مآخذات تصوف (آخری قسط)

مآخذات تصوف (آخری قسط)

 

امام فخر الدین رازی (﷫) "تفسیر کبیر" میں حضرت ابو العباس محمد بن یزید المبرد (﷫ ) کا قول نقل فرماتے ہیں کہ:-

﴿اَلشَّرِیْعَۃُ اِبْتِدَاءُ الطَّرِیْقَۃِ وَ الطَّرِیْقَۃُ الْمِنْھَاجُ الْمُسْتَمِرُ﴾[1]

’’شریعت ، طریقت کی ابتدا ہے اور  طریقت ایک مسلسل راستہ ہے ‘‘

جو راہ ِطریقت پر آجاتا ہے تو اُس کے گمراہ ہونے کا اِمکان ہی نہیں ہوتا کیونکہ طریقت ایک مسلسل راستہ ہے جو اِس کو پا لیتا ہے گویا وہ صراطِ مستقیم پر گامزن ہو جاتا ہے- جب آپ تصوف، طریقت، روحانیت یا علمِ باطن کا لفظ ادا کریں تو اُس سے مراد چور بازاری نہیں جو اِس وقت پوری بلادِ اسلامیہ میں عروج پر ہے مثلاً جادو ٹونہ ، فریبی عملیات  یا اِس طرح کے غیر شرعی اَفعال اور غیر شرعی طریقہ کار وغیرہ- اِس طرح کے غیر شرعی طریق علمِ تصوف نہیں ہے اور نہ ہی یہ طریق کسی بھی درجہ میں علم تصوف قرار دیئے جا سکتے ہیں-  چاہے کوئی پیری کا دعوے دار ہو یا مریدی کا لیکن اگر وہ شریعتِ اِسلامی کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اس کا تصوفِ اسلام سے کسی طرح کا کوئی ناطہ رشتہ نہیں رہ جاتا ۔ اِس لئے کہ تمام صوفیہ قرآن و سُنت ہی کی بُنیاد پہ اپنے اعمال و مشاہدات کی بُنیاد رکھتے ہیں لہٰذا ایک صوفی پہ لازم ہے کہ وہ ایک عام مسلمان کی نسبت ، شریعت کی پاسداری زیادہ پابندی سے کرے ۔ جیسا کہ ابو المواہب ، امام عبد الوہاب الشعرانی (﷫ ) اپنی تصنیف مبارک ”طبقات الکبریٰ“ میں فرماتے ہیں :

﴿مَالتَّصَوُّفُ اِنَّمَا ھُوَ زُبْدَۃُ عَمَلِ الْعَبْدِ بِاَحْکَامِ الشَّرِیْعَۃِ﴾[2]

’’بندے کا احکاماتِ شریعت پر عمل پیرا ہونے کا نچوڑ تصوف ہے‘‘-

﷜تصوّف کیا ہے؟ جب بندہ اپنے باطن کے پورے خلوص کے ساتھ علمِ شریعت پہ گامزن ہو جاتا ہے-یہ علمِ تصوف کی ابتدا ہے ، تصوف از ابتدا تا انتہا ہر ایک مرحلہ اور ہر ایک زینہ پہ پاسدارِ شریعت کا منصب اپنائے رکھتا ہے ۔ احکامِ شریعت سے تنزّل یا رُوگردانی در اصل طریقت و روحانیت سے تنزل و روگردانی کا دوسرا نام ہے ، اِسی طرح یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اگر طریقِ رُوحانیت سے واقفیت نصیب نہ ہو اور روکھی سوکھی ملائیت پہ بضد ہو جایا جائے تو فسق کا امکان بڑھ جاتا ہے ، فتنہ و فساد کا امکان بڑھ جاتا ہے ، تکفیر پرستی کا اور فرقہ پرستی کا امکان بڑھ جاتا ہے ، تعصب و نفرت اور شدّت و عداوت کا امکان بڑھ جاتا ہے ، نفرت و نفاق کا امکان بڑھ جاتا ہے  - شریعت، فقہ اور تصوّف کے باہمی اشتراک کے بارے میں حضرت سیدنا امام مالک بن انس (﷫ ) فرماتے ہیں کہ:-

﴿مَنْ تَفَقَّہَ وَلَمْ یَتَصَوَّفْ فَقَدْ تَفَسَّقَ، وَمَنْ تَصَوَّفَ وَلَمْ یَتَفَقَّہْ فَقَدْ تَزَنْدَقَ، وَمَنْ جَمَعَ بَیْنَھُمَا فَقَدْ تَحَقَّقَ﴾[3]

’’جس نے علم فقہ (ظاہر) کو پڑھا لیکن باطن کو چھوڑ دیا اُس نے فسق کیا اور جس نے تصوف (باطن) کو پایا اور شریعت کو چھوڑ دیا پس تحقیق وہ گمراہ ہو گیا اور جس نے (شریعت اور باطن ) دونوں کو جمع کر دیا گویا اُس نے حق کو پالیا‘‘-

یہ میرا نہیں بلکہ علمائے متقدمین یعنی سیدنا حضرت امام مالک بن انس (﷫ ) کا قول ہے جنہیں امام شافعی (﷫ )نے "امیر المومنین فی الحدیث" کا لقب دیا وہ فرماتے ہیں کہ اِن دونوں کو ایک دوسر ے سے جدا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ظاہر و باطن قرآن و سنت کی رو سے لازم ہے ۔ اِس لئے ظاہر کیلئے باطن کو ترک کرنا یا باطن کیلئے ظاہر کو ترک کرنا یہ دونوں رویے اکابرینِ اُمّت کی تعلیمات کے منافی ہیں ، اَکابرین کی تعلیمات کی رُو سے ظاہر و باطن دونوں کو یکجا کرنا لازم ہے اور فی الحقیقت یہ ایک دوسرے سے جُدا نہ ہیں اور نہ ہی کئے جا سکتے ہیں – بالفاظِ دیگرو باندازِ دیگر  اِسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اِس بات پہ اُمت میں تقریباً اجماع کی کیفیت ہے کہ اِن دونوں تقاضوں کو لازم پکڑا جائے - امام ابوطالب مکی (﷫ ) (م: ۳۸۶ ھ) "قوت القلوب" میں فرماتے ہیں کہ:-

﴿اِنَّ الظَّاھِرَ وَ البَاطِنَ عِلمَانِ لَا یَستَغنِی اَحَدُھُمَا عَن صَاحِبِہٖ بِمَنزِلَۃِ الْاِسلَامِ وَ الْاِیمَانِ﴾[4]

      ’’ظاہر اور باطن دو ایسے علوم ہیں جن میں سے کوئی ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں جیسے اسلام اور ایمان (دونوں لازم و ملزوم) ہیں‘‘-

یہ دونوں علوم دین کی اصل ہیں اِس لئے اِن دونوں میں سے کسی ایک سے بھی قطع نظر نہیں کیا جا سکتا- یعنی نہ ظاہر سے اور نہ ہی باطن سے قطع نظر کیا جا سکتا ہے-  جو لوگ ظاہر و باطن کو الگ کریں وہ گمراہی میں ہوتے ہیں- امام مالک (﷫ )کے مذکورہ قول کے مطابق جو ان دونوں میں فرق کرے یا کسی کو کوئی ایسا صوفی نظر آئے جو یہ کہے کہ تصوّف کا شریعت سے یا ولی اللہ کا شریعت سے کیا کام! تو آپ اُسے حجتہ الاسلام امام مالک بن انس (﷫) کا یہی مذکورہ قول پڑھائیں، خاص کر اُس کا یہ والا حصہ جو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے نام نہاد صوفیوں کیلئے کہا کہ ’’جس نے تصوف کو پایا اور باطن کو چھوڑ دیا پس تحقیق وہ گمراہ ہو گیا ‘‘ -

 علامہ ابن عابدین  شامی (﷫ ) (م: ۱۱۹۸ھ) ظاہر و باطن کے لازم و ملزوم ہونے پر ایک طرح کا  فتوی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:-

﴿ وَھِیَ الطَّرِیْقَۃُ وَالشَّرِیْعَۃُ مُتَلَازِمَۃٌ ﴾[5]

      ’’شریعت اور طریقت دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں‘‘ -

امام ابوالقاسم القشیری (﷫) (م: ۳۷۶ ھ) شریعت و طریقت کے باہمی ربط کو یوں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

﴿وَکُلُّ شَرِیْعَۃٍ غَیْرِ مُؤَیَّدَۃٍ بِالْحَقِیْقَۃِ فَغَیْرُ مَقْبُوْلٍ

’’پس جس شریعت کو حقیقت کی تائید حاصل نہ ہو وہ غیر مقبول ہے -‘‘

وَکُلُّ حَقِیْقَۃٍ غَیْرِ مُقَیَّدَۃٍ بِالشَّرِیْعَۃِ فَغَیْرُ مَقْبُوْلٍ﴾[6]

’’ اور جو حقیقت شریعت سے مقید نہ ہو وہ بھی غیر مقبول ہے-‘‘

اِن دونوں میں سے ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرنا ایک راستے کو ترک کرنے کے مترادف ہے کہ اگر ایک کو ترک کیا تو فسق کیا اور اگر دوسرے کو ترک کیا تو گمراہی کی-

اکثر صوفیائے کرام پر تنگ نظروں کی جانب سے  الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ شریعت کی نفی کرتے ہیں- اِس الزام کی وجہ جہالت ہوتی ہے، اگر جہالت نہ ہو تو پھر تعصب ہوتا ہے اِس لئے جو شخص تعصب اور جہالت سے پاک ہو وہ کبھی ایسی بات نہیں کر سکتا- ایسے متعصب جُہلا اِس الزام کے جواز کے طور پر حضرت سُلطان العارفین سُلطان باھُو صاحب (قدس اللہ سرّہٗ )کا کلام ذکر کرتے ہیں کہ:

ناں مَیں عالم ناں مَیں فاضل ناں مفتی ناں قاضی ھو
ناں میں تریہے روزے رکھے ناں مَیں پاک نمازی ھو

 

ناں دل میرا دوزخ منگے ناں شوق بہشتیں راضی ھو
باجھ وصال اللہ دے باھُو دُنیاں کوڑی بازی ھو

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :

ناں مَیں جوگی نہ میں جنگم نہ میں چلا کمایا ھو
ناں مَیں بھج مسیتیں وڑیا ناں تسبا کھڑکایا ھو

مزیدفرماتے ہیں کہ:-

پڑھ پڑھ عالم کرن تکبر حافظ کرن وڈیائی ھو
جتھے ویکھن چنگا چوکھا پڑھن کلام سوائی ھو

 

گلیاں دے وچ پھرن نمانے وتن کتاباں چائی ھو
دوہیں جہانیں سوئی مٹھے باھُو جنہاں کھادھی ویچ کمائی ھو

معترضین کہتے ہیں کہ یہ دیکھئے صوفیاء شریعت، علم اور فضیلت کا انکار کرتے ہیں-مَیں ایک سادہ سی بات کر رہا ہوں اگر کسی کو اِس بات پر اعتراض ہو تو وہ اِس بات کے جواز اور ثبوت میں اِس استدلال کی حقانیت اور صداقت پر ہر سطح تک جا سکتا ہے- اِس کا نتیجہ قطعاً نفی علم یا شریعت اور علماء کی نفی نہیں، بلکہ بنیادی طور اس طرح کے کلام کے ذریعے اولیاء کرام  نے معاشرے میں موجود ایک مخصوص قسم کی مذہبی حیثیت (Religious Status quo) کا انکار کیا- آپ نے سیاسی حیثیت (Political Status quo) تو سنا ہے لیکن یہ اصطلاح کبھی استعمال نہیں ہوئی، اِس لئے ہو سکتا ہے کہ بہت سارے لوگ اس بات سے اختلاف کریں لیکن مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اِن بزرگان دین نے اُس نام نہاد مذہبی حیثیت کو چیلنج کیا جس نے اپنے پیٹ کے مفاد کیلئے آج تک اِس اُمت کو تقسیم کر کے رکھا ہوا ہے- جس مذہبی حیثیت (Religious Status quo) کی جھوٹی اَنا اور ضد کی وجہ سے بلادِ شام کے در و دیوار، گلیاں، قصبے، بازار اور شہر آج ویران ہو گئے- فلسطین قبضہ یہود میں ہے، عراق جل رہا ہے، لیبیا جل رہا ہے، افغانستان جل رہا ہے اور یہ پاکستان جل رہا ہے- اِن بزرگان دین نے نہ فتوی کی نفی کی، نہ نفئ علم کیا، نہ نفئ مفتیان کی بلکہ اِن بزرگان دین نے اُس مذہبی ’’سٹیٹس کو‘‘ کی حیثیت کو اوپن (open)چیلنج کیا جو تعصب سے پاک نہیں ہے- ان بزرگوں نے کبھی زُہد کا انکار نہیں کیا البتہ تکبر کا شکار زاہدوں کی نفی ضرور کی ، انہوں نے کبھی پارسائی کی نفی نہیں کی البتہ پارسائی کے لبادے میں لپٹی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کیا ، انہوں نے کبھی مسجد و مصلے سے منہ نہیں پھیرا البتہ مسجد و مصلے پہ بیٹھے ٹھگوں کی نفی ضرور کی ، انہوں نے کبھی تقویٰ کی تضحیک نہیں کی البتہ نام نہاد متقیوں کی مضحکہ خیز حرکتوں سے اختلاف ضرور کیا ، انہوں نے کبھی علم کی نفی نہیں کی البتہ علمِ دین کے نام پہ ذاتی دکانداریاں چمکانے والوں کے بھونڈے کردار کی نفی ضرور کی ہے ،  انہوں نے کبھی ریاضات و عبادات کو ترک نہیں کیا البتہ عبادت و ریاضت پہ اترانے والوں اور ان اعمال پہ ریا کاری کرنے والوں پہ کاری ضرب ضرور لگائی ہے ، آئمہ اربعہ میں سے انہوں نے کسی نہ کسی کی تقلید ضرور کی مگر فقہی اختلاف کو ملی زندگی کی راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دیا ، ان بزرگوں کی وابستگی کسی مسلک و مکتب سے ضرور رہی مگر انہوں نے اپنے مخالف مسلک و مکتب کو واجب القتل کَہ کر قتلِ عام کے فتوے دیکر جنت کی ٹکٹیں فروخت نہیں کیں ۔ اِس لئے جب ان بزرگانِ دین کے کلام سے فتویٰ فروشوں ، فساد بازوں ، ریاکاروں ، دکانداروں ، مضحکہ خیزوں، کالی بھیڑوں ، متکبر زاہدوں ، دوہرے معیارات کے مذہبی سیاستدانوںاور خلعتِ غرور میں لپٹے نام نہاد متقیوں کے مالی و معاشی مفاد کو ضربِ قلندری پڑتی ہے تو یہ ظالم  اور متعصب جہلا ہاتھوں میں فتووں کے تیشے اور چاقو لیکر نکلتے ہیں اور ان عظیم المقام و عالی مرتبت بزرگوں پہ تنقیص و تنقید کا وار کرتے ہیں یہ حملہ بزرگانِ دین کے نقص کے باعث نہیں ہوتا بلکہ در حقیقت اس ’’مذہبی سٹیٹس کو ‘‘ کے اُس تعصب کے باعث ہوتا ہے جو ان کی دکانداری بند ہونے پہ ان کے اندر بھڑک اٹھتا ہے ۔بزرگانِ دین و صوفیائے کاملین نے ہمیشہ وِحدتِ اُمت پہ پہرا دیا اور لوگوں کو وحدانیت کی جانب بلایا کہ فروعی جھگڑوں سے نکلو اور اللہ واحد سبحانہ وتعالیٰ کے رضا و خوشنودی کے طالب ہو جاؤ،  اِس لئے حضرت سُلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) نے فرمایا کہ:-

ناں مَیں سنی نہ مَیں شیعا میرا دوہاں توں دل سڑیا ھو
مُک گئے سبھ خشکی پینڈے جدوں دریا رحمت وچ وڑیا ھو

یعنی تم مجھے فرقوں کی طرف بلاتے ہو اور میرا قرآن مجھے خدا کی وحدانیت کی طرف بلاتا ہے بتاؤ! مَیں تمہارے تعصب کی طرف جاؤں یا خدا کی واحدانیت کی طرف جاؤں- اِس لئے صوفیائےکرام کا پیغام قرآن و سنت پر مبنی  ہے- اِس لئے شریعت و تصوف میں کوئی اختلاف نہیں ہے - تفرقہ سے کوئی یہ مراد نہ لے کہ اختلافِ عقائد منع ہیں- عقائد کا اختلاف  بالکل ہوتا ہے اور وہ برحق ہے- دین تین بنیادوں پر قائم ہے، عقائد، عبادات اور معاملات- عقائد پر بھی اختلاف ہے اور عقائد کے اختلاف کا جواز خود سنت میں موجود ہے- صوفیاء حضرات کے عقائد میں اختلاف ہے مثلاً حضرت محی الدین ابن عربی (﷫ ) اور حضرت شیخ مجدد حضرت شیخ احمد سرہندی (﷫) دونوں جلیل القدر صوفیاء میں  سے  ہیں لیکن اِن کے مابین بھی اختلافات پائے  جاتے    ہیں- طریقِ قادریہ اور طریقِ نقشبندیہ میں بھی اختلاف ہے مزے کی بات یہ کہ باوجود اختلاف کے یہ ایک دوسرے کے شیوخ سے اکتسابِ فیض کرتے ہیں - اِس لئے عقائد کا اختلاف قطعاً منع نہیں-ہر کسی کو اپنے عقائد اختیار کرنے کا اور اُس عقائد سے دوسرے کے ساتھ اختلاف رکھنے کا حق حاصل ہے بشرطیکہ وہ اِختلاف دین میں قائم شُدہ اصولوں میں رہتے ہوئے کیا جائے – اسی طرح  طریقِ عبادت میں بھی اختلاف ہے - حضرات ِفقہاء نے خود اِس بات کا بیان دیا کہ آئمہ اجتہاد کے مابین جتنے بھی مختلف عبادات کے طریق موجود ہیں وہ کسی نہ کسی طرح سنّتِ رسول  (ﷺ) سے ثابت شدہ ہیں- اسی طرح طریق ِمعاملات میں بھی اختلاف موجود ہے، اختلاف منع نہیں ہے کیونکہ عقائد،عبادت اور معاملات کا اختلاف ختم نہیں ہو سکتا لیکن ہمیں اختلاف اور مخالفت میں واضح فرق رکھنا چاہیے کہ ہم اختلاف کر رہے ہیں یا مخالفت کر رہے ہیں- ہم اپنے اِس اختلاف کو اِس سطح تک نہ لے جائیں کہ:-

بات کو حشر تک نہ لے جانا
اتفاقاً نظر سے بھول ہوئی

یعنی   بات کو قتل و غارت، تشدد، معاشرتی جمود اور اُمت کے اسبابِ زوال تک نہیں لے کے جانا چاہیے جیسا کہ فرقہ واریت کے تحت قائم ہونے والے تعصب سے فساد  پھیلنے اور فتنہ پھوٹنے  سے ہوا- صوفیاءکرام نے اِس فرقہ واریت پھیلانے والوں کی مخالفت کی ، اُنہوں نے وحدت، محبت، اخوت، یگانگت، امن اور ایک دوسرے سے جوڑے رکھنے کا پیغام دیا- فرقہ پرست عناصر اِس لئے صُوفیہ کا انکار کرتے ہیں اور اُن سے بُغض و عناد رکھتے ہیں کیونکہ اِن بزرگوں کی عالی فکر کے حیات بخش و رُوح پرور  پانی کے چشمے سے  فرقہ پرستوں کے نفرتوں کے تنور بھڑکنے اور سلگنے بند ہو جاتے ہیں – اس لئے ان کے پاس ایک مؤثر ہتھیار یہ ہے کہ لوگوں میں اہلِ تصوف کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کی جائیں ، کبھی شریعت و طریقت کے عدمِ مطابقت کی غلط فہمی تو کبھی ان کی تکفیر اور کبھی ان کی تضحیک ، یہ سب حربے تاجرانہ حربے ہیں ، غیر منصفانہ حربے ہیں ، بد نیتی اور علمی بد دیانتی کا نتیجہ ہیں ، اخلاقی جرأت کی کمی کا نتیجہ ہیں ، علمی زوال اور فرقہ وارانہ تعصب کا نتیجہ ہیں – اِس لئے ان فرقہ پروروں اور فرقہ پرستوں کے دامِ فریب میں مبتلا ہونے کی بجائے خود صوفیا کی زبان کا اعتبار کرو کہ سب بالاتفاق یہی فرماتے ہیں کہ شرع و فقر میں کئی بُعد اور دُوری نہیں بلکہ یہ ایک ہی حقیقت کی تفصیل ہے ، فرق ہے تو صرف اتنا کہ ایک ظاہر ہے اور دوسرا باطن ، ایک عمل ہے اور دوسرا اُس عمل کی تاثیر اور اس کی حقیقی لذت – اب اِس بات کی تائید و وضاحت کیلئے  مَیں وہ عبارت پیش کرتا ہوں کہ جو مفتیٔ بغداد ابو الفضل الشہاب سید محمود احمد آلوسی (﷫) " روح المعانی" میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:-

﴿ اِعْلَمْ اَنَّ الشَّرِیْعَۃَ وَالْحَقِیْقَۃَ مُتَّحِدَانِ فِی الْحَقِیْقَۃِ وَ لَا فَرْقَ بَیْنَھُمَا اِلَّا بِالْاِجْمَالِ وَالتَّفْصِیْلِ وَبِالْاِسْتِدْلَالِ﴾[7]

      " شریعت اور  طریقت دونوں اپنی حقیقت میں ایک ہیں- دونوں میں اجمال، تفصیل اور استدلال کا فرق ہے"-

یعنی علمِ شریعت وجود کے اعمالِ ظاہر اور علمِ طریقت اعمالِ باطن کا بیان ہے- شریعت ظاہر کو دیکھ کر چلتی ہے اور طریقت باطن یعنی مشاہدات کو دیکھ کرآگے بڑھتی ہے- اِس لئے اِن دونوں کی تفصیل اور استدلال میں فرق آ جاتا ہے ورنہ حقیقت میں اِن دونوں کی منشاء اور مراد قربِ الہٰی، محبتِ الہٰی اور رضا ئے الٰہی ہے -اب اِس بات کی وضاحت کرتے ہوئے جو حوالہ پیش کروں گا وہ کوئی پیر اچانک شاہ کا نہیں ہوگا کہ صبح اُٹھے تو گھر کے باہر مقبرہ بنا  ہوا ،ا ُس  پرجھنڈے  لگے ہوئے تھے، پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون سے بابا جی ہیں ؟تو جواب آتا ہے کہ یہ تو حضرت پیر اچانک شاہ ہیں جو رات کو آئے تھے- اِس لئے مَیں اُن ڈرامہ بازوں کی بات نہیں کر رہا نہ ہی کسی اچانک شاہ کا حوالہ دے رہا ہوں  جو خود کو صوفی بزرگ کہتے ہیں نہ ہی بندہ ناچیز اچانک شاہی تصوف کا مؤید یا ترجمان  ہے نہ ہی اُن کا وکیل ہے اور نہ ہی اُن سے کوئی تعلُّق رکھتا ہوں نہ ہی اُنہیں سچا مانتا ہوں میرے نزدیک نہیں بلکہ دین کے قائم شُدہ اصولوں کے تحت سچائی وہ ہے جو اللہ جل شانہٗ اور اُس کے حبیب پاک تاجدارِ انبیا صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم کی شریعت کی متابعت و پیروی میں نصیب ہو ، اُسے ترک کرکے ، شریعت سے منہ موڑ کر ، احکامِ خداوندی و احکامِ نبوی کا اتراک کر کے اگر کوئی جھوٹے اور اچانک شاہی تصوف کا پیرو ہے تو ہوگا ہمارا اُس سے کوئی تعلق نہیں نہ ہی وہ حجت ہیں نہ میں اُن کا حوالہ دوں گا -  بلکہ مَیں تو سید الفقراء، شیخ المشائخ سید الطائفہ حضرت سیدنا جنید بغدادی(﷫ )  کا قول بطور حوالہ پیش کروں گا جس کو مفتیٔ بغداد ابو الفضل سید محمود احمد آلوسی (﷫)  نے بھی نقل کیا ہے کہ:-

     ﴿ لِاَنَّ عِلْمُنَا مُقَیَّدٌ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ ﴾[8]

      ’’بیشک ہمارا علم کتاب (قرآن) اور سنت کے ساتھ مقید (جڑا ہوا)ہے‘‘-

اِس کے بعد دوسرا حوالہ، کریم الابوین، نجیب الطرفین سیدنا ، شیخنا، پیر انِ پیر ، دستگیر محی الدین، غوث الاعظم السید الشریف ابو محمد عبدالقادر الجیلانی الحسنی الحسینی البغدادی (﷫)  کا ہے جو"بہجۃ الاسرار"میں آپ (﷫)  سے منقول ہے :

     ﴿ اَقرَبُ الطُّرُقِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی لُزُومُ قَانُونِ الْعُبُودِیَّۃِ وَ الْاِستِمسَاکُ بِعُروَۃِ الشَّرِیعَۃِ﴾[9]

      ’’اللہ پاک کی طرف سب سے زیادہ قریب راستہ قانونِ بندگی اور اللہ تعالیٰ کے دین کی شریعت کو تھامے رکھنا ہے‘‘-

یعنی اپنے دامن کو دامنِ شریعت کے ساتھ جوڑ دینا قربِ الٰہی کا سب سے مستند راستہ ہے جو کتاب و سنت کی تحقیق کے ساتھ ہے -

  امام ابو القاسم بن عبد الکریم بن ہوازن القشیری (﷫ ) بھی  علماء متقدمین میں شمار ہوتے ہیں ، آپ فرماتے ہیں کہ ابو العباس احمد بن محمد بن سہل بن عطاء (﷫) ،جنہیں تصوّف میں ابنِ عطا ءبھی کہا جاتا ہے، حضرت ابن عطاء(﷫) ، حضرت سری سقطی (﷫)،  حضرت بایزید بسطامی (﷫) ، حضرت جنید بغدادی (﷫)، حضرت ابو بکر شبلی (﷫ ) اور حضرت معروف الکرخی(﷫)  یہ اُس دور کے صوفیاءمیں سے ہیں جو تصوف کا خالص ترین دور کہا جاتا ہے جس نے بڑے بڑے شیوخ پیدا کئے -  مگر یہ علمائے ہند اور خاص کر ہمارے ماحول میں اِن کا اتنا زیادہ تعارف نہیں ہے- آپ فرماتے ہیں کہ:-

     ﴿ مِنْ کِبَارِ مَشَایِخِ الصُّوْفِیَّۃِ وَ عُلَمَائِھِمْ وَھُوَ مِنْ أَقْرَنِ الْجُنَیْدِ ﴾[10]

      ’’وہ اس وقت کے بڑے بڑے صوفیاء اور علماء میں سے تھے اور سیدنا جنید بغدادی (﷫)  کے ہم عصر تھے‘‘-

امام شعرانی (﷫ ) نے ’’طبقات الکبریٰ‘‘ میں اُن کی تعریف اور مقام میں بڑی طویل عبارات نقل فرمائیں - جس میں اُن کے حسنِ اخلاق، عظمت، جلال، مقام و مرتبہ، روحانی پرواز، روحانی تصرف اور اُن کے وجود میں اللہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے علم لدنی کے متعلق عبارات شامل ہیں ۔ اُن حضرت  ابن عطا (﷫)  کا قول ہے جسے امام قشیری (﷫)  نے نقل کیا کہ:

﴿ مَنْ أَلْزَمَ نَفْسَہٗ آدَابَ الشَّرِیْعَۃِ نَوَّرَاللّٰہُ قَلْبَہٗ بِنُوْرِ الْمَعْرِفَۃِ وَلَامَقَامٌ أَشْرَفُ مِنْ مَقَامِ مُتَابَعَۃِ الْحَبِیْبِ ﷺ فِیْ أَوَامِرِہٖ وَأَفْعَالِہٖ وَأَخْلَاقِہٖ ﴾[11]

’’جو بھی اپنے وجود میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی عادات کو لازم پکڑ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اپنی معرفت سے منور فرما دیتا ہے اور اس سے اشرف کوئی مقام نہیں کہ آدمی اپنے افعال اور اخلاق میں اپنے وجود کو آقا (ﷺ) کی متابعت میں ڈھا ل لے ‘‘-

یعنی جو بھی آدمی اپنے اِس وجود کو شریعتِ مصطفوی  (ﷺ) کے رنگ میں ڈھال دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اپنی ذات کی جلوہ گاہ بنا لیتا ہے جس سے وہ آدمی روحانیت کے کمال درجہ پر فائز ہو جاتا ہے جو کہ خود کو شریعت محمدی  (ﷺ) کا مکمل طور پر پابند بنانا ہے-

اِسی لئے اعلی ٰحضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی (﷫) نے فرمایا کہ:-

 جن کی ہر ہر ادا سُنّتِ مصطفی
ایسے پیرِ طریقت پہ لاکھوں سلام

پیر، شیخ، سالک، صوفی، عارف، اور علمِ تصوف کا جاننے والا وہ ہے جس کا وجود شریعتِ مصطفیٰ (ﷺ) کی متابعت میں ڈھل جائے – یہ تو چند باتیں ہوئیں اُن کی جن کی ذواتِ مقدسہ کا تعارف ’’فقر‘‘ ہے ، اب ایک بات اُن کی ذات کی بھی سُنتے ہیں جن کا تعارف ’’فقہ‘‘ ہے ، یعنی حضرت مُلا علی القاری رحمہ اللہ کی -

حضرت ملا علی القاری الھروی(﷫ )  نجات والے گروہ کی وضاحت کرتے ہوئے  مشکوٰۃ شریف کی شرح مرقاۃ میں فرماتے ہیں کہ: -

﴿ وَالْفِرْقَۃُ النَّاجِیَّۃِ ھُمْ أَھْلُ السُّنَّۃِ الْبَیْضَآئِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ وَالطَّرِیْقَۃِ النَّقِیَّۃِ الْاَحْمَدِیَّۃِ

’’نجات والا گروہ اہلِ سنت ہے جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن سنت اور صاف راہ پر عمل پیرا ہے‘‘

وَ لَھَا ظَاھِرٌ سُمِّیَ بِالشَّرِیْعَۃِ شِرْعَۃٌ لِلْعَامَّۃِ ، وَ بَاطِنٌ سُمِّیَ بِالطَّرِیْقَۃِ مِنْھَاجًا لِلْخَاصَّۃِ

’’اور اس راہ کا ایک ظاہر ہے جسے شریعت کہا جاتا ہے اور یہ عام لوگوں کا راستہ ہے-اور اس کا ایک باطن ہے جسے طریقت کہا جاتا ہے یہ خاص لوگوں کا راستہ ہے-‘‘

وَ خُلَاصَۃٌ خُصَّتْ بِاِسْمِ الْحَقِیْقَۃِ مِعْرَاجًا لِاَخَصِّ الْخَاصَّۃِ

’’اور اس راہ کا ایک خلاصہ یا نچوڑ ہے جسے حقیقت کے نام سے خاص کیا گیا ہے جو خاص الخاص لوگوں کا راستہ ہے ‘‘-

فَالْاَوَّلُ نَصِیْبُ الْاَبْدَانِ مِنَ الْخِدْمَۃِ وَ الثَّانِیُ نَصِیْبُ الْقُلُوْبِ مِنَ الْعِلْمِ وَ الْمَعْرِفَۃِ وَالثَّالِثُ نَصِیْبُ الْاَرْوَاحِ مِنَ الْمُشَاھَدَۃِ وَ الرُّؤْیَۃِ

’’پس پہلی شریعت جسموں کا حصہ ہے جو خدمات سر انجام دیتی ہےدوسری طریقت علوم و معرفت سے دلوں کا نصیب ہے، اور تیسری حقیقت مشاہدہ اور روئیت سے ارواح کا نصیب ہے‘‘-

آگے امام قشیری کاقول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :-

وَالشَّرِیْعَۃُ اَمْرٌ بِاِلْتِزَامِ الْعُبُوْدِیَّۃِ وَالْحَقِیْقَۃِ مَشَاھَدَۃُ الرَّبُوْبِیَّۃِ

’’شریعت عبادت کے التزام کا معاملہ لے اور حقیقت رب کے مشاہدہ کا نام ہے‘‘-

فَکُلُّ شَرِیْعَۃٍ غَیْرِ مُؤَیَّدَۃٍ بِالْحَقِیْقَۃِ فَغَیْرُ مَقْبُوْلٍ وَکُلُّ حَقِیْقَۃٍ غَیْرِمُقَیَّدَۃٍ بِالشَّرِیْعَۃِ فَغَیْرُ مَحْصُوْلٍ﴾ [12]

’’پس ہر جس شریعت کی حقیقت سے تائید نہ ہو وہ قابلِ قبول نہیں، اور ہر وہ حقیقت جو شریعت سے مقید نہ ہو اس کے حصول کا کوئی فائدہ نہیں‘‘-

ظاہر میں شریعت، باطن میں طریقت اور ان کے نچوڑ میں حقیقت ہے- اب شریعت کیا ہے ،طریقت کیا ہے اور حقیقت کیا ہے؟ جو ایک عام انسان ہے جو حقائق اور اللہ تعالیٰ کے اسرار و رموز کے عظیم و بلند مقامات کو نہیں پا سکتا اس کو چاہیے کہ کم سے کم راہِ شریعت پر گامزن رہے اس لئے کہا گیا کہ شریعت عوام کا راستہ ہے-طریقت سے مراد شریعتِ محمدی (ﷺ) پر عمل پیرا ہو کر اپنے دل کو اللہ پاک کے ذکر سے اللہ پاک کی ذات کے انوار و تجلیات کے مشاہدے کے قابل بنانا ہے اور حقیقت سے مراد ان تجلیات و انوار کے مشاہدے کر پالینا ہے کہ آدمی اپنے چشمِ قلب سے اللہ تعالیٰ کے انوار اور قرب کے جمالیات کا مشاہدہ کرتا ہے-مراتب کے لحاظ سے ایک عام ہے، ایک خاص ہے، اور ایک خاص الخاص ہوتا ہے ،اس طرح شریعت عام،طریقت خاص اور حقیقت خاص الخاص کو حاصل ہوتی ہے- اِس لئے جو صاحبِ شریعت ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ علمِ حقیقت پر بھی کامل ہوں اور جو صاحبِ طریقت ہیں اُن پر بھی لازم ہے کہ وہ علم شریعت پر گامزن ہوں-

حجۃ الاسلام الامام ، ابو حامد محمد بن محمد بن محمد الغزالی (﷫)   شیخ الجامعۃ البغداد جو حضور غوث پاک (﷫)  کے معاصر تھے ،فرماتے ہیں کہ:-

     ﴿ فَمَنْ قَالَ اَنَّ الْحَقِیْقَۃَ تُخَالِفُ الشَّرِیْعَۃَ اَوِ الْبَاطِنَ یُنَاقِضُ الظَّاھِرَ فَھُوَ اِلَی الْکُفْرِ اَقْرَبُ مِنْہُ اِلَی الْاِیْمَانِ﴾ [13]

’’پس جس نے کہا کہ حقیقت شریعت کے مخالف ہے یا باطن ظاہر کے متناقض ہے تو وہ ایمان کی بجائے کفرکے زیادہ قریب ہے‘‘-

یہ امام غزالی کا عقیدہ، فتوی اور قول ان کے لئے ہے جو شریعت اور طریقت یا جو ظاہر و باطن کو الگ الگ جانے - سُلطان العارفین ، سُلطان الفقر حضرت سُلطان باھُو  (قدس اللہ سرّہٗ )  فرماتے ہیں کہ میرا وہ مقام ہے کہ مجھے سید الانبیاء(ﷺ)  نے اپنے دست مبارک سے بیعت کیا اور مزید فرمایا کہ :

جائے کہ مَن رَسِیدَم اِمکاں نہ ھِیچ کَس را
شَہبَازِ لامَکانَم آنجَا کُجا مَگَس را[14]

’’قربِ ذاتِ حق کے جس مراتب پہ مَیں پہنچا ہوں وہاں کسی اور کے پہنچنے کا امکان ہی نہیں ہے- مَیں تو لامکاں کا شہباز ہوں،لا مکاںمیں مکھیوں کی جگہ نہیں ہے ‘‘-

پھر مزید فرماتے ہیں کہ:-

مَیں شہباز کراں پروازاں وچ دریا کرم دے ھو
افلاطون ارسطو جیہیں میرے اگے کس کم دے ھو

 

زبان تاں میری کن برابر موڑاں کم قلم دے ھو
حاتم جیہیں لکھ کروڑاں در باھُو دے منگدے ھو

آپ کے مقاماتِ ارفع و اعلیٰ کا احاطہ کرنا عقلِ انسانی  سے ماوریٰ ہے لیکن آپ اپنے ان مقامات اور فضائل حاصل ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:-

ھَر مَراتِب اَز شَرِیعَت یَافتَم
پیشوائے خود شَریعَت سَاختَم

’’ مَیں نے یہ تمام مراتب شریعت سے حاصل کیے ہیں اور شریعت ہی کو اپنا پیشوا اور رہنما بنایا‘‘-

گویا یہ خوش خبری سن لیں کہ جو یہ شرف حاصل کرنا چاہے کہ مَیں سُلطان العارفین کا پیر بھائی ہو جاؤں تو وہ شریعت مطہرہ کی پابندی کرے تو وہ سُلطان العارفین کا پیر بھائی ہوجائے گا کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ مَیں نے یہ مقامات و درجات فیضِ شریعت سے پائے ہیں -

امام ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی (﷫) حضرت جنید بغدادی (﷫)  کا قول نقل کرتے ہیں کہ:-

     ﴿ اَلطُّرُقُ کُلُّھَا مَسْدُوْدَۃٌ عَنِ الْخَلْقِ اِلَّا عَلٰی مَنِ اقْتَضٰی اَثَرَ الرَّسُوْلِ وَ اتّبَعَ سُنَّتَہٗ وَ لَزِمَ طَرِیْقَتَہٗ﴾ [15]

      ’’ مخلوق پر تمام راستے بند کر دیئے گئے ہیں سوائے اس کے جس نے رسول ﷺ کی حدیث کی پیروی، سنت کی اتباع کی اور آپ ﷺ کے طریقے پر چلا ‘‘-

یعنی سوائے آقا علیہ الصلوٰة السلام کی سنت اور شریعت کے مخلوق پر تمام راستے بند کر دیئے گئے - اب اِس راستے کے علاوہ کسی کو کہیں سے ہدایت نہیں مل سکتی- جو صوفیاء کا عقید ہ اور طریق ہے اُس کی بنیادی دعوت ہی قرآن و سنت اور شریعت محمدی (ﷺ) کی اتباع کی طرف ہے- نجیب الطرفین سیدنا شیخ پیرانِ پیر ، دستگیر محی الدین ابو محمد ، عبد القادر الجیلانی الحسنی الحسینی البغدادی (﷫) کا یہ قول مبارک ہے جسے علامہ محمود احمد آلوسی (﷫)نے نقل کیا کہ:-

     ﴿ جَمِیْعُ الْاَوْلِیَائِ لَا یَسْتَمِدُّوْنَ اِلَّا مِنْ کَلَامِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَ رَسُوْلِہٖ وَلَایَعْمَلُوْنَ اِلّا  بِظَاھِر ھِمَا﴾[16]

      ’’جتنے بھی اولیاء اللہ ہوتے ہیں وہ صرف قرآن و سنت سے استفادہ کرتے ہیں اور اُن کا ظاہر شریعت کے علاوہ کسی بات پر عمل در آمد نہیں ہوتا‘‘-

شارح ابن عربی ، امام  احمد بن محمد بن عجیبہ الحسینی (﷫) شریعت و طریقت کا لزوم اور اُن کے آپس میں ربط و تعلق کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ:-

﴿ فَاِنَّ الْحَقِیْقَۃَ اِنَّمَا ھِیَ لُبُّ الشَّرِیْعَۃِ وَ خُلَاصَتُھَا، فَاِنَّمَا مَثَلُ الْحَقِیْقَۃِ وَ الشَّرِیْعَۃِ کَالرُّوْحِ لِلْجَسَدِ،

’’بے شک حقیقت شریعت کا خلاصہ اور نچوڑ ہے- حقیقت اور شریعت کی مثال روح اور جسم کی مانند ہے‘‘-

فَالشَّرِیْعَۃُ کَالْجَسَدِ، وَ الْحَقِیْقَۃُ کَالرُّوْحِ ، فَالشَّرِیْعَۃُ بِلَا حَقِیْقَۃٍ جَسَدٌ بِلَا رُوْحٍ، وَ الْحَقِیْقَۃُ بِلَاشَرِیْعَۃٍ رُوْحٌ بِلَا جَسَدٍ،

’’پس شریعت جسم کی مانند ہے اور حقیقت روح کی مانند ہے، پس اگر شریعت بغیر حقیقت  (کے اختیار کی جائے تو)  ایسے ہے جیسے جسم بغیر روح کے ، پس اگر حقیقت بغیر شریعت کے (اختیار کی جائے تو ) ایسے ہے جیسے روح بغیر جسم کے  ‘‘-

فَلَا قِیَامَ لِھٰذَا اِلَّا بِھٰذَا، فَمَنْ تَشَرَّعَ وَ لَمْ یَتَحَقَّقْ فَقَدْ تَفَسَّقَ، وَ مَنْ تَحَقَّقَ وَ لَمْ یَتَشَرَّعْ فَقَدْ تَذَنْدَقَ، وَ مَنْ جَمَعَ بَیْنَھُمَا فَقَدْ تَحَقَّقَ وَمَنْ خَرَجَ عَنْھُمَا فَقَدْ خَرَجَ عَنْ دِیْنِ اللّٰہِ ﴾ [17]

’’پس ان دونوں  کا قیام ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں، پس جس نے شریعت کو اپنایا اور حقیقت کو نہ اپنایا تو اس نے فسق کیا، اور جس نے حقیقت کو اپنایا اور شریعت کو نہ اپنایا تو وہ زندیق ہوا، اور جس نے ان دونوں کو جمع کیا تو اس نے حق کو پا لیا اور جو ان دونوں سے نکل گیا تو وہ اللہ کے دین سے نکل گیا‘‘-

اِے آپ یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ اِس کا تعلق تاثیرِ وجُود سے ہے کہ وجود کا کونسا جو ہر اعمالِ شریعت کی لذّت سے لطف اندوز اور اس کے فیض سے مستفیض ہو رہا ہے ؟  جب اعمالِ شریعت کی لذت بدن پر ہو تو وہ شریعت ہے اور اعمالِ شریعت کی لذت اگر دل پر ہو تو وہ طریقت ہے اور اگر روح پر طاری ہو تو حقیقت ہے- گویا اپنے جسم میں اِس روح کو پیدا کرو- بیشک حقیقت شریعت کا نچوڑ ہے جیسا کہ علامہ اقبال (﷫) نے فرمایا کہ:

پس طریقت چیست ای والا صفات
شرع را دیدن بہ اعماق حیات[18]

’’طریقت کیا ہے ؟(آقا(ﷺ)  کی شریعت کو )زندگیوں کی گہرائی سے دیکھنے کا نا م طریقت ہے‘‘- 

حقیقت بغیر شریعت کے ایسے ہے جیسے روح بغیر جسم کے- اب جسم اور روح کا ارتباط و اختلاط آپ کوپتا ہے کہ جسم ہے روح نہیں تو یہ جسم متحرک نہیں ہو سکتا -جسم کے متحرک ہونے کے لئے روح لازم ہے- اگر روح نہ ہو تو جسم جامد اور ساکن ہوجاتا ہے- اِس لئے جسم میں تحرک اور روانی پیدا کرنے کے لئے لازم ہے کہ اِس میں روح پھونکی جائے اور روح کے ظہور پذیر ہونے کے لئے لازم ہے کہ اسے جسم مہیا کیا جائے-

امام ابو طالب مکی (﷫ )  اِن دونوں کا ربط و تعلق بیان کرتے ہیں جسے امام ملا علی قاری (﷫) نے نقل کیاہے کہ:-

     ﴿ ھُمَا عِلْمَانِ اَصْلِیَانِ لَا یَسْتَغْنِیْ اَحَدُھُمَا عَنِ الْاٰخَرِ بِمَنْزِلَۃِ الْاِسْلَامِ وَالْاِیْمَانِ

’’یہ دونوں علوم اصل ہیں کوئی ایک بھی دوسرے سے مستغنی نہیں ہوسکتا یہ بمنزلِ ایمان اور اسلام کے ہیں ‘‘

مُرَتَّبَطٌ کُلٌّ مِّنْھُمَا بِالْاٰخَرِ کَالْجِسْمِ وَالْقَلْبِ لَا یَنْفَکُّ اَحَدٌ عَنْ صَاحِبِہٖ ﴾ (رواہ دارمی) [19]

’’ان کا ایک دوسرے سے تعلق جسم اور دل کی طرح ہے کوئی ایک بھی دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتا ‘‘-

یہ دونوں علوم اصل ہیں، اِن دونوں کا ہونا لازم ہے جس طرح ایمان اور اسلام لازم ہیں اسی طرح شریعت اور طریقت لازم ہیں، اِن دونوں کا تعلق آپس میں ایسے ہے جیسے جسم اور روح کا کہ جسم کو روح سے الگ نہیں کیا جا سکتا اسی طرح طریقت اور شریعت کو الگ نہیں کیا جا سکتا-

یہ وہ مقدمہ تھا جو قرآن، سُنّت، تشریحاتِ قرآن و سُنّت، اقوالِ سلف صالحین، اقوالِ ائمہ ، اقوالِ مفسرین،اقوالِ محدثین، اقوالِ فقہاء، اقوالِ مجتہدین، اقوالِ صوفیاء، اقوالِ اصفیاء اور اقوالِ انبیاء سے یہ ثابت کرتا ہے کہ دین کا صحیح، سچا اور آسان راستہ شریعت اور طریقت کے باہم مل جانے کا راستہ ہے-جس انسان کا ظاہر شریعت اور باطن طریقت میں ڈھل جائے اس کے ظاہر اور باطن سے اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا فیض جاری ہو جاتا ہے- جو علم ِطریقت ہے اُس کا جواز اور ثبوت کلام ِرحمانی سے ثابت ہے - قرآن میں جگہ جگہ اِس موضوع کی وضاحت کی گئی ہے کہ اگرکوئی میری ذات کے انوار و تجلیات کے مشاہدے تک پہنچنا چاہتا ہے تو تمہارے لئے لازم ہے کہ شریعت و طریقت کو لازم اپناؤ- اگر کوئی شخص ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرے یا شریعت کو حقیقت کے متضاد اور حقیقت کو شریعت کے متضاد جانے تو وہ قرآن و سنت اور طریقِ سلف صالحین کا انکار کرتا ہے- اِس لئے کہ ان دونوں کو باہم ملا کر اللہ نے اپنی کتاب اور رسول  اللہ (ﷺ)نے اپنی سنت میں اسے واضح کیا ہے- اِس لئے ہمارے اوپر یہ لازم ہے کہ اپنی فکر اور عمل کو اِس معیار پر لائیں جو معیار قرآن و سنت اور طریقِ اسلاف سے ثابت شدہ ہو-

"اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین "کی یہی دعوت ہے کہ آئیے !اپنے وجود سے وہ حرارت پیدا کیجیئے جو آدمی کے وجود کے باطن سے ابھرتی ہے- جب وہ باطن کی چنگاری سلگ جاتی ہے تو اُس کی تاثیر جاری ہوجاتی ہے - آقا علیہ الصلوة السلام نے فرمایا:-

     ﴿ اِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃٌ فَاِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ﴾[20]

      ’’بیشک انسان کے جسم کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہے تو سارا جسم صحیح ہے اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے، خبردار! وہ دِل ہے‘‘-

اللہ تعالیٰ نے قرآن  پاک میں فرد اور معاشرے کے فلاح و بہبود کی بنیاد تزکیہ پر رکھی ہے- ارشاد فرمایا:-

﴿ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی﴾[21]

’’بے شک وہی کامیاب ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا‘‘-

نجیب الطرفین کریم الابوین السید الشریف الشیخ محی الدین ابی محمد عبدالقادر الجیلانی البغدادی الحسنی الحسینی قدس سرہٗ المتوفی(۵۶۱ ھ) ،اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ’’ تفسیر الجیلانی‘‘ میں لکھتے ہیں:-

﴿وَ تَطَھَّرَ عَنْ أَدْنَاسِ الطَّبَائِعِ وَأَکْدَارِ الْھُیُوْلٰی مِنَ الْمَیْلِ اِلَی الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا مِنَ الذَّاتِ الْفَانِیَۃِ وَالشَّھَوَاتِ الْغَیْرِ الْبَاقِیَۃِ ، وَ تَوَجَّہَ نَحْوَ الْمَوْلٰی بِالْعَزِیْمَۃِ الْخَالِصَۃِ﴾[22]

’’ یعنی جو طبیعتوں کے میل کچیل سے پاک ہوا ، اور مادہ کی مقدار دُنیا کی طرف مائل ہونے سے پاک ہوا  ،اور جو اس میں ختم ہونے والی  لذاتِ فانیہ ہیں ، اُ ن سے پاک ہوا، اور نہ رہنے والی شہوات سے  پاک ہوا، اور جو اپنے مولیٰ کی طرف خالص عزم و ارادے کے ساتھ (یعنی ہر چیز سے کٹ کر) متوجہ ہوا -‘‘

علامہ اسماعیل حقی (﷫) اس آیت : {قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَ ذَکَرِ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی} کے تحت لکھتے ہیں:

﴿ وَ فِی الْاٰیَۃِ اِشَارَۃٌ اِلٰی تَطْھِیْرِ النَّفْسِ عَنِ الْمُخَالِفَاتِ الشَّرْعِیَّۃِ وَ تَطْھِیْرِ الْقَلْبِ عَنِ الْمَحَبَّۃِ الدُّنْیَوِیَّۃِ بَلْ عَنْ مُلَاحَظَۃِ الْغَیْرِ وَالتَّوَجُّہِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی بِقَدْرِ الْاِسْتِعْدَادِ﴾ [23]

’’ اس آیت میں نفس کو غیر شرعی اُمور سے پاک کرنے کی طرف اشارہ ہے، اور قلب کو دُنیاوی محبت سے نہ صرف پاک کرنے بلکہ ماسوی اللہ کے ملاحظے سے باز رکھنے اور طاقت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنے کا اشارہ ہے-‘‘

قرآن مجید میں ایک اورمقام پر تزکیہ نفس سے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:-

﴿ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا  وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا﴾[24]

’’بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس نفس کو (بری خصلتوں سے) پاک کر لیا (اور نیکی کی پرورش کی ، اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اس نفس کو  (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)‘‘-

حضرت امام حسن بصری ؓ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:-

﴿مَعْنَاہُ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰی نَفْسَہٗ فَأَصْلَحَھَا وَ حَمَلَھَا عَلٰی طَاعَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ﴾[25]

’’اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیااور اس کی اصلاح کرلی اور اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر آمادہ کر لیا -‘‘

تزکیہ نفس کرنے سے ہی انسان کے دل میں وہ نور پیدا ہوجاتا ہے جس کو صوفیا نہ اصطلاح میں علم باطن کہتے ہیں جیسا کہ حجۃ الاسلام امام غزالی(﷫)فرماتے ہیں:-

﴿عِلْمُ الْمُکَاشَفَۃِ فَھُوَ عِبَارَۃٌ عَنْ نُّوْرٍ یَظْھَرُ فِی الْقَلْبِ عِنْدَ تَطْھِیْرِہٖ وَ تَزْکِیَّتِہٖ مِنْ صِفَاتِہِ الْمَذْمُوْمَۃِ ﴾[26]

’’علمِ مکاشفہ (علمِ باطن)سے وہ نور مراد ہے جو دل میں اُس وقت ظاہر ہوتا ہے جب دل بری صفات سے طہارت اور پاکیزگی حاصل کر لیتا ہے‘‘-

اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے امام ابو العباس احمد بن محمد بن المھدی ابن عجیبہ الحسنی (المتوفی ۱۲۲۴ھ) لکھتے ہیں :-

﴿ وَذٰلِکَ بَعْدَ تَطْھِیْرِ الْقَلْبِ مِنَ النَّقَائِصِ وَ الرَّذَائِلِ وَ تَفَرُّغِہٖ مِنَ الْعَلَائِقِ وَالشَّوَاغِلِ، فَاِذَا کَمُلَ تَطْھِیْرُ الْقَلْبِ ، وَانْجَذَبَ اِلٰی حَضْرَۃِ الرَّبِّ، فَاضَتْ عَلَیْہِ الْعُلُوْمُ اللَّدُنِّیَّۃِ ، وَالْاَسْرَارِ الرَّبَانِیَّۃِ﴾[27]

’’اور یہ (نور) دل کے عیوب اور گھٹیا خیالات سے پاک ہونے اور دل کے (دُنیاوی) تعلقات اور مشغلوں سے فارغ ہونے کے بعد (ظاہر ہوتا)ہے - پس جب دل کی طہارت مکمل ہوجاتی ہے اور اللہ رب العزت کی بارگاہ کی طرف کشش نصیب ہوتی ہے تو اس وقت  اس دل پر علمِ لدنی اور اللہ کے اسرار و رموز کا چشمہ جاری ہو جاتا ہے‘‘-

’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ‘‘قرآن و احادیث کی روشنی میں ہی تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کا پیغام دے رہی ہے-  اس ساری گفتگو کا خلاصہ اور نچوڑ یہ ہے کہ ہمارے ظاہر کی اصلاح بھی ہمارے باطن کی اصلاح پر موقوف ہے – جیسا کہ حدیث پاک میں بھی آیا کہ اگر دل کو صاف کر لیا تو پورے وجود کی اصلاح ہوجائے گی، دل میں فساد پیدا ہوگیا تو پورے وجود میں فساد بپا ہوجائے گا- اِس لئے اِس وجود کو  اور اپنے معاشرے کو فساد، تشدد، تعصب، نفرت اور تفرقہ سے بچانے کے لئے ہم پر لازم ہے کہ وجود کے اندر اُس قوتِ روحانی کو پیدا کریں جو

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر