مسئلہِ فلسطین : کشیدگی کی تازہ لہر

مسئلہِ فلسطین : کشیدگی کی تازہ لہر

مسئلہِ فلسطین : کشیدگی کی تازہ لہر

مصنف: احمد القادری جون 2018

 

1917ءمیں انگلستان کی حکومت کی طرف سے بیل فور ڈیکلیریشن(The Balfour Declaration) میں اِس بات کا اعادہ کیا گیا کہ فلسطین میں دنیا کے تمام یہودیوں کے لیے ایک قومی گھر(National Home) بنایا جائے گا- جس کی نہ تو کوئی سرحدی حدیں اور نہ کوئی آبادی کی شرح بتائی گئی- اِس بیان میں مقامی لوگوں کےشہری و سیاسی حقوق کی پاسداری کا بھی عزم کیا گیا- مگر وقت کی دوڑ اور طاقت کے نشے نے حکمرانوں کو تہذیب کا درس بھلا دیا اور وہ اپنی بنائی قدروں کے مخالف گروپ کے ساتھ ہو لیے-دوسری جنگِ عظیم کے دوران فلسطین میں یہودیوں کا سمندر امڈ آیا اور اِس طرح وہاں ایک ایسی ریاست کا قیام کیا گیا جو نہ تو کسی بھی قانون کے دائرے پر پورا اترتی ہے اور نہ ہی ریاست قرار پانے کی شرائط رکھتی تھی-اِس تنازعہ کی وجہ سے تین عرب -اسرائیل جنگیں ہو چکی ہیں اور آئے دن فلسطینی اسرائیلی بربریت کا شکار ہوتے ہیں-کبھی دہشت گردی کے نام پر نہتے فلسطینیوں پر F-16سے بم گرائے جاتے ہیں تو کبھی امن قائم کرنے یا مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے نہتے لوگوں کو نشانہ بازی کی مشق سمجھ کر مار دیا جاتا ہے-

987ء کو یاسر عرفات نے پی-ایل-او (Palestine Liberation Organization ) کا قیام کیا  اور انتیفادہ (Intifada) جِس کا مطلب ہے مزاحمت شروع کیا گیا- عالمی طاقتیں و ادارے اِس مسئلہ کو کم کرنے کے لیے اوسلو آکارڈ (Oslo Accord 1993) جیسے کافی داؤ پیچ لڑا چکے مگر بے سود کیونکہ ایک طرف وہ امن کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کی اسرائیل نواز خارجہ پالیسیاں اِس مسئلہ کو مزید الجھا رہی ہیں- عالمی طاقتوں کا اقوام متحدہ و سلامتی کونسل میں غیر سنجیدہ و جانبدار کردار عالمی اداروں کو مجذوب کیے ہوئے ہے- عالمی میڈیا اور عالمی برادری بھی اپنی پر سکون اور عیش و عشرت میں مست ہیں-مسلم اُمہ بھی اپنے لسانی،فرقہ واریت اور ذاتی مفادات کی وجہ سےنیم مردہ ہو چکی ہے- اِس خوابِ غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیسیفک پاور(Pacific Power) نے اپنا سفارت خانہ (Embassy) کو تل ابیب سے اقوامِ متحدہ کے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تسلیم کردہ متنازعہ شہر یروشلم میں منتقل کرنے اور اُس کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنا اِس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کیسے دنیا میں امن، آزادی اور جمہوریت کے حامی اپنی قدروں کا جنازہ نکال رہےہیں-21 دسمبر 2017ء کو اقوام متحدہ میں دنیا نے اِس ناقابلِ تلافی قانونی نا انصافی کو ٹھکرا دیا کیونکہ کسی نے کیا خوب کہا کہ ایک جگہ اگر ناانصافی ہو گی تو وہ ہر جگہ پہ ناانصافی ہونے کے برابر ہے- مگر دنیا میں انسانی حقوق کی جنگ لڑنے والا خود اپنے نئے سفارت خانے کی تقریبِ رونمائی کے دن 60 سے زائدشہید فلسطینیوں اور تقریباً 3000سے زیادہ زخمیوں کے نذرانے قبول کرتا ہے جِن پر جنگی جہازوں اور ٹینکوں سے فائرنگ کی گئی جیسے کسی عالمی جنگ میں کسی شہر کو قبرستان بنانے کا ارادہ کیا گیا ہو-

15 مئی 2018ء کو اسرائیل کی غزہ پٹی پر انسانی حقوق کی پامالی جہاں عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار واضح کرتا ہے وہیں عالمی میڈیا کی جانبداری بھی واضح کرتا ہے- یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ وہی میڈیا ہے جن کو شوبز، فیشن، کھیل کے میدان، معیشت، دہشت گردی کی جنگ، ایران،  شام، چائنہ اور روس میں ہونے والے واقعات اور فیصلوں پر سانس کی فرصت تک نہیں ملتی مگر جب فلسطین اورکشمیر کا نام آتا ہے تو یہ تمام میڈیائی طاقتیں اور ادارے ہمیں اندھے، گونگے، بہرے اور مردہ نظر آتے ہیں - مگرباوجود پابندیوں کے اِس گلوبل ویلج میں آپ کا عمل دنیا میں صرف چند سیکنڈز میں پہنچ جاتا ہے جِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 15 مئی کو غزہ کی پٹی پر ہونے والی نسل کشی و مظالم کو سوشل میڈیا پہ لائیو چلایا جاتا رہا ہے-اس الم ناک واقعہ پہ ہر ذی روح انسان غم ناک ہے، جِس پر دنیا کے مختلف رہنماؤں نے اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے-

1.       اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری انٹونیو گوٹرز (Antonio Guterres) نے کہا کہ :’’غزہ میں ہونے والے مظاہروں کے دوران بڑھتے ہوئے (اسرائیلی) تشدد ، اموات اور زخمیوں کی (بڑی) تعدا نے مجھے چونکا کر رکھ دیا  ہے  ‘‘-[1] 

2.       ’’ترکی کے صدر، طیب اردگان ، نے کہا کہ اسرائیل (فلسطینی عوام) کی نسل کشی (genocide) کر رہا ہے جیسا کہ مظاہرے کے صرف ایک دن 50 سے زائد فلسطینیوں کو اسرائیلی فوجیوں نے قتل کر دیا ہے-انہوں نے اسرائیل کو ایک دہشت گرد ریاست کہا اور اپنے سفارت کار کو اسرائیل اور امریکہ سے واپس بلانے کا اعلان کیا-اردگان نے اقوام متحدہ کو کہا کہ اقوامِ متحدہ ختم ہو چکی ہے کیونکہ یہ اسرائیل کی غزہ کی پٹی پر مسلسل وحشیانہ طاقت کو جواب دینے میں ناکام رہ چکی ہے‘‘-[2] 

3.       ’’جنوبی افریقہ کے بین الاقوامی تعلقات عامہ اور تعاون کے ڈیپارٹمنٹ نے ایک اعلامیہ میں کہا کہ جنوبی افریقہ کی گورنمنٹ غزہ کی سرحدی پٹی پر اسرائیل کی فوج کی طرف سے وحشیانہ ت تشدد کی پر زور مذمت کرتی ہے-گورنمنٹ آف ساؤتھ افریقہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل میں اپنے سفیر،سیسا نگوبین ،کو فوری واپس بلا لے اور اگلے ’’نوٹیفکیشن‘‘تک یہ حکم صادر رہے گا‘‘-  [3]

4.       ’’اقوام متحدہ میں کویت کے مندوب منصور الاوتیبی نے کہا:فلسطینی عوام اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی طرف دیکھ رہی ہے کہ یہ ادارے عالمی امن و سلامتی (جوکہ فلسطین کے امن سے مشروط ہے) کے قیام کیلئے کیا کر رہے ہیں‘‘-[4]

5.       ’’مچل لینک، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق مقبوضہ فلسطین میں سپیشل مندوب نے ایک اعلامیہ میں کہا:اسرائیل کی جانب سے بے تحاشہ طاقت کا استعمال آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہے جو کہ ختم ہونا چاہیےاور اُس عسکری و سیاسی قیادت کے خلاف شفاف احتساب ہونا چاہیے جنہوں نے غزہ باڑ پر اتنی طاقت کے استعمال کا حکم یا اجازت دی‘‘-[5]

6.       ’’آسٹریلیا کی وزیر خارجہ،جولی بشپ نےکہا کہ:اُن کی حکومت مظاہروں کے دوران ہونے والے ہلاکتوں اور زخمیوں پر بہت پریشان اور افسردہ ہے‘‘-[6]

7.       ’’امریکی سینیٹ کمیٹی برائے امور خارجہ کی سب کمیٹی برائے مشرقِ وُسطیٰ کے ڈیوکریٹ رُکن سینیٹر، ٹم کین نے بتایا کہ:صُورتحال بہت گھمبیر اور افسوسناک تھی  اور مزید کہا کہ اِس سے ایسا نہیں لگ رہا کہ امریکہ اِس مسئلہ کو حل کر نا چاہ رہا ہے بلکہ ایسا نظر آ رہا ہے کہ امریکہ اِس مسئلہ سے پیچھے ہٹ رہا ہے جو کہ بڑی افسوس ناک بات ہے ‘‘-[7]

8.       ’’موسیٰ فقی محمت، چئیر پرسن افریقن یونین کمیشن نے اِس بات پر زور دیا کہ امریکن سفارت خانے کی یروشلم منتقلی خطہ میں کشیدگی کو مزید بڑھائے گی اور مسئلہ فلسطین –اسرائیل کے دیر پا حل کی تلاش کو مزید پیچیدہ کر دے گی جیسا کہ آج (15 مئی 2018ء )کے واقعے سے واضح ہے-انہوں نے فلسطینیوں کی اپنے ایک الگ آزاد و خود مختار ریاست جِس کا دارلحکومت مشرقی یروشلم ہو گا کی جدوجہد میں افریقن یونین کی یکجہتی کی یقین دہانی کروائی-انہوں نے اقوام متحدہ کے وعدوں کے مطابق بتائے طریقہ کار سے اِس مسئلہ کے دیر پا حل کے لئے، دو ریاستوں (فلسطین و اسرائیل ) کے قیام کے لیے بین الاقوامی اور سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے‘‘-[8]

9.       ’’روس کے وزیر خارجہ سر جے لاؤ روف نے اس واقعے پہ اسرائیلی اعلامیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا:میں اِس بات سے متفق نہیں ہو سکتا کہ درجنوں پر امن شہری بشمول بچے اور نومولود جوان واقعات میں مارے گئے ہیں وہ دہشت گرد ہیں- یہ ایک گستاخانہ اعلامیہ ہے‘‘-[9]

10.   ’’فرانس کے صدر عمانویل میکرون نے مظاہرین کے خلاف مسلح اسرائیلی افواج کی طرف سے تشدد کے استعمال پر مذمت کی اور تمام ذمہ داران کو اِس کی روک تھام اور تناؤ میں کمی کے لیے دعوت دی‘‘-[10]

11.   ’’جرمنی کی وزارت خارجہ نے ایک پریس ریلیز میں اظہار کیا ہے کہ وہ (اسرائیلی افواج کی جانب سے معصوم فلسطینیوں کی) نسل کشی کو رد کرتے ہیں اور اِس بات کو واضح کرتے ہیں کہ غزہ پٹی میں پر امن مظاہرے کے حق کا تحفظ ہونا چاہیے-

12.   رابرٹ ہیبک، گرین (سیاسی)پارٹی کے صدر نے کہا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے  اِس کشیدگی کو  آگ میں مالوٹوف کاک ٹیل(پٹرول بمب ) پھینک کر مزید بڑھا دیا ہے- جب کے دوسری طرف  بائیں بازو کی پارٹی کے صدر،دیٹمار بارکش نے امریکہ  کے صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، پر الزام لگایا کہ ان کی خاموش پالیسی خطہ کی امن کوششوں میں رکاوٹ ہے ‘‘-[11]

13.   ’’اسلامک سمٹ کانفرنس کے ساتویں غیر معمول سیشن میں پاس کی گئی قراداد اسرائیل کی مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی لوگوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو مجرمانہ عمل قرار دے کر سخت مذمت کی ہے خاص طور پر غزہ پٹی پر جہاں غیر مسلح فلسطینی غیر انسانی و غیر قانونی قبضہ کے خلاف اپنے قانوناً حق کے مطابق پُر امن مظاہرہ کر رہے ہیں اور اسرائیل،مقبوضہ طاقت، کو مکمل طور پر فلسطین میں ہونے والے مظالم خصوصاً  14 مئی کو جان بوجھ کر قتل کیے گئے 60 شہری اور 2700 زخمیوں کا ذمہ دار قرار دیتا ہے‘‘-[12]

جہاں کچھ لوگوں نے کھل کر اِس واقعے پہ جابر و قابض افواج کو ذِمہ دار ٹھہرایا ہے وہیں فلسطین ٹریجڈی کے ڈرامہ نویسوں نے پھر وہی روایتی ڈبل گیم رچائی تاکہ اتنی بڑی اموات پہ سٹیٹمنٹ بھی آ جائے اور پڑھنے والے سوچتے ہی رہ جائیں کہ یہ قاتل کو بچانے کیلئے دی گئی ہے یا مظلوم کی داد رسی کیلئے ؟ برطانوی وزیرِ اعظم محترمہ تھریسا مے فرماتی ہیں:

1)      “Theresa May, “There is an urgent need to establish the facts of what happened yesterday through an independent and transparent investigation”.[13]

’’ اِس امر کی اشد ضرورت ہے کہ(فلسطین میں) جو کچھ کل ہوا اس کی آزاد اور شفاف تفتیش سے ثبوت اکٹھے کیے جائیں‘‘-

برطانوی وزیرِ اعظم کا سٹیٹمنٹ ایک ایسی خوفزدہ عورت کے سٹیٹمنٹ کی طرح ہے جو سزا کے خوف سے اپنے ظالم بچے کے عیب بچگانہ طریقے سے چھپانے کی کوشش کرتی ہے-اِسی طرح یورپی یونین کونسل کے اراکین کی سٹیٹمنٹ بھی قابلِ تجزیّہ ہے کہ در اصل وہ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ بین الحروف چھپی ہوئی سرد مہری دیکھنے کے لائق ہے-

2)      "While recognizing the right to protect its borders, we expect Israel to respect the fundamental right to peaceful protests and the principle of proportionality in the use of force when defending its legitimate security interest”.[14]

’’یورپی یونین،کونسل کے ممبرز نے ایک اعلامیے میں کہا کہ:اپنی سرحدوں کی حفاظت کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے، ہم امید کرتے ہیں کہ اسرائیل پُرامن مظاہرین کے بنیادی حقوق کی عزت کرے گا اور اپنے قانونی سکیورٹی مقاصد کے دفاع میں طاقت کے مناسب استعمال کے قانون کا خیال رکھے گا‘‘-

اِس سٹیٹمنٹ سے یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ یورپی یونین کے نزدیک اسرائیل کو مکمل قانونی حق حاصل ہے کہ اپنی سرحد کی حفاظت کرے اور اُس کیلئے فورس کا استعمال کرے اور ہم فورس کے استعمال کو (legitimate security interest) کَہ کر اسرائیلی مفاد کا دفاع کرنے کو حاضر بیٹھے ہیں مگر اتنے زیادہ افراد کے قتل سے ہمارے لئے مشکل ہے کہ ہم اسرائیل کا کھلے عام دفاع کر سکیں-

اسرائیلی مظالم کے خلاف دنیا کے کئی ممالک میں ہر طبقہِ ذی شعور ہمیں مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے جو اسرائیل کی غیرانسانی سلوک کے خلاف سراپاِ احتجاج ہیں-گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ حالات مزید خراب ہوں گے کیونکہ فلسطین کے لوگوں کے پاس جان کےسوا کچھ نہیں بچا سب پر غیر قانونی قبضہ کیا جا چکا ہے اور وہ سب جِس پر ان کا حق ہے وہ لےکر رہیں گیں -یہ عالمی طاقتوں اور خصوصاً عالمی اداروں کو دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکتے ہیں کہ نہیں یا یوں ایک ایک کر کے لوگ مرتے رہیں گیں اور عالمی نظام کا مذاق بنتا رہے گا-اسرائیل کی صرف ایک پالیسی ہے جو بھی اپنے گھر لوٹنے کی بات کرے گا اسے گولی مار دی جائے گی-کیوں عالمی برادری اسرائیل کا بائیکاٹ نہیں کرتی؟ کیوں اسرائیل کو اقوام متحدہ کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکتا؟ کیوں اسرائیل پر ہتھیاروں کی تجارت پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی؟ کیوں ایران و شمالی کوریا کی طرح اسرائیل پر پابندیاں نہیں لگائی جا سکتی؟ کیوں عالمی میڈیا کو ظلم و بربریت نظر نہیں آتی؟ کیوں مسلم اُمہ ایک طاقت بن کر اسرائیل کا بائیکاٹ نہیں کر سکتی؟ آخر کب تک دنیا میں عالمی قانون و اداروں کا مذاق اڑایا جائے گا؟مسئلہ فلسطین-اسرائیل کا واحد حل آزاد فلسطین ریاست ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں اور اوسلو آکارڈ میں بیان کیا گیا ہے-اسرائیل کو عرب -اسرائیل جنگ سے پہلے والی سرحدوں پر جانا ہوگا-تمام مہاجرین کو پُر امن واپسی اور ان کو ان کے گھر دینا ہوں گیں اور یروشلم کو فلسطین کا دارلحکومت ماننا ہو گا-عالمی نظام کو اسرائیل پر واضح کرنا ہو گا کہ اُس کی ہٹ دھرمی پر مزید فلسطینی قربان نہیں کیے جائیں گیں-

٭٭٭


[1]https://twitter.com/antonioguterres/status/996291718306844674

[3]https://www.iol.co.za/news/politics/sas-decision-to-withdraw-ambassador-to-israel-outrageous-14976392

 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر