عبادت کا حقیقی مفہوم فکرِ حضرت سلطان باھوؒ کی روشنی میں

عبادت کا حقیقی مفہوم فکرِ حضرت سلطان باھوؒ کی روشنی میں

عبادت کا حقیقی مفہوم فکرِ حضرت سلطان باھوؒ کی روشنی میں

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز جولائی 2021

اللہ ربّ العزت نے انسان کو عبث و بے مقصد تخلیق نہیں فرمایا بلکہ اُسے عظمت و تکریم کا درجہ دے کر اشرف المخلوق اور اپنے نائب کی حیثیت سے دنیا میں بھیجا  تاکہ وہ اپنے انسانی کمالات و اوصاف کا جہانِ فانی و عارضی میں مشاہدہ و پریکٹیکل کرے ،خدا کی نشانیوں میں فکر و تدبر کرتے ہوئے یہ حقیقت جاننے کی سعی کرے کہ ارض و سماء کی تمام نعمتیں انسان کیلئے تخلیق کی گئی ہیں لیکن انسان کی تخلیق کا مقصد کل مخلوقات و موجودات سے بر تر ہے جو فقظ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی اور اطاعت و محبت سے عبارت ہے -[1]اس عظیم مقصد کی تبلیغ کیلئے بتقاضائے وقت ہر اُمّت میں انبیا ء و رُسل ؑ جیسی برگزیدہ ہستیاں کائنات میں مبعوث کی گئیں جو وحی خداوندی کے تحت انسان کو توحیدِ الٰہی کی دعوت دیتی رہیں اور شعورِ انسانی میں یہ عقیدہ راسخ کیا کہ معبود برحق صرف خالقِ کائنات حیُّ قیّوم کی ذات مُطلق ہے جسے ہر عظمت اور سروری زیبا ہے اسی کی عبادت کرو اور نفس و شیطان کی ہر گز پیروی نہ کرو[2] تاکہ ہمہ تن تقاضائے عبدیت کا حق ادا کیا جا سکے-ابولبشر سیدنا آدم ؑ سے لے کر خاتم المرسلین (ﷺ)   تک توحیدِ الٰہی کے پیغام کی ترویج کا یہ سلسلہ یونہی پیہم چلتا رہا- بابِ نبوت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوا تو انسانیت کی فلاح و اصلاح اور توحیدِ حق کےپرچار کی یہ عظیم ڈیوٹی اصحاب عظّام، آئمہ و مجتہدین،  سلف صالحین اور اولیائے کرام کو سونپی گئی جن کی تعلیمات قرآن کریم و سنتِ نبوی (ﷺ) کی روح کے مطابق خلق خدا کی صحیح سمت (صراطِ مستقیم) کی جانب راہنمائی کرتی اور انسان کو خدا کا حقیقی بندہ بننے کا عملی درس دیتی ہیں-یہ تعلیمات اپنی روح میں لافانی اور مقصدیت میں آفاقی نوعیت کی ہیں جو دینِ مبین کے ہر پہلو کا مفصّل احاطہ کرتی ہیں -

یہ مسلمّہ حقیقت ہے کہ تمام ادیانِ عالم کی طرح اسلام میں بھی عقائد کےبعد عبادات کو اوّلین حیثیت حاصل ہے جن پر دینِ اسلام کی عمارت قائم ہے اور جو ہر مسلمان مومن کے ایمان کی اساس ہے-اسلام میں عبادت کا وسیع مقام و مفہوم ہے جس کے بیان کیلئے دفتر کے دفتر قلیل ہیں-

عبادت بندے اور خدا کے مابین تعلق کا بنیادی سبب ہے اور یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی گہرائی اور لطافتوں سے آشنائی کیلئے کمالِ علم و دانش کے ساتھ ساتھ خود حقیقی بندگی میں بھی پختہ اور عالی مرتبت ہونا پڑتا ہے- جس سے عبدیت کے تقاضوں میں ابہام باقی نہیں رہتا اور بندہ درجہ بدرجہ بندگی ٔخدا میں کامل ہوتا چلا جاتا ہے-

عبادت و بندگی کی تعریف :

ماہرینِ لغت اور اہلِ علم و دانش نے عبادت کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں :

v     عبادت کے لفظ کی اصل وہی ہے جوعبد (بندہ، غلام) کی ہے -اس کا ترجمہ ’’بندگی کرنا‘‘ اور’’بندہ بننا‘‘کے طور پر کیا جاسکتا ہے-اللہ تعالیٰ کی عبادت کا مطلب ہے اس کی بندگی کرنا اور اس کے کہے پر چلنا ،اس کا حکم بجالانا -[3]

v     علامہ جوہری نے’’الصحاح‘‘میں لکھا ہے: عبودیت کی اصل خضوع اور ذلت ہے، عبادت کا معنی ہے:اطاعت کرنا اور تعبد کا معنی ہے : تنسک (فرمانبرداری کرنا )-[4]

v     علامہ ابنِ منظور افریقی لکھتے ہیں: لغت میں عبادت کا معنی ہے خضوع(تواضع اور عاجزی ) کے ساتھ اطاعت کرنا -[5]

اکابر مفسرین و آئمہ کرام نے ’’اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ‘‘کی تفسیر میں عبادت کی تعریف کیلئے ’’غایت الخضوع و التذلل‘‘ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں- چند اقوال ملاحظہ ہوں :

تفسیر الخازن میں لکھا ہے کہ:

’’عبادت کا معنیٰ ہے: اپنے آپ کو انتہائی عاجزی کے ساتھ جھکا دینا اور مکمل طور پر پست کردینا-بندہ کو عبد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنے مولیٰ کے آگے بچھا ہوتا ہے اور اسی کا فرمانبردار ہوتا ہے-بعض علماء فرماتے ہیں کہ اللہ عزو جل کی تعظیم کی خاطر جس فعل کے ذریعے فرض کو ادا کیا جائے وہ عبادت ہے-لہذا جب کوئی بندہ ’’ایاک نعبد‘‘ کہتا ہے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے میں تیری ذات کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتا‘‘-

امام فخرالدین الرازیؒ لکھتے ہیں :

’’عبادت، عاجزی اور انکساری کی بلند ترین کیفیت سے عبارت ہے‘‘-[6]

محی السنۃ امام بغویؒ لکھتے ہیں :

’’عبادت عاجزی اور انکساری کے ساتھ اطاعت بجا لانے کا نام ہے‘‘-[7]

اما م ابنِ کثیرؒ نے لکھا ہے کہ:

’’شریعت کی رو سے عبادت محبت و تعظیم اور خوف کی انتہائی حالتوں کا مجموعہ ہے ‘‘-[8]

اسی طرح امام راغب اصفہانیؒ بیان کرتے ہیں کہ:

’’عبودیت(بندگی) سے مراد عاجزی اور انکساری کا اظہار ہے لیکن عبادت کا درجہ اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ عبادت عاجزی کی انتہائی کیفیت کا نام ہے‘‘-[9]

عبادت فقط کسی ایک عمل تک محدوود یا مشروط نہیں ہے[10]  بلکہ اس میں تما م قولی، فعلی، جسمانی اور روحانی پہلو شامل ہیں-وسیع معنوں میں بات کریں تو ہر عمل اورقول و فعل جو رضائے الٰہی و خوشنودی الٰہی کا سبب بنے وہ عبادت کے زمرے میں آتا ہے- محبت و اتباع رسول اللہ (ﷺ) میں اخلاص،خلقِ خدا کی خدمت،انسانیت کا احترام، بندگانِ خدا پر شفقت، والدین سے حسنِ سلوک، الغرض تمام حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بطریقِ احسن انجام دہی عبادت ہی کا حصہ ہے -

عبادت کی اقسام بیان کرتے ہوئے مفتی احمد یار خان نعیمی رقم طراز ہیں:

’’عبادت بہت سی قسم کی ہے-نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ بلکہ یوں سمجھو کہ جو جائز کام بھی رب کو راضی کرنے کی نیت سے کیا جائے وہ عبادت ہے-یہاں تک کہ آدمی رب کو راضی کرنے کیلئے اپنے بچوں کو پالے تو یہ بھی عبادت ہے اور ان میں ثواب ملتا ہے‘‘-

عبادت و بندگی کا سادہ سا مفہو م یہ ہے کہ ہر وہ کام جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) نے منع فرمایا ہے اس سے رک جانا اور بارگاہِ الٰہی و بارگاہِ محبوب مصطفےٰ (ﷺ) جو کام کرنے کا حکم ہودل و جان سے اس پر عمل کرنا -باالفاظِ دیگر ’’اطیعو اللہ و اطیعوالرسول‘‘کے عین مطابق خود کوعملا ً ڈھال لینا عبادت ہے -

قرآن مجید اور احادیث نبوی () میں عبادت کی تلقین:

قرآن حکیم اصو ل دین کا بنیادی مآخذ ہے جس میں ہدایت کا لاریب راستہ موجود ہے اور جو حیات انسانی کے ہر پہلو میں کامل رہنمائی کی طرح عقائد و عبادات کا بھی بحرِ بے پایاں ہے -اسی طرح حضور نبی مکرّم (ﷺ) کی ذات گرامی کو کائنات میں رضائے الٰہی کا سب سے بڑا وسیلہ اور منہج بنا کر مبعوث فرماگیا ہے جن کی سیرت طیبہ سے عبادت و بندگی کے ایسے اصولی زاویے متعین ہوتے ہیں جن سے روحِ عبادت تک رسائی نصیب ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ (ﷺ) کی ذات بابرکات ہر مسلمان کیلئے عبادت اور اطاعت و اتباعِ الٰہی کے افضل نمونہ کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے جو کثرت عبادت میں تمام عابدین،  زاہدین اور متقین سے بڑھ کر ہے بلکہ یہ صرف خاصہ خاصان رُسل (ﷺ) ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اتباع کو آپ (ﷺ) کی اتباع سے مشروط کر دیا (سورۃ العمران میں صریحاً مذکور ہے) جس سے ثابت ہو ا کہ عبادتِ الٰہی میں اس وقت تک اوج کمال تک رسائی ممکن ہی نہیں جب تک خود کو اتباعِ رسول (ﷺ) میں خالص و پختہ نہ کیا جائے -آقا پاک (ﷺ) عبادت الٰہی میں کاملیت و ذوق کے اس مقام پر فائز ہیں (جس سے عبادت کی اہمیت و حقانیت کا بھی درس ملتا ہے) کہ مقامِ محبوبیت پر پہنچ کر بھی آپ (ﷺ) نے عبادت ترک نہیں فرمائی بلکہ یہ فرمانِ عالیشان لبِ قدسیہ پر آیا کہ کیا میں رب کا شکر گزار بند ہ نہ بن جاؤں؟ - تو عمل ِ مصطفےٰ (ﷺ) سے یہ نکتہ وا ہوا کہ بندہ کسی بھی حال میں حق بندگی کی حجت سے فارغ نہیں ہوسکتا کیونکہ عبادت و بندگی کے سفر میں اس قدر حقیقی وروحانی لطف و سرور ہے کہ آدمی عبادت سے کبھی دستبردار نہ ہو- [11]

عبادت و بندگی کی اہمیت و ضرورت اور تلقین سے متعلق چند آیاتِ مبارکہ اور ارشاداتِ نبوی(ﷺ) برکت کیلئے نقل کردیے ہیں:

” اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو،جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، اس امید پر کہ تم متقی (پر ہیز گار) بن جاؤ“ -[12]

”بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں تو آپ میری عبادت کیجئے اور میری یاد کیلئے نماز قائم کیجئے “ -[13]

”اے ایمان والو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اوراپنے رب کی عبادت کرو اور نیکی کے کام کرو تاکہ تم کامیاب ہو“ -[14]

1-حضرت معاذؓ ایک روایت میں بیان کرتے ہیں:

’’میں حضور نبی کریم(ﷺ) کے پیچھے عفیر نامی دراز گوش پر سوار تھا کہ آپ(ﷺ) نے فرمایا : اے معاذ کیا تمہیں معلوم ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا کیا حق ہے ؟ میں نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول (ﷺ) بہتر جانتے ہیں-آپ (ﷺ) نے فرمایا: بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جو شخص شرک نہ کرے وہ اسے عذاب نہ دے‘‘-[15]

2-حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ:

’’جب رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا: تم ایسی قوم کی طرف جارہے ہو جو اہلِ کتاب ہیں-پس سب سے پہلے انہیں حق عبادت کی دعوت دینا جب انہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت ہوجائے تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے روزانہ دن رات میں ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں‘‘-[16]

3-حضرت ابو امامہ ؓ ایک روایت میں بیان کرتے ہیں کہ:

’’رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایاجو نوجوان بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پروان چڑھتا ہے یہاں تک کہ اسے موت آجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ننانوے صدیقین کا ثواب عطا فرماتا ہے‘‘-[17]

عبادت و بندگی کا صوفیانہ اسلوب اور نقطہ نظر :

صوفیائے کاملین نے بندے اور خدا کے مابین تعلق (اطاعت و بندگی) کے کئی تصورات، جہات اور اسالیب پر بات کی ہےجس کا تما م تر مآخذ اور ستنباط و استدلال قرآن کریم اورسیرتِ تاجدارِ انبیاء (ﷺ) ہے- [18]صوفیائے کرام کے نزدیک تمام عبادات و ریاضات کا مقصود اور محرک خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا، معرفت اور محّبت الٰہی ہے- یہی تصوف و روحانیت کا نصب العین اور صوفیاء کا طریقِ تربیت ہے کہ ہر اس شئے سے دامن بچا کے رکھا جائے جس کی خواہش و جستجو انسان جیسی اشرف مخلوق کو زیبا نہیں اور جو عبادت کی روح (ذاتِ حق ) کے حصول میں طالب و سالک کیلئے حجاب بن کر اس کی نظریں دنیا و مافیہا،عقبیٰ کی نعمتوں، حور و قصور کے فریب، حصولِ جنت اور عذابِ دوزخ سے نجات تک محدود کر دے-طالبان دنیا و عقبیٰ کی عبادت کا مقصودِ واحد یہی ہوتا ہے کہ عاقبت سنور جائے اور جنت مل جائے بس ،جبکہ اس کے برعکس اہل اللہ و عشّاقِ باری تعالیٰ صرف رضائے الٰہی کیلئے عبادت کرتے ہیں کیونکہ وہ صرف حقیقتِ مطلق کے دیدار کی طلب و جستجو کرتے ہیں اس لیے انہیں نہ جنت کی طمع ہوتی اور نہ جہنم کا خوف کیونکہ ان کے نزدیک ’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس ‘‘[19] ہے اور وہ محض حصولِ جنت کیلئے کی گئی عبادت کوسودا گری میں شمار کرتے ہیں-

حضرت مفتی احمد یار خان نعیمیؒ (صاحبِ تفسیرِ نعیمی) نے ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے اس لطیف پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے کہ :

’’صوفیاء کرام کے نزدیک وہی عبادت کامل ہے جس میں فقط اللہ کو راضی کرنا منظور ہو اگر جنت لینے کیلئے یا دوزخ سے بچنے کیلئے عبادت کی جائے تو وہ عبادت کیا ہوئی ایک قسم کا بیوپار ہوا،اس لئے فرمایا کہ اے اللہ تیری ہی عبادت کرتے ہیں یعنی ہماری عبادت سے مقصود صرف تیری ذات ہے-اسی وجہ سے نماز کی نیت میں کہا جاتا ہے کہ واسطے اللہ کے- یہ نہیں کہتے کہ واسطے جنت کے یا واسطے جہنم سے بچنے کے نیز جو شخص جنت کے حاصل کرنے یا دوزخ سے بچنے کیلئے عبادت کرتا ہے وہ اپنی عبادت کا نتیجہ قیامت سے پہلے نہیں دیکھ سکتا کیونکہ جنت و دوزخ کا معاملہ قیامت کے بعد ہے لیکن جو صرف رب کی رضا کیلئے کرتا ہے اس کا مقصد آج ہی سے حاصل ہو گیا-لہٰذا یہ نفع میں رہا‘‘-

اسی طرح صوفیاء کرام جب تعلق باللہ اور تعلق بالرسول (ﷺ) کا درس دیتے ہیں تو ان کی مراد یہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور معرفت کیلئے عبادت کی جائے اور اتباعِ رسول (ﷺ) کو اپنی زندگی کا اوّلین مقصد بنایا جائے جن کی ذات گرامی اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ جلیلہ ہے-

اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلطان العارفین ؒ اپنے پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں :

سچا راہ محمد(ﷺ) والا باھو، جیں وچ رب لبھیوے ھو

فکرِ حضرت سلطان باھوؒ میں عبادت کا تصور

سُلطان العارفین بُرہان الواصلین، مُراد الطالبین و لِسان العاشقین حضرت سلطان باھوؒ کے تعارف کیلئے اتنا بیان کرنا کافی ہے کہ دنیا آپؒ کو ’’باھو‘‘کے نام سے جانتی ہے یعنی ہمہ وقت معیتِ خدا اور قرب و صالِ الٰہی میں فنا اور دائم بندگی مولا میں رہنے والا-[20] فقر و عرفان اور تصوف و روحانیت کے جہان غِنا میں ’’ھو‘‘کے چرچے زبان زدِ عام ہیں اور ’’ھو‘‘کے انوار و تجلیات سے انسانیت کے قلوب و ارواح میں معرفتِ الٰہی کی جانب رغبت و شوق کا دیا جلایا جاتا ہےجس کی آتشِ سوزاں کی جانب ہر وہ شخص کھینچا چلا آتا ہے جسے پیغام مصطفےٰ (ﷺ) سے نسبتِ روحانی اور عشقِ الٰہی میں سر کٹانے کا شوق جاودانی ہو -

حضرت سلطان باھوؒ نے اپنی کتب میں قرآن مجید اور سنت سرور کونین (ﷺ) کی روشنی میں فلسفہ عبادت[21] کو کئی ابعاد سے جوڑ عبادت کے حقیقی مفہوم و مقصود کا نکتہ سمجھایا ہے کہ عبادت کیوں کی جائے؟ کیا فقط جنت کے حصول اور جہنم کی آگ کا ایندھن بننے سے بچنے کیلئے یا پھر کچھ اور؟ عبادت میں بنائے اسلام (کلمہ،نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ) کی عملی ضرورت کیا ہے؟ کیا فقط اعمالِ ظاہر(شریعت ) پر عمل پیرا ہو کر عبادت کے مغز تک پہنچنا ممکن ہے جب تک شریعت کے باطن تک رسائی حاصل نہ ہو؟ کیا عبدیت کے تقاضوں میں ذات حق کی طلب کے علاوہ کوئی گنجائش باقی رہتی ہے؟ بندۂ نفس و ہوا کو خدا کا بندہ بننے کیلئے کیا عمل اختیار کرنا چاہیے؟ حقیقی عبادت میں زہد و تقویٰ کہاں کھڑا ہے؟ نیز ظاہری و باطنی تقویٰ میں کیا فرق ہے؟ عبادت میں سوداگری اور ریا کاری کی بھرپور نفی کا عمل کیوں ضروری ہے؟ کیا بندے اور خدا کے مابین تعلق میں کسی تیسری چیز کا امکان باقی ہے؟ عبادت میں وحدانیت کے ژرف بیں تک پہنچنے کیلئے یقین کا معیار و مرتبہ کیا ہونا چاہئے؟ ان سوالات کے جوابات فکرِ حضرت سلطان باھوؒ کے بحر عمیق میں غوطہ زنی کرنے سے نصیب ہوتے ہیں -

ذیل میں کُتبِ حضرت سلطان باھوؒ سے عبادت کی حقیقت اور تفہیم سے متعلق بحث کی گئی ہے:

 1 -انسان کیوں پیدا کیا گیا ہے؟

یہ سوال صدیوں سے مذہب، فلسفہ اور تخلیقیت (Creationism)کی بحث کا حصہ رہا ہے جس پر مفکرین اور دانشوروں کی اپنی اپروچ اور نکتہ نظر ہے-صوفیاء و اہلِ اللہ نے مذکورہ سوال کا جواب اپنے روحانی تجربات و مشاہدات کی بنا پر دیا ہے جو عبادت و بندگی کی ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفتِ کاملہ کا حصول ہے -

حضرت سلطان باھوؒ ارشاد فرماتے ہیں :

’’یاد رکھ کہ انسان کو عبادت و آزمائش کیلئے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ نفس پروری اور دنیوی لذّات و آسائش کیلئے اور نہ ہی حصولِ روزی معاش، عیش و عشرت اور کھانے پینے کیلئے پیدا کیا گیا ہے -اس ہوس کو دل سے نکال د ے ،یہ شیطانی حجت و حیلہ ہے اِسے چھوڑ دے اور اپنا رُخ معرفتِ مولیٰ کی طرف کر لے ‘‘-[22]

یہاں آپؒ نے ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے جو نفسانی خواہشات و لذّاتِ دنیا میں الجھ کر عبادتِ الٰہی کو ترک کربیٹھتے ہیں- ایسے لوگوں کو قرآن کریم بھی ’’خٰسِرُوْنَ‘‘ ( نقصان اٹھانے والے) کَہ کر پکار تا ہے-

آپؒ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

’’بندے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت و معرفت و شناخت کیلئے پیدا کیا ہے- فرمانِ الٰہی ہے: ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت (یعنی معرفت و پہچان) کیلئے پیدا کیا ہے‘‘- [23]

انسان کب تک حقِ بندگی کی حجت سے فارغ نہیں ہوتا؟

انسان حقِ بندگی کی حجت سے اُس وقت تک فارغ نہیں ہوتا جب تک کہ کوئی اسے دریائے معرفت توحید کے نورِ حضور میں غرق کرکے اِستغراقِ فنا فی اللہ خاص نہیں بخش دیتا‘‘-

2-بے بندگی شرمندگی:

دائمی بندگی اختیار کرنی چاہیے جس سے معرفتِ حق تعالیٰ نصیب ہو:

’’بندے کوچاہیے کہ بندگی میں رہے کہ بے بندگی زندگی شرمندگی ہے- وہ دائم بندگی جس میں معرفتِ حق کا اتمام ہو‘‘-[24]

آپؒ ’’نور الھدیٰ‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:

’’دنیا میں تجھے چند روزہ زندگی عطا کی گئی ہے یہ زندگی دائمی بندگی کیلئے ہے اور بندگی اللہ تعالیٰ کی کامل معرفت کانام ہے‘‘-

جو انسان زندگی کا مقصد بندگی کی بجائے فقط دنیا بنا لیتا ہے وہ دونوں جہاں میں شرمندگی و ندامت اٹھاتا ہے:

’’زندگی بندگی کیلئے ہے بندگی کے بغیر زندگی شرمندگی ہے‘‘-[25]

عبادت حق سے کنارہ کشی کرنے والے جانوروں سے بھی بدتر ہیں :

’’ترکِ دنیا تمام عبادات کی جڑ ہے اور حبِ دنیا تمام برائیوں کی جڑ ہے‘‘- جو لوگ عبادتِ حق سے کنارہ کش ہو کر خطرات سے پر باطل دنیا سے اخلاص رکھتے ہیں وہ مومن مسلمان کس طرح ہوسکتے ہیں، وہ تو جانوروں سے بھی بد تر ہیں‘‘-[26]

3-یقین دانم دَریں عالم کہ لامعبود الاّھو

حضرت سلطان باھوؒ کا شاہکار فارسی دیوان (جو دیوانِ باھو کے نام سے مشہورہے) آپ کے نظریہ وحدت المقصود کا عکاس اور وحدانیت و معرفتِ حق کا فصیح اظہار ہے-مذکورہ دیوان کے وہ تمام اشعار جن کا اختتام الاّ ھو کے ردیف پر ہوتا ہے اور جن میں معبود، مقصود، موجود اورمطلوب وغیرہ کے قوافی استعمال ہوئے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، عشق و محبتِ الٰہی، مقصود بالذات اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں-

دیوانِ باھوؒ کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے :

یقیں دانم دَریں عالم کہ لا معبود اِلّا ھُو
وَ لا موجود فی الکونین لامقصود اِلّا ھُو

’’مجھے یقین ہے کہ اس کائنات میں سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کوئی بندگی کے لائق نہیں اور دونوں جہان میں کوئی بھی وجود (حقیقی) نہیں اور اُس (ذات پاک) کے سوا نہ کوئی مقصود بالذات ہے‘‘-

قرآن مجید میں بھی اکثر مقامات پر ’’الّا ھو‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کے معبودِ برحق ہونے پر دلیل ہے -

4-عبادت کیا ہے؟

حضرت سلطان باھوؒ عبادت کی تعریف اور عبادت میں مرتبہ یقین پر بحث کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’محک الفقر ‘‘میں لکھتے ہیں:

’’عبادت اُسے کہتے ہیں جس میں بندہ عین بعین غرقِ وحدانیت ہوکر تجلیاتِ نورِذات الٰہی کا مشاہدہ کر سکے‘‘-[27]

عبادت میں حق الیقین تک پہنچنا ضروری ہے:

’’عبادت وہ جو حق الیقین کے مرتبے تک پہنچائے یعنی عبادت میں اگر دورانِ رکوع وسجود ’’اللہ اکبر‘‘ کہنے پر اللہ تعالیٰ کی زبانِ قدرت سے ’’لبیک یا عبدی‘‘ (میرے بندے! میں حاضر ہوں ) کا جواب نہیں آتا تو یقین کامل والی عبادت نہیں ہے‘‘-[28]

یقین کا تعلق معرفت سے ہے:

’’عبادتِ حق مرتے دم تک کرتے رہو حتی کہ حدِ یقین تک پہنچ جاؤ کہ یقین ہی سلامتئ ایمان کی ضمانت ہے- یقین ایمان کا نوری سرمایہ ہے اور اس کا تعلق معرفتِ قربِ حضور سے ہے‘‘-[29]

آپؒ نے ایک اور مقام پر بے یقین عبادت کو کارِ شیطان فرمایا ہے:

’’عبادت توفیق ہے اور یقین رفیق ہے -یقین جان ہے اور بے یقین عبادت کا رِ شیطان ہے‘‘-[30]

یہاں ہمیں حکم قرآنی بھی سامنے رکھنا چاہیے جس کا مفہوم ہے کہ اپنے رب کی عبادت کرتے رہو یہاں تک کہ تمہیں یقین نصیب ہوجائے-

5-تمام عبادات کا مقصود کیا ہے؟

حضرت سلطان باھوؒ عبادت کا مقصود بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’یہ عبادت اللہ تعالیٰ کے فضل وعفو کرم سے نصیب ہوتی ہے جو لقائے حق کا منکر ہے وہ بت پرست ہے-ہر عبادت کا مقصود دیدارِالٰہی ہے کہ مخلوق کو پیدا ہی دیدارِ حق کیلئے کیاگیا ہے‘‘-[31]

ہر عبادت کا مقصود لقائے حق اور معرفتِ حق تعالیٰ ہے:

’’ہر عبادت وہر ثواب کا مقصود لقائے حق ہے اس لیے میں نے خدا سے علمِ لقاء کا سبق پڑھا ہے‘‘-[32]

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:

’’ہر عبادت و ہر ثواب اللہ تعالیٰ کی معرفت و بےحجاب دیدار کیلئے ہے‘‘-[33]

عبادت کے مقصود کو پانے کیلئےصحبتِ مرشد کامل کی ضروت:

تلاشِ حق اور عشقِ حقیقی کی منازل طے کرنے کیلئے بحکم قرآنی ،وسیلہ اختیار کرنا پڑتا ہے جس کیلئے راہِ تصوف و سلوک میں مرشدِ کامل کی ضرورت و رہنمائی بہرحال موجود رہی ہے- حضرت سلطان باھوؒ نے اپنی کتب میں معرفتِ حق تعالیٰ کے حصول کیلئے مرشد کامل کی صحبت سے استفاد ہ پر دلچسپ و مدلّل بحث فرمائی ہے اور آپ کے ہاں مرشد و طالب کے موضوع کو بنیادی حیثیت حاصل ہے-آپؒ لکھتے ہیں:

’’جب تک تجھے معرفتِ حق حاصل نہیں تو کسی راہبر مرشد کو تلاش کر تاکہ تو اللہ تعالیٰ کا دوست بن سکے‘‘-[34]

اسی طرح آپؒ اپنے پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:

کی ہویا جے راتی جاگیوں جے مرشد جاگ نہ لائی ھو
راتیں جاگے تے کریں عبادت ڈینہہ نندیاں کریں پرائی ھو

یعنی تیرے شب و روز کی مسلسل عبادت و ریاضت کا اس وقت تک کوئی فائد نہیں جب تک مرشدِ کامل تیرے باطن میں معرفتِ الٰہی اور حُبِ الٰہی کی جاگ نہ لگا دے- اگر ایسا نہ ہو تو آدمی ایک طرف تو عبادت کرتا ہے لیکن دوسری طرف مخلوقِ خدا کی برائی کرنے سے بھی باز نہیں آتا-(یعنی عبادت اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی کیونکہ اس کا باطن محبتِ الٰہی کی بجائے نجاست نفس میں گھر ا ہوتا ہے جس سے نجات کیلئے مرشد کامل کی صحبت و رفاقت کا فیض ضروری ہے-)

صحبتِ مرشدِ کامل کے بغیر عبادت مبتلائے رِیا و وَسوسہ کر سکتی ہے :

’’جان لے کہ صاحبِ راز مرشد کی نگرانی کےبغیر اگر کوئی ریاضت و تقویٰ،نفلی صوم وصلوٰۃ اور چلّہ کشی و خلوت میں مشغول رہتا ہے تو اس کی یہ ساری محنت محض ہوائے نفس کی تسکین کی خاطر ہوگی اور اس کی خلوت نشینی وسوسوں اور ریا سےآلودہ رہے گی کیونکہ اس کی عبادت کی بنیاد ہی کوئی نہیں ‘‘-[35]

پھر آپؒ فرماتے ہیں:

’’سالہا سال کی عبادت کے ثواب سے مرشدِ کامل کی ایک بار کی توجہ بہتر ہے ‘‘-[36]

مرشد عبودیت (بندگی) سے ربو بیت (الوہیت ) کا مشاہدہ کرواتا ہے:

’’ہر مومن مسلمان عالم فاضل کا ابتدائی مرتبہ ’’عبودیت‘‘ ہے مرشدِ کامل ’’عبودیت‘‘ سے معرفتِ الٰہی کھول کر ربوبیت کا مشاہدہ کراتا ہے‘‘-[37]

6- قرآن کریم کی تلاوت بھی ذکر اللہ کی عبادت اور معرفت الٰہی کا ذریعہ ہے

حضرت سلطان باھو (﷫) نے اپنی تمام کتب میں عظمت قرآن،عشقِ قرآن اور قرآن کریم کے باطنی اسرار و رموز پر روشنی ڈالی ہے جن کی تفسیر علمائے ظاہر کی کتب میں خال خال دیکھنے کو ملتی ہے- آپؒ کے نزدیک قرآن کریم بھی ذکر اللہ کی ہی عبادت اور قرب ومعرفت کاذریعہ ہے -

’’افضل ترین عبادت تلاوت قرآن ہےکہ یہ ذکر اللہ کی وہ عبادت ہےجس کا تعلق سعادت سے ہے کیونکہ ذکر اللہ  قدیم ترین عبادت ہے‘‘-[38]

اسی طرح آپؒ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

’’قرآن کریم کا علم ہی قرب و معرفت کا علم ہے ‘‘-[39]

قرآن مجید قرب و معرفت الٰہی کی دلیل ہے:

’’قرآن کا ہر مرتبہ و ہر مقام قربِ معرفت و مشرفِ دیدارِ رحمن پر دلالت کرتا ہے‘‘-[40]

7- عبادت و طاعت میں دم کی غفلت بھی کفر ہے :

انسانی زندگی کا دارو مدار  سانس (دم) پر ہے اور یہ دم ہی ہے جس کی اہمیت تمام صوفیاء نے اپنی تعلیمات میں بیان کی ہے-حضرت سلطان باھوؒ دم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’تلاوتِ قرآن اور جملہ ظاہری عبادات اگر چھوٹ جائیں تو ان کی قضا ممکن ہے لیکن دم کی قضا ممکن نہیں- بیت:دم کی نگہبانی کر کہ دم ایک پورا جہان ہے،داناؤں کے نزدیک (تصورِ اسم اللہ میں گزرا ہوا) ایک دم جہان بھر سے افضل ہے‘‘-[41]

اسی طرح آپ اپنے پنجابی ابیات میں ایک پل بھی یادِ الٰہی سے غافل ہونے کو کفر سے تعبیر کرتے ہیں:

جو دم غافل سو دم کا فر سانوں مرشد ایہہ فرمایا ھو

لیکن اس کے ساتھ آپؒ نے دم کو اللہ کی یاد میں محو رکھنے (قید لگانا ) کا طریقہ بھی تجویز فرمایا ہے کہ آدمی ذکر اللہ (تصور اسم اللہ ذات ) سے اپنے دم کو غافل ہونے سے بچا سکتا ہے- آپؒ فرماتے ہیں:

نال تصور اسم اللہ دے دم نوں قید لگائیں ھو

اصل زندگی اور اصل بندگی ہی یہ ہے کہ ہر سانس اللہ تعالیٰ کےذکر اور یاد میں گزرے-جیساکہ آپؒ لکھتے ہیں:

’’دنیا ایک ساعت ہے بلکہ ایک دم ہے اور بہتر دم وہ ہے جو طاعتِ الٰہی میں گزرے‘‘- حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا فرمان ہے:دنیا ایک ساعت ہے جس میں ہم پر طاعت فرض ہے ‘‘-[42]

آپؒ ایک اور مقام پر لکھتےہیں:

’’جان لے کہ آخرت کی کھیتی دنیا کی وہ زندگی ہے جو عبادتِ الٰہی میں گزرے اورزندہ دم وہ ہے جو ذکرِ الٰہی میں گزرے‘‘-[43]

8-عبادت میں دکھلاوا، ر یا کاری کی مذمت

دینِ اسلام کی تعلیمات میں بالعموم (کسی بھی معاملے میں) اور تصوف میں بالخصوص ریا کاری کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے کیونکہ یہاں تو معاملہ ہی باطن کا ہے،جہاں ریا کی ہوا تک لگ جائے تو اعمال کالعدم ہو جاتے ہیں- صوفیائے کرام نے عبادت الٰہی میں ریاکاری اور دکھلاوے کو سخت نا پسند فرمایا ہے کیونکہ یہ عمل انسان کو مخلوق کی نظر میں تو معتبر و پارسا بنا سکتا ہے لیکن ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے قرب و معرفت سے دور نامراد ہی رہتا ہے- حضرت سلطان باھوؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’طاعت بے ریا ہونی چاہیے کہ باریا طاعت حجاب اکبر ہے جو اہلِ طاعت کو قربِ خدا سے دُور کردیتی ہے ‘‘-[44]

اس طرح آپؒ ریاضت عام اور ریاضت (اطاعت) خاص میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ریاضت بھی دو قسم کی ہوتی ہے- (1) ریاضتِ عام: بعض لوگوں کی ریاضت ریا پر مبنی ہوتی ہے جو سراسر تسکینِ ہوائے نفس، رجوعاتِ خلق اور ننگ و ناموس کی خاطر کی جاتی ہے-(2) ریاضتِ خاص جو ظاہر و باطن میں محض رضائے الٰہی کی خاطر کی جاتی ہے یہ راز توحید کی ریاضت ہے ‘‘-[45]

پتہ چلا کہ اصل عبادت و ریاضت معرفت و رضائے الٰہی کی خاطر ہے نہ کہ اپنی پارسائی کا ڈھنڈورا پیٹ کر نفس کی تسکین اور مخلوق کو اپنی طرف Attract کرنے کیلئے جوسراسر بے سود ہے-

9- فقظ ظاہری عبادات پر اکتفا کرنا اور باطنی ریاضت پر توجہ نہ دینا کیسا ہے؟

ظاہر و باطن کبھی باہم جدا نہیں ہو سکتے، یہ اسلامی تصوف کا اساسی نظریہ ہے -اسی لئے اگر کوئی آدمی فقظ ظاہر اختیار کرتا ہے لیکن باطن کو ترک کر دیتا ہے تو وہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا -حضرت سلطان باھوؒ نے بھی اپنی تعلیمات میں ظاہر و باطن دونوں کی اہمیت پر زوردیا ہے اور عبادات میں بھی اس پہلو پر بھر پور فوکس فرمایا ہے-آپؒ عقلِ   بیدار میں لکھتے ہیں:

’’تُو دیکھے کہ جب کوئی آدمی ظاہری عبادت میں بے حد محنت کرتا ہے لیکن باطن میں معرفتِ الٰہی سے بے خبر ہے تو جان لے کہ وہ کشف و کرامات کے بادیئہ ضلالت میں غرق ہوکر لوگوں کی مرادیں پوری کررہا ہے-وہ خواص کے مراتب سے محروم و بے خبر ہے‘‘-[46]

پھر آپؒ فرماتے ہیں:

’’ظاہری عبادت کے لیے باطنی ہوشیاری سعادت ہے، راہِ غفلت دیوانگی ہے جو سراسر گناہ ہے‘‘-[47]

صرف بدنی اعمال ( جسمانی و ظاہری عبادت ) کی کثرت سے دل کو پاکیزگی اور معرفت نصیب نہیں ہوتی:

’’یاد رہے کہ اگر کوئی آدمی ساری عمر عبادت کرتے کرتے کبڑا ہوجائے اور اپنی کمر کو دُہرا کر بیٹھے یا ریاضتِ خلوت کی کثرت اور بے شمار چلہ کشی سے سوکھ کر بال کی طرح باریک ہوجائے یا گنا ہوں کے خوف سے رات دن آہ زاری کی آگ میں خشک ایندھن کی طرح جلتا رہے تو یہ بھی مراتب اسے قربِ خدا کی معرفت سے باز رکھتے ہیں کہ یہ سب اعضائے بدن کے ظاہری اعمال ہیں جن سے دل پاک نہیں ہوتا‘‘-[48]

باطن کو ترک کر کے محض ظاہری عبادت میں مشغول رہنے والے کو نفس و شیطان خراب کرتے ہیں :

’’جس وقت آدمی ظاہری عبادت و ریاضت میں مشغول ہوتا ہے تو نفس و شیطان اس پر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تجھے راہِ باطن میں راہِ باطن میں وسوسہ و خطرات و حُبِّ دنیا اور طمع و حرص و حسد و نفاق و کبر وہو ا میں اُلجھا کر خراب کریں گے‘‘-[49]

باطنی ریاضت(عبادت و اطاعت) سے کیا ہوتا ہے؟

’’جب آدمی باطنی ریاضت کرتا ہے اور اس کے وجود میں معرفتِ الٰہی کا آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس کا نفسِ امّارہ خراب ہو جاتا ہے، اس کی روح زندہ ہوجاتی،نفسِ ملہمہ صدق پکڑتا ہے،نفسِ لوامہ جمعیت پکڑتا ہے اور نفسِ  مطمئنہ عبادت پذیر ہوجاتا ہے‘‘-[50]

انسان کی تعریف کیا ہے؟

’’انسان وہ ہے جو بظاہر عبودیت(بندگی) میں مشغول رہے اور بباطن چشمِ دل کے ساتھ نورِ معرفتِ الٰہی اور حضورئ ربوبیت کے مشاہدے میں غرق رہے کہ عبودیت کا تعلق نمازِ ظاہر کی آواز سے ہے اور ربوبیت کا تعلق چشمِ دل کے ساتھ مشاہدہ ء رازِ حضوری سے ہے-عبودیت اور ربوبیت ایک مومن سالک و عارف کے دو بال  و  پر ہیں ‘‘-[51]

معرفت الٰہی کا تعلق عبادت کے مغز(باطن )سے ہے نہ کہ چھلکے(فقط ظاہر) سے:

’’پر عافیت عاقبت کا دارومدار رضائے الٰہی پر ہے جس کیلئے معرفتِ الٰہی کی ضرورت ہے اور معرفتِ الٰہی کا تعلق عبادت کے مغز سے ہے نہ کہ چھلکے سے‘‘-[52]

10-حقیقی نماز

ہر عبادت کسی نہ کسی طرح اللہ تعالیٰ کی یاد اور معرفت کا وسیلہ ہے-تمام صوفیائے کرام اور سلف صالحین کے نزدیک عبادات میں سے دین اسلام کا اہم رکن جسے دین کا ستون بھی کہا گیا ہے یعنی نماز، بندے کو رب سے جوڑنے کاانمول ذریعہ ہے -بلکہ حدیث مبارکہ میں نماز کو مومنین کیلئے معراج کہا گیا ہے -حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

’’نماز کے کیا معنی ہیں؟ نماز روزِ ازل سے اللہ تعالیٰ کے فیض و رحمت سے معراجِ ربّانی کی حضوری ہے‘‘-[53]

نماز کیلئے حضورئ قلب شرط ہے:

حجتہ الاسلام امام ابوحامد محمد الغزالیؒ نے’’کیمیائے سعادت‘‘ میں حضرت حسن بصریؒ کا قول نقل کیا ہے کہ جس نماز میں حضورِ قلب نہ ہو وہ عذاب کے بہت نزدیک ہے- سلطان العارفینؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’جس نمازی کا نفس و قلب و روح سب نور ہوجائے اس اہلِ نور کی نماز حضوری کی نماز ہوتی ہے-نماز معراج ہے کہ اس میں دیدارِ خدا ہے-عارفوں کو نماز میں دائم لقائے خدا وندی نصیب ہوتا ہے‘‘-[54]

اصل نماز اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر سجدہ کرناہے:

’’بیت:نماز وہ ہے کہ سرسجدہ میں جائے تو خدا نظر آئے-جس سجدہ میں خدا نظرنہ آئے وہ سجدہ کہاں روا ہے؟‘‘[55]

حدیث جبریل میں مرتبہ احسان کی تعریف بھی یہی کی گئی ہے کہ:

’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو کیونکہ اگر چہ تم اسے نہیں دیکھتے لیکن وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے‘‘-

لیکن فی الحقیقت ایسی نماز صرف خواص (اہل اللہ) ہی پڑھتے ہیں جبکہ عوام اس مرتبہ سے ناآشنا ہوتے ہیں کیونکہ وہ صرف جسم سے عبادت کرتے ہیں-

’’مخلو ق کسبِ تن سے عبادت کرتی ہے اور عارف ترک تن سے عبادت کرتے ہیں ‘‘-[56]

کسی نے خوب فرمایا ہے:

نمازِ زاہداں سجدہ سجود است
نمازِ عاشقاں ترکِ وجود است

خواص کو نماز میں دیدارِ انوار نصیب ہوتا ہے:

’’خواص کی نماز مشرف بہ دیدار ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے رو برو ہو کر دائم سجودِراز کرتے ہیں جب کہ عوام کی نماز محض رسم رسوم بہ سجدۂ آواز ہوتی ہے؟‘‘ [57]

خواص کی نماز کے متعلق حضرت سلطان باھوؒ اپنے پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں :

جیبھ نہ ہلے تے ہوٹھ نہ پھڑ کن باھو خاص نمازی سوئی ھو

11-وقتی فرض اور دائمی فرض:

نماز وقتی فرض و واجب و سنت و مستحب  پر مشتمل ایک وقتِ مقررہ میں سر انجام دی جانے والی عبادت ہے جو کہ اگر وقت سے رہ جائے تو اس کی قضا لوٹائی جا سکتی ہے- لیکن نمازِ دائمی ایسی عبادت ہے جو ظاہر کے پابندِ شریعت ہونے کے بعد باطن میں ہر لمحہ و ہر لحظہ ذِکرِ الٰہی میں مشغول ہونے کا نام ہے جو کہ ہر سانس سے ہر وقت کرنی ہے -اگر ایک سانس بھی قضا ہو گئی تو اس قضا کو لوٹایا نہیں جا سکتا -اس قسم کی نماز صرف اہلِ دل ہی پڑھتے ہیں-

’’ جو شخص چاہتا ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ کی دوستی نصیب ہو جائے تو اُسے چاہیے کہ ہر وقت نمازِ دائمی  (تصورِ اسم اللہ)  میں مشغول رہے‘‘-[58]

حضرت سلطان باھوؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’جان لے کہ فرض دو قسم کا ہے،ایک فرض وقتی اور دوسرافرض دائمی-فرضِ وقتی نمازو روزہ و حج و زکوٰۃ ہے اور فرضِ دائمی ذکراللہ و مشاہدہ معرفت الٰہی ہے -فرضِ دائمی کو غالب رکھ اور فرضِ وقتی کی نگہبانی کراور اُس کی ادائیگی کیلئے ایک وقت سے دوسرے وقت تک انتظار کر-ذکر اللہ کا راز نماز میں ہے نماز کے بغیر ذکراللہ کو راز نہیں کہا جاسکتا کہ نماز کے بغیر ذکر اللہ محض اور وقت و عمر گرانمایہ کی بربادی و ضیاع ہے‘‘-[59]

آپؒ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

’’وقتی فرض نمازِ پنجگانہ ہے اور دائمی فرض زبانِ دل سے ذکرا للہ میں محو رہنا ہے‘‘-[60]

اگر ہم دیکھیں تو حقیقت میں نماز ذکر اللہ کیلئے ہے جیسے قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ:

’’وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ لِذِكْرِىٓ‘‘

’’اور نماز قائم کرو میری یاد کے لئے‘‘-

عارفین ہر دم نماز میں مشغول رہتے ہیں:

’’یاد رکھیے کہ عارفوں کا ہرد م نماز میں مشغول ہوتا ہے، ان کا دل بھی ہر وقت نمازمیں مشغول ہوتا ہے اور ان کی روح بھی ہر وقت نماز میں مشغول ہوتی ہے‘‘-[61]

قبولیت کیلئے وقتی اور دائمی فرض کا جمع ہونا ضروری ہے:

’’حدیث شریف میں آیاہے: جو دائمی فرائض ادا نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس کے وقتی فرائض قبول نہیں کرتا -ایک فرض ظاہر ہے اور ایک فرضِ باطن ہے ،جب یہ دونوں جمع ہوجائے تو مراتبِ قبولیت تک پہنچ جاتے ہیں‘‘-[62]

فرضِ دائمی کا تعلق ظاہر و باطن دونوں کے ساتھ ہے:

’’فرضِ وقتی نماز ادا کرنا ہے، فرض ماہی رمضان المبارک کے روزے رکھنا ہے ،فرضِ فصلی ہر فصل سے عشر ادا کرنا ہے،فرض سالی ہر سال کے اختتام پر مال کی زکوٰۃ دینا ہے اور وہ فرض جس کا تعلق ظاہر و باطن دونوں سے ہے اس کے متعلق تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ فرضِ دائمی ہے اور وہ باطن میں ذکرِخفیہ ہے‘‘-[63]

12-عبادت معرفتِ الٰہی کی دلیل ہے :

حقائق کی دنیا میں استدلال اور دلیل کو بڑی اہمیت حاصل ہے-سلطان العارفینؒ لکھتے ہیں:

’’علم عمل پر دلالت کرتا ہے عبادت معرفت پر دلالت کرتی ہے اور ذکر الله سعادت تصدیق قلب، صدق اور ارادت خاص سے بہرہ مند کر کے باطل سے بیزار کرتا ہے‘‘- [64]

یعنی جس طرح علم عمل کےبغیر بے فائدہ ہے بعین اسی طرح عبادت بھی معرفت الٰہی کے حصول کے بغیر بے فائدہ ہے -

13-محض جہنم سے نجات اور جنت کے لالچ میں عبادت کرنا:

’’عارفِ عقبیٰ عابد زاہد اہلِ علم اور متقی و پرہیز گار ہوتا ہے جس پر خوفِ جہنم سوار رہتا ہے اور ہر وقت حصول جنت کی خاطر عبادت کرتا رہتا ہے اس کا تعلق مرتبۂ مؤنث سے ہے اور اس کا طالب بھی مؤنث ہے ‘‘-[65]

جسے اللہ تعالیٰ کی طلب ہے وہ کیا کرے؟

’’یہ فقیرِ باھو کہتا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ کے قرب و دید ار کی طلب ہے وہ فقر اختیار کرے اور ذکر فکر،عشق و محبت اور معرفت میں مشغول رہے-جسے بہشت و حور و قصور کی طلب ہے وہ عبادت، ریاضت، زہد و تقویٰ، نماز و  روزہ، تلاوتِ قرآن اور حج و زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوشاں رہے کہ یہ اعمال بنائے اسلام ہیں‘‘-[66]

محبّانِ الٰہی کے وجود کو آتشِ دوزخ نہیں جلاسکتی:

’’بیت:اے زاہد! تو مجھے آتشِ دوزخ سے کیوں ڈراتا ہے؟ ارے میرے اندر تو وہ آگ دہک رہی ہے کہ جسے اگر دوزخ میں ڈال دو تو دوزخ جل کر راکھ ہوجائے گی‘‘-[67]

حضرت سلطان باھوؒ نے ’’عین الفقر‘‘ میں صرف اللہ کی طلب میں عبادت کے متعلق ایک معروف روایت نقل فرمائی ہے:

’’حضرت رابعہ بصریؒ سے پوچھا گیا:آپ اللہ کی عبادت کس غرض سے کرتی ہیں؟ جہنّم کے خوف سے یا امیدِ بہشت میں؟ انہوں نے خواب میں التجا کی: خداوندا! اگرمَیں تیری عبادت دوزخ کے خوف سے کرتی ہوں تو مجھے دوزخ میں ڈال دے،اگر میں تیری عبادت امیدِ بہشت میں کرتی ہوں تو مجھ پر بہشت حرام کر دے اور اگر مَیں تیری عبادت محض تیری طلب کرتی ہوں تو مجھ پر اپنا دیدار و جمال بند نہ کر‘‘- [68]

ایسی عبادت جو صرف جنت کے لالچ میں کی جائے اس کا نفع ضرور ہے لیکن عشق کے سامنے محدود نفع ہے لیکن وہ عبادت جس کا مقصد ریاکاری اور دکھلاوا ہو وہ بے سود عبادت ہے-

کتب سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کے مترجم سید امیر خان نیازی مرحوم نے ’’بے سود عبادت‘‘ کے موضوع پر ایک جامع کتابچہ تحریر فرمایا ہے جس میں قرآن و سنت اور تعلیمات حضرت سلطان باھوؒ کی روشنی میں بے سود عبادت (ایسی عبادت جو معرفت الٰہی کی بجائے کسی ادنیٰ مقصد کیلئے  کی جائے) کی وضاحت اور حقیقی عبادت کا نکتہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اصل عبادت وہ ہے جو بغیر کسی طمع اور لالچ کے صرف اللہ کیلئے کی جائے -یہ کتابچہ ان لوگوں کو لازمی مطالعہ کرنا چاہیے جو معرفتِ الٰہی کی خاطر عبادت کرتے اور رضائے الٰہی کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کے خواہش مند ہیں-

14-محبت الٰہی تمام مخلوقات کی عبادات سے افضل ہے:

حضرت سلطان باھوؒ ’’عین الفقر‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’یہ فقیرِ باھو کہتا ہے کہ محبتِ الٰہی کا ایک ذرّہ جملہ عبادات حج و غزوہ وزکوٰۃ و نمازو روزہ و نوافل اور تمام جن و انس و دیو پری و فرشتہ و ملائک کی مجموعی عبادت سے افضل ہے بشرطیکہ کہ محبت و اخلاص کی اس راہ میں فقیر صادق و ثابت قدم ہو اور راسخ الاعتقاد ہو‘‘-[69]

اسی طرح آپؒ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

’’دیدارِ الٰہی کی لذّت ،معرفتِ الٰہی کی لذّت ، قربِ الٰہی کی لذّت، شوق واشتیاقِ الٰہی کی لذت،ذکر فکر مراقبۂ  فنا فی اللہ بقا باللہ کی لذت اور تصرف تصور توجّہ تفکرِ الّا اللہ کی لذت دونوں جہان کی عبادت سے افضل ہے‘‘-[70]

15-رضائے الٰہی کی خاطر تقویٰ ہی درا صل باطنی تقویٰ ہے:

حضرت سلطان باھو ؒ اپنے پنجابی کلا م میں ارشاد فرماتے ہیں :

زاہد زہد کریندے تھکے روزے نفل نمازاں ھو
عاشق غرق ہوئے وچ وحدت اللہ نال محبت رازاں ھو

اسی طرح آپؒ ’’ترانہ عشق‘‘ میں لکھتے ہیں:

زاہد کجا بس دور تر
از وصلِ عاشق بے خبر
ایں مدعی اندر دہر
در وحدت اش پر وانہ ام

’’زاہد ذاتِ حق کے وصال سے کوسوں دور ہے جسے عاشق کے وصال کی خبر تک نہیں کیونکہ اس (زاہد) کا مدعا اسی (مادی) جہان تک محدود ہے جبکہ مَیں اللہ تعالیٰ کی وحدت کا پروانہ ہوں‘‘-

یہاں ظاہر ی زہد و تقوی مراد ہے جس کا بہت بڑا درجہ ہے-لیکن حضرت سلطان باھوؒ اور دیگر صوفیائے کرام کے نزدیک ظاہری تقویٰ اور نفلی عبادات سے بھی آگے مقام عشق ہے جو انسان کو وحدتِ الٰہی کی معرفت تک لے جاتا ہے لیکن اس کے لیے ظاہری تقویٰ کے ساتھ باطنی تقویٰ شرط ہے - آپؒ ’’محک الفقر کلاں‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’لباسِ تقویٰ وہ آدمی پہنتا ہے جو وحدانیتِ حق سے نورِ معرفت کا پیالہ پی لیتا ہے-مردِ حق کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایسا ہی تقویٰ اختیار کرے-باطن کا تقویٰ بارگاہِ حق کی حضوری ہے اور ظاہر کا تقویٰ مقامِ خلق کی مزدوری اور نفسِ امارہ کی مغروری ہے‘‘-[71]

معرفتِ الٰہی کا مغز تقویٰ ہے:

’’جان لے کہ معرفتِ الٰہی کا مغز تقویٰ ہے -جان لے کہ تقویٰ و پرہیز گاری اس نیک و صالح عمل کو کہتے ہیں جو پوشیدہ ،بے ریا و مقبولِ خدا ہو اور پوشیدہ، بے ریا اور مقبولِ خدانیک و صالح عمل تصورِ اسم اللہ ذات ہے جس سے بندہ معرفتِ الٰہی کرکے نجات یافتہ ہوجاتا ہے یہی باطنی تقویٰ و باطنی راز ہے‘‘-[72]

بے ریا تقویٰ آدمی کو بارگاہِ حق تک پہنچاتا ہے:

’’اے باھُو! رضائے اِلٰہی کی خاطر تقویٰ اختیار کرکہ بے ریا تقویٰ ہی بارگاہِ حق میں پہنچاتا ہے- جسے بھی تقویٰ نصیب ہوا اسم اللہ ذات سے ہی نصیب ہوا‘‘-[73]

16-جملہ عبادات اور اسم اللہ ذات و اسمِ محمد ():

سلطان العارفین ؒ کے نظام فکرمیں اسم اللہ ذات کو اساسی حیثیت حاصل ہے اور یہ آپ کی تعلیمات کا محور ہے جسے کے ذریعے آپ نے تزکیہ نفس،تصفیہ قلب اور روح کی تطہیر کا درس دیا ہے-آپؒ نے اپنی کتب میں کئی جگہ پر برکت کیلئے اسم اللہ ذات، اسمِ محمد (ﷺ) اور کلمہ طیبہ کے نقوش بھی بنائے ہیں تاکہ قاری کے ذہن وقلب میں اسم اللہ ذات و اسم محمد(ﷺ) کا تصور نقش رہے-آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’اسم اللہ ذات کی شان یہ ہے کہ ا گرکوئی شخص تمام عمر نماز، روزہ،  حج و زکوٰۃ اور تلاوتِ قرآن جیسی جملہ عبادات میں مصروف رہا اور اہلِ فضیلت بن کر عالم ومعلم بنا رہا لیکن اسم اللہ ذات اور اسم مُحمّد سرورِ کائنات(ﷺ) سے بےخبررہا اور ان دونوں اسمائے پاک کے ذکر میں مشغول نہیں رہا تو کوئی فائدہ نہیں،اس کی ساری عمر کی عبادت ضائع و برباد ہوگئی‘‘-[74]

ایک اور مقام پر آپؒ فرماتے ہیں:

’’بیت:اے باھو! کثرت نمازو روزہ و دیگر طاعت سے پل بھر کا قلبی ذکر اللہ بہت بہتر ہے‘‘-[75]

’’تصورِ اسم اللہ ذات کا شغل دونوں جہان کی عبادت سے افضل ہے‘‘- [76]

فرضِ عین بندگی کیا ہے؟

’’پس اللہ کا نام پاک ہے اور اس کا دائمی ذکرِ جہر و ذکرِ خفیہ فرض عیں بندگی ہے جس سے دل کو زندگی نصیب ہوتی ہے‘‘-[77]

صاحب تصورِ اسم اللہ ذات کا مرتبہ :

’’صاحبِ تصور اسم اللہ ذات کامرتبہ ’’ہمہ اُوست در مغزو پوست‘‘ ہوتا ہے-(یعنی اسے ہر چیز کے ظاہر و باطن میں اللہ ہی اللہ نظر آتا ہے)‘‘-[78]

آپؒ مزید فرماتے ہیں:

’’عبادت ذکراللہ کی محتاج ہے اور اہلِ ذاکر اہلِ فقر کا محتاج ہے‘‘-[79]

معرفتِ الٰہی کی چابی ذ کراللہ ہے:

’’پس ذکر اللہ معرفتِ الٰہی اور حبِ ہدایت الٰہی کی چابی ہے‘‘-[80]

عبادات کی خاتم عبادت ذکراللہ ہے:

’’جان لے کہ جس طرح توریت و انجیل و زبور کی خاتم قرآن ہے اسی طرح تمام عبادات کی خاتم عبادت ذکر اللہ یعنی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ کا ذکر ہے‘‘-[81]

خلاصہ بحث :

فکرِ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (﷫) کے مذکورہ مطالعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کا واحد مقصد فقط رضائےالٰہی، لقائے الٰہی،معرفتِ الٰہی اور محبتِ الٰہی کی خاطر عبادت کرنا ہے-جس کیلئے ذکراللہ، شریعت محمدی (ﷺ) کے ظاہری وباطنی پہلؤوں پر عمل، باطنی تقویٰ و دائمی بندگی، دل سے ماسویٰ اللہ کے تمام نقوش مٹا کر اپنی عبادات کا مقصودصرف حُبِ الٰہی اور رضائے الٰہی کو بنانا شرط ہے، تب ہی آدمی کو عبادت کی حقیقی روح تک رسائی نصیب ہو سکتی ہے-

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں اپنی اطاعت و بندگی اور اپنے محبوب کریم(ﷺ) کی اطاعت و اتباع میں اخلاص عطا کرے جو باب بندگی ہیں اور ان مبارک ارواح کی تعلیمات اور صحبت نصیب فرمائے جو معرفت و رضائے الٰہی کی خاطر عبادت کو اپنی زندگی کا نصیب العین بنائے ہوئے ہیں تاکہ ہم بھی بندگی کے اصل مقصود ( معرفت و قربِ ربّا نی ) کو پا نے کیلئے حقِ بندگی ادا کرسکیں-آمین!

٭٭٭


[1](ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور میں نے جنا ت اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘-یہ بھی حقیت ہے کہ نہ صرف جن و انس بلکہ کل مخلوقات یہاں تک کہ کائنات کا ہر ذرہ بھی تکوینی اور غیر اختیاری طور پر اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد و ثنا بیان کر تا ہے - جیسا کہ سورۃ بنی اسرائیل میں ارشادِ ربانی ہے: ’’اس کی پاکی بولتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہیں اور کوئی چیز نہیں جو اسے سراہتی ہوتی اس کی پاکی نہ بولے ہاں تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے بیشک وہ حلم والا بخشنے والا ہے(آیت 44 )-ان فرامین ِ قرآنی سے معلوم ہواکہ تخلیق اور عبادت بلاواسطہ ایک دوسرے سے جڑے ہیں )

[2](اور ہم نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے اجتناب کرو (النحل: 36) اسی طرح ایک اور مقام پر فرمانِ الٰہی ہے ’’اور ہم نے آپ سے پہلے جس کو بھی رسول بنا کر بھیجا اس کی طرف ہم یہی وحی کرتے تھے کہ بے شک میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں سو تم میری عبادت کرو‘‘-(الانبیاء:25)

[3](اسلام اپنی نگاہ میں، ساچیکو مراتا /ولیم سی چیٹک، ص:478)

[4](تبیان القرآن،جلد: 1،ص:178)

[5](ایضاً)

[6](رازی،التفسیر الکبیر،جلد: 1، ص: 242)

[7](بغوی،معالم التنزیل ،جلد:1، ص: 41)

[8](ابن کثیر،تفسیر القرآن العظیم ،جلد:1، ص: 25)

[9](راغب اصفہانی،المفردات، ص:542)

[10]( لیکن عبادت کا حقیقی مفہوم اور تصور بعض لوگوں نے خلط ملط کردیا ہے اور عبادت کو محض چند ظاہری رسومات تک محدود کردیا ہے- عبادت کے ایسے شارحین اور معترضین پر ایک الگ تفصیلی بحث ہے جو ہمارے موضوع کا حصہ نہیں لیکن قارئین کیلئے یہ جاننا لازم ہے کہ ایسے عقلیت پرست (Ultrarational) عناصر کی پرکھ لازمی رکھیے جو حساس دینی و اعتقادی معاملات میں بھی عوام النّاس کے قلوب و اذہان میں تشکیک و ابہام کا بیج بوتے ہیں- شقاوت ِ قلبی کا واضح ثبوت دیتے یہ لوگ دین کی پیچیدگیوں، دین کی گہرائیوں اور روح ِ دین سے کوئی سروکار نہیں رکھتے بلکہ یہ محض اپنی عقلِ ناقص کی بندگی کرتے ہوئے نہ صرف عبادت و بندگی بلکہ کئی دیگر اہم مذہبی پہلوؤں کا کلی مفہوم محض عقلی دلیل سے طے کرتے ہیں)

[11]( بقول اقبالؒ ’’مقام ِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خدا وندی ‘‘ کہ اگر عبادت کی حقیقی لذّ ت (معرفت و قربِ الٰہی کے حصول کی تگ ودو) اور عبادت میں استقامت نصیب ہوجائے تو آدمی کسی بھی قیمت پر عبادت جیسی عظیم نعمت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ،یہاں تک کہ وہ عبادت میں ’’شانِ خدا وندی‘‘ یعنی بادشاہت کی طلب کی بجائے اللہ تعالیٰ کے عشق و معرفت میں دائمی سوز کی آرزو کرتا ہے)

[12](البقرۃ: 21)

[13](طہٰ: 14)

[14](الانبیاء: 77)

[15](کلید التوحید کلاں،ص:631)

[16](صحیح البخاری،کتاب الزکاۃ،جلد:2، رقم الحدیث: 1389)

[17](الطبرانی، المعجم الاوسط، رقم الحدیث :780)

[18](مثلاً صوفیاء و الیاء اللہ ذکر، فکر و مراقبہ، مجاہدہ و ریاضت ،تجلیات و مکاشفات ، احوال واردات اورالہام و وجدان جیسی اصطلاحات اور مدارج (جو صوفیانہ اسلوبِ عبادت ہے) کی تعبیر قرآن و سنت کے باطنی گوشوں سے اخذ کرتے ہیں -لیکن چشم ِ حق بیں سے محروم (بوجہ حضور رسالتِ مآب (ﷺ) سےروحانی تعلق کی کمزوری اور انکارِ وسیلت) جو شریعت محمدی (ﷺ) کے باطنی پہلو کے مطالعہ کا اشتیاق یا فہم نہیں رکھتے وہ تصوف اور اہلِ تصوف سے متعلق مغالطے کا شکار رہتے ہیں اور محض اپنے علمی خُمار اور ادھوری تحقیق کی بنا پر تصوف کے مذکورہ مراتب و مدارج کو بعید از حقیقت سمجھتے ہیں-حالانکہ خوش فہم یہ لوگ نہیں جانتےکہ تصوف کے دریچمحض قیل و قال سے بہت بلند وبالا ہیں جن میں جھانکنے کیلئے خاتم النبیین (ﷺ) سے روحانی نسبت کو روزن ِ دید بنانا پڑتا ہے وگرنہ ظاہری دریچوں سے عبادات کا صرف چھلکا تو مل سکتا ہے لیکن عبادت کے مغز اور مقصود تک رسائی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک ظاہرو و باطن دونوں ( شریعت و طریقت ) پہ عامل و کامل نہ ہو جایا جائے )

[19](اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس، سلطان العارفین ؒ کا وہ جملہ ہے جس کی سلیس شرح میں انسانی عقل صرف اتنا کہ سکتی ہے کہ اے بندے !تیرے لیے اللہ ہی بس (کافی) ہے باقی تیری ہر ایک طلب ھویٰ و ہوس (نفسانیت) ہےاس لئے صرف اللہ تعالیٰ سے اس کی محبت و معرفت طلب کر یہی بندگی ہے-)

[20]( آپؒ خود فرماتے ہیں :باھُو نے قربِ ھو (ذاتِ حق) سے لقائے وحدت کا شرف حاصل کیا ، کیا تو نہیں جانتا کہ باھو معیتِ خدا سے سرفراز ہے؟ (عقلِ بیدار،ص: 167) مزید آپ لکھتے ہیں:میں خدا کے پاس تھا اور ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہوں کہ یہی توحید ِ مطلق کا تقاضا ہے اور یہی کامل حق ہے- (امیر الکونین، ص:375)

[21]( فکرِ سلطان العارفین ؒ کا ایک ایک گوشہ تشنہ تحقیق ہے-مثلاً صرف زیرِ عنوان موضوع پر ایک ضخیم کتاب تصنیف کی جاسکتی ہے کیونکہ آپؒ نے فلسفہ عبادت کے ذیل میں کئی جزئیات و فروعات پر بحث فرمائی ہے جس کی معتبر و مستند تحقیق کے لئے مہ و سال کی عرق ریزی درکار ہے - آپ کے فلسفہ عبادت کو فقط ایک آرٹیکل میں پوری طرح سمونا خاصا مشکل و دشوار کام ہے- اس لئے اس مضمون میں فکرِ حضرت سلطان باھوؒ کی روشنی میں عبادت کا مفہو م بیان کرنے کی ایک ادنیٰ سی بنیادی کاوش کی گئی ہے -)

[22](عقلِ بیدار،ص:309)

[23]-(کلید التوحید کلاں ،ص: 173)

[24]( امیر الکونین ،ص: 137(

[25](محک الفقر کلاں،ص: 45 )

[26](عقلِ بیدار،ص:295)

[27](محک الفقرکلاں ،ص: 239)

[28](محک الفقر کلاں،ص:477)

[29](کلید التوحید کلاں ،ص: 553)

[30](محک الفقر،ص:479)

[31](امیر الکونین ،ص:397)

[32](امیر الکونین ،ص:413)

[33](امیر الکونین ،ص:243)

[34](امیر الکونین ،ص:319)

[35](محک الفقر کلاں،ص:99)

[36](امیر الکونین ،ص:307)

[37](کلید التوحید کلاں،ص:261)

[38](محک الفقر کلاں، ص: 61)

[39](امیر الکونین ،ص:317)

[40](امیر الکونین ،ص:345)

[41]( عین الفقر،ص: 49)

[42](کلید التوحید کلاں،ص: 313)

[43](کلید التوحید کلاں،ص:313-315 )

[44](عقلِ بیدار،ص:141)

[45](کلید التوحید کلاں ،ص:23 )

[46](عقلِ بیدار،ص:55)

[47]( کلید التوحید کلاں،ص: 253)

[48](عقلِ بیدار،ص:111)

[49](کلید التوحید کلاں،ص:305 )

[50](محک الفقر،ص:349)

[51](کلید التوحید کلاں،ص:471)

[52](عین الفقر ،ص:379)

[53](عقلِ بیدار،ص: 277)

[54](امیر الکونین ،ص:311-313)

[55](امیر الکونین ،ص:335)

[56](محک الفقر،ص:175)

[57](امیر الکونین ،ص:335)

[58]( عین الفقر،ص: 295)

[59](محک الفقر،ص:29-31)

[60]( کلید التوحید کلاں،ص:471 )

[61](ایضاً)

[62](محک الفقر،ص:189)

[63](محک الفقر،ص:189)

[64]( محک الفقر کلاں ، ص:6)

[65](عین الفقر،ص:191)

[66](ایضا)

[67](عین لفقر،ص:115)

[68](عین الفقر،ص:145)

[69](عین الفقر،ص:361)

[70](عقلِ بیدار،ص:293)

[71](محک الفقر ،ص:73)

[72](محک الفقر،ص: 347)

[73](محک الفقر،ص:75)

[74](عین لفقر،ص:79)

[75](عین الفقر،ص:269)

[76](محک الفقر،ص:99)

[77](کلید التوحید کلاں،ص:409)

[78]( کلید التوحید کلاں،ص:409)

[79](عین الفقر،ص:255)

[80](محک الفقر،ص:35)

[81](محک الفقر،ص:443)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر