علامہ اقبال اور اسلام کا سیاسی نظام

علامہ اقبال اور اسلام کا سیاسی نظام

علامہ اقبال اور اسلام کا سیاسی نظام

مصنف: پروفیسرفتح محمد ملک اپریل 2016

آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاسی پلیٹ فارم سے جدید سیاسی نظریات کی روشنی میں قیامِ پاکستان کا مطالبہ ﴿۱﴾ کرنے سے اکیس سال پیشتر اقبال نے جمہوریت کو اسلام کا مثالی سیاسی نظام قرار دیا تھا- ’’ اسلام کا آئیڈیل اخلاقی اور سیاسی نظام ‘‘ کے عنوان سے اپنے طویل انگریزی مضمون میں اقبال نے مکمل انسانی مساوات پر مبنی جمہوریت کو اسلام کا مثالی سیاسی نظام قرار دیا تھا- انہوں نے بڑی قطعیت کے ساتھ دعویٰ کیا تھا کہ    :

There is no aristocracy in Islam. " The noblest you,'' says the Prophet '' are those who fear God Most.'' There is no privileged class, no priesthood, no caste system. Now, this princple of the equality of all believers made early Musalmans the greatest political power in the world. Islam worked as a levelling force; it gave the individual a sense of his inward power; it elevated those who were socially low. The elevation of the down-trodden was the chief secret of the Muslim political power in India.'' (2)

’’اسلام میں حکومت اشرافیہ کی ملکیت نہیں ہے نبی اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ" تم میں سے بہترین وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے" یہاں کوئی طبقاتی برتری، مذہبی برتری، ذات پات کا نظام نہیں ہے- اب تمام مومنین کی برابری کے اس اصول نے ابتدائی مسلمانوں کو دنیا کی عظیم ترین سیاسی قوت بنا دیا- اسلام نے مساواتی قوت کے طور پر کام کیا اس نے فرد کو اپنی قوتِ باطنی کا احساس دیا، یہ اُن لوگوں کو اوپر لایا جو معاشرتی طور پر پسے ہوئے تھے- مظلوم طبقے کو اوپر لانا انڈیا میں مسلم سیاسی قوت کا سب سے بڑا راز تھا    ‘‘-

 

درج بالا سطور میں علامہ اقبال نے انسانوں کے درمیان مکمل مساوات کے تصوّر سے پھوٹنے والے اسلامی جمہوری نظام کے حق میں بڑا مؤثر استدلال کیا ہے- اسلام میں نسلی طبقاتی امتیازات ناپید ہیں - چنانچہ اسلامی معاشرے میں نہ کوئی اشراف ہے اور نہ ہی کوئی کمین- شرفِ انسانیت میں سبھی برابر ہیں - تمام انسانوں کے حقوق یکساں ہیں - یہاں نہ دیوتائوں کا قائم کردہ ذات پات کا کوئی نظام موجود ہے اور نہ ہی پاپائیت کا سا کوئی ادارہ- سچے اسلامی معاشرے میں انسانوں میں برتری کا واحد معیار نیکی اور پاکیزگی ہے - اِ ن میں بنیادی تصوّرات سے پھوٹنے والے معاشرے میں مکمل اور شفاف جمہوریت کے سوا اور کوئی سیاسی نظام نہ تو نمودار ہوسکتا ہے اور نہ ہی پنپ سکتا ہے- جس زمانے میں اقبال نے درج بالا خیالات کا اظہار کیا تھا عین اُسی زمانے میں انہوں نے اپنے  Stray Reflectionsمیں ایک مختصر تحریر بعنوان Divine Right to Ruleقلمبند فرمائی تھی - اِن شذراتِ فکرِاقبال میں اُس خدا ئی حقِ حکمرانی کو کذب و افترا پر مبنی ٹھہرایا گیا ہے جس کی رُو سے زمانۂ جاہلیت میں موروثی شہنشاہیت بر حق قرار دی گئی تھی - اقبال کے خیال میں خاندانی شہنشاہیت کا تصوّر بادشاہوں کی ہوسِ اقتدار نے جنم دیا تھا نہ کہ خداوندِ کریم نے - اپنی اس تحریر کے آغاز میں اقبال خدائی حقِ حکمرانی کے تصوّر کو درج ذیل استدلال کے ساتھ غیر اسلامی قرار دیتے ہیں:

'' The theory of divine right of Kings is as old as the institution of kingship itself. As logical corollaries from this follow two other most important princples. Firstly, the king, being a representative of God on earth, is free from all responsibility to his people. His word is law and he may do whatever his sweet will may dicate without being called to account for it. Secondly, kingship must descend into the same family which is considered sacred.'' (3)

’’سماوی حق شاہی کا نظریہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ بذاتِ خود بادشاہت کا نظام- منطقی تجزیہ سے ﴿بادشاہت/ شہنشاہیت کے ﴾ دو اہم ترین اصول اخذ کئے جا سکتے ہیں- اوّل یہ کہ زمین پر خدا کا نمائندہ ہونے کے ناطے اپنی رعایا کی تمام تر ذمہ داریوں سے مبرائ ہے- اس کے الفاظ ہی قانون ہیں اور وہ احتساب سے بالاتر ہو کر اپنی مرضی سے جو چاہے کرے- دوسرا یہ کہ بادشاہت لازماً اسی خاندان سے ہوگی جسے مقدس جانا گیا ہے‘‘-

خدائی حقِ حکمرانی کے تصور کے درج بالا تعارف کے بعد اقبال اس کی نفی میں آنحضورﷺ کے طرزِ حکومت کی انسان دوست روح کو منکشف کرتے ہیں اور پھر اِس انکشاف کی روشنی میں حکمرانی کے خدائی حق کو باطل ثابت کرتے ہیں - بعد ازاں ہمیں اسی اندازِ فکر و نظر کی ارتقائی صورت اسلامی فکر کی نئی تشکیل کے موضوع پر اُن کے خطبات میں بھی کارفرما نظر آتی ہے- ’’ اسلامی کلچر کی روح‘‘ کے موضوع پر اقبال اپنے ارشادات کے آغاز میں عقیدۂ ختمِ نبوت کی کلچرل معنویت کو اُجاگر کرتے وقت بڑے قطعی اور دو ٹوک انداز میں لکھتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں نبوت کے ساتھ ساتھ خاندانی شہنشاہیت اور مُلائیت کے ادارے بھی رفت گزشت ہو کر رہ گئے تھے- ’’ اسلام کی ساخت میں اصولِ حرکت‘‘ کے موضوع پر اپنے خطبے میں توحید کے تصوّر کی روشنی میں اسلامی ریاست کا سب سے بڑا فرض یہ بتاتے ہیں کہ وہ انسانی اخوت و مساوات کی بُنیاد پر انسانی آزادی کی پرورش اور نگہداشت کا فریضہ سر انجام دے- چنانچہ:

 

'' The essence of Tauhid, as a working idea, is equality, solidarity, is an endeavour to transform these ideal princples into space-time forces, an aspiration to realize them in a definite human organization.'' (4)

’’ایک عملی نصب العین کے طور پرتوحید کی اصل روح مساوات اور یکجہتی ہے اور ان مثالی اصولوں کو زمان و مکان کی قوت میں ڈھالنے کی جدو جہد کرنا ہے اور اس بات کی آرزو کہ ان کو ایک خاص انسانی نظام کے طور پر اپنانا ہے‘‘-

قرنِ اوّل کے مسلمانوں نے توحید پرستی کی اسی اساس پر ایک نئے کلچر کی بنیاد رکھ دی تھی - اپنے اسی خطبے کے آغاز میں اقبال ہمیں اِس نئے انسانی کلچر کے فکری محرکات اور عملی اثرات سے یوں متعارف کراتے ہیں:

'' The new culture finds the foundation of world- unity in the princple of Tauhid. Islam, as a polity, is only a practical means of making this princple a living factor in the intellectual and emotional life of mankinde. It demands loyalty to God, not to thrones. And since God is the ultimate spiritual basis of all life, loyalty to God virtually amounts to man's loyalty to his own ideal nature, The ultimate spiritual bases of all life, as conceived by Islam, is eternal and reveals itself in variety and change, A society based on such a conception of Reality must reconcile, in its life, the categories of permanence and change.'' (5)

’’ نئی تہذیب عالمی اتحاد کو توحید کی بنیاد پہ تلاش کرتی ہے- ایک سیاسی نظام کے طور پر اسلام فقط اس اصول کو عقلی اور جذباتی زندگی میں زندہ رکھنے کاعملی طریقہ ہے- یہ خدا کے ساتھ وفاداری کا تقاضا کرتا ہے نہ کہ تخت کے ساتھ- اور چونکہ خدا تمام موجودات کا مطلق روحانی مآخذ ہے، خدا کے ساتھ وفاداری دراصل انسان کو اپنی حقیقی فطرت کے ساتھ وفاداری سے جوڑ دیتی ہے- اسلام کے تصورات میں تمام زندگی کی حقیقی روحانی بنیاد ابدی ہے اور اپنے آپ کو تنوّع اور تبدّل میں منکشف کرتی ہے - حقیقت کے ایسے تصورات پر مبنی معاشرے کو اپنی زندگی میں ابدیت و تغیر پذیری کے عوامل میں موافقت رکھنی لازم ہے‘‘-

اوپر کی سطروں میں اقبال نے اسلام کے تصوّرِ توحید سے پھوٹنے والے جس نئے کلچر کی نشاندہی کی ہے وہ وحدتِ انسانی کا علمبردار ہے - اُن کے خیال میں اسلامی سیاست اس تصورِ توحید کو انسانی معاشرے میں ایک زندہ حقیقت کا روپ بخش سکتی ہے:

یہی دینِ محکم، یہی فتح باب 

کہ دُنیا میں توحید ہو بے حجاب 

اسلامی سیاست اِس تصوّرِ توحید کو انسان کی عقلی اور جذباتی زندگی میں ایک زندہ و فعال قوت بنا دینے کا نام ہے - چنانچہ ایک توحید پرست معاشرے میں اخوت ، حریت اور مساوات پر مبنی نظامِ اقدار کی ترویج کی بدولت سلاطین و ملوک ناپید ہوکر رہ جاتے ہیں اور انسان تخت و تاج کی بجائے خداوندِ کریم کی غلامی کی راہ اپنا لیتے ہیں - اقبال اسی سلسلہ ٔ خیال کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ تک کہہ گزرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے وفا انسان کی خود اپنی آئیڈیل فطرت سے وفا کا دوسرا نام ہے - گویا ایک توحید پرست معاشرے کی سیاست ہمیشہ سلطانیٔ جمہور سے عبارت رہتی ہے - یہاں مجھے اقبال کی ایک نیم ڈرامائی نظم کا وہ حصہ یاد آتا ہے جسے اقبال نے ’’ فرمانِ خدا‘‘ کا عنوان دیا ہے - اللہ میاں فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ سلطانیٔ جمہور کا خیر مقدم کرنے کی خاطر ہر نقشِ کُہن کو مٹا کر رکھ دیں :

سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ 

جو نقشِ کُہن تُم کو نظر آئے مِٹا دو 

ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہ بیشتر مسلمان معاشروں میں خاندانی شہنشاہیت سمیت وہ تمام نقوشِ کُہن آج تک قائم ہیں اللہ میاں نے جنہیں مِٹا ڈالنے کا حکم دیا تھا - آئیے اُن تمام فرسودہ اور از کار رفتہ اداروں سے تعارف حاصل کر یں جنہیں ’’ فرمانِ خُدا ‘‘ کے مطابق فرشتوں کو آج سے صدیوں پیشتر مِٹا دینا چاہیے تھا :

اُٹھو میری دُنیا کے غریبوں کو جگا دو 

کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو 

گرمائو غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے 

کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو 

سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ 

جو نقشِ کُہن تُم کو نظر آئے مِٹا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂِ گندم کو جلا دو

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے

پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو

گویا معاشرتی مساوات اور معاشی انصاف کے اسلامی تصوّرات اُس وقت تک رُوبہ عمل نہیں لائے جا سکتے جب تک آقا و غلام کے امتیازات مٹا نہیں دیے جاتے، جاگیرداری نظام ختم نہیں کر دیا جاتا ، مُلائیت کا ادارہ بے اثر نہیں بنا دیا جاتا - جاہلیت کے اس سارے نظام سے نجات کے بغیر سلاطین و ملوک سے نجات اور سلطانیٔ جمہور کا آغاز ناممکن ہے - یہی وجہ ہے کہ اللہ میاں نے ’’ فرشتوں‘‘ کو حکم دیا تھا کہ وہ اِن تمام انسان دشمن اداروں کو مٹا ڈالیں تاکہ سلطانیٔ جمہور کا کارواں بے کھٹکے رواں دواں رہ سکے - افسوس صد افسوس کہ ’’ فرشتے‘‘ اِن نقوشِ کُہن کو مٹا ڈالنے میں ناکام رہے- نتیجہ یہ کہ آج تقریباً ساری کی ساری دُنیائے اسلام زمانۂ جاہلیت کے انہی پُرانے نقوش کو نئے رنگ و روغن سے سنوارنے اور نکھارنے میں مصروف دکھائی دیتی ہے - اقبال کے خیال میں جب تک ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی توحید کے تصوّر سے نورٌ علی نور نہیں ہو جاتی ، حقیقی جمہوریت کا سچا نظام قائم نہیں ہو سکتا - جمہوریت کی حقیقی روح سے محروم جمہوری سیاسی نظام میں اقبال کے بقول سیاستدان ’’ ابلیس کے فرزند ‘‘ قرار پاتے ہیں اور سیاست اہلِ شر کی کنیز بن کر رہ جاتی ہے - ایسی نام نہاد جمہوری سیاست کو اقبال نے ہاں ’’ کنیزِاَ ہر من و دوں نہاد مردہ ضمیر ‘‘ قرار دیا ہے وہاں ایسے سیاستدانوں کو ابلیس کے کارندے :

تری حریف ہے یارب سیاستِ افرنگ

مگر ہیں اِس کے پجاری فقط امیر و رئیس

بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تُو نے

بنائے خاک سے اِس نے دو صد ہزار ابلیس

٭

کہتا تھا عزازیل خداوندِ جہاں سے

پرکالۂ آتش ہوئی آدم کی کفِ خاک

جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست

باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک!

آمریت کے ہوا خواہ کلامِ اقبال میں سے اس طرح کے اشعار کو اپنے سیاق و سباق سے کاٹ کر جمہوری نظامِ سیاست کی نفی میں پیش کرنے کے عادی ہیں - حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے درج بالا اشعار روحانی اصول و اقدار سے منحرف سیاسی نظام کی مذمت میں لکھے ہیں نہ کہ سچی جمہوریت کے باب میں- مغرب کے جمہوری نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے وقت اُنہوں نے ہمیشہ سچی اور روحانی اصول و اقدار پر کاربند جمہوریت کا بول بالا کیا ہے - وہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی کوکھ سے جنم لینے والے نام نہاد جمہوری نظام کو ہمیشہ اصلاحی نقطۂ نظر سے ملامت کا ہدف بناتے ہیں - اُن کے خیال میں :

تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام

چہرہ روشن ، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر

٭

دیوِ استبداد ، جمہوری قبا میں پائے کوب

تُو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری

اقبال جمہوری لباس میں ملبوس دیوِ استبداد کو خوب پہچانتے ہیں - چنانچہ جمہوریت کے نام پر قائم اِس ظالمانہ نظام کو رد کر کے ایسے جمہوری نظام کا تصوّر پیش کرتے ہیں جس کا ظاہر و باطن سراسر جمہوری ہو - اُن کی طویل نظم بعنوان ’’ ابلیس کی مجلسِ شُوریٰ ‘‘میں ابلیس کا ’’ دوسرا مشیر ‘‘ جب سلطانی ٔ جمہور کو دنیا میں قائم ابلیسی نظامِ سیاست کے لیے ایک نیا خطرہ قرار دیتا ہے تو ’’ پہلا مشیر ‘‘ اُسے مروّجہ نام نہاد جمہوری نظام کے پسِ پردہ ملوکیت ہی کی کار فرمائی کی جانب متوجہ کرتا ہے :

 ہوں ، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے

جو ملوکیت کا اک پردہ ہو ، کیا اُس سے خطر!

ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس

جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نِگر

کاروبارِ شہریاری کی حقیقت اور ہے

یہ وجودِ میر و سُلطاں پر نہیں ہے منحصر

مجلسِ ملّت ہو یا پرویز  کا دربار ہو

ہے وہ سُلطاں ، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر

تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام

چہرہ روشن ، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر!

یہاں اقبال نے مروّجہ مغربی جمہوریت کی جمہور دُشمن رُوح کو بے نقاب کرتے ہوئے حقیقی جمہوریت کی ترویج کی تمنا کی ہے - ابلیس اس خوف سے لرزہ بر اندام ہے کہ اسلام کی رُوحانی اقدار سے پھوٹنے والی سچی جمہوریت کا قیام دائرۂ امکان میں ہے - چنانچہ جہاں وہ اپنے اِس مشیر کو یہ کہہ کر لاجواب کر دیتا ہے کہ ’’ رُوحِ سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب ‘‘ وہاں وہ اپنے تمام مشیروں کو یہ حکم بھی دیتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر ذہانت اور توانائی سچی جمہوریت کے قیام کے امکان کو ختم کرنے میں صَرف کر دیں :

جانتا ہوں مَیں یہ اُمت حامِل قُرآں نہیں

ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں

جانتا ہون مَیں کہ مشرق کی اندھیری رات میں

بے یدِبیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں

عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف

ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر(ص) کہیں

الحذر! آئینِ پیغمبر سے سَو بار الحذر

حافظِ نامُوسِ زن ، مرد آزما ، مرد آفریں

موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لئے

نَے کوئی فَغفور و خاقاں ، نَے فقیر رہ نشیں

کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف

مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب

پادشاہوں کی نہیں ، اللہ کی ہے یہ زمیں!

چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب

یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں

یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ دُنیائے اسلام میں آج تک ابلیس اور اُس کے کارندوں کی تدابیر ہر اعتبار سے کامیاب رہی ہیں - چنانچہ ہم مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں آج تک وہ آئین کار فرما نہیں ہو سکا جس کی رُو سے سرمایہ داری ، جاگیرداری اور ’’ ہر نوع کی غلامی ‘‘ حرام قرار پائے- ہر چند دُنیائے اسلام کے سلاطین و مُلُوک اور صوفی و مُلا اسلام کے اس آئین کو دُنیا کی نظروں سے چھپانے میں کامیاب چلے آرہے ہیں تاہم ابلیس اور اُس کے فرزند آج بھی اِس امکان کے حقیقت بن جانے کے خوف میں مبتلا ہیں کہ:

عصرِ حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف

ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں

افسوس صد افسوس!! جو دُنیائے اسلام کا حکمران طبقہ ’’ شرعِ پیغمبر ‘‘ کو دُنیائے اسلام سے پوشیدہ رکھنے میں ہمہ وقت کوشاں ہے اور اس حقیقت سے آنکھیں چار کرنے سے گریزاں ہے کہ اگر وہ آنحضورﷺ کی شریعت اور طریقت کو دُنیا کی نظروں سے چھپائے رکھنے کی اِس روش پہ قائم رہا تب بھی خود عصرِ حاضر کے تقاضے ، جلد یا بدیر، اِس شریعتِ اسلامی کو منظر عام پر لے آئیں گے-

 

حواشی:

۱-سن انیس سو تیس ا خطبۂ الہ آباد

(2) Syed abdul Wahid, (edit.) '' Thoughts and Reflections of Iqbal'' , Lahore, May, 1964, Pp.53-54. Reproduced from Hindutan Review, vol. XX, july- December, 1909.

(3) Allama Muhammad Iqbal, Stray, Reflection, A Notebook of Allama Iqbal, Lahore, 1961, Pp.157,163.

(4) Allama Muhammad Iqbal, The Reconstructions of Religious Thought in Islam, Edited and Annotated by M.Saeed Sheikh, Lahore, 1996, Pp122-123.

 

(5) Ibid, P.117

 

 

آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاسی پلیٹ فارم سے جدید سیاسی نظریات کی روشنی میں قیامِ پاکستان کا مطالبہ ﴿۱﴾ کرنے سے اکیس سال پیشتر اقبال نے جمہوریت کو اسلام کا مثالی سیاسی نظام قرار دیا تھا- ’’ اسلام کا آئیڈیل اخلاقی اور سیاسی نظام ‘‘ کے عنوان سے اپنے طویل انگریزی مضمون میں اقبال نے مکمل انسانی مساوات پر مبنی جمہوریت کو اسلام کا مثالی سیاسی نظام قرار دیا تھا- انہوں نے بڑی قطعیت کے ساتھ دعویٰ کیا تھا کہ:

There is no aristocracy in Islam. " The noblest you,'' says the Prophet '' are those who fear God Most.'' There is no privileged class, no priesthood, no caste system. Now, this princple of the equality of all believers made early Musalmans the greatest political power in the world. Islam worked as a levelling force; it gave the individual a sense of his inward power; it elevated those who were socially low. The elevation of the down-trodden was the chief secret of the Muslim political power in India.'' (2)

’’اسلام میں حکومت اشرافیہ کی ملکیت نہیں ہے نبی اکرم


ö کا فرمان مبارک ہے کہ" تم میں سے بہترین وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے" یہاں کوئی طبقاتی برتری، مذہبی برتری، ذات پات کا نظام نہیں ہے- اب تمام مومنین کی برابری کے اس اصول نے ابتدائی مسلمانوں کو دنیا کی عظیم ترین سیاسی قوت بنا دیا- اسلام نے مساواتی قوت کے طور پر کام کیا اس نے فرد کو اپنی قوتِ باطنی کا احساس دیا، یہ اُن لوگوں کو اوپر لایا جو معاشرتی طور پر پسے ہوئے تھے- مظلوم طبقے کو اوپر لانا انڈیا میں مسلم سیاسی قوت کا سب سے بڑا راز تھا‘‘-

 

درج بالا سطور میں علامہ اقبال نے انسانوں کے درمیان مکمل مساوات کے تصوّر سے پھوٹنے والے اسلامی جمہوری نظام کے حق میں بڑا مؤثر استدلال کیا ہے- اسلام میں نسلی طبقاتی امتیازات ناپید ہیں - چنانچہ اسلامی معاشرے میں نہ کوئی اشراف ہے اور نہ ہی کوئی کمین- شرفِ انسانیت میں سبھی برابر ہیں - تمام انسانوں کے حقوق یکساں ہیں - یہاں نہ دیوتائوں کا قائم کردہ ذات پات کا کوئی نظام موجود ہے اور نہ ہی پاپائیت کا سا کوئی ادارہ- سچے اسلامی معاشرے میں انسانوں میں برتری کا واحد معیار نیکی اور پاکیزگی ہے - اِ ن میں بنیادی تصوّرات سے پھوٹنے والے معاشرے میں مکمل اور شفاف جمہوریت کے سوا اور کوئی سیاسی نظام نہ تو نمودار ہوسکتا ہے اور نہ ہی پنپ سکتا ہے- جس زمانے میں اقبال نے درج بالا خیالات کا اظہار کیا تھا عین اُسی زمانے میں انہوں نے اپنے Stray Reflectionsمیں ایک مختصر تحریر بعنوان Divine Right to Ruleقلمبند فرمائی تھی - اِن شذراتِ فکرِاقبال میں اُس خدا ئی حقِ حکمرانی کو کذب و افترا پر مبنی ٹھہرایا گیا ہے جس کی رُو سے زمانۂ جاہلیت میں موروثی شہنشاہیت بر حق قرار دی گئی تھی - اقبال کے خیال میں خاندانی شہنشاہیت کا تصوّر بادشاہوں کی ہوسِ اقتدار نے جنم دیا تھا نہ کہ خداوندِ کریم نے - اپنی اس تحریر کے آغاز میں اقبال خدائی حقِ حکمرانی کے تصوّر کو درج ذیل استدلال کے ساتھ غیر اسلامی قرار دیتے ہیں:

'' The theory of divine right of Kings is as old as the institution of kingship itself. As logical corollaries from this follow two other most important princples. Firstly, the king, being a representative of God on earth, is free from all responsibility to his people. His word is law and he may do whatever his sweet will may dicate without being called to account for it. Secondly, kingship must descend into the same family which is considered sacred.'' (3)

’’سماوی حق شاہی کا نظریہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ بذاتِ خود بادشاہت کا نظام- منطقی تجزیہ سے ﴿بادشاہت/ شہنشاہیت کے ﴾ دو اہم ترین اصول اخذ کئے جا سکتے ہیں- اوّل یہ کہ زمین پر خدا کا نمائندہ ہونے کے ناطے اپنی رعایا کی تمام تر ذمہ داریوں سے مبرائ ہے- اس کے الفاظ ہی قانون ہیں اور وہ احتساب سے بالاتر ہو کر اپنی مرضی سے جو چاہے کرے- دوسرا یہ کہ بادشاہت لازماً اسی خاندان سے ہوگی جسے مقدس جانا گیا ہے‘‘-

خدائی حقِ حکمرانی کے تصور کے درج بالا تعارف کے بعد اقبال اس کی نفی میں آنحضور


ö کے طرزِ حکومت کی انسان دوست روح کو منکشف کرتے ہیں اور پھر اِس انکشاف کی روشنی میں حکمرانی کے خدائی حق کو باطل ثابت کرتے ہیں - بعد ازاں ہمیں اسی اندازِ فکر و نظر کی ارتقائی صورت اسلامی فکر کی نئی تشکیل کے موضوع پر اُن کے خطبات میں بھی کارفرما نظر آتی ہے- ’’ اسلامی کلچر کی روح‘‘ کے موضوع پر اقبال اپنے ارشادات کے آغاز میں عقیدۂ ختمِ نبوت کی کلچرل معنویت کو اُجاگر کرتے وقت بڑے قطعی اور دو ٹوک انداز میں لکھتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں نبوت کے ساتھ ساتھ خاندانی شہنشاہیت اور مُلائیت کے ادارے بھی رفت گزشت ہو کر رہ گئے تھے- ’’ اسلام کی ساخت میں اصولِ حرکت‘‘ کے موضوع پر اپنے خطبے میں توحید کے تصوّر کی روشنی میں اسلامی ریاست کا سب سے بڑا فرض یہ بتاتے ہیں کہ وہ انسانی اخوت و مساوات کی بُنیاد پر انسانی آزادی کی پرورش اور نگہداشت کا فریضہ سر انجام دے- چنانچہ:

 

'' The essence of Tauhid, as a working idea, is equality, solidarity, is an endeavour to transform these ideal princples into space-time forces, an aspiration to realize them in a definite human organization.'' (4)

’’ایک عملی نصب العین کے طور پرتوحید کی اصل روح مساوات اور یکجہتی ہے اور ان مثالی اصولوں کو زمان و مکان کی قوت میں ڈھالنے کی جدو جہد کرنا ہے اور اس بات کی آرزو کہ ان کو ایک خاص انسانی نظام کے طور پر اپنانا ہے‘‘-

قرنِ اوّل کے مسلمانوں نے توحید پرستی کی اسی اساس پر ایک نئے کلچر کی بنیاد رکھ دی تھی - اپنے اسی خطبے کے آغاز میں اقبال ہمیں اِس نئے انسانی کلچر کے فکری محرکات اور عملی اثرات سے یوں متعارف کراتے ہیں:

'' The new culture finds the foundation of world- unity in the princple of Tauhid. Islam, as a polity, is only a practical means of making this princple a living factor in the intellectual and emotional life of mankinde. It demands loyalty to God, not to thrones. And since God is the ultimate spiritual basis of all life, loyalty to God virtually amounts to man's loyalty to his own ideal nature, The ultimate spiritual bases of all life, as conceived by Islam, is eternal and reveals itself in variety and change, A society based on such a conception of Reality must reconcile, in its life, the categories of permanence and change.'' (5)

’’ نئی تہذیب عالمی اتحاد کو توحید کی بنیاد پہ تلاش کرتی ہے- ایک سیاسی نظام کے طور پر اسلام فقط اس اصول کو عقلی اور جذباتی زندگی میں زندہ رکھنے کاعملی طریقہ ہے- یہ خدا کے ساتھ وفاداری کا تقاضا کرتا ہے نہ کہ تخت کے ساتھ- اور چونکہ خدا تمام موجودات کا مطلق روحانی مآخذ ہے، خدا کے ساتھ وفاداری دراصل انسان کو اپنی حقیقی فطرت کے ساتھ وفاداری سے جوڑ دیتی ہے- اسلام کے تصورات میں تمام زندگی کی حقیقی روحانی بنیاد ابدی ہے اور اپنے آپ کو تنوّع اور تبدّل میں منکشف کرتی ہے - حقیقت کے ایسے تصورات پر مبنی معاشرے کو اپنی زندگی میں ابدیت و تغیر پذیری کے عوامل میں موافقت رکھنی لازم ہے‘‘-

اوپر کی سطروں میں اقبال نے اسلام کے تصوّرِ توحید سے پھوٹنے والے جس نئے کلچر کی نشاندہی کی ہے وہ وحدتِ انسانی کا علمبردار ہے - اُن کے خیال میں اسلامی سیاست اس تصورِ توحید کو انسانی معاشرے میں ایک زندہ حقیقت کا روپ بخش سکتی ہے:

یہی دینِ محکم، یہی فتح باب

کہ دُنیا میں توحید ہو بے حجاب

اسلامی سیاست اِس تصوّرِ توحید کو انسان کی عقلی اور جذباتی زندگی میں ایک زندہ و فعال قوت بنا دینے کا نام ہے - چنانچہ ایک توحید پرست معاشرے میں اخوت ، حریت اور مساوات پر مبنی نظامِ اقدار کی ترویج کی بدولت سلاطین و ملوک ناپید ہوکر رہ جاتے ہیں اور انسان تخت و تاج کی بجائے خداوندِ کریم کی غلامی کی راہ اپنا لیتے ہیں - اقبال اسی سلسلہ ٔ خیال کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ تک کہہ گزرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے وفا انسان کی خود اپنی آئیڈیل فطرت سے وفا کا دوسرا نام ہے - گویا ایک توحید پرست معاشرے کی سیاست ہمیشہ سلطانیٔ جمہور سے عبارت رہتی ہے - یہاں مجھے اقبال کی ایک نیم ڈرامائی نظم کا وہ حصہ یاد آتا ہے جسے اقبال نے ’’ فرمانِ خدا‘‘ کا عنوان دیا ہے - اللہ میاں فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ سلطانیٔ جمہور کا خیر مقدم کرنے کی خاطر ہر نقشِ کُہن کو مٹا کر رکھ دیں :

سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقشِ کُہن تُم کو نظر آئے مِٹا دو

ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہ بیشتر مسلمان معاشروں میں خاندانی شہنشاہیت سمیت وہ تمام نقوشِ کُہن آج تک قائم ہیں اللہ میاں نے جنہیں مِٹا ڈالنے کا حکم دیا تھا - آئیے اُن تمام فرسودہ اور از کار رفتہ اداروں سے تعارف حاصل کر یں جنہیں ’’ فرمانِ خُدا ‘‘ کے مطابق فرشتوں کو آج سے صدیوں پیشتر مِٹا دینا چاہیے تھا :

اُٹھو میری دُنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو

گرمائو غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے

کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو

سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقشِ کُہن تُم کو نظر آئے مِٹا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂِ گندم کو جلا دو

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے

پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو

گویا معاشرتی مساوات اور معاشی انصاف کے اسلامی تصوّرات اُس وقت تک رُوبہ عمل نہیں لائے جا سکتے جب تک آقا و غلام کے امتیازات مٹا نہیں دیے جاتے، جاگیرداری نظام ختم نہیں کر دیا جاتا ، مُلائیت کا ادارہ بے اثر نہیں بنا دیا جاتا - جاہلیت کے اس سارے نظام سے نجات کے بغیر سلاطین و ملوک سے نجات اور سلطانیٔ جمہور کا آغاز ناممکن ہے - یہی وجہ ہے کہ اللہ میاں نے ’’ فرشتوں‘‘ کو حکم دیا تھا کہ وہ اِن تمام انسان دشمن اداروں کو مٹا ڈالیں تاکہ سلطانیٔ جمہور کا کارواں بے کھٹکے رواں دواں رہ سکے - افسوس صد افسوس کہ ’’ فرشتے‘‘ اِن نقوشِ کُہن کو مٹا ڈالنے میں ناکام رہے- نتیجہ یہ کہ آج تقریباً ساری کی ساری دُنیائے اسلام زمانۂ جاہلیت کے انہی پُرانے نقوش کو نئے رنگ و روغن سے سنوارنے اور نکھارنے میں مصروف دکھائی دیتی ہے - اقبال کے خیال میں جب تک ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی توحید کے تصوّر سے نورٌ علی نور نہیں ہو جاتی ، حقیقی جمہوریت کا سچا نظام قائم نہیں ہو سکتا - جمہوریت کی حقیقی روح سے محروم جمہوری سیاسی نظام میں اقبال کے بقول سیاستدان ’’ ابلیس کے فرزند ‘‘ قرار پاتے ہیں اور سیاست اہلِ شر کی کنیز بن کر رہ جاتی ہے - ایسی نام نہاد جمہوری سیاست کو اقبال نے ہاں ’’ کنیزِاَ ہر من و دوں نہاد مردہ ضمیر ‘‘ قرار دیا ہے وہاں ایسے سیاستدانوں کو ابلیس کے کارندے :

تری حریف ہے یارب سیاستِ افرنگ

مگر ہیں اِس کے پجاری فقط امیر و رئیس

بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تُو نے

بنائے خاک سے اِس نے دو صد ہزار ابلیس

٭

کہتا تھا عزازیل خداوندِ جہاں سے

پرکالۂ آتش ہوئی آدم کی کفِ خاک

جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست

باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک!

آمریت کے ہوا خواہ کلامِ اقبال میں سے اس طرح کے اشعار کو اپنے سیاق و سباق سے کاٹ کر جمہوری نظامِ سیاست کی نفی میں پیش کرنے کے عادی ہیں - حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے درج بالا اشعار روحانی اصول و اقدار سے منحرف سیاسی نظام کی مذمت میں لکھے ہیں نہ کہ سچی جمہوریت کے باب میں- مغرب کے جمہوری نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے وقت اُنہوں نے ہمیشہ سچی اور روحانی اصول و اقدار پر کاربند جمہوریت کا بول بالا کیا ہے - وہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی کوکھ سے جنم لینے والے نام نہاد جمہوری نظام کو ہمیشہ اصلاحی نقطۂ نظر سے ملامت کا ہدف بناتے ہیں - اُن کے خیال میں :

تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام

چہرہ روشن ، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر

٭

دیوِ استبداد ، جمہوری قبا میں پائے کوب

تُو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری

اقبال جمہوری لباس میں ملبوس دیوِ استبداد کو خوب پہچانتے ہیں - چنانچہ جمہوریت کے نام پر قائم اِس ظالمانہ نظام کو رد کر کے ایسے جمہوری نظام کا تصوّر پیش کرتے ہیں جس کا ظاہر و باطن سراسر جمہوری ہو - اُن کی طویل نظم بعنوان ’’ ابلیس کی مجلسِ شُوریٰ ‘‘میں ابلیس کا ’’ دوسرا مشیر ‘‘ جب سلطانی ٔ جمہور کو دنیا میں قائم ابلیسی نظامِ سیاست کے لیے ایک نیا خطرہ قرار دیتا ہے تو ’’ پہلا مشیر ‘‘ اُسے مروّجہ نام نہاد جمہوری نظام کے پسِ پردہ ملوکیت ہی کی کار فرمائی کی جانب متوجہ کرتا ہے :

 ہوں ، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے

جو ملوکیت کا اک پردہ ہو ، کیا اُس سے خطر!

ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس

جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نِگر

کاروبارِ شہریاری کی حقیقت اور ہے

یہ وجودِ میر و سُلطاں پر نہیں ہے منحصر

مجلسِ ملّت ہو یا پرویز  کا دربار ہو

ہے وہ سُلطاں ، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر

تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام

چہرہ روشن ، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر!

یہاں اقبال نے مروّجہ مغربی جمہوریت کی جمہور دُشمن رُوح کو بے نقاب کرتے ہوئے حقیقی جمہوریت کی ترویج کی تمنا کی ہے - ابلیس اس خوف سے لرزہ بر اندام ہے کہ اسلام کی رُوحانی اقدار سے پھوٹنے والی سچی جمہوریت کا قیام دائرۂ امکان میں ہے - چنانچہ جہاں وہ اپنے اِس مشیر کو یہ کہہ کر لاجواب کر دیتا ہے کہ ’’ رُوحِ سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب ‘‘ وہاں وہ اپنے تمام مشیروں کو یہ حکم بھی دیتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر ذہانت اور توانائی سچی جمہوریت کے قیام کے امکان کو ختم کرنے میں صَرف کر دیں :

جانتا ہوں مَیں یہ اُمت حامِل قُرآں نہیں

ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں

جانتا ہون مَیں کہ مشرق کی اندھیری رات میں

بے یدِبیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں

عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف

ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر(ص) کہیں

الحذر! آئینِ پیغمبر سے سَو بار الحذر

حافظِ نامُوسِ زن ، مرد آزما ، مرد آفریں

موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لئے

نَے کوئی فَغفور و خاقاں ، نَے فقیر رہ نشیں

کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف

مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب

پادشاہوں کی نہیں ، اللہ کی ہے یہ زمیں!

چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب

یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں

یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ دُنیائے اسلام میں آج تک ابلیس اور اُس کے کارندوں کی تدابیر ہر اعتبار سے کامیاب رہی ہیں - چنانچہ ہم مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں آج تک وہ آئین کار فرما نہیں ہو سکا جس کی رُو سے سرمایہ داری ، جاگیرداری اور ’’ ہر نوع کی غلامی ‘‘ حرام قرار پائے- ہر چند دُنیائے اسلام کے سلاطین و مُلُوک اور صوفی و مُلا اسلام کے اس آئین کو دُنیا کی نظروں سے چھپانے میں کامیاب چلے آرہے ہیں تاہم ابلیس اور اُس کے فرزند آج بھی اِس امکان کے حقیقت بن جانے کے خوف میں مبتلا ہیں کہ:

عصرِ حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف

ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں

افسوس صد افسوس!! جو دُنیائے اسلام کا حکمران طبقہ ’’ شرعِ پیغمبر ‘‘ کو دُنیائے اسلام سے پوشیدہ رکھنے میں ہمہ وقت کوشاں ہے اور اس حقیقت سے آنکھیں چار کرنے سے گریزاں ہے کہ اگر وہ آنحضور


ö کی شریعت اور طریقت کو دُنیا کی نظروں سے چھپائے رکھنے کی اِس روش پہ قائم رہا تب بھی خود عصرِ حاضر کے تقاضے ، جلد یا بدیر، اِس شریعتِ اسلامی کو منظر عام پر لے آئیں گے-

 

حواشی:

۱-سن انیس سو تیس ا خطبۂ الہ آباد

(2) Syed abdul Wahid, (edit.) '' Thoughts and Reflections of Iqbal'' , Lahore, May, 1964, Pp.53-54. Reproduced from Hindutan Review, vol. XX, july- December, 1909.

(3) Allama Muhammad Iqbal, Stray, Reflection, A Notebook of Allama Iqbal, Lahore, 1961, Pp.157,163.

(4) All

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر