مناجات حضرت سلطان سید بہادرعلی شاہ ؒ درشانِ حضرت سلطان باھوؒ

مناجات حضرت سلطان سید بہادرعلی شاہ ؒ درشانِ حضرت سلطان باھوؒ

مناجات حضرت سلطان سید بہادرعلی شاہ ؒ درشانِ حضرت سلطان باھوؒ

مصنف: ایس ایچ قادری فروری 2015

مناجات کا لُغوی مَعنیٰ اور فنّی تعریف :-

مناجات کالغوی معنیٰ دعا،التجا،عرض یا سرگوشی اور راز و نیاز کی باتیں کرنا ہے-جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یٰـٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقَۃً ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ اَطْھَرُ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱)

’’اے ایمان والو! جب تم رسول (ﷺ) سے کوئی راز کی بات تنہائی میں عرض کرنا چاہو تو اپنی رازدارانہ بات کہنے سے پہلے کچھ صدقہ و خیرات کرلیا کرو، یہ (عمل) تمہارے لیے بہتر اور پاکیزہ تر ہے، پھر اگر (خیرات کے لیے) کچھ نہ پاؤ تو بے شک اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے-‘‘

شاعری میں ایسے اشعار جن میں دنیا کے آشوبناک مسائل اور اپنی خطائوں کے مصائب سے خود بچنے اور اپنی قوم کو بچانے کے لیے شاعر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اعترافِ جرم کرتے ہوئے التجائیں ، دعائیں ، سر گوشیاں کرتا ہے ’’مناجات‘‘ کہلاتے ہیں- شاعر ان مناجات کے ذریعے اپنی قوم کو ان کے اعمال و کردار سے آگاہ بھی کرتا ہے-

مناجات کی تعریف یوں کی گئی ہے:-

’’مناجات کے معنی لغت میں سرگوشی کرنے کے ہیں- اصطلاح میں اس کی تعریف یہ قرار پائی ہے کہ نظم یا نثر میں بارگاہِ ایزدی میں اپنے گناہوں کی مغفرت چاہنا اپنی مصیبتوں، مشکلوں اور پریشانیوںکو خدا کے حضور پیش کرکے ان سے نجات کی التجا کرنا، گڑ گڑا کر دعا مانگنا- خدا کی درگاہ میں بزرگانِ دین کا واسطہ دے کر مشکلات کے ازالہ کی استدعا کرنا-‘‘ (۲)

مناجات انسان کی روحانی فطرت کے ساتھ ساتھ جسم پر بھی بہت  گہرے اثرات مرتب کرتی ہے- مناجات کا تعلق جہاں قلبی اِحساسات و کیفیّات سے ہوتا ہے وہیں اِن سے ظاہری وجود میں بھی ایک خاص تاثیر جاری ہوجاتی ہے - جیسا کہ مولانا رومی فرماتے ہیں:

دفعِ بلای تن و آزارِ خلق

جز بہ مناجات و ثنائے تو نیست(۳) 

’’جسم کی بیماریوںکا علاج اور مخلوق کے مصائب کا حل تیری ثناء اور تیری بارگاہ میں مناجات کے علاوہ نہیں ہے- ‘‘

 مناجات نگاری کی صوفیانہ روایت :-

ہر مذہب اور ہر زبان کے شعراء اور نثر نگاروں میں مناجات کی روایت موجود ہے لیکن بعض جید صوفیاء کرام کے ہاں مناجات ایک نیا رنگ اور نیا انداز اختیار کیے ہوئے ہیں- یہ صوفیاء کرام چونکہ معرفتِ الٰہی کے حامل ہوتے ہیں اس لیے یہ اپنے شیخ و مرشد کامل کو بارگاہِ الٰہیہ کا وسیلہ جان کر ان کے حضور مناجات پیش کرتے ہیں کیونکہ انہیں تحقیق و تصدیق ہوتی ہے کہ مرشدِ کامل اکمل کا سینہ طورِ سینا کی مانند ہے لہٰذا جس دعاء و التجاء نے یہاں پر سندِ قبولیت حاصل کر لی وہ بارگاہِ ایزدی میں قبول ہے - جیسا کہ امام احمد رضا صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

بخدا ، خدا کا یہی ہے در ، نہیں اور کوئی مفر ، مقر

جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو ، جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں(۴)

اللہ تعالیٰ نے بندۂ مومن کو یہ خاص اختیارات خود عطا فرمائے ہیں جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:-

’’میرا بندہ نوافل سے میرا اتنا قرب حاصل کرلیتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ (دور و نزدیک کی باتیں)سنتا ہے ، میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ (سائلین کے احوال) دیکھتا ہے، میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے ( یعنی مدد کرتا ہے) اور اس کے پائوں بن جاتا ہوں جن سے چل کر وہ ہر جگہ پہنچ جاتا ہے‘‘- (۵)

خدا کے اس محبوب بندۂ مومن یعنی مرشدِ کامل اکمل کی بارگاہ میں مناجات سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں بالخصوص دو فوائد بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں- مناجات کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ مریدِ صادق اپنے مرشدِ کامل اکمل کی بارگاہ میں عاجزی و انکساری کا اظہار کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرید چاہے کتنے ہی اعلیٰ مقام و مرتبہ پر فائز کیوں نہ ہو جائے اپنے راہبر و راہنما کی بارگاہ میں ہمیشہ عجز و انکساری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے- دوسرا فائدہ یہ ہے مناجات کرنے والا اپنے معتقدین و متعلقین کو مرشدِ کامل کی ذات اور تعلیمات کی جانب متوجہ کرتا ہے تاکہ ان میں بھی ذوق و شوق اور محبت پیدا ہوجائے-

 صاحبِ مناجات: شھبازِ عارفاں حضرت سلطان سید محمد بہادر علی شاہ المشہدی رحمۃ اللہ علیہ کا مختصر تعارف:

سلطان سید محمد بہادر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ (المعروف حضور پیر صاحب) جن کی مناجات کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے، آپ کاظمی سادات سے تعلق رکھتے ہیں، ۱۲۱۷ھ، بمطابق ۱۸۰۱ء میں آپ کی ولادت مبارک ضلع جھنگ کی تحصیل شورکوٹ کے ایک قصبہ ’’حسّو والی‘‘ میں ہوتی ہے- آپ کے والدین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مندوں میں سے ہیں- آپ کے والد محترم سید فتح محمد شاہ المشہدی آپ کے بچپن میں ہی آپ کو دربار حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرّہٗ پر لے کر حاضر ہو جاتے ہیں اور حضرت سلطان العارفین سے نگاہ ِ شفقت کی التجا کرتے ہیں- حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ خاندانِ نبوت سے تعلق ہونے کی وجہ اور آپ کی معصوم صورت دیکھ کر شفقت کی ایسی نگاہ فرماتے ہیں کہ انہیں خزانۂ فقر کے حامل کے طور پر منتخب فرما لیتے ہیں-

سلطان سید محمد بہادر علی شاہ صاحب نے بظاہر تعلیم کے لیے ملتان میں سید عبید اللہ شاہ صاحب کے پاس تشریف لے گئے اور بیعت پیر سید عبد الغفور شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ (مَڈ شریف، تحصیل شورکوٹ ضلع جھنگ) سے فرمائی لیکن حضرت سلطان العارفین حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ نے رسمی و رواجی تمام علوم آپ کو بچپنے میں ہی القاء و الہام فرما دیئے اور تمام سلوکِ منازل بھی محل پاک میں بارہ سال ڈیوٹی کے دوران خود ہی طے کرائیں-

آپ مریدین کی روحانی تربیت کے لیے انہیں قرآن و احادیث کے ساتھ ساتھ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کا درس بھی فرماتے تھے- آپ مریدینِ خاص کے لیے خود اپنے دستِ مبارک سے سونے کا اسم اللہ ذات تیار فرماتے جس کی روایت بزرگانِ دین میں موجود تھی جیسا کہ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالے ’’شفاء  الوالہ فی صور الحبیب و مزارہ و نعالہ‘‘  میں اس کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-

’’قَدْ کُنْتُ رَأَیْتُ تَالِیْفًا لِّبَعْضِ الْمَشَارِقَۃِ یَقُوْلُ فِیْھَا اَنَّہُ یَنْبَغِیْ لِذَاکِرِ (اِسْمِ) الْجَلَالَۃِ مِنَ الْمُرِیْدِیْنَ اَنْ یَّکْتُبَہُ بِالذَّھَبِ فِیْ وَرَقَۃٍ وَّ یَجْعَلَہُ نَصْبَ عَیْنَیْہِ‘‘(۶)

 ’’مَیں نے بعض علمائِ مشرق کی تالیف میں دیکھا ہے کہ مریدین میں سے جو اسم جلالت اسم اللہ ذات کا ذاکر ہو اُسے چاہیے کہ اسم جلالت کو سونے سے ایک ورق پر لکھ کر اپنی آنکھوں کے سامنے رکھے‘‘-

حضور پیر صاحب نے قرآن مجید اور حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرّہٗ کی کتب کے کئی نسخے اپنے دستِ مبارک سے تحریر فرمائے- آپ کا جاذبِ نظر اور دلکش رسم الخط آپ کے علمی و فنی ذوق کا غماز ہے- آپ کی تصانیف میں سرائیکی شاعری کے علاوہ کسی کتاب کا تذکرہ نہیں ملتا- ان اشعار میں سرائیکی، پنجابی، اردو، فارسی اور عربی جیسی پانچ عظیم زبانوں  سے موتی پروئے گئے ہیں جن میں فیضانِ باھو کی ایسی چمک ہے جو طالبانِ مولیٰ کی راہنمائی کرتے ہوئے انہیں مطلوب و مقصود تک پہنچا دیتی ہے- شاعری مختصر ہے گویا سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے جسے ہم  آپ کی ایک سو تینتیس سالہ زندگی کا خلاصہ بھی کہہ سکتے ہیں اور معراج انسانی کا وہ ’’ نکتہ‘‘ بھی جس میںتمام کائنات مجتمع ہے-

آپ تخلیقِ پاکستان سے تیرہ سال قبل ۱۳۵۲ھ بمطابق ۱۹۳۴ء میں دنیا داروں کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں گویا آپ کی زندگی ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ پر محیط رہی جس میں آپ نے باھُو شناسی، سلطانیات اور فیضانِ باھُو کی ایسی شمع روشن فرمائی جو صدیوں تک عالَمِ بیتاب کو تابناک کرتی رہے گی-

آپ کا مزار مبارک شورکوٹ شہر سے جھنگ روڈ پر ۱۲ کلومیڑ کے فاصلے پر اڈہ قاسم آباد ’’موضع فرید محمود کاٹھیہ‘‘ میں واقع ہے- طالبانِ مولیٰ کو یہاں پر حاضری سے جو قلبی اطمینان اور روحانی سکون ملتا ہے وہ آپ کی روحانی رفعت اور مقامِ وِلایت کی انتہاء کا منہ بولتا ثبوت ہے-

مخاطِب و مخاطَب کا باہمی رُوحانی رشتہ :

سلطان سید محمد بہادر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ سے ظاہری بیعت دو واسطوں یعنی سید محمد عبد الغفور شاہ صاحب اور سید محمد عبد اللہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیھما سے قائم ہوتی ہے لیکن چونکہ حضور پیر صاحب کو حضرت سلطان باھُو صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے خزانۂ فقر بلا واسطہ عطا ہوا اس لیے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو کا بلا واسطہ روحانی خلیفہ ہونے کا شرف حاصل ہے-

بارگاہِ سُلطانی میں کی گئی مناجات کا مختصر تعارف :

حضور پیر صاحب کی حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرّہٗ کی بارگاہ میں کی جانے والی مناجات کو سروری قادری سلسلہ میں بڑی اہمیَّت حاصل ہے- آپ کی بارگاہِ سُلطانی میں کی گئی مناجات طالبانِ مولیٰ کی راہنمائی کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں- اِس سلسلے کے اکثر جلیل القدر شیوخ نے ان مناجات کو حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرّہٗ سے اکتسابِ فیض کیلئے اختیار فرمایا اور تجربے اور تحقیق کی روشنی میں انہیں اکسیر فرمایا- علاوہ ازیں جو طالب اپنے مرشد کی بارگاہ میں کسی بڑی خطا کا مرتکب ہو کر رجعت کا شکار ہوجائے یا کوئی اللہ اور اس کے رسول سے بد ظن ہوجائے تو ان مناجات کے وسیلے سے اپنی حالت کی تبدیلی کی التجا کر سکتا ہے -ان مناجات کے پڑھنے سے فضلِ خداوندی پہلے سے زیادہ جوش میں آجاتا ہے اور خطا کرنے والے پر عطا کی بارشیں شروع ہوجاتی ہیں-

مناجات کا آغاز کرتے ہوئے حضور پیر صاحب نے سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک کو مقدس وادی کی مثل قرار دیتے ہوئے فرمایا:-

{بند :۱َوّل(مطلع)}

سبحان اللہ سلطان صاحب دا محل مقدس وادی

’’ھواللہ‘‘  تے  ’’یاھو‘‘  دی ہے سَدا نِدا منادی

وِجدانی عرفانی دی ، واہ! اِس جا کُل آبادی

فیض رَسانی دا ہے قبلہ ، روزِ ازل دا عادی

بخشے لکھ ہا گنج الٰہی ، خاص جمعیت شاہ دی

اکسیر نظر تے قلزم رحمت ، تعریف اس راہنمادی

سُن فریاد نمانے دی یا اکمل مرشد ہادی

’’سبحان اللہ! سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کا محل (مزارِ پُر انوار) مقدس وادی کی مثل ہے جہاں ’’ھو اللہ‘‘ اور ’’یا ھو‘‘ کی ہمیشہ صدا آتی رہتی ہے- یہ محل اصحابِ وجدان و عرفان سے ہر وقت معمور رہتا ہے (کیونکہ) یہ فیض رسانی کا قبلہ ہے ، روزِ ازل سے ہی اس کا یہی طریق ہے ، یہ خزائن الٰہی بخشتا ہے، بالخصوص شہنشاہِ کائنات ﷺ کی جمعیت بخشتا ہے، اس محل والے راہنما کی تعریف ہی یہ ہے کہ ان کی نگاہ اکسیر اور رحمت سمندر (کی مانند وسیع) ہے، ( لہٰذا) اے اکمل مرشد ہادی! اس بے کس کی فریاد رسی فرمائیں-‘‘

{بند:۲}

شان تیرے وِچ ہر دم ہے ’’لا خوف علیھم‘‘ آیا

چھتر ’’لولاک لما‘‘ دا سر تیرے تے سایہ

خاص حضوروں عالَم نوروں واحد اَحد جھلایا

کیا جاناں توں ’’احمد‘‘ ہیں یا ’’باھو‘‘ نام دھرایا

یا خود ’’احد‘‘ ’’صمد‘‘ ہیں باھو ’’یاھو‘‘ بُرقعہ پایا

مار مینوں تلوار فنا دی ، دے کر ڈھال بقاء دی

سن فریاد نمانے دی یا اکمل مرشد ہادی

’’تیری شان میں ہمیشہ {اَلَا اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنْ} (بے شک اللہ کے اولیاء پر نہ تو کوئی خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے) آیا ہے، تمہارے سر اقدس پر{لَوْ لَاکَ مَا خَلَقْنَا الْاَفْلَاکَ}(اے محبوب اگر آپ نہ ہوتے تو میں کائنات کو پیدا نہ کرتا) کی سقف کا سایہ ہے، خاص حضوری کے عالَمِ نور سے واحد احد پکاراگیا ، (اب) میں کیا سمجھوں کہ آپ (فنا فی اسمِ ) احمد ہیں یا باھو نام رکھوایا، یا پھر یہ باھُو (فنا فی اللہ ہوکر) بارگاہِ احدیت اور صمدیت کے اَنوار سے مُنوّر ہیں اور ذِکرِ ’’یاھُو‘‘ کی پوشاک کو پہن لیا ہے، مجھ پر بھی (اسی) فنایت کی تلوار چلا دیں (لیکن) ساتھ ساتھ بقاء کی ڈھال بھی عطا فرما دیں، اے اکمل مرشد ہادی! اس بے کس کی فریاد رسی فرمائیں-‘‘

{بند:۳}

باہجھ تُساڈے مینوں سوہناں! ہرگز آس نہ کائی

خود دانا تے بینا ہو ، ہے ایہہ تقلید نہ کائی

وانگ زلیخاں ذوق تیرے وچ عمر تمام گنائی

عرض گزار ہویم اُس وِیلے ، جان لباں تے آئی

شالا آسی ترس تُسانوں ہوسی فضل خدائی

اِستدعاء منظور ہو وَیسی ، مسکین غریب گدا دی

سُن فریاد نمانے دی یا اکمل مرشد ہادی

’’اے حُسن و جمال کے مالک!آپ کے بغیر مجھے کوئی امید نہیں، آپ خود صاحبِ فراست ہیں، خود صاحبِ نگاہ ہیں، یہ کوئی (محض ) تقلید نہیں(بلکہ تحقیق )ہے-مَیں نے حضرت زُلیخا علیھا السلام کی طرح تیرے ذوق و شوق میں زندگی بسر کی ہے، مَیں اُس وقت اپنی عرضی پیش کر رہا ہوںجب میری جان میرے ہونٹوں تک آن پہنچی ہے، اللہ نے چاہا تو آپ کو (ہم پر) رحم آہی جائے (اور) اور اللہ تعالیٰ کا فضل (مجھ پربھی) ہو گا،اس مسکین، غریب اور عاجز کی استدعاء (بھی) منظور ہوجائے گی،( لہٰذا) اے اکمل مرشد ہادی! اس بے کس کی فریاد رسی فرمائیں-‘‘

{بند:۴}

آستان چمیندیاں گزرے حضرت! ہر دَم آن زمانہ

روح مَحبت تیری ہے ، ایہہ تن خالی کاشانہ

مثال ملائک نام تیرے دا ، قُوْت ہے روز شبانہ

مست کرو دے جامِ پرم ، سلطان سخی وَڈ شانہ

سنسار دی سار بھُلاکے ، ہوواں عالَم توں بیگانہ

ذوق تے شوق وَنجائے تیرا سُدھ بُدھ نفس ہوا دی

سُن فریاد نمانے دی یا اکمل مرشد ہادی

’’یا حضرت سلطان باھُو! ( استدعاء یہ ہے کہ میرا) ہر دَم ، وقت کاہر لمحہ آپ کے آستانہ عالیہ کو چومتے گزرے، (میرے وجود کی) روح تیری محبت ہی ہے (وگرنہ) یہ جسم (محض) خالی کاشانہ ہے، ملائکہ کی مثل تیرا نام ہی (میرے) شب و روز کا توشہ ہے، اے عظیم الشان عارفوں کے سلطان ! (مجھے) مَحبت کا جام پلا کر (اس قدر) مست کر دیں (کہ) دنیا کے رنج و الم کو بھلا کر اس جہانِ فانی سے بیگانہ ہوجائوں، نفس کے ہوا پرست عقل و شعور کو (صرف) آپ کا ذوق اور شوق ہی محو سکتا ہے، ( لہٰذا) اے اکمل مرشد ہادی! اس بے کس کی فریاد رسی فرمائیں-‘‘

{بند:۵}

ہیں قاطع بُرہان خدائی ، روشن نور الٰہی

ہو مصباح قندیل وِچالے جِہت نہ ہے ، نہ آہی

وَنجاوے جلوۂ ذاتی تیرا ، ظلمت، شرک، سیاہی

یا ہادی ہِک بھال نظر ، تاں دُور ہووے گمراہی

وقتِ اخیر تاخیر نہ ہووے ، ہو ہر دَم ہمراہی

سر تا پا عطا فرما پوشاک اَسمآء حُسنٰی دی

سُن فریاد نمانے دی یا اکمل مرشد ہادی

’’آپ خدا کی ایسی قاطع دلیل ہیں جو نورِ الٰہی سے منور ہے، آپ فانوس میں شمع (کی مثل) ہیں جس کی نہ کوئی جہت ہے نہ تھی، تیرا جلوۂ ذات ہی ظلمت، شرک اور ( گناہوں کی) سیاہی کو مٹا سکتا ہے، اے مرشد و ہادی! ایک نگاہِ توجہ فرمائیں (تاکہ) یہ گمراہی دور ہوجائے، قریب المرگ (شہادتِ توحید میں)تاخیر نہ ہو، ہر لمحہ ساتھ رہنا، (وصال سے پہلے ہی) سر تا قدم اسمائے حسنیٰ کی پوشاک عطا فرما دینا،( لہٰذا) اے اکمل مرشد ہادی! اس بے کس کی فریاد رسی فرمائیں-‘‘

{بند:۶}

وِرد بنائیم روز شبینہ ، نام حضور انور دا

نا محرم، نہ ماہر  آہم  ، ذات اکبر اطہر دا

اسم مبارک تیرا ، ساتھی آہا تمام عمر دا

اس رفیق شفیق اعظم دا ، دِلوں بجانوں بَردا

ہیں اسمِ اعظم دے جسم معظم ، وَنجے حجابی پَردا

نور حضور ظہور سوا ایہہ ظالم نفس نہ مردا

شفقت نال فناء فرما ایہہ دشمن سخت عنادی

سُن فریاد نمانے دی یا اکمل مرشد ہادی

’’عاجز نے حضور پُر نور کے (عطا کردہ)اسمِ گرامی کو ہی شب و روز کا وِرد بنایا ہے، مَیں ذاتِ اکبر و اطہر کا نہ تو محرم ہوں اور نہ ہی ماہر ہوں، آپ کا (عطا کردہ) اسمِ مبارک ہی عمر بھر میرے ساتھ رہا ہے، اس رفیقِ اعلیٰ اور شفیقِ اعظم کا مَیں دل و جان سے چاکر ہوں، نورِحضوری کے ظاہر ہونے کے علاوہ یہ ظالم نفس فناء نہیں ہو سکتا، یہ بڑا سخت بغض و عناد رکھنے والا دشمن ہے اسے بڑی شفقت سے فناء فرمائیں، اے اکمل مرشد ہادی! اس بے کس کی فریاد رسی فرمائیں-‘‘

{بند:۷}

ملازم دفتر دا فرمایا ، ذات سخی سلطانی

شرف الفاظ لحاظ ہووے ، میں گرچہ پُر عصیانی

فاجر فاسق فرض کیتا ، پُر عیب خطا نفسانی

شان فیاض کرم سلطانی ، ہے بے حد بے پایانی

حساب گدا دے نال نہ زیبا ، شایانِ شان شاہانی

خطا عطا فرما یا ہادی ، دے پردۂ نور نورانی

ایہہ غم خانہ کاشانہ ، کر نال مُبَدَّلْ شادی

سُن فریاد نمانے دی یا اکمل مرشد ہادی

’’آپ کی صاحبِ سلطان ذاتِ پُر سخا نے( مجھ عاجز کو) دفترِ( محبت ) کا ملازم فرمایا ہے، اگرچہ مَیں پُر عصیان ہوں لیکن آپ اپنے قول کے شرف کو مد نظر رکھیں (اور میرے عیب نہ دیکھیں)، فرض کریں! میں فاجر و فاسق ہوں، پُر عیب ہوں،نفسانی خطائیں بھی رکھتا ہوں، (لیکن ان سب کے مقابلے میں)سلطانی کرم کی فیاضی کی شان بے حد و بے پایان ہے (اس لیے) شہنشاہوں کی شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ گدائوں سے حساب کتاب کریں، اے ہدایت کے منبع! اگر مَیں خطا کروں تو اس پر پردۂ نورانی ڈال کر اپنی عنایت بڑھا دیں (تاکہ خطا بھی حسرت میں مبتلا ہو جائے)، میرے اس غمزدہ آشیانہ کو خوشحالی میں تبدیل فرمادیں، ( لہٰذا) اے اکمل مرشد ہادی! اس بے کس کی فریاد رسی فرمائیں-‘‘

{بند:۸}

ہیں دریا بخشائش دا ، باران سحاب کرم دا

روئے زمین تے فیض حضرت دا ، اُچھلن بحر ہُمم دا

نظر اکسیر نوازیں جینوں ، عارف کریں قِدم دا

ہو مجروح آئیم در تیرے ، خواہشمند مرہم دا

بخش شفاء یا ہادی مہدی ، نام نہ رہے اَلم دا

کُنہہ کُن مکشوف ہووے ، کر محرم اسمِ اعظم دا

دارو صادر  قادر پائیں ، حالت خاص عما دی

سُن فریاد نمانے دی یا اکمل مرشد ہادی

’’(یا حضرت سلطان باھُو!) آپ بخشش کا دریا ہیں، سحابِ کرم کی بارانِ رحمت ہیں، آپ کا فیضان بحرِ ہمم سے اچھل کر روئے زمین پر  (عنقریب ) پھیلنے والا ہے،جس کو آپ نظرِ اکسیر سے نواز دیں تو وہ قِدم کا عارف بن جاتا ہے، میں بھی (عشقِ الٰہی سے) مجروح ہوکر تیرے در پر آگیا ہوں اور مرہم کی طلب ہے،اے ہادی مہدی! ایسی شفاء عطا فرمائیں کہ درد و الَم کا نام تک مٹ جائے،اسمِ اعظم کا ایسا محرم بنائیں کہ کُنہہ کُن (حقیقت الحقائق ) کھل کر سامنے آجائے ،آپ کے پاس(عشق کے بیماروں کیلئے ) نافذ العمل اور قدرت مند دواء ہے ،جس کی حالت انتہائی پریشان کُن ہے ( لہٰذا) اے اکمل مرشد ہادی! اس بے کس کی فریاد رسی فرمائیں - ‘‘

{بند:۹}

حق یقین تے عین یقین ، ہے ایہہ سامان ضروری

سفر دراز طریقت دا ، اس باہجھ نہ منزل پوری

بیکراں عطاء فرما ، ایہہ زاد حقیقت نوری

یقین قرین رہے ہر ویلے ، دل پائے معموری

مغروری دوری دور ہووے ، کر استدعاء منظوری

گستاخی معافی کریں یا قبلہ رہاں ہمیش حضوری

ہر دَم شامل کامل فرما عادت تسلیم رضا دی

سن فریاد نمانے دی یا اکمل مرشد ہادی

’’( طریقت کے سفر میں) حق الیقین اور عین الیقین کا زادِ سفر نہایت ہی ضروری ہے، طریقت کا سفر طویل ہے (اور) اس کے بغیر منزل کا حصول ناممکن ہے، نورانی حقیقت کی یہ زادِ راہ بیکراں عطا فرمائیں،یقین ہر وقت قرینِ حال رہے اور دل معمور رہے، (اس راہ میں)مغروری کی وجہ سے (پیدا ہونے والی) دوری ختم ہوجائے، میری استدعاء منظور فرمائیں، اے قابلِ صد احترام! اگر کوئی گستاخی ہوجائے تو معاف فرمادیں (تاکہ) ہمیشہ حضوری میں رہوں، ہر لمحہ مکمل تسلیم و رضا کی عادت شاملِ حال رہے، ( لہٰذا) اے اکمل مرشد ہادی! اس بے کس کی فریاد رسی فرمائیں-‘‘

{بند:۱۰}

جناب عالی! اِستغاثہ سُن اِس نفس اَخبث اَظلم دا

غارت کرے خزانہ دل دا ، لعل جواہر دم دا

داد امداد عطا فرما یا قبلہ ستر کرم دا

دے پناہ ملجاء و ماویٰ ، تیں باہجھ نہ میں کہیں کم دا

تیری اوٹ دا کوٹ تکے ، کُل عالَم عرب عجم دا

اِس مسکین دا ہیں توں ساتھی ، وقتاں غماں الَم دا

وِیرانی نفسانی نوں کر نال فضل آبادی

سُن فریاد نمانے دی یا اکمل مرشد ہادی

’’جناب عالی! یہ نفس جو خباثت سے بھر ا، سب سے بڑا ظالم ہے، اس کا استغاثہ بھی سن لیں، یہ دل کے خزانے اور سانسوں کے جواہرات کو غارت کر دیتا ہے، اے قابلِ صد احترام ! داد رسی فرماتے ہوئے سترِ کرم عطا فرمائیں، اے ملجاء و ماویٰ! مجھے پناہ عطا فرمائیں، آپ کے بغیر میں کامیاب نہیں، (صرف مَیں عاجز ہی نہیں) عرب و عجم کے کُل عالَم آپ کی پناہ کے طالب ہیں، اس مسکین کے غم و آلام کے وقت (بھی) آپ ہی ہمدرد ہیں، اس ویران نفسانی کو خاص فضل سے آباد فرمائیں، ( لہٰذا) اے اکمل مرشد ہادی! اس بے کس کی فریاد رسی فرمائیں-‘‘

{بند:۱۱- (مقطع)}

طَوق غلامی دا گَل تیرا ، روزِ اَزل دا پایا

نام تیرے دا فخر کریندیاں گزر زمانہ آیا

فیض تے کرم حضور انور دا صدہا بار ازمایا

آخر وقت وفاء فرمائو جو وعدہ فرمایا

سلطان بہادر شاہ تے کریو مدِّ نظر دا سایہ

خلعت خاص عطا ہووے ، ہر ویلے غور لقاء دی

سُن فریاد نمانے دی یا اکمل مرشد ہادی

’’عاجز نے آپ کی اطاعت کا گلوبند ازل سے ہی پہنا ہوا ہے، آپ کے اسمِ مبارک پر فخر کرتے ایک زمانہ ہو چلا ہے، (زندگی میں) آپ کے فیض و کرم کی صد ہا بار آزمائش کی، وقتِ مرگ بھی وفاء فرمائیں جیسا کہ وعدہ فرمایا ہے، سلطان سید محمد بہادر شاہ پر مدِ نظر کا سایہ رکھیں، ہمہ وقت غور وفکر اور لقائے الٰہی کی خلعتِ خاص عطا فرمائیں، ( لہٰذا) اے اکمل مرشد ہادی! اس بے کس کی فریاد رسی فرمائیں-‘‘

ابیات کی اصطلاحات و تشریح:

 {بند : اوَّل - (مطلع)}

مقدس وادی:(طورِ سینا کی طرف اشارہ ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوئے، محل پاک کو مقدس وادی قرار دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے طالب یہاں آکر اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے خود فرمایا:

ہر کہ طالبِ حق بوَد من حاضرم،

 زِ ابتداء تا انتہاء یک دم برم،

 طالب بیا، طالب بیا، طالب بیا،

 تا رسانم روزِ اوّل با خدا

 وجدانی: (صاحبِ وجدان: وجدان عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنیٰ مطلوب کو پانا ہے ، وجدانی اس شخص کو کہتے ہیں جو قوائے باطنیہ سے ادراک حاصل کرتا ہے)

 عرفانی:(معرفت رکھنے والا صاحبِ عرفان:معرفت اور عرفان عربی زبان کے الفاظ ہیں جن کے لغوی معانی کسی چیز کا اس کی نشانی کی وجہ سے تفکر اور تدبر کے ذریعے ادراک حاصل کرناہے - اللہ تعالیٰ کی معرفت اس کی نشانیوں میں تدبر کرنے سے ہوتی ہے نہ کہ اس کی ذات کا ادراک کرنے سے- تصوف میں جب کسی عارف کے نفسانی طبیعی ممکنہ اخلاق سے اس کا راز ظاہر ہوجائے تو اس کے قلب میں حکمت اور اتباعِ محمدی کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں، وہ عارف مرجع خلائق بن جاتا ہے - شیخ عارف روز بہان بقلی فرماتے ہیں کہ معرفت محبت کے چراغ کی روشنی ہے جب یہ بلند ہوتی ہے تو وہم کی تمام جھاڑی بوٹیاں اس کے اردگرد سے ختم ہوجاتی ہیں)

 روزِ ازل:(اَزَل اس سابقہ زمانہ کو کہتے ہیں جس کی ماضی کی طرف کوئی ابتداء نہ ہواس کے مقابل اَبَد کا لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی مستقبل کا وہ زمانہ جس کی انتہاء نہ ہو- روزِ ازل سے مراد وہ دن جس میں اللہ تعالیٰ نے ارواح کی طرف التفات فرمائی-)

 گنج الٰہی:(اللہ تعالیٰ کا خزانہ : مراد اللہ تعالیٰ کی معرفت کے علوم و حکمت)

 جمعیت:(جمعیت اس گروہ کو کہتے ہیں جو ایک ہی مقصد کے لیے ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں-اصطلاحِ تصوف میں انسان کے تمام تفکرات اور تصورات کا ایک ہی مرکز اور ایک ہی مقصد کے لیے ایک ہی ذات میں مجتمع ہوجانا جمعیت کہلاتا ہے- )

اکسیرنظر: (اکسیر کا لفظ یونانی زبان سے عربی میں آیا- یونانیوں کے خیال میں یہ ایسا کیمیا ہے جو چاندی یا تانبے کے اوصاف کو سونے کے اوصاف میں تبدیل کر دیتا ہے- اکسیر نظر سے مراد مرشد کامل کی ایسی نگاہ اور توجہ جس سے مرید کی نفسانی و مادی اوصاف روحانی اور باطنی اوصاف میں تبدیل ہو جاتے ہیں-)

{بند:۲}

فناء: ( یعنی نیست و نابود ہوناتصوف میں سالک کی وہ صفات جو اسے مطلوب و مقصود تک پہنچنے میں رکاوٹ ہوں کا ختم ہوجانا فناء کہلاتا ہے-)

 بقاء:(عربی زبان میں کسی چیز کے اپنی پہلی حالت پر برقرار رہنے کو بقاء کہتے ہیںیہ فناء کا متضاد ہے- بقاء کی دو اقسام ہیں :۱ -غیر منتہی مدت تک بقاء بنفسہٖ اس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہے کیونکہ اس پر فناء نہیں ہے - ۲- بقا بغیرہ یعنی اللہ کے علاوہ سب بقاء بغیرہٖ کے زمرے میں شامل ہیں ان پر فنائیت کی تعریف لاگو ہوتی ہے- اصطلاح تصوف میں جب سیر الی اللہ اپنی انتہاء کو پہنچتی ہے اور سالک اپنے وجود کو ماسوی اللہ سے پاک کر لیتا ہے تو اس وقت سیر فی اللہ شروع ہوجاتی ہے- سیر فی اللہ کے بھی درجات ہیں بعض میں اکثر صفاتِ الٰہی پائی جاتی ہیں ، بعض میں قلیل- فناء فی اللہ کے بعد بقاء باللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے-)

{بند:۳}

تقلید:(تقلید کا لغوی معنیٰ گلے میں پٹا ڈالناجیسے گلے میں تلوار کا پٹاڈالنا، اونٹ کے گلے میں قلادہ باندھنا،مجازی طور پر بغیر تامل اور غور و فکر کے کسی کی پیروی کرنا بھی تقلید کہلاتا ہے اسے اندھی تقلید بھی کہا گیا ہے- قرآن میں اسے ناپسند کیا گیا ہے- سورۃ فرقان میں عباد الرحمن کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے { وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیَاتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا} (۷)

’’عباد الرحمن وہ ہے جب ان کے سامنے اللہ کی آیات ذکر کی جاتی ہیں تو ان پر بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گر پڑتے (بلکہ تحقیق کرتے ہیں) -‘‘

راہِ تصوف میں پہلے مرشد کی تحقیق کی جاتی ہے اگر اس کا اسلوب قرآن و سنت کے تابع ہے تو پھر اس کی اطاعت کی جاتی ہے -)

زلیخا: (یہ یوسف و زلیخا کے واقعہ کی تلمیح ہے- زلیخا عزیزِ مصر کی بیوی تھی جو حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال پر فدا ہوگئی اور عمر بھر آپ کے عشق و فراق اور یاد میں گزار دی- آخری وقت آپ کو قُربِ یوسف نصیب ہوگیا تھا-)

 استدعاء:(التماس، تمنا، خواہش اور درخواست کے معانی میں استعمال ہوتاہے)

 مسکین: (عربی زبان میں مسکین اسے کہتے ہیں جس کے پاس کوئی چیز ہی نہ ہو یہ لفظِ فقیر سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ فقیر اسے کہتے ہیں کہ جو اتنا مال نہ رکھتا ہو کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو- مسکین کا لفظ سکون سے بنا ہے - اصطلاحِ تصوف میں جب سالک ہر دنیاوی محبت سے کلیۃً کنارہ کش ہوکر ساکن مع اللہ ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے انوار و تجلیات میں ہی سکونت اختیار کر لیتا ہے تو اسے مسکین کہتے ہیں- حدیث مبارکہ ہے:

{اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا وَّ اَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا وَّ احْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ } (۸)

’’اے اللہ مجھے مسکین زندہ رکھ ، مسکینی میں موت دے اور قیامت کے دن میرا حشر مساکین کے زمرہ میں فرمانا-‘‘

غریب: (عربی زبان میں ہر دور ہونے والے کوغریب کہتے ہیں اور جو چیز اپنی اجناس میں بے مثال ہو اسے بھی غریب کہتے ہیں- حدیث مبارکہ ہے:

{بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا وَّ سَیُعُوْدُ کَمَا بَدَأَ غَرِیْبًا فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَآئِ} (۹)

’’اسلام غریب شروع ہوا اور عنقریب اپنی اسی حالت پر لوٹ آئے گا جیسے یہ شروع ہوا ، اس لیے غرباء کے لیے خوشخبری ہے-‘‘

جب رسول اللہ ﷺ سے عرض کی گئی کہ غرباء کون ہیں ؟ تو آپ  ﷺ نے فرمایا: اپنے قبائل سے لا تعلق ہونے والے غرباء ہیں- اصطلاحِ تصوف میں جس کے وجود سے غیر اللہ کی محبت ختم ہو جائے یا جو غیر اللہ سے ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے وہ غریب ہے-)

{بند:۴}

آستان:(درگاہ، گذرگاہ مجازی طور پر دربار اور بارگاہ کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے-)

مَحبت: (طبیعت کا کسی لذت بخش چیز کی طرف مائل ہوجانا محبت کہلاتا ہے، یہ دوستی ، مہربانی کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے - اصطلاحِ تصوف میں جب سالک کا اللہ تعالیٰ کی ذات کو پانے کا شوق بہت زیادہ اور قلبی میلان بڑھ جائے تو وہ محبت کہلاتاہے-)

قُوْت: }اعراب: ' ق' پہ پیش 'واؤ' پہ جزم اور'ت'ساکن {

 (خوراک،طعام، غذاء،توشہ جس سے انسان کے وجود میں توانائی اور قدرت آ جاتی ہے- اصطلاحِ تصوف میں روحانی غذاء مراد ہے- )

مست:(بے خود، مدہوش اور مخمور شخص کوفارسی میں مست کہتے ہیں: اصطلاحِ تصوف میں اللہ تعالیٰ کی محبت میں مستغرق رہنے والا مراد ہے-)

 جامِ پرم: (پرم ہندی زبان کا لفظ ہے جو لفظِ پریم سے نکلا جس کا معنیٰ محبت ہے- ہندی میںخدا کو پرم آتما یعنی محبت کی روح کہا جاتا ہے- جامِ پرم یعنی جامِ محبت جسے پینے سے محبت میں اضافہ ہوجائے جامِ پرم سے مراد رخِ مصطفی، رخِ محبوب کا وہ نظارہ ہے جس کو مردانِ عرب نے چالیس سال بعد دیکھا تو انہیں بے خود کردیا - یہی وہ مقامِ محبت ہے جہاں عارف اللہ تعالیٰ سے بے حد محبت کرنے لگتا ہے-)

 سنسار:(زمانہ: مراد دنیا دار جو راہِ خدا سے غافل ہیں-)

 سار: (رنج، محنت، تکلیف،آزار)

ذوق: (لغوی معنیٰ کسی چیز کو چکھنا ہے فارسی میں یہ لذت، خوشی اور نشاط کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے - ذوق سے ہی مشاہدہ کے احوال کا آغاز ہوتا ہے-)

 شوق: (دل کے میلان اور رغبت کو شوق کہتے ہیںیہ ذوق کے بعد پیدا ہوتا ہے-اصطلاح تصوف میں ذاتِ الٰہی سے واصل ہونے کی رغبت کو شوق کہتے ہیں)

نفس:(انسان کے وجود میں ایک خصلت ہے اگر وہ برائی کا حکم دے تو اسے نفسِ امارہ کہتے ہیں، اگر گناہ کرنے کے بعد پچھتاوا ہو تو یہ نفسِ لوامہ ہے اور اگر گناہ سے پہلے بندہ کو اس سے بچنے کا الہام ہوجائے تو یہ نفسِ مُلہمہ ہے اور اگر گناہوں سے ہمیشہ کے لیے باز آجائے تو یہ نفس مطمئنہ ہے- ورد وظائف ، مجاہدہ و رِیاضت اور توجّہ ئِ مُرشدِ کامل سے اس کی حالتیں بدلتی رہتی ہیں-)

 {بند:۵}

قاطع بُرہان: (بُرہان عربی زبان میں دلیل کو کہتے ہیں- قاطع بُرہان سے مراد ایسی دلیل جو فریقِ مخالف کے دعویٰ کو باطل کردے-)

مصباح:(شمع، چراغ کو مصباح کہتے ہیںستاروں کو مصابیح کہا جاتا ہے- اصطلاحِ تصوف میں نورِ نبوت اور نورِ ولایت کو مصباح کہتے ہیں)

 قندیل:(فانوس جو چراغ کی حفاظت کرتا ہے-آیت ہے:

{اَﷲُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْہَا مِصْبَاح اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ } (۱۰)

’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال اس طاق جیسی ہے جس میں چراغِ ہے؛ (وہ) چراغ، فانوس میں رکھا ہے-‘‘

 اللہ تعالیٰ کے اس قول میں زُجاجہ سے مراد قندیل ہے-اصطلاحِ تصوف میں وہ قلب جس میں نور موجود ہے یا وہ جسم جس میں روحانیت موجود ہے-)

 جلوۂ ذاتی: (اللہ تعالیٰ کی ذات کی تجلی نہ کہ صفات کی-)

ظلمت:(عدمِ نور کو عربی زبان میں ظلمت کہتے ہیںاس کی جمع ظلمات ہے- جہالت، شرک ، فسق سب ظلمات ہیں- ظلم کو ظلم اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ جہالت، شرک یا فسق کی وجہ سے ہوتا ہے-اس کے مد مقابل نور ہے-)

شرک:(شرک کا لغوی معنیٰ شرکت یا مشارکت ہے - یعنی دو ملکیتوں کو یا دو جنسوں کا ملا کر ایک بنا دینا شرکت یا مشارکت ہے-کسی کو اپنے معاملات میں شریک بنانا بھی اسی معنیٰ میںاستعمال ہوتا ہے - مفردات امام راغب میں ایک حدیث مبارکہ منقول ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکر م ﷺ سے فرمایا:-

{اِنِّیْ شَرَّفْتُکَ وَ فَضَّلْتُکَ عَلٰی جَمِیْعِ خَلْقِیْ وَ اَشْرَکْتُکَ فِیْ اَمْریْ}

 ’’میں نے تجھے اپنی تمام مخلوق پر شرف اور فضیلت بخشی ہے اور تجھے اپنے معاملات میں شریک بنایا ہے-

یعنی میرے ذکر کے ساتھ تیرا ذکر ہوگا اور میں نے اپنی اطاعت کے ساتھ تمہاری اطاعت کا حکم دیا ہے-‘‘ (۱۱)

دین میں شرک کی دو اقسام ہیں:

۱- شرکِ عظیم: اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک کرنا کہ فلاں شخص یا فلاں چیز بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبودیت اور الوہیت میں شامل ہے-

۲- شرکِ صغیر: بعض امور میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر اللہ کو بھی شامل کر لینا- اسے شرک فی الصفات بھی کہا جاتا ہے-امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ شرکِ صغیر ریاء اور نفاق ہے- جیسا کہ آیت مبارکہ ہے: -

{وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُ ھُمْ بِاللّٰہِ وَ ھُمْ مُشْرِکُوْنَ}(۱۲)

’’اور اللہ پر اکثر ایمان نہیں رکھتے مگر یہ کہ وہ مشرک ہیں‘‘

 بعض کا قول ہے کہ وہ دنیا کے شرک یعنی دنیا کے پھندوں میں پھنسے ہوتے ہیں- اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

{اَلشِّرْکُ فِیْ ھٰذہِ الْاُمَّۃِ اَخْفٰی مِنْ دَبِیْبِ النَّمْلِ عَلَی الصَّفَا}(۱۳)

’’اس اُمّت میں شرک صفا کی پہاڑی پر چیونٹی کے چلنے سے بھی زیادہ خفیہ ہے-‘‘

 سیاہی:(وہ دھبہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے انسان کے دل پر لگ جاتا ہے اور مسلسل نافرمانی کرنے سے پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے-)

ہر دَم ہمراہی:( تصور اسم اللہ ذات کے ذریعے ہر سانس کی حفاظت ہر دم ہمراہی کہلاتی ہے-)

 پوشاک اسمائے حسنیٰ:(پوشاک لباس کو کہتے ہیں جو انسان وقت ، حالات اور موسم کے تقاضوں کے مطابق استعمال کرتا ہے- اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کی پوشاک سے مراد روح کا لبادہ ہے جب روح اسمائے حسنیٰ کی پوشاک پہن لیتی ہے تو نفس کی نفسانیت سے محفوظ ہوجاتی ہے-)

{بند:۶}

وِرد:(وہ ڈیوٹی جو مرشد کی طرف سے ایک مرید پر عائد ہوتی ہے چاہے وہ الفاظ کی ادائیگی کی صورت میں ہو ، تصورات و تفکرات کی حفاظت کی صورت میں ہو یا جسمانی اعمال کی صورت میں جیسے نفلی عبادات، خدمت گزاری وغیرہ جس کا مقصد فرائض واجبات وغیرہ کی صحیح ادائیگی ہے جوخالق کائنات کی طرف سے بندہ پر لازم ہیں-)

 بَردا: (بَردَہ: فارسی زبان کا اسمِ صفت ہے جس کا معنیٰ: غلام، کنیز، چاکر ہے-)

 اسمِ اعظم: (وہ اسم جو تمام اسماء و صفات سے بڑا ہو- اسمِ اعظم کے بارے کثیر اقوال اور آراء ہیں لیکن جمہور علماء اور فقہاء کی رائے میں اسم اللہ ہی اسمِ اعظم ہے- )

 جسمِ معظم: (وہ جسم مبارک جو اسمِ اعظم کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے یعنی وہ وجود مبارک جسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آ جائے جیسا کہ حدیث پاک میں بھی اشارہ ہے- حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے :

{اِنَّ مِنَ النَّاسِ مَفَاتِیْحَ ذِکْرِ اللّٰہِ اِذَا رَؤُوْا ذُکِرَ اللّٰہُ} (۱۴)

’’کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی چابیاں ہیں انہیں دیکھو تو اللہ تعالیٰ یاد آجاتا ہے-‘‘

’’ مشرب الارواح‘‘ میں لکھا ہے : جب عارف احوالِ ازل، جلال اور ہویت کا مشاہدہ اسم اللہ کے دو لام اور ایک ہاء کے وسیلہ سے کرتا ہے ، اسم سے معنیٰ میں فناء ہوتا ہے اور اسم اللہ کے حروف سے نکل کر اسم اللہ کے نور میں جل جاتا ہے تو مشاہدہ کرنے والا ازلیت کی ہیبت، جلالیت کے حسن و جمال اور ہویت کی حیرت سے متصف ہوجاتا ہے ، حق تعالیٰ بھی اس کے انفرادیت کی وجہ سے اس کے لیے منفرد ہوجاتا ہے اور اس کی فردانیت کو اس کے غیر سے الگ کردیتا ہے - اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا یہ مجموعہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق سے متخلق ہوجاتا ہے ، پس جو چاہتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھے، وہ اس کی طرف دیکھ لے کیونکہ یہ اس ذات کی اُن صفات کا آئینہ بن چکا ہے جو تمام جہان والوں کے لیے منکشف ہوتی ہیں، اسی مقام پر رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا: -

{مَنْ رَاَنِیْ فَقَدْ رَاَی الْحَقَّ} (۱۵)

’’ جس نے مجھے دیکھا اس نے حق کو دیکھا-‘‘

 شیخ عارف روز بہان بقلی نے فرمایا کہ جس نے یہ مقام حروف اور اصوات کے ذریعے طلب کیا تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں الوہی معانی کے اپنے ابتدائی احوال میں ہی محجوب ہو جائے گا- حضرت حصیری رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے : لوگ اللہ کہتے ہیں اور میں بھی تمہارے اللہ کہنے کے بغیر اللہ کہتا ہوں اور (حقیقتِ حال یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ ہمارے اللہ کہنے سے بھی منزہ ہے) (۱۶)

حجابی پردہ: ( وہ پردہ جو نفسانیت کی وجہ سے روح پر پڑا ہوتا ہے جس کی وجہ سے روح حقیقت الحقائق کا مشاہدہ کرنے سے قاصر رہتی ہے-شیخ روز بہان بقلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جب کوئی معترض اپنی نفسانی خواہشات کو فناء کئے بغیر اللہ تعالیٰ کی رویت پر اعتراض کرتا ہے تو ازل کا قہر اس پر نازل ہوتا ہے اس قہر کی غیرت حجاب کہلاتی ہے-) (۱۷)

نور حضور: ’’مشرب الارواح ‘‘میں ہے کہ حضور یا حضوری مشاہدہ کی ایک قسم ہے- صاحبِ فراست کو حاضر بالجوارح (حضوریٔ اعضاء) کہتے ہیں، صاحبِ الہام و صاحبِ خطاب کو حاضر بالقلب (حضوریٔ قلب) کہتے ہیں، صاحبِ تفکرفی الغیب کو حاضر بالعقل (حضوریٔ عقل) کہتے ہیں،صاحبِ کشف الغیب کو حاضر بالروح (حضوریٔ روح) کہتے ہیںاور صاحبِ کشفِ مشاہدۂ حق کو حاضر بالسِّر (حضوریٔ راز) کہتے ہیں- انوار کے لطائف سے اسرار کا مراقبہ حضور کہلاتا ہے-) (۱۸)

اصطلاحِ تصوف میں عین ذات کی تجلی کو نورِ حضور کہتے ہیں-)

نفس: (بند نمبر ۴ کے آخر میں اس کی تشریح درج کر دی گئی ہے -)

فناء: ( یعنی نیست و نابود ہوناتصوف میں سالک کی وہ صفات جو اسے مطلوب و مقصود تک پہنچنے میں رکاوٹ ہوں کا ختم ہوجانا فناء کہلاتا ہے-)

{بند:۷}

فاجرو فاسق: (اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا گناہگار- یہاں روحانی اصولوں کی پیروی اور مرشد کی تابعداری میں کوتاہی کرنے والا مراد ہے-)

کرمِ سُلطانی: (شہنشاہی کرم جو ہر کسی پر بغیر کسی تفریق کے ہوتا ہے- حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اِس سے مُراد حضرت سُلطان العارفین رحمۃ اللہ علیہ کا فیضان ہے )

گدا: (وہ نادار و بے نوا جو اپنی روزی دوسروں سے مانگ کر کھاتا ہے یہاں مجازی طور پر روحانیت اور معرفتِ الٰہی کا سوالی مراد ہے)

پردۂ نور: (نورانیت کا پردہ جس میں نفسانی خطائیں چھپ جاتی ہیں-)

کاشانہ: (چھوٹے گھر، جھونپڑی، خیمہ وغیرہ کو کاشانہ کہتے ہیں- یہاں مجازی طور پر جسم مراد لیا گیا ہے-)

 شادی: (خوشحالی، وجد، سروراور روحانی نشاط کو شادی کہاگیا ہے-)

{بند:۸}

بحرِ ہِمَم:(قوی عزائم کا سمندر؛ ہمم : ہمت کی جمع ہے - یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنیٰ :ہمت، قصد، ارادہ، قوی عزم کے ہیں)

 نظر اکسیر: (اِس لفظ کی تشریح بند اوَّل میں کر دی گئی ہے -)

 عارفِ قِدم: (قِدم : عربی زبان میں قِدم سے مراد جو کچھ ماضی میں موجود ہے وہ قِدم ہے اور جو کچھ مستقبل میں موجود ہے وہ بقاء ہے مفرداتِ امام راغب میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو {یَا قَدِیْمَ الْاِحْسَانِ} کہا گیا ہے- (۱۹)

اصطلاحِ تصوف میں: قدم سے مراد وہ سابقہ دور جب ازل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احکامات نازل فرمائے تھے جن کی معرفت سے انسان اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے- عارفِ قِدم یعنی ان سابقہ ازلی احکامات کو جاننے والا-)

مجروح: (عربی زبان میں زخم خوردہ کو مجروح کہتے ہیں: اصطلاحِ تصوف میںجو روح مقامِ ازل اورمقامِ ابد کے دو قوسوں سے چلنے والے توحید کے تیر سے زخم خوردہ ہوجائے اسے مجروح کہتے ہیں- )

کشفِ کُنہہ کُن: (کنہ : کسی چیز کی حقیقت، اصل اور اساس کو کہتے ہیں- کشفِ کنہہ کن سے مراد : اللہ تعالیٰ کے لفظ {کُنْ} کی اساس اور حقیقت کو پا لیناہے- )

محرمِ اسمِ اعظم:(اسم اعظم کا مشاہدہ کرنے والاجب اللہ تعالیٰ کے اخلاق، اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کی ضیاء سے متصف ہوتا ہے تو بسم اللہ میں موجود اسم اللہ کا نور کثرت سے اس پر وارد ہوتا ہے- جب وہ جلال و جمال سے متصف ہوتا ہے تو نورِ ہویت میں داخل ہوجاتا ہے اور اس اسم کی تمام صفات کی تجلیات کو حاصل کر لیتا ہے اس وقت یہ اسم اس کے لیے حکم کادرجہ حاصل کر لیتا ہے، پس جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اور اس اسم کا ذکر کرتا ہے تو وہ چیز اسی طرح ہوجاتی ہے جیساوہ چاہتا ہے- حضرت حسین بن منصور رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جو اللہ کو پہچان لیتا ہے تو یہ اسم بمنزلہ {کُنْ}ہوجاتا ہے جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے- شیخ عارف روز بہان بقلی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اگر بسم اللہ میں باء ، سین، میم کا حجاب نہ ہوتا تو اسم اللہ ذات کا مشاہدہ کرنے والا اسم اللہ کے معنیٰ میں جل کر راکھ ہو جاتا-)(۲۰)

{بند:۹}

حق یقین: (یقین کا تیسرا درجہ جو علم الیقین، عین الیقین کے بعد حاصل ہوتا ہے جس سے دائمی اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے-)

طریقت:(عربی لفظ ہے جس کا لغوی معنیٰ سیرت، حالت، طریقہ کے ہیںاصطلاحِ تصوّف میں الہام کے احکامات کی معرفت اور اسلام کے مدارج کی طیر سیر طریقت کہلاتی ہے-)

 منزل: (عربی زبان میں اترنے کی جگہ کو منزل کہتے ہیںلیکن مجازی طور پرباطنی درجہ اور رتبہ کو بھی منزل کہتے ہیںاصطلاحِ تصوف میں معرفتِ الٰہی کا حصول منزل کہلاتا ہے-)

 حقیقتِ نوری: (نورانی حقیقت یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات جیسا کہ ارشاد ہے:-

 {اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ}(۲۱)

’’ اللہ ہی زمین و آسمان کا نور ہے-‘‘

 تسلیم رضا: (رضائے الٰہی کے آگے سرتسلیم خم کرنا تسلیم رضا کہلاتا ہے-)

{بند:۱۰}

استغاثہ:(مدد طلب کرنے کو عربی زبان میں استغاثہ کہتے ہیں، گریہ و زاری، التماس، اور دعاء کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے-)

 خزانہ دل: (قلب میں مدفون خزانہ یعنی ایمان اور اللہ تعالیٰ کی ذات کا نور)

جواہر دم: (سانس کے جواہرات : اس سے مراد تصور اسم ’’اللہ‘‘ ذات سے سانس کا وجود کے اندر داخل ہونا اور تصور اسم’’ ھُو‘‘ سے سانس کا وجود سے باہر نکلنا-سانس کو اللہ تعالیٰ نے بے جان ?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر