حضور(ﷺ)کا انقلاب آفرین نظریہ

حضور(ﷺ)کا انقلاب آفرین نظریہ

حضور(ﷺ)کا انقلاب آفرین نظریہ

مصنف: ڈاکٹرحبیب الرحمٰن دسمبر 2017

آج کا انسان عالمی گاؤں ’’Global Village‘‘کے تصور میں جی رہا ہے- مغرب نے تاریخ کے خاتمہ اور تہذیبی کشمکش میں مغرب کی فوقیت اور بالا دستی کے تصور کو پیش کرکے اہل مغرب کو اپنے غلبے پر مطمئن اور غیر اہل مغرب کو ان کی مغلوبیت پر راضی کرنے کے لیے طرح طرح کے تصورات اور نظریات کو اپنی فکر کے کباڑ خانے سے برآمد کر رکھا ہے- اطلاعتی انقلاب ’’Information Revolution‘‘جو سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس دور کی سب سے بڑی ایجاد ہے اس نے آج دنیا کے بارے میں فکر و نظر کا وہ انقلاب پیش کردیا ہے،جس کے بعد اگر’’Digital age‘‘ اور پھر “Space age”میں مزید پیش رفت ہوتی ہے جو یقیناً ہوگی اور اس کے نتیجے میں انسان کائناتی مظاہر پر مزید غلبہ پانے کی مزید استعداد حاصل کرلے گا اور پھر یہ سفر اس سے بھی آگے مرور زمان کے ساتھ مزید بڑھتا چلا جائے گا- تو اس وقت کی صورتحال کو آج کے حالات پر باآسانی قیاس کیا جاسکتا ہے-

آج ترقی اور بالخصوص مادی سامانِ زندگی کے دائرے میں تخلیقات نے انسان کو ایک ایسی جگہ لا کھڑا کیا ہے جہاں اسے پوری دنیا صرف مارکیٹ نظر آتی ہےیعنی جائے خرید و فروخت - باالفاظ دیگر آج اکیسویں صدی کا انسان زندگی کو صرف خرید و فروخت اور “Financial Transcation”کی اصطلاحات میں جانتا اور سمجھتا ہے اور اس کا خیال بلکہ اب شاید اس کا یہ یقین بن چکا ہے (جس کا ذمے دار آج کا شتر بے مہارمیڈیاہے ) - مادی سامان ضرورت آسائش کے بے پناہ ہجوم میں انسان نے دوسرے انسان کو بلکہ شاید تمام انسانوں کو مبیع ’’Commodity‘‘ سمجھ لیا ہے -جس کو اخلاق، کردار ، سیرت، انجام کار اور خود اپنی فنائیت کی ذرہ برابر فکر نہیں کیونکہ انسان اگر مثل ’’شے‘‘بن جائے تو ہر شے فنا ہونے کے لیے بنتی ہے بقا کا کوئی سوال نہیں ہوتا کیونکہ’’ Law of Depreciation ‘‘ ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ ہر چیز آہستہ آہستہ رُو بہ زوال ہوکر فنا کے گھاٹ اتر جایا کرتی ہے-اسی طرح آج کا انسان بھی---!

پڑھا لکھا انسان کسی بھی وجہ سے اور کسی بھی وقت نئی ایجادات کے بے ہنگم جنگل سے نکل کر جب خود اپنی ذات پر توجہ کو مرتکز کرتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ سر کی آنکھوں سے نظر آنے والی رنگ برنگی روشنیوں کی چکا چوند کے باوجود اس کا دل اور دماغ ایک انجانے خوف اور پریشانی سے دوچار ہے-اس بیماری جس کو آج کی اصطلاح میں’’Tension and Depression‘‘ کہا جاتا ہے، اس کا شکار ہوکر طرح طرح کے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہوتا چلا جارہا ہے - مغرب میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی امراض اور مریضوں کی تعداد اور اس کے علاج کے لیے اگنے والے بے شمار نفسیاتی ہسپتال اور اس میصبت سے نجات دینے والے مسیحاوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی سچی گواہی دیتی ہے کہ آج انسان کے پاس زندگی کو باسہولت گزارنے کے جملہ لوازمات اگرچہ کثرت کے ساتھ موجود ہیں لیکن اس کے قلب و دماغ کسی ایسی حقیقت کی تلاش میں بےقرار ہیں جس کا سرا اس کے ہاتھ آکر نہیں دیتا-آخر وہ کون سی روشنی ہے جو اس کے ظاہر سے داخل ہوکر اس کے باطن کو منور کردے ؟ یہ روشنی کسی انسانی ذریعے سے ملنا اگر ممکن ہوتی تو انسان کے بنائے ہوئے ایٹمی بجلی گھر یقیناً یہ روشنی کسی نہ کسی ذریعے سے مہیاکرچکے ہوتے ورنہ وہ کسی نے کسی ایسی ڈیوائس کو یقیناً تخلیق کرچکے ہوتے جو انسان کے اندرکو منور کرسکے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ہے اور ہمارا یقین ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود ایسا نہیں ہوسکے گا -اس کی وجہ یہ ہے کہ اندر کی روشنی سچے عقیدے کی مرہون منت ہے اور سچا عقیدہ کسی سچے سے ہی مل سکتا ہے ایسے سچے سے جس کا قول، فعل، کردار، سیرت ،اخلاق،تعلیمات سچی تویقیناً ہوں لیکن اپنے ماننے والوں کو بھی سچائی کے ابدی و ازلی نور سے اس طور پر منور کردے کہ ایک طرف انسان کے ظاہری حالات و معاملات روشن ہوں اور دوسری طرف اس کے قلب و نظر پر ظلمت کے پردوں کی تاریکی بھی چھٹ کر روشن ہوجائے -

اللہ تعالیٰ نے ازل سے اس بات کو طے کر رکھا تھا کہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے ظاہر و باطن کو روشن کرنے کے لیے اس کا آخری پیغمبر آئے گا اور اسی لیے پورے سلسلہ ابنیاء (علیہم السلام)کے ہر فرد نے آپ(ﷺ) کی آمد کی نوید اپنی اپنی قوم کو بتکرار سنائی اور ان قوموں نے بھی اپنی نسلوں کو یہ بتلایا اور سکھایا کہ وہ نور مجسم اور سراج منیر جب اس بزم گیتی پر جلوہ گر ہو تو آگے بڑھ کر بلکہ دوڑ کر اس کے دامن کو تھام لینا-اسلاف نے اخلاف تک اور اخلاف نے آج کی نسلوں تک اس بشارت کو اتنے تواتر سے منتقل کیا ہے کہ روئے زمین کے چپہ چپہ پر رہنے والے کچھ اور جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ ایسی ہستی عنقریب دنیا میں ظاہر ہونے والی ہے جو اس کی نجات کی ضامن اور زندگی کی راہوں پر اس کے لیے چراغ کی مثل روشنی اور اُجالے بکھرنے والی ہوگی-رب تعالیٰ نے انسانوں کے طویل انتظار کی گھڑیوں کو اس الہامی اعلان Divine announcement کے ذریعے زمین پر بسنے والے ہر رنگ و قوم اور ہر نسل و زباں کے فرد تک یہ خوشخبری قرآن کی زبانی پہنچا دی:

’’قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ‘‘[1]

’’ بے شک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد(ﷺ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (قرآن مجید)‘‘-

ضرورت اس بات کی ہےکہ آج کا انسان اس خدائی اعلان پر غور کرے ’’وہ نور‘‘آگیا ہے اور آیا بھی اللہ کی طرف سے ہے اور یہ کہ وہ روشنی کسی ایک قوم کے لیے نہیں بلکہ فرمایا تم سب کے لیے حضور (ﷺ) نور مجسم اور سراج منیر بن کر تشریف لے آئے ہیں- روشنی (بجلی) کی قدر و قیمت کو ئی پاکستان میں لوڈشیڈنگ کے مارے ہوؤں سے پوچھے جو گرمی کی نہایت حبس زدہ تاریک راتیں میں روشنی کی آمد کے انتظار میں بیٹھ کر گزار دیا کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اگر یہ مژدہ جانفزا سنا دیا جائے کہ آج سے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کردی گئی ہے تو ایسا اعلان سن کر ہرستم رسیدہ انسان کی خوشی کا کیا ٹھکانا ہوسکتا ہے اس کا اندازہ دنیا کے مادی پیمانوں سے کرنا ممکن ہی نہیں کیونکہ تاریکی صرف ایک گھر اور محلے کو تاریک نہیں کرتی بلکہ درو دیوار، کوچہ و بازار اور محلہ و شہر تک کو ویران اور تاریک کردیتی ہیں یہ تاریکی انسان کی دشمن اس کی صلاحیتوں کی دشمن اور اس کے سکون اور راحت کی دشمن اور اس کی ترقی کے سامنے سدِْماّرب بن کر اس کی منزل کو کھوٹا کردیتی ہے جب کہ روشنی ہر مہ و کہ کو روشن اور ہر گھر اور محلے کو منور کردیتی ہے یہ روشنی ہے جسے دیکھ کر تاریک راہوں کے مسافر رک جایا کرتے ہیں اور بڑھتے قدم سمٹ جایا کرتے ہیں-اس روشنی کی تلاش میں انسان بعض اوقات ایسے سرگرداں ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی زندگی کو تاریک کرنے پر تُل جاتا ہے -

اللہ تعالیٰ نے ہردور کے درماندہ، پسماندہ، مایوس اور زندگی سے بددل انسانوں کو مخاطب کرکے یہ خوشخبری عطا فرمائی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نےسب سے بڑے چراغ کو انسانی دنیا پر محمد مصطفیٰ (ﷺ) کی صورت میں روشن فرما دیا ہے- آج کا انسان اگر آپ (ﷺ) کو جان لے، مان لے اور آپ(ﷺ) کی اتباع پر راضی ہو جائے تو اسے “Tension and Depression” جیسے مہلک امراضِ روح و نفس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات حاصل ہوجائے کیونکہ اللہ کے رسول (ﷺ) نے زندگی میں جو بھی ارشاد فرمایا اور جو بھی عمل سنت مبارکہ کی شکل میں ادا فرمایا وہ سراسر خیر ہی خیر اور نور ہی نور ہے-اس لیے آپ (ﷺ)کا گفتگو فرمانا، خاموش رہنا، چلنا، پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا،کھانا، پینا، پڑھانا، عبادت کرنا نور و علیٰ نور اس معنی میں ہے کہ آج تمام تر ریسرچ کے باوجود ایسا کوئی عمل جو آپ(ﷺ) نے اپنی زندگی میں سر انجام دیا ہواس کے مخالف کسی کام کو سندِ جواز علمی سطح پر نہیں مل سکی کیونکہ آپ (ﷺ) کی زندگی کے یہ تمام کام انسانوں کی کامل اتباع کے لیے آپ (ﷺ)نے سرانجام دیئے تاکہ ایک طرف امور زندگانی کا سلسلہ جاری و ساری رہے اور دوسری طرف ان تمام کاموں کی ادائیگی کے نتیجے میں انسان قلب و جاں کے سکون اور راحت کے تلذّذ سے متمتّع ہو سکےاور پھر تاریخ نے یہ ناقابل فراموش منظر دیکھا کہ آپ (ﷺ)کے جسم و عمل کی نورانیت میں چلنے والے انسان جو پہلے ظلمتوں کا شکار تھے ان کی فکر و عقل اور عمل و کردار روشنی کا ایسا مینار بن گیا جس سے آج بھی ستاروں کی مثل روشنی انسانیت کو بھرپور طریقے سے میسر آرہی ہے -

حضور(ﷺ) اللہ کے نور ہیں کیونکہ وہ گھر، خاندان، نسل، قبیلہ، شہراور ملک جس کو کوئی جانتا نہ تھا ماسوائے چند نفوس کے ، اللہ نے ان سب کو اتنا روشن کردیا کہ آج اگر خدا کے دوست اور دشمن کے درمیان فرق کرنا ہو تو اس کے لیے کسی فارمولے کے ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خدا سے غافل اور اس کے دشمن کے بارے میں اتنا جاننا ہی کافی ہے کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کے گھر، خاندان، نسل، قبیلہ، شہراور ملک کو نہیں جانتا یا جاننا نہیں چاہتا اور جو وہ جاننا چاہتا ہے وہ جان نہیں پاتا کیونکہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے دشمن کبھی حق کے طلب گار اور سچائی کے طالب بن کر آپ (ﷺ)کے حضور حاضر خدمت ہونے سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں بلکہ (نعوذباللہ ) وہ اس بات کو اپنی جھوٹی شان کے خلاف سمجھتے ہیں کہ روشنی کو روشنی کَہ سکیں اور اسے مان سکیں، ایسے لوگ ظلمتوں کے رسیا اور تاریکیوں کے اسیر اور حق سے منحرف ’’المغضوب‘‘ اور ’’الضالین‘‘ ہیں- خواہ وہ روس کے نام نہاد پڑھے لکھے کمیونسٹ اور سوشلسٹ ہوں یا مغرب کے آزادی کے علم بردار اور حق کے متلاشی ہونے کے دعویدار لبرل اور سیکولر ہوں- ان کا المیہ وہ ہی ہے جو یہودِ مدینہ کا تھا کہ حضور(ﷺ) ہم میں سے نہیں لہٰذا ہم عرب کی اس ہستی پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ان کی زبان،رنگ، نسل، قوم، خطہ زمین اور جغرافیہ ارضی ہم سے جدا ہے چنانچہ ان کو بڑا آدمی تو مانا جاسکتا ہے لیکن سب سے بڑا ماننا اس لیے ممکن نہیں کے بڑے کو بڑا مان کر بڑے سے بڑا آدمی چھوٹا بن جایا کرتا ہے-آج کا مغرب اپنے اہل فکر و دانش اور اہل قلم و فلسفہ سے بڑھ کر کسی کی عظمت کو قبول کرنے کے روا دار نہیں اور اسی رویّے نے ان کے ارد گرد تعصّب کا ایسا گہرا اور تاریک دائرہ کھینچ دیا ہے جس کے باہر انہیں حق اور سچ کی روشنائی دکھائی نہیں دیتی-

اللہ تعالیٰ نے جو رب المشارق و المغارب اور رب العالمین ہے اپنے پیغمبر (ﷺ)کو رحمت اللعالمین بناکر انسان کو یہ پیغام دیا کہ اے رنگ و نسل اور قوم و زبان کے محدود دائروں میں رہنے والو! تم شرق و غرب کی بات کرتے ہوئے ہم نے تو کُل کائنات کے لیے اپنے محبوب کو رحمت (Blessing)بنا کر بھیجا ہے اور یہ رحمت ایک طرف انسان کی ذات، خاندان، نسل اور قوم کے لیے انفرادی رحمت بھی ہے اور دوسری طرف اکیسویں صدی اور اس کے بعد قیامت تک کے انسانوں کی جملہ مشکلات کے لیے دوا اورشفاء ہے-آج انسان کانفرنسوں، سیمیناروں، ورکشاپوں، مکالموں اور مناظروں کے ذریعے اپنی جن موجودہ بدترین روحانی، مذہبی، اخلاقی ، سیاسی ، معاشرتی، معاشی، مالی، سیاسی، بین الاقوامی پستی اور دوسرے بحرانوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اور پھر بھی ناکام رہتا ہے - اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خود انسانوں کے مسائل کے لیے ایسا نسخہ دریافت نہیں کرسکتا جو کل نوعِ انسانی کے مسائل کا احاطہ کرکے اس کے لیے حل پیش کرسکے اس کی وجہ انسانی عقل و فکر کی نارسائی اور اس کے ہوش و حواس کی محدودیتیں ہیں-

حضور(ﷺ) نے سراپا نور بن کر ظلمتوں میں اجالے کس طرح بکھیرے اور ہمیشہ سے موجود بگڑے ہوئے معاملات کی پیچیدہ گتھیاں کس خوبصورتی کے ساتھ سلجھائیں، بند راہوں کو کھول کر فکر و نظر کے دریچوں کو کس قدر وسعت کے ساتھ وا فرمایا اور بالخصوص ژولیدگیِ فکر کے مُقفّل دروازوں کی گرہ کشائی کس حسین پیرائے میں فرمائی درج ذیل سطور میں نہایت اجمال کے ساتھ ہم اس کے بارے میں چند باتیں پیش کررہے ہیں-

 فکر و نظرمیں انقلاب:

حضور(ﷺ) کی صداقت اور حقانیت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ آپ (ﷺ)نے اپنی بعثت کے بعد مروّجہ قدیم یونانی، رومی، ایرانی اور ہندوستانی فکر اور عقائد کے نظام کو جو افراط و تفریط پر مشتمل تھے اس کو یکسر بدل کر رکھ دیا بلکہ فلسفہ کی اصطلاح میں اگر یوں کہا جائے کے فکر و نظر کے بارے میں آپ(ﷺ)نے انسانی عقل اور شعور کومتوازن زایوں کی بنیاد پر تعمیر کیا-کیونکہ آپ (ﷺ) کی بعثت کے وقت دُنیا عمل اور عقیدے کے لحاظ سے دو انتہاؤں پر کھڑی تھی اور یہ دونوں انتہائیں ایسی تھیں کہ ان کے درمیان سوائے ایک نہایت تاریک اور عمیق گڑھے کے سوا کچھ نہ تھا اگر کچھ تھا بھی تو وہ قابل قبول نہ تھا-آپ (ﷺ) نے انسانوں کے اس غیر فطری عقیدہ وعمل کی تقسیم کے رویے کو وہ جہت عطا فرمائی جس کے لیے آج کاانسان روزانہ صبح اٹھ کر آپ (ﷺ)کو سیلوٹ کے ذریعے خراج تحسین پیش کرے تو تب بھی ’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ کی مثل وہ حضور (ﷺ) کے احسان تلے زیر بار رہے گااور اسی لیے اہل ایمان کو اس بات کا حکم دیا گیا کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کے اس عظیم احسان جو بہت سارے احسانات میں سے صرف ایک ہے ،کو ادا کرنے کے لیے شعوری طور پر روزانہ صبح و شام اپنی مرضی سے آپ(ﷺ) کو سلام بصورت درود و سلام پیش کرے اور اگر بھول بھی جائے تو تب بھی رب تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنی فرض عبادت نماز کی صورت میں اس عمل کو لازم قرار دیا ہے-

دو انتہائیں کیا تھیں؟ وہ وہی انتہائیں تھیں جن سے آج اکیسویں صدی کا انسان پھر سے دوچار ہے یعنی مادیت یا روحانیت، آسمانی یا زمینی، خدائی یا انسانی، مقدس یا نا مقدس، متبرک یا نا متبرک وغیرہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یا تو دنیا کے بندے بن کر رہ جائیں- قرآن کے الفاظ میں:

’’اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـھَہٗ ھَوٰہُ ‘‘ [2]

’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے‘‘-

یا حدیث کے الفاظ میں ’’عبدالدراہم والدنّا نیر‘‘بن جائیں اور صرف دنیا اور اس کے امور میں مشغول رہیں جس کی قیمت آپ کو یہ دینی پڑے گی کہ آپ کے لیے رب تعالیٰ کے پاس کوئی اخروی اجر نہ ہو اور دوسری صورت میں آپ صرف اپنی عبادت، دھیان، گیان، چلہ کشی، رہبانیت، تجرد،تفرد کی زندگی اختیار کرکے امور دنیا سے بے اعتناء ہوکر اہل دنیا کے لیے بوجھ اور عذاب بن جائیں- (نعوذ باللہ من ذلک)

چنانچہ نتیجے کے طور پر انسانی زندگی دو مستقل گروہوں میں اس طور پر بٹ کر رہ گئی تھی کہ ہرگروہ سے متعلق افراد دوسرے گروہ کے افراد کو گمراہ، بے عقل، جاہل اور فاسق و فاجر سمجھتے تھے- دین دار طبقہ مذہب کے نام پر جہالت کی سودا گری کر رہا تھا اور دنیا دار طبقہ عیش و نشاط کی زندگی گزارنے کے لیے ہر قسم کی اخلاقی بے راہ روی کا شکار تھا چنانچہ ترقی تو دور انسانی تنزلی کی سُرعتِ رفتار کو روکنا ہی بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا- ایسی حالت میں حضور (ﷺ) نے پوری انسانیت کو دین و دنیا کے مابین اتحاد و اتفاق اور دونوں تصورات کو زندگی کے بقا ء ، دوام اور ارتقاء کے لیے لازم قرار دیا اور وہ بھی اس طور پر کہ انسان کی دنیا دین بن جائے اور دین اس کی دنیاوی ضرورتوں کو بھی مکمل طور پرکفایت کر جائے اس کے لیے آپ (ﷺ) نے صرف وعظ و تلقین کا سہارا نہیں لیا بلکہ اپنے قول ، فعل ، عمل اور مطالبات سے اس نظریۂ حیات کی عملی صورت گری فرمائی اور پھر ہر مسلمان کو دن میں کم از کم پانچ مرتبہ یہ دعا سکھائی :

’’ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ [3]

’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ‘‘-

یہ دعا اس بات کا اعلان کررہی ہے کہ کوئی مسلمان دنیا کو چھوڑ اورآخرت سے غافل نہیں رہ سکتا بلکہ رب کی رضا اور آخرت کی طلب کو دنیا میں محنت و کوشش سے مشروط کردیا گیا ہے- حضور (ﷺ) نے ارشاد فرمایا ’’الدنیا مزرعۃ الاخرہ‘‘ یعنی دنیا آخرت کی کھیتی ہے جو کچھ دنیا میں بویا جائے گا آخرت میں اس کے مطابق ہی انسان کی جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا- اس حدیث کی روشنی میں کوئی مسلمان دنیا اور اس کے معاملات سے غافل نہیں رہ سکتا یعنی وہ بھرپور طریقے سے جائز حدود کے اندر دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہو اور دُنیاوی نعمتوں کو آخرت کی ابدی نعمتوں کے لیے وسیلہ تصور کرے - زندگانی کے بارے میں اس نظریۂ حیات نے انسان کے لیے ایمان کی شرط پر اس کا سونا، جاگنا، پھرنا، پڑھنا، پڑھانا، روزی کمانا، تجارت کرنا، حکمرانی اور سیادت کرنا اور اتباع حق کرنا عبادت قرار دے کر اس کی فکری بندشوں کورفعتِ پرواز سے ہمکنار کیااور پوری زندگی میں دوئی کے تصور کی نفی فرما کر پہلی مرتبہ دین و دنیا کو ہم آغوش فرمایا- یہ وہ بلند فکری اور و سعتِ نظری تھی جس نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ علم، عقل، شعور، عقیدہ ، عبادت، ریاضت، مجاہدات، معرفت اور حقیقت کے رازوں سے پردہ اٹھا کر انسان کو انسان بنایا اور پھر اسی مقام کی بدولت اسے مسجودِ ملائک قرار دے کر رب تعالیٰ کی بارگاہ سے اسے ابدی طور پر یہ پروانہ نجات بھی عطا فرما دیا ہے:

’’یٰٓـاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُo ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃًo فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰـدِیْo وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ‘‘[4]

’’اے اطمینان پا جانے والے نفس تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جاoاور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا‘‘-

٭٭٭


[1](المائدہ:16)

[2](الفرقان:43)

[3](البقرۃ:201)

[4](الفجر:27-30)

آج کا انسان عالمی گاؤں ’’Global Village‘‘کے تصور میں جی رہا ہے- مغرب نے تاریخ کے خاتمہ اور تہذیبی کشمکش میں مغرب کی فوقیت اور بالا دستی کے تصور کو پیش کرکے اہل مغرب کو اپنے غلبے پر مطمئن اور غیر اہل مغرب کو ان کی مغلوبیت پر راضی کرنے کے لیے طرح طرح کے تصورات اور نظریات کو اپنی فکر کے کباڑ خانے سے برآمد کر رکھا ہے- اطلاعتی انقلاب ’’Information Revolution‘‘جو سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس دور کی سب سے بڑی ایجاد ہے اس نے آج دنیا کے بارے میں فکر و نظر کا وہ انقلاب پیش کردیا ہے،جس کے بعد اگر’’Digital age‘‘ اور پھر “Space age”میں مزید پیش رفت ہوتی ہے جو یقیناً ہوگی اور اس کے نتیجے میں انسان کائناتی مظاہر پر مزید غلبہ پانے کی مزید استعداد حاصل کرلے گا اور پھر یہ سفر اس سے بھی آگے مرور زمان کے ساتھ مزید بڑھتا چلا جائے گا- تو اس وقت کی صورتحال کو آج کے حالات پر باآسانی قیاس کیا جاسکتا ہے-

آج ترقی اور بالخصوص مادی سامانِ زندگی کے دائرے میں تخلیقات نے انسان کو ایک ایسی جگہ لا کھڑا کیا ہے جہاں اسے پوری دنیا صرف مارکیٹ نظر آتی ہےیعنی جائے خرید و فروخت - باالفاظ دیگر آج اکیسویں صدی کا انسان زندگی کو صرف خرید و فروخت اور “Financial Transcation”کی اصطلاحات میں جانتا اور سمجھتا ہے اور اس کا خیال بلکہ اب شاید اس کا یہ یقین بن چکا ہے (جس کا ذمے دار آج کا شتر بے مہارمیڈیاہے ) - مادی سامان ضرورت آسائش کے بے پناہ ہجوم میں انسان نے دوسرے انسان کو بلکہ شاید تمام انسانوں کو مبیع ’’Commodity‘‘ سمجھ لیا ہے -جس کو اخلاق، کردار ، سیرت، انجام کار اور خود اپنی فنائیت کی ذرہ برابر فکر نہیں کیونکہ انسان اگر مثل ’’شے‘‘بن جائے تو ہر شے فنا ہونے کے لیے بنتی ہے بقا کا کوئی سوال نہیں ہوتا کیونکہ’’ Law of Depreciation ‘‘ ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ ہر چیز آہستہ آہستہ رُو بہ زوال ہوکر فنا کے گھاٹ اتر جایا کرتی ہے-اسی طرح آج کا انسان بھی---!

پڑھا لکھا انسان کسی بھی وجہ سے اور کسی بھی وقت نئی ایجادات کے بے ہنگم جنگل سے نکل کر جب خود اپنی ذات پر توجہ کو مرتکز کرتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ سر کی آنکھوں سے نظر آنے والی رنگ برنگی روشنیوں کی چکا چوند کے باوجود اس کا دل اور دماغ ایک انجانے خوف اور پریشانی سے دوچار ہے-اس بیماری جس کو آج کی اصطلاح میں’’Tension and Depression‘‘ کہا جاتا ہے، اس کا شکار ہوکر طرح طرح کے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہوتا چلا جارہا ہے - مغرب میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی امراض اور مریضوں کی تعداد اور اس کے علاج کے لیے اگنے والے بے شمار نفسیاتی ہسپتال اور اس میصبت سے نجات دینے والے مسیحاوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی سچی گواہی دیتی ہے کہ آج انسان کے پاس زندگی کو باسہولت گزارنے کے جملہ لوازمات اگرچہ کثرت کے ساتھ موجود ہیں لیکن اس کے قلب و دماغ کسی ایسی حقیقت کی تلاش میں بےقرار ہیں جس کا سرا اس کے ہاتھ آکر نہیں دیتا-آخر وہ کون سی روشنی ہے جو اس کے ظاہر سے داخل ہوکر اس کے باطن کو منور کردے ؟ یہ روشنی کسی انسانی ذریعے سے ملنا اگر ممکن ہوتی تو انسان کے بنائے ہوئے ایٹمی بجلی گھر یقیناً یہ روشنی کسی نہ کسی ذریعے سے مہیاکرچکے ہوتے ورنہ وہ کسی نے کسی ایسی ڈیوائس کو یقیناً تخلیق کرچکے ہوتے جو انسان کے اندرکو منور کرسکے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ہے اور ہمارا یقین ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود ایسا نہیں ہوسکے گا -اس کی وجہ یہ ہے کہ اندر کی روشنی سچے عقیدے کی مرہون منت ہے اور سچا عقیدہ کسی سچے سے ہی مل سکتا ہے ایسے سچے سے جس کا قول، فعل، کردار، سیرت ،اخلاق،تعلیمات سچی تویقیناً ہوں لیکن اپنے ماننے والوں کو بھی سچائی کے ابدی و ازلی نور سے اس طور پر منور کردے کہ ایک طرف انسان کے ظاہری حالات و معاملات روشن ہوں اور دوسری طرف اس کے قلب و نظر پر ظلمت کے پردوں کی تاریکی بھی چھٹ کر روشن ہوجائے -

اللہ تعالیٰ نے ازل سے اس بات کو طے کر رکھا تھا کہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے ظاہر و باطن کو روشن کرنے کے لیے اس کا آخری پیغمبر آئے گا اور اسی لیے پورے سلسلہ ابنیاء (﷩)کے ہر فرد نے آپ(ﷺ) کی آمد کی نوید اپنی اپنی قوم کو بتکرار سنائی اور ان قوموں نے بھی اپنی نسلوں کو یہ بتلایا اور سکھایا کہ وہ نور مجسم اور سراج منیر جب اس بزم گیتی پر جلوہ گر ہو تو آگے بڑھ کر بلکہ دوڑ کر اس کے دامن کو تھام لینا-اسلاف نے اخلاف تک اور اخلاف نے آج کی نسلوں تک اس بشارت کو اتنے تواتر سے منتقل کیا ہے کہ روئے زمین کے چپہ چپہ پر رہنے والے کچھ اور جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ ایسی ہستی عنقریب دنیا میں ظاہر ہونے والی ہے جو اس کی نجات کی ضامن اور زندگی کی راہوں پر اس کے لیے چراغ کی مثل روشنی اور اُجالے بکھرنے والی ہوگی-رب تعالیٰ نے انسانوں کے طویل انتظار کی گھڑیوں کو اس الہامی اعلان Divine announcement کے ذریعے زمین پر بسنے والے ہر رنگ و قوم اور ہر نسل و زباں کے فرد تک یہ خوشخبری قرآن کی زبانی پہنچا دی:

’’قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ‘‘[1]

’’ بے شک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد(ﷺ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (قرآن مجید)‘‘-

ضرورت اس بات کی ہےکہ آج کا انسان اس خدائی اعلان پر غور کرے ’’وہ نور‘‘آگیا ہے اور آیا بھی اللہ کی طرف سے ہے اور یہ کہ وہ روشنی کسی ایک قوم کے لیے نہیں بلکہ فرمایا تم سب کے لیے حضور (ﷺ) نور مجسم اور سراج منیر بن کر تشریف لے آئے ہیں- روشنی (بجلی) کی قدر و قیمت کو ئی پاکستان میں لوڈشیڈنگ کے مارے ہوؤں سے پوچھے جو گرمی کی نہایت حبس زدہ تاریک راتیں میں روشنی کی آمد کے انتظار میں بیٹھ کر گزار دیا کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اگر یہ مژدہ جانفزا سنا دیا جائے کہ آج سے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کردی گئی ہے تو ایسا اعلان سن کر ہرستم رسیدہ انسان کی خوشی کا کیا ٹھکانا ہوسکتا ہے اس کا اندازہ دنیا کے مادی پیمانوں سے کرنا ممکن ہی نہیں کیونکہ تاریکی صرف ایک گھر اور محلے کو تاریک نہیں کرتی بلکہ درو دیوار، کوچہ و بازار اور محلہ و شہر تک کو ویران اور تاریک کردیتی ہیں یہ تاریکی انسان کی دشمن اس کی صلاحیتوں کی دشمن اور اس کے سکون اور راحت کی دشمن اور اس کی ترقی کے سامنے سدِْماّرب بن کر اس کی منزل کو کھوٹا کردیتی ہے جب کہ روشنی ہر مہ و کہ کو روشن اور ہر گھر اور محلے کو منور کردیتی ہے یہ روشنی ہے جسے دیکھ کر تاریک راہوں کے مسافر رک جایا کرتے ہیں اور بڑھتے قدم سمٹ جایا کرتے ہیں-اس روشنی کی تلاش میں انسان بعض اوقات ایسے سرگرداں ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی زندگی کو تاریک کرنے پر تُل جاتا ہے -

اللہ تعالیٰ نے ہردور کے درماندہ، پسماندہ، مایوس اور زندگی سے بددل انسانوں کو مخاطب کرکے یہ خوشخبری عطا فرمائی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نےسب سے بڑے چراغ کو انسانی دنیا پر محمد مصطفیٰ (ﷺ) کی صورت میں روشن فرما دیا ہے- آج کا انسان اگر آپ (ﷺ) کو جان لے، مان لے اور آپ(ﷺ) کی اتباع پر راضی ہو جائے تو اسے “Tension and Depression” جیسے مہلک امراضِ روح و نفس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات حاصل ہوجائے کیونکہ اللہ کے رسول (ﷺ) نے زندگی میں جو بھی ارشاد فرمایا اور جو بھی عمل سنت مبارکہ کی شکل میں ادا فرمایا وہ سراسر خیر ہی خیر اور نور ہی نور ہے-اس لیے آپ (ﷺ)کا گفتگو فرمانا، خاموش رہنا، چلنا، پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا،کھانا، پینا، پڑھانا، عبادت کرنا نور و علیٰ نور اس معنی میں ہے کہ آج تمام تر ریسرچ کے باوجود ایسا کوئی عمل جو آپ(ﷺ) نے اپنی زندگی میں سر انجام دیا ہواس کے مخالف کسی کام کو سندِ جواز علمی سطح پر نہیں مل سکی کیونکہ آپ (ﷺ) کی زندگی کے یہ تمام کام انسانوں کی کامل اتباع کے لیے آپ (ﷺ)نے سرانجام دیئے تاکہ ایک طرف امور زندگانی کا سلسلہ جاری و ساری رہے اور دوسری طرف ان تمام کاموں کی ادائیگی کے نتیجے میں انسان قلب و جاں کے سکون اور راحت کے تلذّذ سے متمتّع ہو سکےاور پھر تاریخ نے یہ ناقابل فراموش منظر دیکھا کہ آپ (ﷺ)کے جسم و عمل کی نورانیت میں چلنے والے انسان جو پہلے ظلمتوں کا شکار تھے ان کی فکر و عقل اور عمل و کردار روشنی کا ایسا مینار بن گیا جس سے آج بھی ستاروں کی مثل روشنی انسانیت کو بھرپور طریقے سے میسر آرہی ہے -

حضور(ﷺ) اللہ کے نور ہیں کیونکہ وہ گھر، خاندان، نسل، قبیلہ، شہراور ملک جس کو کوئی جانتا نہ تھا ماسوائے چند نفوس کے ، اللہ نے ان سب کو اتنا روشن کردیا کہ آج اگر خدا کے دوست اور دشمن کے درمیان فرق کرنا ہو تو اس کے لیے کسی فارمولے کے ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خدا سے غافل اور اس کے دشمن کے بارے میں اتنا جاننا ہی کافی ہے کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کے گھر، خاندان، نسل، قبیلہ، شہراور ملک کو نہیں جانتا یا جاننا نہیں چاہتا اور جو وہ جاننا چاہتا ہے وہ جان نہیں پاتا کیونکہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے دشمن کبھی حق کے طلب گار اور سچائی کے طالب بن کر آپ (ﷺ)کے حضور حاضر خدمت ہونے سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں بلکہ (نعوذباللہ ) وہ اس بات کو اپنی جھوٹی شان کے خلاف سمجھتے ہیں کہ روشنی کو روشنی کَہ سکیں اور اسے مان سکیں، ایسے لوگ ظلمتوں کے رسیا اور تاریکیوں کے اسیر اور حق سے منحرف ’’المغضوب‘‘ اور ’’الضالین‘‘ ہیں- خواہ وہ روس کے نام نہاد پڑھے لکھے کمیونسٹ اور سوشلسٹ ہوں یا مغرب کے آزادی کے علم بردار اور حق کے متلاشی ہونے کے دعویدار لبرل اور سیکولر ہوں- ان کا المیہ وہ ہی ہے جو یہودِ مدینہ کا تھا کہ حضور(ﷺ) ہم میں سے نہیں لہٰذا ہم عرب کی اس ہستی پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ان کی زبان،رنگ، نسل، قوم، خطہ زمین اور جغرافیہ ارضی ہم سے جدا ہے چنانچہ ان کو بڑا آدمی تو مانا جاسکتا ہے لیکن سب سے بڑا ماننا اس لیے ممکن نہیں کے بڑے کو بڑا مان کر بڑے سے بڑا آدمی چھوٹا بن جایا کرتا ہے-آج کا مغرب اپنے اہل فکر و دانش اور اہل قلم و فلسفہ سے بڑھ کر کسی کی عظمت کو قبول کرنے کے روا دار نہیں اور اسی رویّے نے ان کے ارد گرد تعصّب کا ایسا گہرا اور تاریک دائرہ کھینچ دیا ہے جس کے باہر انہیں حق اور سچ کی روشنائی دکھائی نہیں دیتی-

اللہ تعالیٰ نے جو رب المشارق و المغارب اور رب العالمین ہے اپنے پیغمبر (ﷺ)کو رحمت اللعالمین بناکر انسان کو یہ پیغام دیا کہ اے رنگ و نسل اور قوم و زبان کے محدود دائروں میں رہنے والو! تم شرق و غرب کی بات کرتے ہوئے ہم نے تو کُل کائنات کے لیے اپنے محبوب کو رحمت (Blessing)بنا کر بھیجا ہے اور یہ رحمت ایک طرف انسان کی ذات، خاندان، نسل اور قوم کے لیے انفرادی رحمت بھی ہے اور دوسری طرف اکیسویں صدی اور اس کے بعد قیامت تک کے انسانوں کی جملہ مشکلات کے لیے دوا اورشفاء ہے-آج انسان کانفرنسوں، سیمیناروں، ورکشاپوں، مکالموں اور مناظروں کے ذریعے اپنی جن موجودہ بدترین روحانی، مذہبی، اخلاقی ، سیاسی ، معاشرتی، معاشی، مالی، سیاسی، بین الاقوامی پستی اور دوسرے بحرانوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اور پھر بھی ناکام رہتا ہے - اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خود انسانوں کے مسائل کے لیے ایسا نسخہ دریافت نہیں کرسکتا جو کل نوعِ انسانی کے مسائل کا احاطہ کرکے اس کے لیے حل پیش کرسکے اس کی وجہ انسانی عقل و فکر کی نارسائی اور اس کے ہوش و حواس کی محدودیتیں ہیں-

حضور(ﷺ) نے سراپا نور بن کر ظلمتوں میں اجالے کس طرح بکھیرے اور ہمیشہ سے موجود بگڑے ہوئے معاملات کی پیچیدہ گتھیاں کس خوبصورتی کے ساتھ سلجھائیں، بند راہوں کو کھول کر فکر و نظر کے دریچوں کو کس قدر وسعت کے ساتھ وا فرمایا اور بالخصوص ژولیدگیِ فکر کے مُقفّل دروازوں کی گرہ کشائی کس حسین پیرائے میں فرمائی درج ذیل سطور میں نہایت اجمال کے ساتھ ہم اس کے بارے میں چند باتیں پیش کررہے ہیں-

 فکر و نظرمیں انقلاب:

حضور(ﷺ) کی صداقت اور حقانیت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ آپ (ﷺ)نے اپنی بعثت کے بعد مروّجہ قدیم یونانی، رومی، ایرانی اور ہندوستانی فکر اور عقائد کے نظام کو جو افراط و تفریط پر مشتمل تھے اس کو یکسر بدل کر رکھ دیا بلکہ فلسفہ کی اصطلاح میں اگر یوں کہا جائے کے فکر و نظر کے بارے میں آپ(ﷺ)نے انسانی عقل اور شعور کومتوازن زایوں کی بنیاد پر تعمیر کیا-کیونکہ آپ (ﷺ) کی بعثت کے وقت دُنیا عمل اور عقیدے کے لحاظ سے دو انتہاؤں پر کھڑی تھی اور یہ دونوں انتہائیں ایسی تھیں کہ ان کے درمیان سوائے ایک نہایت تاریک اور عمیق گڑھے کے سوا کچھ نہ تھا اگر کچھ تھا بھی تو وہ قابل قبول نہ تھا-آپ (ﷺ) نے انسانوں کے اس غیر فطری عقیدہ وعمل کی تقسیم کے رویے کو وہ جہت عطا فرمائی جس کے لیے آج کاانسان روزانہ صبح اٹھ کر آپ (ﷺ)کو سیلوٹ کے ذریعے خراج تحسین پیش کرے تو تب بھی ’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ کی مثل وہ حضور (ﷺ) کے احسان تلے زیر بار رہے گااور اسی لیے اہل ایمان کو اس بات کا حکم دیا گیا کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کے اس عظیم احسان جو بہت سارے احسانات میں سے صرف ایک ہے ،کو ادا کرنے کے لیے شعوری طور پر روزانہ صبح و شام اپنی مرضی سے آپ(ﷺ) کو سلام بصورت درود و سلام پیش کرے اور اگر بھول بھی جائے تو تب بھی رب تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنی فرض عبادت نماز کی صورت میں اس عمل کو لازم قرار دیا ہے-

دو انتہائیں کیا تھیں؟ وہ وہی انتہائیں تھیں جن سے آج اکیسویں صدی کا انسان پھر سے دوچار ہے یعنی مادیت یا روحانیت، آسمانی یا زمینی، خدائی یا انسانی، مقدس یا نا مقدس، متبرک یا نا متبرک وغیرہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یا تو دنیا کے بندے بن کر رہ جائیں- قرآن کے الفاظ میں:

’’اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـھَہٗ ھَوٰہُ ‘‘ [2]

’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے‘‘-

یا حدیث کے الفاظ میں ’’عبدالدراہم والدنّا نیر‘‘بن جائیں اور صرف دنیا اور اس کے امور میں مشغول رہیں جس کی قیمت آپ کو یہ دینی پڑے گی کہ آپ کے لیے رب تعالیٰ کے پاس کوئی اخروی اجر نہ ہو اور دوسری صورت میں آپ صرف اپنی عبادت، دھیان، گیان، چلہ کشی، رہبانیت، تجرد،تفرد کی زندگی اختیار کرکے امور دنیا سے بے اعتناء ہوکر اہل دنیا کے لیے بوجھ اور عذاب بن جائیں- (نعوذ باللہ من ذلک)

چنانچہ نتیجے کے طور پر انسانی زندگی دو مستقل گروہوں میں اس طور پر بٹ کر رہ گئی تھی کہ ہرگروہ سے متعلق افراد دوسرے گروہ کے افراد کو گمراہ، بے عقل، جاہل اور فاسق و فاجر سمجھتے تھے- دین دار طبقہ مذہب کے نام پر جہالت کی سودا گری کر رہا تھا اور دنیا دار طبقہ عیش و نشاط کی زندگی گزارنے کے لیے ہر قسم کی اخلاقی بے راہ روی کا شکار تھا چنانچہ ترقی تو دور انسانی تنزلی کی سُرعتِ رفتار کو روکنا ہی بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا- ایسی حالت میں حضور (ﷺ) نے پوری انسانیت کو دین و دنیا کے مابین اتحاد و اتفاق اور دونوں تصورات کو زندگی کے بقا ء ، دوام اور ارتقاء کے لیے لازم قرار دیا اور وہ بھی اس طور پر کہ انسان کی دنیا دین بن جائے اور دین اس کی دنیاوی ضرورتوں کو بھی مکمل طور پرکفایت کر جائے اس کے لیے آپ (ﷺ) نے صرف وعظ و تلقین کا سہارا نہیں لیا بلکہ اپنے قول ، فعل ، عمل اور مطالبات سے اس نظریۂ حیات کی عملی صورت گری فرمائی اور پھر ہر مسلمان کو دن میں کم از کم پانچ مرتبہ یہ دعا سکھائی :

’’ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ [3]

’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ‘‘-

یہ دعا اس بات کا اعلان کررہی ہے کہ کوئی مسلمان دنیا کو چھوڑ اورآخرت سے غافل نہیں رہ سکتا بلکہ رب کی رضا اور آخرت کی طلب کو دنیا میں محنت و کوشش سے مشروط کردیا گیا ہے- حضور (ﷺ) نے ارشاد فرمایا ’’الدنیا مزرعۃ الاخرہ‘‘ یعنی دنیا آخرت کی کھیتی ہے جو کچھ دنیا میں بویا جائے گا آخرت میں اس کے مطابق ہی انسان کی جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا- اس حدیث کی روشنی میں کوئی مسلمان دنیا اور اس کے معاملات سے غافل نہیں رہ سکتا یعنی وہ بھرپور طریقے سے جائز حدود کے اندر دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہو اور دُنیاوی نعمتوں کو آخرت کی ابدی نعمتوں کے لیے وسیلہ تصور کرے - زندگانی کے بارے میں اس نظریۂ حیات نے انسان کے لیے ایمان کی شرط پر اس کا سونا، جاگنا، پھرنا، پڑھنا، پڑھانا، روزی کمانا، تجارت کرنا، حکمرانی اور سیادت کرنا اور اتباع حق کرنا عبادت قرار دے کر اس کی فکری بندشوں کورفعتِ پرواز سے ہمکنار کیااور پوری زندگی میں دوئی کے تصور کی نفی فرما کر پہلی مرتبہ دین و دنیا کو ہم آغوش فرمایا- یہ وہ بلند فکری اور و سعتِ نظری تھی جس نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ علم، عقل، شعور، عقیدہ ، عبادت، ریاضت، مجاہدات، معرفت اور حقیقت کے رازوں سے پردہ اٹھا کر انسان کو انسان بنایا اور پھر اسی مقام کی بدولت اسے مسجودِ ملائک قرار دے کر رب تعالیٰ کی بارگاہ سے اسے ابدی طور پر یہ پروانہ نجات بھی عطا فرما دیا ہے:

’’یٰٓـاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُo ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃًo فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰـدِیْo وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ‘‘[4]

’’اے اطمینان پا جانے والے نفس تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جاoاور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا‘‘-

٭٭٭

 



[1](المائدہ:16)

[2](الفرقان:43)

[3](البقرۃ:201)

[4](الفجر:27-30)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر