اقبالؒ کا تصورِوطن ووطنیت

اقبالؒ کا تصورِوطن ووطنیت

اقبالؒ کا تصورِوطن ووطنیت

مصنف: آصف تنویر اعوان ایڈووکیٹ اگست 2018

متحدہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت جبکہ ہندو اکثریت میں تھے- برطانوی راج ختم ہونے لگا تو متعصب ہندو راہنماؤں نے یہ لائحہ عمل پیش کیا کہ یہاں آزاد متحدہ ہندوستان وجود میں آنا چاہیے-ہندو راہنماؤں نے یہ مطالبہ بھاری اکثریت کے پیش نظر کیا تھا-اس مطالبہ کا جواز انہوں نے یہ کَہ کر پیش کیا کہ ہم سب ایک ’’قوم‘‘ ہیں اس لیے ملک بھی ایک ہوگا-ان کی قومیت کی تعریف یہ تھی کہ ایک مخصوص جغرافیائی حدود میں بسنے والے لوگ ایک قوم ہیں-قومیت کی اس رو سے وہ ہندوں اور مسلمانوں کو ایک قوم شمار کرتے تھے-قومیت کی یہ تعریف انہوں نے اُس وقت کے مغربی نیشنلزم سے مستعار لی- یہ تعریف ان کے لئے اس لیے بھی ضروری تھی کہ یہ ان کے مسلمانوں پر حکمرانی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے نہایت موزوں تھی-علامہ اقبال ؒ قومیت کی اس تعریف کے پس پردہ متعصب ہندو راہنماؤں کی نیت بھانپ چکے تھے اس لیے انہوں نے اس فریب زدہ تعریف کے رد میں مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ قوم مذہب سے بنتی ہے نہ کہ نسلی، لسانی اور جغرافیائی حدود سے-لحاظہ روئے زمین کے تمام مسلمان ’’لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ‘‘ کی بنیاد پر  ’’ایک قوم‘‘ کے فرد ہیں- آپ فرماتے ہیں:

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جزب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

قومیت کی اس تعریف سے ’’دو قومی نظریہ‘‘وجود میں آیا یعنی برصغیر میں ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں- بعد ازاں یہی دو قومی نظریہ قیام پاکستان کا پیش خیمہ ثابت ہوا-قومیت کی تعریف، دو قومی نظریہ اور پاکستان کا قیام علامہ اقبال کے طُفیل ہے-

علامہ اقبالؒ اسلام میں قومیت کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے مشہور لیکچر ’’مِلّتِ بیضَا پہ اِک عمرانی نَظَر‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ :

’’اسلام میں قومیت کا مفہوم خصُوصِیّات کے ساتھ چُھپا ہوا ہے اور ہماری قومی زندگی کا تصور اس وقت تک ہمارے ذہن میں نہیں آسکتا جب تک کہ ہم اصولِ اسلام سے پوری طرح باخبر نہ ہوں- باالفا ظ دیگر اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں-جو نسبت ا نگلستان کو انگریزوں اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے‘‘-[1]

ہندوستان میں سب سے پہلے ہندی وطنیت کے نعرے کی روح کو جس مفکر نے سمجھا اور اس کا شعور اجاگر کیا وہ علامہ اقبال ہیں- اقبال کا تصور وطنیت (Nationalism) اسلام کے آفاقی و روحانی اصولوں پر مبنی ہے جبکہ افرنگ کا تصور وطنیت استعماری اور خالصتاً مادہ پرستانہ ہے جس کی بنیا د نسلی، لسانی و جغرافیائی ہے-یہی وجہ تھی کہ اقبالؒ نے قومیت کے مغربی تصور کو رد کیا اور’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ ‘‘ سے مسلم نیشنلزم کے تصور کی تشریح پیش کی-اقبال کے اِسی نظریہ قومیت نے اسلامی نشاۃ ثانیہ کو ایک نئی اساس بخشی-[2]

تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو ’’اقبال1905ء تک نیشنلزم کے حامی رہے لیکن نیشنلزم کے زوال پذیر انجام کو دیکھ کر بعد میں اسے ترک کر دیا-’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ کی جگہ ’’مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا ‘‘ کا نظریہ اختیار کیا - یہ ذہنی سفر محدود وطن پرستی سے اسلامی بین الاقوامیت کی طرف تھا-اقبال کے نزدیک ملت اسلامیہ کسی ایک علاقے میں محدود نہیں ہے- وہ مکانی اور زمانی حدود سے آزاد ہے جبکہ وطنی قوم پرستی قید مقامی کی زد میں ہے-اقبالؒ ملت کو ’قید مقامی‘ کے خطرات سے نہ صرف آگاہ کرتے رہے بلکہ آفاقی کردار کے لیے آمادہ[3] کرنے کی خدمت بھی سرانجام دیتے رہے-

آپؒ نے مغربی وطنیت کی رد میں فرمایا کہ:

’’اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے - وطنیت بھی بت پرستی کی ایک لطیف صورت ہے-مختلف قوموں کے وطنی ترانے میرے اس دعوے کا ثبوت ہیں کہ وطن پرستی ایک مادی شے سے عبارت ہے- اسلام کسی صورت میں بت پرستی کو گوارا نہیں کر سکتا -بلکہ بت پرستی کی تمام اقسام کے خلاف احتجاج کرنا ہمارا ابدی نصب العین ہے- اس لیے اسلام جس چیز کو مٹانے کیلئے آیا اُسے مسلمانوں کی سیا سی تنظیم کا بنیادی اصول قرار نہیں دیا جا سکتا-پیغمبر اسلام (ﷺ) کا اپنی جائے ولادت مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں قیا م و وصال غالباً اِسی حقیقت کی طرف ایک اشارہ ہے ‘‘-[4]

علامہ صاحب نے دیکھا کہ نام نہاد نیشنلزم نے نہ صرف اقوامِ فرنگ کو اتحاد دین کے باوجود ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا ہے بلکہ جغرافیائی حدود کے اِس پار اور اُس پار کے انسان ایک دوسرے کے خلاف صلح میں بھی آمادہ بجنگ رہتے تھے-اقبالؒ نے اپنی فکری بصیرت سے بھانپ کر اس جدید فرنگی و فرنگی زدہ نظریے کے انسان دشمن مضمرات کو خلق خدا کے لے قطعی طور پر نا قابل قبول قرار دیا اور اپنی شہرہ آ فاق نظم ’’وطنیت‘‘ میں اسے کچھ اس طر ح بے نقاب کیا ہے کہ قصرِ فرنگ کے در و دیوار آج تک اس مومنانہ استدلال کی ہیبت سے کانپ رہے ہیں-حب الوطنی اور وطنیت کے تضادات کو نمایاں کرنے کے لیے حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنی اس نظم کو ایک ذیلی عنوان بھی دیا ہے جو ’’وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے‘‘ہے-

مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور

ملت اسلامیہ نے بھی کعبہ کو چھوڑ کر ایک نئےحرم (وطن) کی تعمیر کی جبکہ تہذیبی صنم تراشوں نے بھی لوگوں سے پُجوانے کےلئے وطن کی صُورت میں ایک نیا بُت تراش لیا ہے-یعنی جس طرح لات و منات معبودانِ باطلہ کی حیثیت میں ترشے تھے اُسی طرح وطنیّت پرستی بھی عصرِ حاضر کے لات و منات کی حیثیت رکھتی ہے-

آپ ؒ نے قومیت (Nationalism) کے نسلی، لسانی اور جغرافیائی تصور کو سامراج کے تراشیدہ بت قرار دیا-آپؒ اپنے کلام میں فرماتے ہیں:

ان تازہ خدا وؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

یعنی ان ترا شیدہ بتان میں سب سے بڑا بت وطن پرستی ہے اور جو اسے پوشاک بناتا ہے وہ اپنی تہذیب کا گلا خود گھو نٹتا ہے-

اقبالؒ کے مطابق مسلمان توحید پرست ہے، ایک خد ا کو ماننے والا ہے، خاتم ا لنبیین (ﷺ) کا امتی ہے اس لیے اس کا حقیقی وطن اسلام ہے- اس فرنگی تصورِ وطنیّت سے مسلمان کا کوئی تعلق نہیں ہے- ہمیں فرنگی اور فرنگ زدہ نظام اور تصورات کو ترک کر کے اسلام کے عالمگیر، روحانی اور آفا قی نظام کو ا پنا ا وڑھنا بچھونا بنانا ہے- اقبال کے مطابق ہمارا وطن اسلام ہے-

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

اقبال کے نظریۂ وطنیّت پہ بہت شاندار اور جدید تحقیق اُبھرتے ہوئے فلاسفر جناب ادریس آزاد کی ہے جو کہ ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل 2017ء کے اقبال نمبر میں شائع ہوئی-ادریس آزاد صاحب نے اس کو اقبال کے تصورِ ارضی پیوستگی سے جوڑا ہے-اقبالؒ نے جغرافیائی وطنیت کی نفی،قرآنی استدلال، ابن مسکویہ کے نظریہ ارتقاء اور اپنی سائنسی منطق کے ذریعے کی جس کی ایک جھلک ہم اس پیرائے میں دیکھ سکتے ہیں کہ ارضی کا لفظ ارض یعنی زمین سے لیا گیا ہے اور ارضی پیوستگی سے مراد زمینی پیوستگی ہے جو اصل انگریزی اصطلاح ’’ارتھ روٹڈ نیس‘‘ کا ترجمہ ہے- ڈاکٹر اقبال ؒ نے یہ اصطلاح اپنے خطبات ’’The reconstruction of Religious Thought in Islamمیں سب سے پہلے استعمال کی اور اردو میں ’’قید مقامی‘‘کَہ کر پکا را-عربی کی ایک ٹرم ’’خسف‘‘یعنی زمین میں دھنس جانا، غا لباً اقبال کی ارضی پیوستگی کیلئے مناسب ترین متبادل اصطلا ح ہے-اگر ہم غور کریں تو زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ زمین سے جو پودا جس قدر بلند ہے اس کا پھل اتنے زیادہ حرارے یعنی کیلوریز کا حامل ہے-ہم جانتے ہیں کہ کھجور کے ایک چھو ٹے سے دانے میں 282 کیلور یز ہو تی ہیں جبکہ بڑی سے بڑی گا جر میں فقط 41 کیلوریز ہو تی ہیں-[5]

قومِ بنی اسرائیل نے من و سلوٰی پر ککڑیوں،ترکاریوں اور پیازوں کو تر جیح دی جو زمین سے اُگتی ہیں-یعنی آسمانی طعام پر زمینی اجناس کو فوقیت دی اور یوں لامتناہی غذائی قید کی مشقت کا شکار ہو گئے- اقبالؒ کی نظم’’چیو نٹی اور عقاب‘‘ میں بیان کردہ مکالمہ بتاتا ہے کہ کس طرح عقاب کا مقام بلند ہے اور چیونٹی کس طرح ذلت کا شکار ہے-اقبال کے نزدیک ارتقاءِ حیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو مخلوق زمین کے جس قدر نزدیک ہے وہ زندگی کے اتنے ہی ادنی درجے پر فائز ہے اور جو زمین سے جس قدر بلند ہے وہ اتنے ہی اعلیٰ و ارفع درجے کی حیات کی حامل ہے-[6]

ادریس آزاد کے مندرجہ بالا دو اقتباسات کے مطالعہ سےیہ واضح ہو جا تا ہے کہ جو اقوام وطنیت کی بنیاد جغرافیہ پر رکھتی ہیں یا جو خسف ارض کا شکار ہو جاتی ہیں اور اپنا رزق آسمانوں پر تلاش کرنے کی بجاے خاک کا سہارا لیتی ہیں تو پھر چیونٹی کی طرح ذلت و رسوائی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے-اس کے برعکس جن اقوام کا مطمع نظر پیوستگی ارض کی بجائے آسمان پر کمندیں ڈالنا ہو تو شا ہین کی طرح رفعت ان کا نصیب قرار پاتی ہے یعنی زمینی تصورِ وطنیّت کی بجائے ایک روحانی تصور اُن کے ذہن میں ہو تو وہ جغرافیے اور لسانی بندھنوں کی بجائے عالمگیر عقیدہ میں یقین رکھتی ہیں -

اقبال اساسِ دین پر ہر ملک کے مسلمانوں کو ایک اسلامی قرار دیتے ہیں اس معا ملے میں ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سےبھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپؒ نے بعض علماء کا یہ قول سنا کہ ’’اقوام اوطان سے بنتی ہیں‘‘ تو اقبال کرب کی حالت سے دو چار ہوئے-23 مارچ 1940 کی قرار دادِ پاکستان کے بعد پاکستان مخالف علماء نے ’’متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر کتاب تصنیف کی- جس میں انہوں نے متحدہ ہندستانی قومیت کی بنیاد پر بھارت کے کانگرسی موقف کے اسلامی جواز پیش کیے- دراصل اُن علما نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ تصورِ پاکستان اور تحریک پاکستان اسلام کے بالکل منافی ہیں اس لیے مسلمانان ہند کو مسلم لیگ چھوڑ کر انڈین نیشنل کانگرس  میں شمولیت کر کے اپنے وطن ہندستان کو متحد رکھنا چاہیے-ان علماء کا جواب حضرت علامہ اقبال ؒ نے مومنانہ استدلال، باکمال سیاسی بصیرت، منفرد دینی و روحانی شعور سے دیتے ہوئے فرمایا کہ:

’’اگر وطن اتحادِ انسانی کی بنیاد ہوتا تو حضورنبی کریم (ﷺ) اسلام کی سر بلندی کی خاطر اپنے وطن مکہ کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت نہ کرتے- آپ(ﷺ)کی ہجرت میں یہ دینی و سیاسی رمز بھی پوشیدہ ہے کہ اسلام میں قومیت کا بنیادی اور اٹل اصول روحانی یگانگت ہے نہ کہ وطنی اشتراک‘‘-[7]

اقبالؒ ہندوستان میں دین و وطن کی اس کشمکش پر اسلامی انقلابی تعلیمات کی روشنی میں، مسلمانوں کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کراتے ہیں کہ:

’’حضور رسالت مآب(ﷺ)کیلئے یہ راہ بہت آسان تھی کہ آپ ابولہب یا ابوجہل یا کفارِ مکہ سے یہ فرماتے کہ تم اپنی بُت پرستی پر قائم رہو، ہم اپنی خدا پرستی پر قائم رہتے ہیں مگر اس نسلی اور وطنی اشتراک کی بنا پر جو ہمارے اور تمہارے درمیان موجود ہے ایک وحدت عربیہ قائم کی جا سکتی ہے-اگر حضور(ﷺ) نعوذ باللہ یہ راہ اختیار کرتے تو اس میں شک نہیں کہ یہ ایک وطن دوست کی راہ ہوتی لیکن نبی آخر الزماں (ﷺ)کی راہ نہ ہوتی-نبوتِ محمدیہ (ﷺ)کی غایت الغایات یہ ہے کہ ایک ہئیتِ اجتماعیہ انسانیہ قائم کی جائے جس کی تشکیل اس قانونِ الٰہی کے تابع ہو جو نبوت محمدیہ کو بارگاہِ الہٰی سے عطا ہوا تھا-یقین جانیے کہ دینِ اسلام ایک پوشیدہ اور غیر محسوس حیاتی اور نفسیاتی عمل ہے جو بغیر کسی تبلیغی کوششوں کے بھی عالمِ انسانی کے فکر و عمل کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے-ایسے عمل کو حال کے سیاسی مفکرین کی جدت طرازیوں سے مسخ کرنا ظلم عظیم ہے‘‘-[8]

اس مقدمہ کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ جو خطہ ارض انسان کا مسکن ہو اُس خطہ سے محبت نہ کی جائے-انسا ن اپنے خطہ ارضی سے ضرور محبت کرے، اُس کی سرحدوں کی حفاظت کرے اور اُس کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرے- لیکن حضور رسالت مآب (ﷺ) کا حب وطن سے متعلق فرمان کا حقیقی ادراک بھی ضرور حاصل کرے-فرمانِ مصطفےٰ (ﷺ) کے طور پہ منقول ہے کہ:

’’حب الوطن من الایمان‘‘

’’وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے‘‘-

اس وطن سے مراد حقیقی انسان (روح) کا وطن یعنی (عالم ارواح ) ہے اور لوٹ کر انسان کو وہیں جانا ہے-

 اسی لیے اقبالؒ پکار اُٹھتے ہیں کہ:

گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

مندرجہ ذیل بیان میں اقبال ؒنے یہ حقیقت عیاں کر دی ہے کہ حب الوطنی اور وطنیت پرستی دو الگ چیزیں ہیں-وطن ایک خطہ ارض ہے جس پر انسان زندگی بسر کرتا ہے- حب وطن ایک فطری جذبہ ہے- اسلام حبِ وطن کو برحق قرار دیتا ہے مگر وطنیت کے جدید فرنگی نظریے کا قلعہ قمع کر دیتا ہےجیسا کہ فرماتے ہیں کہ:  

’’زمانہ حال کے سیاسی لٹریچر میں ’’وطن‘‘ کا مفہوم محض جغرافیائی نہیں بلکہ وطن ایک اصول ہے ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا اور اس اعتبار سے ایک سیاسی تصور ہے چونکہ اسلام بھی ہئیت اجتماعیہ انسانیہ کا ایک قانون ہے اس لیے جب لفظ ’’وطن‘‘ کو ایک سیاسی تصور کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اسلام سے متصادم ہو رہا ہے- اسلام ہئیت اجتماعیہ انسانیہ کے اصول کی حیثیت میں کوئی لچک اپنے اندر نہیں رکھتا اور ہئیت اجتماعیہ انسانیہ کے کسی اور آئین سے کسی قسم کا راضی نامہ یا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں‘‘-[9]

موجودہ حالات کے تناظر میں دو نظریات انتہائی ا ہمیت کے حامل ہیں جن پہ ہماری قیادت کو توجہ مبذول کرنی چاہیے:

1.       دو قومی نظریہ

2.       مشرق اور ایشیا ء کے ساتھ سیا سی قرابت داری

پوری دنیا میں ایک طرف سامراجی و استعماری طاقتیں اپنے تمام جارحا نہ ہتھکنڈوں کے ساتھ موجود ہیں جبکہ دوسری طرف ملت اسلامیہ اپنی بد حا لی اور اپنی زبوں حالی کا رونا رو رہی ہے-ہم تمام تر قربانیاں دینے کے با وجود بھی عالمی سطح اور اقوام متحدہ میں وہ مقام حاصل نہیں کر سکے جو مقام بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اُڑانے اور غریب ممالک کے وسائل لوٹنے کے باوجود اغیار کر چکے ہیں-

آج ہمیں اقبالؒ کے اسلامی و روحانی اصولوں پرمبنی تصورِ وطن اور وطنیت کو سمجھ کر ’’قید مقامی‘‘ سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے-یہی حکیم ا لامت حضرت علامہ اقبالؒ کی منشا تھی-ملت اسلا میہ کو دو قومی نظریہ کی بنیا د پر اپنا کھو یا ہوا ملی و قومی تشخص بحال کرنے کی ضرورت ہے-اقبالؒ کے نزدیک انسانیت کی یقینی بقاء اور فلاح کا واحد ممکن نظام اسلام کا سیاسی اور مدنی نظام ہے جو حضور نبی کریم (ﷺ)اور خلفائے راشدین نے سلطنت مدینہ کے اندر عمل میں لایا-اقبالؒ نے نو جوانانِ ملت اسلامیہ کو انسان دشمن مغربی افکار سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تلقین کی-

فریاد ز افرنگ و دل آویزی افرنگ
فریاد ز شیرینی و پر ویزی افرنگ
عالم ہمہ ویرا نہ ز چنگیزی افرنگ
معمارِ حرم! باز بہ تعمیر جہاں خیز

’’فریاد ہے افرنگ سے اور اس کی دل آویزی سے، اس کی شیریں (حسن) اور پرویزی (مکاری) سے، کہ تمام عالم افرنگ کی چنگیزیت سے ویران اور تباہ و برباد ہو گیا ہے- اے حرم کو تعمیر کرنے والے (مسلمان) تو ایک بار پھراس (تباہ و برباد) جہان کو تعمیر کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہو-

٭٭٭


[1](علامہ محمد اقبالؒ، "ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر،" عالمی مجلس اقبال۔ 20 جولائی،

 http://www.iqbal.com.pk/allama-iqbal-prose-works/maqalat-e-iqbal/2853-milat-e-baiza-per-aik-imrani-nazar#disqus_thread (16(جولائی 2018)۔

[4](جاوید اقبال، "مسلم قومیت کا اصول،" مقالات جاوید، محمد سہیل عمر اور طاہر حمید تنولی (لاہور: شرکت پریس، 2011) 98)

[5](دریس آزاد، " تصورِ ارضی پیوستگی: اقبال کے نظریہ قومیت کا بنیادی محرک،" مراتہ العارفین انٹرنیشنل، نومبر 2017، 8-15)

[6](ایضا)

[7]( فتح محمد ملک، اقبالؒ کے سیاسی تصورات (اسلام آباد: دوست پبلیکیشنز، 2013)، 90)

[8]( فتح محمد ملک، اقبالؒ کے سیاسی تصورات (اسلام آباد: دوست پبلیکیشنز، 2013)، 93)

[9](ملک، اقبالؒ کے سیاسی تصورات، 93-94)

متحدہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت جبکہ ہندو اکثریت میں تھے- برطانوی راج ختم ہونے لگا تو متعصب ہندو راہنماؤں نے یہ لائحہ عمل پیش کیا کہ یہاں آزاد متحدہ ہندوستان وجود میں آنا چاہیے-ہندو راہنماؤں نے یہ مطالبہ بھاری اکثریت کے پیش نظر کیا تھا-اس مطالبہ کا جواز انہوں نے یہ کَہ کر پیش کیا کہ ہم سب ایک ’’قوم‘‘ ہیں اس لیے ملک بھی ایک ہوگا-ان کی قومیت کی تعریف یہ تھی کہ ایک مخصوص جغرافیائی حدود میں بسنے والے لوگ ایک قوم ہیں-قومیت کی اس رو سے وہ ہندوں اور مسلمانوں کو ایک قوم شمار کرتے تھے-قومیت کی یہ تعریف انہوں نے اُس وقت کے مغربی نیشنلزم سے مستعار لی- یہ تعریف ان کے لئے اس لیے بھی ضروری تھی کہ یہ ان کے مسلمانوں پر حکمرانی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے نہایت موزوں تھی-علامہ اقبال (﷫) قومیت کی اس تعریف کے پس پردہ متعصب ہندو راہنماؤں کی نیت بھانپ چکے تھے اس لیے انہوں نے اس فریب زدہ تعریف کے رد میں مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ قوم مذہب سے بنتی ہے نہ کہ نسلی، لسانی اور جغرافیائی حدود سے-لحاظہ روئے زمین کے تمام مسلمان ’’لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ‘‘ کی بنیاد پر  ’’ایک قوم‘‘ کے فرد ہیں- آپ فرماتے ہیں:

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جزب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

قومیت کی اس تعریف سے ’’دو قومی نظریہ‘‘وجود میں آیا یعنی برصغیر میں ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں- بعد ازاں یہی دو قومی نظریہ قیام پاکستان کا پیش خیمہ ثابت ہوا-قومیت کی تعریف، دو قومی نظریہ اور پاکستان کا قیام علامہ اقبال کے طُفیل ہے-

علامہ اقبالؒ اسلام میں قومیت کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے مشہور لیکچر ’’مِلّتِ بیضَا پہ اِک عمرانی نَظَر‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ :

’’اسلام میں قومیت کا مفہوم خصُوصِیّات کے ساتھ چُھپا ہوا ہے اور ہماری قومی زندگی کا تصور اس وقت تک ہمارے ذہن میں نہیں آسکتا جب تک کہ ہم اصولِ اسلام سے پوری طرح باخبر نہ ہوں- باالفا ظ دیگر اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں-جو نسبت ا نگلستان کو انگریزوں اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے‘‘-[1]

ہندوستان میں سب سے پہلے ہندی وطنیت کے نعرے کی روح کو جس مفکر نے سمجھا اور اس کا شعور اجاگر کیا وہ علامہ اقبال ہیں- اقبال کا تصور وطنیت (Nationalism) اسلام کے آفاقی و روحانی اصولوں پر مبنی ہے جبکہ افرنگ کا تصور وطنیت استعماری اور خالصتاً مادہ پرستانہ ہے جس کی بنیا د نسلی، لسانی و جغرافیائی ہے-یہی وجہ تھی کہ اقبال (﷫) نے قومیت کے مغربی تصور کو رد کیا اور’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ ‘‘ سے مسلم نیشنلزم کے تصور کی تشریح پیش کی-اقبال کے اِسی نظریہ قومیت نے اسلامی نشاۃ ثانیہ کو ایک نئی اساس بخشی-[2]

تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو ’’اقبال1905ء تک نیشنلزم کے حامی رہے لیکن نیشنلزم کے زوال پذیر انجام کو دیکھ کر بعد میں اسے ترک کر دیا-’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ کی جگہ ’’مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا ‘‘ کا نظریہ اختیار کیا - یہ ذہنی سفر محدود وطن پرستی سے اسلامی بین الاقوامیت کی طرف تھا-اقبال کے نزدیک ملت اسلامیہ کسی ایک علاقے میں محدود نہیں ہے- وہ مکانی اور زمانی حدود سے آزاد ہے جبکہ وطنی قوم پرستی قید مقامی کی زد میں ہے-اقبال(﷫) ملت کو ’قید مقامی‘ کے خطرات سے نہ صرف آگاہ کرتے رہے بلکہ آفاقی کردار کے لیے آمادہ[3] کرنے کی خدمت بھی سرانجام دیتے رہے-

آپ(﷫)نے مغربی وطنیت کی رد میں فرمایا کہ:

’’اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے - وطنیت بھی بت پرستی کی ایک لطیف صورت ہے-مختلف قوموں کے وطنی ترانے میرے اس دعوے کا ثبوت ہیں کہ وطن پرستی ایک مادی شے سے عبارت ہے- اسلام کسی صورت میں بت پرستی کو گوارا نہیں کر سکتا -بلکہ بت پرستی کی تمام اقسام کے خلاف احتجاج کرنا ہمارا ابدی نصب العین ہے- اس لیے اسلام جس چیز کو مٹانے کیلئے آیا اُسے مسلمانوں کی سیا سی تنظیم کا بنیادی اصول قرار نہیں دیا جا سکتا-پیغمبر اسلام (ﷺ) کا اپنی جائے ولادت مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں قیا م و وصال غالباً اِسی حقیقت کی طرف ایک اشارہ ہے ‘‘-[4]

علامہ صاحب نے دیکھا کہ نام نہاد نیشنلزم نے نہ صرف اقوامِ فرنگ کو اتحاد دین کے باوجود ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا ہے بلکہ جغرافیائی حدود کے اِس پار اور اُس پار کے انسان ایک دوسرے کے خلاف صلح میں بھی آمادہ بجنگ رہتے تھے-اقبالؒ نے اپنی فکری بصیرت سے بھانپ کر اس جدید فرنگی و فرنگی زدہ نظریے کے انسان دشمن مضمرات کو خلق خدا کے لے قطعی طور پر نا قابل قبول قرار دیا اور اپنی شہرہ آ فاق نظم ’’وطنیت‘‘ میں اسے کچھ اس طر ح بے نقاب کیا ہے کہ قصرِ فرنگ کے در و دیوار آج تک اس مومنانہ استدلال کی ہیبت سے کانپ رہے ہیں-حب الوطنی اور وطنیت کے تضادات کو نمایاں کرنے کے لیے حضرت علامہ اقبال(﷫) نے اپنی اس نظم کو ایک ذیلی عنوان بھی دیا ہے جو ’’وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے‘‘ہے-

مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور

ملت اسلامیہ نے بھی کعبہ کو چھوڑ کر ایک نئےحرم (وطن) کی تعمیر کی جبکہ تہذیبی صنم تراشوں نے بھی لوگوں سے پُجوانے کےلئے وطن کی صُورت میں ایک نیا بُت تراش لیا ہے-یعنی جس طرح لات و منات معبودانِ باطلہ کی حیثیت میں ترشے تھے اُسی طرح وطنیّت پرستی بھی عصرِ حاضر کے لات و منات کی حیثیت رکھتی ہے-

آپ (﷫) نے قومیت (Nationalism) کے نسلی، لسانی اور جغرافیائی تصور کو سامراج کے تراشیدہ بت قرار دیا-آپ(﷫) اپنے کلام میں فرماتے ہیں:

ان تازہ خدا وؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

یعنی ان ترا شیدہ بتان میں سب سے بڑا بت وطن پرستی ہے اور جو اسے پوشاک بناتا ہے وہ اپنی تہذیب کا گلا خود گھو نٹتا ہے-

اقبالؒ کے مطابق مسلمان توحید پرست ہے، ایک خد ا کو ماننے والا ہے، خاتم ا لنبیین (ﷺ) کا امتی ہے اس لیے اس کا حقیقی وطن اسلام ہے- اس فرنگی تصورِ وطنیّت سے مسلمان کا کوئی تعلق نہیں ہے- ہمیں فرنگی اور فرنگ زدہ نظام اور تصورات کو ترک کر کے اسلام کے عالمگیر، روحانی اور آفا قی نظام کو ا پنا ا وڑھنا بچھونا بنانا ہے- اقبال کے مطابق ہمارا وطن اسلام ہے-

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

اقبال کے نظریۂ وطنیّت پہ بہت شاندار اور جدید تحقیق اُبھرتے ہوئے فلاسفر جناب ادریس آزاد کی ہے جو کہ ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل 2017ء کے اقبال نمبر میں شائع ہوئی-ادریس آزاد صاحب نے اس کو اقبال کے تصورِ ارضی پیوستگی سے جوڑا ہے-اقبال(﷫) نے جغرافیائی وطنیت کی نفی،قرآنی استدلال، ابن مسکویہ کے نظریہ ارتقاء اور اپنی سائنسی منطق کے ذریعے کی جس کی ایک جھلک ہم اس پیرائے میں دیکھ سکتے ہیں کہ ارضی کا لفظ ارض یعنی زمین سے لیا گیا ہے اور ارضی پیوستگی سے مراد زمینی پیوستگی ہے جو اصل انگریزی اصطلاح ’’ارتھ روٹڈ نیس‘‘ کا ترجمہ ہے- ڈاکٹر اقبال (﷫) نے یہ اصطلاح اپنے خطبات ’’The reconstruction of Religious Thought in Islamمیں سب سے پہلے استعمال کی اور اردو میں ’’قید مقامی‘‘کَہ کر پکا را-عربی کی ایک ٹرم ’’خسف‘‘یعنی زمین میں دھنس جانا، غا لباً اقبال کی ارضی پیوستگی کیلئے مناسب ترین متبادل اصطلا ح ہے-اگر ہم غور کریں تو زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ زمین سے جو پودا جس قدر بلند ہے اس کا پھل اتنے زیادہ حرارے یعنی کیلوریز کا حامل ہے-ہم جانتے ہیں کہ کھجور کے ایک چھو ٹے سے دانے میں 282 کیلور یز ہو تی ہیں جبکہ بڑی سے بڑی گا جر میں فقط 41 کیلوریز ہو تی ہیں-[5]

قومِ بنی اسرائیل نے من و سلوٰی پر ککڑیوں،ترکاریوں اور پیازوں کو تر جیح دی جو زمین سے اُگتی ہیں-یعنی آسمانی طعام پر زمینی اجناس کو فوقیت دی اور یوں لامتناہی غذائی قید کی مشقت کا شکار ہو گئے- اقبالؒ کی نظم’’چیو نٹی اور عقاب‘‘ میں بیان کردہ مکالمہ بتاتا ہے کہ کس طرح عقاب کا مقام بلند ہے اور چیونٹی کس طرح ذلت کا شکار ہے-اقبال کے نزدیک ارتقاءِ حیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو مخلوق زمین کے جس قدر نزدیک ہے وہ زندگی کے اتنے ہی ادنی درجے پر فائز ہے اور جو زمین سے جس قدر بلند ہے وہ اتنے ہی اعلیٰ و ارفع درجے کی حیات کی حامل ہے-[6]

ادریس آزاد کے مندرجہ بالا دو اقتباسات کے مطالعہ سےیہ واضح ہو جا تا ہے کہ جو اقوام وطنیت کی بنیاد جغرافیہ پر رکھتی ہیں یا جو خسف ارض کا شکار ہو جاتی ہیں اور اپنا رزق آسمانوں پر تلاش کرنے کی بجاے خاک کا سہارا لیتی ہیں تو پھر چیونٹی کی طرح ذلت و رسوائی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے-اس کے برعکس جن اقوام کا مطمع نظر پیوستگی ارض کی بجائے آسمان پر کمندیں ڈالنا ہو تو شا ہین کی طرح رفعت ان کا نصیب قرار پاتی ہے یعنی زمینی تصورِ وطنیّت کی بجائے ایک روحانی تصور اُن کے ذہن میں ہو تو وہ جغرافیے اور لسانی بندھنوں کی بجائے عالمگیر عقیدہ میں یقین رکھتی ہیں -

اقبال اساسِ دین پر ہر ملک کے مسلمانوں کو ایک اسلامی قرار دیتے ہیں اس معا ملے میں ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سےبھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ(﷫)نے بعض علماء کا یہ قول سنا کہ ’’اقوام اوطان سے بنتی ہیں‘‘ تو اقبال کرب کی حالت سے دو چار ہوئے-23 مارچ 1940 کی قرار دادِ پاکستان کے بعد پاکستان مخالف علماء نے ’’متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر کتاب تصنیف کی- جس میں انہوں نے متحدہ ہندستانی قومیت کی بنیاد پر بھارت کے کانگرسی موقف کے اسلامی جواز پیش کیے- دراصل اُن علما نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ تصورِ پاکستان اور تحریک پاکستان اسلام کے بالکل منافی ہیں اس لیے مسلمانان ہند کو مسلم لیگ چھوڑ کر انڈین نیشنل کانگرس  میں شمولیت کر کے اپنے وطن ہندستان کو متحد رکھنا چاہیے-ان علماء کا جواب حضرت علامہ اقبال (﷫) نے مومنانہ استدلال، باکمال سیاسی بصیرت، منفرد دینی و روحانی شعور سے دیتے ہوئے فرمایا کہ:

’’اگر وطن اتحادِ انسانی کی بنیاد ہوتا تو حضورنبی کریم (ﷺ) اسلام کی سر بلندی کی خاطر اپنے وطن مکہ کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت نہ کرتے- آپ(ﷺ)کی ہجرت میں یہ دینی و سیاسی رمز بھی پوشیدہ ہے کہ اسلام میں قومیت کا بنیادی اور اٹل اصول روحانی یگانگت ہے نہ کہ وطنی اشتراک‘‘-[7]

اقبال(﷫) ہندوستان میں دین و وطن کی اس کشمکش پر اسلامی انقلابی تعلیمات کی روشنی میں، مسلمانوں کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کراتے ہیں کہ:

’’حضور رسالت مآب(ﷺ)کیلئے یہ راہ بہت آسان تھی کہ آپ ابولہب یا ابوجہل یا کفارِ مکہ سے یہ فرماتے کہ تم اپنی بُت پرستی پر قائم رہو، ہم اپنی خدا پرستی پر قائم رہتے ہیں مگر اس نسلی اور وطنی اشتراک کی بنا پر جو ہمارے اور تمہارے درمیان موجود ہے ایک وحدت عربیہ قائم کی جا سکتی ہے-اگر حضور(ﷺ) نعوذ باللہ یہ راہ اختیار کرتے تو اس میں شک نہیں کہ یہ ایک وطن دوست کی راہ ہوتی لیکن نبی آخر الزماں (ﷺ)کی راہ نہ ہوتی-نبوتِ محمدیہ (ﷺ)کی غایت الغایات یہ ہے کہ ایک ہئیتِ اجتماعیہ انسانیہ قائم کی جائے جس کی تشکیل اس قانونِ الٰہی کے تابع ہو جو نبوت محمدیہ کو بارگاہِ الہٰی سے عطا ہوا تھا-یقین جانیے کہ دینِ اسلام ایک پوشیدہ اور غیر محسوس حیاتی اور نفسیاتی عمل ہے جو بغیر کسی تبلیغی کوششوں کے بھی عالمِ انسانی کے فکر و عمل کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے-ایسے عمل کو حال کے سیاسی مفکرین کی جدت طرازیوں سے مسخ کرنا ظلم عظیم ہے‘‘-[8]

اس مقدمہ کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ جو خطہ ارض انسان کا مسکن ہو اُس خطہ سے محبت نہ کی جائے-انسا ن اپنے خطہ ارضی سے ضرور محبت کرے، اُس کی سرحدوں کی حفاظت کرے اور اُس کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرے- لیکن حضور رسالت مآب (ﷺ) کا حب وطن سے متعلق فرمان کا حقیقی ادراک بھی ضرور حاصل کرے-فرمانِ مصطفےٰ (ﷺ) کے طور پہ منقول ہے کہ:

’’حب الوطن من الایمان‘‘

’’وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے‘‘-

اس وطن سے مراد حقیقی انسان (روح) کا وطن یعنی (عالم ارواح ) ہے اور لوٹ کر انسان کو وہیں جانا ہے-

 اسی لیے اقبال(﷫) پکار اُٹھتے ہیں کہ:

گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

مندرجہ ذیل بیان میں اقبال ؒنے یہ حقیقت عیاں کر دی ہے کہ حب الوطنی اور وطنیت پرستی دو الگ چیزیں ہیں-وطن ایک خطہ ارض ہے جس پر انسان زندگی بسر کرتا ہے- حب وطن ایک فطری جذبہ ہے- اسلام حبِ وطن کو برحق قرار دیتا ہے مگر وطنیت کے جدید فرنگی نظریے کا قلعہ قمع کر دیتا ہےجیسا کہ فرماتے ہیں کہ:  

’’زمانہ حال کے سیاسی لٹریچر میں ’’وطن‘‘ کا مفہوم محض جغرافیائی نہیں بلکہ وطن ایک اصول ہے ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا اور اس اعتبار سے ایک سیاسی تصور ہے چونکہ اسلام بھی ہئیت اجتماعیہ انسانیہ کا ایک قانون ہے اس لیے جب لفظ ’’وطن‘‘ کو ایک سیاسی تصور کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اسلام سے متصادم ہو رہا ہے- اسلام ہئیت اجتماعیہ انسانیہ کے اصول کی حیثیت میں کوئی لچک اپنے اندر نہیں رکھتا اور ہئیت اجتماعیہ انسانیہ کے کسی اور آئین سے کسی قسم کا راضی نامہ یا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں‘‘-[9]

موجودہ حالات کے تناظر میں دو نظریات انتہائی ا ہمیت کے حامل ہیں جن پہ ہماری قیادت کو توجہ مبذول کرنی چاہیے:

1.       دو قومی نظریہ

2.       مشرق اور ایشیا ء کے ساتھ سیا سی قرابت داری

پوری دنیا میں ایک طرف سامراجی و استعماری طاقتیں اپنے تمام جارحا نہ ہتھکنڈوں کے ساتھ موجود ہیں جبکہ دوسری طرف ملت اسلامیہ اپنی بد حا لی اور اپنی زبوں حالی کا رونا رو رہی ہے-ہم تمام تر قربانیاں دینے کے با وجود بھی عالمی سطح اور اقوام متحدہ میں وہ مقام حاصل نہیں کر سکے جو مقام بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اُڑانے اور غریب ممالک کے وسائل لوٹنے کے باوجود اغیار کر چکے ہیں-

آج ہمیں اقبال(﷫) کے اسلامی و روحانی اصولوں پرمبنی تصورِ وطن اور وطنیت کو سمجھ کر ’’قید مقامی‘‘ سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے-یہی حکیم ا لامت حضرت علامہ اقبال (﷫)  کی منشا تھی-ملت اسلا میہ کو دو قومی نظریہ کی بنیا د پر اپنا کھو یا ہوا ملی و قومی تشخص بحال کرنے کی ضرورت ہے-اقبال (﷫) کے نزدیک انسانیت کی یقینی بقاء اور فلاح کا واحد ممکن نظام اسلام کا سیاسی اور مدنی نظام ہے جو حضور نبی کریم (ﷺ)اور خلفائے راشدین نے سلطنت مدینہ کے اندر عمل میں لایا-اقبال(﷫) نے نو جوانانِ ملت اسلامیہ کو انسان دشمن مغربی افکار سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تلقین کی-

فریاد ز افرنگ و دل آویزی افرنگ
فریاد ز شیرینی و پر ویزی افرنگ
عالم ہمہ ویرا نہ ز چنگیزی افرنگ
معمارِ حرم! باز بہ تعمیر جہاں خیز

’’فریاد ہے افرنگ سے اور اس کی دل آویزی سے، اس کی شیریں (حسن) اور پرویزی (مکاری) سے، کہ تمام عالم افرنگ کی چنگیزیت سے ویران اور تباہ و برباد ہو گیا ہے- اے حرم کو تعمیر کرنے والے (مسلمان) تو ایک بار پھراس (تباہ و برباد) جہان کو تعمیر کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہو-

٭٭٭



[1](علامہ محمد اقبالؒ، "ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر،" عالمی مجلس اقبال۔ 20 جولائی،

 http://www.iqbal.com.pk/allama-iqbal-prose-works/maqalat-e-iqbal/2853-milat-e-baiza-per-aik-imrani-nazar#disqus_thread (16(جولائی 2018)۔

[4](جاوید اقبال، "مسلم قومیت کا اصول،" مقالات جاوید، محمد سہیل عمر اور طاہر حمید تنولی (لاہور: شرکت پریس، 2011) 98)

[5](دریس آزاد، " تصورِ ارضی پیوستگی: اقبال کے نظریہ قومیت کا بنیادی محرک،" مراتہ العارفین انٹرنیشنل، نومبر 2017، 8-15)

[6](ایضا)

[7]( فتح محمد ملک، اقبالؒ کے سیاسی تصورات (اسلام آباد: دوست پبلیکیشنز، 2013)، 90)

[8]( فتح محمد ملک، اقبالؒ کے سیاسی تصورات (اسلام آباد: دوست پبلیکیشنز، 2013)، 93)

[9](ملک، اقبالؒ کے سیاسی تصورات، 93-94)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر