بندہ آزادومحکوم : فکرِ اقبال سے ایک یاددِہانی

بندہ آزادومحکوم : فکرِ اقبال سے ایک یاددِہانی

بندہ آزادومحکوم : فکرِ اقبال سے ایک یاددِہانی

مصنف: ارشد غوث اعوان نومبر 2018

ہر شاعر کے کلام کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہوتا ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ اپنی شاعری کا راستہ متعین کرتا ہے-ایسے ہی حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ کی شاعری کے پس منظر کی جانب نظر دوڑائیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کا ماخذ و منہج قرآن و سنت ہیں-اقبال کسی محدود فکرکے شاعر نہیں ہیں بلکہ آپ کا کلام برکتِ قرآنی سے  آفاقی ہے-جس میں آپ نے عالمگیر نوعیت کے تصورات پیش کیے ہیں - ان میں تصورِ عشقِ رسول(ﷺ)، تصورِ خودی، تصورِ انسان کامل، تصورِ شاہین، تصورِ عقل و دل، تصورِ حُسن و عشق اور تصورِ بندۂ آزاد و محکوم نمایاں ہیں- زیر نظر تحریر میں ان کےموخر الذکر تصور پہ روشنی ڈالی گئی ہے-اگر علامہ اقبال کے کلام کا بنظرعمیق مطالعہ کیا جائے تو تصور بندۂ آزاد و محکوم پر تفصیلاً بحث ملتی ہے- نیز آپ نے بندۂ آزاد کی خوبیاں، بندۂ محکوم کی محکومی کے اسباب، اس پر محکومی کے اثرات اور محکومی سے نکلنے کا علاج بھی تجویز کیا ہے -

(۱)بندۂ محکوم :

محکومی و غلامی سے مراد اپنی خُدا داد آزادی سے محروم ہونا ہے - محکومی محض جسمانی ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کی مختلف انواع ہیں جیسا کہ ذہنی و فکری غلامی، نظریاتی غلامی، اقتصادی و معاشی غلامی، تہذیبی و ثقافتی غلامی، سیاسی و سماجی غلامی وغیرہ- غلامی یا محکومی چاہے کسی بھی نوعیت کی ہو اس کے اثرات فرد پہ انفرادی اور قوموں پر اجتماعی طور پر پڑتے ہیں-اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن جب انسان مالک حقیقی کی ذات کی پیروی سے رُو گردانی کرتا ہےتو وہ کسی اور طاقت کا غلام بن کر اپنا تشخص کھو بیٹھتا ہے-محکومی کے عالم میں انسان شرفِ انسانیت سے اس طرح گِر جاتا ہے کہ وہ چوپایوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے- پھروہ اپنے اندھے پن کی وجہ سے مخلوق کی غلامی پر ہی اکتفا کر لیتا ہے جس طرح اقبال فرماتے ہیں :-

آٓدم از بے بصری بندگی آدم کرد
گوہرے داشت وَلے نذر قباد و جم کرد
یعنی اَز خُوئے غلامی ز سگاں خوار تر است
من نہ دیدم سگِ پیش سگِ سَر خم کرد[1]

’’آدمی نے اندھے پن سے آدمی کی غلامی کی-ایک موتی رکھتا تھامگر (وہ بھی) بادشاہوں (کی قباد اور جمشید) کی نذر کر دیا-یعنی غلامی کی لَت سے کُتوں سے(بھی) بڑھ کر خوار ہے-میں نے نہیں دیکھا کہ کسی کتُے نے کسی کتُے کے آگے سر جھکایا ہو‘‘-

اقبال ایک اور مقام پر اُس قوم پر افسوس کرتے ہیں جس نے اپنے آپ سے آنکھیں بند کرلیں یعنی اپنی حقیقت کو نہیں پہچانا ، اپنا دل کو غیراللہ کے حوالے کردیا جس کی وجہ سے وہ اپنی خودی کھو بیٹھی اور یہ عمل اُس کے زوال کا سبب بن گیا -

آہ از قومے کہ چشم از خویش بست 
بہ غیر اللہ داد، از خود گست[2]

’’افسوس ہے اس قوم پر جس نے اپنے آپ سے آنکھیں بند کر لیں اور غیر اللہ کو دل دے دیا اور اپنی ذات کھو بیٹھی‘‘-

جب غلامی کی جڑیں گہری اور گانٹھیں پختہ ہوجاتی ہیں تو انسان کی فکر پہ پہرے لگ جاتے ہیں، اس کی سوچ منجمد ہوجاتی ہے، اس کا ذہن تقلید پسند ہوجاتا ہے اور وہ جستجو و آرزُو سے دامن چُراتا ہے- اس ضمن میں وہ اپنی صلاحیتوں پر انحصار کرنے کی بجائے دوسروں سے مدد لینے میں عافیت محسوس کرتا ہے اور اس کی فکر و خیال کی جرأت اس کے وجود میں مدھم پڑ جاتی ہے- اس کا نتیجہ اس صورت میں نکلتا ہے کہ خود کو قوم کے رہبر و رہنما سمجھنے والے اپنی دھاک بٹھانے کیلئے خود کو قانونِ الٰہی کے مطابق نہیں ڈھالتے بلکہ کلامِ الٰہی کے معانی و مطالب کو بدل دیتے ہیں-ہر کوئی اپنے اپنے رنگ اور انداز میں قرآنی آیات کا مطلب نکالنے میں مگن ہوتا ہے-

اقبال اس ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں :-

حلقۂ شوق میں وہ جرأتِ اندیشہ کہاں 
آہ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق!
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں 
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق![3]

جب کوئی قوم کسی دوسری قوم کو اپنا فکری، نظریاتی یا نفسیاتی غلام بنانے کی منصوبہ بندی کرتی ہے تو سب سے پہلے اس کے حلقۂ دانش کو اپنی گرفت میں لیتی ہے اور جب وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ جاتے ہیں تو پھر ان کے قول و فعل، کردار، سوچ، نظریے اور قلم سے وہی برآمد ہوتا ہے جس کا انہیں ہدف دیا جاتا ہے گو کہ وہ اپنی قوم کیلئے مسیحا کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے علوم و فنون یکتائے زمانہ ہوتے ہیں- مگر ان کی تعلیم اور فکر کا مقصود فقط یہی ہوتا ہےکہ قوم یہ طرز ِفکر اپنا لے تاکہ ان کی خداداد صلاحیتوں کو دبا دیا جائے -

شاعربھی ہیں پیدا، علماء، حکما بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ!
مقصد ہے اِن اللہ کے بندوں کا مگر ایک 
ہر ایک ہے گو شرحِ معانی میں یگانہ!
’’بہتر ہے کہ شیروں کو سکھادیں رمِ آھُو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ!‘‘
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضا مند 
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ![4] 

کسی قوم کو نظریاتی، فکری اور نفسیاتی غلام بنانے کیلئے علوم و فنون کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا اور اس کی عملی مثال ماضی قریب میں انگریزوں کی برصغیر میں آمد کے بعد کا آرٹ اور لٹریچر ہے-مثلاً برصغیر میں رائج الوقت زبان فارسی کی جگہ انگریزی نے لی اور دفتری زبان قرار پائی جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی انگریزی زبان سیکھنا مجبوری بن گئی،آہستہ آہستہ درس گاہوں میں نصاب تعلیم بھی بدل گیا- اہلِ مغرب کو اس بات کا یقین تھا کہ ان کو تلواروں سے زیر نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان کو نفسیاتی غلام بنایا جائے اور ان کی سوچ و فکر میں دراڑ ڈالی جائے جس سے وہ اپنی شناخت کھو بیٹھیں اور پھر ہم ان کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں -

اقبال اس پسِ منظر کو یوں بیان کرتے ہیں :-

سینے میں رہے رازِ ملوکانہ تو بہتر 
کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زِیر! 
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو 
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھِیر![5]

علامہ اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کی غلامی کی اہم وجہ فکر و فقرِ محمدی (ﷺ)سے دُوری ہے- تاریخِ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے فقرِمصطفوی (ﷺ) سے پہلو تہی کی تو زوال اُن کا مقدر بن گیا، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں :

کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو
کہ تجھ سے ہو نہ سکی فَقر کی نگہبانی![6]

غلامی قوموں پر اَنمٹ نقوش چھوڑتی ہے- ان کے اقوال میں اس قدر تبدیلی آجاتی ہے کہ وہ بد ترین آپشنز کو بہترین سمجھنے لگتے ہیں-

تھا جو ’نا خوب‘ بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا 
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر![7]

   ایک اور مقام پر اقبال یوں گویا ہیں :-

ز محکومی مسلماں خود فروش است 
گرفتارِ طلسمِ چشم و گوش است 
ز محکومی رگاں، در تن چناں سُست
کہ مارا شرع و آئیں بارِ دوش است[8]

’’مسلمان غلامی کی وجہ سے خود کو(اپنے ضمیر کو) بیچتا ہے (وہ) آنکھ اور کان کے جادو(عیش کوشی) میں مصروف ہے-محکومی کی وجہ سے رگیں جسم میں اس طرح سُست ہو چکی ہیں کہ ہمیں شریعت اور اللہ کا قانون کندھوں کا بوجھ معلوم ہوتے ہیں‘‘-

مسلمان نے غلامی کی وجہ سے خود کو اس قدر بیچ ڈالا ہے کہ دیکھنے اور سننے کے باوجود بھی وہ سحر زدہ اور کاہل ہو چکا ہے کہ شریعت اور قانون الٰہی کو کندھوں کا بوجھ سمجھتا ہے - علامہ اقبال کے نزدیک محکوم کے اوپر غلامی اتنی اثر انداز ہوچکی ہے کہ وہ کبھی خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کی کوشش کرتا ہے تو حکمرانوں کی جادو گری انہیں پھر سے غفلت کی نیند سُلا دیتی ہے اور وہ اپنے وجود پہ پڑے غلامی کے طوق کو باعثِ افتخار سمجھتا ہے جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں :-

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر 
پھر سُلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری 
جادوئے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایاز 
دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں سازِ دلبری[9]

اُمتِ مسلمہ نے جب سے مغرب کی سیاسی و فکری تقلید کا راستہ اختیار کیا ہے حقائق اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے ہیں جس کے سبب تباہی و بربادی اس کا مقدر بن گئی ہے- جس تہذیب کی پیروی میں یہ مبتلا ہیں وہ خود دم توڑ رہی ہے لیکن غلامی کے باعث ان کو حقائق نظر نہیں آتے جس کی جانب اقبال یوں اشارہ کرتے ہیں :

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق اُن کو 
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور 
زندہ کر سکتی ہے ایرانِ عرب کو کیونکر
فرنگی مدنیّت کہ جو ہے خود لبِ گور![10]

غلامی انفرادی طور پر انسان کے ظاہری و باطنی وجود پر اثر انداز ہوتی ہے - باطنی حوالہ سے دیکھا جائے تو انسان کا دل مُردہ ہو جاتا ہے اور روح مغلوب ہو جاتی ہے- ظاہری طور پر انسان پہ وقت سے پہلے بڑھاپا آجاتا ہے اور اجتماعی طور پر محکومی ملت کی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے- لوگ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں اور ملت کئی طبقات میں تقسیم ہو جاتی ہے - اقبال اس منظر کو یوں پیش فرماتے ہیں :-

از غلامی دل بمیرد در بدن
از غلامی روح گردد بارِ تن
از غلامی ضعفِ پیری در شباب
از غلامی شیرِ غاب افگندہ ناب
از غلامی بزمِ ملت فرد فرد
اینِ و آں با این و آں اندر نبَرد[11]
 

’’غلامی کے دور میں بدن میں دل مردہ ہو جاتا ہے اور غلامی سے روح بدن کا بوجھ بن جاتی ہے-غلامی سے جوانی کے عالم میں ہی بڑھاپا طاری ہوجاتا ہےاور غلامی سے جنگل کا آزاد شیر وہ شیر بن جاتا ہےجس کے دانت گِر جائیں-غلامی سے مجلس کی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے-یہ اُس سے اور وہ اِس سے جھگڑنے لگتا ہے‘‘-

فکر اقبال کے مطابق غلام کا جسم روح سے خالی ہوتا ہے جس سے کسی قسم کی اچھائی یا بہتری کی امید نہیں رکھی جاسکتی -علامہ اقبال ہمیں یہی درس دیتے ہیں کہ:

از غلامے ذوقِ دیدارے مجوے
از غلامے جانِ بیدارے مجوے[12]
 

’’کسی غلام کے دل میں دیدار کا شوق تلاش کرنے کی کوشش نہ کراور کسی غلام میں اس کی روح کے زندہ ہونے کی رمق تلاش نہ کر‘‘-

مادی غلامی انسان کواس قدر غافل کر دیتی ہےکہ اس ذات تک پہنچنا تو درکنار اس ذات کی یاد بھی دل سے معدوم ہو جاتی ہےجس کی بدولت روحانیت مغلوب اور مادیت غالب آجاتی ہے-علامہ اقبال نے اسی بات پہ روشنی ڈالی ہے کہ بندہ محکوم سے کبھی بھی یہ توقع نہ رکھنا کہ اس کے دل میں طلبِ الہی پیدا ہوگی اور اس کی روحانیت بیدار ہوگی-ایسا ناممکن ہے کیونکہ وہ کوشش ہی نہیں کرتا-

(۲) بندۂ آزاد:

بندۂ آزاد سے مراد وہ انسان ہے جو کسی انسان کا دست نگر نہیں ہوتا بلکہ اس کی تمام تر توقعات اور امیدوں کا مرکز و محور ذات باری تعالیٰ ہوتی ہے وہ اسی کے سامنےجھکتا ہے اور اسی سے مدد مانگتا ہے- وہ بندۂ محکوم کی طرح ہَوس کا پُجاری نہیں بلکہ حُریّت و خود شناسی کا پیکر ہوتا ہے- علامہ اقبال  کا بندہ آزاد اس ضابطہ کا پابند ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب پاک (ﷺ) نے انسان کیلئے تشکیل دیا ہے-انہوں نے مرد حُر کی وہی خصوصیات بیان کی ہیں جن کا حوالہ قرآن وسنت میں موجو دہے اللہ تعالیٰ کی ذات حاکم ہے اور انسان محکوم- لیکن اس حقیقت کو صحیح معنوں میں صرف بندۂ آزاد ہی سمجھتا ہے اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتا ہے-حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ نے اس نقطہ کو اس طرح پیش کیا ہے:-

تری دنیا میں مَیں محکوم و مجبور
مری دنیا میں تیری پادشاہی[13]

جب وجود انسانی میں روح بیدار ہوجاتی ہے تو اپنی حقیقت سے آگاہ ہونے کے بعدمالک حقیقی کی معرفت حاصل کرلیتی ہے اور پھر اس کی طاقت لامحدود ہوجاتی ہے- وہ زمان و مکاں کی قیود سے آزاد ہوجاتی ہے-اسی طرح مردِ آزاد بھی ہر طرح کی قید و بند سے آزاد ہوتا ہےاور مادیت کی جکڑ بندیوں کو توڑنے کی سعی کرتا ہے کیونکہ اب وہ لامکاں کا شہباز بن چکا ہے-بقول اقبالؒ:

جاں نگنجد در جہات اے ہوش مند
مردِ حُر بیگانہ از ہر قید و بند
حُر ز خاکِ تیرہ آید در خروش
زانکہ از بازاں نیاید کار موش![14]

’’اے صاحبِ ہوش و خرد! جان اطراف یعنی زمان و مکاں کی حدود میں نہیں سماتی-آزاد مرد یا (مردحق) ہر طرح کی قید و بند سے آزاد ہوتا ہے-آزاد مرد سیاہ مٹی کے خلاف احتجاج کرتا ہے،اس لئے کہ بازوں سے چوہوں کا کام نہیں ہوتا‘‘-

معرفت ِالٰہی حاصل کر لینے کے بعد اسے فنائیت نصیب ہو جاتی ہےیعنی وہ فنا فی اللہ کے مقام پہ پہنچ جاتا ہے-وہ اس مقام پہ رک نہیں جاتا بلکہ بقاء  کی منزل پا لیتا ہے-اس مقام پہ جسم اور روح کی تکرار ختم ہو جاتی ہے اور اس کیفیت میں مرد ِآزاد دنیاوی و اخروی جہان کو قید خانہ محسوس کرتا ہے-بقول علامہ اقبالؒ:

ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی[15]

بندۂ آزاد اللہ تعالیٰ کے اتنا قریب ہوتا ہے کہ اس کے دل سے غیراللہ کا خوف مٹ جاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہر وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پھر رہا ہوتاہے، وہ کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتا اور اس کے دل سے ماسویٰ اللہ کا نقش مٹ چکا ہوتا ہے جس کی بدولت وہ کسی مطلق العنان اورامیر کی غلامی اختیار نہیں کرتا-وہ ذاتِ باری تعالیٰ کیلئے ہر طرح کی مشکل برداشت کرتا ہے روکھی سوکھی کھا کر گزارا کر لیتا ہے لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا-دین سے متعلقہ معاملات میں سُنی سنائی باتوں پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ جو بات کرتا ہے اسے مشاہدہ نصیب ہوتا ہے- وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے دست مبارک سے شراب ِالست پیتا ہے- اس میں قوموں کی عظمت اور پیشانی پر ان کی تقدیر کندہ ہوتی ہے- بقول علامہ اقبال (﷫):

مردِ حُر محکم ز وردِ لاتخف
ما بمیداں سر بجیب او سر بکف
مرد حُر از لَا اِلٰہ روشن ضمیر
می نگردد بندۂ سُلطان و میر
مردِ حُر چوں اشتراں بارے برد
مردِ حُر بارے برد خارے خورد
سرِّ دیں مارا خبر، او را نظر
او درونِ خانہ، ما بیرونِ در
دارد اندر سینہ تکبیرِ اُمم
در جبینِ اوست تقدیرِ اُمم[16]

’’مردِحُر لاتخف کے ورد سے قوی ہے-ہم تو میدان میں سر جھکائے آتے ہیں لیکن وہ موت سے بے خوف سر ہتھیلی پر رکھے نکلتا ہے-مردِ حُر لا الہ سے روشن ضمیر ہے،وہ کسی سلطان اور امیر کا غلام نہیں ہوتا- مردِ حُر اونٹوں کی مانند بوجھ اٹھاتا ہے اور کانٹے کھا کر گزارا کرتا ہے-دین کے راز ہمارے لئے خبراور اس کےلئے نظر کی حیثیت رکھتے ہیں-گویا وہ گھر کے اندر ہے اور ہم دروازے سے باہر ہیں-اس کے سینے میں قوموں کی عظمت ہے-اس کی پیشانی پر اقوام کی تقدیر لکھی ہے‘‘-

مردِ حُر وہ خوش نصیب شخص ہےجس کے مقدر میں اللہ تعالیٰ نے جلوۂ حق رکھ دیا ہے- جیسا کہ اقبال بندۂ آزادکی خصوصیت کو بیان کرتے ہیں :

جلوۂ حق گرچہ باشد یک نفس
قسمتِ مردان آزاد است و بس
مردے آزادے چوں آید در سجود
در طوافش گرم رو چرخِ کبود[17]

’’اللہ تعالی کا جلوہ اگرچہ ایک لحظہ کا ہوتا ہے-تاہم ہے وہ آزاد مردوں ہی کے مقدر میں اور بس-جب جب کوئی آزاد مرد سجدے میں گرتا ہے تو یہ نیلا آسمان اس کے طواف میں گرم ہو جاتا ہے‘‘-

(۳)بندۂ آزاد اور محکوم کا تقابل:

تعلیماتِ اقبال میں تصور بندۂ آزاد و محکوم ایک تسلسل کے ساتھ موجود ہے - ان کی اردو اور فارسی شاعری میں کئی کئی نظمیں اس موضوع کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں جہاں وہ غلامی کی وجوہات و اثرات پہ بات کرتے ہیں وہیں بندۂ آزاد کی خصوصیات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں،ان کے ہاں بندۂ محکوم کی نسبت بندہ آزاد کو زیادہ فوقیت حاصل ہے - اس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ آزاد ظاہری و باطنی طور پر مکمل ہوتا ہے یعنی کہ خود کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھال چکا ہوتا ہے - اس کا وجودمجسم قرآن بن جاتا ہے جبکہ بندۂ محکوم خود کی شناخت کھونے کی وجہ سے دین الٰہی کی رُوح سے دور اور مقاصد سے بے خبر ہوجاتا ہے-اس کا ضمیرمردہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اچھائی اور برائی کی تمیز ختم ہوجاتی ہے، وہ نہ صرف دنیا میں رُو بہ زوال ہوتا ہے بلکہ اسے قبر میں بھی احساس ندامت سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور قبر پکار اٹھتی ہے کہ اے بندۂ محکوم تیرا وجود میرے لیے اللہ کا عذاب ہے اور تُونے میری تاریکیوں میں مزید اضافہ کردیا ہے-

آہ ظالم! تُو جہاں میں بندۂ محکوم تھا؟
میں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک مری سوز ناک
تیری میّت سے میری تاریکیاں تاریک تر
تیری میّت سے زمیں کا پردۂ ناموس چاک!
الحذر محکوم کی میّت سے سو بار الحذر
اے سرافیل! اے خدائے کائنات! اے جان ِ پاک![18]

جب بندۂ آزاد سلک سلوک کی منازل طے کر لیتا ہے تو اس پر بارگاہِ ایزدی سے خصوصی رحمت و شفقت کے دروَا ہو جاتے ہیں-اس کا کلام قوموں میں بیداری کی نئی روح پھونک دیتا ہے اور ان میں عمل کا جذبہ پیدا کرتاہے -اُس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر خواب غفلت سے بیدار ہُوا جا سکتا ہے اور اس کی صحبت سے انسان شرفِ انسانیت پر فائز ہوجاتا ہے - اس کے برعکس بندۂ محکوم کی تعلیمات قوموں میں غلامی کو فروغ دیتی ہیں اور اس کا الہام اس کی مانند غلام ہوتا ہے اور اس میں فکرو خیال کی بلندی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے قومیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں-

ہو بندۂ آزاد اگر صاحبِ الہام
ہے اس کی نگہ فکر و عمل کے لئے مہمیزً!
اس کے نَفَسِ گرم کی تاثیر ہے ایسی
ہو جاتی ہے خاکِ چمنستاں شرر آمیز!
اس مردِ خود آگاہ و خدامست کی صحبت
دیتی ہے گداؤں کو شکوہ ِ جم و پرویز!
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے
غارت گِر اقوام ہے وہ صورتِ چنگیز
[19]

اگر مغلوب اقوام کی درس گاہوں اور نصاب تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ وہاں پہ صرف مادیت کی تعلیم کو فروغ دیا جارہا ہے جس کے پیچھے صرف یہ مقصد کارفرماہے کہ یہ قوم غلامی کے شکنجے میں جکڑی رہے- دوسری جانب آزاد اقوام انہیں سمجھا جاتا ہے جو آزادی و خود داری کو فوقیت دیتی ہیں-غلام لوگوں کی ذہنی پستی کی وجہ سے ان کی خودی بھی مردہ ہو جاتی ہے جس طرح اقبال فرماتے ہیں :

آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال
کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات!
آزاد کا ہر لحظہ پیامِ اَبَدِیّت
محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگِ مفاجات![20]

بلکہ اسی نظم کے اگلے حصے میں علامہ اقبال مزید اس نکتے کی وضاحت کرتے ہیں کہ بندۂ آزاد کی سوچ ہمیشہ مثبت سمت میں سفر کرتی ہے اور اس کے ذہن میں جو خیالات پیدا ہوتے ہیں وہ حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں جبکہ بندۂ محکوم کی فکر وسوچ میں منفی خیالات جنم لیتے رہتے ہیں اور وہ جو کچھ سوچتا ہے وہ محض خیالی دنیا اور خرافات کا مجموعہ ہوتا ہے اسی طرح غلام کو اپنے اسلاف کی کرامات کا بہت مان ہوتا ہے اور وہ ان کو اپنا سب کچھ سمجھتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ خود عمل سے عاری ہوتا ہے-اس کے برعکس بندۂ آزاد کا وجود خود ایک زندہ کرامت ہوتی ہے-

آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور
محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خرافات
محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات!

اگر امت مسلمہ غلامی کے زناروں کو توڑنا چاہتی ہے تو سب سے پہلی رہنمائی حضور رسالت مآب(ﷺ) کے اسوۂ حسنہ سے ملتی ہے کہ جس وقت آقا کریم(ﷺ) کی ذات مقدسہ کا ظہور ہوا اس وقت عرب معاشرہ گھمبیر صورتحال سے دو چار تھا- انسانوں کے ساتھ وحشیانہ برتاؤ کیا جاتا تھا- آپ (ﷺ) نے آکر غلامی کے تمام بندھنوں کو توڑ دیا اور انسانیت کو اس کا کھویا ہوا شرف واپس دلایا اور ایک وقت آیا کہ ایسا مثالی معاشرہ قائم ہوا جس پہ شَرق و غَرب کی اقوام نازاں ہوئیں-اسی طرز فکر کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ مسلمان فقط ذات باری تعالیٰ اور آقاکریم(ﷺ) کی غلامی قبول کرسکتاہے اس کے علاوہ دنیا کی کوئی طاقت اسے اپنا غلام نہیں بنا سکتی-جب مسلمان اس مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو اس پہ علامہ اقبال کے نزدیک ہزاروں آزادیاں قربان کی جاسکتی ہیں:

ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی[21]

فکرِ اقبال ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ موجود ہ دور میں اگر ہم غلامی کی ہر قسم سے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں کسی بندۂ آزاد یا مردِ خود آگاہ کی صحبت اختیار کرنا ہوگی - اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ہم ان سلاسل کو توڑ سکیں- علامہ اقبال حضورنبی کریم (ﷺ)  کی بارگاہ میں عرض گزاری کرتے ہیں کہ:

تو ازآں قومے کہ جامِ او شکست
و انما یک بندۂ اللہ مست
تا مسلمان باز بیند خویش را
از جہانے برگزیند خویش را[22]

’’حضور نبی کریم (ﷺ)آپ اس قوم میں سے ،جس کا جام ٹوٹ چکا ہےکسی درویش خدا مست کو ظاہر فرما دیجئے -تاکہ مسلمان پھر اپنے آپ کو پا لےاور اس طرح خود کو دنیا میں برگزیدہ بنا لے‘‘-

مردِ حُر کی صحبت آدمی کو انسان بنا دیتی ہے-انسان کا دل اس وقت تک غیر ماسوی ٰ اللہ سے پاک نہیں ہوتا جب تک کہ صاحبِ دل کی نظر اس پر نہ پڑے اور اِس دنیامیں اُس وقت تک ذلت و رسوائی انسان کا مقدررہتی ہے جب تک وہ کسی صاحبِ دل کا دامن نہیں تھام لیتا- اس لئے اقبال آج کی نوجوان نسل کو نصیحت فرماتے ہیں کہ:-

اے جواں دامان اُو محکم بگیر
دَر غلامی زادۂٖ آزاد میر[23]

’’اے جوان نسل ایسے صاحب ِ دل کا دامن مضبوطی سے تھام لے (جیسے )تیری پیدائش غلامی میں ہوئی ہے-مرتو آزادی کی حالت میں ( آزادی کی موت پالے )‘‘-

یہاں حکیم الامت اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ تم آزادی کی موت چاہتے ہو توکسی مردِ قلندر کی صحبت یا غلامی کےبغیر یہ ممکن نہیں کیونکہ:

نہ تخت و تاج میں، نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے[24]

حکیم الامت کی تعلیمات اس بات کا درس دیتی ہیں کہ مرد مسلمان غلامی کی زندگی بسر نہیں کر سکتا-اس کیلئے محکومی مقام موت ہوتا ہے-اس لیے آپ یہ پیغام دیتے ہیں کہ اگر اس جہاں میں رہنا ہے تو آزاد مردوں کی طرح رہنا سیکھو-یہ اسی صورت ممکن ہے جب انسان کو کوئی ایسا راہبر کامل مل جائے جو اس پر مقام ِ انسانیت کے راز فاش کرے-آج امتِ مسلمہ جس زبوں حالی کا سامنا کر رہی ہے اور غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے-اس سے نجات کا اقبال کے نزدیک فقط ایک ہی حل ہے کہ ہم اپنا ناطہ اور تعلق ذاتِ الٰہی اور محبوب الٰہی(ﷺ) سے مضبوط کریں-

٭٭٭


[1](غلامی، پیام مشرق)

[2](سیاسیاتِ حاضر، مسافر مثنوی)

[3](اجتہاد، ضرب کلیم)

[4](نفسیاتِ غلامی، ضرب کلیم)

[5](نصیحت، ضرب کلیم)

[6](سلطانی، ضربِ کلیم)

[7]( تن بہ تقدیر، ضرب کلیم)

[8](حضورِ حق : ارمغان حجاز)

[9](سلطنت، خضر راہ ، بانگِ درا)

[10](اقوامِ مشرق، ضرب کلیم)

[11](بندگی نامہ، زبور عجم)

[12](مذہب غلاماں، زبور عجم)

[13](بال جبریل )

[14](دین و وطن، جاوید نامہ)

[15](بالِ جبریل)

[16](مردِ حُر، مسافر مثنوی)

[17](سیاسیات حاضرہ، مسافر مثنوی)

[18](ارمغان حجاز)

[19](الہام اور آزادی، ضرب کلیم)

[20](ہندی مکتب، ضربِ کلیم)

[21](بانگِ درا)

[22](درحضور رسالت مآب، مسافر مثنوی )

[23](اَشک چند برافتراق ہندیاں، مسافر مثنوی)

[24]( بالِ جبریل)

ہر شاعر کے کلام کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہوتا ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ اپنی شاعری کا راستہ متعین کرتا ہے-ایسے ہی حکیم الامت علامہ محمد اقبال (﷫) کی شاعری کے پس منظر کی جانب نظر دوڑائیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کا ماخذ و منہج قرآن و سنت ہیں-اقبال کسی محدود فکرکے شاعر نہیں ہیں بلکہ آپ کا کلام برکتِ قرآنی سے  آفاقی ہے-جس میں آپ نے عالمگیر نوعیت کے تصورات پیش کیے ہیں - ان میں تصورِ عشقِ رسول(ﷺ)، تصورِ خودی، تصورِ انسان کامل، تصورِ شاہین، تصورِ عقل و دل، تصورِ حُسن و عشق اور تصورِ بندۂ آزاد و محکوم نمایاں ہیں- زیر نظر تحریر میں ان کےموخر الذکر تصور پہ روشنی ڈالی گئی ہے-اگر علامہ اقبال کے کلام کا بنظرعمیق مطالعہ کیا جائے تو تصور بندۂ آزاد و محکوم پر تفصیلاً بحث ملتی ہے- نیز آپ نے بندۂ آزاد کی خوبیاں، بندۂ محکوم کی محکومی کے اسباب، اس پر محکومی کے اثرات اور محکومی سے نکلنے کا علاج بھی تجویز کیا ہے -

(۱)بندۂ محکوم :

محکومی و غلامی سے مراد اپنی خُدا داد آزادی سے محروم ہونا ہے - محکومی محض جسمانی ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کی مختلف انواع ہیں جیسا کہ ذہنی و فکری غلامی، نظریاتی غلامی، اقتصادی و معاشی غلامی، تہذیبی و ثقافتی غلامی، سیاسی و سماجی غلامی وغیرہ- غلامی یا محکومی چاہے کسی بھی نوعیت کی ہو اس کے اثرات فرد پہ انفرادی اور قوموں پر اجتماعی طور پر پڑتے ہیں-اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن جب انسان مالک حقیقی کی ذات کی پیروی سے رُو گردانی کرتا ہےتو وہ کسی اور طاقت کا غلام بن کر اپنا تشخص کھو بیٹھتا ہے-محکومی کے عالم میں انسان شرفِ انسانیت سے اس طرح گِر جاتا ہے کہ وہ چوپایوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے- پھروہ اپنے اندھے پن کی وجہ سے مخلوق کی غلامی پر ہی اکتفا کر لیتا ہے جس طرح اقبال فرماتے ہیں :-

آٓدم از بے بصری بندگی آدم کرد
گوہرے داشت وَلے نذر قباد و جم کرد
یعنی اَز خُوئے غلامی ز سگاں خوار تر است
من نہ دیدم سگِ پیش سگِ سَر خم کرد[1]

’’آدمی نے اندھے پن سے آدمی کی غلامی کی-ایک موتی رکھتا تھامگر (وہ بھی) بادشاہوں (کی قباد اور جمشید) کی نذر کر دیا-یعنی غلامی کی لَت سے کُتوں سے(بھی) بڑھ کر خوار ہے-میں نے نہیں دیکھا کہ کسی کتُے نے کسی کتُے کے آگے سر جھکایا ہو‘‘-

اقبال ایک اور مقام پر اُس قوم پر افسوس کرتے ہیں جس نے اپنے آپ سے آنکھیں بند کرلیں یعنی اپنی حقیقت کو نہیں پہچانا ، اپنا دل کو غیراللہ کے حوالے کردیا جس کی وجہ سے وہ اپنی خودی کھو بیٹھی اور یہ عمل اُس کے زوال کا سبب بن گیا -

آہ از قومے کہ چشم از خویش بست
بہ غیر اللہ داد، از خود گست[2]

’’افسوس ہے اس قوم پر جس نے اپنے آپ سے آنکھیں بند کر لیں اور غیر اللہ کو دل دے دیا اور اپنی ذات کھو بیٹھی‘‘-

جب غلامی کی جڑیں گہری اور گانٹھیں پختہ ہوجاتی ہیں تو انسان کی فکر پہ پہرے لگ جاتے ہیں، اس کی سوچ منجمد ہوجاتی ہے، اس کا ذہن تقلید پسند ہوجاتا ہے اور وہ جستجو و آرزُو سے دامن چُراتا ہے- اس ضمن میں وہ اپنی صلاحیتوں پر انحصار کرنے کی بجائے دوسروں سے مدد لینے میں عافیت محسوس کرتا ہے اور اس کی فکر و خیال کی جرأت اس کے وجود میں مدھم پڑ جاتی ہے- اس کا نتیجہ اس صورت میں نکلتا ہے کہ خود کو قوم کے رہبر و رہنما سمجھنے والے اپنی دھاک بٹھانے کیلئے خود کو قانونِ الٰہی کے مطابق نہیں ڈھالتے بلکہ کلامِ الٰہی کے معانی و مطالب کو بدل دیتے ہیں-ہر کوئی اپنے اپنے رنگ اور انداز میں قرآنی آیات کا مطلب نکالنے میں مگن ہوتا ہے-

اقبال اس ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں :-

حلقۂ شوق میں وہ جرأتِ اندیشہ کہاں
آہ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق!
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق![3]


جب کوئی قوم کسی دوسری قوم کو اپنا فکری، نظریاتی یا نفسیاتی غلام بنانے کی منصوبہ بندی کرتی ہے تو سب سے پہلے اس کے حلقۂ دانش کو اپنی گرفت میں لیتی ہے اور جب وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ جاتے ہیں تو پھر ان کے قول و فعل، کردار، سوچ، نظریے اور قلم سے وہی برآمد ہوتا ہے جس کا انہیں ہدف دیا جاتا ہے گو کہ وہ اپنی قوم کیلئے مسیحا کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے علوم و فنون یکتائے زمانہ ہوتے ہیں- مگر ان کی تعلیم اور فکر کا مقصود فقط یہی ہوتا ہےکہ قوم یہ طرز ِفکر اپنا لے تاکہ ان کی خداداد صلاحیتوں کو دبا دیا جائے -

شاعربھی ہیں پیدا، علماء، حکما بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ!
مقصد ہے اِن اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرحِ معانی میں یگانہ!
’’بہتر ہے کہ شیروں کو سکھادیں رمِ آھُو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ!‘‘
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضا مند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ![4]

کسی قوم کو نظریاتی، فکری اور نفسیاتی غلام بنانے کیلئے علوم و فنون کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا اور اس کی عملی مثال ماضی قریب میں انگریزوں کی برصغیر میں آمد کے بعد کا آرٹ اور لٹریچر ہے-مثلاً برصغیر میں رائج الوقت زبان فارسی کی جگہ انگریزی نے لی اور دفتری زبان قرار پائی جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی انگریزی زبان سیکھنا مجبوری بن گئی،آہستہ آہستہ درس گاہوں میں نصاب تعلیم بھی بدل گیا- اہلِ مغرب کو اس بات کا یقین تھا کہ ان کو تلواروں سے زیر نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان کو نفسیاتی غلام بنایا جائے اور ان کی سوچ و فکر میں دراڑ ڈالی جائے جس سے وہ اپنی شناخت کھو بیٹھیں اور پھر ہم ان کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں -

اقبال اس پسِ منظر کو یوں بیان کرتے ہیں :-

سینے میں رہے رازِ ملوکانہ تو بہتر
کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زِیر!
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھِیر![5]

علامہ اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کی غلامی کی اہم وجہ فکر و فقرِ محمدی (ﷺ)سے دُوری ہے- تاریخِ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے فقرِمصطفوی (ﷺ) سے پہلو تہی کی تو زوال اُن کا مقدر بن گیا، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں :

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر