سلطان الفقر ششم ؒ : سنتِ نبویﷺ کا عکسِ جمیل

سلطان الفقر ششم ؒ : سنتِ نبویﷺ کا عکسِ جمیل

سلطان الفقر ششم ؒ : سنتِ نبویﷺ کا عکسِ جمیل

مصنف: مفتی محمد شیرالقادری اکتوبر 2017

نوٹ:اس مضمون  کا حصہ اول اکتوبر2012ء میں شائع ہو چکا ہے-

’’حجۃ الاسلام‘‘ امام محمد غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ:

’’انی علمت یقینا ان الصوفیۃ ھم السابقون لطریق اللہ تعالیٰ خاصۃ، وأن سیرتھم احسن السیر، و طریقھم أصوب الطرق، أخلاقھم ازکی الأخلاق، بل لو جمع عقل العقلاء، و حکمۃ الحکمائٗ وعلم الواقفین علی أسرار الشرع من العلماء ، لیغیروا شیئا من سیرھم واخلاقھم و یبدلوہ بما ھو خیر منہ، لم یجدوا الیہ سبیلا، فان جمیع حرکاتھم وسکناتھم ، فی ظاہر ھم و باطنھم، مقتبسۃ من نور مشکاۃ النبوۃ، ولیس وراء نورالنبوۃ علی وجہ الارض نور یستضاء بہ‘‘[1]

 

’’بے شک مجھے قطعیت کے ساتھ معلوم ہوا کہ صوفیاء ہی وہ جماعت ہے جو خصوصیت سے اللہ تعالیٰ کی راہ پر گامزن ہے اور ان کی سیرت سب سیرتوں سے بہتر ہے اور ان کا طریق سب طریقوں سے زیادہ صاف ہے ان کے اخلاق سب اخلاقوں سے پاکیزہ تر ہیں بلکہ اگر تمام عقلاء کی عقل اور حکماء کی حکمت اور علماء میں واقفانِ شریعت کے اسرار و علم کو جمع کیا جائے تاکہ یہ لوگ صوفیاء کی سیرت اوراخلاق میں سے ذرابھی بدل سکیں اوراُن سے بہترسیرت کی تشکیل ہو سکے تووہ یہ ہرگز نہیں کرسکیں گے کیونکہ ان کی تمام حرکات و سکنات چاہے ظاہری ہوں چاہے باطنی نورِ مشکاۃ نبوت سے ہی منور ہیں اور نُورِ نبوت سے بڑھ کر کوئی نور رُوئے زمین پراس لائق نہیں کہ اس سے روشنی حاصل کی جائے‘‘-

حضرت ذوالنون مصری ؒ سے جب جماعتِ صوفیاء کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ؒنے فرمایا:

’’ ھم قوم اثرواللہ  عزوجل علی کل شیٔ فاثرھم اللہ عزوجل علی کل شیٔ ‘‘[2]

 

یہ وہ قوم ہے جو اللہ عز وجل کو ہر چیز پر ترجیح دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر چیز پر ترجیح دے دی‘‘-

یہ ایک حقیقت ہے کہ صوفیاء کا طریق کتاب و سنت کی حقیقی برکات سے مستحکم اور اخلاقِ انبیاء (علیہ السلام)کے سلوک پر مبنی  ہوتا ہے  اور یہ امت محمدیہ (ﷺ)میں باعتبارتقوی و رجوع اِلی اللہ کا سب سے افضل ترین گروہ ہے-

تقریباًگزشتہ نصف صدی کے عظیم صوفیاء کرام میں گوہر یگانہ کی حیثیت رکھنے والے، بانیٔ اصلاحی جماعت سلطان الفقرششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہٗ خانوادہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو صاحب قدس اللہ سرّہٗ سے تعلق رکھتے ہیں-آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کا سلسلہ نسب نویں پشت پر حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) سے ملتا ہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی ساری زندگی کتاب و سنت اور طریقِ تربیتِ یافتگانِ رسول () کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ایک باعمل مجاہد کی سی تھی- راقم نے آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی حیاتِ مبارکہ کے جس بھی پہلو کو قرآن و سنت کے مطابق پرکھا ہے وہ شریعتِ مطہرہ کے مطابق ہی نظر آیا ہے-بلکہ یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے ساری زندگی عامۃ الناس کو معرفت و قربِ لٰہی کی جانب راغب کرنے کا فریضہ سرانجام دیا ہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے شریعتِ محمدی(ﷺ)کی روشنی میں مختلف طور طریقوں سے زندگی کے مختلف شعبہ جات کے لوگوں کو اس عظیم پیغام کی جانب متوجہ کیا- اسی طرح آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کے شکار کرنے کا طریق، اصول  اور اس کے ظاہری و باطنی فوائد بھی بے شک چل پھر کے اسم اللہ ذات کی تعلیم عام کرنے کی صورت میں ظاہر ہوئے-زیرِ نظر مضمون میں ہم آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کی حیات مبارکہ کے اس حصے سے متعلق گفتگو کریں گے جو آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کا شکار اور شکار کھیلنے والوں کے ساتھ گزرا ہے-

 آپ (قدس اللہ سرّہٗ) جن چیزوں کاشکار کھیلا کرتے تھے ان میں کالا تیتر، ہڑیال، ہرن، مگ اور خرگوش قابل ذکر ہیں-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)سال میں کچھ دن شکار کے لئےمختص فرمادیتے پھر انہی ایام میں دور دراز سے لوگ شکار کھیلنے کیلئے حاضر ہوجاتے-آپ کا شکاری قافلہ کم سے کم  150سے 200 لوگوں پر مشتمل ہوتا تھا-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کا شکار کھیلنا اتنا منظم اور دلچسپ ہوتا کہ آپ سے رفاقت  رکھنے والے لوگ پورا پورا سال ایامِ شکار کے منتظر رہتے- شکارکا معمول یہ ہوتا کہ روانگی سے قبل سب سے پہلے آپ تمام قافلے والوں کی فرداً فرداً خیریت دریافت فرماتے - بعد ازاں قافلے  والوں کو ہدایات جاری کی جاتیں- مثلاً خرگوش کے شکار کے دوران ایک خرگوش پہ ایک وقت میں صرف ایک جوڑ لگانے کی اجازت تھی ، جو خرگوش یا ہرن جوڑ یا نشانے کی زَد میں ایک بار آتا تو ایک شب کا وقفہ دئے بغیر اُس پہ دوسرے نشانہ کی اجازت نہ تھی، شکار کے راستے میں آنے والے باغات اور فصلوں سے کسی شکاری کو پھل یا ثمر توڑنے کی سخت ممانعت تھی ، اہلِ علاقہ سے اور شکاری ساتھیوں کی آپس میں بھی بد کلامی، سخت زبانی اور یاوہ گوئی کی بھی شدید ممانعت تھی (حضور مرشد کریم کی شرائطِ شکار کی مزید تفصیل آپ کے شکاری ساتھیوں کے ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل کی ٹیم کیساتھ کئےگئے  انٹر ویوز میں دیکھی جا سکتی ہیں )- ہر آدمی کے لئے ان اصول وضوابط کا پابند رہنا ضروری ہوتا اور روانگی کے وقت نظم و ضبط کی وجہ سے ایسا سماں بن جاتا کہ جیسے کوئی عظیم عسکری سپہ سالار تربیت دینے کے لئے قافلےکو تربیت گاہ میں لے جا رہے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہ تھا کیونکہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کا پورے انہماک اور نظم و ضبط کے ساتھ شکار کھیلنا’’من وجہ‘‘شکار تو تھا ہی تھا لیکن ساتھ ساتھ ’’من وجہ‘‘ مکمل ایک تربیتی اخلاقیات پر مبنی کورس بھی تھا- ظہر اور عصر کی نماز شکار گاہ میں باجماعت ادا کی جاتی اور ساتھیوں کو تصور میں رہنے کی تلقین کی جاتی (دورانِ شکار پیش امام کی ڈیوٹی عموماً حافظ شیر محمد صاحب آف اوچھالی کو سونپی جاتی ) - کچھ احباب کو قافلے کے پیچھے رہ کر قافلے والوں کی خبر گیری کرنے کا حکم ہوتا تاکہ کوئی ساتھی پیچھے نہ رہ جائے-

یہاں پر مناسب سمجھتا ہوں شکار کی  شرعی حیثیت کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کروں کیونکہ یہ ایک  حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں  بسا اوقات ایسے معاملات جو طریقِ حیات تبدیل ہونے کے باعث معاشرے میں رائج الوقت نہیں رہتے، عامۃالناس کی نظر میں شرعاً واضح نہیں ہوتےجس کی وجہ سے بعض اشخاص شکوک و شبہات کی بنیاد پر بدگمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں-چنانچہ حضور نبی کریم(ﷺ) اور آپ(ﷺ)کے اصحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) اور دیگر حوالہ جات سے اس موضوع پر کچھ روشنی ڈالنا چاہوں گاتاکہ بدگمانی میں مبتلا نہ ہوا جائے-

امام عبدالوہاب شعرانی ؒ (المتوفی:973ھ )’’الیواقیت والجواہر‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’الذی عندنا انہٗ یحرم علی کل عاقل ان یسیء الظن باحد من اولیاء اللہ‘‘[3]

 

’’ ہمارے ہاں یہ بات مسلم ہے کہ ہر عقل مند آدمی پر حرام ہے کہ اولیاء اللہ میں سے کسی کے بارے میں بد گمانی کرے ‘‘-

سلطان الفقر ششم (قدس اللہ سرّہٗ)کا شکار کھیلنے کا پسِ منظر :

                      I.             قرآن سے شکار کی مشروعیت کا ثبوت : 

ارشاد باری تعالی ہے:

(1)’’وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا‘‘[4]

 

’’اور جب تم حالتِ احرام سے باہر نکل آؤ تو تم شکار کرسکتے ہو‘‘-

(2)’’يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللہُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَيْهِ وَاتَّقُوا اللہَ إِنَّ اللہَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ‘‘[5]

 

’’لوگ آپ (ﷺ)سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں، آپ (ﷺ)(ان سے) فرما دیں کہ تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور وہ شکاری جانور جنہیں تم نے شکار پر دوڑاتے ہوئے یوں سدھار لیا ہے کہ تم انہیں (شکار کے وہ طریقے) سکھاتے ہو جو تمہیں اﷲ نے سکھائے ہیں سو تم اس (شکار) میں سے (بھی) کھاؤ جو وہ (شکاری جانور) تمہارے لیے (مارکر) روک رکھیں اور (شکار پر چھوڑتے وقت) اس (شکاری جانور) پر اﷲ کا نام لیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو-بے شک اﷲ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے‘‘-

شان نزول :

مندرجہ بالا آیت کریمہ کے تحت ابن کثیر’’تفسیر ابن کثیر‘‘میں لکھتے ہیں حضرت ابو رافع (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ جبریل امین نےحضور نبی کریم ()سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ () نے اجازت دی لیکن پھر بھی وہ داخل نہ ہوئے-آپ () نے فرمایا کہ داخل کیوں نہیں ہوتے ہم تو تمہیں اجازت دے چکے-جبریل نےعرض کی: ہاں ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو-ابو رافع (رضی اللہ عنہ)کہتے ہیں کہ آپ () نے مجھے مدینہ کے تمام کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دے دیا-میں تمام کتوں کو مارنے لگا یہاں تک کہ ایک عورت کے پاس پہنچا، اس کا ایک کتا تھا جو اس کے سامنے فریاد کناں ہوکر بھونکنے لگا، مجھے اس پر ترس آگیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا-پھر میں حضور نبی کریم () کی خدمت میں حاضر ہوا اور ساری بات بتادی-آپ () نے اسے قتل کرنے کا حکم فرمایا، میں نے حکم کی تعمیل کی اور اسے بھی قتل کردیا- لوگ حاضر خدمت ہوئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ ()! جس کے قتل کا آپ () نے حکم دیا ہے اس کا کوئی فائدہ ہمارے لئے حلال بھی ہے؟ رسول اللہ () خاموش رہے تو اس وقت سورہ المائدہ کی  یہ درج بالا آیت نازل ہوئی-

               II.             حدیث رسول (ﷺ)   سے شکار کی مشروعیت کا ثبوت :

’’صحیح مسلم‘‘ میں روایت ہے حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

’’من اقتنی کلباً لیس بکلب صید و لا ماشیۃ ولا ارض فانہ ینقص من اجرہ قیراطان کل یوم‘‘[6]

 

’’جس شخص نے شکار،مویشی اور زمین (کھیتوں)کے علاوہ کتا رکھا تو اس کے اجر سےہر روز دو قیراط کم ہوتے رہیں گے‘‘-

اس حدیث پاک میں شکار اور حفاظت کی غرض سے پالنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے-  

امام بخاری ؒ’’صحيح البخارى، كتاب الذبائح والصيد، باب إذا أكل الكلب‘‘اور امام مسلم ؒ ’’صحيح مسلم،كتاب الصيد والذبائح ، باب الصيد بالكلاب المعلمة‘‘میں یہ روایت درج فرماتے ہیں کہ حضرت عدی بن حاتم (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں، مَیں نے رسول اللہ () سےیہ سوال کیا کہ:

’’قلت إنا قوم نصيد بهذه الكلاب ؟ فقال ( إذا أرسلت كلابك المعلمة وذكرت اسم اللہ فكل مما أمسكن عليكم وإن قتلن إلا أن يأكل الكلب فإني أخاف أن يكون إنما أمسكه على نفسه وإن خالطها كلاب من غيرها فلا تأكل‘‘

 

’’ہم ایسی قوم ہیں جو ان کتوں کے ساتھ شکار کرتے ہیں-آپ () نے فرمایا: جب تم اپنے سدھائے ہوئےکتے کو چھوڑو اور اس پر بسم اللہ (تکبیر)پڑھو تو کتے نے جو شکار تمارے لئے روکا ہے اس کو کھا لو البتہ اگر کتےنے بھی اس شکار سے کچھ کھا لیا ہے تو پھر مت کھاؤکیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ اس کتے نےاس شکار کو اپنے لئے کیا ہے اور اگرتمہارے کتے کے ساتھ اور کتے بھی مل جائیں تو پھر بھی اس شکار کومت کھاؤ‘‘-

مزید اسی طرح’’صحيح البخارى، كتاب الذبائح والصيد باب صيد القوس‘‘اور’’صحيح مسلم،كتاب الصيد والذبائح ، باب الصيد بالكلاب المعلمة‘‘میں یہ روایت بھی درج ہےکہ حضرت ابو ثعلبہ خُشَنِی (رضی اللہ عنہ)نے بھی شکار کیلئے  سدھائے ہوئے اور غیر سدھائے ہوئے  کتے رکھے ہوئے تھے جن سے وہ شکار کھیلا کرتے تھے-(دونوں کتوں کے شکار کے احکام الگ الگ ہیں )

                 III.            کتب محدثین اور کتب فقہاء سے شکار کی مشروعیت کا ثبوت :

الامام الفقیہ الزاہدابی اللیث نصر بن محمد بن ابراہیم السمر قندی الحنفی(رضی اللہ عنہ)(المتوفی:375ھ) فرماتے ہیں:

’’یجوز الاصطیاد بالکلب المعلم‘‘[7]

 

’’سدھائے ہوئے کتے کے ساتھ شکار کھیلنا جائز ہے‘‘-

امام أبو عبد الله محمد بن أحمد بن أبی بكر القرطبی(رضی اللہ عنہ) (المتوفى:671ھ)’’تفسیر الجامع الاحکام القرآن‘‘اور امام بدرالدین الزرکشیؒ (المتوفی: 794ھ)’’البرہان فی علوم القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں کہ حضرت عدی بن حاتم (رضی اللہ عنہ) کے پانچ کتے تھے جن کے انہوں نے  نام رکھے ہوئے تھے:

’’وَكَانَ لِعَدِيّ كِلَابٌ خَمْسَةٌ قَدْ سَمَّاهَا بِأَسْمَاءِ أَعْلَامٍ، وَكَانَ أَسْمَاءُ أَكْلُبِهِ سَلْهَبٌ وَغَلَّابٌ وَالْمُخْتَلِسُ وَالْمُتَنَاعِسُ، قَالَ السُّهَيْلِيُّ: وَخَامِسٌ أَشُكُّ، قَالَ فِيهِ أَخْطَبُ، أَوْ قَالَ فِيهِ وَثَّابٌ‘‘[8]

 

’’حضرت عدی بن حاتم (رضی اللہ عنہ)کےپانچ کتے تھے جن کے اس نے نام رکھے ہوئے تھے ان کے کتوں کے نام یہ تھے، سہلب، غلاب، المختلس اور  المتناعس: امام سہیلی نے کہا پانچویں میں مجھے شک ہے فرمایا اخطب تھا یا فرمایا وثاب‘‘-

القاضی الشیخ الحافظ  ابی الفضل عیاض بن موسی المالکی الاندلسی(رضی اللہ عنہ)(المتوفی:544ھ) فرماتے ہیں:

ھو لمباح للاکتساب والحاجۃ للاکل والا انتفاع[9]

 

’’جو شخص کسبِ معاش کے لئے شکار کرے یا کھانے کی ضرورت کی بنا پر شکار کرے یا (شکار کی قیمت سے) نفع حاصل کرنے کے لئے شکار کرے تو( ان تمام صورتوں میں) شکار کرنا جائز ہے‘‘-

  علامہ یحیی  بن شرف نووی شافعی ؒ (المتوفی : 676ھ)فرماتے ہیں:

’’إِبَاحَة الِاصْطِيَاد وَقَدْ أَجْمَع الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ وَتَظَاهَرَتْ عَلَيْهِ دَلَائِل الْكِتَاب وَالسُّنَّة وَالْإِجْمَاع‘‘[10]

 

’’شکار کرنا مباح ہے، اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے- کتاب، سنت اور اجماع سے اس پر بکثرت دلائل ہیں ‘‘-

امامِ اجل ،شَمْسُ الْأَئِمَّة، ابوبکر محمد بن احمد بن ابو سہل السرخسی الحنفی (رضی اللہ عنہ)(المتوفی : 483ھ ) فقہ حنفی کی اپنی معروف کتاب ’’المبسوط‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’اعْلَمْ بِأَنَّ الِاصْطِيَادَ مُبَاحٌ فِي الْكِتَابِ، وَ السُّنَّةِ أَمَّا الْكِتَابُ فَقَوْلُهُ تَعَالَى : { وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا} وَأَدْنَى دَرَجَاتِ صِفَةِ الْأَمْرِ الْإِبَاحَةُ، وَقَالَ اللہُ تَعَالَى: { أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ} الْآيَةَ ، وَالسُّنَّةُ قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : { الصَّيْدُ لِمَنْ أَخَذَهُ } فَعَلَى هَذَا بَيَانُ أَنَّ الِاصْطِيَادَ مُبَاحٌ مَشْرُوعٌ ‘‘[11]

 

’’تو جان کہ قرآن وسنت کی رو سے شکا ر مبا ح ہے ،جہاں تک  کتا ب اللہ کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک ہے : ’’جب تم احرام کھول دوتو شکا ر کرو ‘‘ اور امر کا ادنیٰ درجہ ابا حت ہے اور اللہ پاک نے (ایک اور مقام پر ) ارشاد فرما یا: ’’تمہارے لیے سمندر کا شکا ر حلا ل کردیا گیا  ‘‘ اور سنت مبا رکہ  کے حوالے سے دیکھا جائے تو آپ() کا فرما ن مبارک ہے شکا ر اسی کا ہے جس  نے اس کو پکڑا-پس ان(دلائل کی وجہ سے ) کہا جا تا ہے کہ شکا ر از روئے شریعت جا ئز ہے‘‘-

امام محمد بن حسن شیبانی ؒ فرماتے ہیں:

’’ وَكُلُّ شَيْءٍ عَلَّمْته مِنْ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ اَوذِي مِخْلَب مِنْ الطَّيْرِ فَلَا بَأْسَ بِصَيْدِهِ‘‘[12]

 

’’اور تمام سدھائے ہوئے اور پھاڑنے والے درندوں اور پنجوں سے شکار کرنے والے پرندوں سے شکار کرنا جائز ہے‘‘-

الشیخ الامام کمال الدین محمد بن عبدالواحد السیواسی المعروف بابن الہمام الحنفی ؒ(المتوفیٰ:861ھ) فرماتے ہیں:

’’قَالَ  وَيَجُوزُ الِاصْطِيَادُ بِالْكَلْبِ الْمُعَلَّمِ وَالْفَهْدِ وَالْبَازِي وَسَائِرُ الْجَوَارِحِ الْمُعَلَّمَةِ‘‘[13]

 

’’سدھائے ہوئے کتے، چیتے، تمام زخمی کرنے والے اور سدھائے ہوئے جانوروں سے شکار کرنا جائز ہے ‘‘-

                 IV.            برائے حفاظت و شکار کتےپالنے کی شرعی حیثیت:

امام کمال الدین ابن الہُمام الحنفی ؒ (المتوفیٰ:861ھ) فرماتے ہیں:

’’وأما اقتناؤه للصيد وحراسة الماشية و البيوت والزرع فيجوز بالإجماع ، لكن لا ينبغی أن يتخذه فی داره إلا إن خاف لصوصا أو أعداء ‘‘[14]

 

’’شکار کے لئے مویشیوں،گھروں اور کھیتوں کی حفاظت کے لئے کتا رکھنا بالااجماع جائزہے-بلا ضرورت گھروں میں کتا رکھنا جائز نہیں ہے البتہ اگر چوروں اور دشمنوں سے خطرہ ہوتو پھر جائز ہے‘‘-

خرگوش کے  شکار کھیلنے کا پس منظر :

سُلطان الفقر ششم (قدس اللہ سرّہٗ)جب خرگوش کا شکار کھیلنے کیلئے تشریف لے جاتے تو کم از کم 150سے 200 آدمی آپ کے ساتھ ہوتے-شکار کے وقت بڑے منظم طریقے سے خرگوش کو تلاش کیا جاتا ، جب مل جاتا تو اسے اُبھا را جاتا،دوڑایا جاتا پھر اُسے پکڑا جاتا- امام بخاری ؒ  ’’صحيح بخاری،كتاب الهبة وفضعلها ، باب قبول هدية الصيد‘‘میں روایت درج کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ:

’’أنفجنا أرنبا بمر الظهران فسعى القوم فلغبوا فأدركتها فأخذتها فأتيت بها أبا طلحة فذبحها وبعث بها إلى رسول اللہ (ﷺ)بوركها وفخذيها قال فخذيها لا شك فيه فقبله . قلت وأكل منه ؟ قال وأكل منه ثم قال بعد قبله ‘‘

 

’’ہم نے مرالظہران کے مقام پر ایک خرگوش کو ابھارا(بھگایا)اور لوگ اس کے پیچھے دوڑے پس تھک گئے(پھر میں اس کے پیچھے دوڑا) پس میں نے اُس کو پاکر پکڑ لیا-پھر میں اس کو ابو طلحہ (رضی اللہ عنہ) کے پاس لے آیا انہوں نے اس کو ذبح کیا اور اس کے کولھوں کا یا اس کی رانوں کا گوشت حضور نبی کریم () کی خدمت میں بھیجا-شعبہ نے کہا: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رانوں کا گوشت بھیجا تھا -آپ() نے اس کو قبول فرما لیا-میں نے پوچھا آپ () نےاس میں سے کچھ کھایا بھی تھا؟ انہوں نے کہا ہاں اس میں سے آپ () نے کھایا تھا-پھر بعد میں کہاآپ () نے اسے قبول فرما لیا تھا‘‘-

امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت انس ابن مالک (رضی اللہ عنہ)کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:

’’أَنْفَجْنَا أَرْنَبًا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ فَسَعَى أَصْحَابُ النَّبِىِّ (ﷺ) خَلْفَهَا‘‘[15]

 

’’ہم نےمرالظہران میں خرگوش کوابھارا (بھگایا) پس صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ)اس خرگوش کے پیچھے دوڑے‘‘-

ان صحیح احادیث مُبارکہ سے معلوم ہوا ہے کہ حضور رسالت مآب () کے دور مبارک میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) خرگوش کا شکار کھیلتے تھے اور اِسے مباح و حلال سمجھتے تھے-اس لئے آئمۂ اجتہاد نے بھی اس کی تائید فرمائی ہے -

سلطان الفقر ششم (قدس اللہ سرّہٗ) کی خدمت مبارک میں پکا  ہوا / بھونا ہوا خرگوش پیش کیا جانا ، آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کا خود بھی تناول فرمانا اور اپنے خلفاء کو بھی عطا فرمانا:

’’سنن النسائی‘‘ میں امام نسائی ؒ روایت فرماتے ہیں: 

’’جاء أعرابی إلى رسول اللہ (ﷺ) و معه أرنب قد شواها وخبز فوضعها بين يدی النبی (ﷺ) ثم قال إنی وجدتها تدمى فقال رسول اللہ (ﷺ)لأصحابه لا يضر كلوا وقال للأعرابی كل قال إنی صائم‘‘[16]

 

’’ایک اعرابی حضور نبی کریم() کی بارگاہ مبارک میں ایک بھونا ہوا خرگوش اور روٹی لے کر حاضر ہوااور رسول اللہ ()کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ میں نے دیکھاکہ خون بہہ رہا تھا رسول اللہ ()نے اپنے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ کچھ نقصان نہیں کھاؤ اور اعرابی سے فرمایا کہ تو بھی کھا اس نے عرض کیا کہ میں روزہ سے ہوں‘‘-

اسی طرح ایک اور روایت میں ہےکہ:

’’فقال لہ النبی () ما یمنعک ان تاکل، قال انی صائم‘‘

 

’’پس آپ () نےاعرابی سے فرمایا کہ اس کے کھانے سے تجھے کس چیز نے روکا ہے ؟ اس نے عرض کیاکہ میں روزہ دار ہوں‘‘-

شَمْسُ الْأَئِمَّة امام السرخسی الحنفی ؒ (المتوفی : 483ھ  )لکھتے ہیں کہ:

مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ (رضی اللہ عنہ) أَنَّ { أَعْرَابِيًّا أَهْدَى إلَى رَسُولِ اللہِ (ﷺ) أَرْنَبًا مَشْوِيًّا قَالَ : لِأَصْحَابِهِ كُلُوا قَالَ الْأَعْرَابِيُّ : إنِّي رَأَيْتُ دَمًا قَالَ رَسُولُ اللہِ (ﷺ): لَيْسَ بِشَيْءٍ ، وَقَالَ لِلْأَعْرَابِيِّ : إذَنْ فَكُلْ فَقَالَ : إنِّي صَائِمٌ ، قَالَ : صَوْمَ مَاذَا ؟ قَالَ : صَوْمَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ، فَقَالَ : هَلَّا جَعَلْتهَا الْبِيضَ } ‘‘

 

’’حضرت موسی بن طلحہ(رضی اللہ عنہ)، حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ () کی خدمت میں بھنا ہوا خرگوش پیش کیا، آپ (ﷺ)نے اپنے اصحاب سے فرمایا: تم کھاؤ! اعرابی نے کہا:میں نے اس میں حیض کا خون دیکھا ہے، رسول اللہ () نےفرمایا: یہ کچھ نہیں اور اعرابی سے فرمایا : اب تم کھاؤ! اس نےکہا: میں روزے سے ہوں،آپ(ﷺ)نے پوچھا: کون سے روزے ؟ اس نے عرض کی:ہر ماہ کےتین دن کے روزے آپ () نے فرمایاتم نے ایامِ بیض(تیرہ، چودہ،اور پندرہ تاریخ) کے روزے کیوں نہیں رکھے!‘‘-

علامہ سرخسی ؒمزیدفرماتے ہیں:

وَبِهِ نَأْخُذُ فَنَقُولُ : الْأَرْنَبُ مَأْكُولٌ ، وَقَدْ قبل رَسُولُ اللہِ (ﷺ) الْهَدِيَّةَ فِيهِ وَأَكَلَ مِنْهُ، وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ (رضی اللہ عنہ)بِذَلِكَ (وَ قَوْلُ) الْأَعْرَابِيِّ : إنِّي رَأَيْتُ دَمًا مُرَادُهُ مَا يَقُولُ جُهَّالُ الْعَرَبِ : أَنَّ الْأَرْنَبَةَ تَحِيضُ كَالنِّسَاءِ فَبَيَّنَ رَسُولُ اللہِ (ﷺ) أَنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِشَیْءٍ‘‘[17]

 

’’ہم اسی حدیث کے موافق کہتے ہیں کہ خرگوش کھایا جائے گا اور رسول اللہ () نے خرگوش کا ہدیہ قبول فرمایا اور اس میں سےکھایا ہے اور اپنے اصحاب (رضی اللہ عنہ) کو اس کے کھانے کا حکم دیا ہے-اس اعرابی نے جو یہ کہا تھا کہ میں نے اس خرگوش میں حیض کا خون دیکھا ہے اس سے مراد یہ تھی کہ جاہل عرب کہتے تھے کہ خرگوش کو عورتوں کی طرح خون آتا ہے تو رسول اللہ () نے فرمایا: یہ کوئی چیز نہیں ہے‘‘-

الامام الفقیہ ابی الفتح ظہیر الدین عبد الرشید بن ابی حنیفہ ابن عبد الرزاق الولوالجیؒ (المتوفی:540ھ) فرماتے ہیں:

’’ویؤکل الارنب لما روی ان اعرابیا اھدی ارنبا الی النبی(ﷺ) فاکل و امر اصحابہ بالاکل‘‘[18]

 

’’اور خرگوش کھایا جائے گا کیونکہ روایت کیا گیا ہے کہ ایک اعرابی نے آپ (ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں ایک خرگوش (بطور)ہدیہ پیش کیا پس آپ (ﷺ) نے تناول فرمایا اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کو کھانے کا حکم فرمایا‘‘-

علامہ جما ل الدین ابومحمد عبداللہ بن یوسف الحنفیؒ (المتوفی :762ھ ) ’’نصب الرایۃ فی تخريج أحاديث الهدایۃ ، كِتَابُ الذَّبَائِحِ، باب اکل لحم الفرس‘‘ اور الشیخ الامام کمال الدین ابن الہُمام الحنفی ؒ (المتوفیٰ : 861ھ) ’’فتح القدیر، كِتَابُ الذَّبَائِحِ ، فَصْلٌ فِيمَا يَحِلُّ أَكْلُهُ وَمَا لَا يَحِلُّ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:

’’قَالَ ( وَلَا بَأْسَ بِأَكْلِ الْأَرْنَبِ ) لِأَنَّ { النَّبِيَّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَكَلَ مِنْهُ حِينَ أُهْدِيَ إلَيْهِ مَشْوِيًّا وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ (رضی اللہ عنہ) بِالْأَكْلِ مِنْهُ ‘‘

 

آپ (رضی اللہ عنہ)نے فرما یا ( وَلَا بَأْسَ بِأَكْلِ الْأَرْنَبِ )اور خرگوش کے کھانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ جب آپ (ﷺ)کی با رگاہ اقدس میں بھونا ہوا گوشت ہدیۃً پیش کیا گیا تو  نبی مکرم (ﷺ)نے اس سے تنا ول فرما یا  اپنے صحابہ کرام(رضی اللہ عنہ) کو بھی  اس سے کھا نے کا حکم فرما یا‘‘-

اما م علاء الدین ابوبکر بن سعود الکاسانی الحنفی ؒ (المتوفی :587ھ) فرماتے ہیں:

’’وَلَا بَأْسَ بِأَكْلِ الْأَرْنَبِ لِمَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رضی اللہ عنہ)أَنَّهُ قَالَ { : كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللہِ (ﷺ) فَأَهْدَى لَهُ أَعْرَابِيٌّ أَرْنَبَةً مَشْوِيَّةً فَقَالَ : لِأَصْحَابِهِ كُلُوا } ، وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ أَوْ صَفْوَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ قَالَ { : أَصَبْت أَرْنَبَتَيْنِ فَذَبَحْتُهُمَا بِمَرْوَةِ وَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللہَ (ﷺ) فَأَمَرَنِي بِأَكْلِهِمَا ‘‘[19]

 

’’اور خرگوش کے کھانے میں کو ئی حرج نہیں  کیونکہ حضرت ابن ِ عباس (رضی اللہ عنہ) سےروایت ہے کہ آپ (رضی اللہ عنہ) فرما تے ہیں کہ ہم رسول اللہ () کے پاس موجو د تھے  تو ایک اعرابی نے آپ(ﷺ)کی خد مت ِ اقدس  میں بھو نا ہو اگوشت  ہدیۃً پیش کیا ،تو آپ ()نے اپنے اصحاب (رضی اللہ عنہ)سے فرما یا  تم کھا ؤ اور محّمد بن صفوان یا صفوان بن محمّد  (رضی اللہ عنہ)سےروایت ہے:آپ(ﷺ)فرما تے ہیں مَیں نے دو خرگوش پکڑ ے  اور ان دونوں  کو’’مروہ ‘‘  سے ذبح کیا اور  پھر  میں نے سیدنا رسول اللہ (ﷺ)سے اس  کے بارے میں سوال کیا تو  آپ (ﷺ) نے  ان دونو ں کے کھانے کا حکم ارشاد فرما یا‘‘ -

شکار فقط بہانہ تھا لوگوں کی رہنمائی کا:

سلطان الفقر ششم(قدس اللہ سرّہٗ) کی ذاتِ پاک میں کمال درجے کا یہ وصف موجود تھا کہ آپ کوئی بے مقصد کلام یا بے مقصد کام نہیں کرتےتھے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ) ہر اس کام کو ترجیح دیتے جس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کا فائدہ ہوتا-چونکہ عصرِ حاضر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ  شکار کے شعبہ میں بکثرت وہ لوگ شامل تھے جن کے بارے میں اگر یہ کہاجائے کہ وہ زندگی میں کبھی مذہبی جلسے یا درباروں پر نہیں گئے ہوں گے اور عقائد کو اتنی گہرائی سے نہ جانتے ہوں گے، تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا-لیکن آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی کمالِ شفقت دیکھیئے کہ اُن  لوگوں تک پیغامِ الٰہی پہنچانے کیلئے شریعت محمدی(ﷺ) کے مطابق ایسے طریق اختیار کیے کہ وہ خود بخود آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کے قریب آتے چلے گئے اور پھر آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کے اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہو کر تصورِ اسم اللہ ذات کی جانب راغب ہوئے-یعنی یہاں بھی ہمیں صدیوں قبل عظیم صوفیاء کی اس روایت کا احیاء نظر آتا ہے کہ جنہوں نے معرفتِ الٰہی کی پرچار کیلئے مختلف علاقوں میں مختلف طور طریقے اپنائے جو شریعت محمدی)ﷺ) کے تابع بھی تھے اور لوگوں کی نفسیات کے مطابق بھی تھے اور اسی سبب صوفیاء کی تحاریک نے بڑی تیزی اور کامیابی سے لوگوں کو طلبِ مولیٰ اور قربِِ الٰہی کی جانب متوجہ کیا-

 آپ(قدس اللہ سرّہٗ)  کی جانب سے شعبۂ شکار کیلئے چند مخصوص تربیت یافتہ احباب کی ڈیوٹی لگادی جاتی کہ وہ تمام ملنے والے  مہمانوں کا خیال بھی رکھیں اور ساتھ ساتھ مقصدِ حیات کے حوالہ سے ان کی تربیت بھی کریں-علاوہ ازیں آپ(قدس اللہ سرّہٗ)  ہر روزمطلق گفتگو بھی فرماتے اور ساتھ ساتھ ان مہمانوں کی ذہنی اور فکری تربیت بھی فرماتے-یہ ایسی صحبت کا فیضان تھا کہ کئی متشدد قسم کے لوگ شکار میں آتے اور ایام ِ شکارگزرنے کے بعد معتدل ہوکر واپس جاتے-مزید بارِ او ل آنے والے آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کے دست مبارک پر بیعت ہوکر ’’اسمِ اعظم‘‘کا وظیفہ بھی ساتھ لے جاتے- چنانچہ تحریکی اعتبار سے بھی یہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کا ایک خاص وصف ہے کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے شریعت محمدی(ﷺ) کی روشنی میں ایسے پلیٹ فارمز ترتیب دیئے  جنہوں نے عقیدت و قربت رکھنے والوں کے علاوہ بظاہراً دین سے دور زندگی گزارنے والوں کے دلوں کو روشن فرمایا اور انہیں عالمگیر امن کی اس تحریک سے منسلک فرما دیا- آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کا زندگی کے مختلف پہلوؤں سے وابستہ لوگوں کو اکاموڈیٹ (acomodate) کرنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی نگاہِ کاملہ کا برپا کیا ہوا انقلاب ملک کے طول و عرض میں پھیلنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف کونوں میں پہنچ رہا ہے اور اسے اپنی وسعتِ دامنی اور وسعتِ قلبی کے باعث پذیرائی مل رہی ہے-

آخر میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی حیاتِ مبارکہ اور آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی تحریکی زندگی لوگوں کی ہدایت اور شریعت مطہرہ کے عملی نفاذ کے لئے وقف تھی اسی لئے اس کے مطالعہ اور تحقیق کے بعد انسان اسی نتیجے پر پہنچتا ہے جس پر امام غزالیؒ صوفیاء کی جماعت کے متعلق پہنچے تھے-سلطان الفقر(قدس اللہ سرّہٗ) نے قرآن و سنت کی درست تفہیم،دعوتِ حق کو عام کرنے اورہر خاص و عام تک اس پیغام کو پہچانے کے لئے لوگوں کو مختلف فورم عطا فرمائے اور شکار انہی فورمز میں سے ایک فورم ہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ)ہمیشہ انسان سے محبت کا درس دیتے، فرقہ واریت، لسانیت، جغرافیات و علاقیات اور اس طرح کے دیگر تعصبات سے پاک خالصتاً اللہ تعالیٰ اور حضور نبی کریم(ﷺ) کی رضا و خوشنودی کے حصول کی ترغیب دیتے- آج بھی اسی پیغامِ محبت اور دعوتِ حق کے نفاذکےلئے آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کے شہزادگان کوشاں ہیں اور لاکھوں لوگوں کو اسی فیض سے فیض یاب کررہے ہیں-

الحمد للہ!ثم الحمد للہ! ناچیز اِس بات پہ فخر کرتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہدایت و تکمیلِ ایمان کیلئے ایسے شیخِ کامل کی صُحبت نصیب فرمائی جن کی حیاتِ مبارکہ کا ہر عمل شریعتِ مصطفےٰ (ﷺ) کے عین مطابق تھا-

٭٭٭


[1](مجموعۃ رسائل امام غزالی، المنقذ من الضلال، ص:62)

[2](رسالہ قشیریہ،باب التصوف)

[3](الیواقیت والجواہر)

[4](المآئدہ :2 )

[5](المآئدہ:4)

[6](صحیح مسلم،کتاب المساقاة)

[7](فتاوی النوازل، کتاب الصید، فصل فی الجوارح، ص:323)

[8](تفسیر الجامع لأحكام القرآن، جلد:7، ص : 299-300)

[9](اکمال المعلم بفوائد مسلم، ج:6،ص:360)

[10](المنہاج شرح صحیح مسلم بن حجاج، ج:13، ص : 75)

[11](المبسوط، كِتَابُ الصَّيْدِ)

[12](الجامع الصغیر،باب البازی، ص:263)

[13](فتح القدیر، كِتَابُ الصَّيْدِ، فَصْلُ الْجَوَارِحِ)

[14](شرح فتح القدیر،كتاب البیوع،مسائل منشورة)

[15]( سنن الترمذى، کتاب الأطعمة ، باب مَا جَاءَ فِى أَكْلِ الأَرْنَبِ)

[16]( سنن نسائی ، كتاب الصيام)

[17](المبسوط،ج:11،ص:230)

[18](الفتاوی الولوالجیۃ، ج:3، ص:56)

[19](بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع ،ج:4، ص:153)

نوٹ:اس مضمون  کا حصہ اول اکتوبر2012ء میں شائع ہو چکا ہے-

’’حجۃ الاسلام‘‘ امام محمد غزالی (﷫) فرماتے ہیں کہ:

’’انی علمت یقینا ان الصوفیۃ ھم السابقون لطریق اللہ تعالیٰ خاصۃ، وأن سیرتھم احسن السیر، و طریقھم أصوب الطرق، أخلاقھم ازکی الأخلاق، بل لو جمع عقل العقلاء، و حکمۃ الحکمائٗ وعلم الواقفین علی أسرار الشرع من العلماء ، لیغیروا شیئا من سیرھم واخلاقھم و یبدلوہ بما ھو خیر منہ، لم یجدوا الیہ سبیلا، فان جمیع حرکاتھم وسکناتھم ، فی ظاہر ھم و باطنھم، مقتبسۃ من نور مشکاۃ النب

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں