ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

جنہاں عشق حقیقی پایا موہوں نہ کجھ الاون ھُو

ذکر فکر وچ رہن ہمیشاں دم نوں قید لگاون ھُو

نفسی، قلبی، روحی، سری، خفی اخفٰیٰ ذکر کماون ھُو

میں قربان تنہاں توں باھُو (رح) جیہڑے اکس نگاہ جواون ھُو

JinhaaN Ishq haqeeqi paya mohooN na kujh alawan Hoo

Zikar fikar wich rehn hamaishaaN dam nooN qaid lagawan Hoo

Nafsi, qalbi, roohi, sirri, khafi akhfa zikar kamawan Hoo

Mai'N qurban tinhaaN tooN "Bahoo" jehRey iks nigah jiwavan Hoo

 

Those who have acquired real ishq they dare not mutter Hoo

They remain in dhikr and reflection and restrict their breaths flutter Hoo

nafsi, qalbi, sirri, khafi and ukhfa, dhikr they procure Hoo

I sacrifice upon you "Bahoo" with a single glance, life they secure Hoo

تشریح:

﴿۱﴾اللہ رب العزت کی ذاتِ مقدسہ کے وصال کانام عشق ہے-ابتدائے عشق میں جب طالبِ مولیٰ عظیم قدرت والے شہنشاہ کوپہچانتا ہے تو اُس کی زبان عظمتِ ربّانی کی وجہ سے خاموش ہوجاتی ہے-وہ قرب الٰہی کامرتبہ نصیب ہوجانے کااِقرار نہیں کرتے لیکن ان کی فیض رس نگاہیں دل کے حال کاپتا دیتیں ہیں-فرمانِ حضور غوث پاک(رض) ہے کہ:انسان جب اپنے مقصود ﴿ذات حق﴾کو اپنے سامنے پاتا ہے تو عقلیں چکراجاتی ہیں ،دل حیرت زدہ ہوجاتے ہیں اورزبان گنگ ہوجاتی ہیں اورانسان میں یہ طاقت نہیں رہتی کہ وہ اپنے مشاہدے کوبیان کرسکے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات امثال سے پاک ہے-﴿سرالاسرار:۵۵﴾-

﴿۲﴾اس لئے طالب ذکرِ پاس انفاس اورتصورِ اسم اللہ ذات کے ذریعہ بارگاہِ حق سے رُوحانی رابطہ قائم کرلیتا ہے-وہ ہر سانس کے ساتھ اسم اللہ کاقلبی ذکر کرتاہے اورشب وروز ہر لحظہ تصورِ اسم اللہ کو اپنے دِل پہ منقش پاتاہے-جیساکہ ارشادِ ربّانی ہے کہ: -وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰ فِلِیْنَ-ترجمہ:-اور اپنے رب کو اپنے دِل میں یادکرو زاری اورڈر سے اور بے آواز نکلے زبان سے صبح اورشام اورغافلوں میں نہ ہونا-﴿الاعراف:۵۰۲﴾

﴿۳﴾تصورِ اسم اللہ ذات کی رُوحانیت ونُورانیت ولطافت کی وجہ سے بارگاہ حق میں درجہ بہ درجہ ترقی پاتا ہے-سفرِ حقیقت کے مقامات کو حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث قدسی کی رُو سے بیان فرمایاکہ:- ’’بے شک آدمی کے جسم میں ایک ٹکڑا ہے جو فواد میں ہے، فواد قلب میں ہے، قلب روح میں ہے، روح سرّ میں ہے، سرّ خفی میں ہے اور خفی اَناَ میں ہے-﴿عین الفقر:۱۸﴾ اکابرِ تصوف فرماتے ہیں کہ انسانِ حقیقی﴿امرِ ربّی﴾عالم لاہوت سے مذکورہ مقامات سے بتدریج تنزلی سے عالم ناسوت تک پہنچا ہے -دُنیا کے کمرۂ آزمائش میں انسان کو بارگاہِ خداوندی سے یہ صلاحیت ودیعت کی گئی کہ وہ اپنی رُوحانی پرواز سے انہی مقامات کوعبورکرکے اپنے اصلی وطن میں پہنچ سکتا ہے -

حضور نبی اکرم ﷺ کے منظورِ نظر اولیائ کرام اپنی ظاہری حیات ہی میں اسم اللہ ذات کی برکتوں سے انہی مقامات سے ہوکر لقائے باری تعالیٰ سے سرفراز ہوتے ہیں -آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ:- جب عارف باللہ واصل فنا فی اللہ فقیر اسم اَللّٰہُ کا نقش تصور سے اپنے دل پر لکھ لیتا ہے تو وہ دیکھتاہے کہ اُس کا جسم اسمِ اَللّٰہُ میں غرق ہو کرغائب ہو گیا ہے اور جسم کے بجائے اسمِ اَللّٰہُ ظاہر ہو گیا ہے تو وہ ظاہرو باطن کا ہر مشاہدہ اسمِ اَللّٰہُ ہی سے کرتا ہے- اُسے ہر چیز کے مغز و پوست میں اَللّٰہُ ہی اَللّٰہُ نظر آتا ہے اور وہ کامل صاحب ِغنایت ہو جاتا ہے--- اُس کا نفس قلب بن جاتا ہے، قلب روح کی صورت اختیار کر لیتا ہے ، روح سرّ بن جاتی ہے، سرّخفی بن جاتا ہے، خفی انا میں تبدیل ہو جاتی ہے اور انا مخفی میں ڈھل جاتی ہے---یہاں پر پہنچ کر ابتدا انتہا بن جاتی ہے-- پس مرشد وہ ہے جو طالب کو ازل سے لے کر چلے اور مراتب بہ مراتب ، منزل بہ منزل اور مقام بہ مقام گزارتا ہوا ابد تک لے جائے اور پھر ابد سے لے کر مراتب بہ مراتب، منزل بہ منزل اور مقام بہ مقام گزارتا ہوا واپس ازل تک لے آئے اور نورِ توحید میں غرق کر کے اُسے اپنی اصل تک پہنچا دے کہ مرشد ازل سے ابد تک کسی بھی مقام و منزل اور راہ و رسم سے ناواقف نہیں ہوتا بلکہ ازل و ابد کا تمام نظارہ اُس کی ایک ہی نگاہ کی پہنچ میں ہوتا ہے-﴿عین الفقر:۳۱۱﴾

﴿۴﴾اہل فقر اولیائ کی شان ہے کہ لوگوںکے دِلوں کو خواب غفلت سے بیدار کرتے ہیں اورایک ہی نگاہ میں میں انہیں عارفِ رُوحانی بنادیتے ہیں،عام کو خاص اورخاص کوخاص الخاص بنادیتے ہیں ،جاہل کو عالم اورعالم زندہ دل ولیٔ کامل بنادیتے ہیں-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر