اقبال اور سلطانی جمہور کا اسلامی تصور

اقبال اور سلطانی جمہور کا اسلامی تصور

اقبال اور سلطانی جمہور کا اسلامی تصور

مصنف: پروفیسرفتح محمد ملک نومبر 2016

کثرتِ تعبیر نے اقبال کے جن خوابوں کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے اُن میں سے ایک خواب دین اور سیاست کی یکجائی کا خواب بھی ہے"جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"کے سے مصرعوں اور اشعار کو اپنے سیاق و سباق سے کا ٹ کر بعض طبقے یوں پیش کرتے ہیں جیسے اقبال "تھیاکریسی" کی وکالت کر رہے ہوں- اقبال نے اپنی نثری تحریروں میں اس خیال کا متعدد مرتبہ مدلل اور مؤثر پیرایہ بیان میں اظہار کر رکھا ہے کہ اسلام میں "تھیاکریسی" یعنی علماء کی حکمرانی کے خدائی حق کا کوئی تصور موجود نہیں ہے-اس کے باوجود دین اور سیاست کی جدائی کو مسلسل اور متواتر غلط مفہوم میں بیان کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں اقبال سے وہ تصورات منسوب کیے جاتے ہیں جن کے وہ دشمن ہیں-اقبال کے ہاں دین اور سیاست کی یکجائی کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی نظریہ اور عمل چند روحانی اصولوں اور قدروں کے تابع ہیں جو سیاست اخلاقی احساسات سے عاری ہوتے ہو کر سلراسر مادی مفادات سے عبارت ہو کر رہ جائے وہ لا محالہ چنگیزی بن جاتی ہے –ایسی سیاست کو اقبال رد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ:

“Politics have their roots in the spiritual life of man. It is my belief that Islam is not a matter of private opinion. It is a society. It is because present-day political ideals, as they appear to be shaping themselves in India, may affect its original structure and character that I find myself interested in politics.”[1] 

’’سیاست کی بنیادیں انسان کی روحانی زندگی میں ہیں۔ یہ میرا ایمان ہے کہ اسلام ذاتی رائے کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک سماج ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ آج کے سیاسی معیارات ، جیسا کہ وہ برصغیر میں صورت اختیار کرتے نظر آتے ہیں، شائد اس کے اصل ڈھانچے اور خصوصیات کو متاثر کریں جس وجہ سے میں اپنے آپ کو سیاست میں دلچسپی لیتا محسوس کرتا ہوں‘‘-

اقبال کی نظر میں اسلامی سیاسی نظام کی پہچان یہ ہے کہ اس کی جڑیں اسلام  کے اخلاقی اور روحانی تصورات میں پیوست ہوں- جو لوگ اس سے یہ مطلب لیتے ہیں کہ سیاسی نظام پر فقط برگزیدہ علمائے دین کا تسلط ہی اسے اسلامی بناتا ہے وہ اقبال سے غلط تصورات منسوب کرتے ہیں- اقبال نے اسلام کے اخلاقی اور سیاسی نصب العین کے موضوع پر اپنے انگریزی مقالہ میں بڑے قطعی اور دو ٹوک انداز میں لکھا ہے کہ اسلام معاشرے میں مکمل اور غیر مشروط مساوات کا قائل ہے:

“There is no aristocracy in Islam. “The noblest among you,” says the Prophet, “are those who fear God most.” There is no privileged class, no priesthood and no caste system. Now, this principle of the equality of all believers made early Muslims the greatest political power in the world. Islam worked as a levelling force; it gave the individual a sense of his inward powers; it elevated those who were socially low. The elevation of the down-trodden was the chief secret of the Muslim political power in India.”[2] 

’’اسلام میں بادشاہت نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ "تم میں سے بہترین وہ ہے جو خدا سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔" کوئی امتیازی طبقہ نہیں ہے ، نہ ہی کوئی پاپائیت ہے اور نہ کوئی ذات پات کا نظام۔ اب تمام مومنین کے لئے مساوات کے اس اصول نے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کو دنیا کی عظیم ترین سیاسی قوت بنا دیا۔ اسلام نے ایک مساواتی قوت کے طور پر کام کیا، اس نے فرد کو اپنی باطنی قوت کا احساس دیا  اور نچلے طبقے کو لوگوں کو  اوپر لایا۔ پسے ہوئے طبقے کو اوپر لانا برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی قوت کا سب سے بڑا راز تھا‘‘-

اقبال کے نزدیک اسلام میں نہ تو اشرفیہ کا کوئی تصور ملتا ہے اور نہ ہی پاپائیت کی کوئی شکل موجود ہے- نتیجہ یہ کہ اسلام نہ تو خاندانی بادشاہت کو جائز قرار دیتا ہے اور نہ ہی علمائے حق کو حکمرانی کا کوئی خدائی تصور دیتا ہے- اس بات کو جدید سیاسی اصطلاحات میں یوں کہیں گے کہ اسلام میں نہ تو "تھیاکریسی" ہے اور نہ ہی "امپیریلزم"-اپنے فلسفیانہ خطبات میں ختم نبوت کے تصور کی ثفافتی معنویت پر روشنی ڈالتے وقت اقبال نے کہا ہے:

“The Prophet of Islam seems to stand between the ancient and the modern world. In so far as the source of his revelation is concerned, belongs to the ancient world. In him life discovers other sources of knowledge suitable to its new direction. The birth of Islam is the birth of inductive intellect. The abolition of priesthood and hereditary kingship in Islam, the constant appeal to reason and experience in the Qur’an, and the emphasis that it lays on Nature and History as sources of human knowledge, are all different aspects of the same idea of finality.”[3] 

’’پیغمبر اسلامؐ قدیم اور جدید دنیاؤں کے سنگم پر دکھائی دیتے ہیں ۔ جہاں تک آپؐ کی وحی کے منابع (مآخذ) کا تعلق ہے،  اس کا تعلق قدیم دنیا سے ہے۔ آپ میں زندگی علم کے کچھ دوسرے ذرائع  دریافت کرتی ہے جو اِس کی نئی سمتوں کے لئے موزوں ہیں۔ اسلام کی آفرینش، عقل استقرائی کی آفرینش ہے ۔اسلام میں پاپائیت اور موروثیت کا خاتمہ، قرآن میں استدلال اور تجربہ (عقل) پر مسلسل اصرار اور اس کا بار بار فطرت اور تاریخ کو انسانی علم کا ذریعہ قرار دینا ، یہ سب اسی تصورِ ختمِ نبوت کے مختلف پہلو ہیں  ‘‘-

اقبال کا کہنا یہ ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے دین کو مکمل کرنے  کے ساتھ ہی نبوت کو ختم کر دیا اُسی وقت خاندانی بادشاہت بھی ختم ہو کر رہ گئی اور پاپائیت بھی-اسلام کوئی چرچ نہ رہا بلکہ سول سوسائٹی کی شکل اختیار کر گیا اور ہر وہ اتھارٹی ختم ہوکر رہ گئی جس کا سر چشمہ مافوق الفطرت قرار دیا جاتا تھا- خاندانی بادشاہت اور پروہت راج کے تصورات چونکہ ظہورِ اسلام سے پہلے کے خدائی حق ِ حکمرانی سے عبارت تھے اس لیے انہیں بھی رد کر دیا گیا- اب حکمرانی کا حق اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کو تفویض کر دیا ہے جو اللہ کی حدود میں رہ کر اسے ایک مقدس امانت کے طور پر استعمال کرنے کے پابند ہیں- خلقِ خدا اپنا یہ حق اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرتے ہیں- طریقِ انتخاب اور سیاسی ادارے لا محالہ پر زمانے کے مطالبات اور ہر معاشرے کی بدلتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر بدلتے رہیں گے مگر انتخاب کا ابدی اصول قائم و دائم رہے گا- اپنے مضمون "مسلم پولیٹیکل تھاٹ" (مطبوعہ 1910ء) میں اقبال اسلام میں سیاسی فکر کے نمایاں دھاروں کا تعارف و تجزیہ پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ:

“It is clear that the fundamental principle laid down in the Quran is the principle of election: the details or rather the translation of this principles into a workable scheme of Government is left to be determined by other considerations. Unfortunately, however, the idea of election did not develop on strictly democratic lines and the Muslim conquerors consequently failed to do anything for the political improvement of Asia.”[4] 

’’یہ واضح ہے کہ قرآن میں بتایا گیا بنیادی اصول، الیکشن کا اصول ہے۔ اس کی تفصیلات یا اس اصول کی ایک فعال حکومتی نظام کے لئے تشریح دیگر معاملات پر غور و فکر سے معلوم کرنے کے لئے چھوڑی گئی ہیں۔مگر بدقسمتی سے الیکشن کا تصور خالصتاً جمہوری خطوط پر قائم نہیں ہوا اور نتیجتاً مسلمان فاتحین ایشیا کی سیاسی بہتری کےلئے کچھ بھی کرنے میں ناکام رہے‘‘-

اسی زمانے کے ایک اور مضمون"Devine Right to Rule"[5]میں اقبال آنحضور ﷺ کی ذات  ِ والا صفات کی مثال پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام میں کسی بھی شخص یا کسی بھی خاندان کو حکمرانی کا حق حاصل نہیں ہے – چنانچہ ظہور اسلام کے ساتھ ہی خاندانی بادشاہت اور پاپائیت کے قدیم اور فرسودہ ادارے منہدم ہو کر رہ گئے ہیں- اقبال کے نزدیک اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا  ظہور ہے اور اسلام  دنیائے انسانیت کے لیے یہ نوید لے کر طلوع ہوا تھا کہ:

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹادو![6]

چنانچہ دنیا نے آنحضور ﷺ کی قیادت میں"لا قیصر و ولا کسریٰ" کی انقلابی صدا کو حقیقت بنتے دیکھا مگر سانحہ یہ ہوا کہ پہلی صدی ہجری  ہی میں اسلامی خلافت کا نظام دورِ جاہلیت کے نظام ملوکیت میں بدل کر رکھ دیا گیا:

خود طلسمِ قیصر و کسریٰ شکست
خود سرِ تختِ ملوکیت نشست![7]

’’اُس نے خود ہی قیصر و کسریٰ کاطلسم توڑا اور اب خود ہی پادشاہت کے تخت پر بیٹھ گیا‘‘-

ملوکیت کی طویل صدیوں کے دوران اسلام کا سیاسی نظام خاندانی شہنشاہت کے جاہلی نظام کا یرغمال ہو کر رہ گیا اور یوں سلطانی جمہور (Republicanism) کی اسلامی روح بروئے کار نہ آسکی- اقبال عمر بھر اسلام کی اس حقیقی روح کو از سرِ نو دریافت کرنے اور مسلمان معاشروں میں پھر سے سرگرمِ کار بنانے میں مصروف رہے- اسلام میں اجتہاد کی اہمیت پر زور ڈالتے وقت انہوں نے اجماع کو اہم ترین قانونی تصور قرار دیا ہے–  اقبال اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے اجماع کے تصور کی عملی اہمیت کو ہمیشہ نظر انداز کیے رکھا:

It is, however, strange that this important nation, while invoking great academic discussion in early Islam, remained practically a mere idea and rarely assumed the form of a permanent institution in any Muhammadan country. Possibly its transformation into a permanent legislative institution was contrary to the political interests of the kind of absolute monarchy that grew up in Islam immediately after the fourth Caliph. It was, I think, favorable to the interest of the Umayyad and the Abbasid Caliphs to leave the power of ijtehad to individual Mujtahids rather than encourage the formation of a permanent assembly which might become too powerful for them.”[8]

’’تاہم حیرت کی بات ہے کہ یہ اہم نظریہ اوائل اسلام میں علمی مباحث میں تو شامل رہا مگر عملاً وہ محض ایک تصور کی سطح پر ہی رہا اور یہ کسی بھی اسلامی ملک میں شاید ہی ایک مستقل ادارے کے طور پر متشکل ہوا ہو۔ غالباً اس کی ایک مستقل قانونی ادارے کی صورت اختیار کرنا چوتھے خلیفہ راشد کے فوراً بعد اسلام میں پرورش پانے والی مطلق العنان ملوکیت کے سیاسی مفادات کے خلاف تھا۔ میرا خیال ہے کہ اجتہاد کے اختیار کو انفرادی طور پر مجتہدین کے پاس رہنے دینا اموی اور عباسی خلفاء کے زیادہ مفاد میں تھا  بجائے اس کے کہ وہ کسی مستقل اسمبلی کی تشکیل کی حوصلہ افزائی کرتے کیونکہ ممکن ہے کہ یہ اسمبلی ان سے بھی زیادہ طاقتور ہو جاتی‘‘-

گویا یہ ملوکیت ہی کا شاخسانہ ہے کہ مسلمانوں میں اجتہاد کا دروازہ بہت جلد بند ہو کر رہ گیا اور یوں قانون سازی کا عمل انجماد اور فرسودگی کی نذر ہوکر رہ گیا- بادشاہوں نے اپنی ملوکانہ اغراض کے پیشِ نظر اجماع کے تصور کو کبھی ادارے کی شکل نہ اختیار کرنے دی- اقبال نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے اجماع کے تصور کو قانون ساز اسمبلی کے منتخب ادارہ میں ڈھالنے کی اہمیت پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہےکہ:

The transfer of the power of Ijtehad from individual representatives of schools to a Muslim legislative assembly which, in view of the growth of opposing sects, is the only possible form Ijma can take in modern times, will secure contributions to legal discussion from laymen who happen to process a keen insight into affairs. In this way alone can we stir into activity the dormant spirit of life in our legal system and give it an evolutionary outlook. In India, however, difficulties are likely to arise for it is doubtful whether a non-Muslim legislative assembly can exercise the power of Ijtehad.”[9] 

’’فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے پیشِ نظر اجتہاد کے اختیار کا فقہی مکاتب کے انفرادی نمائندہ سے مسلم قانون ساز اسمبلیوں کو منتقلی ہی اجماع کی وہ واحد صورت ہے جو عصر حاضر میں ممکن ہے اس سے عام آدمی کا قانونی مباحث میں حصہ لینے کا حق بھی محفوظ ہو گا ، جو ان مباحث میں گہری بصیرت رکھتا ہے۔ صرف اس طریقے سے ہم اپنے قانونی نظام میں روحِ حیات کو بیدار کر سکتے ہیں اور اسے ایک ارتقائی صورت دے سکتے ہیں۔ تاہم برصغیر میں مشکلات ابھرنے کا امکان موجود ہے کیونکہ وہاں یہ بات غیر یقینی ہو گی کہ کیا ایک غیر مسلم قانون ساز اسمبلی اجتہاد کی طاقت استعمال کر سکتی ہے؟ ‘‘

یہاں دو باتیں انتہائی معنی خیز ہیں- اول یہ کہ اقبال قانون سازی کے عمل میں عام مسلمانوں کی عقل و دانش کو خاطر میں لانا ضروری اور مستحسن قرار دیتے ہیں- دوم یہ کہ انہیں ہندی مسلمانوں  کی مخصوص اقلیتی صورت ِحال پر گہری تشویش ہے- 1928ء کے اس خطبہ میں وہ اپنے آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ جہاں قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کی اقلیت ہو وہاں اسلام میں قانون سازی کا عمل کیسے جاری رہ سکتا ہے؟ نہیں رہ سکتا- تو پھر کیا کِیا جائے؟ ایک جداگانہ آئین ساز اسمبلی قائم کی جائےمگر اس اسمبلی کو وجود میں لانے کے لئے ایک جداگانہ مسلمان مملکت ضروری ہے- کیا اس مسلمان مملکت کا قیام دائرہ امکان میں ہے؟ اقبال اس سوال پر مسلسل غور و فکر میں   مصروف رہے- چنانچہ فقط دو سال کے بعد انہوں نے برصغیر میں جداگانہ مسلمان مملکت کا تصور پیش کر دیا- یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اقبال کے تصور کا پاکستان لازماً ایک عوامی جمہوری پاکستان ہے-

یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جس زمانے میں اقبال ہندی مسلمانوں کی بقا اور ترقی کی تدبیریں سوچنے میں مصروف تھے اس زمانے میں اقبال کے ہم عصر قدامت پسند علماء ہی نہیں بلکہ علامہ مشرقی جیسے جدید تعلیم یافتہ سائنسدان بھی پورے برٹش انڈیا پر غلبہ اسلام کے خواب دیکھ رہے تھے- اس کے برعکس علامہ اقبال سلطانی جمہور کے اسلامی تصورات پر مبنی جدید قومی ریاست کے صورت گری میں منہمک تھے- جمہوری انداز میں سوچتے ہوئے وہ مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ہندو ریاستوں کے قیام کا جمہوری تصور اجاگر کرنے میں مصروف تھے- وہ جہاں اپنی مسلمان قوم کو  جمہوری حق دلوانے کی جدوجہد   میں مصروف تھے وہاںوہ ہندو قوم اور اچھوت قوم کے حقِ خود اختیاری کو بھی کھلےدل سے تسلیم کر رہے تھے- وہ خود بھی آزاد رہنا چاہتے تھے اور دوسروں کی آزادی اور خود مختاری کا حق بھی تسلیم کرتے تھے- اُن کے نزدیک پورے ہندوستان پر اسلام کا بزورِ شمشیر غلبہ ایک غیر اسلامی ا    ورفاشسٹ تصور ہے-بندہ مومن وہ ہے جو نہ  تو خود کسی کی غلامی قبول کرتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے شخص کو اپنا غلام بنانا گوارا کرتا ہے- یہ ہے سلطانی جمہور کا وہ اسلامی تصور  جسے اقبال نے عہدِ حاضر کے علوم کی روشنی میں قرآن حکیم میں ڈوب کر دریافت کیا اور عملی زندگی میں جس کی جلوہ گری کی تمنا میں عوامی جمہوری پاکستان کا تصور پیش کیا-

یہاں یہ سوال اُٹھانا بر محل ہے کہ جب سلطانی جمہور کا تصور پاکستان کے تصور کا جزوِ لاینفک ہے تو پھر پاکستان میں آمریت کے وکیل اپنے استدلال کو اقبال کے اشعار میں مزین کر کے اقبال کو جمہوریت کا دشمن اور آمریت کا رفیق ثابت کرنے میں کیوں مصروف رہتے ہیں؟ اس کیوں کا جواب تو یہ ہے اقبال کو مفکر پاکستان کا مرتبہ حاصل ہے اس لیے یہ لوگ اپنی آمریت پسندی اور آمر نوازی کی سند اقبال سے لانا ضروری سمجھتے ہیں- حقیقت یہ  ہے کہ اقبال نے ہمیشہ جمہوریت کے مغربی چلن کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے- اس تنقید کے پیچھے جمہوریت کی اصلاح کا جذبہ کار فرما ہے- وہ سچی جمہوریت کو رد نہیں کرتے بلکہ فقط جمہوری تماشا کو اپنی طنز کا نشانہ بناتے ہیں:

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی[10]

اپنی مشہور نظم "خضرِ راہ" میں وہ جنابِ خضر کی زبانی مغربی جمہوریت کی استبدادی روح کو یوں بے نقاب کرتے ہیں:

 ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
دیو اِستبداد جمہوری قبا میں پائے  کوب
مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
گرمی گفتارِ اعضائے مجالس الاماں
اس سرابِ رنگ و بو کو گلستان سمجھا ہے تُو

 

جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
طبِ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری!
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زر گری!
آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تُو![11]

درج بالا شعار ایک پر سرسری نظر ڈالنے ہی سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ جنابِ خضر کو مغربی جمہوریت پر سب سے بڑا اعتراض ہی یہ ہے کہ اس نظام کی روح شاہی ہے  جمہوری نہیں-اس نظام کا ظاہر بے شک جمہوریت کی نیلم پری کا تاثر دیتا ہے مگر اس کے باطن میں وہی پرانا دیو استبداد رقصاں ہے- مغرب کا یہ جمہوری نظام سرمایہ داروں کی جنگِ زر گری سے عبارت ہے- در حقیقت یہ ایک رنگین قفس ہے مگر ظاہر بیں آنکھ کو گلستان نظر آتا ہے- جب مسافر اس گلستان تک رسائی حاصل کرتا ہے تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو ایک قفس ہے-جنابِ خضر کی یہ تنقید جمہوریت کے تصور کی تردید ہرگزنہیں بلکہ مغربی جمہوریت کے استبدادی کردار کی نفی اور حقیقی جمہوریت کا اثبات ہے- اقبال کی طویل نظم"ابلیس کی مجلس شوریٰ" میں جب ابلیس کا ایک مشیر جمہوریت کو ایک "تازہ فتنہ" قرار دیتا ہے تو  ابلیس اسے اطمینان کا  درس دیتے ہوئے بتاتا ہے کہ مغربی جمہوریت سے ابلیس کے نظام کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ یہ نظام تو ملوکیت ہی  کا ایک پردہ ہے:

ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
کاروبارِ شہریاری کی حقیقت اور ہے
مجلسِ مِلّت ہو یا پرویز کا دربار ہو
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام؟

 

جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناسِ و خود نِگر
یہ وجودِ مِیر و سلطاں، پر نہیں ہے منحصر
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر!
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر![12]

مغرب کا  یہ جمہوری نظام برٹش انڈیا میں نافذ کرتے وقت انگریز حکمرانوں نے بصد احتیاط اس کی باطنی روح (قیصریت) کی حفاظت کا اہتمام کر لیا تھا- چنانچہ اس نظام کو چلانے کی خاطر شاطر حکمرانوں نے جو مہرے تیار کیے وہ مراعات یافتہ طبقات کے افراد تھے- چنانچہ ابلیس کو اس نظام سے کبھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا- ایک چھوٹی سی نظم" سیاستِ افرنگ" میں اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ :

تری حریف ہے یا ربّ! سیاستِ افرنگ
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تو نے

 

مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس[13]

اقبال اس بظاہر جمہوریت اور بباطن قیصریت کو اپنی تندو تیز تنقید کا نشانہ بناتے وقت در اصل اس کی اصلاح کا خواب دیکھتے ہیں- وہ اس برائے نام جمہوریت کو روحانی جمہوریت کے تصور کی جانب نشونما پاتے  ہوئے دیکھنا چاہتےہیں- اس جمہوری نظام پر اقبال کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ نظام خدا کی بستی کو دکان سمجھتا ہے اور خدا کے بندوں کو جنسِ بازار قرار دیتا ہے- اقبال کے نزدیک آدمی کو "چیز" سمجھ کر استعمال کرنا احترامِ آدمیت کی نفی ہے-آدمی چیز نہیں بلکہ ایک دانا  و بیناہستی ہےجس کو تہذیب و ثفاقت کے زریں اصولوں کے مطابق اپنی ساخت پر داخت کا موقع فراہم کرنا کسی بھی اجتماعی نظام کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے- 1910ء میں لکھے گئے ایک مختصر سے شذرہ میں اقبال یورپ کی جمہوریت اورمسلمان جمہوریت کا موازنہ یوں کرتے ہیں کہ:

“The democracy of Europe, overshadowed by socialistic agitation and anarchical fear, originated mainly in the economic regeneration of European societies. The democracy of Islam did not grow out of the extension of economic opportunity, it is spiritual principle based on the assumption that every human being is a center of latent power, the possibilities of which can be developed by the cultivating a certain type of character. Out of the plebeian material. Islam has formed men of the noblest type of life and power.”[14] 

’’سوشلسٹ مباحثوں اور انارکی کے خوف کے سائے تلے یورپی معاشروں کے معاشی نظام کی تخلیق نومیں یورپی جمہوریت عمل میں آئی۔ اسلامی جمہوریت معاشی مفادات کی توسیع سے پروان نہیں چڑھی بلکہ یہ ایک روحانی اصول ہے جس کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ ہر انسان مخفی طاقت کا مرکز ہے اور اس کی ایک خاص کردار میں نشونما کی جاسکتی ہے۔ اسلام نے عام سی شخصیت کے حامل افراد میں سے زندگی اور اقتدار کے باعزت ترین اشخاص تشکیل دی‘‘-

اسلام کی ابتدائی پاکیزگی اور سادگی کے زمانے میں اسلام میں جو انقلابی روح کا ر فرماتھی اسے رفتہ رفتہ ملوکیت نے فنا کر کے رکھ دیا ہے- بیسویں صدی میں عقلی علوم میں حیرت انگیز ترقی اور "اسلامی ایشیاء کے قرب و جوار میں رونما ہونے والے  نئے اشتراکی معاشی تجربات" نے اقبال کو اس امید سے سرشار کر دیا تھا کہ سائنسی ترقی اور اشتراکی نظریات مسلمانوں پر قرآن حکیم کی انقلابی تعلیمات ایک بار پھر روشن کر کے دنیائے انسانیت کوسر سبز و شاداب کر سکیں گے- اجتہاد پر اپنی گفتگو کو ختم کرتے وقت اقبال نے اپنے عہد کے نوجوان مسلمانوں کو ترغیب دی تھی کہ وہ اجتہاد کی راہوں پر گامزن ہوں:

“Equipped with penetrative thought and fresh experience the world of Islam should courageously proceed to the work of reconstruction before them. This work of reconstruction, however, has a far more serious aspect than mere adjustment to modern conditions of life. Humanity needs three things today; a spiritual interpretation of the universe, spiritual emancipation of the individual and basic principles of a universal import directing the evolution of human society on a spiritual basis.”[15]  

’’گہری فکر اور تازہ تجربے سے لیس  دنیائے اسلام کو جرات مندانہ انداز میں اپنے پیش نظر تشکیلِ جدید کا کام کرنا چاہئے۔ تاہم تشکیل جدید کا زندگی کے موجودہ حالات سے مطابقت و موافقت کے علاوہ ایک بہت زیادہ سنجیدہ تر پہلو بھی ہے۔ انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے : کائنات کی روحانی تعبیر، فرد کا روحانی استخلاص اور ایسے عالمگیر نوعیت کے بنیادی اصول جو روحانی بنیادوں پر انسانی سماج کی نشونما میں رہنما ہوں‘‘-  

گویا اسلام  میں دینی تفکر کی نئی تشکیل صرف دنیائے اسلام ہی کی نہیں بلکہ پوری دنیائے انسانیت کی ضرورت ہے-انسانیت کو کائنات کی روحانی تعبیر، فرد کی روحانی نجات اور انسانی معاشرے کو روحانی خطوط پر نشونما دینے کے لیے آفاقی اصولوں کی اشد ضرورت ہے- اسلامی فکر کی نئی تعبیر اس ضرورت  کو پورا کر سکتی ہے:

“In view if the basic idea of Islam that there can be no further revelation binding on man, we ought to be spiritually one of the most emancipated peoples on earth. Early Muslims emerging out of the spiritual slavery of pre-Islamic Asia were not in a position to realize the true significance of this basic idea. Let the Muslims of today appreciate his position, reconstruct his social life in the light of ultimate principles and evolve, out of the hitherto partially revealed purpose of Islam, that spiritual democracy which is the ultimate aim of Islam.”[16]         

’’اسلام کے اس بنیادی نظریے کی رو سے کہ اب مزید کسی نئی وحی کی حجیت باقی نہیں رہی ہمیں روحانی اعتبار سے دنیا کی سب سے زیادہ آزاد اور نجات یافتہ قوم ہونا چاہئے۔ ابتدائی مسلمان جنہوں نے قبل از اسلام کے ایشیا کی روحانی غلامی سے نجات حاصل کی تھی، اس حالت میں نہیں تھے کہ وہ اس بنیادی نظریے کی معنویت کو جان سکیں۔ آج کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی اس اہمیت کو سمجھیں ، بنیادی اصولوں کی روشنی میں اپنی عمرانی زندگی کی از سر نو  تشکیل کریں اور اسلام کے اس مقصد حقیقی کو حاصل کریں جس کی تفصیلات تاحال ہم پر پوری طرح واضح نہیں ہیں یعنی روحانی جمہوریت کا قیام‘‘-

اقبال کے نزدیک اسلام کا سیاسی نظام  روحانی جمہوریت سے عبارت ہے- اسلام کا مقصود ایک ایسے معاشرہ کا قیام ہے جس کی نمایاں ترین پہچان ہر مذہب و ملت سے وابستہ افراد کے عقیدہ و عمل کا احترام ہے- اگر حکمتِ افرنگ کامقصود تفریقِ مِلَلْ ہے تو اسلام کا مقصود ہے ، فقط ملتِ آدم! حکمتِ افرنگ نے دین اور سیاست کی جدائی کی یکجائی سے انسانی حریت و مساوات کو انسانی معاشرہ کا جلی عنوان بنا دینے کا داعی  ہے- اقبال نے اسلام میں دین و سیاست کے امتزاج کا مفہوم اپنی نظم "دین و سیاست" میں بڑی بلاغت کے ساتھ بیان کیا ہے:

کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی
خصومت تھی سلطانی و راہبی میں
سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا
ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
دوئی ملک و دیں کے لیے نا مرادی
یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی

 

سماتی کہاں اس فقیری میں مِیری
کہ وہ سر بلندی ہے یہ سر بزیری
چلی کچھ نہِ پیرِ کلیسا کی پِیری
ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری
دوئی چشمِ تہذیب کی نابصیری
بشیری ہے آئینہ دارِ نذیری
کہ ہوں ایک جُنّیدی و اردشیری![17]

اس نظم میں دین اور سیاست میں جدائی  کامفہوم بالکل سامنے کی بات ہوکر رہ گیا ہے- سیاست کے دین کے تابع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سیاست پر اخلاقی اور روحانی اصولوں کی حکمرانی قائم رہے-اردشیر بادشاہ حضرت جنید بغدادی ؒ کے تصورِ فقر کا محکوم بن کر رہ جائے- اسی بات کو اقبال نے ایک اور مقام پر درویشی با قاہری سے تعبیر کیاہے- اقبال کے نزدیک وہ قوت جو روحانی اصولوں کے تابع نہ ہو"جہل و جنون" بن کر رہ جاتی ہے- قرونِ وسطیٰ  میں اسی اندھی قوت کا نام ملوکیت پڑگیا تھا- اسلام اس نظامِ ملوکیت کو رد کرکے روحانی جمہوریت کا نظام قائم کرنے کا درس دیتا ہے- روحانی جمہوریت کی روح ہر  زمانے کی روح کے مطابق جمہوری قالب میں ڈھلنے کو بے تاب رہتی ہے-

اقبال کے نزدیک اب تک سلطانی جمہور کا اسلامی تصور صرف جزوی طور پر ہی بروئے کار آسکا ہے- وجہ یہ ہے کہ جس زمانے میں اسلام طلوع ہوا وہ زمانہ جاہلیت کا تھا- قرنِ اول کے مسلمان دورِ جہالیت کی تہ در تہ تاریکیوں سے نکل کر ایوانِ نور میں تازہ تازہ داخل ہوئے تھے- تاریخِ انسانی میں اس پہلی اسلامی ریاست کے اردگرد رُومی اور ایرانی شہنشاہت کے طبقائی نظام قائم تھے-دنیا نے ابھی تک ریاست کے اردگرد مساوات کا سبق سنا ہی نہ تھا- ایسے  میں پہلی اسلامی ریاست خدائی حقِ حکمرانی کے شاہی تصور سے انکار  اور سلطانی جمہور کے اسلامی تصور کے اثبات پر قائم ہوئی ہے-ابھی اسلام کے سیاسی تصورات زمانے کے تقاضوں کے مطابق عملی زندگی میں جلوہ گر ہوناشروع ہوئے ہی تھے کہ خلافت ملوکیت بن گئی- یوں اسلام کا سیاسی نظام بس جزواً ہی سامنے آسکا-مسلمانوں میں ملوکیت کے زوال کے آثار پیدا ہوئے تو یورپ کی استعماری قوموں نے اسلامی مشرق کو مغربی ملوکیت کے جال میں  پھنسا لیا- دنیائے انسانیت پر ملوکیت کے اس تسلط نے نوعِ انسان کے استحصال کو سکہ رائج الوقت بنا دیا-اس انسانی صورت حال پر اقبال سراپا احتجاج ہیں:

ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہریاری ہے
نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
وہ حکمت ناز تھاجس پر خرد مندانِ مغرب کو
تدبّر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا

 

قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے!
یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے!
ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغِ کار زاری ہے
جہاں میں جس تمدّن کی بنا سرمایہ داری ہے[18]

اقبال کے ہاں دینِ اسلام کی نئی تشکیل و تعبیر کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ نوعِ انساں کو ظلم و استحصال سے نجات دلائی جا ئے- اپنی فلسفیانہ تحریروں میں اقبال نے اسلام کو دنیائے انسانیت کے لیے ایک پیغام نجات بناکر پیش کیاہے- چنانچہ اُن کی نظر میں :

ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا[19]

کائنات کی روحانی تعبیر اور فرد کی روحانی آزادی سیاسی نظام اور سیاسی عمل کو محبت اور اخوت،آزادی اور مساوات کے آفاقی روحانی تصورات کی بنیاد پر قائم کیے بغیر ناممکن ہے- اسی لیے اقبال آج کے مسلمان کو اپنی قدیم دینی فکرکی نئی عصری تعبیر و تفسیر کا فریضہ یاد دلاتے ہیں- اقبال کا ہم سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم آج کے ترقی یافتہ عہد کی علمی اور تحقیقی فتوحات سے روشنی لے کر قرآن حکیم کی تعلیمات کو اپنی جدید اور تیزی کے ساتھ ہوئی زندگی کے متحرک قالب میں مسلسل ڈھالتے چلے جانے کی ذمہ داری کو قبول کریں- اقبال کے نزدیک ختم نبوت کے تصور کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ مسلمان روحانی طور پر دنیا میں سب سے زیادہ آزاد"Most Emancipated" بندگانِ خدا ہیں- اب اُن کے ہاں نہ کوئی پیغمبر آئے گا، نہ کوئی نئی شریعت آئے گی اور نہ ہی آسمانوں سے کوئی نیا خدا ئی پیغام نازل ہوگا-دین تو مکمل ہوچکا ہے مگر انسان کے عقلی اور باطنی علوم مکمل نہیں ہنوز تشنہ تکمیل ہیں، مگر مسلسل ترقی کرتے چلے جارہے ہیں-

آج مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ عقل و حکمت کی اس ترقی کو کام میں لا کر قرآن حکیم کی ابدی تعلیمات کو اجتہاد کے زندہ و پائندہ مسلک پر قائم رہتے ہوئے ،سمجھتے ہوئے اور نافذکرتے چلے جائیں- اجتہاد کا دروازہ کبھی بند  نہیں  ہونا چاہیے کیونکہ یہ دروازہ تو خود رسول اللہ ﷺ نے کھولا تھا– جس دروازے کو آنحضور ﷺ نے کھولا تھا اُسے بند کرنے کی جرات کون کر سکتا ہے؟

٭٭٭



[1](  Thoughts and reflection of Iqbal، ص:196)

[2](ایضاً-ص:53-54)

[3] (The reconstruction of Religious Thought in Islam،ص:100-101)

[4] (Thoughts and reflection of Iqbal ص:74)

[5] (Stray Reflections، ص:157-163)

[6] (بال جبریل)

[7](جاوید نامہ)

[8](Stray Reflections،ص:157-163)

[9] (The reconstruction of Religious Thought in Islam، ص:137-138)

[10] (بال جبریل)

[11] (بانگِ درا)

[12] (ارمغانِ حجاز)

[13] (ضربِ کلیم)

[14] (Stray Reflections، ص:139)

[15] ( The reconstruction of Religious Thought in Islam، ص:142)

[16] (ایضاً)

[17] (بالِ جبریل)

[18] (بانگِ درا)

[19](ایضاً)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر