چاہ بہار اور گوادر : گیم چینجر یا گریٹ گیم

چاہ بہار اور گوادر : گیم چینجر یا گریٹ گیم

چاہ بہار اور گوادر : گیم چینجر یا گریٹ گیم

مصنف: طاہرمحمود جولائی 2016

اپریل ۵۱۰۲ئ میں پاکستان چین اقتصادی راہداری China Pakistna Economic Corridor (CPEC) کے معاہدے کے بعد بھارت نے ایرانی بندر گاہ ’’چاہ بہار‘‘ کو اپنا متبادل سمجھ کر اس پر دوبارہ سے تیزی سے کام کرنے کا سوچا- چاہ بہار گلف آف عمان کے نزدیک آبنائے ہرمز پہ واقع ہے- چاہ بہار کا پراجیکٹ ۳۰۰۲ئ میں شروع ہوا لیکن ایران پر امریکہ ﴿وہ امریکہ جسے ایران کی انقلابی قیادت نے شیطانِ بزرگ کا لقب دیا﴾ کی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوگیا اور ہندوستان نے ۳۱۰۲ئ تک اس پر کوئی پیش رفت نہ کی- جب نومبر ۳۱۰۲ئ میں گوادر بندرگاہ کو مزید تعمیر و ترقی کے لیےChinese Overseas Ports Holding Company Ltd (COPHCL) کے حوالے کیا گیا تو اس کے بعد ہندوستان نے ایران سے دوبارہ چاہ بہار کی تعمیر شروع کرنے کا کہا- دوسری طرف ایران ایک بڑے عرصے تک اقتصادی پابندیوں کی زد میں رہا اور اقتصادی طور پر بہت کمزور ہوا- لیکن دفاعی لحاظ سے وہ مشرق وسطیٰ کے باقی ممالک کے مقابلے میں اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے- اقتصادی پابندیاں ختم ہونے کے بعد ایران یہ چاہتا ہے کہ دنیا کے ساتھ اپنی تجارت بڑھائے - اس سلسلے میں ایران مختلف ممالک کے ساتھ معاہدے کر رہا ہے- ایران نے افغانستان اور تاجکستان کے ساتھ ریلوے، پانی اور توانائی کے معاہدے کئے ہیں اور خواہش رکھتا ہے کہ ریلوے لائن کو وسعت دے کر وسطی ایشیا کے ذریعے ترکی اور یورپ تک رسائی حاصل کرے - ایک معاہدہ عمان، قطر، ترکمانستان اور ازبکستان کے مابین طے پایا ہے اور ایران NorthoSouth Transport Corridor (NSTC) کا بھی ایک اہم رکن ہے-

ایران کے صدر حسن روحانی، بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ۳۲ مئی ۶۱۰۲ئ کو تہران میں ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کے راستے افغانستان ’ ’ٹرانزٹ ٹریڈ‘‘ کے معاہدے پر دستخط کئے- ’’چاہ بہار‘‘ کی بندرگاہ پاکستانی بندرگاہ گوادر سے تقریباً ایک سو میل مغرب میں واقع ہے اور بھارت اس بندرگاہ کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک اور روس کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے متبادل راستے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے- چاہ بہار معاہدے کے تحت بھارت کو ایران، افغانستان اور سنٹرل ایشیا کی منڈیوں تک پاکستان کے بغیر رسائی کا موقع میسر آئے گا اور یہ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان بھی اپنی تجارت کے لیے پاکستان کی بجائے ایرانی بندرگاہ کو متبادل کے طور پر استعمال کرے گا-

 ان سہ ملکی معاہدوں نے پاکستان چین اقتصادی راہداری اور خطے میں اس کی اہمیت کے حوالے سے نئے سوالات کو جنم دیا ہے- تین ملکوں کے درمیان تجارت بڑھانے اور چاہ بہار بندرگاہ کی توسیع سے پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کیا اثرات پڑیں گے؟ کیا چاہ بہار معاہدہ ایک گیم چینجر ہوگا؟ کیا چاہ بہار معاہدہ انڈیا کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے اور اس کی وسطی ایشیااور یورپ تک رسائی میں مدد دے گا؟ کیا اس معاہدے سے وسطی ایشیائی ممالک کے قدرتی وسائل کو بھی موقع دیا جائے گا کہ وہ بھی اپنی گیس ایران کے مقابلے میں فروخت کر سکیں؟ کیا بھارت چین کا حریف ہے؟ اور کیا بھارت امریکہ کی مدد سے چین کی ترقی میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے؟ کیا چاہ بہار افغانستان کے لیے پاکستان کا متبادل تصور کیا جاسکتا ہے؟ ایران کس حد تک اپنی توانائی کی مارکیٹ کو بڑھا نے میں کامیاب ہوگا؟ اور سب سے اہم یہ کہ کیا چاہ بہار گوادر کا متبادل ہے؟

ایک بات تو یہ ہے کہ اقتصادی نوعیت کے لحاظ سے پاکستان چین اقتصادی راہداری اور سہ فریقی ٹرانزٹ معاہدے کے تحت بندرگاہ کی توسیعی منصوبے کا ایک دوسرے سے موازنہ کرنا یا انہیں ایک دوسرے کا متبادل ٹھہرانا درست نہیں اور نہ ہی یہ کہنا کہ چاہ بہار بندرگاہ سے پاکستان اقتصادی طور پر تنہائی کا شکار ہوسکتا ہے - پاکستان افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ موجود ہے جس کے تحت افغانستان اپنی مصنوعات براستہ واہگہ بھارت اور دوسری طرف کراچی کی بندرگاہ کو بھی استعمال کرتا ہے - افغانستان کا پاکستان کے راستے تجارت کرنا افغانستان کے لئے زیادہ موزوں ہے- شمال مشرقی افغانستان سے واہگہ اور کراچی کا سفر انتہائی قریب، آسان اور واحد راستہ ہے جو سال کے بارہ مہینے کھلا رہتا ہے- اسی طرح جنوب مشرقی افغانستان سے بذریعہ کوئٹہ، کراچی پہنچنا بہت آسان ہے جبکہ دوسری طرف شمال مشرقی افغانستان سے ایرانی بندرگاہ تک کا راستہ کافی طویل ہے اور یہ سردیوں میں برف باری کی وجہ سے کئی کئی ہفتے بند بھی رہتا ہے اور افغانستان سے ایران کے راستے پھل در آمد کرنا ممکن نہیں رہتا- لیکن اس کے باوجود افغانستان کو چاہ بہار معاہدے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اس کی بڑی وجہ بھارت کا افغانستان میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے- درحقیقت ہندوستان ﴿دہلی، لاہور، کابل﴾ ٹرانزٹ روٹ کی ناکامی کے بعد افغانستان کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوا ہے کہ کوئی دوسرا متبادل ٹریڈ روٹ ہونا چاہئے جس کا مقصد یہ بھی تھا کہ افغانستان کا انحصار پاکستان پر کم سے کم ہو - افغانستان کو چاہ بہار سہ فریقی معاہدہ میں دھکیلنے کی بھارتی کوشش اِس لئے بھی تھی کہ سنٹرل ایشیا میں بیٹھا ہوا وہ تاجر جو چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کی جلد تکمیل کا منتظر ہے ، اُس کی توجہ کو منقسم کیا جائے تاکہ وہ گوادر کے متعلق کنفیوز ہو سکے - اِس کنفیوژن کو سنٹرل ایشیا میں پھیلانے کیلئے بھارت کے پاس برتن کی مچھلی افغانستان کی بے دست و پا حکومت ہے - ہندوستان نے افغانستان میں بھرپور لابنگ کرنے کے لئے بہت سے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جن میں ایک (Delaram- Zaranj﴾ Highway کی تعمیر کی جس کو روٹ ۶۰۶ بھی کہا جاتا ہے- اس کی لمبائی ۰۲۲ کلو میٹر ہے اور یہ دیلارم﴿ افغانستان کا سرحدی شہر ﴾ کو زارانج ﴿صوبہ نمروز کا دارالخلافہ﴾ سے ملاتا ہے- جو روڈ پہلے سے موجود ہیں ان میں سے چاہ بہار سے میلاک ۰۵۹ کلو میٹر، چاہ بہار سے ساراخس ) ۷۲۸۱ کلو میٹر جو کہ ایران، افغانستان اور ترکمانستان کے درمیان ہے-

ہندوستان اور افغانستان کے درمیان ایران کے ذریعے ۳بلین ڈالر سالانہ ٹرید متوقع ہے جبکہ موجودہ ٹریڈ ۰۰۷ سے ۰۰۸ ملین ڈالر تک ہے اور اس ٹریڈ سے افغانستان کو تجارتی خسارے (Trade Deficit) میں اضافہ ہوگا- ۹۰- ۸۰۰۲ئ میں صرف 30182 کنٹینرز ایران کے ذریعے افغانستان میں داخل ہوئے جو ۴۱-۳۱۰۲ئ کے دوران 80000 کنٹینرز ہوگئے- جس کا مطلب ہے کہ ہندوستان اپنا مال ایران کے ذریعے افغانستان میں بھیجنے کا متبادل راستہ استعمال کر رہا ہے -

چاہ بہار بندرگاہ ایران کے جنوب مشرق میں واقع ہے - یہ ایران کی واحد بندرگاہ ہے جس کو بحرِہند تک براہ راست رسائی حاصل ہے- ۲۸۹۱ئ میں چاہ بہار کی تعمیر شروع ہوئی اور اس کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے لیے راہداری کہا گیا- بھارت نے ۳۰۰۲ئ میں اس بندرگاہ کی تعمیر میں شامل ہونے کی خواہش کی- ۶۱۰۲ئ میں تین ملکی معاہدہ ﴿انڈیا، ایران، افغانستان﴾ طے پایا - چاہ بہار کا فاصلہ زاہدان ﴿ جو کہ ایران کے صوبے سیستان کا دارلخلافہ بھی ہے﴾ سے ۰۰۷ کلومیٹر ہے- میلاک ﴿جو کہ افغان بارڈر کے ساتھ ایران کا شہر ہے﴾ سے ۰۵۹ کلومیٹر ہے اور ترکمانستان بارڈر کے قریب سارخ سے ۷۲۸۱ کلومیٹر کا فاصلہ ہے   - اگر سمندری فاصلہ دیکھا جائے تو دوبئی سے ۳۵۳ ناٹیکل میل، کراچی سے ۵۵۴ ناٹیکل، ممبئی سے ۳۴۸ ناٹیکل میل، اور گوادر سے تقریبا ۰۰۱ ناٹیکل میل ہے- ایران کے پاس ’’بندرعباس‘‘ بندرگاہ موجود ہے لیکن وہ بندرگاہ اتنی گہری نہیں- اس کے مقابلے میں چاہ بہار زیادہ گہری ہے جو تقریبا 100000 ٹن تک کا سامان اتروانے کی صلاحیت رکھتی ہے-

ایران کے پاس بندر عباس کی بندرگاہ تھی جو کہ بڑے سامان کے لیے موزوں نہیں تھی اور ایران متبادل کے طور پر دبئی کی بندرگاہ استعمال کرتا ہے- ۰۷۹۱ئ کے دوران ایران کی دوبئی اور گلف کی بندرگاہوں پر کم انحصار اور خاص کر ۰۸۹۱ئ کے دوران ایران کو مزید سوچنے پر مجبور کیا کہ کوئی متبادل ٹریڈ روٹ کا انتخاب کیا جائے جس میں کسی اور ملک، جس کے ساتھ باہمی مفادات ہوں، کا انتخاب کیا جا سکے- اس کے نتیجے میں ایران، بھارت اور روس نے مل کر انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور (INSTC) پر کام شروع کیا- گوادر اور چاہ بہار کا Trade volume ، Area اور Capacity of port کے لحاظ سے کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا - اگر گوادر کے ماسٹر ڈویلپمنٹ پلان کو دیکھا جائے تو تقریبا 18600 ایکٹر اراضی مختلف منصوبوں کے لیے مختص کی گئی ہے، جن میں بندرگاہ کی توسیع کے لیے ۰۰۴ ایکٹر کا رقبہ، ایکسپورٹ پراسسنگ زون کے لیے ۰۰۰۷۴ ایکڑ ، سپیشل انڈسٹریل زون کے لیے ۰۰۰۴ ایکٹرز ، آئل ریفائنری کے لئے ۰۰۰۱ ایکٹرز رکھی گئی ہے- ابھی پاکستان کی ٹرانسپورٹ اور لاجسٹکس کی مد میں ہونے والی آمدن قومی آمدنی کا تقریباً 650 ملین ڈالر ہے - اگر چین کی عالمی کارگو کے volume کا 5 فیصد گوادر کے زریعے جائے تو تقریبا سالانہ 6 بلین ڈالر حاصل ہونگے-

گوادر : ایک گیم چینجر 

گوادر دنیا کا سب سے بڑا Strategic Venture ہے- اِس وقت عالمی طاقتوں کی آنکھ میں ایک نوکدار سوئی کی طرح یہ منصوبہ چُبھ رہا ہے ، عالمی استعمار اپنی پوری توانائی اس منصوبے کی ناکامی پہ صرف کر رہا ہے - میڈیا اور پروپیگنڈا کے دوسرے ذرائع بروئے کار لا کر رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف ہموار کیا جارہا ہے - بھارت سمیت کئی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں یہاں اپنا بھیانک کھیل ، کھیل رہی ہیں ، جس کا ایک واضح ثبوت ایرانی سرحد کے قریب سے بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری ہے ، کئی دیگر جاسوس بھی پکڑے گئے جن کے اعترافی بیانات قومی پریس میں شائع ہو چکے ہیں کہ وہ اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ناکام بنانے پہ کام کر رہے تھے - باخبر لوگ افغان طالبان کے سربراہ ملاں اختر منصور کی پاکستان میں ڈرون حملے سے موت کو بھی اِسی گریٹ گیم کا حصّہ کہہ رہے ہیں تاکہ پاکستان کے متعلق عالمی رائے عامہ کو مثبت نہ ہونے دیا جائے -

گوادر ایک گیم چینجر ہے اور چاہ بہار جس کے فوائد ایران کے ساتھ باقی ممالک کو ہو سکتے ہیں اس کے باوجود اس کو ایک گریٹ گیم کے تحت لانچ کیا گیا ہے- اس گریٹ گیم کو اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو اس کو ہم Eurasian Region کے تناظر میںہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں وگرنہ عالمی پالیسی کا صحیح پہلو سمجھنا مشکل ہوگا- امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر نکولس جان سپائیک مین نے یہ کہا ہے کہ:-

"Who Controls the Rimland, Rules Eurasia, Who Rules Eurasia, Controls Destinies of the World "

رملینڈ کے علاقے میں دنیا کی سب سے زیادہ آبادی اور سب سے زیادہ وسائل موجود ہیں اس کے اندر جنوبی ایشیا ﴿جس میں انڈیا، پاکستان، عرب، ایران، افغانستان، چائنہ، کوریا، مشرقی سائبیریا اور جنوب مشرقی ایشیا شامل ہیں﴾- اب اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی اہمیت اس میں کتنی ہے- مغرب کی طرف سے لاکھ کہنے کے باجود ہندوستان پاکستان کی وجہ سے مشرق وسطی اور افغانستان پر دسترس حاصل نہیں کر سکے گا کیونکہ ایسا کرنے کے لیے اس کو زمینی رستہ چاہیے جو کہ اس کے پاس موجود نہیں- اسی وجہ سے انڈیا پاکستان میں دہشتگردی کرواتا ہے اور اسے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ پاکستان کے اوپر اپنا چانکیائی راج چلا سکے لیکن پاکستان کے ناقابلِ شکست دفاع اور بہادر افواج نے بُنیے کی چانکیائی سازشوں کو اپنی ہر محاذ پہ ناکام بنایا ہے - یہ طے شُدہ بات ہے کہ انڈیا ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا- اس کی وجہ انڈیا میں بڑھتا ہوا غیر منصفانہ اور عدم برابری کا شکار معاشرہ ہے جو کہ از خود اس کے ٹوٹنے کا باعث بنے گا- انڈیا کو سہانے خواب دکھانے میں امریکہ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی کیونکہ وہ اسے خطے کا چوہدری بننے کے خواب دکھا کر اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے جس کا فائدہ امریکہ کو ہوگا اور جہان پٹنے کی باری آئے گی وہ اکیلا انڈیا ہی سہے گا کیونکہ بڑے ملک کے بڑے فائدے کے ساتھ نقصانات بھی بڑے ہوتے ہیں -

یہ بات چشمِ عالم سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ نے بھارت کو ’’ماموں‘‘ بنا رکھا ہے کہاں پدی کہاں پدی کا شوربہ ، بھارت کی مجال ہی نہیں کہ ابھرتے ہوئے چین کے ساتھ برابری کر سکے لیکن چونکہ امریکی مفاد پہ بھارت نے ایشیا کا امن داؤ پہ لگا رکھا ہے تو سمجھ اُس دن آئے گی جب امریکی مفاد ختم ہوتے ہی امریکی بیساکھیوں پہ کھڑی بھارتی معیشت دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گی - بھارتی اِسے دانستہ طور پہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ گلف میں طاقت کا توازن بدلتے مفادات کیساتھ کس طرح تبدیل ہو رہا ہے جو اِس بات کو واضح کرتا ہے کہ بڑے دریاؤں کی موجیں ہمیشہ ایک ہی کنارے نہیں بہتیں -

مغربی ممالک کی معیشت کو سب سے بڑا چیلنج چین کا ابھرنا دِکھتا ہے جس کیلئے اُن کا اصل ہدف چین کو کمزور کرنا اور اس خطے پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا ہے جس کے لیے اُن کو ایک ایسے مزارعے کی ضرورت ہے جو اس کی غیر موجودگی میں اس کا کام کر سکے اور یہ مزارعت بھارت بخوبی کر رہا ہے - مغربی معیشتوں خاص کر امریکہ کی خواہش ہے کہ بھارت کو ایشیا خاص کر جنوبی ایشیا میں علاقائی بالا دستی حاصل ہو جائے ، اس کے سامنے جنوبی ایشیا کے باقی ممالک مثلاً بھوٹان ، نیپال ، بنگلہ دیش وغیرہ کی ہمت نہیں کہ ٹھہر سکیں یہ پاکستان ہے جس نے بھارت کے سارے وار اپنے اوپر سہے اور بھارت کا ’’فنڈڈ ٹیررازم‘‘ برداشت کیا مگر اُس کی علاقائی بالادستی کو قبول نہیں کیا - یہاں میڈیا اور دیگر کئی ذرائع سے بھارت نے کوشش کی کہ عوام کی ذہن سازی کی جائے کہ وہ دوستی کے نام پہ بھارتی بالادستی کو قبول کر لیں ، اِس پہ اکثر بڑی سیاسی جماعتیں بھی پاکستانی مفاد پسِ پُشت رکھ کر امریکی دباؤ پہ بھارت کی زبان بول رہی تھیں مگر بھارت کے بالا دستانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ افواجِ پاکستان تھیں جس کے بہادر جوانوں اور حوصلہ مند قیادت نے بے پناہ قُربانیاں دیکر کسی دباؤ کو قبول نہیں کیا اور مملکتِ خُداداد مدینۂ ثانی اسلامی جمہوریّہ پاکستان کے تشخص اور استحکام کا دِ فاع کیا ہے - اِسی وجہ سے پاکستان میں موجود بھارت نواز قوّتیں افواجِ پاکستان کے خلاف اپنا زہریلا پروپیگنڈا کرتی رہی ہیں -

ہندوستان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ چین کے مقابلے میں ابھر رہا ہے ، جو کہ انتہائی غلط تاثر ہے- بھارت نہ معاشی ،سیاسی اور نہ ہی دفاعی سطح پر چین کا مقابلہ کرسکتا ہے- البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ چین امریکہ کی جگہ لینے کے لیے تیار ہے- چین پاکستان اقتصادی راہداری سے چین اور پاکستان دونو ں کو فائدہ ہو گا - جہاں تک افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کا تعلق ہے تو افغانستان میں ابھی تک امن نہیں قائم ہوا اور مستقل قریب میں ہوتا ہوا بھی نظر نہیں آ رہا جس کی کئی وجوہات ہیں - دوسری طرف ایران کی یہ خواہش نہیں ہوگی کہ جب وہ تیل اور گیس فروخت کر رہا ہے تو اس کے مقابلے میں وسطی ایشیائی ممالک بھی تیل اور گیس فروخت کریں- اگر ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو کس حد تک وہ چاہ بہار کو استعمال کریں گے اس کا فیصلہ بھی وقت ہی کرے گا- پاکستان کو اپنے معاشی استحکام کے لیے CPEC کے مکمل ہونے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والی تمام قوتوں کو روکنے کی ضرورت ہے-

میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح امریکہ نے بھارت کو ایشیا کی ترقی میں رکاوٹ کار کے طور پہ پال رکھا ہے اور ’’ماموں‘‘ بنا رکھا ہے اِسی طرح بھارت نے افغانستان کی غیر مؤثر حکومت کو خطے کی ترقی میں رکاوٹ اور ’’ماموں‘‘ بنا رکھا ہے بھارتی سازشوں اور بھارتی انویسٹ منٹ کی وجہ ہی سے افغان فورسز پاکستانی سرحد پہ کشیدگی پھیلا رہی ہیں - کئی افغان آفیشلز برملا یہ کہہ چکے ہیں کہ افغان نیشنل آرمی باوجود امریکی و بھارتی بڑی انویسٹ منٹ کے کوئی باضابطہ فوج نہیں بن سکی ، نہ ہی اُن میں ’’چین آف کمانڈ‘‘ اسٹیبلش ہو سکی ہے اور نہ ہی ذرہ برابر پروفیشنل ازم اُن میں آ سکا ہے - ایک اعلیٰ افغان عہدیدار نے اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں یہ اعتراف کیا تھا کہ افغان آرمی میں یہ صلاحیّت ہی نہیں ہے کہ وہ افغان طالبان سے لڑائی لڑ سکے - جو ایک نسبتاً غیر منظم فورس سے لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ بیچارے بھلا دُنیا کی طاقتور ترین افواج میں شمار ہونے والی پاکستانی فوج سے کیا لڑیں گے - چند بھارتی ایجنٹ جو افغان آرمی میں موجود ہیں وہ صرف اقتصادی راہداری کی تکلیف پہ تلملائے ہوئے ہیں اور ایسی اوچھی حرکتیں کر رہے ہیں - یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ افغانستان پاکستان کا ایک اہم ہمسایہ ملک ہے اس کے ساتھ پاکستان کو تعلقات بہتر بنانے اور اپنا اثر بڑھانے کے لیے بھارت کے مقابلے میں مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے - افغانستان کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پاکستان افغان مہاجرین کو کئی دہائیوں سے پناہ دیئے ہوئے ہے اور اس کا پاکستان کی معیشت پر بڑا اثر ہے- جہاں تک کی بات ہے تو ایران کی معیشت اچھی ہو یہ پاکستان کی خواہش ہے لیکن ایران کو یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ اس کی معاشی تعاون کی آڑ میں کوئی ملک پاکستان کو نقصان نہ دے -

آخر میں ہمیں اپنے اندرونی معاملات پہ بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں ایک طرف شدّت پسندی کیوجہ سے دہشت گردی کا ہمیں سامنا ہے وہیں کرپشن بھی دہشت گردی سے کم نقصان دِہ نہیں ہے - دہشت گردی تو گزشتہ بارہ برسوں کی داستان ہے جس کی آڑ میں کرپٹ اشرافیہ اپنے جرائم چھپا رہی ہے جبکہ کرپشن تو بہت پرانا مرض ہے اور پاکستانی معیشت کی اصل دشمن بھی یہی کرپشن ہے - چائنا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی ترقی اِس بات سے مشروط ہے کہ دہشت گردی اور کرپشن کو مکمل طور پہ ختم کیا جائے -

پوری پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر اور یک جہت ہو کر اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل اور کامیابی کا پہرہ دے گی اور ﴿انشا اللہ﴾ یہ منصوبہ اِس خطے کی تقدیر بدل دے گا -

 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر