دستک : الٰہ آباد کے نام میں تبدیلی، دو قومی نظریہ اور علامہ اقبال

دستک :  الٰہ آباد کے نام میں تبدیلی، دو قومی نظریہ اور علامہ اقبال

دستک : الٰہ آباد کے نام میں تبدیلی، دو قومی نظریہ اور علامہ اقبال

مصنف: نومبر 2018

 الٰہ آباد کے نام میں تبدیلی، دو قومی نظریہ اور علامہ اقبال

بھارتی ریاست اتر پردیش میں بھارتی جنتا پارٹی(بی جے پی) کے اسلام دُشمن وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے تاریخی، تہذیبی اور مذہبی حوالے سے انتہائی اہم شہر الٰہ آباد کا نام تبدیل کر کے پریاگ راج رکھے جانے کا اعلان کیا ہے-ممکن ہے بعض حلقوں میں اس اعلان کو حیرانگی سے دیکھا جا رہا ہو مگر تاریخی حقائق یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں کرتے ہیں کہ یہ اعلان اُس انتہاء پسند ہندو ذہنیت اور پالیسیوں کا تسلسل ہے جن کے باعث بانیانِ پاکستان نے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں اور اسلام کی بقا و سلامتی کیلئے الگ مملکت حاصل کی اور شدت پسند حکومت کے تناظر میں زیادہ حیرانگی کا سبب نہیں ہے-

الٰہ آباد کا نام مغل بادشاہ اکبر کے دور میں رکھا گیا تھا-یہ شہر مذہبی اور تاریخی حوالے سے بہت اہم ہے-تحریکِ پاکستان کیلئے بنیادی فکری ڈھانچہ تشکیل دینے والا علامہ اقبال کا مشہور تاریخی خطبہ ’’خطبہ الٰہ آباد‘‘ اسی شہر میں دیا گیا تھا- اسی خطبہ میں علامہ اقبال نے وہ عظیم فکر دی تھی جس نے اسلامی ریاست کے بنیادی خدوخال وضع کئے اور ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق اور اس ضمن میں اسلامی ثقافت کی اہمیت واضح کی-

ہندوستان کے آج کے حالات بانیانِ پاکستان کے خدشات کے مطابق نظر آتے ہیں- جہاں کبھی گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جاتی ہے، کبھی بابری مسجد کو شہید کر دیا جاتا ہے،گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کا خون بہایا جاتا ہے، کشمیر میں لاکھوں بے گناہوں کا خون بہا دیا جاتا ہے، تاریخی علی گڑھ یونیورسٹی سے قائداعظم کو تصویر کو ہٹا دیا جاتا ہے - یہ تمام تناظر بھارتی انتہاء پسند ہندوؤں کی پالیسوں کا نتیجہ ہے جو اکھنڈ بھارت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور بھارت سے ہندو ازم کے علاوہ کسی بھی مذہب اور کمیونٹی کا نام و نشان مٹانے پر تلے ہیں-اسی شدت پسندی کے باعث ہندوستان کی دیگر اقلیتیں بھی سراپا احتجاج ہیں اوراس وقت پچیس (25)سے زائد علیحدگی کی بڑی تحریکیں چل رہی ہیں جبکہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر و جونا گڑھ ان کے علاوہ ہیں- اگرچہ  بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ نا روا سلوک کوئی نئی بات نہیں لیکن ایک دہشت گرد تنظیم  راشٹریا سویم سیوک سنگھ کی سیاسی پارٹی بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اقلیتوں پہ مظالم میں شدت آئی ہے- مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد بھارت کا اصلی چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوا ہے اورساتھ ہی ساتھ اس کے نام نہاد سیکولر ازم سے پردہ مکمل طور پر اٹھ گیا ہے کہ کس طرح مذہبی اقلیتیں مظالم کا شکار ہیں- مگر اس کے باوجود عالمی برادری کی جانب سے بھارتی حکومت کو کسی قسم کے دباؤ میں لانے یا اس پر رد عمل دینے کی بجائے بھارت کو ہیومن رائیٹس کونسل کا نمائندہ منتخب کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اقوامِ عالم کیلئے انسانیت کی اہمیت محض معاشی فوائد کیلئے ہے اور وہ اپنے سیاسی و معاشی مفادات کیلئے حقائق سے منہ موڑنے سے نہیں کتراتے- اس عالمی منظر نامہ میں اسلام کی بطور ایک سماجی، سیاسی، ثقافتی، تمدنی اور تہذیبی قوت کے زندہ رہنے کیلئے دو قومی نظریہ سے زیادہ مؤثر کوئی نظریہ نہیں ہو سکتا-عالمی نظام کے معاشی و سیاسی فوائد کی پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘ میں فرمایا تھا کہ :

یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت

 

پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات[1]

الٰہ آباد کے نام کی تبدیلی یہ بھی واضح کرتی ہے کہ دو قومی نظریہ آج پہلے سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے- دو قومی نظریہ اور اسلامی ریاست کی وضاحت میں بانیانِ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ اسلامی ریاست مذہبی سٹیٹس کو کی نمائندہ نہیں ہو گی بلکہ اس میں ریاستِ مدینہ کی طرح تمام تر اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ہوگی-

یہاں ایک کنفیوژن کا ازالہ کرنا ضروری ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان سے ہونے والا امتیازی سلوک کوئی نئی چیز ہے اور نہ ہی یہ تقسیمِ ہند کے بعد شروع ہوا- اس ضمن میں بھی خطبہ الٰہ آباد کا پس منظر واضح کرتا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ نے الگ مملکت کے حصول کیلئے جدوجہد شروع نہیں کی تھی-نہرو رپورٹ ہندو قومیت کی بالادستی قائم کرنے اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی پالیسی کا واضح ثبوت تھی اور قائد اعظم کے چودہ نکات کو ٹھکرا کر کانگریس اپنے مقاصد واضح کر چکی تھی- سیکولر ازم اور انڈین نیشنل ازم کا لبادہ اوڑھے ہندو رہنما کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو اپنا غلام بنانے پر تُلے تھے تاکہ برصغیر سے ان کا نام و نشان مٹانے کی کاوشوں کو کامیاب بنایا جائے اور خدانخواستہ سپین کی تاریخ کو یہاں بھی دہرایا جائے- ایسے میں خطبہ الٰہ اباد نے مسلمانوں کو نہ صرف ان حالات میں منزل کا نشان عطا کیا بلکہ وہ بنیادی فکری ڈھانچہ مہیا کیا جس نے قومیت پرست ریاستوں (نیشن سٹیٹ) کے دور میں مسلمانوں کو اپنی سیاسی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی بقاء کیلئے راستہ دکھایا-انہوں نے اپنی شاعری اور نثر سے بھی یہ واضح کیا تھا کہ اسلام محض عبادات و رسومات کے مجموعہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک سیاسی، ثقافتی و معاشی قوت بھی ہے اسی لئے تو وہ فرماتے ہیں:

مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

 

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد![2]

آج ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں سے روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک دو قومی نظریہ کی اہمیت کو مزید اجاگر کر رہا ہے- ایسے میں جہاں ہمیں ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق، اسلامی ورثہ اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے آواز اٹھانی چاہئے وہیں دوقومی نظریہ کو اپنےقلب و اذہان میں مزید تقویت دینی چاہئے اور علامہ اقبال کی بصیر ت کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنانا چاہیے-


[1](بالِ جبریل)

[2](ضربِ کلیم)

 الٰہ آباد کے نام میں تبدیلی، دو قومی نظریہ

اور علامہ اقبال

بھارتی ریاست اتر پردیش میں بھارتی جنتا پارٹی(بی جے پی) کے اسلام دُشمن وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے تاریخی، تہذیبی اور مذہبی حوالے سے انتہائی اہم شہر الٰہ آباد کا نام تبدیل کر کے پریاگ راج رکھے جانے کا اعلان کیا ہے-ممکن ہے بعض حلقوں میں اس اعلان کو حیرانگی سے دیکھا جا رہا ہو مگر تاریخی حقائق یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں کرتے ہیں کہ یہ اعلان اُس انتہاء پسند ہندو ذہنیت اور پالیسیوں کا تسلسل ہے جن کے باعث بانیانِ پاکستان نے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں اور اسلام کی بقا و سلامتی کیلئے الگ مملکت حاصل کی اور شدت پسند حکومت کے تناظر میں زیادہ حیرانگی کا سبب نہیں ہے-

الٰہ آباد کا نام مغل بادشاہ اکبر کے دور میں رکھا گیا تھا-یہ شہر مذہبی اور تاریخی حوالے سے بہت اہم ہے-تحریکِ پاکستان کیلئے بنیادی فکری ڈھانچہ تشکیل دینے والا علامہ اقبال کا مشہور تاریخی خطبہ ’’خطبہ الٰہ آباد‘‘ اسی شہر میں دیا گیا تھا- اسی خطبہ میں علامہ اقبال نے وہ عظیم فکر دی تھی جس نے اسلامی ریاست کے بنیادی خدوخال وضع کئے اور ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق اور اس ضمن میں اسلامی ثقافت کی اہمیت واضح کی-

ہندوستان کے آج کے حالات بانیانِ پاکستان کے خدشات کے مطابق نظر آتے ہیں- جہاں کبھی گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جاتی ہے، کبھی بابری مسجد کو شہید کر دیا جاتا ہے،گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کا خون بہایا جاتا ہے، کشمیر میں لاکھوں بے گناہوں کا خون بہا دیا جاتا ہے، تاریخی علی گڑھ یونیورسٹی سے قائداعظم کو تصویر کو ہٹا دیا جاتا ہے - یہ تمام تناظر بھارتی انتہاء پسند ہندوؤں کی پالیسوں کا نتیجہ ہے جو اکھنڈ بھارت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور بھارت سے ہندو ازم کے علاوہ کسی بھی مذہب اور کمیونٹی کا نام و نشان مٹانے پر تلے ہیں-اسی شدت پسندی کے باعث ہندوستان کی دیگر اقلیتیں بھی سراپا احتجاج ہیں اوراس وقت پچیس (25)سے زائد علیحدگی کی بڑی تحریکیں چل رہی ہیں جبکہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر و جونا گڑھ ان کے علاوہ ہیں- اگرچہ  بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ نا روا سلوک کوئی نئی بات نہیں لیکن ایک دہشت گرد تنظیم  راشٹریا سویم سیوک سنگھ کی سیاسی پارٹی بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اقلیتوں پہ مظالم میں شدت آئی ہے- مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد بھارت کا اصلی چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوا ہے اورساتھ ہی ساتھ اس کے نام نہاد سیکولر ازم سے پردہ مکمل طور پر اٹھ گیا ہے کہ کس طرح مذہبی اقلیتیں مظالم کا شکار ہیں- مگر اس کے باوجود عالمی برادری کی جانب سے بھارتی حکومت کو کسی قسم کے دباؤ میں لانے یا اس پر رد عمل دینے کی بجائے بھارت کو ہیومن رائیٹس کونسل کا نمائندہ منتخب کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اقوامِ عالم کیلئے انسانیت کی اہمیت محض معاشی فوائد کیلئے ہے اور وہ اپنے سیاسی و معاشی مفادات کیلئے حقائق سے منہ موڑنے سے نہیں کتراتے- اس عالمی منظر نامہ میں اسلام کی بطور ایک سماجی، سیاسی، ثقافتی، تمدنی اور تہذیبی قوت کے زندہ رہنے کیلئے دو قومی نظریہ سے زیادہ مؤثر کوئی نظریہ نہیں ہو سکتا-عالمی نظام کے معاشی و سیاسی فوائد کی پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘ میں فرمایا تھا کہ :

یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت

 

پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات[1]

الٰہ آباد کے نام کی تبدیلی یہ بھی واضح کرتی ہے کہ دو قومی نظریہ آج پہلے سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے- دو قومی نظریہ اور اسلامی ریاست کی وضاحت میں بانیانِ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ اسلامی ریاست مذہبی سٹیٹس کو کی نمائندہ نہیں ہو گی بلکہ اس میں ریاستِ مدینہ کی طرح تمام تر اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ہوگی-

یہاں ایک کنفیوژن کا ازالہ کرنا ضروری ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان سے ہونے والا امتیازی سلوک کوئی نئی چیز ہے اور نہ ہی یہ تقسیمِ ہند کے بعد شروع ہوا- اس ضمن میں بھی خطبہ الٰہ آباد کا پس منظر واضح کرتا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ نے الگ مملکت کے حصول کیلئے جدوجہد شروع نہیں کی تھی-نہرو رپورٹ ہندو قومیت کی بالادستی قائم کرنے اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی پالیسی کا واضح ثبوت تھی اور قائد اعظم کے چودہ نکات کو ٹھکرا کر کانگریس اپنے مقاصد واضح کر چکی تھی- سیکولر ازم اور انڈین نیشنل ازم کا لبادہ اوڑھے ہندو رہنما کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو اپنا غلام بنانے پر تُلے تھے تاکہ برصغیر سے ان کا نام و نشان مٹانے کی کاوشوں کو کامیاب بنایا جائے اور خدانخواستہ سپین کی تاریخ کو یہاں بھی دہرایا جائے- ایسے میں خطبہ الٰہ اباد نے مسلمانوں کو نہ صرف ان حالات میں منزل کا نشان عطا کیا بلکہ وہ بنیادی فکری ڈھانچہ مہیا کیا جس نے قومیت پرست ریاستوں (نیشن سٹیٹ) کے دور میں مسلمانوں کو اپنی سیاسی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی بقاء کیلئے راستہ دکھایا-انہوں نے اپنی شاعری اور نثر سے بھی یہ واضح کیا تھا کہ اسلام محض عبادات و رسومات کے مجموعہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک سیاسی، ثقافتی و معاشی قوت بھی ہے اسی لئے تو وہ فرماتے ہیں:

مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

 

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد![2]

آج ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں سے روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک دو قومی نظریہ کی اہمیت کو مزید اجاگر کر رہا ہے- ایسے میں جہاں ہمیں ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق، اسلامی ورثہ اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے آواز اٹھانی چاہئے وہیں دوقومی نظریہ کو اپنےقلب و اذہان میں مزید تقویت دینی چاہئے اور علامہ اقبال کی بصیر ت کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنانا چاہیے-



[1](بالِ جبریل)

[2](ضربِ کلیم)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر