اسلام میں فلسفہ جہاد 'قسط سوئم'

اسلام میں فلسفہ جہاد 'قسط سوئم'

اسلام میں فلسفہ جہاد 'قسط سوئم'

مصنف: فائزہ بلال اپریل 2016

سیدنا سیف المخرم  ﴿کانٹے والی تلوار﴾:

صالحی لکھتے ہیں : السیف ’’المخرم‘‘ بروزن المعظم یعنی وہ تلوار جو کاٹ کر رکھ دے یہ استعارہ آپ ﴿رضی اللہ عنہ﴾ کی حقیقی تلوار کی طرف ہے لیکن تشبیہ بلیغ کی صورت میں ہے - یعنی باطل کی جڑوں کو اس کے ذریعے اکھاڑ دیا جائے گا - ﴿۵۲﴾ اور ایسی کاٹ دار تلوار ، تلوار ِاسلام ہے-

سید نا سیف الاسلام  ﴿اسلام کی تلوار﴾

 حضرت عرفجتہ بن شریح رضی اللہ عنہ مر فوعًا بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﴿ﷺ﴾ نے فرمایا کہ میں اسلام کی تلوار ہوں اور ابو بکر رضی اللہ عنہ مرتدین کے لئے تلوارہیں- ﴿۶۲﴾

یہاں جہاد سے مراد دینِ اسلام کا دفاع ، احکاماتِ شریعہ کی حفاظت اور اس کی دعوت اور نفاذ کے لئے کوشش کرنا ہے-

سیدنا الغازی ﴿غزوہ کرنے والے﴾:

﴿عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما قال خرج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی رمضان و ھو یغز و مکہ فصام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی اُتی قدید ﴾﴿۷۲﴾

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﴿ﷺ﴾ ماہ رمضان میں غزوہ کے لئے نکلے تو آپ ﴿ﷺ﴾ نے روزہ رکھا اور مقام قدید میں افطار کیا‘‘-

﴿عن ابی اسحاق رضی اللّٰہ عنہ کنت علی جنب زید بن ارقم رضی اللّٰہ عنہ فقیل لہ کم غزا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من غز وۃ قال تسع عشرۃ ﴾﴿۸۲﴾

’’ حضرت ابو اسحاق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا کسی نے سوال کیا کہ حضور اکرم ﴿ﷺ﴾ نے کتنے غزوے کئے انہوں نے بیان کیا کہ آپ ﴿ﷺ﴾ نے انیس غزوے کئے ‘‘-

نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﴿ﷺ﴾ نے بذات خود جنگوں میں حصہ لیا اور ایک ماڈل سپہ سالار اور مجاہد کی مثال قائم کی جبکہ کئی مواقع پر آپ ﴿ﷺ﴾ نے لشکر بھیجنے کا اہتمام بھی فرمایا -

 سید نا صاحب السرایا ﴿لشکر وں کو بھیجنے والے﴾:

نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﴿ﷺ﴾ بہت سے غزووں میں بنفسہٰ حصہ لیا ان کی تعداد ستائیس بیان کی جاتی ہے اور جو آپ ﴿ﷺ﴾ نے چھوٹے لشکر بھیجے ان کی تعداد سینتالیس تھی اور جس لڑائی میں آپ﴿ﷺ﴾ نے خود شرکت فرمائی وہ تو غزوے تھے اور وہ نو غزوے تھے-

﴿تسع غزوات بدر القتال و احد والمر یسیع والخندق و قریظۃ و خیبر و فتح مکۃ و حنین و الطائف فھذاما اجتمع لنا علیہ﴾﴿۹۲﴾

’’ بدر میں خود جنگ کی ، اُحد ، المریسع، خندق، قریظہ ، خیبر ، فتح مکہ، حنین ، طائف اور یہ وہ جنگیں تھیں جن پر ہمارا اِجماع ہے آپ﴿ﷺ﴾ نے بنفس نفیس شرکت فرمائی ‘‘-

سید نا المشیع ﴿غازیوں کو وداع کرنے والے ﴾:

﴿عن معاذ بن انس رضی اللّٰہ عنہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال لان اشیع مجاھدا فی سبیل اللّٰہ فا کفہ علی رحلہ غزوۃ اوروحۃ احب الی من الدنیا و ما فیھا﴾﴿۰۳﴾

’’ حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ﴿ﷺ﴾ نے فرما یا اگر میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے ساتھ چلو ں اور اس کو زین پر سوار کراؤں تو وہ مجھے دنیا و مافیھا سے بہتر معلوم ہوتا ہے ‘‘-

نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﴿ﷺ﴾ نے نہ صرف کئی غزووں میں حصہ لیا بلکہ بہت سے سرایا بھیجنے کا بھی اہتما م فرمایا تاکہ خیر کا فروغ اور شر کا خاتمہ ہو سکے - بعض مواقع پر آپ ﴿ﷺ﴾ نے باطل کی سَر کوبی اور باغی عناصر کو کچلنے کے لیے بھی لشکر روانہ فرمائے- اسی نسبت سے آپ ﴿ﷺ﴾ کا اسمِ گرامی سیّدنا صاحب السرایا ﴿ﷺ﴾ ﴿لشکروں کو روانہ کرنے والے﴾ بھی ہے-

سید نا المشرّد ﴿کافروں کو سخت سزا دینے والے﴾:

﴿فشرد بہم من خلفہم لعلہم یذکرون﴾ ﴿۱۳﴾

’’ آپ ﴿ﷺ﴾ ان کو سخت سزا دے کر ان کافروں پر رعب ڈالیں تاکہ جو ان کے پیچھے ہیں ان کو عبرت حاصل ہو ‘‘-

’’تشرید‘‘ سے مراد ہے کہ کسی چیز کو مضطرب یا متفر ق کرنا یا تتر بتر کرنا یعنی آپ ﴿ﷺ﴾ بنو قریظہ کو معاہد ہ کے مطابق میدانِ جنگ میں نہ پائیں تو عہد شکنی کے جرم میں انہیں تتر بتر کر ڈالیں‘‘-﴿۲۳﴾

سیدنا ذوعزۃ ﴿کافروں پر زبر دست﴾:

﴿اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین﴾﴿۳۳﴾

’’﴿آپ ﴿ﷺ﴾ ﴾مومنوں پر نرم ہیں ، کافروں پر سخت ہیں‘‘-

زمخشری بیان کرتے ہیں کہ کافروں سے مراد مرتدین ہیں جن کا استحصال حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﴿ﷺ﴾ کے ایما ئ پر کیا مرتدین کے کل گیارہ فرقے تھے- تین تو عہدِ نبوی میں ہی تھے اسود عنسی ، مسیلمہ کذاب، طلیحہ اسدی ، تینوں اپنے اپنے انجام کو پہنچے جبکہ سات فرقے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں تھے - آپ رضی اللہ عنہ نے سب کی سرکوبی فرمائی -﴿۴۳﴾ مسلمان جس قدر کفار و مشرکین اور منافقین و مرتدین پر سخت اور زبردست تھے اتنا ہی آپس میں پیار ، محبت ، ایثار اور لحاظ کرنے والے تھے-

اسلامی جہاد کا ایک مقصد فتنہ و فساد کا سدِ باب، انسداد دہشت گردی ، مرتدینِ اسلام کی سرکوبی اور عہد شکنوں کا استحصال بھی ہے تاکہ نہ صرف باغیوں اور غداروں کو قرار واقعی سزادی جاسکے بلکہ انہیں دوسروں کے لیے نشانِ عبرت بھی بنایا جاسکے-

سیدنا الشدید ﴿زورآور﴾:

﴿محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدا ئ علی الکفار﴾ ﴿۵۳﴾

’’حضرت محمد ﴿ﷺ﴾ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ ﴿ﷺ﴾ کے صحبت یافتہ ہیں وہ کفار کے مقابلہ میں زیادہ زور آور ہیں ‘‘-

 دینِ اسلام کی سر بلندی کے لئے نبی کریم ﴿ﷺ﴾ اور آپ﴿ﷺ﴾ کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے قتال کیا- کتنے شہید ہوئے ؟کتنے زخمی ہوئے ؟ باوجود اس کے وہ کمزورنہ ہوئے نہ گھبرائے نہ جہاد سے بھاگے، نہ مال و متاع پر ٹوٹے اور ثابت قدمی سے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتے رہے - غزوہ اُحد میں بھی ان کو یہی رویہ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن کچھ دیر کیلئے ادھر ادھر ہوئے اور اب ان کے لئے معافی ما نگنے اور آئندہ ثابت قدم رہنے کی تلقین کی گئی ہے اس لئے کہا استغفار دعا کا ادب ہے لہٰذا اللہ سے معافی مانگ کراستقامت طلب کریں -

سیدنا اجر الناس صدر ا ﴿جہاں بھر سے زیادہ جرأت مند﴾:

جنگِ اُحد میں آپ﴿ﷺ﴾ کے دندان مبارک شہید ہو گئے اور چہرہ مبارک زخمی ہو گیا - صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شدید تکلیف پہنچی تو انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ﴿ﷺ﴾ ان کے لیے بد دعا فرمائیں آپ ﴿ﷺ﴾ نے فرمایا لعنت کرنے کے لئے نہیں بلکہ داعی اور رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں اے اللہ  ! میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ نہیں جانتے-

سیدنا اثبت الناس﴿جہاں بھر سے زیادہ ثابت قدم﴾:

نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﴿ﷺ﴾جنگ کے مشکل ترین اوقات اور سخت ترین گھڑیوں میں بھی ثابت قدم رہتے اور میدانِ جنگ میں ڈٹے رہتے - غزوہ حنین میں جب اسلامی لشکر بکھر گیا اور آپ ﴿ﷺ﴾ تن تنہا رہ گئے تب بھی آپ ﴿ﷺ﴾کے پائے ثبات میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی-

﴿عن البرائ رضی اللّٰہ عنہ انہ قال فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم یوم حنین : أنا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب﴾﴿۶۳﴾

’’ حضرت برائ بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﴿ﷺ﴾ نے میدانِ حنین میں فرمایا : میں نبی ہوں جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطب کا پوتا ہوں‘‘-

ثابت قدمی سے مراد یہ ہے کہ مشکل گھڑی میں ہمت نہ ہارنا، ڈٹے رہنا اور نقصان کا خیال کئے بغیر توکل علی اللہ اپنی ذمہ داری نبھانا- کیونکہ نبی اکرم ﴿ﷺ﴾ غزوہ اُحد میں شدید زخمی ہو جانے کے باوجود مستقیم رہے اور محاذ پر ڈٹے رہے- آپ ﴿ﷺ﴾ نے مخالفین کے لئے بد دعا تک نہ کی اور یہی رویہ آپ ﴿ﷺ﴾ نے سخت مصیبت کے وقت بھی کبھی دشمن کو بد دعا تک نہ دی اور آخری وقت تک ان کی ہدایت کے متمنی اور منتظر رہے کیونکہ آپ ﴿ﷺ﴾ کے نزدیک جہاد کا اصل مقصد فساد و قتال نہ تھا بلکہ دینِ اسلام کی اصل تعلیمات یعنی امن و امان کا قیام اور فروغ تھا-

سیدنا المحرض ﴿جہاد پر رغبت دلانے والے﴾:

﴿یا یھا النبی حرض المومنین علی القتال ﴾﴿۷۳﴾

’’اے نبی اکرم ﴿ﷺ﴾! مومنین کو جہاد کی ترغیب دیجئے‘‘-

اس آیت مبارک میں مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب و تحریص دلائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ دس مسلمان سو کافروں کے مقابلہ سے نہ بھاگیں اب اس حکم میں تخفیف کر دی گئی ہے اور ایک مسلمان کو دو کافروں سے لڑنے کا مکلّف کیا گیا ہے اور مسلمانوں کے لئے میدانِ جنگ میں موت و حیات برابر کا سودا ہوتا ہے - جیت کی صورت میں وہ غازی ہوگا ورنہ شہید ﴿۸۳﴾وہ عزم راسخ، اخلاص اور دلی جذبہ کے ساتھ میدانِ جنگ میں اُترتا ہے اس کا دل اللہ کے نور ، اس کی معرفت اور ایمان سے بھر پور ہوتا ہے اور وہ دینِ اسلام کی سر بلندی کے لئے جہاد میں شریک ہوتا ہے اور شہادت اس کی تحریص ہے اس لئے وہ خوش دلی اور شرح صدر کے ساتھ جنگ کرتا ہے لیکن اس کے لئے مسلمانوں کو جنگ کے لئے تحریص و ترغیب دلانا بہت ضروری ہے-

اسی نسبت سے آپ ﴿ﷺ﴾ کا اسم مبارک سیدنا الندب ﴿ﷺ﴾ ﴿جہاد کے لئے اُبھارنے والے﴾ اور سیدنا المرابط﴿ﷺ﴾ ﴿جہاد کی تیاری پکڑنے والے﴾ بھی معروف ہے- ﴿۹۳﴾

سیدنا المرابط ﴿جہاد کی تیاری کرنے والے﴾:

﴿و اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل﴾﴿۰۴﴾

’’ اور ان کے لئے بہ قدر استطاعت ہتھیاروں کی قوت اور گھوڑے باندھنے کو فراہم کرو ﴿یعنی جہاد کی خوب تیاری کر چھوڑو﴾‘‘ -

نبی اکرم﴿ﷺ﴾ بہت جوش و جذبے کے ساتھ مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ پر آمادہ کرتے اور جہاد کی تیاری کا حکم فرماتے- نبی اکرم ﴿ﷺ﴾ بذاتِ خود ایک دور اندیش کمانڈر جنگی ساز و سامان اور تیاری کا جائزہ لیتے ، صفوں کو درست فرماتے ، حربی مشقوں کا جائزہ لیتے اور عسکری فنون حاصل کرنے کی تلقین کرتے-

سیدنا الرامی ﴿ٹھکانے پر تیر مارنے والے﴾:

حضرت قیس بن ابی حازم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دو نشانوں کے درمیان تیر پھینک رہے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی موجود تھے- انہوں نے فرمایا ہمیں حکم ملا ہے کہ ہم اپنی اولاد کو تیر اندازی اور قرآن کی تعلیم دیں- ﴿۱۴﴾ تیر اندازی کی طرح دوسرے حربی فنون کی مشقیں اور ان میں مہارت حاصل کرنا بھی اسلامی نظام جہاد کا باقاعدہ حصہ ہے-

مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کو خوب ذوق و شوق ، زور و شور، سازو سامان اور فوجی مشقوں کے ساتھ جنگ کی تیاری کرنی چاہیے تاکہ دشمن پر دھاک بیٹھ جائے - یوں جہادِ اسلامی کا ایک مقصد دشمن پر رعب ڈالنا بھی ہے جو کہ دفاعی حکمتِ عملی کا ایک اہم پہلو ہے - اسی طرح عسکری پالیسی اپنانا ، دورانِ جنگ حربی چالیں چلنا اور بہادری کے جوہر دکھانا بھی اسلامی نظام جہاد کا باقاعدہ حصہ ہے-

سیدنا المنتقم ﴿انتقام لینے والے﴾:

﴿عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا قالت ما انتقم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہٰ و سلم لنفسہٰ الا ان تنتھک حرمۃ فینتقم للّٰہ بھا﴾ ﴿۲۴﴾

’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﴿ﷺ﴾نے کبھی بھی اپنی ذات کے لئے انتقام نہ لیا البتہ جہاں حدیں ٹوٹتی تھیں وہاں آپ ﴿ﷺ﴾ نے اللہ کے لئے انتقام لیا ‘‘ -

آپ ﴿ﷺ﴾کا وجود دوست دشمن سب کے حق میں رحمت اور راحت ثابت ہوا یہی وجہ ہے کہ آپ ﴿ﷺ﴾ نے صرف انتہائی سنگین صورتحال میں ہی کلمہ حق کی سر بلندی کے لئے انتقام لیا- آپ ﴿ﷺ﴾ صلح کے داعی اور امن کے علم بردار تھے -

سیدنا المتمکن ﴿غلبہ پانے والے﴾:

﴿و لیمکنن لھم دینھم﴾ ﴿۳۴﴾

’’ اور ﴿اللہ﴾ ضرور ان کے دین کو ان کے لئے مستحکم فر ما دے گا ‘‘-

آپ ﴿ﷺ﴾کو جہاد میں ان مقاصد کے حصول کی خوشخبری دی گئی ہے جو دوسروں کو جنگوں میں حاصل نہ ہوئے- آپ ﴿ﷺ﴾کو سب کاموں پر مغفرت کا مژدہ سنایا گیا آپ ﴿ﷺ﴾کو بیعتِ رضوان حاصل ہوئی-

رومی ایرانیوں پر غالب آئے یعنی اہلِ کتاب کو غلبہ حاصل ہوا اور صرف دو سال بعد نبی اکرم حضرت محمد ﴿ﷺ﴾دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے- ﴿۴۴﴾

فتوحات کا یہ سلسلہ عہدِ نبوی سے شروع ہو کر بعد کے زمانوں تک پھیلا ہوا ہے - فتح مکہ کے بعد سے لے کر چند ایک استثنائی صورتوں کے علاوہ مسلمانوں نے مسلسل فتوحات حاصل کیں اور اسلامی سلطنت کو وسیع کیا-

دینِ اسلام کی تبلیغ کے لئے تحریر و تقریر اور تلوار کے ذریعے جنگ کرنا سبھی کچھ شامل ہے - اسلام کا فلسفۂ جہاد ہمہ جہتی پہلو لئے ہوئے ہے - دعوتِ حق بلند کرنا، کفر و شرک کو مٹانا، غلط رسم و رواج کو روکنا، دینی مشکلات کو سلجھا کر مسائل کو آسان پیرائے میں لوگوں تک پہنچانا، طاغوتی طاقتوں کے سیاسی ، سماجی اور نظریاتی پہلوئوں کا جو اسلام کے خلاف سر گرم عمل ہوں ان کا توڑ پیش کرنا ، جھوٹے مدعیان کا مقابلہ کرنا اور مرتدینِ اسلام کی سرکوبی سبھی کچھ اس میں شامل ہے- ﴿۵۴﴾

سیدنا مقیم السنۃ ﴿سنت کو قائم کرنے والے﴾:

﴿الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ﴾﴿۶۴﴾

’’ اے نبی محترم ﴿ﷺ﴾!آج کے دن میں نے آپ ﴿ﷺ﴾کے لئے آپ ﴿ﷺ﴾کے دین کا مقصد مکمل کردیا ہے ، آپ ﴿ﷺ﴾پر اپنی نعمت کا اِتمام فرما دیا ہے اور آپ ﴿ﷺ﴾کے لئے دینِ اسلام کو پسند فرما لیا ہے‘‘ -

نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﴿ﷺ﴾نے واضح طور پر اپنی بعثت ، تبلیغ اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقاصد کو بیان کردیا کہ آپ ﴿ﷺ﴾غافل دلوں سے کفر و شرک کے پردے چاک کرنے، ہدایت کی روشنی اور پیغام لے کر آئے اور سماعتوں اور بصارتوں کو حق سے رُوشناس کروانے آئے ہیں آپ ﴿ﷺ﴾کی نبوی جدوجہد کا مقصد سنتِ ابراہیمی کو زندہ کرنا اور اسے شرک کی رذالتوں سے پاک کرنا ہے اور امن و امان کا قیام و دوام ہے-

پروفیسر رشید احمد اسلامی فلسفۂ جہاد کے بارے میں لکھتے ہیں:

" Islam requires the earth nﷺt just a pﷺrtiﷺn, but the entire planet nﷺt because the sﷺvereignty ﷺver the earth shﷺuld be rested frﷺm ﷺne natiﷺn ﷺr grﷺup ﷺf natiﷺns and vested in any ﷺne particular natiﷺn, but because the whﷺle ﷺf mankind shﷺuld benefit frﷺm Islam, and its ideﷺlﷺgy and welfare prﷺgrame". ۷۴

یوں درج بالا بحث سے جہاد اسلامی کے جو اہداف و مقاصد سامنے آتے ہیں وہ کچھ اس طرح سے بیان کیے جاسکتے ہیں:

1- جہاد فی سبیل اللہ قیامت تک جاری رہے گا اور یہ نبوتِ محمدیہ کا اختصاص اور امتِ محمدیہ کا امتیاز ہے-

2- فلسفہ جہاد کی معنویت کا ایک پہلو جہاد بالنفس یعنی خواہشاتِ نفسانی کے خلاف نبرد آزما رہنا ہے جس کو اسلام میں جہادِ اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے-

3-جہاد کا ایک اہم مقصد کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہے اور آزمائش کے ذریعے مسلمانوں میں جذبہ خلوص کو نکھارنا اور مشکل اوقات کے لئے ان کی تربیت کرنا بھی ہے-

4- اسلام میں جہاد یا جدوجہد کا تصوّر انسان میں صبر، شجاعت، توکل علی اللہ ، تقویٰ، اطاعت اور جذبۂ ایثار جیسے محمودہ اوصاف پیدا کرتا ہے اور اس کی اخلاقی تربیت کا باعث ہے-

5-میدانِ جہاد انسان کی روحانی، جسمانی اور ذہنی تربیت کے لئے میدانِ عمل پیش کرتا ہے-

6- اسلام میں جہاد کی ابتدائ دفاعی اقدام کے طور پہ اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ہوئی-

7- جہاد اسلامی کا اوّلین مقصد دینِ اسلام کی اشاعت اور کلمہ حق کو سر بلند کرنا تھا-

8- علاوہ ازیں کفار و مشرکین ، منافقین، باطل عناصر اور طاغوتی قوتوں کی بیخ کنی کرنا بھی تھا-

9- فتنہ و فساد ، مفسدین و مرتدین اور دیگر اسلام دشمن عناصر کی سر کوبی کے لیے بھی جہاد لازمی خیال کیا گیا-

10- اسلام کا فلسفہ جہاد صرف دینِ اسلام کی ترغیب و ترویج تک ہی محدود نہیںبلکہ بین الاقوامی معاشرت میں ایک باقاعدہ اور منظم نظام متعارف کروانا ہے اوربہترین نمونہ عمل پیش کرتا ہے-

شبلی نعمانی بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﴿ﷺ﴾ اسیرانِ جنگ کے ساتھ اس قدر خوش اسلوبی سے پیش آتے ہیں کہ اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی - آپ ﴿ﷺ﴾ نے پہلی دفعہ جہاد کے قوانین و قواعد مقرر کئے اور اغراضِ جہاد متعین کیں-

آپ ﴿ﷺ﴾کے حسنِ سلوک کا یہ عالم تھا کہ قیدیوں کو کھانا کھلاتے، لباس پہناتے، غزوہ حنین میں چھ ہزار اسیر تھے-

آپ ﴿ﷺ﴾ نے تمام کو آزاد فرمایا- ﴿۸۴﴾

آپ ﴿ﷺ﴾نے ہمیشہ انسانیت کی تکریم کی ، کبھی اسیران پر تشدد نہ کیا ، نہ ہی بچوں اور عورتوں پر مظالم ڈھائے اور نہ ہی کبھی محاربین سے غیر انسانی سلوک کیا آپ ﴿ﷺ﴾کا دشمن سے انتقام بھی بذات عین فضل و کرم تھا - آپ ﴿ﷺ﴾نے پہلی دفعہ جامع اور متوازن عسکری حکمتِ عملی کا تصوّر دیا ، جنگی قوانین وضع کیے اور جنگی اصلاحات نافذ کیں - اسیران و محاربین کے حقوق کا تصوّر دیا ،معاہدات و سفارات کا نظام قائم کیا اور قانون بین الممالک کی طرح ڈالی-

حوالہ جات:-

25-القسطلانی، ابی بکر، احمد بن شہاب الدین، المواہب اللدنیہ، ۳/۰۶

26-الصالحی، محمد بن یوسف، سبل الھدی والرشاد، ۱/۴۸۵

27-احمد بن حنبل ،المسند ، باب: مسند عبداللّٰہ بن عباس: حدیث نمبر ۶۸۱۲،۴/۱۷

28-بخاری، ابو عبداللّٰہ، محمد بن اسماعیل، امام ، الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللّٰہ و سننہ و ایامہ ، دمشق: دا طوق النجاۃ، باب: غزوۃ ذات الرقاع، حدیث نمبر: ۴۳۱۴، ۵/۴۱۱

29-ابن سعد، ابو عبداللّٰہ محمد بن سعد ، الطبقات الکبری ، لبنان: دارالکتب العلمیۃ، ۲/۳

30-ابن ماجہ، ابو عبداللّٰہ محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، بیروت لبنان: دار احیائ التراث العربی، باب : تشیع الغزواۃ، حدیث نمبر:۴۲۸۲،۲/۳۴۹

31-الانفال: ۷۵

32- الاصفہانی ، حسین بن محمد راغب، امام ، المفردات فی غریب القرآن، ایران : مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ ۸۰۴۳

33-المائدہ: ۴۵

34- سعیدی، غلام رسول، مولانا تبیان القرآن،۳/۳۱۲

35- الفتح: ۹۲

36- بخاری، ابو عبداللّٰہ، محمد بن اسماعیل، امام ، الجامع الصحیح،باب: قول اللّٰہ تعالیٰ، حدیث نمبر:۶۱۳۴،۵/۳۵۱

37- الانفال: ۵۶

38- سعیدی، غلام رسول، مولانا تبیان القرآن،۴/۲۹۶

39-ابو انیس، محمد برکت علی لدھیانوی، اسمائ النبی الکریمﷺ، ۵/۱۵۰۲

40- الانفال: ۰۶

41-الہیثمی نورالدین ، علی بن ابی بکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائس، بیروت، لبنان: مطبوعہ دارالکتب العربیہ، ۵/۹۶۲

42-بخاری، ابو عبداللّٰہ، محمد بن اسماعیل، امام ، الجامع الصحیح ، باب: صفۃ النبیﷺ، حدیث نمبر: ۰۱، ۴،۵/۹۸۱

43-النور: ۵۵

44-القر طبی، ابو عبداللّٰہ، محمد بن احمد، الجامع الاحکام القرآن، القاہرہ، مصر: مطبعۃ دارالکتب ، ۶۱/۸۳۲

45- مودودی، ابولاعلی، سید، الجہاد فی سبیل اللّٰہ، لاہور، ترجمان القرآن، ص: ۴۹

46-المائدہ: ۳

47- Khurshid ahmad Prﷺfessﷺr, jihad Fi Sabilillah, Islamabad: I.M Dawa Centre. P-07

48-شبلی نعمانی، علامہ، سیرت النبیﷺ، اسلام آباد: نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱/۹۵٭ زیرِ مطالعہ آرٹیکل میں تمام اسمائے رسولﷺ حضرت ابو انیس محمد برکت علی لدھیانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تصنیفِ عالیہ ’’ اسمائ النبی الکریمﷺ ‘‘ سے ماخوذ ہیں-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر