عین الفقر اور کلید التوحید کے انگریزی تراجم کی تقریب رونمائی

عین الفقر اور کلید التوحید کے انگریزی تراجم کی تقریب رونمائی

عین الفقر اور کلید التوحید کے انگریزی تراجم کی تقریب رونمائی

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ جون 2022

مسلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے 19 اپریل 2022ء بروز منگل اسلام آبادکلب میں حضرت سلطان باھُوؒ کی دو کتب ’عین الفقر ‘اور ’کلید التوحید‘کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیاگیا- عزت مآب صاحبزادہ سلطان احمد علی (دیوان آف جوناگڑھ اسٹیٹ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ابتدائی کلمات ادا کیے- معزز مقررین میں عزت مآب سید فخر امام (سابق وفاقی وزیر)، عزت مآب ڈاکٹر محمد علی شاہ (وی سی قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد)، عزت مآب مسٹر یرژان کستافین (پاکستان میں قازقستان کے سفیر)، میجر جنرل ڈاکٹر شاہد احمد حشمت (ریٹائرڈ سابق سفیر پاکستان برائے سری لنکا)، افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی (سابق ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ پاکستان)، جناب منظور احمد خان، لیوٹن یو کے (حضرت سلطان باھُوؒ کی کتب کے مترجم)، پروفیسر ڈاکٹر عالیہ سہیل خان (سابق وائس چانسلر راولپنڈی ویمن یونیورسٹی)، پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب (چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان)تھے،  ڈاکٹر سائرہ علوی  نے تقریب میں ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے- تقریب رونمائی میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی-

تقریب میں مقررین کے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:

عین الفقر اور کلید التوحید یہ غیر معمولی کتب اصل میں فارسی زبان میں لکھی گئی تھیں اور اب ان کا انگریزی زبان میں ترجمہ مسٹر ایم اے خان نے کیا ہے- ان دو کتابوں اور روحانیت پر لکھی گئی تصوف کی غیر صوفی کی کتب میں بہت فرق ہے- تصوف کی زیادہ تر کتب میں ترتیب و تالیف نیز وضاحت پر کام ہے- جبکہ حضرت سلطان باھُوؒ جب لکھتے ہیں تو وہ فلسفیانہ بحث نہیں کرتے بلکہ اعلیٰ ترین روحانی کیفیتوں کے اپنے ذاتی تجربات بیان کرتے ہیں- ’’عین الفقر‘‘ تصوف کی ایک عظیم کتاب ہے جو بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں قادری روحانی تربیت کی عظیم روایات کا احاطہ کرتی ہے- تصوف کا یہ مسودہ روحانیت اور حقیقتِ انسان کو سمجھنے کے طریقوں کے گرد گھومتا ہے- کتاب کے مترجم جناب ایم اے خان نے اس مستند مسودہ کا ترجمہ کرنے میں شاندار کام سر انجام دیا ہے- دنیا میں انگریزی پڑھنے والوں کو تصوف کے ایسے قیمتی لٹریچر سے متعارف کروانے میں ان کی کاوشیں قابل تحسین ہیں-

کلید التوحید، جس کا ترجمہ توحید کی کلید ہے، تصوف کی ایک مختصر فارسی تحریر ہے جو حضرت سلطان باھُوؒ نے لکھی ہے- حضرت سلطان باھُوؒ لکھتے ہیں کہ کلید التوحید تصوف کے رازوں کا بیان ہے-اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں قرآن و حدیث پر مبنی انتہائی لطیف اور پاکیزہ خیالات پر مبنی، کلید التوحید کی ہر سطر اسرار الٰہی کو عیاں کرتی ہے- حضرت سلطان باھُوؒ اس دنیا اور اٹھاراں ہزار عالم اور اس میں موجود ہر چیز کا تقابل ایک ایسے تالے سے کرتے ہیں جسے ایک صوفی کھول سکتا ہے، جو فقر سے فیض یاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے پسندیدہ شخص ہے- اسے علم لدنی سے نوازا جاتا ہے اور اس پر آسمانی اسرار منکشف ہوتے ہیں-

یہ کتاب طالبان مولیٰ کے لیے ایک مکمل رہنما کے طور پر کام کرتی ہے جنہیں صوفیانہ راستے پر مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے چاہے وہ ابتدا ءمیں ہو یا مرتبہ انتہا پر- حضرت سلطان باھُوؒ اس کتاب کو ایک کامل روحانی آقا (مرشد کامل) سے تشبیہ دیتے ہیں کیونکہ یہ روحانیت کے راستے کے نظم و ضبط کو روشن کرتی ہے- کلید التوحید کے مطالعہ سے طالب مولیٰ کو ایک کامل آقا یعنی مرشد کامل اور منافقین کے درمیان فرق کرنے میں مدد ملتی ہے جو خدا کے بندے (مرشد) ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن درحقیقت خواہشاتِ نفس کے غلام ہیں- کلید التوحید کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے- پہلا حصہ مرشد کامل اور ان کی صفات پر مرکوز ہے- مرشد کامل اللہ کا دوست، صوفی یعنی خالصتاًاللہ سے محبت کرنے والا، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میں مستغرق-جس کا جسم دنیا میں رہتا ہے، لیکن وہ نور توحید میں مستغرق ہوتا ہے- اللہ کی محبت اور علم اس کے لیے اللہ کی عطا ہے- ولی اللہ کو طالبان مولیٰ کی رہنمائی کرنے اور ان کے نفس کی بنیادی خصلتوں جیسے تکبر، منافقت، انا، غصہ، بغض، لالچ، حسد، غیبت، جنسی لذت، دکھاوا وغیرہ کو دور کرنے کی طاقت دی گئی ہے- اس روحانی اور غیر معمولی طاقت کا سرچشمہ نورِ الٰہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور مجلس محمدی(ﷺ) میں غرق ہونے سے حاصل ہوتا ہے- حضرت سلطان باھُو ؒ کتاب کے دوسرے حصے میں تخلیق کے مراحل بیان کرتے ہیں- وہ ازل سے شروع کرتے ہیں ہے اور پھر پوری تخلیق کا مرحلہ وار تفسیر کرتے ہیں-

حضرت سلطان باھُوؒ کی کتب کا ترجمہ کرنے کا بنیادی مقصد انگریز قاری اور خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کو جو اسلام کی روحانی جہت سے ناواقف ہیں، نہایت آسان طریقے سے متن کی وضاحت کرنا ہے- ایک اہم پہلو جس پر غور کیا جائے وہ یہ ہے کہ مسلم تہذیب خاص طور پر مذہبی اور روحانی میدان میں اپنا الگ تجربہ رکھتی ہے- سیاسی، اقتصادی اور تاریخی طور پر، ہر تناظر میں، مسلم فلسفہ خاص طور پر زبان کا فلسفہ اور اصطلاحات کا فلسفہ مغربی یہودی عیسائی ثقافت سے یکسر مختلف ہے- 200 برس قبل، مسلمانوں نے  فاتح کے طور پر جہاں بھی قدم رکھا، زبانوں کے ساتھ ان کا سلوک فاتح جیسا تھا-تاہم جب سے وہ نوآبادیات کےنرغے میں آئے ایک خاص ثقافت اور تہذیب نے ان پر غلبہ حاصل کر لیا اور تب سے وہ محکوم ہو گئے ہیں- ان میں اتنی ہمت نہیں رہی کہ وہ اپنی شرائط اور خیالات کو آزادانہ طور پر بیان کر سکیں-

کتاب عین الفقر مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں لکھی گئی- تاہم آج مسلمان اس دور میں جی رہے ہیں جب ان کی عقل، معیشت، ادب اور تہذیب کی تمام بڑی جہتیں سابق استعماری طاقتوں کے زیر تسلط ہیں- ایسے وقت میں آزاد ادب کو متعارف کرانا ایک مشکل کام ہے- تاہم فقر کا راستہ ہی اس مشکل کام کو انجام دینے کے لیے ہمت اور توانائی بخشتا ہے- متعدد اصطلاحات ہیں جن میں مستشرقین کے ترجمہ سے اختلاف ہے- مثلاً فقر کا ترجمہ غربت ہے- تاہم، روحانی تناظر میں یہ بالکل مختلف ہے اور اس لیے قریب ترین مفہوم کی عکاسی کرنے کی کوشش میں، فقر کا ترجمہ کرنے کے لیے Spiritual Excellenceکی اصطلاح متعارف کرائی گئی ہے- جیسا کہ ایک حدیث  مبارکہ میں آیا ہے کہ:

اذاتم الفقرفھواللّٰہ                              ’’جب فقر اپنے کمال کو پہنچتا ہے تو صرف اللہ ہوتا ہے‘‘-

اسی طرح اگر لفظ مراقبہ پر غور کریں تو اس کا ترجمہ اکثر سوچ، یکسوئی یا تفکر کے طور پر کیا جاتا ہے- البتہ مراقبہ کے اصل معنی کو بیان کرنے کے لیے ان الفاظ میں سے کوئی بھی مناسب نہیں- مراقبہ کا اصل معنی آپ کے نفس پر قابو پانا ہے جب کہ آپ اللہ تعالیٰ کے نام پر غور کر رہے ہیں اور آپ کسی موم بتی یا کسی دوسری جسمانی چیز پر توجہ نہیں دے رہے ہیں- جبکہ سوچ یا تفکر جسمانی اشیاء کے غور و فکر پر مبنی ہے جس کے تحت وہ اکثر محض روشنی سے گمراہ ہوتے ہیں جسے وہ نور الٰہی سمجھتے ہیں- اصطلاح مراقبہ کی وضاحت لغت میں رہ گئی ہے- کتابوں میں پیچیدہ اور مخفی تصورات کو واضح کرنے کے لیے حاشیہ بھی شامل ہیں- پچھلی اشاعت کی طرح، آخر میں ایک لغت شامل کی گئی ہے تاکہ قارئین کو کتاب میں استعمال ہونے والی صوفی اصطلاحات سے آگاہی حاصل ہو- صوفی ادب کی گہرائی سے تفہیم کے لیے صوفیاء کے روحانی حالات کے ساتھ ہم آہنگی ضروری ہے- مکمل سکون حاصل کرنے کے لیے نفس، قلب اور روح کی صف بندی انتہائی ضروری ہے- جہاں نفس قلب کی بالادستی کو قبول کرتا ہے- یہ صوفی طریقہ کار کی روح ہے کہ کشف عقل پر فوقیت رکھتی ہے- یہاں عقل مکمل ہو جاتی ہے اور حقیقت مطلق کی بادشاہت حاصل ہو جاتی ہے- حضرت سلطان باھُوؒ کے سامعین مدرسہ کے طلباء نہیں تھے بلکہ ان کے سامعین طلبِ الٰہی کے خواہش مند تھے جیسا کہ وہ اپنی شاعری میں کہتے ہیں:

باہجھ وصال اللہ دے باھُوؒ سبھ کہانیاں قصّے ھُو

’’تعلق باللہ (وصال) کے بغیر، باھُوؒ ، باقی کہانیاں اور قصے ہیں‘‘-

حضرت سلطان باھُوؒ اپنی کتابوں میں طالبانِ مولیٰ کو مخاطب کرتے ہیں اور ان کی کتابیں طالب مولیٰ کے لیے ہدایت ہیں-تصوف کی مشکل اصطلاحات کے معنوی ترجمہ کے لیے بڑی محنت درکار ہوتی ہے- ایم اے خان نے جس طرح مغربی قارئین کے لیے کام کیا اس میں ٹرانسلیشن کا معیار بہت عمدہ ہے- ایک سچا شخص جو انگلش جانتا ہے اور جو تصوف کی گہرائی کو جانتا ہے صرف وہی عالم اور وہ فرد ہی ایسا کر سکتا ہے، یہ ایک بہت بڑا علمی کام ہے اور خاص طور پر انگریزی ادب میں- ایم اے خان صاحب کا انوکھا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے تصوف و فقر کی حقیقت کو پانے کے لیے بذات خود حضرت سلطان باھُو کی خانقاہ پہ فقراء کے ساتھ وقت صَرف کیا ہے-

 حضرت سلطان باھُوؒ نے تقریباً 140 کتب تصنیف کر کے صوفی ادب میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں جو صوفیانہ رازوں سے مالا مال ہیں-آپؒ کی زیادہ تر کتابیں فارسی میں ہیں سوائے پنجابی شاعری کی ایک کتاب جسے ابیات باھُوؒ کہا جاتا ہے – آپؒ کی بہت کم کتابیں ابھی تک انگریزی قارئین کیلئے دستیاب ہیں- جدید دنیا نے ابھی تک سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ کی تصانیف، فلسفیانہ نظریات اور تدریس کے بارے میں چند کتابوں کے علاوہ زیادہ تحقیق نہیں کی ہے- اس لیے پبلشر کی جانب سے اس قیمتی خزانے کا جدید زبانوں میں ترجمہ کرنے کا بڑا اقدام اٹھایا گیا ہے- اسلامو فوبیا اوراسلام مخالف منفی پروپیگنڈے جیسے نظریات سے نبردآزماء ہونےاور جدید دنیا کو صوفیانہ تعلیمات سے متعارف کرانے کیلئے یہ عمل مستقبل میں بھی جاری رہنا چاہیے- اس کے علاوہ، ایسےاقدام سے  نہ صرف انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے میں مدد ملے گی بلکہ جدید معاشروں میں امن، رواداری اور بھائی چارے کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر