتا ہے-

 

 

معززمہمان

ڈاکٹر کریم نجفی

( سیکرٹری جنرل کامسٹیک انٹر اسلامک نیٹ ورک آن ورچوئل یونیورسٹیز)

مولانا رومی(﷫) کا تعلق کسی مخصوص ملک یا علاقے سے نہیں ہے بلکہ وہ تمام دنیا کے لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے پیغام رساں ہیں جو کہ حضرت سلطان باھوؒ کی طرح تمام لوگوں میں خدا کی محبت کو منتقل کرتے ہیں-

مولانہ رومیؒ فرماتے ہیں :

نه شرقيّم نه غربيّم نه بريّم نه بحريّم
نه از كانِ طبيعيّم نه از افلاكِ گردانم

’’میں نہ مشرقی ہوں، نہ مغربی ہوں، نہ میدانی ہوں اور نہ ہی بحری (سمندری) ہوں-نہ میں فطرت کی کان سے ہوں اور نہ کسی آسمانی سیارے سے ہوں‘‘-

حضرت سلطان باھوؒ اپنی کتاب ’’نور الھدٰی‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ :

ہر کہ طالب حق بود من حاضرم
ز ابتداء تا انتہا یکدم برم
طالب بیا طالب بیا طالب بیا
تا رسانم روز اول باخدا

’’اگر تم اللہ تک پہنچنا چاہتے ہو تو میرے پاس آ جاؤ، میں تمہیں قرب الٰہی تک لے جاؤں گا اور یہ ہم سب کے لیے بہت ضروری ہے‘‘-

 

 

معززمہمان

ڈاکٹر ابرہیم تقی زادے

(ریکٹر پیام ِنور یونیورسٹی، ایران)

سب مسلمان انسان دوستی کی آواز اور بشر دوستی کی صدا ہیں اور ان بزرگوں (مولانا رومیؒ اور سلطان باھوؒ) نے روایات کی پاسداری کی ہے - انسان دوستی اور حق طلبی ایسی کیفیت ہے جو اللہ تعالیٰ انسان کو دیتا ہے اور  خود اللہ تعالیٰ اس کی تعریف کرتا ہے تمام عرفاء، بزرگوں اور شاعرو ں نے صلح و دوستی کا درس دیا ہے اور ہم سب آج ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں- اگرچہ ہم جغرافیائی لحاظ سے ایک دوسرے سے دور ہیں مگر ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں- مولانا جلال الدین رومیؒ ساتویں صدی کے بڑے شاعر اور بارہویں صدی کے سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نے ایک ہی آواز بلند کی اور یہ خوبی ان کے اشعار میں دیکھی جاسکتی ہے- وہ عظمت ِ انسان ،انسان دوستی اور اخلاق کا درس دیتے نظر آتے ہیں- مولانا رومیؒ فرماتے ہیں :

مهر و رقت وصف انسانی بود
خشم و شهوت وصف حیوانی بود

’’محبت اور نرم دلی انسانی صفات ہیں، غصہ اور ہوس حیوانی صفات ہیں‘‘-

 

 

معززمہمان

پروفیسر ہمایوں احسان

( پرنسپل پاکستان لاء کالج)

عشق عقل سے بالاتر ہے لیکن عقل کے خلاف نہیں ہے- تصوف عالم روحانی کی عقلیت ہے- یہ اخروی زندگی اور دنیاوی زندگی کے درمیان ایک پل ہے-جہاں ہمارے پاس روحانی دنیا کی زندگی کے اظہار کے لیے علم اور مناسب لسانی ترتیب موجود ہے- پس تصوف کا تجربہ دو زندگیوں کے درمیان ایک پُل ہے- اگر ہم مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کے کاموں کو دیکھیں تو انہوں نے انسانی سطح پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کی حدوں سے آگے بڑھ کر لوگوں کو انسانیت کا درس دیا ہے اور ہمیں سکھایا ہے کہ اس دنیا کو کیسے متحد کیا جائے- تعلیماتِ مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کی خوبصورتی یہ ہے کہ دونوں خدا کی وحدانیت کی بات کرتے ہیں اور ان کی تعلیمات میں وحدانیت کا پیمانہ اتنا بڑا ہے کہ وہ پوری انسانیت کو بغیر کسی رکاوٹ کے گلے لگا لیتا ہے- یہ ان کی وحدانیت کی صلاحیت ہے کہ وہ سب کو گلے لگا کر صحیح سمت میں ڈالتے ہیں اور حضرت سلطان باھوؒ اپنے خاص انداز میں توحید کو انتہائی پاکیزہ شکل میں کسی چیز اور کسی کے خلاف کیے بغیر پیش کرتے ہیں-

 

 

مہمان خصوصی

پروفیسر ڈاکٹر محمد رضا ناصیری

(سیکرٹری اکیڈمی آف لیٹرز،  ایران)

یہاں آنے سے دو سال پہلے ہم نے حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا جلال الدین رومیؒ کی خدمات کے حوالے سے کچھ معیاری مقالہ جات پڑھے اور انہیں ایران کے معروف جرائد میں شائع کیا- جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ پہلے ہی سے معروف صوفی ہیں لیکن مقالات پڑھنے کے بعد ہم ان کی تعلیمات سے زیادہ واقف ہوئے ہیں- مزید یہ کہ حضرت سلطان باھوؒ جیسا شخص پیدا ہونے اور ان جیسا لکھنے میں صدیاں لگتی ہیں- حضرت سلطان باھوؒ لکھتے ہیں کہ انسان کیسے خدا سے مل سکتا ہے اور اس کے ساتھ جڑ سکتا ہے- آپ نے بہت مشکل کام کی وضاحت کی ہے کہ اللہ سے وہی مل سکتے ہیں جو مشکل راستے سے گزرتے ہیں اور سخت موسم کا سامنا کرتے ہیں- البتہ راستہ صرف ان کیلئے ہے جو فقر کی پیروی کرتے ہیں- سلطان باھوؒ کہتے ہیں کہ جسمانی آنکھوں سے تلاش کرنے کی کوشش نہ کرو اس راستے کو روح کی آنکھوں سے دیکھو یا باطنی آنکھوں سے-

 

 

مہمان خصوصی

 عزت مآب جناب محمد رضا ناظری

( کونسل جنرل اسلامی جمہوریہ ایران، لاہور)

ماضی کی متعدد ادبی شخصیات، صوفیاء کرام اور مفکرین کا پُر امن معاشرے کی تشکیل میں کردار ہمیشہ کیلئے باقی رہنے والا ہےاور یہ فیصلہ کن بات ہے کہ ان بزرگان کے طریق سے ہی معاشرے میں امن ممکن ہے- مفکرین اور شعراء جیسا کہ مولانا رومؒ اور حضرت سلطان باھوؒ دونوں ایران اور پاکستان کے مشترکہ ثقافتی ورثہ کے طور پر پہچانے جاتے ہیں مگر انہوں نے خطے اور دنیا کے مختلف اقوام اور معاشروں کے مابین دوستی اور پرامن زندگی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے- ان میں سے ہر ایک شخصیت کے مقام اور تاثیر کو فنی طور پر پرکھنے کے لئے اس کانفرنس میں موجود ایران اور پاکستان کے محققین اور مفکرین کی تحقیق کی یقینی ضرورت ہے - فارسی زبان عشق، عرفان، اخلاق اور حکمت کی زبان ہے اور فارسی ٹیکسٹ میں یہ اعلیٰ پایہ کے مفاہیم بطور خاص عظیم شعراء اور عرفاء جیسا کہ سلطان باھوؒ اور دوسرے عظیم پاکستانی مفکر علامہ محمد اقبال لاہوری کے اشعار میں موجزن ہیں -

 

 

صدارتی کلمات

پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر

(وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی، لاہور )

آج کی کانفرنس میں مولانا رومیؒ، حضرت سلطان باھوؒ اور ان مذہبی سکالرز، شعراء اوردانشوروں کی تعلیمات پر بات ہوگی جنہوں نے ہمہ وقت معاشرے میں تبلیغ، تعلیم، تلقین اور تربیت پر زور دیا کہ ہم کس طرح معاشرے کو مربوط کر سکتے ہیں-معاشرے میں انصاف کیسے لایا جا سکتا ہے اور معاشرے میں امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟ اہم پیغامات جو اللہ تعالیٰ نے  قرآن پاک اور اپنے رسول  کریم (ﷺ) کے ذریعے دیئے ہیں وہ بالکل واضح ہیں- اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دنیا میں رہو اور میں تمہیں دیکھوں گا کہ تم لوگوں، رشتہ داروں اور غیر مسلموں کے ساتھ کیسا سلوک کرو گے اور تم اپنے معاشرے میں کیسے رہو گے- اس دنیا میں تم میں سے کچھ امیر ہیں ،کچھ غریب ہیں- امیر غریبوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اور غریب ایسے حالات میں کیسے زندہ رہتے ہیں- یونیورسٹیز کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ فرد کو کس طرح تربیت دی جائے اور اسے اس نہج پر تیار کیا جائے کہ معاشرے میں کیسے رہنا ہے-

 

 

پہلا اکیڈیمک سیشن

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ،

روحانیت کےلیےمشعل راہ

ڈاکٹر روزینہ انجم

(پروفیسر شعبہ فارسی، اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور)

یہ دو قدآور شخصیات مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ ان دونوں کے کلام میں جتنی فکری اور ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے اتنی ہی ان کے واقعات میں مماثلت کی چاشنی نظر آتی ہے- مولانا رومی ؒ جن کو فریدالدین عطار ؒنے دیکھا تو اسرار نامہ مثنوی بخشی کیونکہ انہوں نے آپ میں موجود جوہر کو دیکھ لیا تھا -ادھر شمس تبریز کو اشارہ ملا کہ قونیہ چلے جاؤاور پھر رومیؒ کے ظاہر و باطن میں وہ انقلا ب برپا کیا کہ علامہ اقبال ؒ جیسے عظیم مفکر نے انہیں اپنا مرشدِ روحانی کہا- اسی طرح کے واقعات حضرت سلطان باھوؒ کے حوالے سے ملتے ہیں کہ آپ کی والدہ کو الہامی طور پر یہ بتایا گیا کہ ان کی گود میں ایک ایسا ولی کامل آنے والا ہے جو پوری کائنات کو اپنے فیض سے بہرہ مند کردے گا اور اس کا نام باھوؒ  رکھنا -اس کا ذکر حضرت سلطان باھوؒ نے خود یوں کیا ہے:

دست بیعت کرد مارا مصطفےٰ
خلق را تلقیں بکن بہر از خدا

 

 

معاشرے میں امن اور  پاکیزہ خیالی کے لیے شعور کے سماجی عمل کی اہمیت

ڈاکٹر سیدہ ارم گیلانی

(ماہر عمرانیات، چیئرپرسن ریسرچ اکیڈمی آف سپرچوئل تھاٹ اینڈ انٹیلی جنس(RASTI)

شعور کی سماج کاری ہمیں اپنے آپ ، فطرت اور خدا کے ساتھ جوڑ دیتی ہے- مولانا رومیؒ ، سلطان باھوؒ اور ابن عربیؒ جیسے صوفیاءنے انسانی خودی کا بہترین درجہ حاصل کیا کیونکہ وہ نفس پہ قابو پانے کے عمل سے گزرے جس سے تعمیر ِنو، تزکیہ،  انضمام اور ترقی کے عمل سے مافوق الفطرت شعور ابھرا- شعور کے تین درجے ہیں، جسم، روح اور حقیقت کا شعور- تیسرا اعلیٰ ترین شعور ہے جو روحانی حقیقت کا شعور ہے- اگر ہم سلطان باھوؒ، مولانا رومیؒ اور تمام اولیاء کرام کی تعلیمات کا تجزیہ کریں تو سب کا بنیادی محور یہی رہا ہے کہ ہم انسانِ کامل کے درجے کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ شعور معاشرے میں امن اوراستحکام سے کیسے جڑا ہوا ہے، اس شعور کے ذریعے ہم اپنے اللہ کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟ اس میں پہلی اہم چیز اپنے آپ کی نفی اور اپنے من کے اندر تمام بتوں کو توڑنا ہے- آپ کے اندر تمام جھوٹے نظریات، تمام اخلاق رزیلہ اور تصورات جو حقیقت میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے دور کرتے ہیں، سب سے پہلے ان تمام خصائل بد کو اپنے اندر سے ختم کرنا ہوگا- حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ جب تک آپ اپنے دل کو پاک نہیں کریں گے آپ انسان کامل کی تشکیل نہیں کر سکتے-

سلطان باھوؒفرماتے ہیں:

نفس پلیت پلیتی کیتی باھوؒ کوئی اصل پلیت تاں ناسے ھو

حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومیؒ کی تعلیمات میں معاشرے میں موجودہ تناؤ اور بے چینی کا حل

 

 

ڈاکٹر امتیاز احمد اعوان

( ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز، یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر، مظفرآباد)

معاشرے میں بے سکونی، بے چینی اور اضطرابی کیفیت دیکھی جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ اس نفسانفسی اور مادیت پرستی کے دور میں معاشی اور معاشرتی مسائل ہیں- جب ہمارے لوگوں نے صوفیاء کرام کی تعلیمات سے روگردانی کی ہمارامعاشرہ انحطاط پذیر ہوا اور اس کے اندر نہ صرف عدم برداشت پیدا ہوا بلکہ لوگوں کے اندر نفسیاتی مسائل اور بے سکونی نے بھی جنم لیا - جب تک ہم توکل علی اللہ نہیں اپناتے جس کا حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومی نے ہمیں درس دیا ہے اس وقت تک ہمارے معاشرے میں سکون اور اطمینانِ قلب کا ہونا مشکل ہے - توکل کے حوالے سے حضرت سلطان باھوؒ نے پرندوں کی مثال دی-پرندے ذخیرہ نہیں کرتے اور ان کے پاس کوئی چیز جمع نہیں ہوتی- جس قدر ہمارا معاشرہ صوفیاء کرام اور ان کی تعلیمات سے جڑا رہے گااسی قدر ہمارا معاشرہ ترقی یافتہ اور متوازن معاشرہ بنے گا -

مولانا روم ؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کے افکار

میں انفرادی اصلاح کی اہمیت

 

 

ڈاکٹر امبر یاسمین

( اسسٹنٹ پروفیسر/ایچ او ڈی شعبہ فارسی نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز، اسلام آباد)

اُخروی فلاح حاصل کرنے کےلئے دنیاوی زندگی میں انفرادی اصلاح بےحد ضروری ہے- حضرت سلطان باھوؒ کے نزدیک دنیاوی محبتیں، مال، روپیہ پیسہ، رشتے، نعمتیں اور دنیاوی آسائشیں انسان کو آخرت کی فکر سے دور کرتی ہیں- آپؒ کے نزدیک صرف دنیا کی محبت سے اچھا انسان نہیں بنا جا سکتا بلکہ اچھا انسان بننے کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت شرط ہے- حضرت سلطان باھوؒ’’عین الفقر‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’جو دل حُبِ دنیا کی ظلمت میں گھر کر خطراتِ شیطانی اور ہوائے نفسانی کی آما جگاہ بن چکا ہو اُس پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہیں پڑتی اور جس دل پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہ پڑے وہ سیاہ و گمرا ہو کرحرص و حسد و کبر سے بھر جاتا ہے‘‘-

 

 

آپؒ مزید لکھتے ہیں:

’’اسی دنیا کی خاطر آدمی، آدمی کی پوجا کرتا ہے اور یہ ناشائستہ عمل ہے جو انسان کو دین سے دور کرتا ہے ‘‘-

      یعنی مال و زر کی ہوس اسے اندها کر دیتی ہے- پس منزل تک پہنچنے کےلئے اپنی ہوس کو مار ڈالو -

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات میں اخلاقی روایات کی معروضیت

 

 

جناب ایم اے خان

( مترجمِ کتبِ حضرت سلطان باھُوؒ،لیوٹن، یوکے)

یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم تہذیب کی بنیادیں معروضی حقیقت  (زمان و مکان کی قید سے آزاد) پر مبنی ہیں یعنی حقیقت پہ- بہت سے دوسرے شعبہ جات کی طرح، اخلاقی اقدار بھی کسی اندرونی وجود سے پھوٹتی ہیں، تاہم اندرونی حقیقت فطرتاً موضوعی نہیں ہے- جیسا کہ اکثر مغربی اسکالرز نے خاص طور پر مابعد جدیدیت (Postmodernism)  کے بعد سے غلط سمجھا ہے- یہ حقیقت اصل میں معروضی ہے جبکہ اس کا اظہار موضوعی انداز میں ہوتا ہے-صوفیاء کرام ان اخلاقی اقدار اور ضابطہ اخلاق کو اپناتے ہیں جو ان پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اور بارگاہ رسالت مآب(ﷺ) کی حضوری سے ظاہر ہوتے ہیں- جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نے اپنی کتاب’’کلید التوحید‘‘ میں حضور نبی کریم(ﷺ) کے اوصاف حمیدہ کی ہم آہنگی کو اعلیٰ ترین اقدارکے طورپر بیان کیا ہےکہ :

’’مجلس محمدی(ﷺ) کا شرف حاصل کرنا آسان ہے لیکن تصرف، فطرت، وصف، ولایت اور فقر محمدی (ﷺ)  کاحصول انتہائی مشکل ہے‘‘-

حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومیؒ

کے افکار میں ہم آہنگی

 

 

محترمہ الحام حدادی

(رُکن، سعدی فاؤ نڈیشن، ایران)

حضرت سلطان باھوؒ مرشد کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ لوہے کو کندن بنا دیتا ہے اور مرشد ایک درخت کی مثل ہے جو سردی گرمی کو خود جھیل لیتا ہےمگر مرید کو آسائش دیتا ہے- یہ لازم سمجھتا ہے کہ خوف کو اس سے دور کرے اور علم ِمعرفت بخشے- لفظ مرشد کے چار الفاظ ہیں ’’م‘‘ مردہ دل کو زندہ کرتا ہے اور زندہ دلی سے خدا تک پہنچا دیتا ہے- ’’ر‘‘ سے مراد رہائی یعنی مشقت و ریاضت سے رہائی ہے- کیونکہ وحدانیت کے مراقبے سے سالک مجلس محمدی(ﷺ) میں جا پہنچتا ہے-’’ش‘‘ سے مراد شرِ نفس و شیطان ہے جس سے مرشد سالک کو محفوظ رکھتا ہے-’’عقل بیدار‘‘ میں حضرت سلطان باھوؒ مرشد کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر جاہل کو تلقین کرےتو اس کو فاضل بنا دے- مولانا رومؒ حضرت شمس تبریزیؒ کو اپنا مرشد مانتے ہیں اور اس کو ہستیِ کائنات کی علامت سمجھتے ہیں- پیر کا انتخاب بہت ضروری ہے کیونکہ پیر کے بغیر سالک کہیں نہیں پہنچ سکتا -

 

 

مہمان خصوصی

جناب مجیب الرحمان شامی

(سینئر صحافی اورمعروف تجزیہ نگار)

مولانا رومؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کا بیشتر کلام فارسی میں ہے جبکہ فارسی زبان سےہم ناواقف ہو چکے ہیں- میرے بچپن میں تو مجھے یاد ہے کہ فارسی پڑھائی بھی جاتی تھی اور اس کا ایک ٹیچر بھی ہوتا تھا- انگریزوں نے جو فارسی کے ساتھ نہیں کیا وہ ہم نے کر دیا- پہلے تو مشاعروں میں فارسی غزلیں سنائی جاتی تھیں اور لوگ سنتے تھے اب تو اردو زبان کو سنبھالنا بھی مشکل ہو رہا ہے تو مولانا رومؒ اور سلطان باھوؒ تک ہماری رسائی کیسے ممکن ہوگی؟ ہمارے صوفی بزرگ جن کا ہم تذکرہ کرتے ہیں انہوں نے لوگوں کو جوڑا اور عشق خداوندی کی شمع جلائی جس طرح شمع پہلے خود اپنے آپ کو جلاتی ہے اور پھر روشنی دیتی ہے- جتنی ضرورت آج ہمیں حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومؒ سے رجوع کرنے کی ہے میرا خیال ہے اس سے پہلے اتنی نہیں تھی-

صدارتی کلمات

 

 

جناب پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی

(ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ، پنجاب یونیورسٹی)

اس نشست میں تین زبانوں میں مقالات پیش کیے گئے انگریزی، اردو، فارسی اور چوتھی پنجابی جو ابیات ِ باھوؒ کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے- معاشرے اور شخصیتوں میں اخلاقی قدریں گررہی ہیں جس کے نیتجے میں عدمِ برداشت جنم لیتی ہے - صوفیاء کا پیغام توکل علی اللہ کا ہے بالخصوص ان دو بڑے صوفیاء (مولانارومیؒ اور  حضرت سلطان باھوؒ) نے اس پر بہت زوردیا ہے- صوفی کا یہ تصور کیوں بن گیا ہے کہ وہ دنیا سے فرار اختیارکرتا ہے؟ ہر گز نہیں- صوفیاء نے انسانی معاشرے کی بہتری کو ہمیشہ مقدم رکھا اور وہ دنیا کو کیسے نظر انداز کرسکتے تھے؟ اصل تصوف میں دین اور دنیا میں اس طرح کی کوئی اعتقادی اور عملی تفریق نہیں ہے- حافظ شیرازیؒ   کا ایک شعر ہے :

یک حرف صوفیانه بگویم اجازت است
ای نور دیده صلح به از جنگ و داوری

’’ایک صوفیانہ بات کہتا ہوں اجازت ہے؟ اے آنکھوں کے نور!  صلح جنگ اور مخالفت سے بہتر ہیں‘‘-

تصوف کا نقطہ نظر اور آدابِ معاشرتِ اس شعر میں سموئے ہوئے ہیں- جب حرف صوفیاء کہا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ تنقید، دشمنی، ہتک، عناد، طنز یا تضحیک نہیں ہے-

دوسرا اکیڈیمک سیشن

حضرت سلطان باھوؒ اور

مولانا رومیؒ کی ادبی خدمات

اکیسویں صدی میں مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ پر ادبی کام کا ایک جائزہ

 

 

ڈاکٹر عظمیٰ زرین نازیہ

( شعبہ فارسی، پنجاب یونیورسٹی، لاہور )

حضرت سلطان باھوؒ کی فارسی زبان میں کتابیں نثر اور شاعری کا امتزاج ہیں- تمام پنجابی ابیات کا پہلا انگریزی ترجمہ جو کہ زیڈ اے اعوان نے کیا لائق تحسین ہے کیونکہ شاعری کو ایک زبان سے دوسری زبان میں تبدیل کرنا آسان کام نہیں ہے اور یہ واقعی توفیق کے بغیر نہیں ہوسکتا- حضرت سلطان باھوؒ کے پنجابی ابیات کا ترجمہ 2017ء میں انگلینڈ سے شائع ہوا- نور الھدیٰ کا انگریزی ترجمہ 2019ء میں شائع ہوا تھا- ’’کلید التوحید‘‘ اور ’’عین الفقر‘‘ کا انگریزی ترجمہ 2022ء میں شائع ہوا- یہ تراجم صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کی زیر نگرانی کیے گئے ہیں- اردو میں ترجمے کا عمل 1993ء میں شروع ہوا، ’’عین الفقر ‘‘اردو ترجمہ 1993ء میں شائع ہوا، شمس العارفین 2019ء میں شائع ہوا، محک الفقر 2013ء میں شائع ہوا، کلید التوحید 1993ء میں شائع ہوا-

 

 

بیداری 'خود' کا تصور: شاہ عبد الطیف بھِٹائیؒ، حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومیؒ کی تعلیمات سے ایک جائزہ

جناب ڈاکٹر اشوک کمار کھتری

( انچارج شعبہ سندھی، پنجاب یونیورسٹی، لاہور)

حضرت سلطان باھوؒ کا زمانہ 1600ء سے لے کر 1690ء تک کا ہے اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کا دور 1690ء سے لے کر 1792ء تک کا ہے- شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر وقت 3 کتابیں (قرآن پاک، مثنوی مولانا رومؒ اور تیسرا اپنے دادا بلڑی والے کا کلام)اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے اور ان کو اپنے اشعار میں ڈھالتے تھے- ان بزرگوں کی تعلیمات کےمطابق اگر آپ کو زندگی کا راز معلوم ہو تو آپ بھی محبت کے سوا کسی اور ساتھی کا انتخاب نہ کریں- رات کی طرح بنو جو دوسرے کے عیب چھپانے کے لیے ہوتی ہے- حیاء کےلیے زمین کی طرح بنو- جیسے تم ہو ویسے ہی دوسروں کے لیے ظاہر ہو- آپ کو اپنے دل پر ذکر اللہ کی ضرب لگاتے رہنا چاہیے جب تک آپ کا دل کھل ناجائے- حضرت سلطان باھوؒ کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں:

دل کالے توں منہ کالا چنگا جے کوئی اس نوں جانے ہو
منہ کالا دل اچھا ہو وے تاں دل یار پچھانے ہو

شاہ عبداللطیف بھٹائی کہتے ہیں کہ:

’’اے سوئے ہوئے لوگوجاگنے کی کوشش کرو کیونکہ اولیا کرام جیسا مقام ومرتبہ تمہیں نیند کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتا‘‘-

مسلم معاشرہ اور جدیدیت کے چیلنجز: مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات سے رہنمائی

 

 

جناب پروفیسر ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس

(پرنسپل کالج آف اورینٹل لینگویج، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد )

حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا جلال الدین رومیؒ کے نزدیک خود نمائی اورکبر کسی بھی صورت میں جائز نہیں بلکہ ان کے نزدیک یہ نفس کی بیماریوں میں شامل ہیں- سالک جس دن اپنے اندر سے انا، خودنمائی اور کبر کو ختم کر دیتا ہے وہ اس کیلئے عید کا دن ہوتا ہے کیونکہ وہ سالک کے لئے وصال اور ملاپ کا دن ہوتا ہے- وہ اپنے مدارج طے کرتے ہوئے قرب خداوندی حاصل کر لیتا ہے- مولانا رومؒ کے نزدیک نفس ہی ہے جو بندے کو خودنمائی

کی طرف ابھارتا ہے اور انسان کے اندر کبر کو پیدا کرتا ہے- مولانا رومؒی فرماتے ہیں کہ :

او چو بیند خلق را سر مست خواہش
است تکبر می رود از دست خواہش

 

’’جب انسان مخلوق کو اپنی طرف متوجہ دیکھتا ہے تو اس میں تکبر پیدا ہوتا ہے اور انسان کے لئے ضروری ہے کہ تکبر سے اپنے آپ کو پاک کرے‘‘-‌‌

حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ:

صُورت نَفس اَمارہ دی کوئی کُتّا گُلّڑ کالا ھو
کُوکے نُوکے لہو پیوے منگے چَرب نوالا ھو

احساس برتری اور خود نمائی کس حد تک خطرناک یا مفید ہے: مولانا رومی اور حضرت سلطان باھو کی تعلیمات سے مطالعہ

 

 

جناب پروفیسر ڈاکٹر رفیق الاسلام

(ڈائریکٹر سنٹر فار اقبال اسٹڈیز، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور)

 عصر حاضر کی سب سے بڑی غلطی اور تحقیق کا المیہ یہ ہے کہ ہم فقط خارج (ظاہر) کو سنوارنے میں لگے رہتے ہیں اور خارج تحقیق کے نام پر تشکیک پیدا کرتا ہے- صوفی خارج کی بجائے باطن پر زور دیتا ہے اور باطن جب خارج میں آتا ہے تو حقیقتِ انسانی، مقصودِ کائنات اور مقصد ِحیات اس کے سامنے عیاں ہو جاتا ہے- صوفی تشکیک کو ختم کرتا ہے جب تحقیق باطن سے خارج کی طرف آئے گی تو حقیقت کا روپ اختیار کرے گی اور جب خارج سے باطن کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ تشکیک پیدا کرتی ہے- آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تشکیک سے نکل کر اصل تحقیق کی طرف آئیں جس کے لئے ہمیں صوفیا ء کرام کی تعلیمات سے رجوع کرنا ہوگا اور ان کی صحبت وتربیت اختیار کرکے خودکو ان کے طریقِ حیات کے مطابق ڈھالنا ہوگا- حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ علم جب قلب میں آتا ہے تو قلب کی زبان کھل جاتی ہے اور پھر یہ زبان بند ہو جاتی ہے-

سماجی تبدیلی میں حضرت سلطان باھو کے  تصور’’اللہ بس ماسوا اللہ ہوس‘‘ کا اثر

 

 

جناب پروفیسر ڈاکٹر حامد اشرف ہمدانی

( چیئرمین شعبہ عربی، جامعہ پنجاب، لاہور)

تصوف،سلوک، احسان اور تزکیہ کی دعوت کوئی نئی دعوت نہیں بلکہ یہ عین شریعت کی دعوت ہے جب ہم اس جملے ’’اللہ بس ماسوااللہ ہوس‘‘کو دیکھتے ہیں تو جانتے ہیں کہ اخلاص اور توحید، اسلامی شریعت کی بنیاد ہے اور انسان کا کوئی عمل اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قابل قبول نہیں جب تک اس میں یہ دو بنیادی شرطیں نہ پائی جائیں- حضرت سلطان باھوؒ ’’عین الفقر‘‘میں فرماتے ہیں کہ طالب تین قسم کے ہوتے ہیں طالب دنیا،طالب عقبیٰ اور طالب مولیٰ- جو طالب مولیٰ نہیں وہ توحید میں غرق نہیں ہو سکتا- حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات سے وحدتِ انسانی کا تصور ملتا ہے جسے قرآن نے بیان کیا کہ: ’’اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا‘‘- رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:  ’’لوگو تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ آدم بھی ایک ہے‘‘-صوفیا کا ایک اور وصف مخلوقِ خدا کی خیرخواہی ہے -رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا:یہ مخلوق اللہ کے کنبہ کی طرح ہے اور اللہ کو اپنی مخلوق میں وہی محبوب ہے جو اللہ کے بندوں کے ساتھ احترام کا رویہ اپنائے-

 

 

صدارتی کلمات

عزت مآب صاحبزادہ سلطان احمد علی

(دیوان آف جوناگڑھ اسٹیٹ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)

فرید الدین عطارؒ اپنی کتاب منطق الطیر کا خلاصہ یہ بیان کرتے ہیں کہ سر دیئے بغیر بات نہیں بنتی جب تک تو جان قربان نہیں کرتا جانان کو نہیں پا سکتا اور اسی بات کو حضرت سلطان باھُو: یوں بیان فرماتے ہیں :

میں قربان تنہاں توں باھُوؒ جنہاں خون بخشیا دلبرنوں ھُو

عشق کے سفر کی بات ہی سر دینے سے شروع ہوتی ہے- جہاں باطل پھیل رہا ہو وہاں اہل ِحق ختم نہیں ہو جاتے بلکہ اہل حق موجود ہوتے ہیں یہ الگ بات کہ ان کو تلاش کرنا ایک معمہ بن جاتا ہے کہ کیسے تلاش کریں- رومی کی ’’مثنوی معنوی‘‘ میں معنوی سے مراد یہی ہے کہ خود کو خارج سے داخل کی طرف لے جائیں اور یہی عقل اور عشق کا سارا مقدمہ ہے کہ عقل پسند بنیں عقل پرست نہ بنیں-علامہ اقبالؒ  حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس کے بارے میں لکھتے ہیں آپ نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا- سارے سیشنز کا بہترین خلاصہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر یقین کامل کے بغیر اور وحدتِ آدم پر یقین کامل کے بغیر صحیح عدل و مساوات قائم نہیں ہو سکتا-

دوسرا دن بروز منگل 10 مئی، 2022ء

تیسرا اکیڈیمک سیشن

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ

کی تعلیمات کا سماجی مطالعہ:

کثیر الثقافتی اور بین الاقوامی تصوف:

سلطان باھوؒ کی تعلیمات کامطالعہ:

 

 

جناب مدثر ایوب

 (پی ایچ ڈی سکالر، شعبہ تاریخ، قائد اعظم یونیورسٹی  )

کثیر الثقافتی اور بین الاقوامی تصوف کا نظریہ صوفیانہ تعلیمات کی فطری صلاحیت پر مبنی ہے جو پوری دنیا میں بسنے والی تمام اقوام کے لوگوں کیلئے قابل عمل، مؤثر اور پرکشش ہے- بین الاقوامی تصوف قومی اور بین الاقوامی فورمز پر الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے صوفیاء کی تعلیمات کے فروغ سے اسلامو فوبیا کا مؤثر تریاق پیش کرتا ہے- حضرت سلطان باھوؒ نے تزکیہ نفس، جسم، دماغ اور روح کی روحانی تربیت پر زور دیا ہے جس سے حاصل ہونے والا روحانی شعور انسان کی ضرورت ہے- حضرت سلطان باھوؒ نے اس تصور کو ’’وحدتِ مقصود‘‘ کا نام دیا ہے، وحدت المقصود کا تصور حضرت سلطان باھوؒ نے پیش کیا ہے جو قومی اور جغرافیائی سرحدوں کے فرق کے بغیر انسانیت کے لیے رہنما اصول کے طور پر ایک بین الاقوامی نقطہ نظر ہے-

اسلامی معاشرے کی روح:

عشقِ رسول() مولانا رومیؒ اور حضرت

سلطان باھوؒ کی تعلیمات کی روشنی میں

 

 

جناب پروفیسر ڈاکٹر سہیل شفیق

(چیئرپرسن شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی)

رسول اللہ (ﷺ) کی محبت ایمان کی بنیاد ہے اور اسلامی معاشرے کی روح ہے اور یہ محبت تمام محبتوں سےبڑھ کر ہے- مولانا رومیؒ کی مثنوی شریف میں جگہ جگہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے ذکر جمیل کی جھلکیاں نظر آتی ہیں جن میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے اوصاف و کمالات کا بھرپور ذکر ہے اور یہ مولانا رومؒ کے تعلق بالرسول(ﷺ) کا ایک واضح ثبوت ہے- ایک مقام پر مولانا فرماتے ہیں:

‏سیّد و سرور محمد نورِ جاں
مہتر و بہتر شفیعِ مجرماں

’’سیّد اور سردار محمد (ﷺ) جو جان کا نور ہیں آپ (ﷺ)  سب سے بالا اور اعلیٰ اور گناہگاروں کی شفاعت کرنے والے ہیں‘‘-

سلطان باھوؒ کی تمام کتب عشق رسول(ﷺ) میں ڈوبی ہوئی ہیں بلکہ آپ کا رسول اللہ (ﷺ) سے ایسا روحانی رشتہ ہےکہ آپؒ نے تمام کتابیں رسول اللہ (ﷺ)  کے اذن سے لکھیں اور ان میں مجلس محمدی(ﷺ)  کی حضوری، تصور اسم محمد(ﷺ)  کا تعارف اور حضور اکرم (ﷺ) کی عظمت کی گفتگو کی ہے-

آپؒ فرماتے ہیں:

ہر کہ بروئی محمد شد فدا
می رسد او در مراتب اولیا

’’جو رسول(ﷺ) کے چہرے پر فدا ہو گیا وہ مراتب اولیا پر پہنچ گیا‘‘-

سلطان العارفین در آئینہ شمس العارفین

 

 

محترمہ ڈاکٹر رابعہ کیانی

(پی ایچ ڈی اسکالر)

حضرت سلطان باھوؒ کی ذات صدیوں سے سر چشمہ فیوض و برکات ہے آپؒ وہ مادر زاد ولی ہیں جو جمال و جلال اور علم و حکمت سے مزین شخصیت ہیں- کتاب ’’شمس العارفین‘‘ حضرت سلطان باھوؒ کی 8 تصانیف کلید التوحید، قرب دیدار، مجموعہ الفضل، عقل بیدار، جامع الاسرار،  نورالھدٰی، عین الفقر اور فضل اللِقا کا خلاصہ ہے اور ان کتب سے منتخب شدہ اسباق پر مشتمل ہے گویا یہ کتاب آپؒ کی تمام تصانیف کا خلاصہ ہے جس میں طالبِ مولیٰ کی سیرابی کا مکمل بندوبست ہے- اس کتاب کے مطالعہ سے طالبِ مولیٰ پر حیران کن تاثیر مرتب ہوتی ہے اور اس کے وجود میں اخلاص پیدا ہوتا ہے جس میں روز بروز ترقی ہوتی جاتی ہے حتیٰ کہ اسرارِ ربانی کا انکشاف  و اکتشاف ہوتا ہے اور طالب بامراد ہو جاتا ہے- آپؒ فرماتے ہیں:

اسمِ اعظم انتہائے با ھُو بود
وردِ باھُوؒ روز و شب ’’یاھُو‘‘ بود
کور چشم کی به بیند آفتاب
کور را از آفتابش صد حجاب

’’ اسم اعظم سے معیت ذات حق کا انتہائی مرتبہ کھلتاہے اس لئے باھو ہر وقت ذکر یَاھُوْ میں غرق رہتاہے- اندھا آدمی آفتا ب کو کہاں دیکھ سکتاہے کہ ا ندھے اور آفتاب کے درمیان سینکڑوں حجابات ہیں‘‘- (شمس العارفین)

 

 

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کی شاعری کی عصر حاضر میں فلسفیانہ اہمیت

جناب ڈاکٹر سعید احمد سعیدی 

) اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی، لاہور (

دوسری جنگ عظیم کے وقت جب حالات بہت کشیدہ ہوئے تھے تو ایک غیر مسلم سکالر نے یورپ میں جا کر کہا کہ اگر دنیا میں امن چاہتے ہو تو اپنی یونیورسٹیز کے دروازے رومیؒ کی تعلیمات کیلئے کھول دو تاکہ تمہارے درمیان امن و سکون پیدا ہو جائے- مولانا رومؒ نے عقل پر بہت بحث کی ہے-آپؒ فرماتے ہیں:اے نوجوان تو عقل کے بل بوتے پر ہر چیز کا انکار کرنے پر تلا ہوا ہے اسے کسی صاحب دل کے حوالے کر دے اور حیرانگی کو اپنے ہاتھ میں لے لے- آنے والا ہر لمحہ اسے غلط ثابت کر رہا ہے جسے عقل تراشتی ہے، واپس آ جا عشق کا دامن تھام لے اس لئے کہ عقل زنار پوش ہے اور عشق آپ کو منزل تک لے جائے گا-

حضرت سلطان باھوؒ نے عقل سے بہتر عشق اور دل کو قرار دیا ہے جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں کہ :

دل دریا سمندروں ڈونگھا غوطہ مار غواصی ھُو
جیں دریا ونج نوش نہ کیتا رہسی جان پیاسی ھُو

 

 

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات میں مقصد حیات

جناب پروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی

(ڈائریکٹر عبدالصمد خان شہید چئیر، یونیورسٹی آف بلوچستان، کوئٹہ)

مولانا جلال الدین رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ آج بھی قلوب کی تسخیر کی جادہ پیمائی میں مصروف نظر آتے ہیں اور ہم ان میں کئی مماثلتیں دیکھ پاتے ہیں- بے لوث اور پر ایقان عبادت کرنا اور صدق و عرفان کو پانا اس گوناگوں انسانی زندگی اور انسانی وجود میں نہایت کٹھن کام ہے کیونکہ اسی وجود کو پراگندہ کرنے کیلئے دنیاوی آلائشیں، حرص و ہوا، حسد، نِخْوَتْ کی شیطانی طاقتیں بھی مسلسل کارفرماں رہتی ہیں- ایسے حال میں حضرت سلطان العارفینؒ فرماتے ہیں فضل خداوندی کے ساتھ ہی اس گوناگوں جذبات کے حامل انسانی وجود کا کامیابی سے ہمکنار ہونا ممکن ہو سکتا ہے- حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ:

کر عبادت پچھوتاسیں تینڈی عمراں چار دہاڑے ھُو
تھی سوداگر کر لے سودا جاں جاں ہٹ ناں تاڑے ھُو
مت جانی دل ذوق منے موت مریندی دھاڑے ھُو
چوراں سادھاں رل پور بھریا باھُوؒ رب سلامت چاڑے ھُو

مولانا رومیؒ کے تصورِ حیات میں نفس کشی ایک اہم مرحلہ ہے اور نفس کو قابوکرنے سے ہی انسان سراغ زندگی پانے میں کامرانی کا اعزاز حاصل کر سکتا ہے-

صدارتی کلمات

 

 

محترمہ ڈاکٹر روزینہ انجم

( پروفیسر ، شعبہ فارسی ، اسلامیہ یونیورسٹی ، بہاولپور)

صوفی کسی مخصوص مکتبہ فکر سے تعلق نہیں رکھتا، وہ کسی ایک فرقہ کا رہنما نہیں ہوتابلکہ اس کا دسترخواں سب کے لئے کھلا رہتا ہے- جس طرح ہمارے نبی پاک حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) تمام جہانوں کے لئے رحمت العالمین بن کر آئے- اس میں کوئی تفریق ہی نہیں ہے کہ مشرق ہو، مغرب ہو، کافر ہو، مسلمان ہو، عیسائی ہو، جن و انس سب مخلوقات کے لئے رحمت العالمین ہیں- یہی صوفی کا طریق ہے کہ آپ کسی بھی رنگ و نسل، کسی مکتبہ فکر اور کسی خطے سے تعلق رکھتے ہوں صوفی کا فیض اور علم دانش و حکمت سب کے لئے ہے- صوفی اپنے عہد کا ایک عظیم انسان ہوتا ہے جس کا ہاتھ زمانے کی نبض پر ہوتا ہے یعنی وہ جانتاہےکہ زمانے کو کس چیز کی ضرورت ہے- حضرت سلطان باھوؒ ہمیشہ حضوریٔ رسول (ﷺ) میں مستغرق رہتے تھے کیونکہ جس کو بھی جو ملا وہ در مصطفےٰ (ﷺ)سے ملا ہے-

بمصطفےٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است

’’اپنے آپ کو مصطفےٰ کریم (ﷺ) تک پہنچا دے کیونکہ سارے کا سارا دین آپ (ﷺ) ہیں- اگر تم آپ (ﷺ)  تک نہ پہنچے تو (تمہارا)سارے کا سارا عمل بو لہبی یعنی بے دینی ہے-

اختتامی سیشن

لوک ثقافت میں صوفی شاعری:

حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومیؒ کا مطالعہ

 

 

جناب محمد  ندیم بھابھہ:

( شاعر، ادیب)

صوفی کے مصرعے ضرب المثل بن کر روزمرہ کی گفتگو کا حصہ بن جاتے ہیں یہ معاملہ ان صوفیا کی شاعری میں زیادہ دیکھا جا سکتا ہے جن کو صاحبِ ارشاد کا رتبہ یا صاحبِ تربیت ہونے کا فریضہ سونپا گیا ہو-ان میں بالخصوص کلامِ مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کی بات کروں گا جن کے فیض سے علامہ اقبال جیسی شخصیت نے اپنی شاعری کی کائنات بسائی ، یہ بہت اہم بات ہے کہ مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کی شاعری میں ثقافت کا رنگ نمایاں اور غالب ہے-

اس مصرعے کو دیکھیے:

جس گت اتے سوہنا راضی ہوندا اوہو گت سکھاندا ھو

یہ مصرع یوں بھی ہو سکتا تھا:

جس گل اتے سوہنا راضی ہوندا اوہو گل سکھاندا ھو

مگر خاص طور پر گت یعنی تال کا ذکر کیا گیا -جب تک کلچر کا مشاہدہ نہ کیا جائے یہ مصرعہ سمجھا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ  ڈھول ہر ثقافت کا حصہ نہیں ہے بالخصوص اس کا تعلق ہند اور پنجاب سے ہے -

جنوبی ایشیاء میں مسلم افکار پر مثنوی اور ابیات باھوؒ کا اثر

جناب پروفیسر ڈاکٹر شعیب احمد

(چیئرمین رومی چئیر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور)

 

 

برصغیر کی زرخیز سرزمین پر ایسے بزرگان دین کا سلسلہ جاری رہا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو اُس کی مخلوق تک پہنچایا - اس کے علاوہ یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی شخص اللہ کا پیغام لے کر جائے اور اس کے اثرات معاشرے پر نہ پڑیں- ذرا سوچیئے کہ ہندکی سرزمین سے مسلمانوں کے لیے ایک ملک کا وجود میں آنا اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے اور پاکستان کی تخلیق اللہ کی طرف سے اس خطے کے لوگوں کیلئے تحفہ ہے- حضرت سلطان باھوؒ سے لوگ روحانی فیض حاصل کر رہے ہیں- اقبالؒ کہتے ہیں کہ اگر تم صراط مستقیم کے متلاشی ہو تو رومیؒ کو اپنا ساتھی بنا لو- مولانا رومیؒ، علامہ اقبالؒ اور سلطان باھوؒ کا پیغام خالص محبت، امن اور بھائی چارے کا پیغام ہے جو عام لوگوں کو بادشاہی کے راز سکھاتا ہے-

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات میں مادیت پسندانہ نظریات کا رد

 

 

جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران

 (ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف اردو لینگویج اینڈ لٹریچر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور )

ہر انسان میں معرفت اور محبت کا جوہر موجود ہوتا ہے- ہر انسان میں دوسرے انسانوں کے لیے نیکی اور بھلائی کا عنصر موجود ہوتا ہے- مولانا جلال الدین رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کی شاعری میں انسانیت، محبت اور امن کا جوہر دکھائی دیتا ہے- محبت ایک روشنی ہےجو ہمارے باطن کو منور کرتی ہے- معرفت کا رشتہ اوررستہ محبت سے ہو کر گزرتا ہے- محبت انسانی اقدار کی تخلیق کرتی ہے اور عشق رستہ دکھاتا ہے- صوفیاء بہت عظیم الشان گلیشیئر ہیں، ایک بہت بڑا گلیشیئر جس میں سے پانی رفتہ رفتہ پگھل رہاہے- یہ پانی لوگوں میں محبت کی زرخیزی پھیلاتا ہوا بالآخر ایک سمندر سے مل جاتا ہے- یہ سمندر ابدیت کا سمندر ہے جہاں ایک قطرہ سمندر سے مل کر خود سمندر بن جاتاہے- مگر اس کے لیے اپنی ذات کی نفی کرنی پڑتی ہے- آج کے دور میں انسان مادیت پرستی کی دوڑ میں اپنے آپ کو قید کر لیتا ہے- مگر خوش اس لیےنہیں رہتا کہ مادیت کے دور میں رہنے والا انسان کبھی خوش دکھائی نہیں دیتا-

 

 

مہمان خصوصی

جناب صاحبزادہ محمد شہزاد سلطان

(ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس)

حضرت سلطان باھوؒ کے دیوانِ باھوؒ کا پہلا مصرعہ درج ذیل ہے:

یقیں دانم دریں عالم کہ لا معبود الّا ھُو

یہ پوری غزل کلمہ طیبہ کی طرف اشارہ کرتی ہے- اسی طرح ابیات با ھُو میں:

الف:اَللہ چَنْبے دِی بُوٹی میرے مَن وِچ مُرشد لَائی ھو
نَفی اَثبات دَا پَانی مِلیس ہَر رَگے ہَر جَائی ھو

یہاں نفی اثبات سے مراد ہر چیز سے انکار کرنا سوائے لا الہ الا اللہ کے-صوفیاء کا کلچر صرف ترکی، انڈیا، ایران اور پاکستان کا نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی ورثہ ہے- جو انسانیت کی اہمیت پہ زور دیتا ہے- بزرگان دین کی تعلیمات یورپ اور باقی دنیا کے لیے بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہیں جتنی ہمارے لیے- صوفی کلچر صرف برصغیر ہند کا کلچر نہیں بلکہ یہ ہمارا ’’مین اسٹریم اسلام‘‘ ہے- اگر ہم روحانیت کو دین سے جدا کر لیں تو وہاں بھی چنگیزیت باقی رہ جاتی ہے-اسی لیے آج ہمیں اپنی زبان، کلچر، ثقافت اور ورثہ کو سنبھالنے کی ضرورت ہے-

 

 

مہمان خصوصی

محترمہ ناصرہ جاوید اقبال

( سابق جسٹس ہائی کورٹ)

نصاب میں صوفیاء کرام اور روحانیت کا ذکر بہت کم ملتا ہے لہٰذا ایسی کانفرنسز انتہائی مفید ہیں- علامہ اقبالؒ مولانا رومیؒ کو ’’پیر رومیؒ‘‘اور اپنے آپ کو ’’مرید رومیؒ‘‘ کہتے تھے- حضرت سلطان باھوؒ کی والدہ  ماجدہ حضرت بی بی راستیؒ خود ایک صوفی خاتون تھیں -حضرت سلطان باھوؒ کا چہرہ بچپن سے ہی اتنا نورانی تھا کہ جب آپ گھر سے باہر نکلتے تھے تو ہندو آپ کو دیکھ کر مسلمان ہو جاتے تھے- صوفیاء کرام کی تعلیمات اور پیغام صرف مسلمانوں کیلیے نہیں ہے بلکہ تمام انسانیت اور ہر مذہب کے لوگوں کیلئے ہے جس سے ہمیں احترام انسانیت کا سبق ملتا ہے- کیونکہ ان میں صبر ہوتا ہے اور وہ جو بھی کرتے ہیں سوچ سمجھ کر کرتے ہیں اور کوشش یہ کرتے ہیں کہ لوگوں میں ہم آہنگی رکھیں- قرآن کی تعلیمات ہی صوفیاء کرام کی تعلیمات ہیں یہ تعلیم روحانیت ہمیں حضرت سلطان باھوؒ، مولانا رومیؒ اور علامہ اقبالؒ کی تعلیمات سے معلوم ہوتی ہیں-

اظہارِ تشکر

 

 

پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر

( وائس چانسلر، یونیورسٹی آف سرگودھا ، پرو، وی سی، پنجاب یونیورسٹی، لاہور)

کوئی بھی ملک یا معاشرہ سماجی ترقی کے بغیر تکنیکی یا معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتا- سب سے پہلے، معاشرے اپنی سماجی اور روحانی اقدار کو فروغ دیتے ہیں- اگر ان میں ایسی اقدار غالب ہوں تو معاشرہ آگے بڑھتا ہے- مولانا رومیؒ کا مکتب فکر کہتا ہے کہ بنی نوع انسان کا سب سے بڑا المیہ ان کے درمیان کمیونیکیشن گیپ ہے- مولانا رومیؒ کا کہنا ہے کہ ایک شخص اپنے پانچ حواس کے ساتھ اپنی بات کو دوسرے کو پوری طرح بیان نہیں کر سکتا- تمام صوفیاء کے نزدیک اس کمیونیکیشن گیپ کا حل روحانیت اور فیضان نظر سے ہی ممکن ہے- اسی طرح مولانا رومیؒ نے 40 سال تک ایک بھی نظم نہیں کہی، 40 سال کے بعد مولانا رومیؒ کے مرشد شمس تبریزؒ تھے جنہوں نے ساری صورتحال بدل دی اور اس طرح مولانا رومیؒ نے تعلیمات تصوف کو نثر اور شاعرانہ انداز میں آگے بڑھایا- مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی بہتری کے لیے ادارے نہیں بنائے بلکہ انبیاء بھیجے اور انبیاء کے جانشین صوفیاء کرام ہیں- انبیاء کرام اور صوفیاء کرام نے مشعل راہ بن کر لوگوں کی رہنمائی کی-

اختتامی کلمات

 

 

عزت مآب صاحبزادہ سلطان احمد علی

(دیوان آف جوناگڑھ اسٹیٹ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)

ہمارے معاشرے کی تمام اعلیٰ اقدار جیسے اخلاق، شجاعت اور محبت ہمارے ورثہ کی وجہ سے پروان چڑھیں اور ہمارے ورثہ کی نشوونما ہماری زبان کی وجہ سے ہوئی- اسی لئے ورثہ کے احیاء کے لیے زبان کا احیاء بہت ضروری ہے،جو لوگ فارسی نہیں پڑھ سکتے ان کے لیے مولانا رومیؒ، حضرت سلطان باھوؒ، اقبالؒ اور تمام دیگر بڑے دانشوروں کا کلام ترجمہ کے ساتھ موجود ہے- مولانا رومیؒ افغانستان میں پیدا ہوئے آپؒ فارسی زبان بولتے تھے اور قونیہ میں مدفون ہیں- مولانا رومیؒ سے غیر مشروط محبت ان تینوں خطوں کے لوگوں کو جوڑتی ہے- حتیٰ کہ آپ برصغیر میں نہیں آئے مگر یہاں بھی مثنوی عقیدت کے ساتھ پڑھی، سنی اور پڑھائی جاتی ہے جو کہ فرقہ واریت اور تعصبات کو ختم کرتی ہے- اسی طرح حضرت سلطان باھوؒ کا کلام بھی تمام ممالک میں میسر ہے، یہ سرحدوں کے پار انسانوں میں باہمی محبت کو فروغ دیتا ہے - مزید برآں، نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی ان ہستیوں کا احترام کرتے ہیں-

 

 

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر