عرفانِ خودی

عرفانِ خودی

موسم بہارکے ایک حسین منظرکاتصوّرکیجیے ایسامنظرجومحدودنہ ہو،دوردورتک پھیلا ہوا ہریالی اور خوشحالی سے لدے پہاڑوں کا سلسلہ ، دلفریب  پھولوں کی ڈالیوں سے مہکتی وادیاں، ہرے بھرے درختوں کے گھنے سرسبز جنگل ، پھل دار درختوں کی خوشہ دار ٹہنیوں سے مزین باغات اور اس میں نغموں سے سرشار ہوتی بلبلیں ، فراز سے نشیب کی طرف زور سے بہتا چشموں کا میٹھا پانی ، پہاڑوں کی بلندی سے چھوٹی چھوٹی قدرتی جھیلوں میں گرتی آبشاریں اور اُن کی آواز سے پیدا ہونے والے ارتعاشی نغمے، اب آپ فرض کیجیے لامحدود وُسعتوں میں کسی جگہ ایک بچہ ہوا میں بلبلے اُڑا رہا ہے جوسورج کی روشنی میں چمکتے ہوئے زمین اورآسمان کے بیچ تیررہے ہیں -ہماری دُنیا کے تمام مشمولات سورج ،چاند ،ستارے وغیرہ بھی ہماری کائنات کی طرح اس بلبلے کاجزوِلایُنفک ہیں یعنی تنہا حباب ،بچے کے بلبلے کی طرح یہ نظریۂ کائنات بھی ہمارے مفروضہ کاحصہ ہے -یہ موجود توبہرحال ہے مگربہت چھوٹاسا اورچندلمحوں میں ختم ہوجانے والا اورہماری کائنات کی بھی آفاقی زمان ومکان میں اسی بلبلے جتنی ہی حیثیت ہے-اس لئے بچے کے اُڑائے گئے بلبلے اورہماری کائنات میں ایک حد تک مشابہت بہرحال موجود ہے اورموسم بہار میں تو ہرمنظر نکھر ا ہوتاہے اور نئے پیدا شدہ پھول اورپتوں کی تازگی دیکھنے والے کو احسا سِ فرحت سے محظوظ کرتی ہے بعینہٖ ہمارا مفروضۂ کائنات بھی تازہ تخلیق ہے جس کے بارے میں مختلف آراء علوم کے ارتقا پذیری کاباعث ہیں-یہ طریقہ اُس تعلق کوبیان کرتا ہے جو ہماری دُنیاکواس عالم سے ہے اوراُس سے بھی جوہماری کائنات سے ورا ہے - بلبلے کی سطح باہرکے منظر کومنعکس کرتی ہے اورساتھ ساتھ شفاف بھی ہے اس کے آرپار دیکھاجاسکتاہے -

 جولوگ اس بلبلے کے اندر رہتے ہیں وہ باہر کے منظر سے کئی مختلف انداز میں آگاہ ہوسکتے ہیں ،وہ جن کی نظر کمزوراورغیرتربیت یافتہ ہے وہ بیرونی منظر کے وجود سے قیاس کرنے کی اہلیت سے محروم ہوں گے دوسری قسم کے لوگ وہ ہوں گے جواپنی نظر سے زیادہ تیز نگاہ والوں کی خبروں پہ یقین کرلیں گے اوراُ ن پہ یہ بات کھل جائے گی کہ اس کائنات (بلبلے)میں جوکچھ ہے ،عکس سے زیادہ کچھ نہیں ہے اوراس کی اپنی بالذات ہستی کچھ نہیں ہے-تیسری قسم کے تھوڑے سے لوگ وہ ہوں گے جو اپنی معجزانہ نظرسے اس بلبلے کی شفاف دیوار کی حقیقت پہچان لیں گے -اُن کی نگاہ اُس باریک جھلی کے پار بھی دیکھ سکے گی -لیکن یہ جھلی دوسرے لوگوں کے لئے ایک کثیف پردہ بن جائے گی تیسری قسم کے معجزانہ نظر رکھنے والے لوگ ایمان کے علاوہ مشاہدہ بھی کررہے ہوں گے کہ حقیقت ایک ہی ہے ،بلبلے کی جھلی کی کثافت پر اگر التفات نہ کیاجائے تو بلبلے کے اندر اورباہر منظر کی یکتائی ایک مسلمہ حقیقت ہے-

بلبلہ کی جھلی محض ایک زائل ہوجانے والی حقیقت ہے-یہ تینوں قسم کے لوگ ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں مگر ان کاباہمی اختلاف اس اختلاف کے مقابلے میں کچھ بھی نہیںجوان تینوں کوایک دوسرے سے ممتاز کرتاہے-پہلی قسم کے لوگ عام ہیں جوہر مذہب میں موجود ہیں ،اُن کاعقیدہ بھلے کچھ بھی ہو اُن کی تمام ترکاوشوں اورمحنتوں کامقصود زیب وزینتِ دُنیاہی رہتی ہے -دوسری قسم کے لوگ ازخود توبلبلے کی شفاف جھلی سے باہردیکھنے کی قابلیت تونہیں رکھتے مگر وہ تیز نظر والے لوگوں کی بتائی ہوئی حقیقت پرعلم الیقین رکھتے ہیں -تیسری قسم کے تھوڑے سے لوگ اپنی تیزنگاہ سے بلبلے کی شفاف جھلی کے آرپار ایسے دیکھتے ہیں کہ گویا جھلی اپنی ٹھوس مادیت کے باوجود اُن کی بصیرت کے سامنے حجاب نہیں بن سکتی‘‘ - یہ لوگ ہمہ وقت دوسرے لوگوں کوباخبر کرتے ہیں کہ جس چیز کوآپ لوگ ٹھوس حقیقت سمجھتے ہوئے اس پہ تکیہ وتوکل کیے بیٹھے ہویہ ایک طرح کا فریبِ نظرہے -

  درج بالا مثال سے حاصلِ گفتگو نتیجہ یہ کہ ہماری اِس کائنات میں معجزانہ نظر رکھنے والے تیسری قسم کے لوگوں کو قرآنی اِصطلاح میں اللہ تعالیٰ کانائب کہاجاسکتاہے اوراُن کی قابلیت خلافتِ الٰہی کے درجات کے مطابق ہوتی ہے لیکن ان کاپیغام زمان ومکان کی قیود سے پاک ہمیشہ سے ایک ہی رہاہے کہ ذاتِ حق تعالیٰ کے سواہر شئے نابود اورختم ہوجانے والی ہے-یہ دُنیا ہمارے لئے آزمائش ہے بلکہ یہ دُنیاایک زائل ہوجانے والاسایہ ہے اوراپنی رُوح کواِس سائے کی سیاہی سے محفوظ رکھناہے- گویا ایسی صاحبِ بصیرت شخصیات جو کثافت کا حجاب دور کر کے لطافت کی نگاہ سے مشاہدات کی قُوّت و استعداد رکھتی ہیں وہی اس قابل ہوتی ہیں کہ کائنات میں انسانی سماج اور زندگی پہ ایسے امور منکشف کرسکیں جو اسے تباہی اور ہلاکت سے محفوظ کریں اور ایسے معیارات کا تعیُّن کرسکیں جو انسانیت کو بقا و ا ستحکام کے راستے پہ گامزن کر سکیں -

   اِن عظیم المرتبت ہستیوں میںبانیٔ اصلاحی جماعت حضر ت سخی سلطان محمد اصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کاشمار ’’سلطان الفقر ششم ‘‘کی حیثیت سے ہوتاہے-آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحبت میں بیٹھنے والوں کویہی اَزلی واَبدی پیغام ایک مثال سے سمجھاتے تھے کہ

’’دیکھو! یہ دُنیا ایک زائل ہوجانے والا سایہ ہے اوراگر ایک آدمی اپنے سائے کی طرف منہ کرلے اورسائے کو پکڑنے کے اِرادے سے سائے کے پیچھے بھاگے توکیا وہ اپنی موت تک سائے کاتعاقب کرکے اپناسایہ پکڑلے گا؟نہیں وہ کبھی بھی اپنے سائے کونہیں پکڑسکتااب اگروہی آدمی اپنامنہ سورج کی جانب کرلے توسایہ اس کے عقب میں آجائے گاوہ اِنسان جتنا تیز سورج کی طرف بھاگے کاسایہ اُسی رفتار سے اُس کے پیچھے پیچھے آئے گا-توان فرامین کومدِنظررکھوکہ یہ دُنیاایک زائل ہوجانے والا سایہ ہے اورحقیقتِ حق تعالیٰ نُورہے -اس لیے قرآن کے اِس آفاقی حکم کے مطابق کہ ’’پس دوڑ اللہ کی طرف‘‘اپنے دِل میں تصوّرِاسم اللہ ذات سجاکرعرفانِ نورِ ذاتِ حق تعالیٰ کی جستجو میں مصروف ہوجائوتویہ دُنیا کیاپوری کائنات کی ہرچیز تمہارے مقصدِ حیات کی کامیابی کے لئے تمہاری معاون ومددگار ہوجائے گی‘‘ -

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے عرفانِ ذات اورعشقِ الٰہی میں رائج نام نہاد غیر شرعی روایات کویکسر مسترد کردیا،شریعت وطریقت کوعشقِ الٰہی کی دودھاری تلوار قرار دیا،خانقاہوں کورسمِ شبیری کے حسن عمل سے مزیّن فرمایا ،ملنگوں اورمستوں کوشریعت نبویﷺ کے اَطوار سے آراستہ کرکے باعمل صوفی بنایا اور ہر طرح کی غیر شرعی رسم ورواج کی حوصلہ شکنی فرمائی ،قلبی ذاکرین کے لئے پنج گانہ باجماعت نماز ادا کرنے کولازم کیااوررزقِ حلال کوبھی توکل علی اللہ کے ذریعے حاصل کرنے کواَحسن جانا- عشقِ مُصطفیٰ ﷺ کو عامۃ النّاس کے دلوں میں اُجاگر رکھنے اور آقا علیہ الصلوٰۃ و والسلام کے عطا فرمودہ مقاصد کی یاد آوری کیلئے ہرسال ملک کے کونے کونے میں محافلِ میلاد مصطفیﷺ کے انعقاد کااہتمام فرمایا-اپنے مریدین کے لئے شریعتِ مطہرہ کو اوڑھنا اوربچھونا قرار دیا-لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے شریعت نبوی ﷺ کے ظاہری اورباطنی اَحکامات سے معرفتِ الٰہی کانصاب مرتب فرمایا-یہ وہ زمانہ تھاجب معرفتِ الٰہی کابھولا بسرا سبق گوشہ نشینوں اورخانقاہوں میں بھی کم یاب تھا-اہل تصوف بھی صرف خوش گفتاری کے لئے معرفتِ الٰہی کانام استعمال کرتے تھے -

 کائنات کے سربستہ رازوں سے عرفانِ ذات کے بغیر پردہ کیسے اُٹھ سکتاتھا ؟اس لیے پڑھے لکھے نوجوان مغربی فلسفے کی جانب راغب ہوناشروع ہوگئے تھے لیکن مغربی فلسفے کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ رُوحانیت سے یکسر عاری تھا- اُن کاوِجدان اس حد تک رہنمائی کرسکتاتھا کہ وہ یہ جان لیں کہ ایک پُراَسرار قوت کی وجہ سے کائنات رواں دواں ہے لیکن مغربی فلسفہ، رُوحانی ہدایت کے بغیر اُس پُراَسرار قوت کا ہم راز بننے سے قاصر تھا -کہ جیسے سقراط اپنے فلسفہ کی علامت ’’سوال‘‘سے کیاخود کوپہچان سکا ؟ البتہ ایک نشاندہی کرنے میں ضرورکامیاب ہوا کہ فلسفۂ حیات میں ’’خود کی پہچان ‘‘ایک اہم سنگِ میل ہے-افلاطون نے اپنے تخیل کی انتہاسے ایک ’’مثالی سلطنت ‘‘ تخلیق کی جسے یوٹوپیاکہاجاتاہے لیکن اپنی ’’مثالی سلطنت ‘‘کے لئے ایک زندہ وجاوید ’’مثالی بادشاہ ‘‘نہ ڈھونڈ سکایعنی افلاطون کا’’Idea‘‘ خیال بھی تشنگی نہ مٹاسکااسی طرح ارسطو نے یہ مؤقف اختیار کیاکہ دُنیاکی ہرشیٔ کے بطن میں ایک ’’جوہر ‘‘ موجود ہے لیکن وہ بھی اُس ’’جوہر‘‘کوافزودہ نہ کرسکایونانی منوان تہذیب سے آرفیس مت نے جنم لیاتھا اورفیثاغورث نے آرفیس مت سے عارفانہ رویہ مستعار لیااُسے ایک اَن دیکھے خدا پہ یقین تھااوروہ نظرآنے والی دُنیا کوباطل اورسرابی تصوّر کرتاتھا - فیثا غورث کاعقیدہ تھا کہ نظرآنے والی دُنیا کی تیرگی میں آسمانی روشنی کی کرنیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں -فشطے بھی Absolute EgoاورNon Egoمیں کبھی امتیاز نہ کرسکااوروہ بھی خودیٔ کبیر کوآشکارکرنے سے قاصر رہا-شوپن ہاور کی زندہ رہنے کی خواہش یاتمناWill to Liveاوراس کاتعقل اورتجسیم ’’نابغہ‘‘ کیاایک پڑھے لکھے نوجوان کو ’’نابغہ روزگار ہستی ‘‘تک رسائی دے سکا ؟کانٹ نے کائنات کی پُراَسرار قوت کوآشکار کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن اُس نے بھی اپنے علم کی انتہاکو اس اصطلاح میں سمودیا  Thing-it-Self یا Ding-an-Sich یعنی ’’وہ خود ہی ہے‘‘پھر اپنی علمی بے بسی کااظہار یوں کیا کہ وہ پُراَسرار طاقت فلسفۂ حیات کی چٹان پرایک بھاری پتھر Noumanen ہے اورفرائیڈ کی لبڈو یابرگساں کاجوش حیات Elan Vitalزنگ کی Psychich Energyیعنی اجتماعی شعور، سپائی نوزا کی Naturance اور Substance اور ان سب سے بڑھ کرنطشے کی غالب آنے کی قوت Will-to-power یعنی فوق الانسان بے پناہ طاقت کااظہار ،اَمارت اورسیاست سے بے نیازی اور تکرارِابدی،مذکورہ بالاتمام اصطلاحیں مغربی فلسفہ کی عرفان ذات میں ناکام کاوشوں کابین ثبوت ہیں لیکن پھر بھی مذکورہ بالا تمام فلسفیوں کی تعلیمات کی حوصلہ افزائی توضرور کرنا چاہیے کہ اُنہوں نے اُس ازلی وابدی پُراَسرار قوت (خدائے برحق) کوپہچاننے کی کوشش توضرور کی لیکن صرف نشاندہی ہی کرسکے اس لئے یہ کہاجاتاہے کہ اُدھورا فلسفہ تودَہریت یعنی خداکے انکار پرمائل کرسکتا ہے لیکن فلسفہ پہ عبور خداپہ علم الیقین تک لے جاتاہے لیکن سوال وہیں موجود ہے کہ مذکورہ بالافلسفیوں کی تعلیمات سے آج تک کسی کوعرفانِ ذات نصیب ہوا؟وہ اس لئے حاصل نہ ہوسکاکہ مغربی فلسفہ حقیقی رُوحانی رہنمائی سے محروم تھا اوررُوحانی قیادت کے بغیر بھلاکون عرفانِ ذات الٰہی کادعویٰ کرسکا؟

آپ اِسلامی تاریخ کامطالعہ کریں آپ کوہرامام اورعالم، معرفتِ الٰہی کی ترغیب دیتاہوا نظرآئے گا،حضرت شیخ ابن عربی کے انسانِ کامل کی تعلیمات میں معرفتِ حق تعالیٰ کے سوا کیاہے؟علامہ عراقی ،امام رازی ،امام شعرانی ،امام جلال الدین سیوطی ،شیخ محقق محدث دہلوی اورماضی قریب میں حضرت علامہ اقبال کے ہاں بھی خدائے برحق کی معرفت ہی مقصودِ کائنات ہے کہ حضرت علامہ اقبال کوبھی ہر کلی کی چٹک ،ہمالیہ کے پہاڑوں، سمندر کے سکوت میں اورطوفان میں بھی ،دریائوں کی روانی میں ،اوجِ ثریامیں ،بے گھر شاہین کے توکل میں ،مردِ کامل کے کردار وگفتار میں ، گلاب اورخار میں بھی معرفتِ الٰہی کے جلوے ہی نظر آئے تھے تبھی توفرماتے ہیں کہ :

تلاش اُو کنی ‘جز خودنہ بینی

تلاشِ خود کنی‘جزاُونیابی

’’اُس کی تلاش کروگے تواپنے سوااورکچھ نہیں دیکھوگے ،اپنی تلاش کروگے تواُس کے سوا کسی اورکونہیں پائوگے-‘‘

بانیٔ اصلاحی جماعت سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمداصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی نئی دعوت نہیں دی بلکہ اپنے اَسلاف کے معرفتِ حق تعالیٰ کے گم گشتہ اوراق کوازسرِنو مرتب فرمایاہے جیساکہ پہلے عرض کیاجاچکاہے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ کرامت تھی کہ آپ نے شریعت نبوی ﷺ کے ظاہری اورباطنی اعمال اوراحکامات پہ مبنی معرفتِ الٰہی کانصاب ترتیب دیاتھا اس نصاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظاہری اعمال واحکامات کوشریعت اورآپﷺ کے باطنی اعمال اوراحکامات کوطریقت سے تعبیر کیاگیا-یعنی حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مقدسہ کو عرفانِ ذاتِ حق تعالیٰ کاکامل و اکمل مأخذ اورذریعہ و وسیلہ قراردیااوریہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے عشقِ مصطفیﷺ کاکامل ومکمل ثبوت ہے -آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں عقل کی ضرورت ہے وہاں خرد کے بھرپوراستعمال کی حوصلہ افزائی فرمائی اورجہاں حضرت ِعشق سماجائے وہاں جنون کے جوشِ حیات سے استفادہ کرنے کامشورہ دیاہے جیسے اقبال کہتے ہیں کہ:

گیسوئے تابدار کواَوربھی تاب دار کر

ہوش و خرد شکار کر ‘ قلب و نظر شکار کر!

عشق بھی حجاب میں حُسن بھی ہوحجاب میں!

یا تو خود آشکار  ہو یا مجھے آشکار کر!

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت کااعجاز ہے کہ آپ نے عام قابلیت کے انسانوں کو بھی عرفان ذات کی خاصیت عطافرمائی ،جس کی وجہ سے آج طالبان مولیٰ کے مابین معرفت الٰہی کے روشن اِمکانات پربات چیت ہورہی ہے- خانقاہوں اورمساجد دونوں جگہوں پہ باجماعت نماز بھی اداہورہی ہے اورتصورِاسم اللہ ذات کاقلبی ذکر بھی ہورہاہے اور دائمی اوروقتی فرائض کوایک ہی فرد میں یکتائی نصیب ہورہی ہے -حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرتِ طیبہ کے رُوحانی اورمعاشرتی دونوں پہلوئوں پہ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کے پلیٹ فارم سے بات ہورہی ہے-مردِ خود آگاہ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمدعلی صاحب سروری قادری کی نگاہِ فیض کاکرشمہ ہے کہ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کاایک رکن بیک وقت ایک عالمِ دین ،ایک باعمل صوفی اورایک زندہ دل عارف کے فرائض بخوبی اداکررہاہے- اور آپ کی قیادت میں اسلام آباد بیسڈ مسلم انسٹی ٹیوٹ عالمی سطح پہ بین الاقوامی سفارتی معیار کے مطابق پاکستان وعالم اسلام کی ایک مؤثر آواز بن کراُبھررہاہے-اللہ تعالیٰ اس ہمہ جہتی تحریک کودن دوگنی اوررات چوگنی ترقی عطا فرمائے -امین

موسم بہارکے ایک حسین منظرکاتصوّرکیجیے ایسامنظرجومحدودنہ ہو،دوردورتک پھیلا ہوا ہریالی اور خوشحالی سے لدے پہاڑوں کا سلسلہ ، دلفریب  پھولوں کی ڈالیوں سے مہکتی وادیاں، ہرے بھرے درختوں کے گھنے سرسبز جنگل ، پھل دار درختوں کی خوشہ دار ٹہنیوں سے مزین باغات اور اس میں نغموں سے سرشار ہوتی بلبلیں ، فراز سے نشیب کی طرف زور سے بہتا چشموں کا میٹھا پانی ، پہاڑوں کی بلندی سے چھوٹی چھوٹی قدرتی جھیلوں میں گرتی آبشاریں اور اُن کی آواز سے پیدا ہونے والے ارتعاشی نغمے، اب آپ فرض کیجیے لامحدود وُسعتوں میں کسی جگہ ایک بچہ ہوا میں بلبلے اُڑا رہا ہے جوسورج کی روشنی میں چمکتے ہوئے زمین اورآسمان کے بیچ تیررہے ہیں -ہماری دُنیا کے تمام مشمولات سورج ،چاند ،ستارے وغیرہ بھی ہماری کائنات کی طرح اس بلبلے کاجزوِلایُنفک ہیں یعنی تنہا حباب ،بچے کے بلبلے کی طرح یہ نظریۂ کائنات بھی ہمارے مفروضہ کاحصہ ہے -یہ موجود توبہرحال ہے مگربہت چھوٹاسا اورچندلمحوں میں ختم ہوجانے والا اورہماری کائنات کی بھی آفاقی زمان ومکان میں اسی بلبلے جتنی ہی حیثیت ہے-اس لئے بچے کے اُڑائے گئے بلبلے اورہماری کائنات میں ایک حد تک مشابہت بہرحال موجود ہے اورموسم بہار میں تو ہرمنظر نکھر ا ہوتاہے اور نئے پیدا شدہ پھول اورپتوں کی تازگی دیکھنے والے کو احسا سِ فرحت سے محظوظ کرتی ہے بعینہٖ ہمارا مفروضۂ کائنات بھی تازہ تخلیق ہے جس کے بارے میں مختلف آراء علوم کے ارتقا پذیری کاباعث ہیں-یہ طریقہ اُس تعلق کوبیان کرتا ہے جو ہماری دُنیاکواس عالم سے ہے اوراُس سے بھی جوہماری کائنات سے ورا ہے - بلبلے کی سطح باہرکے منظر کومنعکس کرتی ہے اورساتھ ساتھ شفاف بھی ہے اس کے آرپار دیکھاجاسکتاہے -

 جولوگ اس بلبلے کے اندر رہتے ہیں وہ باہر کے منظر سے کئی مختلف انداز میں آگاہ ہوسکتے ہیں ،وہ جن کی نظر کمزوراورغیرتربیت یافتہ ہے وہ بیرونی منظر کے وجود سے قیاس کرنے کی اہلیت سے محروم ہوں گے دوسری قسم کے لوگ وہ ہوں گے جواپنی نظر سے زیادہ تیز نگاہ والوں کی خبروں پہ یقین کرلیں گے اوراُ ن پہ یہ بات کھل جائے گی کہ اس کائنات (بلبلے)میں جوکچھ ہے ،عکس سے زیادہ کچھ نہیں ہے اوراس کی اپنی بالذات ہستی کچھ نہیں ہے-تیسری قسم کے تھوڑے سے لوگ وہ ہوں گے جو اپنی معجزانہ نظرسے اس بلبلے کی شفاف دیوار کی حقیقت پہچان لیں گے -اُن کی نگاہ اُس باریک جھلی کے پار بھی دیکھ سکے گی -لیکن یہ جھلی دوسرے لوگوں کے لئے ایک کثیف پردہ بن جائے گی تیسری قسم کے معجزانہ نظر رکھنے والے لوگ ایمان کے علاوہ مشاہدہ بھی کررہے ہوں گے کہ حقیقت ایک ہی ہے ،بلبلے کی جھلی کی کثافت پر اگر التفات نہ کیاجائے تو بلبلے کے اندر اورباہر منظر کی یکتائی ایک مسلمہ حقیقت ہے-

بلبلہ کی جھلی محض ایک زائل ہوجانے والی حقیقت ہے-یہ تینوں قسم کے لوگ ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں مگر ان کاباہمی اختلاف اس اختلاف کے مقابلے میں کچھ بھی نہیںجوان تینوں کوایک دوسرے سے ممتاز کرتاہے-پہلی قسم کے لوگ عام ہیں جوہر مذہب میں موجود ہیں ،اُن کاعقیدہ بھلے کچھ بھی ہو اُن کی تمام ترکاوشوں اورمحنتوں کامقصود زیب وزینتِ دُنیاہی رہتی ہے -دوسری قسم کے لوگ ازخود توبلبلے کی شفاف جھلی سے باہردیکھنے کی قابلیت تونہیں رکھتے مگر وہ تیز نظر والے لوگوں کی بتائی ہوئی حقیقت پرعلم الیقین رکھتے ہیں -تیسری قسم کے تھوڑے سے لوگ اپنی تیزنگاہ سے بلبلے کی شفاف جھلی کے آرپار ایسے دیکھتے ہیں کہ گویا جھلی اپنی ٹھوس مادیت کے باوجود اُن کی بصیرت کے سامنے حجاب نہیں بن سکتی‘‘ - یہ لوگ ہمہ وقت دوسرے لوگوں کوباخبر کرتے ہیں کہ جس چیز کوآپ لوگ ٹھوس حقیقت سمجھتے ہوئے اس پہ تکیہ وتوکل کیے بیٹھے ہویہ ایک طرح کا فریبِ نظرہے -

  درج بالا مثال سے حاصلِ گفتگو نتیجہ یہ کہ ہماری اِس کائنات میں معجزانہ نظر رکھنے والے تیسری قسم کے لوگوں کو قرآنی اِصطلاح میں اللہ تعالیٰ کانائب کہاجاسکتاہے اوراُن کی قابلیت خلافتِ الٰہی کے درجات کے مطابق ہوتی ہے لیکن ان کاپیغام زمان ومکان کی قیود سے پاک ہمیشہ سے ایک ہی رہاہے کہ ذاتِ حق تعالیٰ کے سواہر شئے نابود اورختم ہوجانے والی ہے-یہ دُنیا ہمارے لئے آزمائش ہے بلکہ یہ دُنیاایک زائل ہوجانے والاسایہ ہے اوراپنی رُوح کواِس سائے کی سیاہی سے محفوظ رکھناہے- گویا ایسی صاحبِ بصیرت شخصیات جو کثافت کا حجاب دور کر کے لطافت کی نگاہ سے مشاہدات کی قُوّت و استعداد رکھتی ہیں وہی اس قابل ہوتی ہیں کہ کائنات میں انسانی سماج اور زندگی پہ ایسے امور منکشف کرسکیں جو اسے تباہی اور ہلاکت سے محفوظ کریں اور ایسے معیارات کا تعیُّن کرسکیں جو انسانیت کو بقا و ا ستحکام کے راستے پہ گامزن کر سکیں -

   اِن عظیم المرتبت ہستیوں میںبانیٔ اصلاحی جماعت حضر ت سخی سلطان محمد اصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کاشمار ’’سلطان الفقر ششم ‘‘کی حیثیت سے ہوتاہے-آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحبت میں بیٹھنے والوں کویہی اَزلی واَبدی پیغام ایک مثال سے سمجھاتے تھے کہ

’’دیکھو! یہ دُنیا ایک زائل ہوجانے والا سایہ ہے اوراگر ایک آدمی اپنے سائے کی طرف منہ کرلے اورسائے کو پکڑنے کے اِرادے سے سائے کے پیچھے بھاگے توکیا وہ اپنی موت تک سائے کاتعاقب کرکے اپناسایہ پکڑلے گا؟نہیں وہ کبھی بھی اپنے سائے کونہیں پکڑسکتااب اگروہی آدمی اپنامنہ سورج کی جانب کرلے توسایہ اس کے عقب میں آجائے گاوہ اِنسان جتنا تیز سورج کی طرف بھاگے کاسایہ اُسی رفتار سے اُس کے پیچھے پیچھے آئے گا-توان فرامین کومدِنظررکھوکہ یہ دُنیاایک زائل ہوجانے والا سایہ ہے اورحقیقتِ حق تعالیٰ نُورہے -اس لیے قرآن کے اِس آفاقی حکم کے مطابق کہ ’’پس دوڑ اللہ کی طرف‘‘اپنے دِل میں تصوّرِاسم اللہ ذات سجاکرعرفانِ نورِ ذاتِ حق تعالیٰ کی جستجو میں مصروف ہوجائوتویہ دُنیا کیاپوری کائنات کی ہرچیز تمہارے مقصدِ حیات کی کامیابی کے لئے تمہاری معاون ومددگار ہوجائے گی‘‘ -

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے عرفانِ ذات اورعشقِ الٰہی میں رائج نام نہاد غیر شرعی روایات کویکسر مسترد کردیا،شریعت وطریقت کوعشقِ الٰہی کی دودھاری تلوار قرار دیا،خانقاہوں کورسمِ شبیری کے حسن عمل سے مزیّن فرمایا ،ملنگوں اورمستوں کوشریعت نبویﷺ کے اَطوار سے آراستہ کرکے باعمل صوفی بنایا اور ہر طرح کی غیر شرعی رسم ورواج کی حوصلہ شکنی فرمائی ،قلبی ذاکرین کے لئے پنج گانہ باجماعت نماز ادا کرنے کولازم کیااوررزقِ حلال کوبھی توکل علی اللہ کے ذریعے حاصل کرنے کواَحسن جانا- عشقِ مُصطفیٰ ﷺ کو عامۃ النّاس کے دلوں میں اُجاگر رکھنے اور آقا علیہ الصلوٰۃ و والسلام کے عطا فرمودہ مقاصد کی یاد آوری کیلئے ہرسال ملک کے کونے کونے میں محافلِ میلاد مصطفیﷺ کے انعقاد کااہتمام فرمایا-اپنے مریدین کے لئے شریعتِ مطہرہ کو اوڑھنا اوربچھونا قرار دیا-لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے شریعت نبوی ﷺ کے ظاہری اورباطنی اَحکامات سے معرفتِ الٰہی کانصاب مرتب فرمایا-یہ وہ زمانہ تھاجب معرفتِ الٰہی کابھولا بسرا سبق گوشہ نشینوں اورخانقاہوں میں بھی کم یاب تھا-اہل تصوف بھی صرف خوش گفتاری کے لئے معرفتِ الٰہی کانام استعمال کرتے تھے -

 کائنات کے سربستہ رازوں سے عرفانِ ذات کے بغیر پردہ کیسے اُٹھ سکتاتھا ؟اس لیے پڑھے لکھے نوجوان مغربی فلسفے کی جانب راغب ہوناشروع ہوگئے تھے لیکن مغربی فلسفے کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ رُوحانیت سے یکسر عاری تھا- اُن کاوِجدان اس حد تک رہنمائی کرسکتاتھا کہ وہ یہ جان لیں کہ ایک پُراَسرار قوت کی وجہ سے کائنات رواں دواں ہے لیکن مغربی فلسفہ، رُوحانی ہدایت کے بغیر اُس پُراَسرار قوت کا ہم راز بننے سے قاصر تھا -کہ جیسے سقراط اپنے فلسفہ کی علامت ’’سوال‘‘سے کیاخود کوپہچان سکا ؟ البتہ ایک نشاندہی کرنے میں ضرورکامیاب ہوا کہ فلسفۂ حیات میں ’’خود کی پہچان ‘‘ایک اہم سنگِ میل ہے-افلاطون نے اپنے تخیل کی انتہاسے ایک ’’مثالی سلطنت ‘‘ تخلیق کی جسے یوٹوپیاکہاجاتاہے لیکن اپنی ’’مثالی سلطنت ‘‘کے لئے ایک زندہ وجاوید ’’مثالی بادشاہ ‘‘نہ ڈھونڈ سکایعنی افلاطون کا’’Idea‘‘ خیال بھی تشنگی نہ مٹاسکااسی طرح ارسطو نے یہ مؤقف اختیار کیاکہ دُنیاکی ہرشیٔ کے بطن میں ایک ’’جوہر ‘‘ موجود ہے لیکن وہ بھی اُس ’’جوہر‘‘کوافزودہ نہ کرسکایونانی منوان تہذیب سے آرفیس مت نے جنم لیاتھا اورفیثاغورث نے آرفیس مت سے عارفانہ رویہ مستعار لیااُسے ایک اَن دیکھے خدا پہ یقین تھااوروہ نظرآنے والی دُنیا کوباطل اورسرابی تصوّر کرتاتھا - فیثا غورث کاعقیدہ تھا کہ نظرآنے والی دُنیا کی تیرگی میں آسمانی روشنی کی کرنیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں -فشطے بھی Absolute EgoاورNon Egoمیں کبھی امتیاز نہ کرسکااوروہ بھی خودیٔ کبیر کوآشکارکرنے سے قاصر رہا-شوپن ہاور کی زندہ رہنے کی خواہش یاتمناWill to Liveاوراس کاتعقل اورتجسیم ’’نابغہ‘‘ کیاایک پڑھے لکھے نوجوان کو ’’نابغہ روزگار ہستی ‘‘تک رسائی دے سکا ؟کانٹ نے کائنات کی پُراَسرار قوت کوآشکار کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن اُس نے بھی اپنے علم کی انتہاکو اس اصطلاح میں سمودیا  Thing-it-Self یا Ding-an-Sich یعنی ’’وہ خود ہی ہے‘‘پھر اپنی علمی بے بسی کااظہار یوں کیا کہ وہ پُراَسرار طاقت فلسفۂ حیات کی چٹان پرایک بھاری پتھر Noumanen ہے اورفرائیڈ کی لبڈو یابرگساں کاجوش حیات Elan Vitalزنگ کی Psychich Energyیعنی اجتماعی شعور، سپائی نوزا کی Naturance اور Substance اور ان سب سے بڑھ کرنطشے کی غالب آنے کی قوت Will-to-power یعنی فوق الانسان بے پناہ طاقت کااظہار ،اَمارت اورسیاست سے بے نیازی اور تکرارِابدی،مذکورہ بالاتمام اصطلاحیں مغربی فلسفہ کی عرفان ذات میں ناکام کاوشوں کابین ثبوت ہیں لیکن پھر بھی مذکورہ بالا تمام فلسفیوں کی تعلیمات کی حوصلہ افزائی توضرور کرنا چاہیے کہ اُنہوں نے اُس ازلی وابدی پُراَسرار قوت (خدائے برحق) کوپہچاننے کی کوشش توضرور کی لیکن صرف نشاندہی ہی کرسکے اس لئے یہ کہاجاتاہے کہ اُدھورا فلسفہ تودَہریت یعنی خداکے انکار پرمائل کرسکتا ہے لیکن فلسفہ پہ عبور خداپہ علم الیقین تک لے جاتاہے لیکن سوال وہیں موجود ہے کہ مذکورہ بالافلسفیوں کی تعلیمات سے آج تک کسی کوعرفانِ ذات نصیب ہوا؟وہ اس لئے حاصل نہ ہوسکاکہ مغربی فلسفہ حقیقی رُوحانی رہنمائی سے محروم تھا اوررُوحانی قیادت کے بغیر بھلاکون عرفانِ ذات الٰہی کادعویٰ کرسکا؟

آپ اِسلامی تاریخ کامطالعہ کریں آپ کوہرامام اورعالم، معرفتِ الٰہی کی ترغیب دیتاہوا نظرآئے گا،حضرت شیخ ابن عربی کے انسانِ کامل کی تعلیمات میں معرفتِ حق تعالیٰ کے سوا کیاہے؟علامہ عراقی ،امام رازی ،امام شعرانی ،امام جلال الدین سیوطی ،شیخ محقق محدث دہلوی اورماضی قریب میں حضرت علامہ اقبال کے ہاں بھی خدائے برحق کی معرفت ہی مقصودِ کائنات ہے کہ حضرت علامہ اقبال کوبھی ہر کلی کی چٹک ،ہمالیہ کے پہاڑوں، سمندر کے سکوت میں اورطوفان میں بھی ،دریائوں کی روانی میں ،اوجِ ثریامیں ،بے گھر شاہین کے توکل میں ،مردِ کامل کے کردار وگفتار میں ، گلاب اورخار میں بھی معرفتِ الٰہی کے جلوے ہی نظر آئے تھے تبھی توفرماتے ہیں کہ :

تلاش اُو کنی ‘جز خودنہ بینی

تلاشِ خود کنی‘جزاُونیابی

’’اُس کی تلاش کروگے تواپنے سوااورکچھ نہیں دیکھوگے ،اپنی تلاش کروگے تواُس کے سوا کسی اورکونہیں پائوگے-‘‘

بانیٔ اصلاحی جماعت سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمداصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی نئی دعوت نہیں دی بلکہ اپنے اَسلاف کے معرفتِ حق تعالیٰ کے گم گشتہ اوراق کوازسرِنو مرتب فرمایاہے جیساکہ پہلے عرض کیاجاچکاہے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ کرامت تھی کہ آپ نے شریعت نبوی ﷺ کے ظاہری اورباطنی اعمال اوراحکامات پہ مبنی معرفتِ الٰہی کانصاب ترتیب دیاتھا اس نصاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظاہری اعمال واحکامات کوشریعت اورآپﷺ کے باطنی اعمال اوراحکامات کوطریقت سے تعبیر کیاگیا-یعنی حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مقدسہ کو عرفانِ ذاتِ حق تعالیٰ کاکامل و اکمل مأخذ اورذریعہ و وسیلہ قراردیااوریہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے عشقِ مصطفیﷺ کاکامل ومکمل ثبوت ہے -آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں عقل کی ضرورت ہے وہاں خرد کے بھرپوراستعمال کی حوصلہ افزائی فرمائی اورجہاں حضرت ِعشق سماجائے وہاں جنون کے جوشِ حیات سے استفادہ کرنے کامشورہ دیاہے جیسے اقبال کہتے ہیں کہ:

گیسوئے تابدار کواَوربھی تاب دار کر

ہوش و خرد شکار کر ‘ قلب و نظر شکار کر!

عشق بھی حجاب میں حُسن بھی ہوحجاب میں!

یا تو خود آشکار  ہو یا مجھے آشکار کر!

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت کااعجاز ہے کہ آپ نے عام قابلیت کے انسانوں کو بھی عرفان ذات کی خاصیت عطافرمائی ،جس کی وجہ سے آج طالبان مولیٰ کے مابین معرفت الٰہی کے روشن اِمکانات پربات چیت ہورہی ہے- خانقاہوں اورمساجد دونوں جگہوں پہ باجماعت نماز بھی اداہورہی ہے اورتصورِاسم اللہ ذات کاقلبی ذکر بھی ہورہاہے اور دائمی اوروقتی فرائض کوایک ہی فرد میں یکتائی نصیب ہورہی ہے -حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرتِ طیبہ کے رُوحانی اورمعاشرتی دونوں پہلوئوں پہ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کے پلیٹ فارم سے بات ہورہی ہے-مردِ خود آگاہ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمدعلی صاحب سروری قادری کی نگاہِ فیض کاکرشمہ ہے کہ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کاایک رکن بیک وقت ایک عالمِ دین ،ایک باعمل صوفی اورایک زندہ دل عارف کے فرائض بخوبی اداکررہاہے- اور آپ کی قیادت میں اسلام آباد بیسڈ مسلم انسٹی ٹیوٹ عالمی سطح پہ بین الاقوامی سفارتی معیار کے مطابق پاکستان وعالم اسلام کی ایک مؤثر آواز بن کراُبھررہاہے-اللہ تعالیٰ اس ہمہ جہتی تحریک کودن دوگنی اوررات چوگنی ترقی عطا فرمائے -امین

أؤیٔ

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر