خاورِتصوف کےرخشندہ آفتاب

خاورِتصوف کےرخشندہ آفتاب

خاورِتصوف کےرخشندہ آفتاب

مصنف: سیدخورشیدگیلانی جنوری 2018

اولیاء و صوفیاء کی پوری جماعت میں سب سے زیادہ محبوبیت اور شہرت جس مردِ خدا کے حصے میں آئی ہے وہ سیدنا شیخ عبد القادر جیلانیؒ ہیں- کیا عموم اور کیا خواص دونوں طبقوں میں آپؒ کو یکساں اور لازوال عزت حاصل ہے آپؒ کو زمانے بھر کے علماء وصلحاءنے جو مختلف القاب دئیے ہیں-ان میں ایک معروف لقب ’’محی الدین ‘‘ہے،بلاشبہ اس لقب کی قبائے زیبا آپ ؒکی قامت رعنا پر راست آئی ہے، شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلام ؒ کا قول ہے:

’’آپؒ کا وجود (مسعود)اسلام کے لیے ایک باد بہاری تھا جس نے دلوں کے قبرستان میں نئی جان ڈال دی ‘‘-

جس زمانے میں آپؒ وارد ِبغداد ہوئے یہ وہ دور تھا جب بغداد کی فضا پر علم کی خشکی کالیپ چڑھا ہوا تھا بحث ومناظرہ کا بازارگرم تھا،نئے فرقے وجود میں آرہے تھے اور نئے نکتے برآمد ہو رہے تھے،ہر شخص کتاب خواں تھا مگر صاحب کتاب سے نسبت کی فکرنہ تھی،الفاظ وحروف کا ایک ذخیرہ تھا جس میں ہر ایک گم تھا کسی کو سراغِ زندگی پانے کا شوق نہ تھا،لغت ہائے حجازی کے قارون بہت تھے مگر گدائے کوئے حجاز کوئی نہ تھا،ہر طر ف کتابوں کے انبارتھے لیکن دل کا ورق الٹنے کی کسی کو توفیق نہ تھی،مناظرے کی محفلیں صبح تک رہتیں مگر شبِ تارِ زیست سے محروم تھی،مسند تدریس پر ترش رومعلم فروکش تھے جب کہ ضرورت نہاں خانہ دل میں اتر جانے والے مرد خلیق کی تھی،محراب و منبر پر شعلہ جان قابض تھے جبکہ اہلِ بغداد شیریں واعظ مقال کے منتظر تھے،اسی کشیدہ و کبیدہ ماحول سے بالآخر اما م غزالیؒ تنگ آکر جامعہ نظامیہ کو خیر باد کہتے ہوئے شہر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں-

یہ ٹھیک وہی سال تھا کہ اما م غزالیؒ علم کی کرسیِ فخر چھوڑتے ہیں اور (سیدنا )شیخ عبد القادر جیلانیؒ مسندِ فقر پر جلوہ افروزہوتے ہیں،امام  غزالیؒ نے جس منصب کو خوشی خوشی چھوڑا لوگ گھل گھل کر اس کی آرزو کرتے ہیں،صرف 34 برس کی عمر میں’’غزالیؒ‘‘ بغداد کی جامعہ نظامیہ کےسربراہ مقررہوتے ہیں،یہ ایک عالم کے لیے سب سے بڑے خوبصورت لمحہ اعزاز اور سب سے بڑا نقطہ کمال تھا،امامؒ کے ایک معاصر عبد الغافر فارسی کے بقول ’’ان کی علمی صلاحیت کے سامنے امراء وزراء تو کیا بارگاہِ خلافت کی شان و شوکت ماند پڑ جاگئی تھی-

قدرت کا اپنا نظام العمل ہو تا ہے کہ اما م غزالیؒ شہر بغداد کو دولت ِعلم سے تونگر بنا گئے اورشاہ جیلانیؒ فضائے بغداد کو بوئے فقر سے معطر کرنے کےلیے تشریف لے آئے،آپؒ بغداد میں پہنچے تو شہر کا رنگ یکسر بدل گیا ’’سوزِ دماغ‘‘ کی جگہ ’’سوزِ جگر‘‘نے لے لی،لوگ دماغ جلانے کی بجائے سراغ پانے میں لگ گئے،علم کی شعبدہ بازی چھوڑ کر طریق شہبازی سیکھنے لگے،علم کو منزل نہیں چراغ ِ راہ سمجھنے لگے’’مکتب کی کرامت‘‘کا دھیا ن کم ہوا اور ’’فیضانِ نظر‘‘کا رحجان بڑھ گیا،دنیا نے امام غزالیؒ کا جاہ و جلال دیکھا تھا اب انہیں سرکارِ بغدادؒ کا نظارہ جمال کرنا تھا،غزالی (رحمتہ اللہ علیہ)نے نظامیہ یونیورسٹی کی پرشکوہ فضا میں خلیفہ وقت کو آنے پر مجبور کیا مگر حضرت شیخ (سیدی عبدالقادرجیلانی(رحمتہ اللہ علیہ) کی گھانس پھونس کی کٹیا تاج و تخت اور لشکر و سپاہ کومات دے گئی،آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کے وجود(مسعود)سے جس قدر اسلام اور اہلِ اسلام کو عزت اور تقویت ملی،اس کا مقابلہ ہزاروں لاکھوں انسانی نفوس نہیں کرسکتے-قدرت نے اپنی نیرنگیوں کا تما شادکھانے کےلیے آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کا خاص طور پر انتخاب فرما یا اور آپ(رحمتہ اللہ علیہ)نے جس طرح قدر ت کے ارادوں کو مکمل کیا قدرت کو بجا طور پر اس پر ناز رہے گا،سیا سی سطح پر خلافت عباسیہ مرکز گریز رحجانات کے باعث پریشان تھی،آل سلجوق اپنی حکومت الگ سے قائم کر چکے تھے باطنیہ فرقے کی ریشہ دوانیاں اور تشدد آمیز کاروائیاں اپنے عروج پر تھیں،ایسے میں روحانی استقلا ل کا تو مذکور کیا؟

عباسی شہنشاہ اپنے تمام تر ملکی و ریاستی وسائل سے جو مرکزیت حاصل نہ کرسکے،حضرت محبوب ِسبحانی(رحمتہ اللہ علیہ)کی ذات فقر و فاقہ کے باوجود مرکزی حیثیت کی حامل بن گئی،آپ(رحمتہ اللہ علیہ)کی حیات مبارکہ میں پانچ خلفاء گزرے،آپ (رحمتہ اللہ علیہ)نے اور دنیا نے خلیفہ متظہر باللہ کو مسند ِاقتدار پر دیکھا، پھر خلیفہ مترشد باللہ کو سریر آرائے سلطنت ہوتے دیکھا،اس کے بعد خلیفہ راشد باللہ آیا،بعد ازاں خلیفہ مقتضی او امر باللہ آتا ہے اورپھر خلیفہ مستنجد باللہ تخت حکومت پر متمکن ہوا،یہ لو گ آئے اور چلے گئے،اہل ِاسلام جس مصیبت میں تھے اسی میں پھنسے رہے،کشتیٔ اسلام جس منجدھار میں تھی وہیں ہچکولے کھاتی رہی،نہ خلفاء کا ادل بدل کا م آیا اور نہ ہی حکومتی وسائل بلاؤں کو ٹال سکے،ایک آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کا وجود ِمسعود تھا جس نے لوگوں کی مایوسی کو خوش امیدی بخشی اور سفینہ اسلام کو ساحل عافیت پر لگادیا،مسلمان جو سیاسی افراتفری اور ملوکانہ مہم جوئی کا شکار تھے انہیں روحانی مرکزیت نصیب ہوگئی-

حضرت شیخ (عبدالقادرجیلانی (رحمتہ اللہ علیہ)کو قدرت نے حلقۂ صوفیاء میں جا معیت کے مقام پر فائز کیا تھا،حسب و نسب کے اعتبارسے آپ (رحمتہ اللہ علیہ) حسنی سیّد تھے مسند رشد و ہدایت پر بطور مرشد کامل تشریف فرما تھے قلم و قرطاس کی دنیا میں مانے ہوئے انشاء پرداز تھے آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کے سحرِ خطابت کی دنیا اسیر تھی،روحانیت میں نہ کو ئی ثانی ہوا ہے اور نہ کو ئی ہوگا،اولیاء اللہ کی جماعت کو اگر ستاروں کا ہار تصور کیا جائے تو آپ(رحمتہ اللہ علیہ)اس کا عنوانِ جلی تھے-روحانیت کو اگر ایک شمع سے تشبیہ دی جا ئے توآپ (رحمتہ اللہ علیہ) اس کی لو تھے،تجدید و احیائے دین کے کام کو اگر شاداب چمن سے تعبیر کیا جائے تو آپ (رحمتہ اللہ علیہ) اس کا گل ِ سرسبد تھے شکوہِ علم اور غیرتِ فقر کو اگر کوہِ طورکا نا م دیا جا ئے توآپ (رحمتہ اللہ علیہ)اس کا جلوہِ نور تھے،صفِ اولیاء میں آپ (رحمتہ اللہ علیہ)جیسا ایسا جامع الصفات فرد عرب و عجم میں نہیں ملے گا، یہی سبب ہے کہ دنیا کبھی آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کو’’شہنشاہ ِبغدادؒ‘‘کے نام سے یادکرتی ہے-کبھی اس (دنیا) کی نوک زبان پر ’’شاہ ِجیلانیؒ‘‘ جیسا لقب آتا ہے، دنیا کا ایک بڑاحصہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کو ’’محبوبِ سبحانیؒ‘‘ کہتا ہے،خلقِ خدا ’’غوثِ اعظمؒ‘‘ بھی کہتی ہے،لا کھو ں لوگ ’’شیخ الاسلام‘‘ جیسے پر عظمت خطاب سے یاد کرتے ہیں اور خواص و عوام میں ’’پیرانِ پیر‘‘ کے نا م سے آپ (رحمتہ اللہ علیہ)ہی مشہور ہیں-

آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کی شش جہات دینی و روحانی خدمات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے کام کے لیے خاص طور پر آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کو پید ا فرمایا اور وہ تما م خوبیاں دے کر اس کا م کے لیے منتخب فرما یا جو دین کی نشر و اشاعت،مخلوق کی ہدایت اور بھولے بھٹکوں کی رہنمائی کے لیے ضروری تھیں،تدریس کی مہا رت،خطابت میں جاذبیت،شخصیت میں کشش اور ملا ئمت،بات میں تاثر اور بلا کی ذہانت،اندازِ بیاں میں دلکشی اور حکمت و فصاحت و بلاغت جیسی خوبیاں منعم ِ حقیقی نے آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کو ارزاں کی تھیں-

آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کے ایک ہم عصر شیخ جبائی کہتے ہیں:

’’مجھ سے حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی (رحمتہ اللہ علیہ) نے ایک روزفرمایا کہ میر ی تمنا ہے کہ زمانہ سابق کی طرح جنگلوں اور صحراؤں میں رہوں نہ مخلوق مجھے دیکھے اور نہ میں اس کو دیکھوں،لیکن اللہ پا ک کو اپنے بندوں کا نفع منظور ہے،میرے ہاتھ پر پا نچ ہزار سے زائد یہودی اور عیسائی مسلمان ہو چکے ہیں،عیاروں اورجرائم پیشہ لو گوں میں ایک لا کھ سے زائد توبہ کر چکے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ‘‘-

شانِ تدریس کا یہ عالم تھا کہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ)دیگر روحانی مشاغل کے ساتھ ساتھ اپنے مدرسہ میں روزانہ تفسیر،حدیث،فقہ اور اختلافاتِ آئمہ کا سبق پڑھاتے،اصول ِفقہ اور نحو کی کلاس بھی خود لیتے،نما زِ ظہر کے بعد تجوید کی تعلیم دیتے، علاوہ ازیں افتاء کا کا م بھی سر انجام دیتے،کو ئی آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کے یہ معمولات دیکھتا تو یقیناً کَہ اٹھتا کہ لفظ وحرف میں محو اور قرطاس و کتاب میں مستغرق یہ شخص کبھی دوسرے سے بات کرنا تو کجا خود کلامی کی فرصت بھی نہیں پاتا ہوگا مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ)جونہی منصبِ تدریس سے اتر کر مسند ِ تلقین پر جلوہ گر ہوتے تو ستر ہزار لوگوں کے اجتماع سے اس سکون اور وقار سے مخاطب ہوتے کہ کسی کو سرگوشی کا ہوش ہوتااور نہ کھنکارنے اور کھانسنے کی فرصت ہو تی،یو ں محسوس ہوتا کہ لو گو ں کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں،جن کے اڑ جا نے کے خوف سے یہ لو گ چپ سادھے ہوئے ہیں آپ(رحمتہ اللہ علیہ)کے مواعظ اور ملفوظات کرنے کے لیے بعض اوقات چار چار سو دواتیں مجلس میں لائی جا تی -

عبد اللہ یا فع (رحمتہ اللہ علیہ)کا کہنا ہےکہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کے خطاب کی تاثیر اورسحر انگیزی کا یہ عالم ہو تا کہ لو گ پھڑک کر مرجا تے اور آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کی مجلس سے کئی بار جنازے اٹھائے گئے -

آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کا وعظ پیشہ ورانہ نہیں مجذوبانہ رنگ کا ہوتا تھا جملے منہ سے نکل کر ہوا میں تحلیل نہیں ہوتے تھے،بلکہ تیر بن کر دل میں ترازوہو جاتے تھے،آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کا خطاب دھواں دار نہیں ہوتا کہ ماحول کو اور دھندلا دے بلکہ اس میں شرارے چھپے ہوتے تھے جو دلو ں میں موجود حرص و حسد کے خس و خاشاک کو جلا کر پھونک ڈالتے،ہر بات زبا ن سے ہی نہیں کہتے کچھ کا م آنکھوں کی روشنی میں اور دل کی پا کیزگی سے لیتے،یحییٰ بن نجاح ادیب کا بیان ہے:

’’ایک دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ آج حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی (رحمتہ اللہ علیہ) کی مجلس میں تائب ہونے والے شخص شمار کروں گا،جب وقتِ مجلس میں حاضر ہوا تو میں نے کپڑوں میں ایک دھاگہ چھپا لیا جونہی حضرت غوث اعظم (رحمتہ اللہ علیہ) شخص کو توبہ کی تلقین فرما کر اس کے بال کا ٹتے،میں دھاگے میں ایک گرہ لگادیتا،تھوڑی دیر بعد آپ (رحمتہ اللہ علیہ)میری طرف متوجہ ہو ئے اورفرمایا ’’عجیب بات ہے کہ مَیں گرہیں کھولتاہوں اور تم لگاتے جا رہے ہو‘‘-

آپ(رحمتہ اللہ علیہ)نے صرف واعظانہ کام ہی نہیں کیے بلکہ مجاہدانہ سرگرمیاں بھی آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کی شخصیت کا حصہ رہیں اگرچہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ)نے کبھی بھی براہ راست سیاست میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی قرب ِ شاہی کی آرزو کی،بلکہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کبھی کسی حاکم سے ملنے نہیں گئے،ہاں البتہ کئی با ر خلفاء اور وزراء آپ(رحمتہ اللہ علیہ)کے درِ دولت پرحاضر ہوئے وہ ہاتھ چومتے مگر آپ (رحمتہ اللہ علیہ)انہیں جھٹک دیتے اور ان کی روشِ ستم پر ملامت کرتے،ایک بار خلیفہ مقتضی او امر اللہ نے ابو الوفاء یحییٰ بن سعید کو قاضی مقرر کر دیا آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کو معلوم ہو ا تو برسرمنبر فرما یا:

’’تم نے مسلمانوں پر ایک ایسے شخص کو حکمران بنایا جو اظلم الظالمین ہے کل قیامت کو اس رب العالمین کو کیا جو اب دو گے جو ارحم الراحمین ہے، اس جلال آمیز خطاب کی بازگشت قصرِ خلافت میں سنی گئی اور خلیفہ نے فوراًاس قاضی کو معزول کردیا‘‘-

آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کے زہد کا یہ عالم تھا آپ(رحمتہ اللہ علیہ) کے لیے سونے کی ڈبی میں کوئی کشش اور مٹی کے ڈھیلے میں کوئی نفرت نہ تھی،آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کسی چیزکے پانے کے لیے کوئی بے قراری نہ تھی اور نہ ہی چھن جا نے کا خوف دل میں سمایا رہتا،بلکہ خالی دل کی خوشی کا راز پا چکے تھے-ایک بار دوران ِمجلس اطلاع ملی کہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کا فلاں تجارتی جہاز ڈوب گیا ہے،آپ(رحمتہ اللہ علیہ)نے  تھوڑی دیر توقف کر کے فرمایا ’’الحمدللہ ‘‘کچھ دیر بعد کسی نے آکر کہا یا حضرت وہ خبر غلط تھی،جہاز صحیح سالم کنارے لگ گیا ہے،آپ(رحمتہ اللہ علیہ)نے پھر توقف کیا اور فرمایا ’’الحمدللہ ‘‘-حاضرین کے دریافت کرنےپر فرما یاکہ پہلی خبر سن کر میں دل کو ٹٹولا تو جہاز اور اسباب ڈوبنے کا ذرابھی ملال نہ ہوا تو میرے منہ سے ’’الحمد للہ‘‘ نکلا اورجہازکے صحیح سالم لنگر انداز ہونے کی خبر ملی توپھر دل کا جائزہ لیا توخاص خوشی کی کیفیت محسوس نہ ہوئی بلکہ دونوں حالتوں میں دل کو بدستور اللہ کی طرف مائل اور مشاغل پا یا تو ’’الحمد للہ‘‘ کہا-

دراصل یہ وہ حکایت لذیذ ہے اسے جتنا بھی دراز کیا جائے قندِ مکرر کا مزہ دیتی ہے آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کے ملفوظات پڑھنے کا اگرکسی کو موقع میسرآئے تو سچی بات یہ ہے کہ داستان الف لیلہ میں وہ تنوع ودلچسپی،حسن بیان اور مٹھاس نہیں جو آپ(رحمتہ اللہ علیہ) کی باتوں میں محسوس ہوتی ہے،ایک جگہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ)فرماتے ہیں:

’’دنیاکو دل سے نکال کر اپنے ہاتھوں میں رکھ لو پھرتمہیں کو ئی تکلیف نہیں دے گی‘‘-

ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:

’’دنیا ہاتھ میں رکھنی جائز،جیب میں رکھنی جائز،اچھی نیت سے جمع کرنا جائز مگردل میں رکھنا ہرگز جائز نہیں-دروازے پر اس کا کھڑا ہونا جا ئز لیکن دروازے سے آگےگھسنا نہ جائز ہے اور نہ باعثِ عزت ‘‘-

مفتوح الغیب میں ارشادفرما تے ہیں:

’’خلق کی حقیقت یہ ہے کہ جب تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ کرئے تومخلوق درمیان میں حائل نہ رہے اورجب مخلوق ِ خداسے معاملہ کرے تونفس کو آڑے نہ آنے دے ‘‘-

حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی (رحمتہ اللہ علیہ)جیسے لوگوں کے بارے میں پڑھ کر انسان اپنے اندر عجیب سی کیفیت محسوس کرتا ہے ایک طرف وہ دارا و سکندر کے وارثوں کودیکھتا ہے تو مرقع عبرت نظر آتے ہیں اوردوسری طرف وہ بوذروسلمان (رضی اللہ عنھم)کے جانشینوں پر نظرڈالتا ہے تووہ مینارہ عظمت دکھائی دیتے ہیں ،تاج زرملیا میٹ ہوگئے مگر خرقہ فقر کا ایک پیوند بھی بوسیدہ نہیں ہوا-

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں

 

یہ عاشق کون سی بستی کے یارب بسنے والے ہیں

 

 ٭٭٭

اولیاء و صوفیاء کی پوری جماعت میں سب سے زیادہ محبوبیت اور شہرت جس مردِ خدا کے حصے میں آئی ہے وہ سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رحمتہ اللہ علیہ) ہیں- کیا عموم اور کیا خواص دونوں طبقوں میں آپ(رحمتہ اللہ علیہ) کو یکساں اور لازوال عزت حاصل ہے آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کو زمانے بھر کے علماء وصلحاءنے جو مختلف القاب دئیے ہیں-ان میں ایک معروف لقب ’’محی الدین ‘‘ہے،بلاشبہ اس لقب کی قبائے زیبا آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کی قامت رعنا پر راست آئی ہے، شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلام (رحمتہ اللہ علیہ)کا قول ہے:

’’آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کا وجود (مسعود)اسلام کے لیے ایک باد بہاری تھا جس نے دلوں کے قبرستان میں نئی جان ڈال دی ‘‘-

جس زمانے میں آپ (رحمتہ اللہ علیہ)وارد ِبغداد ہوئے یہ وہ دور تھا جب بغداد کی فضا پر علم کی خشکی کالیپ چڑھا ہوا تھا بحث ومناظرہ کا بازارگرم تھا،نئے فرقے وجود میں آرہے تھے اور نئے نکتے برآمد ہو رہے تھے،ہر شخص کتاب خواں تھا مگر صاحب کتاب سے نسبت کی فکرنہ تھی،الفاظ وحروف کا ایک ذخیرہ تھا جس میں ہر ایک گم تھا کسی کو سراغِ زندگی پانے کا شوق نہ تھا،لغت ہائے حجازی کے قارون بہت تھے مگر گدائے کوئے حجاز کوئی نہ تھا،ہر طر ف کتابوں کے انبارتھے لیکن دل کا ورق الٹنے کی کسی کو توفیق نہ تھی،مناظرے کی محفلیں صبح تک رہتیں مگر شبِ تارِ زیست سے محروم تھی،مسند تدریس پر ترش رومعلم فروکش تھے جب کہ ضرورت نہاں خانہ دل میں اتر جانے والے مرد خلیق کی تھی،محراب و منبر پر شعلہ جان قابض تھے جبکہ اہلِ بغداد شیریں واعظ مقال کے منتظر تھے،اسی کشیدہ و کبیدہ ماحول سے بالآخر اما م غزالی (رحمتہ اللہ علیہ)تنگ آکر جامعہ نظامیہ کو خیر باد کہتے ہوئے شہر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں-

یہ ٹھیک وہی سال تھا کہ اما م غزالی (رحمتہ اللہ علیہ)علم کی کرسیِ فخر چھوڑتے ہیں اور (سیدنا )شیخ عبد القادر جیلانی (رحمتہ اللہ علیہ)مسندِ فقر پر جلوہ افروزہوتے ہیں،امام  غزالی (رحمتہ اللہ علیہ)نے جس منصب کو خوشی خوشی چھوڑا لوگ گھل گھل کر اس کی آرزو کرتے ہیں،صرف 34 برس کی عمر میں’’غزالیؒ‘‘ بغداد کی جامعہ نظامیہ کےسربراہ مقررہوتے ہیں،یہ ایک عالم کے لیے سب سے بڑے خوبصورت لمحہ اعزاز اور سب سے بڑا نقطہ کمال تھا،امام (رحمتہ اللہ علیہ)کے ایک معاصر عبد الغافر فارسی کے بقول ’’ان کی علمی صلاحیت کے سامنے امراء وزراء تو کیا بارگاہِ خلافت کی شان و شوکت ماند پڑ جاگئی تھی-

قدرت کا اپنا نظام العمل ہو تا ہے کہ اما م غزالی (رحمتہ اللہ علیہ) شہر بغداد کو دولت ِعلم سے تونگر بنا گئے اورشاہ جیلانی (رحمتہ اللہ علیہ)فضائے بغداد کو بوئے فقر سے معطر کرنے کےلیے تشریف لے آئے،آپ (رحمتہ اللہ علیہ)بغداد میں پہنچے تو شہر کا رنگ یکسر بدل گیا ’’سوزِ دماغ‘‘ کی جگہ ’’سوزِ جگر‘‘نے لے لی،لوگ دماغ جلانے کی بجائے سراغ پانے میں لگ گئے،علم کی شعبدہ بازی چھوڑ کر طریق شہبازی سیکھنے لگے،علم کو منزل نہیں چراغ ِ راہ سمجھنے لگے’’مکتب کی کرامت‘‘کا دھیا ن کم ہوا اور ’’فیضانِ نظر‘‘کا رحجان بڑھ گیا،دنیا نے امام غزالی (رحمتہ اللہ علیہ)کا جاہ و جلال دیکھا تھا اب انہیں سرکارِ بغداد(رحمتہ اللہ علیہ)کا نظارہ جمال کرنا تھا،غزالی (رحمتہ اللہ علیہ)نے نظامیہ یونیورسٹی کی پرشکوہ فضا میں خلیفہ وقت کو آنے پر مجبور کیا مگر حضرت شیخ (سیدی عبدالقادرجیلانی(رحمتہ اللہ علیہ) کی گھانس پھونس کی کٹیا تاج و تخت اور لشکر و سپاہ کومات دے گئی،آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کے وجود(مسعود)سے جس قدر اسلام اور اہلِ اسلام کو عزت اور تقویت ملی،اس کا مقابلہ ہزاروں لاکھوں انسانی نفوس نہیں کرسکتے-قدرت نے اپنی نیرنگیوں کا تما شادکھانے کےلیے آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کا خاص طور پر انتخاب فرما یا اور آپ(رحمتہ اللہ علیہ)نے جس طرح قدر ت کے ارادوں کو مکمل کیا قدرت کو بجا طور پر اس پر ناز رہے گا،سیا سی سطح پر خلافت عباسیہ مرکز گریز رحجانات کے باعث پریشان تھی،آل سلجوق اپنی حکومت الگ سے قائم کر چکے تھے باطنیہ فرقے کی ریشہ دوانیاں اور تشدد آمیز کاروائیاں اپنے عروج پر تھیں،ایسے میں روحانی استقلا ل کا تو مذکور کیا؟

عباسی شہنشاہ اپنے تمام تر ملکی و ریاستی وسائل سے جو مرکزیت حاصل نہ کرسکے،حضرت محبوب ِسبحانی(رحمتہ اللہ علیہ)کی ذات فقر و فاقہ کے باوجود مرکزی حیثیت کی حامل بن گئی،آپ(رحمتہ اللہ علیہ)کی حیات مبارکہ میں پانچ خلفاء گزرے،آپ (رحمتہ اللہ علیہ)نے اور دنیا نے خلیفہ متظہر باللہ کو مسند ِاقتدار پر دیکھا، پھر خلیفہ مترشد باللہ کو سریر آرائے سلطنت ہوتے دیکھا،اس کے بعد خلیفہ راشد باللہ آیا،بعد ازاں خلیفہ مقتضی او امر باللہ آتا ہے اورپھر خلیفہ مستنجد باللہ تخت حکومت پر متمکن ہوا،یہ لو گ آئے اور چلے گئے،اہل ِاسلام جس مصیبت میں تھے اسی میں پھنسے رہے،کشتیٔ اسلام جس منجدھار میں تھی وہیں ہچکولے کھاتی رہی،نہ خلفاء کا ادل بدل کا م آیا اور نہ ہی حکومتی وسائل بلاؤں کو ٹال سکے،ایک آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کا وجود ِمسعود تھا جس نے لوگوں کی مایوسی کو خوش امیدی بخشی اور سفینہ اسلام کو ساحل عافیت پر لگادیا،مسلمان جو سیاسی افراتفری اور ملوکانہ مہم جوئی کا شکار تھے انہیں روحانی مرکزیت نصیب ہوگئی-

حضرت شیخ (عبدالقادرجیلانی (رحمتہ اللہ علیہ)کو قدرت نے حلقۂ صوفیاء میں جا معیت کے مقام پر فائز کیا تھا،حسب و نسب کے اعتبارسے آپ (رحمتہ اللہ علیہ) حسنی سیّد تھے مسند رشد و ہدایت پر بطور مرشد کامل تشریف فرما تھے قلم و قرطاس کی دنیا میں مانے ہوئے انشاء پرداز تھے آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کے سحرِ خطابت کی دنیا اسیر تھی،روحانیت میں نہ کو ئی ثانی ہوا ہے اور نہ کو ئی ہوگا،اولیاء اللہ کی جماعت کو اگر ستاروں کا ہار تصور کیا جائے تو آپ(رحمتہ اللہ علیہ)اس کا عنوانِ جلی تھے-روحانیت کو اگر ایک شمع سے تشبیہ دی جا ئے توآپ (رحمتہ اللہ علیہ) اس کی لو تھے،تجدید و احیائے دین کے کام کو اگر شاداب چمن سے تعبیر کیا جائے تو آپ (رحمتہ اللہ علیہ) اس کا گل ِ سرسبد تھے شکوہِ علم اور غیرتِ فقر کو اگر کوہِ طورکا نا م دیا جا ئے توآپ (رحمتہ اللہ علیہ)اس کا جلوہِ نور تھے،صفِ اولیاء میں آپ (رحمتہ اللہ علیہ)جیسا ایسا جامع الصفات فرد عرب و عجم میں نہیں ملے گا، یہی سبب ہے کہ دنیا کبھی آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کو’’شہنشاہ ِبغدادؒ‘‘کے نام سے یادکرتی ہے-کبھی اس (دنیا) کی نوک زبان پر ’’شاہ ِجیلانیؒ‘‘ جیسا لقب آتا ہے، دنیا کا ایک بڑاحصہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کو ’’محبوبِ سبحانیؒ‘‘ کہتا ہے،خلقِ خدا ’’غوثِ اعظمؒ‘‘ بھی کہتی ہے،لا کھو ں لوگ ’’شیخ الاسلام‘‘ جیسے پر عظمت خطاب سے یاد کرتے ہیں اور خواص و عوام میں ’’پیرانِ پیر‘‘ کے نا م سے آپ (رحمتہ اللہ علیہ)ہی مشہور ہیں-

آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کی شش جہات دینی و روحانی خدمات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے کام کے لیے خاص طور پر آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کو پید ا فرمایا اور وہ تما م خوبیاں دے کر اس کا م کے لیے منتخب فرما یا جو دین کی نشر و اشاعت،مخلوق کی ہدایت اور بھولے بھٹکوں کی رہنمائی کے لیے ضروری تھیں،تدریس کی مہا رت،خطابت میں جاذبیت،شخصیت میں کشش اور ملا ئمت،بات میں تاثر اور بلا کی ذہانت،اندازِ بیاں میں دلکشی اور حکمت و فصاحت و بلاغت جیسی خوبیاں منعم ِ حقیقی نے آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کو ارزاں کی تھیں-

آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کے ایک ہم عصر شیخ جبائی کہتے ہیں:

’’مجھ سے حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی (رحمتہ اللہ علیہ) نے ایک روزفرمایا کہ میر ی تمنا ہے کہ زمانہ سابق کی طرح جنگلوں اور صحراؤں میں رہوں نہ مخلوق مجھے دیکھے اور نہ میں اس کو دیکھوں،لیکن اللہ پا ک کو اپنے بندوں کا نفع منظور ہے،میرے ہاتھ پر پا نچ ہزار سے زائد یہودی اور عیسائی مسلمان ہو چکے ہیں،عیاروں اورجرائم پیشہ لو گوں میں ایک لا کھ سے زائد توبہ کر چکے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ‘‘-

شانِ تدریس کا یہ عالم تھا کہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ)دیگر روحانی مشاغل کے ساتھ ساتھ اپنے مدرسہ میں روزانہ تفسیر،حدیث،فقہ اور اختلافاتِ آئمہ کا سبق پڑھاتے،اصول ِفقہ اور نحو کی کلاس بھی خود لیتے،نما زِ ظہر کے بعد تجوید کی تعلیم دیتے، علاوہ ازیں افتاء کا کا م بھی سر انجام دیتے،کو ئی آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کے یہ معمولات دیکھتا تو یقیناً کَہ اٹھتا کہ لفظ وحرف میں محو اور قرطاس و کتاب میں مستغرق یہ شخص کبھی دوسرے سے بات کرنا تو کجا خود کلامی کی فرصت بھی نہیں پاتا ہوگا مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ)جونہی منصبِ تدریس سے اتر کر مسند ِ تلقین پر جلوہ گر ہوتے تو ستر ہزار لوگوں کے اجتماع سے اس سکون اور وقار سے مخاطب ہوتے کہ کسی کو سرگوشی کا ہوش ہوتااور نہ کھنکارنے اور کھانسنے کی فرصت ہو تی،یو ں محسوس ہوتا کہ لو گو ں کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں،جن کے اڑ جا نے کے خوف سے یہ لو گ چپ سادھے ہوئے ہیں آپ(رحمتہ اللہ علیہ)کے مواعظ اور ملفوظات کرنے کے لیے بعض اوقات چار چار سو دواتیں مجلس میں لائی جا تی -

عبد اللہ یا فع (رحمتہ اللہ علیہ)کا کہنا ہےکہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کے خطاب کی تاثیر اورسحر انگیزی کا یہ عالم ہو تا کہ لو گ پھڑک کر مرجا تے اور آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کی مجلس سے کئی بار جنازے اٹھائے گئے -

آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کا وعظ پیشہ ورانہ نہیں مجذوبانہ رنگ کا ہوتا تھا جملے منہ سے نکل کر ہوا میں تحلیل نہیں ہوتے تھے،بلکہ تیر بن کر دل میں ترازوہو جاتے تھے،آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کا خطاب دھواں دار نہیں ہوتا کہ ماحول کو اور دھندلا دے بلکہ اس میں شرارے چھپے ہوتے تھے جو دلو ں میں موجود حرص و حسد کے خس و خاشاک کو جلا کر پھونک ڈالتے،ہر بات زبا ن سے ہی نہیں کہتے کچھ کا م آنکھوں کی روشنی میں اور دل کی پا کیزگی سے لیتے،یحییٰ بن نجاح ادیب کا بیان ہے:

’’ایک دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ آج حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی (رحمتہ اللہ علیہ) کی مجلس میں تائب ہونے والے شخص شمار کروں گا،جب وقتِ مجلس میں حاضر ہوا تو میں نے کپڑوں میں ایک دھاگہ چھپا لیا جونہی حضرت غوث اعظم (رحمتہ اللہ علیہ) شخص کو توبہ کی تلقین فرما کر اس کے بال کا ٹتے،میں دھاگے میں ایک گرہ لگادیتا،تھوڑی دیر بعد آپ (رحمتہ اللہ علیہ)میری طرف متوجہ ہو ئے اورفرمایا ’’عجیب بات ہے کہ مَیں گرہیں کھولتاہوں اور تم لگاتے جا رہے ہو‘‘-

آپ(رحمتہ اللہ علیہ)نے صرف واعظانہ کام ہی نہیں کیے بلکہ مجاہدانہ سرگرمیاں بھی آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کی شخصیت کا حصہ رہیں اگرچہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ)نے کبھی بھی براہ راست سیاست میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی قرب ِ شاہی کی آرزو کی،بلکہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کبھی کسی حاکم سے ملنے نہیں گئے،ہاں البتہ کئی با ر خلفاء اور وزراء آپ(رحمتہ اللہ علیہ)کے درِ دولت پرحاضر ہوئے وہ ہاتھ چومتے مگر آپ (رحمتہ اللہ علیہ)انہیں جھٹک دیتے اور ان کی روشِ ستم پر ملامت کرتے،ایک بار خلیفہ مقتضی او امر اللہ نے ابو الوفاء یحییٰ بن سعید کو قاضی مقرر کر دیا آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کو معلوم ہو ا تو برسرمنبر فرما یا:

’’تم نے مسلمانوں پر ایک ایسے شخص کو حکمران بنایا جو اظلم الظالمین ہے کل قیامت کو اس رب العالمین کو کیا جو اب دو گے جو ارحم الراحمین ہے، اس جلال آمیز خطاب کی بازگشت قصرِ خلافت میں سنی گئی اور خلیفہ نے فوراًاس قاضی کو معزول کردیا‘‘-

آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کے زہد کا یہ عالم تھا آپ(رحمتہ اللہ علیہ) کے لیے سونے کی ڈبی میں کوئی کشش اور مٹی کے ڈھیلے میں کوئی نفرت نہ تھی،آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کسی چیزکے پانے کے لیے کوئی بے قراری نہ تھی اور نہ ہی چھن جا نے کا خوف دل میں سمایا رہتا،بلکہ خالی دل کی خوشی کا راز پا چکے تھے-ایک بار دوران ِمجلس اطلاع ملی کہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کا فلاں تجارتی جہاز ڈوب گیا ہے،آپ(رحمتہ اللہ علیہ)نے  تھوڑی دیر توقف کر کے فرمایا ’’الحمدللہ ‘‘کچھ دیر بعد کسی نے آکر کہا یا حضرت وہ خبر غلط تھی،جہاز صحیح سالم کنارے لگ گیا ہے،آپ(رحمتہ اللہ علیہ)نے پھر توقف کیا اور فرمایا ’’الحمدللہ ‘‘-حاضرین کے دریافت کرنےپر فرما یاکہ پہلی خبر سن کر میں دل کو ٹٹولا تو جہاز اور اسباب ڈوبنے کا ذرابھی ملال نہ ہوا تو میرے منہ سے ’’الحمد للہ‘‘ نکلا اورجہازکے صحیح سالم لنگر انداز ہونے کی خبر ملی توپھر دل کا جائزہ لیا توخاص خوشی کی کیفیت محسوس نہ ہوئی بلکہ دونوں حالتوں میں دل کو بدستور اللہ کی طرف مائل اور مشاغل پا یا تو ’’الحمد للہ‘‘ کہا-

دراصل یہ وہ حکایت لذیذ ہے اسے جتنا بھی دراز کیا جائے قندِ مکرر کا مزہ دیتی ہے آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کے ملفوظات پڑھنے کا اگرکسی کو موقع میسرآئے تو سچی بات یہ ہے کہ داستان الف لیلہ میں وہ تنوع ودلچسپی،حسن بیان اور مٹھاس نہیں جو آپ(رحمتہ اللہ علیہ) کی باتوں میں محسوس ہوتی ہے،ایک جگہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ)فرماتے ہیں:

’’دنیاکو دل سے نکال کر اپنے ہاتھوں میں رکھ لو پھرتمہیں کو ئی تکلیف نہیں دے گی‘‘-

ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:

’’دنیا ہاتھ میں رکھنی جائز،جیب میں رکھنی جائز،اچھی نیت سے جمع کرنا جائز مگردل میں رکھنا ہرگز جائز نہیں-دروازے پر اس کا کھڑا ہونا جا ئز لیکن دروازے سے آگےگھسنا نہ جائز ہے اور نہ باعثِ عزت ‘‘-

مفتوح الغیب میں ارشادفرما تے ہیں:

’’خلق کی حقیقت یہ ہے کہ جب تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ کرئے تومخلوق درمیان میں حائل نہ رہے اورجب مخلوق ِ خداسے معاملہ کرے تونفس کو آڑے نہ آنے دے ‘‘-

حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی (رحمتہ اللہ علیہ)جیسے لوگوں کے بارے میں پڑھ کر انسان اپنے اندر عجیب سی کیفیت محسوس کرتا ہے ایک طرف وہ دارا و سکندر کے وارثوں کودیکھتا ہے تو مرقع عبرت نظر آتے ہیں اوردوسری طرف وہ بوذروسلمان (﷢)کے جانشینوں پر نظرڈالتا ہے تووہ مینارہ عظمت دکھائی دیتے ہیں ،تاج زرملیا میٹ ہوگئے مگر خرقہ فقر کا ایک پیوند بھی بوسیدہ نہیں ہوا-

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں

 

یہ عاشق کون سی بستی کے یارب بسنے والے ہیں

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر