پاکستان میں یتیمی کا شکار علمِ فلسفہ

پاکستان میں یتیمی کا شکار علمِ فلسفہ

پاکستان میں یتیمی کا شکار علمِ فلسفہ

مصنف: محمد ذیشان دانش ستمبر 2016

لفظ فلسفہ کا مآخذ دو یونانی الفاظ فلو اور سوفی ہیں جن کا لغوی معنی ’’حکمت سے محبت‘‘ ہے - ان معنوں کی روشنی میں علم و حکمت سے محبت کرنے والوں کو فلسفی کہا جاتا ہے- فلسفہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی عقل کے ارتقائ کی تاریخ، اگر فلسفہ کی تعریف کریں تو جان جائیں گے کہ سوشل سائنسز کے علوم کی طرح فلسفہ کی بھی کوئی حتمی تعریف نہیں ہے- اس علم کے اکابرین نے اس کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھا ، پرکھا اور بیان کیا ہے- اگر ہم یونانی فلاسفہ کی بات کریں تو افلاطون کے مطابق :

فلسفہ اشیائ کی ماہیت، لازمی اور ابدی علم کا نام ہے- 

ارسطو کے بقول: علم فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات خود کیا ہیں-

 زینو کے مطابق: علم، نیکی ، فضلیت اور ایسی دانش کا حصول فلسفہ ہے جو خدائی مشیت سے ہم آہنگ کر دے -جبکہ

عمانویل کانٹ کے بقول: فلسفہ اِدراک اور تعقل کے انتقاد کا علم ہے- مختصراً! علم، فکر، پیمائش اور حکمت کی مدد سے تلاشِ حقیقت کا نام فلسفہ ہے- 

نئے مسائل وقت کے ساتھ ساتھ جنم لیتے رہے ان سے متعلق انسانی ذہنوں میں اٹھتے، مضطرب کرتے، بے چین کر دینے والے سوالوںکا جواب علم، منطق اور استدلال کے ساتھ فلسفہ سے دی جانے کی کوشش کی جاتی رہی- ان جوابات کی روشنی میں کئی نئے سوالوں نے جنم لیا جن کے جوابات کے لئے نئی نئی سوچیں اور خیالات ایک دوسرے کے مدمقابل آتے رہے اس طرح مکالمہ اور، بحث کے ذریعے افزائش علم ہوتی رہی اور نئے علومِ انسانی دسترس میں آتے رہے- علم کا سفر علم سے محبت کرنے والوں کی وجہ سے جاری و ساری ہے اور یقینا ابد الآباد تک جاری رہے گا- فلسفہ کو ’’اُمّ العلوم ‘‘ ﴿mother of knowleges﴾ بھی کہا جاتا ہے اور آج کے دور کے تقریبا تمام علوم نے علمِ فلسفہ کے بطن سے جنم لیا ہے جن میں ریاضی ﴿Math﴾، طبعیات ﴿Physics﴾، علمِ کیمیا ﴿chemistry﴾ ، علمِ منطق ﴿Logic﴾، علمِ نفسیات ﴿Psychology﴾ اور معاشرتی علوم ﴿Social Sciences﴾ یا جنہیں عرف عام میں اب ہم سوشل سائنسز کہتے ہیں مختصرا یہ کہ نیچرل سائنسز اور سوشل سائنسز دونوں علمِ فلسفہ کی عطا کردہ ہیں- اس کے ساتھ فلسفہ، علم دینیات ﴿Theology﴾ پر بھی الگ سے بحث کرتا ہے- اِس موضوع پر کہ فلسفہ کس کس موضوع پر بحث کرتا ہے، مفکرین نے مستقل کتب تصنیف کی ہیں لیکن ایک بُنیادی انڈر سٹینڈنگ کے لئے علمِ فلسفہ کی چند اقسام دیکھیں گے کہ فلسفہ کس کس موضوع تک پھیلا ہوا ہے- 

علم فلسفہ کی اقسام:

ما بعد الطبعیاتی ﴿Metaphysical﴾: انسانی فطرت کے دو پہلو ہیں؛ ظاہر ﴿مادی دنیا، عقل اور جسم﴾ اور باطن ﴿روح اور الہام﴾- ان دونوں کے اشتراک، اتحاد اور فکر و تدبر کو بروئے کار لا کر کائنات کو ایک کل تصور کرنا جسے حقیقتِ مطلق یا کامل مکمل اکمل سچائی کہا جاتا ہے- اس سچائی کی جستجو کا نام علمِ ما بعد الطبعیات ہے- 

ریاضیاتی﴿Mathametical﴾: فلسفہ سے متعلقہ یہ علم کی ایک اہم شاخ ہے جسے تقریباً ہر عظیم فلسفی نے اپنے مؤقف کی تائید کے لئے استعمال کیا اور دیگر کا استرداد ﴿Rejection﴾ اس کے کلیوں ﴿Formulas﴾ سے کیا- اِس علم کا بُنیادی ارتقا قدیم مصری تہذیب میں ہوا جہاں سے یونانی فلسفیوں نے سیکھا اور فیثاغورث نے اِسے فلسفیانہ مسائل کے حل کیلئے ایک مؤثر ذریعہ کے طور پہ متعارف کروایا - جدید سائنس میں اسے مزید اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور اسے کائنات کے اسرار و رموز جاننے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے-

علمیاتی ﴿Scientific﴾: فلسفہ کی یہ قسم علم، عقیدے اور تصورات وغیرہ کے دائرہ کار کی وسعت، جائز و ناجائز ، درست و نا درست وغیرہ کا مطالعہ اور تجزیہ کرتا ہے- مثلا سچائی، ایمان، جھوٹ، حقیقت، کائنات، قانون، اچھا اور برا کیا ہے اور مختلف علوم، عقیدے اور تصورات کے بارے میں تنقید اور بحث کا جواز فراہم کرتا ہے- 

جمالیاتی ﴿Aesthetic﴾: فلسفہ کی اس شاخ کا تعلق فنون لطیفہ اور اس سے جڑے نظریات کے ساتھ ساتھ ذہن، جذبات، تصورات عشق و خرد کے انفرادی اور اجتماعی ذوق کا مطالعہ کرتی ہے - 

فلسفہ اخلاقیات﴿Moral Philosophy﴾: فلسفہ کی یہ شاخ فکر، رویے اور کردار کے صحیح اور غلط ہونے کی تعریف اور استدلال منظم طور پر پیش کرتی ہے درست اور نادرست کا فیصلہ کرنے میں مددگار اور معاون ہوتی ہے ساتھ ساتھ اصول و ضوابط طے کرتی ہے کہ درست کس طرح درست اور غلط کن دلائل اور وجوہات کی بنائ پر غلط ہے- معاشرے میں اچھائی کے فروغ اور برائی کے قلعہ قمع کے لئے فلسفۂ اخلاقیات کی مدد لی جاتی ہے- انفرادی سطح پہ سیرت کی تعمیر اور کردار سازی وغیرہ کے تمام مباحث اخلاقیات کے ضمن میں آتے ہیں- 

منطق﴿Logic﴾: منطق فلسفہ کے تمام علوم کی بنیاد فراہم کرنے والی شاخ ہے- منطق سوال و جواب اور اصول و ضوابط کے درست ہونے اور معیار کے تعین کے مطالعہ کا نام ہے- گو کہ اِس علم کی بُنیاد ہی فلسفہ کی بُنیاد تھی مگر اس کو باضابطہ علمی طور پہ ارسطو نے متشکل کیا اور مسلمانوں نے بھی اس علم سے خاص شغف رکھا اور اِسے بامِ عروج پہ پہنچایا -

علم لسانیات﴿Linguistic knowledge﴾: علمِ فلسفہ کی یہ شاخ علم و تصورات کے انتقال اور ترویج کا ذریعہ ہے- اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی زبان کا استعمال ترک کر دیا جائے تو اس خاص زبان میں موجود تمام علم بھی ضائع یا محدود ہو جاتا ہے- جیسے برصغیر میں زبانِ فارسی کا انجام ہوا اور بعض زبانیں جن میں فلسفہ کے عظیم لوگ پیدا ہوتے رہے اُن کو علمِ فلسفہ میں ایک خاص مقام حاصل ہے جیسے قدیم یونانی زبان، عربی، لاطینی، سنسکرت، فارسی ، فرنچ، جرمن اور انگریزی وغیرہ- 

علمِ فلسفہ کے معاشرتی اثرات ﴿Social Impacts﴾: جیسے کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ فلسفہ’’ اُمّ العلوم‘‘ ہے اور آج کے دور میں مروجہ علوم کا ماخذ بھی علمِ فلسفہ ہے- اگر ہم معاشرتی اثرات کا جائزہ لیں تو جان سکیں گے کہ آج کے دور کی ترقی، ایجادات و کمالات، ادارے، قانون، معاشرت ، سب فلسفہ کی بدولت ہیں کیونکہ علم فلسفہ کائنات، فطرتِ انسان اور معاشرے کے مابین تعلق اور رشتے کو بیان کرتا ہے اس لئے علمِ فلسفہ کے معاشرتی پہلو سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا- تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان حقائق کی کھوج میں ہمیشہ سرگرداں رہا ہے- 

کائنات کیا ہے؟ زندگی کے کیا معنی ہیں؟ کیا ہم پیدا ہونے سے پہلے موجود تھے؟ کیا ہم مر جانے کے بعد دوبار ہ جی اٹھیں گے؟ ہم کون ہیں؟ ہم کہاں سے آئے ہیں؟ ہم کیا کرنے آئے ہیں ؟ ہم نے لوٹ کے کہاں جانا ہے؟ زندگی کیا ہے؟ موت کیا ہے؟ موت کیوں ہے؟ روح کیا ہے؟ مادہ کیا ہے؟ انسان بذات خو د کیا ہے؟ ا ختیارِ انسانی کیا اور کتناہے؟  زمان کیا ہے؟ مکان کی حدود کیا ہیں؟ حقیقت کیا ہے؟ ادراکِ حقیقت کیونکر ممکن ہے؟ ا ور ایسے بہت سے سوالات نے انسان کو بے چین اور مضطرب کئے رکھا ہے- 

انسانی فکر ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں سرگرداں رہی ہے اور اپنے اپنے موضوع، علم اور ذوقِ طبع کے تحت فلاسفہ نے ان سوالات کے جوابات دیئے بھی ہیں- اگر ہم مغرب میں فلسفہ کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں تین ادوار ملتے ہیںجن میںبے تحاشا نظریات کا مطالعہ کرنے کوملتا ہے کہ کب اور کس طرح کے نظریات نے معاشرے پر کیا اثرات مرتب کئے اور ان کی وجہ سے معاشرے کا مجموعی رویہ کیا تھا؟ مثال کے طور پر یونانی فلاسفہ کے ہاں زمین کائنات کا محور اور مرکزتھی اور سب سے زیادہ اہمیت کی حامل بھی اور پوری کائنات زمین کے گرد چکر لگا رہی تھی اس میں مذہبی رجحانات بھی شامل تھے- اگر کسی نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو اس کو سزا بھگتنا پڑتی تھی- سقراط کے زہر پینے کے پیچھے بھی ایسے ہی عوامل کار فرما تھے کہ اس نے ریاست اور حکومت کے نظریات کو اپنے فلسفیانہ نظریات سے رد کر نے کی جسارت کی- ریاستی جامد سوچ کے جبری اطلاق کے باعث معاشرے میں جدید علوم اور فنون مروج نہیں ہو پا رہے تھے- ایسے ہی درمیانی دور میں فلسفہ پر عیسائیت کا رنگ غالب رہا اور یہ رنگ اتنا پختہ تھا کہ اس کے برعکس یا اس سے میل نہ کھانے والی سوچ کو کلیسا کے نام پر کچل دیا جانے لگا جس کی وجہ سے یورپ جہالت اور بدتہذیبی میں ڈوب گیا- تیسرے دور یا ماڈرن دور کو نشاطِ ثانیہ کا دور کہا جاتا ہے اس دور کے فلاسفہ کا زور اس بات پر تھا اور اس کے اثرات آج بھی ہیں کہ مذہب کا ریاست سے کوئی سروکار نہیں اور ریاست اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں- اس فلسفہ کے اطلاق کے بعد مغرب نے مذہب کو پسِ پشت ڈالا اور خوب مادی و صنعتی ترقی کی اور سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کیا جس کے باعث خاندانی اقدار کا جنازہ نکل گیا اور خاندانی نظام کھوکھلا ہونے سے درہم برہم ہو گیا- معاشرہ ظاہری چکاچوند میں اس طرح کھو گیا کہ اسے روح کے کچلے جانے سے جو نقصان ہوا اس کاادراک بھی نہیں کر سکا-  مشرق میں رائج فلسفے کے مطابق ظاہر و باطن دونوں کو اہمیت دینے کے باعث قرونِ وسطیٰ میں کمال عروج حاصل ہوا لیکن بعد ازاں اس پر عدمِ توجہ سے مشرق میں زوال کا آغاز ہوا -

اِن امور کو مختصراً دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہر وہ فلسفہ جو کسی نہ کسی طرح معاشرے میں قبولِ عام حاصل کر لے اُس کے اثرات پوری طرح معاشرے پہ پڑتے ہیں اور اُس کی سزا جزا سے معاشرہ پوری طرح متاثر ہوتا ہے- 

اسلامی فلسفہ : ظہورِ اسلام سے قبل یونانی فلسفے کا طوطی بولتا تھا اور اگر یہ کہا جائے کہ علمِ فلسفہ پر یونان کی اجارہ داری تھی تو غلط نہ ہو گا- اسلام میں حصولِ علم کی فرضیت، حصولِ علم کی حوصلہ افزائی، جیسا کہ علم و حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے اور جنگ بدر میں پڑھے لکھے کفار قیدیوں کا مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانا، قرآن میں متعدد مقامات پر کائنات اور اپنے اندر غور و خوض کی دعوت، اہلِ علم کی فضلیت کا بیان، الغرض کہ مسلمانوں کو اللہ تبارک و تعالی کے حکم اور اس کے حبیبِ پاک ﴿w﴾ کی سنت کے عین مطابق علم کی کھوج میں اس طرح سرگرداں ہوئے کہ کوئی علم بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہ رہا- سائنس، طباعت، جراحت، دوا سازی، علمِ کیمیا، علم طبعیات، ریاضی، علم فلکیات ، ہر میدان میں مسلمانوں نے اپنے جھنڈے گاڑھ دیئے- کیونکہ مشاہدہ کرنے کی جستجو اور دعوت انہیں قرآن دیتا تھا اور ﴿رب زدنی علما﴾ کی دعا کا درس ہادی اکرم ﴿w﴾- لہٰذا مسلمانوں نے اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لئے علم کی جستجو شروع کی اور یونانی فلسفے تک جا پہنچے- مسلمان بادشاہ چونکہ خود بھی علم کے رسیا تھے اس لئے انہوں نے یونانی فلسفہ کا عربی میں ترجمہ کروایا- یہ اسلام کا سنہری دور تھا جب گھر کتب خانہ کے بغیر نامکمل تصور ہوتے تھے اور علمی مباحث عموماً ہوتے تھے- یہ وہ وقت تھا جب مغرب جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا- یونانی فلسفہ کا مطالعہ جب مسلمانوں نے کیا تو ایسے بہت سے اعتقادات اور نظریات معاشرے میں نفوذ پذیر ہونے لگے اور بہت سے سوالات جنم لینے لگے جن کا منطق، کلام اور اصول سے جواب دینا لازم ہو گیا تھا- کیونکہ مسلمانوں کے پاس کسی بھی مسئلہ کو پرکھنے کے لئے کسوٹی اور پیمانہ ’’وحی الٰہی‘‘ ہے جس پر پرکھ کر، جانچ پڑتال کر کے مسلمانوں نے یونانی فلسفہ کو رد کیا لیکن اس کا ایک فائدہ جو مسلمانوں کو ہوا وہ یہ تھا کہ یونانی فلسفے سے بحث کرنے کے بعد بہت سے سوالات اور مسائل نے جنم لیا جن کے جوابات کی تلاش میں مسلمانوں نے تحقیق اور جستجو سے مدد حاصل کی- تحقیق اور جستجو کو چونکہ مسلمان اپنی گمشدہ میراث سمجھتے ہیں لہٰذا نئے مسائل کا حل اسلام کے اصولوں کے مطابق اجتہاد کے ذریعے کرتے رہے- یونانی فلسفہ پڑھنے والے کچھ لوگ ایسی بنیادوں کو اپنا بیٹھے جنہوں نے انہیں صرف ظاہر تک محدود کر دیا جس کے سبب وہ گمراہ ہوئے جیسے بعض معتزلی عقائد رکھنے والے اور منکرینِ حدیث وغیرہ- لیکن اسلامی دنیا کے عظیم نام جیسے امام ابو الحسن الاشعری، حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی(رح)، امام ماتریدی (رح) امام فخر الدین الرازی جیسے جید صاحبانِ علم نے باطل عقائد کا رد فلسفہ کے اصولوں کے مطابق ، علم و منطق اور دلیل سے کیا- آغاز سے ہی مسلمان معاشرے نے فلاسفہ کو پیدا کرنا شروع کر دیا تھا جس کی وجہ سے معاشرہ ترقی و تمدن کے زینے سرعت سے طے کرتا رہا- اگر ہم نظر دوڑائیں تو جان لیں گے کہ کس طرح ایک کے بعد ایک فلسفی معاشرے کو ایک ڈگر ، ایک سمت پر رکھنے کے لئے کام کرتا رہا- 

مضمون کی طوالت سے بچنے کے لئے ہم صرف مسلمان فلاسفہ کے نام لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے اگر صرف ایک کے کام کے کسی ایک گوشے کا جائزہ لیا جائے تو ایسے کئی مضامین بھی اس کام کو سمجھنے کے لئے ناکافی ہوں گے چہ جائیکہ کہ ہم ایک مضمون میںہر ایک کے علمی کاموں کے فلسفیانہ پہلوئوں کا جائزہ لیں- ان فلاسفہ کے تواتر سے آنے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم معاشرہ کیوں اور کس طرح روبہ عروج رہا - اُن میں سے چند ایک عظیم شخصیّات کے سنِّ تولُّد و سنِّ وفات ﴿باعتبار سنِّ عیسوی﴾ کو ذکر کرتے ہیں جو اِس بات کا زندہ ترین ثبوت ہے کہ زندہ معاشروں میں علمی جمود اور فکری تعطّل کی فضا قائم نہیں ہوتی-  

امام حسن بصری ﴿642-728﴾- الکندی ﴿801-873﴾امام ابو الحسن اشعری ﴿874-936﴾- امام ماتریدی ﴿853-944﴾- فخر الدین الرازی ﴿854-926﴾- ابو نصر الفارابی ﴿ 872-950﴾ ابن مسکویہ ﴿932-1030﴾ - ابن سینا ﴿980-1037﴾ ابن باجہ ﴿1085-1138﴾- امام غزالی ﴿1058-1111﴾ ابن طفیل ﴿1105-1185﴾- ابن رشد ﴿1126-1198﴾ فخر الدین رازی ﴿ 1149-1209﴾- شیخ ابن عربی ﴿ 1165-1240﴾ مولانا رومی ﴿1207-1273﴾- ابن خلدون ﴿1332-1406﴾ عبد الکریم الجیلی ﴿1366-1424﴾ 

ان صاحبانِ فلسفہ کی بدولت مسلم معاشرہ ترقی کے زینے طے کرتا رہا لیکن افسوس جب ہم نے بڑے فلاسفر پیدا کرنے چھوڑ دیئے تو ناکامی، لاعلمی، اور جہالت ہمارا مقدر بن گئی- لیکن افسوس اس بات کا زیادہ ہے کہ لا علمی اور جہالت کی وجہ سے جو ذلت ہمارا مقدر بن رہی ہے اس کا احساس ہمیں نہیں ہو رہا- بقول اقبال :-

وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ﴿بانگِ درا﴾

مغرب اور فلسفہ :

مسلمان علاقائی اور علمی فتوحات کرتے یورپ کی دہلیز تک جا پہنچے جہاں جہالت اپنی پوری تاریکی کے ساتھ رقص کناں تھی مسلمانوں نے وہاں علم و ہنر کی بنیاد رکھی او ر اس طرح اہل یورپ کی رسائی فلسفہ اور دیگر علوم تک ترجمہ کی بدولت ممکن ہوئی مسلمانوں کا یورپ پہنچ جانا گویا کہ تاریکی میں روشنی کر دینے کے مترادف تھا- آہستہ آہستہ یورپ علم کی روشنی سے روشناس ہوا اور چند صدیوں میں ترقی اور روشن خیالی ﴿ سوال کرنے کی جسارت اور جواب کو برداشت کرنے کا حوصلہ﴾ کے سفر پر رواں دواں ہوا- ادھر مسلمان معاشرہ سستی، کاہلی اور غیر معیاری سرگرمیوں میں الجھ کر رہ گیا- فلاسفہ اور اہل علم کی پیداوار بند ہو گئی ، مردم خیز معاشرہ قحط الرجال کا منظر پیش کرنے لگا، نئے سوالات اور جستجو کرنے والے آہستہ آہستہ ناپید ہوتے گئے، علما ئ ایک دوسرے کو نیچے دکھانے میں مصروف ہوئے، فلاسفہ اپنے شاگردوں کی واہ واہ کو سمیٹنے کو حرف آخر سمجھ بیٹھے ، ارباب اقتدار اپنے کام دھندوں میں ایسے مصروف ہوئے کہ علم کی ترویج کا ہوش کھو بیٹھے- کہیں کہیں سے چند آوازیں علم و فلسفہ کے احیائ کی اٹھتی رہیں اور بعض رجالِ عظیم اِس کاوش میں جہُد کرتے رہے لیکن مجموعی طور پر معاشرہ جامد، علمی تساہل کا مارا اور سطحی علم پر اترانے والا بن گیا- ترجیحات بدل جانے کی بنائ پر جامعات اور مدارس کی تعداد میں اضافہ رک گیا، نتیجے کے طور پر ایجادات رک گئیں، تحقیق غیر موثر ہو گئی، مسلمان تنزلی کا شکار ہونے لگے ، جس سے ترقی کا سفر رک گیا اور مسلمان اغیار کے محتاج ہو کر رہ گئے- فطرت کے قوانین کے مطابق:- 

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

 مسلمانوں کی سلطنت سکڑنے لگی، لوگ اسلامی سلطنت کے کنٹرول سے باہر ہونے لگے لیکن مسلمانوں کو ہوش نہ آیا- پھر مسلمان اغیار کی کالونی بن کر رہ گئے- اس دوران مغرب ایک سے ایک ذہن پیدا کرتا رہا - چودہویں صدی میںمغرب کی نشاط ثانیہ ہوئی اور وہاں بڑے بڑے دماغ پیدا ہوئے جنہوں نے معاشرے کی ترجیحات بدلیں - جب ہمارے ہاں محلات بن رہے تھے مغرب جامعات کی بنیادیں رکھ رہا تھا- نتیجے کے طور پر کانٹ، ہیگل، نطشے ، گلیلیو ، نیوٹن، آئن سٹائن، زاں زاک روسو، برگساں، گوئٹے، کارل مارکس اور بیشمار ان جیسے افراد پیدا ہوئے- کامیابی ان کا مقدر ٹھہری اور آج خود کامیابی ان کے قدموں کو چومنے پر فخر کرتی ہے-لہٰذا اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک ایسا جوانمرد عطا کیا جس نے وہ فلسفہ حیات پیش کیا کہ جس سے سے دنیا کا نقشہ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار بدلا، اس عظیم شخصیت کا نام علامہ محمد اقبال (رح)ہے- جس نے مشرقی و مغربی فلاسفہ کا انتہائی گہرائی سے مطالعہ کیا اور مغرب میں جا کر مغربی تہذیب کو قریب سے دیکھا ، مغربی تعلیم حاصل کی لیکن اس سے عام لوگوں کی طرح متاثر نہ ہوئے بلکہ مغربی فلسفے اوراس کی بنائ پر بننے والی تہذیب کا تجزیہ کیا کیونکہ علامہ اقبال کے فلسفے کا ماخذ، وحی الٰہی اور فلسفہ کی قوت عشقِ رسول ﴿ö ﴾ہے لہٰذا علامہ فرماتے ہیں:- 

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف﴿بالِ جبریل﴾

جب علامہ کے فلسفیانہ افکار ﴿ یاد رہے کہ مغرب کے فلاسفہ کی طرح علامہ صرف فلسفی نہیں، بلکہ اسلام کے اوائل کے فلاسفہ کی طرح کئی جہتوں کے مالک ہیں﴾ سے مسلمان مستفید ہوئے تو دو سامراجوں ، انگریز اور ہندو سے نجات اور آزادی حاصل کر کے ایک الگ اور آزاد وطن پاکستان حاصل کر لیا- فکرِ اقبال کو ہی رہنما بنا کر وسط ایشیائی ممالک نے بھی آزادی حاصل کی - اقبال عالمِ انسانیت کا فلسفی ہے اس لئے ان کی کتابوں کاترجمہ ان کی زندگی میں ہی دوسری زبانوں میں ہونا شروع ہو گیا تھا اور اغیار نے بھی ان کے فلسفہ سے استفادہ کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں- تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جس معاشرے میں علم کی اشاعت اور فلسفہ کا پرچار ہوتا رہے گا اس میں ترقی اور تہذیب کا دور دورہ رہے گا- اگر فلسفی یعنی علم و حکمت سے محبت کرنے والے معاشرے میں موجود نہیں ہوں گے معاشرہ تنزلی کا شکار رہے گا- آج پھر افسوس کا مقام ہے کہ حضرت علامہ کے بعد ہم کوئی ایسا فلسفی نہیں پیدا کر سکے جو پاکستان اور زوال پذیر امتِ اسلامیہ کو عروج کی طرف لے جائے- اگر آج بھی ہم نشاطِ ثانیہ چاہتے ہیں تو ہمیں فلسفۂ اقبال کی طرف لوٹنا ہو گا- حضرت علامہ ہم پر یہ احسان ضرور کر گئے ہیں کہ ان کا فلسفہ اور قرآن سے مستعار لی گئیں تعلیمات ہم میں موجود ہیں جو نشاطِ ثانیہ کے لئے مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں لیکن ہم ہی ان سے منہ موڑ کر بیٹھے ہیں- اگر ہم فلسفہ اقبال جو کہ فلسفہ قرآن ہے، سے رہنمائی لیں تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ ایک بار پھر نئے زمانے کے مسائل اور چیلنجز سے نبرد آزما نہ ہو سکیں- ان پر علم درآمد سے امت طرز کہن پر اڑنا چھوڑ کر آئینِ نو کو اپنا لے گی- یہ ایک فطری اصول ہے کہ جس قوم نے علم میں ترقی حاصل کی وہی کامیاب و کامران ہوئی ہے- 

فلسفہ کیوں ضروری ہے؟

فلسفہ کے فوائد :اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو جان پائیں گے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی میں سب سے بڑا ہاتھ فلاسفہ کا ہے کیونکہ فلاسفہ اپنی سوچ کو ایک منظم انداز میں زمانے کی بہتری کے لئے زمانے کی طرف منتقل کرتے ہیں- علومِ فلسفہ پر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ علم فلسفہ کا حصول کرنے والوں کی ذہنی استعداد باقی لوگوں سے بہتر ہوتی ہے- فلسفہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے، سوال کرنے کی ہمت دیتا ہے، جواب تلاش کرنے کی جستجو پیدا کرتا ہے- ایک ہی بات کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کا نقطہ نظر دیتا ہے، کسی بھی شئے کی حقیقت میں جھانکنے والی بصیرت دیتا ہے، اشیائ و تصورات کی گہرائی اور گیرائی ماپنے کی قوت دیتا ہے، صحیح اور غلط کی تمیز کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے، ذہن میں وسعت پیدا کرتا ہے- مسلسل بحث کی عادت کی وجہ سے جہاں برداشت پیدا کرتا ہے وہیں تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے- دلائل اور استدلال کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے- جس معاشرے میں افراد کی ایک بڑی تعداد علم فلسفہ کی طرف مائل ہو وہاں تشدد اور وحشت کا عام ہونا مشکل ہوتا ہے وہاں اہل شعور کسی بھی زیادتی اور جبر کے خلاف آواز جلدی بلند کرتے ہیں اور ظلم کو پنپنے میں دشواری ہوتی ہے- اس کے برعکس جہاں علم و فلسفہ رائج نہ ہو وہاں عوام خود کو قانون سمجھتے ہوئے آگے بڑھ کر قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور پھر وحشت اور درندگی کا وہ راج چلتا ہے کہ انسانیت سسکتی بلکتی رہ جاتی ہے اور اس کے خلاف آواز بلند کرنے میں جتنی دیر ہو ظلم کا راج اتنا زیادہ اور دیر پا ہوتا ہے جسے کوئی مرد میدان کلمہ حق بلند کر کے سخت محنت کے بعد ختم کرتا ہے- فلسفہ معاشرے میں جذبہ حریت پید ا کرتا ہے اقبال کی مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ زندہ فلسفہ یا زندگی کا فلسفہ حریت و آزادی کا کارخانہ ہے- جب یہ کارخانہ کام نہیں کرے گا تو ملائیت کے بطن سے جمود اورمایوسی جنم لے کر معاشرے میں سرایت کر جائے گی- فلسفہ جمود اور مایوسی کے تدارک کا کام کرتا ہے- فلسفہ زندگیوں میں آسانی پیدا کرتے ہوئے عہد جدید کے مسائل پر سیر حاصل گفتگو کر کے معاشرے کے بیشتر حصوں کے لئے قابل قبول حل فراہم کرتا ہے-

پاکستان میں علم فلسفہ کی ترویج میں مسائل اور چیلنجز :

پاکستان میں علم فلسفہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہے بلکہ میں تو کہوں گا کہ یتیمی کی سی کیفیت سے دوچار ہے- مدارس میں بتدریج علم فلسفہ کا رجحان بہت سطحی نوعیت کا رہ گیا ہے بلکہ اکثرمدارس نے تو اپنے نصاب سے کتبِ فلسفہ کو خارج کر دیا ہے اور یونیورسٹیوں کا حال بھی اس سے بہتر نہیں- جوں جوں علم ایک بزنس انڈسٹری بنتا جا رہا ہے توں توں ایسے علوم جو براہ راست پیداوار یا پروڈکشن سے مطابقت نہیں رکھتے ان کو پڑھانے کا تکلف نہیں کیا جا رہا- پاکستان کی ترقی کے لئے لمحہ فکر یہ ہے کہ ایسا تعلیمی نظام رائج کیا جا رہا ہے جس سے ٹائپسٹ اور کلرک تو بن رہے ہیں لیکن ملک کے مستقبل کی سوچ رکھنے والے افراد تیار نہیں کئے جا رہے- پاکستان میں گنتی کی چند جامعات ہیں جہاں فلسفہ باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے اور ان جامعات میں بھی ان طلبائ کی تعدا د جو فلسفہ پڑھنے کے لئے داخلہ لیتے ہیں باقی شعبہ جات کے طلبائ کے عشر عشیر بھی نہیں ہے- انٹر میڈیٹ کی سطح پہ بھی دیکھیں تو وفاقی دار الحکومت میں صرف دو کالج ہیں جہاں فلسفہ کی کلاسیں آفر کی جاتی ہیں باقی شہروں خاص کر پسماندہ علاقوں کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں- اگر ہم باقی شعبہ جات اور فلسفہ کے طلبائ کی ریشو نکالیں تو ہمیں یہ سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ایک ملے گی- پاکستان میں چونکہ حصولِ علم کا مقصد بلکہ حصول ڈگری کا مقصد کہیں نوکری تلاش کر کے معاش کے جھنجھٹ میں خود کو جھونکنا ہوتا ہے اور نوجوان یہ جانتا ہے کہ فلسفہ پڑھ کر کہیں نوکری نہیں ملے گی لہٰذا ان کا رجحان فلسفہ کی طرف نہیں بلکہ بزنس ایڈمنسٹریشن، کمپیوٹر سائنسز، انجینیرنگ وغیرہ کی طرف ہے اور وہ جامعات جو کہ فلسفہ کے ڈیپارٹمنٹ رکھتی ہیں وہ بھی اس شعبہ کو اتنا پروموٹ نہیں کرتیں جس کا یہ شعبہ حق دار ہے- حکومت کا رویہ بھی علم فلسفہ کے ساتھ سوتیلوں بلکہ بد ترین دشمنوں جیسا ہے- سیاسی جماعتیں فقط ریت، بجری اور سیمنٹ سے بننے والے انفراسٹکچر کو ہی ترقی سمجھ بیٹھی ہے حالانکہ حکیمِ اُمت نے تقریبا 80 سال پہلے بتا دیا تھا کہ اکستان میں علم فلسفہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہے بلکہ میں تو کہوں گا کہ یتیمی کی سی کیفیت سے دوچار ہے- مدارس میں بتدریج علم فلسفہ کا رجحان بہت سطحی نوعیت کا رہ گیا ہے بلکہ اکثرمدارس نے تو اپنے نصاب سے کتبِ فلسفہ کو خارج کر دیا ہے اور یونیورسٹیوں کا حال بھی اس سے بہتر نہیں- جوں جوں علم ایک بزنس انڈسٹری بنتا جا رہا ہے توں توں ایسے علوم جو براہ راست پیداوار یا پروڈکشن سے مطابقت نہیں رکھتے ان کو پڑھانے کا تکلف نہیں کیا جا رہا- پاکستان کی ترقی کے لئے لمحہ فکر یہ ہے کہ ایسا تعلیمی نظام رائج کیا جا رہا ہے جس سے ٹائپسٹ اور کلرک تو بن رہے ہیں لیکن ملک کے مستقبل کی سوچ رکھنے والے افراد تیار نہیں کئے جا رہے- پاکستان میں گنتی کی چند جامعات ہیں جہاں فلسفہ باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے اور ان جامعات میں بھی ان طلبائ کی تعدا د جو فلسفہ پڑھنے کے لئے داخلہ لیتے ہیں باقی شعبہ جات کے طلبائ کے عشر عشیر بھی نہیں ہے- انٹر میڈیٹ کی سطح پہ بھی دیکھیں تو وفاقی دار الحکومت میں صرف دو کالج ہیں جہاں فلسفہ کی کلاسیں آفر کی جاتی ہیں باقی شہروں خاص کر پسماندہ علاقوں کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں- اگر ہم باقی شعبہ جات اور فلسفہ کے طلبائ کی ریشو نکالیں تو ہمیں یہ سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ایک ملے گی- پاکستان میں چونکہ حصولِ علم کا مقصد بلکہ حصول ڈگری کا مقصد کہیں نوکری تلاش کر کے معاش کے جھنجھٹ میں خود کو جھونکنا ہوتا ہے اور نوجوان یہ جانتا ہے کہ فلسفہ پڑھ کر کہیں نوکری نہیں ملے گی لہٰذا ان کا رجحان فلسفہ کی طرف نہیں بلکہ بزنس ایڈمنسٹریشن، کمپیوٹر سائنسز، انجینیرنگ وغیرہ کی طرف ہے اور وہ جامعات جو کہ فلسفہ کے ڈیپارٹمنٹ رکھتی ہیں وہ بھی اس شعبہ کو اتنا پروموٹ نہیں کرتیں جس کا یہ شعبہ حق دار ہے- حکومت کا رویہ بھی علم فلسفہ کے ساتھ سوتیلوں بلکہ بد ترین دشمنوں جیسا ہے- سیاسی جماعتیں فقط ریت، بجری اور سیمنٹ سے بننے والے انفراسٹکچر کو ہی ترقی سمجھ بیٹھی ہے حالانکہ حکیمِ اُمت نے تقریبا 80 سال پہلے بتا دیا تھا کہ 

جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود 

کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا ﴿ضربِ کلیم﴾

ایک مسئلہ اردو زبان میں مستند اور معیاری کتب فلسفہ کی عدم دستیابی کا بھی ہے- جو دستیاب ہیں ان میں سے بھی چند ایک کو چھوڑ کر باقی سیاسی تعصُّب اور فرقہ واریت کے غبار میں اٹی ہوئی ہیں بلکہ بعض نے تو ایسی خطرناک انجنیئرنگ کی ہے کہ لفظِ فلسفہ سے بھی خوف آتا ہے- اس سلسلے میں ایک مرتبہ چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب سے تبادلہ خیال کا موقع ملا تو آپ کہنے لگے کہ’’ اگر میرا بس چلے تو میں پاکستان میں فلسفہ کے بعض مصنفین پر دفعہ 302 کے تحت ’’قتلِ فلسفہ‘‘ کا مقدمہ درج کروا دوں کہ انہوں نے فلسفہ کا قتل کیا ہے- ان میں بڑے بڑے نام بلکہ نام نہاد شامل ہیں ‘‘ - اس لئے فلسفہ پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ فلسفہ کا مطالعہ محتاط ہو کر کریں کہیں ایسا نہ ہو کسی غلط جگہ پائوں رکھ بیٹھیں جہاں تعصُّب، فرقہ واریت اور علمی و فکری نا انصافی کی غلیظ دلدل ہو - 

علم فلسفہ کو درپیش مسائل کے حل کی تجاویز:

فلسفہ چونکہ’’ اُمّ العلوم ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے جس سے نہ صرف تحقیق کے اصولوں کا ادراک کیا جا سکتا ہے بلکہ تحقیق میں مدد لی جا سکتی ہے اور نتیجتاً مختلف ایجادات کی جا سکتی ہیں لہٰذا ٭ہر مضمون کے طلبائ کو فلسفہ سے آگاہی دی جانی چاہئے- ٭ علامہ اقبال کے فلسفیانہ افکار کو تعلیمی سلیبس کا لازمی حصہ بنایا جانا چاہئے اور اُن کی فلسفیانہ تحریک کو آگے بڑھایا جانا چاہئے-٭ بزرگانِ دین کی تعلیمات بالخصوص علمِ تصوف میں موجود فلسفیانہ افکار سے نوجوان نسل کو آگاہ کیا جانا چاہئے تاکہ وہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق نہ صرف دنیا میں آگے بڑھ سکیں بلکہ اپنا روحانی مقام بھی پا سکیں- ٭ تمام اہم علوم بشمول علم فلسفہ کی ترویج حکومتی سطح پر ہونی چاہیئے-٭ دنیا میں بڑی سطح پر برپا ہونے والے علمی انقلابات کی بنیاد رکھنے والے فلاسفہ کی تاریخ نوجوان نسل کو پڑھائی جانی چاہئے تاکہ اُن میں فلسفہ کو سمجھنے اور اس کی جانب رغبت کا رحجان بڑھے- ٭ ہمیں اپنے عظیم فلاسفہ کے افکار کو اپنانا چاہئے تاکہ ہمارے ہاں تسلسل کے ساتھ فلاسفہ پیدا ہوں اور اسی طرح ہم علم و عقل میں ترقی کر سکتے ہیں- 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر