علامہ اقبال اور آج کاوسطِ ایشیاء

علامہ اقبال اور آج کاوسطِ ایشیاء

علامہ اقبال اور آج کاوسطِ ایشیاء

مصنف: پروفیسر فتح محمد ملک نومبر 2018

نامور صحافی اور ماہر نشریات آصف جیلانی نے ’’وسطِ ایشیاء ---نئی آزادی، نئے چیلنج‘‘ کےعنوان سے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے  کہ:

’’تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ کے چوکِ آزادی میں پارلیمنٹ کی عمارت کے  سامنے جب میں نے جوش و عقیدت سے سرشار مظائرین کو علامہ اقبال کا ترانہ ’’از خواب گراں خیز‘‘ نہایت والہانہ انداز سےپڑھتے دیکھا تو مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ میں لاہور سے سینکڑوں میل دور، راوی، چناب اور جہلم کے سر سبز کناروں کے پار، درہ خیبر کی سنگلاخ چٹانوں سے پرے اور پامیر کے آسمان بوس پہاڑوں کے مغرب میں دریائے دوشنبہ  کے کنارےاس شہر میں اقبال کی صدا سن رہا ہوں‘‘-[1]

یہ عبارت پڑھتے وقت مجھے علامہ اقبال ہی کا درج ذیل شعر بے اختیار یاد آیا:

اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاکِ بخارا و سمرقند

اقبال کے عہد سے ہمارے عہد تک یہ ’’ولولہ‘‘تازہ کا تازہ ہی رہا-چنانچہ: ’’اقبال کی یہ نظم، تاجکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت ’’رستاخیز‘‘ نے اپنے ترانے کے طور پر یوں اپنائی ہے کہ جیسے یہ ان کے اپنے قومی شاعر کی نظم ہو--- مجھے ایسا لگا کہ راوی کے کنارے، دریائے دوشنبہ سے آن ملے ہوں--- برسوں سے بچھڑی ہوئی دو بہنوں کی طرح---‘‘[2]

آصف جیلانی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید بتایا کہ :

’’دو (2)سال پہلے رستا خیز پارٹی نے اس ترانے کی گونج میں تاجکستان میں سوویت راج اور کمیونسٹ حکومت کو للکارا تھا- 50 لاکھ نفوس کی اس چھوٹی سی جمہوریہ میں یہ عمل ایک نئے انقلاب سے کم نہ تھا- جس میں اسلامی جماعت ’’نہفت اسلامی‘‘ شامل تھی- 90ء سے قبل یہ دونوں جماعتیں خفیہ طور پر اپنے اپنے انداز سے سرگرم عمل تھیں اور بلاشبہ جمہوریت و آزادی کی نقیب ثابت ہوئیں‘‘[3]

روسی اشتراکیت نے وادیٔ فرغانہ کو،جو کہ وسطِ ایشاء کا قلب کہلاتی تھیں، تین مختلف ریاستوں--- تاجکستان، ازبکستان اور کرغیزستان--- میں تقسیم کر کے یہاں آباد مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا تھا-اس پر مستزاد یہ کہ غیر مذہب اور کلچر کے پیروکار روسیوں کو بھی یہاں لا آباد کیا تھا- آصف جیلانی کے ان مشاہدات سے میں نے یہ جانا کہ اقبال کا پیغام آج وسطِ ایشیاء کے مسلمانوں کی تہذیبی وحدت کا سر چشمہ بن چکا ہے:

این نکتہ کشائندۂٖ اسرارِ نہان است
ملک است تنِ خاکی و دیں روحِ روان است
تن زندہ و جان زندہ ز ضبطِ تن و جان است
باخرقہ و سجادہ و شمشیر و سناں خیز
از خواب گراں، خواب گراں
خواب گراں خیز، از خوابِ گراں خیز!

’’یہ بات اسرارِ نہاں کو واضح کرتی ہے، کہ تنِ خاکی ملک ہے اور دن اس کی روحِ رواں ہے-تن و جان دونوں کی زندگی آپس کے ربط سے وابستہ ہے،یہ نکتہ سمجھ لے خرقہ،سجادہ اور شمشیر و سناں لے کر اٹھ، اس خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں سے بیداہو، خواب گراں سے بیدار ہو ‘‘-

سچ کہتے ہیں کہ اقبال مُلک تنِ خاکی کی مثال ہے اور دین اس خاکی کی جسم میں روح کی مانند سرگرم کار ہے:’’ ملک است تنِ خاکی و دیں روحِ روان است‘‘!-گویا وسطِ ایشیاء کے جسم میں اسلام کی روح کروٹیں  لینے لگی ہے-اس حقیقت کو دنیائے اسلام سے کہیں بڑھ کر امریکی سامراج اور اس کے گماشتوں نے سمجھ رکھا ہے-اقبال نے حیرت انگیز پیش بنیی کے ساتھ اپنے اسی ترانے میں ہمیں سامراجی حکمتِ عملی سے بھی خبردار کر رکھا ہے:

فریاد ز افرنگ و دل آویزی افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزی افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزی افرنگ
معمار حرم باز بہ تعمیر جہان خیز
از خواب گراں، خواب گراں
خواب گراں خیز، از خوابِ گراں خیز!

’’افرنگ اور اس کی دلآویزی سے فریاد!، افرنگ کی دل ربائی اور حیلہ گری سے فریاد!، ساری دنیا افرنگ کی چنگیزی سے ویران ہوچکی ہے، معمارِ حرم! جہان کی از سر نو تعمیر کے لئے اٹھ، اس خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں سے بیداہو، خواب گراں سے بیدار ہو ‘‘-

وسطِ ایشیاء کے نام اقبال کے پیغام(از ہند و سمرقند و عراق و ہمداں خیز) کے یوں بار آور ہونے کی رو داد پڑھتے وقت مجھے دنیائے اسلام کے زوال اور محکومی پر اقبال کی دلسوزی اور درد مندی کے متعدد واقعات یاد آئے- ان میں سے فقط دو واقعات پیشِ خدمت ہیں- اول یہ کہ ترکی میں پاکستان کے پہلے سفیر میاں بشیر احمد نے لکھا ہے کہ:

’’ایک دفعہ اقبال کی شاعری، پیغام اور اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیامِ مشرق وغیرہ کا ذکر آگیا تو انگریزی میں کہا:

“There is a Crust at the heart of Central Asia. I want to break through it”.

’’وسطِ ایشاء کے قلب پر ایک پپڑی جمی ہوئی ہے میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہتا ہوں‘‘-[4]

دوم یہ کہ سید نظیر نیازی نے اپنی بیاضِ یاداشت میں لکھا ہے کہ وفات سے فقط چند ہفتے پیشتر، ایک دوپہر علامہ اقبال نے خاموش لیٹے لیٹے اچانک ’’حقے کا کش لگایا اور کہنے لگے: وسط ایشیاء میں 4 کروڑ تُرک آباد ہیں-ان کا اتحاد کیوں ممکن نہیں؟ میں نے عرض کیا: ’’یہ تحریک تو پرانی ہے، لیکن روس کی وہ کیفیت نہیں جو کبھی تھی، یعنی اشتراکی انقلاب سے پہلے-روس اب تک بہت بڑی طاقت ہے-روس کی موجودگی میں یہ اتحاد کیسے ممکن ہو؟ اس کیلئے بڑی طاقت اور بڑے تدبر کی ضرورت ہے- یوں  بھی وسط ایشیاء میں شاید اب اس قسم کی تحریک کا وجود نہیں-تھا بھی تو 1922ء میں ختم ہوگیا-عثمانی تُرک اپنی الگ تھلگ قومیت کا اعلان کرچکے ہیں- ان کا اور تیموری ترکوں کا رابطہ مدت ہوئی ٹوٹ چکا ہے- یوں بھی روس کی گرفت نے مدت ہوئی اس کا خاتمہ کردیا ہے- حضرت علامہ نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا، البتہ ایک بات پھر کروٹ بدلتے ہوئے فرمایا: ’’وسطِ ایشیاء میں 4 کروڑ تُرک آباد ہیں-تُرک کیوں متحد نہیں ہوتے؟‘‘

کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ
نہ تھے تُرکانِ عثمانی سے کم تُرکانِ تیموری[5]

وسطِ ایشیاء کے مسلمانوں کی بیداری، آزادی اور اتحاد کی یہ آرزو اقبال کی عزیز ترین تمناؤں میں سے ایک ہے- ہر چند وہ اس بات پہ خوش تھے کہ عثمانی ترکوں نے اپنا مقدر اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہےتاہم یہ عمل ان کے لئے ہمیشہ سوہانِ روح بنا رہا کہ تیموری تُرک روسی اشتراکی آمریت کے پنجۂ استبداد میں پڑے تڑپ رہے ہیں-تیموری ترکوں کی آزادی، خود مختاری اور عثمانی ترکوں کے ساتھ ان کا اتحاد و فکر و عمل ایک ایسا خواب تھا جس میں اقبال سوتے جاگتے محو رہا کرتے تھےانہیں یہ حقیقت بلائے نہیں بھولتی تھی کہ ’’بدست مانہ سمرقندوں نے بخارا ایست‘‘ اور وہ بسا اوقات اس بات پر غور و فکر میں مصروف رہتے تھے: ’’کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ/نہ تھے ترکان عثمانی سے کم ترکانِ تیموری‘‘- چنانچہ وہ لوہے کی دیوار ((Iron Curtain کے اس پار اپنا پیغامِ خودی اور خود مختاری پہنچانے میں مصروف رہتے تھے- اپنی نظم ’’تاتاری کا خواب‘‘ میں اگر ایک طرف وہ وسطِ ایشیاء کو کرب و بلا کی انگشتری کا نگینہ قرار دیتے ہیں تو دوسری جانب وہ وسطِ ایشیاء کے باشندوں کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ اپنی اجتماعی خودی کے سوز و ساز سے دنیا کو ایک بار پھر ایک نئے انقلاب کی نوید دیں:

کہیں سجادہ و عمامہ رہزن
کہیں ترسا بچوں کی چشم بے باک!
ردائے دین و ملت پارہ پارہ
قبائے ملک و دولت چاک در چاک!
مرا ایماں تو ہے باقی، و لیکن
نہ کھا جائے کہیں شعلے کو خاشاک!
ہوائے تند کی موجوں میں محصور
سمرقند و بخارا کی کفِ خاک!
'بگردا گردِ خود چند انکہ بینم
بلا انگشتری و من نگینم'

یکا یک ہل گئی خاکِ سمرقند
اٹھا تیمور کی تربت سے اک نور
شفق آمیز تھی اس کی سفیدی
صدا آئی کہ ’’میں ہوں روح تیمور
اگر محصور ہیں مردانِ تاتار
نہیں اللہ کی تقدیر محصور
تقاضا زندگی کا کیا یہی ہے
کہ تورانی ہو تورانی سے مہجور؟‘‘
خودی را سوز و تابے دیگرے دہ
جہاں را انقلابے دیگرے دہ

افغانستان کے سفر کے دوران شہنشاہ بابر کے مزار پر وسطِ ایشیاء کی حیاتِ نو کا یہی خواب نغمے میں ڈھل جاتا ہے:

زمانہ کہنہ بتاں را ہزار بار آراست
من از حرم نگذشتم کہ پختہ بنیاد است
درفش ملت عثمانیاں دوبارہ بلند
چہ کویمت کہ بہ تیموریاں چہ افتادہ است
خوشا نصیب کہ خاک تو آرمید اینجا
کہ این زمین ز طِلسم فرنگِ آزاد است

’’زمانے نے ہزار بار پرانے بتوں کو آراستہ کر کے پیش کیا، (مگر) میں نے حرم کو نہیں چھوڑا، کیونکہ یہ پختہ بنیاد ہے- عثمانیوں کا جھنڈا دوبارہ بلند ہوا، تجھے کیا بتاؤں کہ تیموریوں پر کیا افتاد آن پڑی- تو کیسا خوش نصیب ہے کہ تیرا جسدِ خاکی اس سرزمین میں آرام کر رہا ہے جو فرنگیوں کے طلسم سے آزاد ہے‘‘-

اقبال بابر کے مقدر پر رشک کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی سر زمین میں آسودہ خاک ہے جو طِلسم فرنگ سے آزاد ہے-زیرِ نظر نظم  کے پہلے  شعر میں اقبال نے جہاں بابر کو وہ خوش خبری سنائی ہے کہ اب سازِ فرنگ سے نغمے کی بجائے فریاد سنائی دینے لگی ہے وہاں ترکانِ تیموری کو اشتراکی استبداد کے خلاف  صف آراء ہونے کی تلقین بھی کی ہے-آج اس حقیقت کے ثبوت موجود ہیں کہ سوویت یونین کی سفاک آمریت کے پنجہ استبداد میں تڑپتے ہوئے مسلمانوں تک اقبال کا انقلابی پیغام برابر پہنچتا رہا ہے- اسلام کا چراغ تہِ داماں  ہی سہی روشن رہا ہے اور یوں وسطِ ایشیاء کے مسلمان، درپردہ ہی سہی،  اپنے اپنے مسلک پر قائم رہے- وسطِ ایشیاء میں صدیوں سےمروج صوفی مسالک کے فیضانِ مسلسل پر روشنی ڈالتے ہوئے احمد رشید نے درست لکھا ہے کہ:

“It was the Sufi brotherhoods that kept religious ritual, prayer and the Muslim’s inner life distinct and separate from the communist system. For the past thirty years writers like Alexandre Bennigsen and Enders Wimbush have claimed the Islam was being kept alive in Central Asia through Sufism, which was flourishing as an underground movement. Clearly they were right: the massive Islamic revival that took place during Gorbachev’s glasnot could not have emerged from a vacuum. Sufism was the mystical trend of Islam that orginated in Persia and Central Asia soon after the arrival of the Arabs”.[6]

برصغیر میں تصوف و حکمت اور شعر و ادب کی روایت پر وسطِ ایشیاء کی صوفیانہ و  حکیمانہ اور شعری و فکری تحریکوں کے گہرے اور انمٹ اثرات ہیں- مختلف صوفی مسالک سے منسلک ادیبوں اور شاعروں نے برصغیر کی منفرد ادبی و شاعری روایت کے آغاز و اتقاء میں بنیادی کردار ادا کیا ہے-وسطِ ایشیاء کے روحانی و ادبی روایت نے سید علی ہمدانی المعروف شاہِ ہمدان کے زیر اثر کشمیر میں بطور خاص فروغ پایا ہے-سید علی ہمدانی سے لے کر نور الدین ولی تک فروغ پانے والی ادبی روایت اقبال کو ورثہ میں ملی تھی-اقبال کےگھر کا ماحوال صوفیانہ تھا- نسبی اعتبار سے بھی ان کا خاندان شیخ نور الدین ولی سے منسلک تھا- اقبال کو وسطِ ایشیاء کی صوفیانہ  اور شاعرانہ کی ہر دو روایات گویا گھٹی میں ملی تھیں- خود انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف درج ذیل شعر میں کیا ہے:

اگرچہ زادۂِ ہندم،  فروغِ چشمِ من است
زِ خاکِ پاکِ بخارا و کابل و تبریز!

’’اگرچہ میں ہند میں پیدا ہوا ہوں مگر میری آنکھ بخارا، کابل اور تبریز کی خاکِ پاک سے روشن ہے‘‘-

اقبال مسلمانوں کے ماضی کا خیال کرتے ہیں تو انہیں وسط ایشیاء کا شاندار ماضی یاد آتا ہے- اقبال اسی کے عکس پر وسطِ ایشیاء کا مستقبل تعمیر کرنے کے تمنائی ہیں- اقبال عہدِ حاضر کے یگانہ روزگار شاعر، فلسفی اور دانشور تھے- ان کے فنی اور فکری کمالات کو تین دائرہ ہائے عمل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے-ان کی ذات بیک وقت برصغیر، دُنیائے اسلام اور دنیائے انسانیت کو مادی اور روحانی ترقی و تکمیل کی جانب گامزن دیکھنے کی تمنائی رہی- دنیائے اسلام کا وہ حصہ جسے وسطِ ایشیاء کہتے ہیں ابھی تک بڑی حد تک پردۂ اخفا میں ہے- اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وسطِ ایشیاء پر زارِ روس اور بعد ازاں سوویت  آمریت کا تسلط قائم رہا اور کئی دہائیوں تک وسط ایشیاء اور باقی ماندہ ایشیاء کے درمیان لوہے کی دیوار(Iron Curtain) حائل رہی- اقبال زندگی بھر لوہے کی اس دیوار کو گرانے اور یوں وسط ایشیاء کو ایشیائی بیداری کا نقیب بنانے کے خواب دیکھتے رہے- یہ دیوار اقبال کی وفات کے پون صدی بعد گری اور یوں وسطِ ایشیاء کی محکوم ریاستیں سیاسی آزادی کے پہلے مرحلے میں داخل ہو سکیں-چنانچہ آج  وسطِ ایشیاء ایک بار پھر اقبال کی آرزوؤں کا وسطِ ایشیاء بننے میں کوشاں ہے-

علامہ اقبال اپنے ابتدائی تشکیلی اور تعمیری دور سے لے کر اپنی فکری و فنی تکمیل کے زمانے تک وسطِ ایشیاء کی ادبی و روحانی میراث سے کسبِ فیض کیا تھا- چنانچہ علامہ اقبال پر وسطِ ایشیاء  کی صوفیانہ اور شعری ہر دو روایات کا بڑا اثر تھا-شاہِ ہمدان ؒ سے لے کر شیخ نور الدین ولی رشی  تک پہنچنے والی صوفیانہ روایت نے اقبال کے آباؤ اجداد سے لے کر خود اقبال کے لڑکپن تک اقبال کو مسحور  رکھا- ہماری ادبی و شعری روایت بڑی حد تک اسی صوفیانہ اور شاعری ادبی روایت کی پروردہ چلی آرہی ہے-اقبال پہلے اس روایت سے بیش  از بیش کتسابِ فیض کرتے ہیں اور پھر اسی روایت کو نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کرتے ہیں- اپنی شاعری اور فکر کے ذریعے اقبال وسط ایشیاء کی محکومی اور وسطِ ایشیاء میں روسی استبداد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں-وہ وسطِ ایشیاء کو پھر سے بیدار ہونے اور تعمیر جہاں میں اپنا کردار ادا کرنے کا فریضہ یاد دلاتے رہتے ہیں-

یوں مَیں اپنے اس ماضی کی یاد میں کھو گیا جو آج ہمارا مستقبل بننے کو بے چین ہے-گردشِ ایام پیچھے کی طرف دوڑنے لگے اور مَیں اقبال کے عہد سے ذرا پیچھے اسلامی ہندوستان کے تہذیبی ماحول میں جا پہنچا-جہاں متاخرین شعرائے فارسی،  سبکِ ہندی کا منفرد اسلوب تراشنے میں مصروف ہیں، پھر یہ اسلوب وادیٔ سند ھ سے ماوراء النہر تک، بنگال سے بوسنیا تک اور خاک کاشغر تک سے نیل کے ساحل تک رواج پاتا اور عہد کا مقبول ترین اسلوب بنتا نظر آتا ہے- یہ وہ زمانہ ہے جب فارسی زبان دنیائے عجم کی تہذیبی و فکری وحدت اور مسلمانوں کے عروج و ارتقاء کی مقبولِ عام ترجمان تھی- پھر وہ وقت آپہنچا جب برطانوی استعمار بلادِ اسلامیۂ ہند میں اپنی جنسِ تجارت اتارتا ہے- کم و بیش اسی زمانے میں زارِ روس وسطِ ایشیاء میں انتشار کے بیج بونا شروع کرتا ہے- چنانچہ اسلامی ہند رفتہ رفتہ برطانوی ہند بن جاتا ہے اور وسطِ ایشیاء، سوویت وسطِ ایشیاء کے نام سے موسوم ہوجاتا ہے-برطانوی اور روسی ہر دو استعمار دنیائے عجم کی وحدت کو پارہ پارہ  کردینے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر فارسی زبان کوجو کہ وسیلۂ اتحاد ہے ، دفتر و دربار اور کوچہ و بازار سےبے دخل کرنے کے لئے ماہرینِ لسانیات کی خدمات مستعار لیتے ہیں-پہلے اردو اور پھر انگریزی کا چلن عام ہوجاتا ہے اور یوں دنیائے اسلام کی لسانی وحدت انتشار کی نظر ہوجاتی ہے- شاعر مشرق علامہ اقبال کا ایک کارنامہ خاص یہ ہے کہ وہ اپنے وقت میں اس وحدت کی باز یافت کی خاطر فارسی شاعری کا آغاز کرتے ہیں اور منجمد خون کی اس پپڑی کو ریزہ ریزہ کردینے میں مصروف  ہوجاتے ہیں جس نے ساری کی ساری دنیائے عجم کے رگ و ریشہ میں زندہ خون کی گردش کو بند کر رکھا تھا-

ہر چند آج وسطِ ایشیاء کے دل پرجمی ہوئی پپڑی (crust) ٹوٹ پھوٹ چکی ہے تاہم اقبال کے چہرے پر آج بھی تشویش کی وہ لہر موجود ہے جو بابر کے مزار پر کھڑے اقبال کے چہرے سے عیاں تھی- اقبال آج بھی متفکرہیں کے بے شک افرنگ تو چلا گیا ہے مگر یہ سر زمینیں ابھی تک طلسم فرنگ سے آزاد نہیں ہو پائیں- ابھی تک وہی پرانے موروثی حکمران بیشتر مسلمان ممالک پر حکمران ہیں جو فرنگی اور روسی استعمار نے اپنے عکس پر پیدا کیے تھے- مجھے یقین ہے کہ جب ہم عالمی استعمار کے اس طلسم کو توڑے میں کامیاب ہوجائیں گے تب اور صرف تب اقبال کا خواب حقیقت کا ورپ دھار سکے گا اور تاجکستان کی سیاسی پارٹی ’’رستا خیز‘‘ کا اقبال سے مستعارترانہ کراں تا کراں گونجنے لگے گا:

ناموس ازل را تو امینی تو امینی
دارای جھان را تو یساری تو یمینی
ای بندۂ خاکے تو زمانی تو زمینی
صہبای یقین در کش و از دیر گمان خیز
از خواب گراں، خواب گراں
 خواب گراں خیز،از خواب گراں خیز

’’تو ہی سرِّ اول کا امین ہے-توپادشاہِ جہاں کا دستِ بازو ہے-اے بندۂ خاکی تو زمانی بھی اور زمینی بھی، صہبائے یقین پی اور ظن وگماں کےبت کدے سے نکل، اس خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں سے بیداہو، خواب گراں سے بیدار ہو ‘‘-

٭٭٭

(ماخوذ از :  اقبال کے سیاسی تصورات، مرتبین: پروفیسر فتح محمد ملک، ناشر:دوست پبلی کیشنز،اسلام آباد)


[1](آصف جیلانی، وسطِ ایشیاء--- نئی آزادی، نئے چیلنج، لاہور، 1996ء، ص:99)

[2](ایضاً)

[3](ایضاً)

[4](رسالہ ’’ہمایوں‘‘، لاہور، اپریل 53، ص:270)

[5](اقبال کے حضور، نشستیں اور گفتگو، لاہور، طبع اول:1971ء)

[6](احمد رشید، The Resurgence of Central Asia, Islam or Nationalism?، کراچی، 1994ء، ص:42)

نامور صحافی اور ماہر نشریات آصف جیلانی نے ’’وسطِ ایشیاء ---نئی آزادی، نئے چیلنج‘‘ کےعنوان سے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے  کہ:

’’تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ کے چوکِ آزادی میں پارلیمنٹ کی عمارت کے  سامنے جب میں نے جوش و عقیدت سے سرشار مظائرین کو علامہ اقبال کا ترانہ ’’از خواب گراں خیز‘‘ نہایت والہانہ انداز سےپڑھتے دیکھا تو مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ میں لاہور سے سینکڑوں میل دور، راوی، چناب اور جہلم کے سر سبز کناروں کے پار، درہ خیبر کی سنگلاخ چٹانوں سے پرے اور پامیر کے آسمان بوس پہاڑوں کے مغرب میں دریائے دوشنبہ  کے کنارےاس شہر میں اقبال کی صدا سن رہا ہوں‘‘-[1]

یہ عبارت پڑھتے وقت مجھے علامہ اقبال ہی کا درج ذیل شعر بے اختیار یاد آیا:

اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاکِ بخارا و سمرقند

اقبال کے عہد سے ہمارے عہد تک یہ ’’ولولہ‘‘تازہ کا تازہ ہی رہا-چنانچہ: ’’اقبال کی یہ نظم، تاجکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت ’’رستاخیز‘‘ نے اپنے ترانے کے طور پر یوں اپنائی ہے کہ جیسے یہ ان کے اپنے قومی شاعر کی نظم ہو--- مجھے ایسا لگا کہ راوی کے کنارے، دریائے دوشنبہ سے آن ملے ہوں--- برسوں سے بچھڑی ہوئی دو بہنوں کی طرح---‘‘[2]

آصف جیلانی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید بتایا کہ :

’’دو (2)سال پہلے رستا خیز پارٹی نے اس ترانے کی گونج میں تاجکستان میں سوویت راج اور کمیونسٹ حکومت کو للکارا تھا- 50 لاکھ نفوس کی اس چھوٹی سی جمہوریہ میں یہ عمل ایک نئے انقلاب سے کم نہ تھا- جس میں اسلامی جماعت ’’نہفت اسلامی‘‘ شامل تھی- 90ء سے قبل یہ دونوں جماعتیں خفیہ طور پر اپنے اپنے انداز سے سرگرم عمل تھیں اور بلاشبہ جمہوریت و آزادی کی نقیب ثابت ہوئیں‘‘[3]

روسی اشتراکیت نے وادیٔ فرغانہ کو،جو کہ وسطِ ایشاء کا قلب کہلاتی تھیں، تین مختلف ریاستوں--- تاجکستان، ازبکستان اور کرغیزستان--- میں تقسیم کر کے یہاں آباد مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا تھا-اس پر مستزاد یہ کہ غیر مذہب اور کلچر کے پیروکار روسیوں کو بھی یہاں لا آباد کیا تھا- آصف جیلانی کے ان مشاہدات سے میں نے یہ جانا کہ اقبال کا پیغام آج وسطِ ایشیاء کے مسلمانوں کی تہذیبی وحدت کا سر چشمہ بن چکا ہے:

این نکتہ کشائندۂٖ اسرارِ نہان است
ملک است تنِ خاکی و دیں روحِ روان است
تن زندہ و جان زندہ ز ضبطِ تن و جان است
باخرقہ و سجادہ و شمشیر و سناں خیز
از خواب گراں، خواب گراں
خواب گراں خیز، از خوابِ گراں خیز!

’’یہ بات اسرارِ نہاں کو واضح کرتی ہے، کہ تنِ خاکی ملک ہے اور دن اس کی روحِ رواں ہے-تن و جان دونوں کی زندگی آپس کے ربط سے وابستہ ہے،یہ نکتہ سمجھ لے خرقہ،سجادہ اور شمشیر و سناں لے کر اٹھ، اس خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں سے بیداہو، خواب گراں سے بیدار ہو ‘‘-

سچ کہتے ہیں کہ اقبال مُلک تنِ خاکی کی مثال ہے اور دین اس خاکی کی جسم میں روح کی مانند سرگرم کار ہے:’’ ملک است تنِ خاکی و دیں روحِ روان است‘‘!-گویا وسطِ ایشیاء کے جسم میں اسلام کی روح کروٹیں  لینے لگی ہے-اس حقیقت کو دنیائے اسلام سے کہیں بڑھ کر امریکی سامراج اور اس کے گماشتوں نے سمجھ رکھا ہے-اقبال نے حیرت انگیز پیش بنیی کے ساتھ اپنے اسی ترانے میں ہمیں سامراجی حکمتِ عملی سے بھی خبردار کر رکھا ہے:

فریاد ز افرنگ و دل آویزی افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزی افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزی افرنگ
معمار حرم باز بہ تعمیر جہان خیز
از خواب گراں، خواب گراں
خواب گراں خیز، از خوابِ گراں خیز!

’’افرنگ اور اس کی دلآویزی سے فریاد!، افرنگ کی دل ربائی اور حیلہ گری سے فریاد!، ساری دنیا افرنگ کی چنگیزی سے ویران ہوچکی ہے، معمارِ حرم! جہان کی از سر نو تعمیر کے لئے اٹھ، اس خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں سے بیداہو، خواب گراں سے بیدار ہو ‘‘-

وسطِ ایشیاء کے نام اقبال کے پیغام(از ہند و سمرقند و عراق و ہمداں خیز) کے یوں بار آور ہونے کی رو داد پڑھتے وقت مجھے دنیائے اسلام کے زوال اور محکومی پر اقبال کی دلسوزی اور درد مندی کے متعدد واقعات یاد آئے- ان میں سے فقط دو واقعات پیشِ خدمت ہیں- اول یہ کہ ترکی میں پاکستان کے پہلے سفیر میاں بشیر احمد نے لکھا ہے کہ:

’’ایک دفعہ اقبال کی شاعری، پیغام اور اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیامِ مشرق وغیرہ کا ذکر آگیا تو انگریزی میں کہا:

“There is a Crust at the heart of Central Asia. I want to break through it”.

’’وسطِ ایشاء کے قلب پر ایک پپڑی جمی ہوئی ہے میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہتا ہوں‘‘-[4]

دوم یہ کہ سید نظیر نیازی نے اپنی بیاضِ یاداشت میں لکھا ہے کہ وفات سے فقط چند ہفتے پیشتر، ایک دوپہر علامہ اقبال نے خاموش لیٹے لیٹے اچانک ’’حقے کا کش لگایا اور کہنے لگے: وسط ایشیاء میں 4 کروڑ تُرک آباد ہیں-ان کا اتحاد کیوں ممکن نہیں؟ میں نے عرض کیا: ’’یہ تحریک تو پرانی ہے، لیکن روس کی وہ کیفیت نہیں جو کبھی تھی، یعنی اشتراکی انقلاب سے پہلے-روس اب تک بہت بڑی طاقت ہے-روس کی موجودگی میں یہ اتحاد کیسے ممکن ہو؟ اس کیلئے بڑی طاقت اور بڑے تدبر کی ضرورت ہے- یوں  بھی وسط ایشیاء میں شاید اب اس قسم کی تحریک کا وجود نہیں-تھا بھی تو 1922ء میں ختم ہوگیا-عثمانی تُرک اپنی الگ تھلگ قومیت کا اعلان کرچکے ہیں- ان کا اور تیموری ترکوں کا رابطہ مدت ہوئی ٹوٹ چکا ہے- یوں بھی روس کی گرفت نے مدت ہوئی اس کا خاتمہ کردیا ہے- حضرت علامہ نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا، البتہ ایک بات پھر کروٹ بدلتے ہوئے فرمایا: ’’وسطِ ایشیاء میں 4 کروڑ تُرک آباد ہیں-تُرک کیوں متحد نہیں ہوتے؟‘‘

کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ
نہ تھے تُرکانِ عثمانی سے کم تُرکانِ تیموری[5]

وسطِ ایشیاء کے مسلمانوں کی بیداری، آزادی اور اتحاد کی یہ آرزو اقبال کی عزیز ترین تمناؤں میں سے ایک ہے- ہر چند وہ اس بات پہ خوش تھے کہ عثمانی ترکوں نے اپنا مقدر اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہےتاہم یہ عمل ان کے لئے ہمیشہ سوہانِ روح بنا رہا کہ تیموری تُرک روسی اشتراکی آمریت کے پنجۂ استبداد میں پڑے تڑپ رہے ہیں-تیموری ترکوں کی آزادی، خود مختاری اور عثمانی ترکوں کے ساتھ ان کا اتحاد و فکر و عمل ایک ایسا خواب تھا جس میں اقبال سوتے جاگتے محو رہا کرتے تھےانہیں یہ حقیقت بلائے نہیں بھولتی تھی کہ ’’بدست مانہ سمرقندوں نے بخارا ایست‘‘ اور وہ بسا اوقات اس بات پر غور و فکر میں مصروف رہتے تھے: ’’کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ/نہ تھے ترکان عثمانی سے کم ترکانِ تیموری‘‘- چنانچہ وہ لوہے کی دیوار ((Iron Curtain کے اس پار اپنا پیغامِ خودی اور خود مختاری پہنچانے میں مصروف رہتے تھے- اپنی نظم ’’تاتاری کا خواب‘‘ میں اگر ایک طرف وہ وسطِ ایشیاء کو کرب و بلا کی انگشتری کا نگینہ قرار دیتے ہیں تو دوسری جانب وہ وسطِ ایشیاء کے باشندوں کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ اپنی اجتماعی خودی کے سوز و ساز سے دنیا کو ایک بار پھر ایک نئے انقلاب کی نوید دیں:

کہیں سجادہ و عمامہ رہزن
کہیں ترسا بچوں کی چشم بے باک!
ردائے دین و ملت پارہ پارہ
قبائے ملک و دولت چاک در چاک!
مرا ایماں تو ہے باقی، و لیکن
نہ کھا جائے کہیں شعلے کو خاشاک!
ہوائے تند کی موجوں میں محصور
سمرقند و بخارا کی کفِ خاک!
'بگردا گردِ خود چند انکہ بینم
بلا انگشتری و من نگینم'

یکا یک ہل گئی خاکِ سمرقند
اٹھا تیمور کی تربت سے اک نور
شفق آمیز تھی اس کی سفیدی
صدا آئی کہ ’’میں ہوں روح تیمور
اگر محصور ہیں مردانِ تاتار
نہیں اللہ کی تقدیر محصور
تقاضا زندگی کا کیا یہی ہے
کہ تورانی ہو تورانی سے مہجور؟‘‘
خودی را سوز و تابے دیگرے دہ
جہاں را انقلابے دیگرے دہ


افغانستان کے سفر کے دوران شہنشاہ بابر کے مزار پر وسطِ ایشیاء کی حیاتِ نو کا یہی خواب نغمے میں ڈھل جاتا ہے:

زمانہ کہنہ بتاں را ہزار بار آراست
من از حرم نگذشتم کہ پختہ بنیاد است
درفش ملت عثمانیاں دوبارہ بلند
چہ کویمت کہ بہ تیموریاں چہ افتادہ است
خوشا نصیب کہ خاک تو آرمید اینجا
کہ این زمین ز طِلسم فرنگِ آزاد است

’’زمانے نے ہزار بار پرانے بتوں کو آراستہ کر کے پیش کیا، (مگر) میں نے حرم کو نہیں چھوڑا، کیونکہ یہ پختہ بنیاد ہے- عثمانیوں کا جھنڈا دوبارہ بلند ہوا، تجھے کیا بتاؤں کہ تیموریوں پر کیا افتاد آن پڑی- تو کیسا خوش نصیب ہے کہ تیرا جسدِ خاکی اس سرزمین میں آرام کر رہا ہے جو فرنگیوں کے طلسم سے آزاد ہے‘‘-

اقبال بابر کے مقدر پر رشک کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی سر زمین میں آسودہ خاک ہے جو طِلسم فرنگ سے آزاد ہے-زیرِ نظر نظم  کے پہلے  شعر میں اقبال نے جہاں بابر کو وہ خوش خبری سنائی ہے کہ اب سازِ فرنگ سے نغمے کی بجائے فریاد سنائی دینے لگی ہے وہاں ترکانِ تیموری کو اشتراکی استبداد کے خلاف  صف آراء ہونے کی تلقین بھی کی ہے-آج اس حقیقت کے ثبوت موجود ہیں کہ سوویت یونین کی سفاک آمریت کے پنجہ استبداد میں تڑپتے ہوئے مسلمانوں تک اقبال کا انقلابی پیغام برابر پہنچتا رہا ہے- اسلام کا چراغ تہِ داماں  ہی سہی روشن رہا ہے اور یوں وسطِ ایشیاء کے مسلمان، درپردہ ہی سہی،  اپنے اپنے مسلک پر قائم رہے- وسطِ ایشیاء میں صدیوں سےمروج صوفی مسالک کے فیضانِ مسلسل پر روشنی ڈالتے ہوئے احمد رشید نے درست لکھا ہے کہ:

“It was the Sufi brotherhoods that kept religious ritual, prayer and the Muslim’s inner life distinct and separate from the communist system. For the past thirty years writers like Alexandre Bennigsen and Enders Wimbush have claimed the Islam was being kept alive in Central Asia through Sufism, which was flourishing as an underground movement. Clearly they were right: the massive Islamic revival that took place during Gorbachev’s glasnot could not have emerged from a vacuum. Sufism was the mystical trend of Islam that orginated in Persia and Central Asia soon after the arrival of the Arabs”.[6]

برصغیر میں تصوف و حکمت اور شعر و ادب کی روایت پر وسطِ ایشیاء کی صوفیانہ و  حکیمانہ اور شعری و فکری تحریکوں کے گہرے اور انمٹ اثرات ہیں- مختلف صوفی مسالک سے منسلک ادیبوں اور شاعروں نے برصغیر کی منفرد ادبی و شاعری روایت کے آغاز و اتقاء میں بنیادی کردار ادا کیا ہے-وسطِ ایشیاء کے روحانی و ادبی روایت نے سید علی ہمدانی المعروف شاہِ ہمدان کے زیر اثر کشمیر میں بطور خاص فروغ پایا ہے-سید علی ہمدانی سے لے کر نور الدین ولی تک فروغ پانے والی ادبی روایت اقبال کو ورثہ میں ملی تھی-اقبال کےگھر کا ماحوال صوفیانہ تھا- نسبی اعتبار سے بھی ان کا خاندان شیخ نور الدین ولی سے منسلک تھا- اقبال کو وسطِ ایشیاء کی صوفیانہ  اور شاعرانہ کی ہر دو روایات گویا گھٹی میں ملی تھیں- خود انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف درج ذیل شعر میں کیا ہے:

اگرچہ زادۂِ ہندم،  فروغِ چشمِ من است
زِ خاکِ پاکِ بخارا و کابل و تبریز!

’’اگرچہ میں ہند میں پیدا ہوا ہوں مگر میری آنکھ بخارا، کابل اور تبریز کی خاکِ پاک سے روشن ہے‘‘-

اقبال مسلمانوں کے ماضی کا خیال کرتے ہیں تو انہیں وسط ایشیاء کا شاندار ماضی یاد آتا ہے- اقبال اسی کے عکس پر وسطِ ایشیاء کا مستقبل تعمیر کرنے کے تمنائی ہیں- اقبال عہدِ حاضر کے یگانہ روزگار شاعر، فلسفی اور دانشور تھے- ان کے فنی اور فکری کمالات کو تین دائرہ ہائے عمل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے-ان کی ذات بیک وقت برصغیر، دُنیائے اسلام اور دنیائے انسانیت کو مادی اور روحانی ترقی و تکمیل کی جانب گامزن دیکھنے کی تمنائی رہی- دنیائے اسلام کا وہ حصہ جسے وسطِ ایشیاء کہتے ہیں ابھی تک بڑی حد تک پردۂ اخفا میں ہے- اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وسطِ ایشیاء پر زارِ روس اور بعد ازاں سوویت  آمریت کا تسلط قائم رہا اور کئی دہائیوں تک وسط ایشیاء اور باقی ماندہ ایشیاء کے درمیان لوہے کی دیوار(Iron Curtain) حائل رہی- اقبال زندگی بھر لوہے کی اس دیوار کو گرانے اور یوں وسط ایشیاء کو ایشیائی بیداری کا نقیب بنانے کے خواب دیکھتے رہے- یہ دیوار اقبال کی وفات کے پون صدی بعد گری اور یوں وسطِ ایشیاء کی محکوم ریاستیں سیاسی آزادی کے پہلے مرحلے میں داخل ہو سکیں-چنانچہ آج  وسطِ ایشیاء ایک بار پھر اقبال کی آرزوؤں کا وسطِ ایشیاء بننے میں کوشاں ہے-

علامہ اقبال اپنے ابتدائی تشکیلی اور تعمیری دور سے لے کر اپنی فکری و فنی تکمیل کے زمانے تک وسطِ ایشیاء کی ادبی و روحانی میراث سے کسبِ فیض کیا تھا- چنانچہ علامہ اقبال پر وسطِ ایشیاء  کی صوفیانہ اور شعری ہر دو روایات کا بڑا اثر تھا-شاہِ ہمدان (﷫) سے لے کر شیخ نور الدین ولی رشی  تک پہنچنے والی صوفیانہ روایت نے اقبال کے آباؤ اجداد سے لے کر خود اقبال کے لڑکپن تک اقبال کو مسحور  رکھا- ہماری ادبی و شعری روایت بڑی حد تک اسی صوفیانہ اور شاعری ادبی روایت کی پروردہ چلی آرہی ہے-اقبال پہلے اس روایت سے بیش  از بیش کتسابِ فیض کرتے ہیں اور پھر اسی روایت کو نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کرتے ہیں- اپنی شاعری اور فکر کے ذریعے اقبال وسط ایشیاء کی محکومی اور وسطِ ایشیاء میں روسی استبداد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں-وہ وسطِ ایشیاء کو پھر سے بیدار ہونے اور تعمیر جہاں میں اپنا کردار ادا کرنے کا فریضہ یاد دلاتے رہتے ہیں-

یوں مَیں اپنے اس ماضی کی یاد میں کھو گیا جو آج ہمارا مستقبل بننے کو بے چین ہے-گردشِ ایام پیچھے کی طرف دوڑنے لگے اور مَیں اقبال کے عہد سے ذرا پیچھے اسلامی ہندوستان کے تہذیبی ماحول میں جا پہنچا-جہاں متاخرین شعرائے فارسی،  سبکِ ہندی کا منفرد اسلوب تراشنے میں مصروف ہیں، پھر یہ اسلوب وادیٔ سند ھ سے ماوراء النہر تک، بنگال سے بوسنیا تک اور خاک کاشغر تک سے نیل کے ساحل تک رواج پاتا اور عہد کا مقبول ترین اسلوب بنتا نظر آتا ہے- یہ وہ زمانہ ہے جب فارسی زبان دنیائے عجم کی تہذیبی و فکری وحدت اور مسلمانوں کے عروج و ارتقاء کی مقبولِ عام ترجمان تھی- پھر وہ وقت آپہنچا جب برطانوی استعمار بلادِ اسلامیۂ ہند میں اپنی جنسِ تجارت اتارتا ہے- کم و بیش اسی زمانے میں زارِ روس وسطِ ایشیاء میں انتشار کے بیج بونا شروع کرتا ہے- چنانچہ اسلامی ہند رفتہ رفتہ برطانوی ہند بن جاتا ہے اور وسطِ ایشیاء، سوویت وسطِ ایشیاء کے نام سے موسوم ہوجاتا ہے-برطانوی اور روسی ہر دو استعمار دنیائے عجم کی وحدت کو پارہ پارہ  کردینے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر فارسی زبان کوجو کہ وسیلۂ اتحاد ہے ، دفتر و دربار اور کوچہ و بازار سےبے دخل کرنے کے لئے ماہرینِ لسانیات کی خدمات مستعار لیتے ہیں-پہلے اردو اور پھر انگریزی کا چلن عام ہوجاتا ہے اور یوں دنیائے اسلام کی لسانی وحدت انتشار کی نظر ہوجاتی ہے- شاعر مشرق علامہ اقبال کا ایک کارنامہ خاص یہ ہے کہ وہ اپنے وقت میں اس وحدت کی باز یافت کی خاطر فارسی شاعری کا آغاز کرتے ہیں اور منجمد خون کی اس پپڑی کو ریزہ ریزہ کردینے میں مصروف  ہوجاتے ہیں جس نے ساری کی ساری دنیائے عجم کے رگ و ریشہ میں زندہ خون کی گردش کو بند کر رکھا تھا-

ہر چند آج وسطِ ایشیاء کے دل پرجمی ہوئی پپڑی (crust) ٹوٹ پھوٹ چکی ہے تاہم اقبال کے چہرے پر آج بھی تشویش کی وہ لہر موجود ہے جو بابر کے مزار پر کھڑے اقبال کے چہرے سے عیاں تھی- اقبال آج بھی متفکرہیں کے بے شک افرنگ تو چلا گیا ہے مگر یہ سر زمینیں ابھی تک طلسم فرنگ سے آزاد نہیں ہو پائیں- ابھی تک وہی پرانے موروثی حکمران بیشتر مسلمان ممالک پر حکمران ہیں جو فرنگی اور روسی استعمار نے اپنے عکس پر پیدا کیے تھے- مجھے یقین ہے کہ جب ہم عالمی استعمار کے اس طلسم کو توڑے میں کامیاب ہوجائیں گے تب اور صرف تب اقبال کا خواب حقیقت کا ورپ دھار سکے گا اور تاجکستان کی سیاسی پارٹی ’’رستا خیز‘‘ کا اقبال سے مستعارترانہ کراں تا کراں گونجنے لگے گا:

ناموس ازل را تو امینی تو امینی
دارای جھان را تو یساری تو یمینی
ای بندۂ خاکے تو زمانی تو زمینی
صہبای یقین در کش و از دیر گمان خیز
از خواب گراں، خواب گراں
 خواب گراں خیز،از خواب گراں خیز

’’تو ہی سرِّ اول کا امین ہے-توپادشاہِ جہاں کا دستِ بازو ہے-اے بندۂ خاکی تو زمانی بھی اور زمینی بھی، صہبائے یقین پی اور ظن وگماں کےبت کدے سے نکل، اس خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں سے بیداہو، خواب گراں سے بیدار ہو ‘‘-

٭٭٭

(ماخوذ از :  اقبال کے سیاسی تصورات، مرتبین: پروفیسر فتح محمد ملک، ناشر:دوست پبلی کیشنز،اسلام آباد)



[1](آصف جیلانی، وسطِ ایشیاء--- نئی آزادی، نئے چیلنج، لاہور، 1996ء، ص:99)

[2](ایضاً)

[3](ایضاً)

[4](رسالہ ’’ہمایوں‘‘، لاہور، اپریل 53، ص:270)

[5](اقبال کے حضور، نشستیں اور گفتگو، لاہور، طبع اول:1971ء)

[6](احمد رشید، The Resurgence of Central Asia, Islam or Nationalism?، کراچی، 1994ء، ص:42)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر