سیرت طیبہ اور مسلم تہذیب(اقبالیاتی تناظرمیں ایک مطالعہ)

سیرت طیبہ اور مسلم تہذیب(اقبالیاتی تناظرمیں ایک مطالعہ)

سیرت طیبہ اور مسلم تہذیب(اقبالیاتی تناظرمیں ایک مطالعہ)

مصنف: سیدعزیزاللہ شاہ ایڈووکیٹ دسمبر 2017

انسان کی فطرت میں اجتماعیت پنہاں ہے-یہی مطلب ہے حکماء کے اس قول کا کہ انسان مدنی الطبع ہے[1]-یہ الفاظ مشہور مسلم مورخ علامہ عبد الرحمٰن ابن خلدون کی کتاب ’’تاریخ ابن خلدون‘‘ کے ہیں-اس کتاب کے مقدمے میں مزید فرماتے ہیں کہ اجتماع انسانی ضرورت ہے یعنی آدمی کا اپنے ابنائے جنس کے ساتھ مل جل کر رہنا-اسےحکما اپنی اصطلاح میں مدنیت اور ہم عمارتِ انسانی کہتے ہیں-یعنی بقول ابنِ خلدون معاشرتی زندگی کی ابتدا انسان کی زمین پر آمد اور آبادی سے ہوئی-

تہذیب، انسان کی مدنی اور اجتماعی زندگی کے لیے ایک فطری چیز ہے-چنانچہ مدنیت انسانی فطرت میں شامل ہے یوں انسانی معاشرے میں تہذیب ایک فطری عمل کے طور پر رونما ہوتی ہے اور جس سے یہ انسانی معاشرے کی اساس ٹھہرتی ہے-انسان اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے دیگر انسانوں کے تعاون کا محتاج ہے جس کیلئے ابنِ آدم معاشرتی زندگی گزارنے پر مجبور ہے- بالفاظ دیگر عقلی و طبعی طورپر انسانی معاشرتی زندگی تہذیب کے ارتقاء میں بطور ایک لازمی جز ٹھہرتی ہے-تہذیب لاطینی زبان کے لفظCivites” سے ماخذ ہے[2] جس کا مطلب ایک شہر ہے-لفظ تہذیب کا مطالعہ تاریخی پیرائے میں کیا جائے یا لغوی و معنوی نقطہ نظر سے،اس کا تعلق و واسطہ انسانی کی سماجی اور اجتماعی زندگی سے ہے-لغت عربی میں لفظ تہذیب کے لئے عام طور پر مدنیت اور حضارت کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں -

تہذیب و ثقافت کی اصطلاحیں علم عمرانیات(معاشرہ شناسی) کے موضوعات میں سے ہیں-ابھی تک ان اصطلاحات کی حتمی بنیادوں پر کوئی ایسی جامع تعریف وضع نہیں کی گئی،جو تہذیب کے تمام عناصر کو بیاں کرنے میں کامل و مکمل ہو-اس کی تکنیکی تعریف کے حتمی بیان میں سکالرز کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے-ذیل میں تہذیب کی مختلف تعریفات بیان کی گئی ہیں-

کیمبرج ڈکشنری کے مطابق ترقی یافتہ ادارے رکھنے والے لوگوں کے رہن سہن کے طریقہ حیات کو تہذیب کہتے ہیں:

“Human society with its well-developed social organizations, or the culture and way of life of a society or country at a particular period in time”.[3]

’’منظم ترقی یافتہ سماج رکھنے والا انسانی گروہ، یا مخصوص وقت کے دوران انسانی ثقافت اور رہن سہن کا طریقہ‘‘-

رھائیمی زون(Rhymezone) کےمطابق قانونی، سیاسی اور مذہبی طور پر منظم معاشرے کو تہذیبی معاشرہ کہتے ہیں-جس کا اصل متن یہ ہے:

“A society in an advanced state of social development (e.g. with complex legal and political and religious organizations)”.[4]

’’اعلیٰ سماجی ترقی کا حامل معاشرہ(مثال کے طور پر پیچیدہ باہمی قانونی،سیاسی اور مذہبی انتظام)‘‘-

پروفیسرمارک ایل نیپ’’Mark L. Knapp‘‘کی نظرمیں تہذیب سے مرادایک مخصوص نسل و گروہ کا مجموعی ضابطہ حیات ہے جیسا کہ وہ فرماتےہیں:

“The sum total of ways of living built up by a group of human beings and transmitted from one generation to another”.[5]

’’ایک گروہ کی صورت میں رہنے والے انسانوں سے تعمیر کردہ مجموعی ضابطہ حیات جوایک نسل سے دوسری میں منتقل ہو‘‘-

مشہور جرمن مذہبی سکالر البرٹ کی نظر میں تہذیب سے مراد ایسی ترقی ہےجو ہر عمل اور نقطہ نظر میں روحانی ترقی کی جانب مُمدو معاون ثابت ہو-

 It is the sum total of all progress made by man every sphere of action and from every point of view in so far as the progress helps towards the spiritual perfecting of individuals as the of all Progress”.[6]

’’انسان کی طرف سے کی جانے والی تمام پیش رفت کی کارروائی جس کے ہر عمل اور ہر نقطہ نظر سے افراد کی روحانی ترقی کی طرف مدد ملتی ہے‘‘-

مشل ٹیلینگر(Michael Tellinger)کی بیان کردہ تعریف گوکہ جدید عہد کی تعریف ہے لیکن مختلف تہذیبوں کے تمام عناصر کو اپنے اندر سمونے سے یہ بھی قاصر ہے جیسا کہ وہ اپنی ایک مشہور کتاب میں لکھتے ہیں:

 “civilization” means an advanced stage of human development marked by a high level of art, religion, science, and social and political organization”.[7]

’’تہذیب‘‘ کا مطلب انسانی ترقی کے ایک اعلیٰ درجے کا مرحلہ جس کو ایک اعلیٰ سطح کی آرٹ، مذہب، سائنس، سماجی اور سیاسی تنظیم سے نمایاں کیا گیا ہو‘‘-

Samuel P. Huntingtonاپنے مضامین The Clash of Civilizations‘‘ میں تہذیب کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:

“Civilization as ‘the highest cultural grouping of people and the broadest level of cultural identity people have short of that which distinguishes humans from other species”.[8]

’’تہذیب ’لوگوں کی اعلیٰ سطح پر ثقافتی گروہ بندی اور وسیع پیمانے پر لوگوں کی ایسی ثقافتی شناخت ہے جو انسانوں کو دوسری انواع سے نمایاں کرے‘‘-

تہذیب کا موضوع اگرچہ بہت وسیع ہے جس کی کئی تعریفات کی گئی ہیں لیکن تہذیب کے مکمل معانی و مفہوم سے آگاہ کرنے والی کوئی ایسی آفاقی تعریف متعین نہیں جس پر عموماً اتفاق رائے موجود ہو-تعریفات پر اختلاف کی کئی وجوہات ہیں جن میں مختلف نظام ہائے کی موجودگی بھی ایک ہے-مندرجہ بالا تعریفات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تہذیب کسی گروہ کے عقائد و عوامل سے نمودار ہونے والی ایسی فطرتی چیز ہے جو ان کی اجتماعی نظامِ حیات متعین کرتی ہے-عام فہم الفاظ میں تہذیب سے مراد کسی شخص یا معاشرے کے اعتقادات کا مجموعہ ہے-ایک تہذیب اپنی بنیادی حیثیت میں تین عناصر پر مشتمل ہوتی ہے جو اعتقادات ،اقدار اور کردار کے مجموعے پر مبنی شمار کی جاتی ہے-

یہ بات طے ہے کہ لفظ تہذیب کا دائرہ کار انفرادی سطح پر نہیں بلکہ یہ معاشرے کے تمام انسانوں کے اطوار ، گفتار اور کردار پر محیط ہو تا ہے-تہذیب کی تاریخ وجودِ انسانی سے منسلک ہے - بالفاظ دیگر اس کی تاریخ اتنی ہی پرانی و قدیم ہے جتنی انسان کی زمین پر آمد کی- جب کبھی ہمارا ذہن دنیائے قدیم کی تہذیبوں کی عمیق وادیوں کی تخیلاتی دنیا میں جاتا ہے تو بہت سے سوال جنم لیتے ہیں - علم آثارِ قدیمہ(Archealogy) کے مطالعہ سے ہمیں ابتدائی ثقافتوں کے بارے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس عہد میں اور کہاں موجود تھیں-اسی علم سے ہمیں ان کےمذہبی تجربات،سیاسی نظام اور ان کےدوسروں کے ساتھ تعلقات کاپتہ چلتا ہے-

مشہور اور قدیم تہذیبوں میں سے چند بڑی اور مشہور تہذبیں عبرانی، یونانی، چینی، ہندی اور رومن وغیرہ شمار ہوتی ہیں-مغربی تہذیبوں میں عبرانیوں کی تہذیب کے زیادہ نمایاں عناصر عقائد اور اخلاقیات کی صورت میں ہمیں ملتے ہیں-یونانی تہذیبی رویوں میں فلسفہ اور عقلیت پر مبنی مباحث اور رومنز کے ہاں قانون اور حکومتی معاملات نظر آتے ہیں غرض کوئی تہذیب ایسی نہیں تھی جو معاشرتی سماج کے لئے تمام بنیادی تہذیبی عوامل رکھتی ہو-انسانی تہذیبوں کے مختلف ادوار کوبنیادی طور پرتین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جیسا کہ ’’Rev. Samuel Bakare‘‘لکھتے ہیں:

“Up to about the year 1860, man's history had been conveniently divided into three distinct epochs: ancient, medieval and modern. After 1860, however, a new expression came into general use to describe the cultures of the distant past. Pre-history was the name given to that period of man's history before written documents appeared. We can now study man's pre-history through the field of archeology”.[9]

’’1860ء تک،تاریخِ انسانی کوبنیادی طورپرتین بڑے ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے؛عہدقدیم، قرون وسطیٰ اور عہد جدید- تا ہم 1860ءکے بعد عہد قدیم کو بیان کرنے کے لئے ایک نئے تاثر نے جنم لیا- ایسے دور کو ’’ما قبلِ تاریخ‘‘ سے مخاطب کیا گیا جب کاغذی دستاویزات معرضِ وجود میں نہ آئی تھیں-ایسے علوم کامطالعہ ہم علم آثارِ قدیمہ(Archeology) سے کرتے ہیں‘‘-

ان تہذیبوں کی موجودگی کے باوجودکوئی ایسی تہذیب نہیں تھی جو آفاقی نوعیت کی ہو اور اپنی ہیئت میں اتنی کامل ہوتی کہ کوئی خارجی(بیرونی) عنصر اس کی موثریت کو زائل نہ کرپاتا-اقبال ؒ اسی تہذیب کے بارے ایک جدید عالم کی زبانی دنیا کو یوں بیاں کرتے ہیں-

’’وہ تہذیب جس کے بننے میں چارہزار برس لگے انتشار کے دہانے پر پہنچ چکی تھی،انسانیت بربریت اپنی آخری حدود کو چھو رہی تھی ہر قبیلہ اور فرقہ ہر دوسرے قبیلے کے خون کا پیاسا بن چکا تھا-پرانے انداز حکمرانی بے سود ہو چکے تھے-عیسائیت کے نئے قواعد و ضوابط اتحاد اور منظم کرنے کی بجائے تقسیم در تقسیم اور بربادی کا باعث بن رہے تھے-یہ وہ وقت تھاجب آشوب اور المیےکے سواکچھ نہ تھا‘‘- [10]

حکیم الامت جہاں ان تہذبیوں کی ناکامی کا تذکرہ کرتے ہیں تو ساتھ ہی ایک پائیدار تہذیب اُسےقرار دیتے ہیں جوثقافت کے مثالی نظریات اور تصورات کے ساتھ عملی شکل میں موجود ہو جیسا کہ حضرت علامہ اپنے پہلے خطبے ’’علم اور مذہبی مشاہدہ‘‘ میں فرماتے ہیں:

The cultures of Asia and, in fact, of the whole ancient world failed, because they approached Reality exclusively from within and moved from within outwards. This procedure gave them theory without power, and on mere theory no durable civilization can be based”.[11]

’’ایشیا کے،بلکہ در حقیقت تمام قدیم دنیا کے سارے تمدن اس لئے ناکام ہوئے کہ انہوں نے حقیقت کو خاص طور پر داخلی تصور کیا اور داخل سے خارج کی طرف رخ کیا-اس طریق عمل سے وہ ایسے تصور پر پہنچے جو طاقت سے محروم تھا اور طاقت سےمحروم کسی تصور پر کسی پائیدار تہذیب کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی‘‘-

مذاہب کی فلسفیانہ مباحث (Philosophy of Religion) میں تہذیبی ضرورت و اہمیت کے بارے میں علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ مذہب کی ضرورت انسانی معاشرے کو بہترین لائحہ عمل فراہم کرنے، سماج کی روحانی تعبیر و تشکیل کرنے، مادیت و روحانیت کی کشمکش کو ختم کرکے دونوں کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھ کر ایک معتدل اور پُر امن معاشرہ کو ترتیب دینے کے لئے در پیش آتی ہے جیسا کہ اپنے پہلے خطبے ’’علم اور مذہبی مشاہدے‘‘ میں فرماتے ہیں:

“The problem of Islam was really suggested by the mutual conflict, and at the same time mutual attraction, presented by the two forces of religion and civilization. The same problem confronted early Christianity. The great point in Christianity is the search for an independent content for spiritual life which, according to the insight of its founder, could be elevated, not by the forces of a world external to the soul of man, but by the revelation of a new world within his soul. Islam fully agrees with this insight and supplements it by the further insight that the illumination of the new world thus revealed is not something foreign to the world of matter but permeates it through and through”.[12]

’’حقیقت یہ ہےکہ اسلام کا مسئلہ مذہب اور تہذیب کی دو قوتوں کا پیدا کردہ ہےجو باہم کھچاؤ اور ساتھ ہی آپس میں لگاؤ رکھنے والی ہیں -اسی طرح کا مسئلہ مسیحیت کو بھی ابتدائی دور میں در پیش تھا - مسیحیت کا بنیادی سوال یہ تھا کہ روحانی زندگی کے لئے کسی ایسے مستقل اَساسی جوہر کو تلاش کیا جائے جو حضرت مسیح کی بصیرت کے مطابق بیرونی دنیا کی قوتوں کا آفریدہ نہیں بلکہ خود انسان کے اندر روح کے اپنے انکشافات سے عبارت ہے-اسلام کو اس بصیرت سے پورا اتفاق ہے مگر وہ اس میں اس قدر اضافہ کرتا ہے کہ اس نئے عالم کی دریافت مادہ سے بیگانہ نہیں بلکہ اس کے رگ و پے میں جاری و ساری ہے‘‘-

اقبالؒ مذہب کو ایک تہذیبی ضرورت کے طور پر لیتے ہیں-آپؒ فرماتے ہیں وقت کوایسی تہذیب کی ضرورت تھی جواپنی نوعیت میں آفاقیت سے عبارت ہو جس تہذیب کے باشندوں کارشتہ ابدیت اور وحدت کی بنیادوں پراستور ہو-جس کو اقبال اپنے خطبہ ’’اسلام میں حرکت کا اصول‘‘ میں یوں فرماتے ہیں :

’’دنیا کو ایک نئی ثقافت کی احتیاج تھی جو ملوکانہ ثقافت کی جگہ لے سکے اور اس نظام کی جگہ لے جہاں وحدت کے سارے نظامات خونی رشتوں پر استوار تھے-یہ بہت حیران کن بات تھی کہ ایسی ثقافت عربوں کے ہاں نمودار ہوئی اور وہ بھی ایسے وقت میں جبکہ اس کی ضرورت بہت زیادہ تھی-تاہم اس میں تحیر کی کوئی بات نہیں کیونکہ روح عصر وہبی طور پر اپنی ضرورتوں کو خود جان لیتی ہے اور انتہائی کڑے لمحات میں اپنی سمت کا خود تعین کر لیتی ہے-یہی وہ چیز ہے جسے ہم مذہب کی زبان میں پیغمبرانہ وحی کہتے ہیں-یہ بالکل فطری بات ہےکہ اسلام نے انتہائی سادہ لوگوں کے شعور کو جلا بخشی جنہیں پرانی ثقافتوں میں سے کسی نے چھوا تک نہیں تھا اور جغرافیائی طور پر ایک ایسے مقام سے تعلق رکھتے تھےجہاں تین براعظم آپس میں ملتے ہیں-نئی ثقافت نے دنیا کی وحدت کی بنیاد اُصول توحید میں دریافت کی‘‘- [13]

اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ تاریخِ انسانی میں اللہ رب العزت کایہی قانون رہا ہے کہ جب بھی انسانی معاشرہ تاریکی و انحطاط کا شکار ہوا تو اس کا ازالہ مذہب سے کیا گیامطلب بذریعہ وحی انسانیت کی رہنمائی فرمائی-یعنی تاریکی میں ڈوبے معاشرے میں انبیاءمبعوث فرما کر انسانیت کو راہ ہدایت دِکھائی-انسانیت کو درپیش انہیں مسائل کا ازالہ کرنے اور راہ ہدایت سے روشناس کروانے کی خاطر دین اسلام کو پسند فرمایا[14]-وہی دینِ اسلام جسے فلسفیانہ مباحث میں ایک تہذیب کے طور پر نمودار ہونا تھا-یوں دین ِ اسلام(بطورتہذیب اسلامی)کی ضرورت حالات کے عین تقاضوں کے مطابق منظر عام پر آئی-اس تہذیب کے پنپنےکے لئے ایسے خطہ کا انتخاب فرمایا گیا جس پر کسی دوسری تہذیبی عنصر کا اثر تک نہ تھا جو کسی بیرونی یلغار کا آج تک شکارنہیں ہوا تھااورنہ ہی یہ خطہ کسی بڑی سلطنت کے زیر اثر رہا تھا-قبل از ظہورِ اسلام، عرب کےبدو تہذیب و تمدن سے واقف نہ تھے- یہ حقیقت ہے کہ اجتماعی زندگی اور ایک منظم حکومتی نظم و نسق عرب بدو ؤں کے خمیر میں ہی نہ تھااور وہاں قبائلی نظام کا دور دورا تھا- ایک عربی کےلئے اجتماعی زندگی کانظریہ اپنے قبیلے کی حمیّت تک ہی محدود تھا-

مذکورہ خطہِ زمیں سے ایسی تہذیب نے جنم لیا جو اپنی نوعیت میں کامل ہے- جو دوسری تہذیبوں کی مانندمحض تاریخی پس منظر میں قائم نہیں ہوئی اور نہ ہی فقط نظریاتی تصورات پر مبنی ہے بلکہ ایک اعتبارسے وحی،الہامی ذرائع اور ٹھوس تجربات کی روشنی میں ایک کامل و مکمل دین ہے-جس میں ہر شعبہ زندگی سےمتعلق واضح رہنمائی ملتی ہے-جن حالات و واقعات میں تہذیبِ اسلامی نمودار ہوئی اور اس نے کائنات میں مثبت اثرات چھوڑے اس صورتحال کے متعلق مشہور مسلم مؤرخ ابن خلدون نے کچھ یوں نقشہ کھینچا ہے:

’’عربوں کو ملکی سیاست میں جو مہارت ہوئی وہ اصلی طبیعت کے انقلاب اور مذہب کی وجہ سے ہوئی-جس نے ان کی عادتوں کو بالکل بدلا اور ان کو باہمی ظلم و عداوت سے روک کر ایک دوسرے کی حمایت و نصرت پر آمادہ کردیا-یہ حال ان کی ان سلطنتوں کا رہا جو شیوخ اسلام کے بعد قائم ہوئیں کیونکہ مذہب نے شریعت اور اس کے ان پر زور احکام سے جن میں مصالح ملکی و تمدنی کی پوری رعایت کی گئی ہے-سیاست کے ظاہر و باطن کو کامل طور پر محکم اور مضبوط کر دیا تھااور غلاموں نے ان کی پیروی کی- اس لیے ان کا ملک وسیع اور سلطنت قوی ہوئی-کہتے ہیں کہ جب رستم سپہ سالارِ ایران مسلمانوں کو نماز پڑھتے دیکھتا، کہتا کہ حضرت عمر ؒ کس بلا کا آدمی ہے کہ عرب جیسے جاہلوں کو با ادب کر رہا ہے‘‘- [15]

یہ دینِ اسلام ہی ہے جس نے انسانوں کی زندگی میں انقلاب برپا کیا-پس مسلمانوں کیلئے دینِ اسلام زندگی کے ہر معاملہ میں اولین حیثیت رکھتا ہے اس لئے تہذیبِ اسلامی کی بنیاد و مرکز دین اسلام ہے-اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور رسول اللہ (ﷺ) کے احکامات کو عملاً اختیار کرتے ہوئے دنیاوی امور کو ترتیب دے کر جو مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے وہ اسلامی تہذیب ہے- اِس تہذیب کی بنیاد ایک لازوال نظریہ ’’لا الا اللہ محمد الرسول اللہ‘‘ہے- اس نظریے نے تاریخ انسانی کو ایک نئی سمت میں موڑا جس سے لوگ نابلد تھے-تہذیبِ اسلامی قرآنِ پاک، حدیث اور آقا علیہ الصلوٰ ۃ و السلام (ﷺ) کے اسوہء حسنہ سے تخلیق پا تی ہے اور ایک مثالی رہن سہن، لباس، فنِ تعمیر، فکرِ کائنات، جستجوِ علم اور دردِانسانی کو وجود فراہم کرتی ہے-

جیسا کہ مختلف تہذیبوں سےمتعلق تعریفات مذکور کی گئی ہیں جن سے ایک تہذیب کے مختلف عوامل کا پتہ چلتا ہے ایسے ہی اسلامی تہذیب مختلف عناصر رکھتی ہے-مگرمختصر اور جامع الفاظ میں یہ کَہ سکتے ہیں کہ امت مسلمہ کے عمومی اور بالترتیب عناصر جو افراد کی اجتماعی زندگی گزارنے میں بحیثیت مشترک باہمی عوامل کےطورپر کارفرما ہوتے ہیں-یہ عوامل ہی دراصل کسی مذہب کے وہ بنیادی عقائدہوتے ہیں جن کے پیچھے مذہب کے اصول کارفرما ہوتے ہیں-

اسلامی تہذیب قرآن مجید کےان اصول و نظریات سے اخذ کیے گئے ہیں، جواپنی ہیئت و ساخت میں انتہائی جامع ہیں-جیساکہ اقبالؒ فرماتے ہیں :

منزل و مقصود قرآں دیگر است
رسم و آئین مسلماں دیگر است[16]

’’قرآن پاک کی منزل و مقصود اور ہے(مگر آج کل کے) مسلمان کا طریقہ اور آئین مختلف ہے‘‘-

اسلام نے ایک ایسی تہذیب کا بنیادی نمونہ پیش کیاجس نےانسانوں کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا-قرآن پاک نے دنیا کو اپنے حسین اندازِ تخاطب سے حیران و ششدر کر دیا اور لوگوں کے اقدار و اطوار بدل دیئے- اسلامی تہذیب کے عناصر کی قرآن مجید سے تعبیر و تشکیل سے متعلق امریکی فلسفی اور مؤرخ پاک کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

“Thanks to the Qur'an, the Muslims' conduct and culture developed. The Qur'an saved them from illusions, superstitions, oppression, and violence. It granted the people of the lower classes honor and esteem. Likewise, it made society replete with such justice and piety that no parallel can be found for it. At the same Time, the Qur'an urged them to make progress which led to making such a progress that was unique in history”.[17]

’’یہ قرآن کی مرہونِ منت ہے کہ مسلمانوں کا رویہ اور ان کا کلچر پروان چڑھا، قرآن نے انہیں خیالی دنیا، توہمات، ظلم اور تشدد سے بچایا اس نے ادنیٰ درجہ کے لوگوں کو عزت وعظمت سے نوازا- اسی طرح اس نے ایسے معاشرے کو وجود بخشا جو انصاف سے سرشار ہے جس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی، قرآن نے ساتھ ہی ایسی امنگ پیدا کی جو انہیں ایسی ترقی کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو تاریخ میں بالکل منفرد ہے‘‘-

اسلامی تہذیب کا اولین اور بنیادی عنصر ترکیبی عقیدہ توحید ہے- توحید ہی وہ بنیادی تعلیم ہے جو اسلام کا اولین مقصدِ ابلاغ ہے- نظریہ توحید سے ہی دنیاکی وحدت کا اساسی اصول دریافت ہوتا ہے جس سے مرکزی سمت کا تعین ہوتا ہے-

قرآنی تعلیمات کے مطابق اسلامی تہذیب محض ان مادی اسباب و عوامل کا نام نہیں جو کسی تہذیب کے تشکیل پانے کے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں اور نہ ہی اسلامی تہذیب کا تصورمحض مادی رویوں سے تشکیل پاتا ہے بلکہ مادی رویوں کے ساتھ ساتھ اس میں روحانی نظام اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر رہتا ہے-اسلامی تہذیب بنیادی طور پر دو پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہےایک طرف اسلامی ثقافت کے منفرد اور مثالی نظریات و تصورات ہیں اور دوسری طرف ان مذکورہ نظریات کے عملی نمونے و ظہور کے طور پر سیرت طیبہ موجود ہے-فطرت الٰہیہ کے مطابق مادی رویے جب روحانی نظام کے تابع ہوں تو زندگی کی صحیح ترین تعبیر ہاتھ آتی ہے-بصورت دیگر مادی نظام کی کارفرمائی سےفطرت کا حقیقی اور اصلی مدعا متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتا-انسانی زندگی اپنے مدار سے ہم آہنگ نہیں رہتی بلکہ بھٹک کر اپنے راستے سے ہٹ جاتی ہے-دوسرے الفاظ میں مادہ اور روح کے مابین توازن برقرار نہیں رہتا -

تہذیبِ اسلامی کا دوسرا بڑا اور اہم عنصرعظمتِ رِسالتِ مصطفےٰ (ﷺ) بالخصوص عقیدہ ختمِ نبوت ہے جس کو حکیم الامت ایک تہذیبی تناظر میں دیکھتے ہیں-اسلام میں نظریہ نبوت دیگر ادیان سےمختلف ہے بے شک آپ(ﷺ) سے پہلے معبوث کردہ رسل و پیغمبروں کو اﷲ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کی خاطر بھیجا لیکن اسلامی شریعت کے حامل نبی حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کی نبوت حتمی اور آخری ہے جس کے بعد نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا اور یہ نبوت کسی قبیلے، قوم، خاص نسب، طبقے، علاقے اور زبان تک نہیں بلکہ اپنے پیغام اور حقانیت میں عالمگیر، آفاقی، دائمی اور ابدی ہے- جیسا کہ آپ(ﷺ) کو عطا کردہ نبوت عالمگیر،آفاقی اور ابدی ہے آپ(ﷺ) کی حیاتِ طیبہ سے اخذ شدہ اسلامی تہذیب کاعملی نمونہ اور عمومی ضوابط اپنی ساخت میں اتنےآفاقی ہیں جو ہر نسل و قوم کے لئے یکساں کارگراور قابلِ عمل ہے- یوں کہنا مناسب ہو گا کہ آپ(ﷺ) کی سیرت کی روشنی میں اجتماعی طور پر تشکیل پانے والا معاشرہ ایک عالمگیر تہذیب ہے جو کسی خطے، جغرافیے یا تاریخ تک محدود نہیں-حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے رنگ، نسل، زبان اور جغرافیہ سے بالا تر عالمگیر تہذیب کا تصور پیش فرمایا-اسلام محض تصورات و نظریات پر مبنی دین نہیں بلکہ ان تصورات کی ٹھوس تجرباتی شکل کاعملی نمونہ حیاتِ طیبہ کی صورت میں ہمارے سامنے لایا ہے-جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نےفرمایا ہے کہ:

’’لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ‘‘[18]

’’بیشک رسول اللہ(ﷺ)(کی ذاتِ گرامی اور زندگی) میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے‘‘-

قرآن کریم کی اس آیت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ کرۂ ارض کا ہر وہ خطہ جہاں چند انسانوں نے مل کر معاشرہ تشکیل دیا ہے ان کے عمل کا نمونہ و معیار آپ (ﷺ)کی ذات مبارکہ ہونی چاہئے -

یہ ایک عالمگیر تہذیب ہے یہ کسی خطے، جغرافیے یا تاریخ تک محدود نہیں-

اس تہذیب کے مطابق:

1.     انسان کو تمام مخلوق پر شرف حاصل ہے-

2.     انسان کا ہر فعل انسانیت کی خوشنودی اور بھلائی کی خاطر ہونا چایئے-

3.     جسم اور روح دونوں کے تقاضے مکمل کرتے ہوئے ایک معتدل اور پُرامن معاشرہ کو ترتیب دینا ہے-

اسلامی تہذیب کی داخلی اقدار میں یہ وصف شامل ہے کہ وہ اپنی حالت و صورت میں قائم و دائم اور ابدی ہیں مگر اسلامی تہذیب کے خارجی خدوخال ایسی صورتحال سے عبارت ہیں جو ہر آن تغیر پذیری کے عمل سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار ہے-جواپنی روح میں تبدیلی کا کوئی غم نہیں رکھتی اور اپنے باطنی صورت میں مستقل بنفس ہے لیکن ظاہر میں ایسی ساخت پر مشتمل ہے جو ہر لحظہ تازہ تر انقلاب سے عبارت ہے - اسی بات کو حضرت علامہ اپنی نظم ’’مدنیت اسلام‘‘میں یوں بیان کرتے ہیں کہ اسلامی تہذیب کے اندر وہ روح ہے جس کی اساس ابدی ہے-

بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے
یہ ہے نہایتِ اندیشہ و کمالِ جنوں!
نہ اس میں عصر رواں کی حیا سے بیزاری
نہ اس میں عہد کہن کے فسانہ و افسوس!
حقائقِ ابدی پر اساس ہے اس کی
یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسمِ افلاطوں!
عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوقِ جمال
عجم کا حسنِ طبیعت، عرب کا سوزِ دروں![19]

اسلام کے تصورِ زندگی ، تصورِ مدنیّت اور اسلامی تہذیب کی غالباً اس سے زیادہ جامع تصویر کشی ممکن نہ ہو جو حضرت اقبال نے فرمائی ہے-خاص کر ’’نہایتِ اندیشہ‘‘ اور ’’کمالِ جنون‘‘ کی اصطلاحات کا جواب نہیں- اوّل الذکر سے مُراد عقلِ استقرائی کا ظہور ہے اور مؤخر الذکر سے مُراد میخانۂ رومی کی در کُشائی ہے- ’’حقیقتِ ابدی‘‘ کی اصطلاح جب اقبال فرماتے ہیں تو اس کا اشارہ اُس اُصولِ کائنات کی جانب ہے کہ ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘- یہ تصور اقبال کے ہاں اسلامی تہذیب کی تشریح کے مستقل استعارہ کے طور پہ رہا ہے- اس کے بعد ’’طلسمِ افلاطون‘‘ کا ابطال اور زندگی کا اثبات بھی اِسی تاثر کو قوی کرتا ہے کہ اسلامی تہذیب زندگی کے مسلسل حرکت کے نظریے کی موجد و مبلغ ہے جو کہ مومن پہ طوفان کو حلال اور ساحل کو حرام ، بجلی کو حلال اور حاصل کو حرام قرار دیتی ہے - جس سے مومن جمود و تعطل سے نکل جاتا ہے اور مسلسل حرکت و تحرک پہ ایمان کی حد تک یقین رکھتا ہے -

 بلکہ اپنے خطبے ’’اسلام کے اصول حرکت‘‘ میں اقبال اسلام کو بحیثیت ثقافتی تحریک دیکھتے ہیں جیسا کہ آپ(ﷺ) فرماتے ہیں:

’’اسلامی ایک ثقافتی تحریک کی حیثیت سے کائنات کے ساکن ہونے کے قدیم تصور کو مسترد کرتاہے‘‘-

اسلامی معاشرتی زندگی کی تاریخی اور نظریاتی ابتداء اور باقاعدہ تہذیبی آغاز شہرِ نبوی (ﷺ)مدینہ منورہ سے ہوتاہے-جس کا واضح ثبوت اس شہر کا نام یثرب سےمدینۃ الرسول بدل کر رکھنے سے ملتا ہے-جہاں پر دیگر اقلیتوں کے ساتھ کئے گئے معاہدے (میثاقِ مدینہ) سے تحریری دستور وجود میں آیا [20]- اسلامی کیلنڈر کا آغاز بھی آپ(ﷺ) کی ہجرتِ مدینہ سے ہوا[21]- یوں عہد انسانی میں ایک اور تاریخ (کیلنڈر) کا آغاز ہوا جو آج بھی مسلم دنیا میں رائج ہے-در حقیقت اسلامی تہذیب کا مآخذ و منبع حضور (ﷺ)،  کی ذاتِ مقدسہ ہے-

حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے عطا کردہ رہنما اصولوں کو دامن میں سمیٹ کر مسلمان فلاحِ انسانیت کی ترغیب، برائی سے روکنے اور خدا شناسی کا حکم کرتے ہوئے ایک نئے معاشرے کی تشکیل میں کامیاب ہوئے-جہاں انہوں نے نئے علوم و فنوں، آرٹ، لٹریچر، سائنس،فلسفہ، معاشرت، نظریات، ایجادات، طرزِ زندگی اور جدید اداروں کے قیام کو ممکن بنایا-معاشرتی طبقات بالخصوص امیر و غریب کے فرق کو مٹانے کا سہرا بھی تہذیب اسلامی کے سر ہے- جس نے واضح کیا کہ اخلاقیات اور انسانیت کے معیارات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کائنات کی نعمتوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے[22]-اسلامی تہذیب نئے علومِ و فنون کی تشکیل پر زور دیتی ہے- قرآن میں لفظ ’’علم‘‘ کا 750 بار آنا علم کی قدر و اہمیت کی جانب اشارہ ہے-[23] آقا (ﷺ) نے مسلمانوں کو علم کی شمع سے روشنی حاصل کرنے کا درس دیا- آپ (ﷺ)  کا فرمانِ ذیشان ہے:

’’محد سے لے کر لحد تک علم حاصل کرو‘‘

یعنی تمام عمر علم حاصل کرو-

آپ(ﷺ)اللہ پاک سے اپنے لیے بھی دعا مانگتے، اے میرے اللہ! مجھے اشیاء کی حقیقت کا علم عطا فرما-

تہذیب اسلامی کے پیروکاروں نے اُس گمشدہ علم کی از سرِ نو تجدید کی بصارت سے منسلک سائنس کے سب سے پہلے ماہر ابن الہیثم نے آنکھ کی ساخت، روشنی کی ہیت اور کام کرنے کے طریقہ کار پر عمدہ کام کیا-انہوں نے بتایا کہ کسی بھی چیز پر پڑنے والی روشنی جب ہماری آنکھ تک پہنچتی ہے تب ہمیں وہ چیز نظر آتی ہے نہ کہ ہماری آنکھوں میں سے کوئی روشنی نکل کر اس چیز پر پڑنے سے ہمیں وہ چیز نظر آتی ہے- [24]

میڈیکل سائنس کی ترقی میں مسلم تہذیب نے بہت اہم کردار ادا کیا- محمد ابن زکریا الراضی نے علومِ ادویات پر انسائیکلوپیڈیا مرتب کیا- ابو علی الحسین ابنِ سینا کی طب پر لکھی گئی کتب کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا- قرون وسطیٰ میں طب کے میدان میں سب سے زیادہ مستند کتب ابن سینا نے لکھیں- اُن میں تقریبا 750 ادویات کی تفصیل موجود تھی-12ویں صدی سے لے کر 17ویں صدی عیسوی تک یہ کتب مغرب میں ’’طب کی انجیل‘‘ (Medical Bible) کے طور پر معروف رہیں- [25]

کیمسٹری:642 عیسوی میں مسلمانوں نے اسکندریہ فتح کیا- وہاں مصریوں کے کیے گئے کیمسٹری کے کام سے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ اس میں اضافت بھی کی-بعد ازاں اہل مغرب نے عربی میں موجود کیمسٹری کے علم کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا اور یوں مسلمانوں کے ذریعہ کیمسٹری کا علم مصر سے یورپ پہنچا-بابائے کیمیاء ابو موسیٰ جابر بن حیان نے تبخیر(بخارات کا عمل)، بہاؤ اور عمل قلما و (Crystallization) کو بہتر بنایا- اہل مغرب نے ان کی کتب کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا-یوں جابر بن حیان نے کیمسٹری کے میدان میں یورپ پر گہرے اثرات مرتب کیے- [26]

آرٹ:سپین میں خوبصورت عمارتیں اسلامی فن تعمیر کی بہترین مثال ہیں-جن میں عظیم مسجدِ قرطبہ اور غرناطہ میں الحمرا جیسی تعمیرات ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں-یہ عمارتیں کشادہ، روشن، رنگیں، پروقار اور خطاطی سے مزین بہترین ڈیزائن اور جیومیٹری کا نمونہ ہیں-مؤرخین کے مطابق یہ توحید کی طاقت تھی کہ مسلمانوں نے گزشتہ تہذیبوں کے بت تراشنے کی روایت کو توڑا اور فنِ تعمیر میں جیومیٹری ، رنگ ، اور خطاطی کا اعلیٰ استعمال کیا-

یورپین سائنس، طب، فلسفہ اور ادب پر اسلامی معاشرے کے گہرے اثرات ثبت ہیں- یورپ میں طب کا کافی حد تک انحصار مسلم ادویات اور مسلمان طبیبوں پر ہے- مغربی طب نے کئی صدیاں اسلامی طریقِ علاج اور ادویات سے استفادہ کیا- زبانی انکار کے باوجود مغرب نے اسلام سے بہت کچھ سیکھا جس کی تصدیق شیکسپیر اور جیفری چوسر کے لٹریچر میں بھی ملتی ہے[27]-

اسلامی تہذیب سے علم و حکمت سپین کے ذریعے یورپ پہنچا- کئی غیرمسلموں نے اسلامی نام، کپڑے، رواج اور عربی زبان کو اختیار کیا- کئی یہودی اور عیسائی طلباء بالخصوص فرانس کے بادشاہ چارلس (Charlemagne) نے حصول علم کے لیے سپین میں مسلم درس گاہوں (یونیورسٹیز) کا رخ کیا-مغرب میں عربی کتب کا لاطینی زبان میں ترجمہ ہونا شروع ہوا- ان کتب میں زیادہ تر سائنس، طب اور فلسفہ شامل تھا-

امریکی مورخ ڈاکٹر گلن کوپر (Dr. Prof. Glen Cooper) کہتے ہیں جب کوئی شخص بہت بیمار اور قبل از مرگ ہوتا، جس کے زندہ بچ جانے کے آثار ختم ہو جاتےہیں تو اسے مرنے کے لیے ایک عمارت میں لے آیا جاتا جس عمارت کو مرگ خانہ (ہسپتال) کہا جاتا تھا - یہ عیسائیوں کی طرف سے قائم کردہ ایک خیراتی عمارت تھی-بعد ازاں مسلم طبیبوں نے ہسپتال میں آنے والے بیماروں کو موت کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کی بجائے ان پر تحقیق کا کام شروع کیا اور ان امراض کی وجوہات جاننے کے ساتھ ساتھ ان کے علاج کی سعی کی اور یوں ہسپتال میں مرنے کے لیے آنے والے، اب مسلم طبیبوں کے ہاتھوں علاج معالجہ سے صحت یاب ہو کر واپس گھروں کو جانے لگے-یوں اس ادارے کا مفہوم تک ہی تبدیل ہو گیا-[28]اس انقلاب اور ترقی کا سہرا مسلم تہذیب کی تابندگی کے سر ہے-آج اگر ہم ہسپتال میں مرنے کی بجائے صحت یاب ہونے جاتے ہیں تو اس نظریے کے بانی ’’مسلمان‘‘ ہیں-اسلامی تہذیب نے ایسے انسان پیدا کئے جو انسانیت کے لئے ایک کیمیا گر ثابت ہوئے-یہاں پر مسلم تہذیب کی روح ’’ایمرسن‘‘کے بیان کردہ قول سے واضح جھلکتی ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ یہی اسلامی تہذیب کی مکمل تعریف ہے-

The true test of civilization is, not the census, nor the size of the cities, nor the crops - no, but the kind of man the country turns out”.[29]

’’کسی بھی ملک کی تہذیب کا صحیح معیار نہ تو مردم شماری کے اعداد ہیں نہ بڑے بڑے شہروں کا وجود،نہ غلے کی اِفراط اور نہ دولت کی کثرت بلکہ اس کا صحیح معیار صرف یہ ہے کہ وہ ملک اور قوم کس قسم کے انسان پیداکرتی ہے ‘‘-

اسلامی تہذیب کا مطالعہ تمام تر دھند لاہٹ کو دور کرکے سنہری دور تک پہنچنے کا تقاضہ کرتا ہے جس دور کو اکثر لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا یا پھر اسے متنازعہ بنا کر پیش کیا گیا-تعصب کی نظر ہو جانے والے کچھ مورخین نے لکھا کہ تہذیب اسلامی کے ماحاصل، کمالات اور ایجادات دوسری تہذیبوں سے چُرائے ہوئے ہیں-تاریخی حقائق کے مطابق، یورپ نے مسلمانوں سے، مسلمانوں نے یونان سے اور یونانیوں نے مصر سے بڑی حد تک علم حاصل کیا- لیکن ایک صریح چشم پوشی یہ بھی کی جاتی ہے کہ یورپ نے علم، عرب مسلمانوں کی بجائے براہِ راست یونان سے حاصل کیا-یونانیوں کے مصریوں سے علم حاصل کرنے کی تاریخ کو بھی اکثر ظاہر نہیں کیا جاتا- حقیقت یہ ہے کہ ہر تہذیب نے اپنے سے پہلی تہذیبوں سے کچھ چیزیں مستعار لیں اور انہیں اپنے نظریات اور خیالات کے اضافے سے نئی جہت بخشی، بعینہ یورپ کی ابھرتی تہذیب نے بھی مسلم تہذیب سے کئی علوم اور رہنما اصول حاصل کیے-تہذیب اسلامی اس ضمن میں منفرد اپنی ابدیت اور ہمہ گیریت کے سبب بھی ہے-

مسلم ثقافت کی بہترین شراکت کے بغیر یورپ کی نشاۃِ ثانیہ اور علوم و فنون کا احیاء بھی ناممکن تھا- کم و بیش ایک ہزار سال تک مسلم تہذیب دنیا کی معروف و سربراہ تہذیب رہی-[30]سائنس، فلسفہ، میڈیسن اور دیگر فنون کے علوم کا مرکز اسلامی تہذیب تھی-مسلمان مفکرین نے یورپی علم و حکمت کو جلا و بنیاد بخشی- سات سو سال تک دنیا میں سائنس کی بین الاقوامی زبان کا اعزاز ’’عربی زبان‘‘ کو حاصل رہا- آج بھی عربی زبان کی فصاحت و بلاغت اور وسعت کو دنیائے لسانیات میں برتری حاصل ہے- فارسی، اردو، انگریزی اور دیگر کئی زبانوں نے عربی سے کئی بار اپنی چاک دامنی رفو کی حتی کہ عبرانی زبان نے بھی ضرورت وسعت کے پیشِ نظر عربی گرائمر اور ذخیرہ الفاظ سے استفادہ کیا-

شہِ لولاک (ﷺ) کی ذات اسلامی تہذیب کا مرکز و محور ہیں یہی وجہ ہے کہ تہذیبِ اسلامی بڑے شفاف انداز میں دیگر مخلوق پر انسان کے شرف کو واضح کرتی ہے-انسان کی سوچ کو مثبت و تعمیری سوچ میں ڈھالنے کا اعجاز آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ذات گرامی سے منسلک ہے- جناب رسالتِ مآب(ﷺ)وجہِ ارتقائے تہذیبِ اسلامی ہیں-آپ(ﷺ) کے فکری اعجاز اور تربیت سے تخریب کا خاتمہ اور تعمیر کا آغاز ہوا-اسلامی تہذیب، مغربی اور دیگر تہذیبوں کے مقابلے میں اپنی اثر انگیزی، وسعت پذیری اور مقبولیت کے حوالے سے اپنے جوہر میں زیادہ موثر ہےکیونکہ ہر تہذیب کی بنیادیں اپنے جوہرپر انحصار کرتی ہیں-

تہذیب کی روح یا حقیقت اس کے مرکزی اور بنیادی نظام پر منحصر ہوتی ہے جس سے اس تہذیب کی پہچان بنتی ہےجیساکہ مغربی تہذیب کا مرکز مال و دولت (Georg Simmel’s theory)یا سائنسی تجربات(Max Weber’s view point) ہیں نتیجتاًدیگر اخلاقی اور ثقافتی اقدار کا تعین مال و دولت اور سائنس کی روشنی میں کیا جائے گا-

حضور رسالت مآب(ﷺ) کی شاہکارتہذیب اپنے باطن میں غیر متزلزل اور تغیر کے خوف سے آزاد عالمگیر اور آفاقی نوعیت کے عناصر سے عبارت ہےلیکن جس کا ظاہر ایسی ہیئت سےتشکیل کیا گیا ہے جو ہر زمان و مکاں سےہم آہنگی کی خصوصیات رکھتی ہے-اسلامی تہذیب حضور اکرم (ﷺ)کی حیات طیبہ سے اخذکردہ ایسےقواعد عامہ کی روشنی میں پروان چڑھتی ہے جو ہر نسل و قوم کے لئے یکساں کارگر ہے-الغرض تہذیبِ اسلامی ہی ہے جسے اختیار کر کے اقوام عالم مادی و روحانی دنیا میں ترقی کرنے کے ساتھ انسانیت کی صحیح معنوں میں خدمت کرسکتی ہے- اسلامی تہذیب ایسی تہذیب ہے جو صبغۃ اللہ (نظریہ توحید) سے مزین ہےجس میں خونی و زمینی رشتوں کی بجائے وحدت کادرس توحیدباری تعالیٰ کے بے مثال تصور سے وابستگی رکھتاہے-جس کے ہر عنصر کا ثبوت بلواسطہ اور بلا واسطہ حیات نبوی (ﷺ) سےہے-جس میں اقبال کے بقول: عجم کا حسنِ طبیعت،عرب کا سوزِدروں اور روح القدس کا ذوقِ جمال ہے-

٭٭٭


[1](تاریخ ابنِ خلدون، ج:1، ص:91)

[2])The Socio-Intellectual Foundations of Malek Bennabi’s Approach to Civilization, By Badrane Benlahcene,P3(

[3])https://dictionary.cambridge.org(

[4])http://www.rhymezone.com(

[5])Interpersonal communication: edited by Mark L. Knapp P#300(

[6]( Philosophy of civilization by Albert Schweitzer P#20)

[7]( Slave Species of the Gods: by Michael Tellinger P#50)

[8]( The Clash of Civilizations by Samuel P. Huntington P#28.)

[9]( World Validators: Rev. Samuel Bakare P, 31)

[10]( Reconstruction of religious thought in Islam P# 179)

[11]( Ibid P#30)

[12]( Ibid P#22)

[13])Ibid P#180(

[14](آلِ عمران:19)

[15](تاریخ ابنِ خلدون، ج:1، ص:253)

[16](جاوید نامہ)

[17]( The History of Civilization by Will Durant, p.52)

[18](الاحزاب:21)

[19](ضربِ کلیم)

[20]( First written constitution of the world by Dr.Hamid Ullah)

[21]( Studies in Islamic Civilization The Muslim Contribution to the Renaissance” written by Ahmed Essa & Othman Ali.)

[22]( Ibid.)

[23]( Ibid.)

[24]( Dowidar Hanan, “How an ancient Muslim scientist cast his light into the 21 st century,” March 24, 2015, https://www.elsevier.com

[25]( Baloch Qadar Bakhsh, “The Islamic Civilization,” The Dialouge, 37.)

[26]( Ibid The Dialouge, 49)

واپس اوپر