قائداعظم ، آزادیِ ہندایکٹ اور شاہی ریاستوں کے الحاق کا جائزہ

قائداعظم ، آزادیِ ہندایکٹ اور شاہی ریاستوں کے الحاق کا جائزہ

قائداعظم ، آزادیِ ہندایکٹ اور شاہی ریاستوں کے الحاق کا جائزہ

مصنف: احمد القادری اگست 2017

پوری سیاسی جد و جہد میں قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے جو بھی لفظ استعمال کیا اُس کا پورا پورا پہرہ دیا ، حتیٰ کہ اپنی وکالت کے پیشہ میں بھی اُن کے اعلیٰ کردار کا ہر ایک معترف تھا-مسلم  لیگ اور قائد اعظم  کی  جدوجہد نے انگریز کو   آزادیِ ہند ایکٹ کے اعلان پہ مجبور کیا-آپ کی ایمانداری اور انصاف پسندانہ سوچ  کے باوجود ہندو بُنیا اور برطانوی سامراج کے نمائندوں نے مسلم لیگ کی جانبازانہ حمایت اور تقسیمِ ہند کے جرم  کی پاداش میں اِسلامیانِ ہند کو اپنے اِنتقام کا مزہ چکھانے کے لئے  تقسیم کے طے شُدہ فارمولے کو اپنی بد دیانتی و بے انصافی کا نشانہ بنایا جس سے آج بھی نہ صرف یہ خطہ جل رہا ہے بلکہ ہندوستان میں مسلمان ہونا ایک قطعی جرم سمجھا جاتا ہے - بعد از تحقیق مجھے یہ کہنے میں کوئی شک و شُبہ نہیں کہ ’’آزادیٔ ہند ایکٹ‘‘ مسلم لیگ کے پرچم تلے اسلامیانِ ہند کی جد و جہدِ آزادی کا شاندار ثمر تھا اور ’’ریڈ کلف ایوارڈ‘‘ اُس ثمر کو زہر آلود کرنے کی انگریز اور کانگریس کی متفقہ سازش تھی جس کا ایک سِرا ویسٹ منسٹر کے کلاک ٹاور سے بندھا تھا اور دوسرا سِرا مسز ماؤنٹ بیٹن کے ہاتھ میں تھا -  

آزادیِٔ ہند ایکٹ پہ بات سے قبل مختصراً ریڈ کلف ایوارڈ کے زہریلے تیر کا جائزہ لیتے جائیں :

ریڈ کلف ایوارڈ:

یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ لارڈماؤنٹ بیٹن پاکستان کے مخالف تھے اور انہوں نے  پاکستان کی تخلیق کے ہر مرحلے پر اِس کو نقصان پہنچایا-جِس کی مثال ہمیں  ماؤنٹ بیٹن پلان  3 جون 1947ء سے واضح طور پر ملتی ہے- لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنا  پلان صرف ہندو رہنما وی-پی-مینن کے ساتھ مل کر تیار کیا اور یہ پلان صرف کانگریس رہنما جواہر لال نہرو کو دیکھایا گیا-مسلم لیگ کی قیادت کو یہ پلان نہیں دیکھایا گیا - جیسا کہ حامد خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

“It is quite clear that his [Mountbatten] final draft for the transfer of power was prepared in consultation with Mountbatten’s Hindu constitutional adviser, V.P. Menon, and that this draft had been shown only to Nahru. The Muslim league and its leaders were not taken into confidence at the time of making the final draft.”[1]

’’ یہ واضح ہے کہ اس (ماؤنٹ بیٹن ) کا حکومت کی منتقلی کا حتمی  خاکہ ماؤنٹ بیٹن کے ہندو آئینی مشیر  وی-پی-مینن کی مدد سے تیار کیا گیا اور یہ حتمی خاکہ صرف نہرو کو دیکھایا گیا-مسلم لیگ اور اِس کے رہنماؤں کو اِس حتمی خاکہ کی تیاری کے موقع پر اعتماد میں نہیں لیا گیا‘‘-

اِس طرح ماؤنٹ بیٹن پلان میں مسلم لیگ کے مطالبے، کہ مسلم اکثریت علاقے پاکستان میں اور غیر مسلم علاقے ہندوستان کا حصہ ہوں گے، کی غلط تشریح کی گئی-لارڈ ماؤنٹ  بیٹن نے مسلم لیگ کے لفظ مسلم اکثریت علاقے کو صرف پنجاب و بنگال پر  لاگو کرتے ہوئے پنجاب و بنگال کی تقسیم کا  پلان بنایا-جِس کے تحت پنجاب کو مسلمانوں  اور سکھوں کے درمیان اور بنگال کو پاکستان اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے ریڈ کلف ایوارڈ کی منظوری دی گئی-اگر مسلم لیگ کا واقعی یہی مطلب  تھا جو ماؤنٹ بیٹن نے لیا   تو اِس کو پورے  متحدہ بھارت پر لاگو کیا جاتا تا کہ جہاں جہاں مسلمان اکثریت علاقے تھے وہ پاکستان ہوتے اور غیر مسلم علاقےبھارت کے نام سے جانے جاتے-

کیونکہ مسلم لیگ نے ان علاقوں سے مراد پنجاب و بنگال  کاپورا علاقہ تھا جیسا کہ مسلم لیگ نے ان علاقوں کے حصول کے لیے قرارداد بھی منظور کی جِس میں مسلم لیگ نے کچھ یوں مطالبہ کیا:

“The Muslim League had passed a resolution demanding that the six provinces of Bengal and Assam in the north-east, and the Punjab, North West Frontier Province, Sindh and Balochistan in the north-west, be constituted into a sovereign independent state of Pakistan”[2]

’’مسلم لیگ نے شمال مشرق میں آسام اور بنگال کے چھ صوبوں، پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک آزاد خود مختا ریاست کا مطالبہ کرتے ہوئےایک قرار داد منظور کی‘‘-

اوپر بیان کردہ قرارداد میں کہیں بھی مشرقی بنگال یا مغربی بنگال اور مشرقی پنجاب یا مغربی پنجاب کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا- ویسے بھی پنجاب میں تقسیم  کے وقت ستاون  فیصد (57%)اور بنگال میں پچپن فیصد (55%) مسلمان آباد تھے-مسلم لیگ کے مطالبے کے تحت یہ پاکستان میں شامل ہوتے – ہندوؤں کی وفاداری کے صِلے میں اِس تلخ حقیقت کو ریڈ کلف ایوارڈ کی مدد سے تبدیل کر دیا گیا-اِس تقسیم کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں-

v     پنجاب کی تقسیم سے ایک طرف تو پاکستان کا رقبہ کم کرنا تھا تو دوسری طرف بھارت کو کشمیر تک زمینی راستہ مہیا کرنا تھا-

v     بنگال کی تقسیم سے پاکستان کا رقبہ  کم کرنا تھا اور بھارت کو اِس علاقے کی اہم جغرافیائی علاقے مہیا کرنے تھے جِن کو بیان کرنے کو الگ تحریر درکار ہے-

ریڈ کلف ایوارڈ کی تخلیق کے پیچھے ماؤنٹ بیٹن کا وہ گھناؤنا کھیل تھا جِس کو پورا کرنے کے لیے تقسیم کا فارمولہ مسلم لیگ سے چھپایا گیا-ظلم کی انتہاء تو یہ کہ ریڈ کلف ایوارڈ کا اعلان بھی 18 اگست کو کیا گیا   کیونکہ اگر اِس کو آزادی سے پہلے واضح کر دیا جاتا تو پاکستان کے پاس برطانوی قانون کے تحت اِس کالے کارنامے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق ہوتا مگر آزادی کے بعد جیسا کہ بیان ہے :

“The British government was to cease to have control over the affairs of the dominions, provinces, or any part of the dominion after 15 August 1947.with the end of the sovereignty of the British government over the Indian States, treaties and agreement between the British and any of the authorities in the tribal areas also lapsed”[3]

’’برطانوی حکومت 15اگست1947ءکے بعد نئی ریاستوں (پاکستان اور بھارت) کے کسی بھی صوبے یا علاقے پر اپنے کنٹرول کو ختم کرنے جا رہی تھی-برطانوی سامراج  کی  بھارتی ریاستوں پر خود مختاری ختم ہونے کے ساتھ ہی،برطانوی سامراج اور قبائلی علاقو ں کے نمائندوں کے ساتھ معاہدے ختم ہو جائیں گے-

اِسی لیے تو  آزادی ہند ایکٹ کے سیکشن (2) کی سب سیکشن (3)کے تحت 15اگست کے بعد برطانوی قانون ہندوستان کے انتظامی امور   میں مداخلت نہ کرنے کا ثبوت ہے کہ:

“Nothing in this section shall prevent any area being at any time included in or excluded from either of the new Dominions”[4]

’’اِس سیکشن کے تحت کوئی بھی قانون کے تحت کسی بھی علاقے کو کسی بھی نئی ریاست میں شامل یا نکالا نہیں جائے گا‘‘-

تقسیم کے اِس گھناؤنے پلان کو برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کر کےاِس کو آزادیِ ہند ایکٹ Indian Independence Act, 1947)) کے طور پر منظور کروایا گیا-

آزادی ہند ایکٹ1947ء:

24مارچ 1947ء کو تقسیم کے منصوبے کی تکمیل  کی غرض سے لارڈ ماونٹ بیٹن دہلی پہنچے-ہندوستان    کے  طول و عرض میں پھیلی مسلم و ہندو آبادی کی تقسیم کا کام کسی نا ممکن  کوشش سے کم نہ تھا- برطانوی سامراج کے نمائندوں نے کانگریس اور مسلم لیگ کے ساتھ مل کر تقسیم کا فارمولہ بنایا جِس کو آزادیِ ہند بل (Indian Independence Bill)کا نام دیا گیا-اِس منصوبے کے تحت 15جون کو تقسیم ہند (پاکستان و بھارت) کا فیصلہ کیا گیا- اِس بل کو 4جولائی 1947ءکو برطانوی پارلیمنٹ (لندن) میں پیش کیا گیا-یہ بل صرف چودہ دن کی بحث کے بعد  18جولائی 1947ءکو  برطانوی تاج نے منظور کرتے ہوئے  اِس بل کو آزادی ِ ہند ایکٹ کا نام دیا- جِس کی سیکشن 1،سب سیکشن 1 کے مطابق:

“As from the fifteenth day of August, nineteen hundred and forty-seven, two independent Dominions shall be set up in India, to be known respectively as India and Pakistan”[5]

’’15اگست 1947ء سے  بھارت میں دو نئی ریاستیں بنائی جائیں گیں جو کہ  بالترتیب  پاکستان اور بھارت کے نام سے جانی جائیں گیں‘‘-

آزادی ِہند ایکٹ کی سیکشن (7)  کی سب سیکشن (a) میں کچھ یوں بیان ہے کہ تقسیم کے بعد:

“His Majesty's Government in the United Kingdom have no responsibility as respects the government of any of the territories”[6]

’’ برطانوی حکومت ]تقسیم کے بعد ہِند کے کسی بھی[  علاقے کی حکومت کی  ذمہ داری نہیں رکھتی‘‘-

مزید سب سیکشن (b)  کے مطابق:

“The suzerainty of His Majesty over the (princely) Indian States lapses, and with it, all treaties and agreements in force at the date of the passing of this Act between His Majesty and the rulers of (princely) Indian States”[7]

’’ بھارتی (شاہی) ریاستوں پر برطانوی تاج پر خود مختاری ختم ہوتی ہے اور اِس قانون کے پاس ہوتے ہی برطانوی تاج اور بھارتی (شاہی) ریاستوں کے حکمرانوں کے درمیان  قابل عمل معاہدے بھی معطل ہوتے ہیں‘‘-

اِسی لیے تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 4جون 1947ءکو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ:

“…the Indian states had been independent in treaty relations with the British and with the lapse of paramountcy, they would assume an independent status and were absolutely free to choose to join one constitution assembly or the other, or make some other arrangement”[8]

’’آئینی اور قانونی طور پر ہندوستانی (شاہی) ریاستیں برطانوی راج کے ختم ہوتے ہی آزاد اور خودمختار ریاستیں ہوں گی اور انہیں اپنی راہ خود متعین کرنے کی کا اختیار ہو گا-وہ خود مختارہوں گی کہ وہ ہندوستان میں شامل ہوں یا  پاکستان میں یا آزاد رہیں-آزاد رہنے کی صورت میں وہ ہندوستان یا پاکستان سے اپنی مرضی اور اپنے فائدے کے مطابق معاہدے کر سکیں گے‘‘-[9]

جب کہ دوسری طرف  کانگریس لیڈرز کے بیانات کا جائزہ کچھ یوں لیا جا سکتا ہے:

جیسا کہ نہرو نے تو پہلے ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ اگر کوئی بھی شاہی ریاست انڈیا کے ساتھ الحاق سے انکار کرے گی تو اُسے دُشمن سمجھا جائے گا ، اس دھمکی سے مقصد یہ تھا کہ اگر وہ  پاکستان سے الحاق یا مکمل اآزادی پہ سوچیں گی تو انہیں بزورِ شمشیر بھارت کے ساتھ شامل کیا جائے گا   :

“In May 1947, he declared that any princely state which refused to join the Constituent Assembly would be treated as an enemy state”[10]

’’1947ء میں اس (نہرو) ے واضح کر دیا کہ کوئی بھی شاہی ریاست (بھارتی) دستور ساز اسمبلی کے ساتھ الحاق سے انکار کرے گی تو اسے دشمن کے طور پر دیکھا جائے گا‘‘-

گاندھی نے کہا کہ :

“Even if the whole of India burns, we shall not concede Pakistan, even if the Muslims demanded it at the point of sword.”[11]

’’اگرچہ   پورا بھارت جل جائے،  ہم پاکستان کو نہیں مانے گے،اگرچہ مسلمان اِس کو تلوار کے زور پر بھی مانگے‘‘-

جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ مسلم لیگ (خصوصاً قائد اعظم) آزادی ہند ایکٹ کی ساری آپشنز سے متفق تھی اور کسی بھی ملک کے ساتھ الحاق سے ساتھ ساتھ ریاستو ں کو آزاد بھی رہنے کے حق میں تھے (جیسا کہ بعد میں حیدر آباد دکن وغیرہ نے آزاد رہنے کی کوشش بھی کی )- اِس لیے توقائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)ایک اصول پسند اور قانون آشنا لیڈر جانے جاتے ہیں-وہ قانون کی جنگ اور انسانوں کے جذبات میں فرق سمجھتے تھے اور ہمیشہ اپنی قانونی جنگ کو انسانوں کے جذبات  کے ساتھ  ہم آہنگ رکھتے تھے-آپ (رحمتہ اللہ علیہ)نے کبھی ذاتی، مذہبی، سماجی، یا ثقافتی بالا دستی  کا مظاہرہ نہیں کیا-مگر ہاں ان کی نظر میں اسلام کی تعلیمات ہندوستان میں  رہنے والے باقی مذاہب کے لوگوں سے الگ ہے-آپ نے وقت سے پہلے ہی یہ باور کروا دیا تھا کہ متحدہ بھارت میں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی ہو گی اور ایک اسلامی ریاست میں نہ صرف مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت ہو گی بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے حقوق کی حفاظت ہو گی-

شاہی ریاستوں کے الحاق کا جائزہ:

1939ءمیں تقسیم کے وقت ہندوستان میں 562 (کچھ لوگ  565 یا پھر 584 گردانتے ہیں ) شاہی ریاستیں تھیں-یہ شاہی ریاستیں انتظامی ،قانونی، اور جغرافیائی  طور پر  تین درجوں میں تقسیم تھیں-

1)      ایسی تقریباً ایک سو پچاس  ریاستیں  جو برطانوی حکومت سے معاہدے کی صورت میں اپنے قانونی و انتظامی امور پر مکمل اختیار  رکھتی تھیں  مثلاً ریاستِ   جموں و کشمیر، جوناگڑھ، اور حیدر آباد دکن وغیرہ-

2)      دوسرے درجے کی  وہ ریاستیں جِن کے  چند داخلی معاملات میں برطانوی سامراج کو اختیارات حاصل تھے-

3)        تیسرے درجے پر تقریباً تین سو ایسی ریاستیں تھی جو  رقبہ کے لحاظ سے کم اورخود مختاری نہ رکھتی تھی-[12]

ہندوستان میں موجود کم و بیش پانچ سو سرسٹھ (566) خود مختار ریاستوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا-جِس کے تحت یہ ریاستیں:

v     پاکستان کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں

v     بھارت کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں

v     کوئی اور فیصلہ جیسا کہ آزاد رہ سکتی ہیں -

مثلاً اِس قانون کے تحت ریاستِ قلات، ریاستِ بہاولپور اور دیگر  نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور میسور اور گوالیار نے بھارت میں ضم ہونے کا فیصلہ کیا- ریاست کے حکمرانوں  پر پابندی عائد تھی کہ انہوں نے ریاست کے لوگوں کے مذہبی اور ریاست کے  جغرافیہ کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے الحاق کا فیصلہ کرنا تھا -جب مختلف ریاستوں نے سوچنے کا وقت مانگا تو بھارت کی طرف سے ڈھونگ رچایا  گیا کہ سٹینڈ سٹل معاہدہ (Standstill Agreement)یعنی ( کسی ریاست کو الحاق کا فیصلہ کرنے کی غرض سے وقت چاہیے) تو وہ یہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ کرے- مگر بھارت نے واویلا پیٹا  کہ الحاق کے بغیر یہ معاہدہ نہیں ہو سکتا-[13]اِس لیے بھارت نے کشمیر کے مہاراجہ کی طرف سے اِس معاہدہ کو قبول نہ کیا جبکہ پاکستان نے ریاستِ کشمیر سے سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کر لیا جو کہ تاریخ کا حصہ ہے ، کئی ایک محققین اور کشمیری راہنما مہاراجہ کشمیر کے پاکستان سے سٹینڈ  سٹل ایگریمنٹ سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ مہاراجہ کشمیر پاکستان سے الحاق کے خواہشمند تھے جس وجہ سے بھارت نے انہیں اچانک گم نام  کر دیا اور بھارت سے ریاستِ کشمیر کی دستاویزِ الحاق (Instroment of Accession) پہ مہاراجہ کے دستخط ہی موجود نہیں ہیں - جِن جِن ریاستوں نے الحاق میں دیر کی بھارت کی فوج ان ریاستوں پر  قبضہ کرتی گئی -

ریاستِ  جموں و کشمیر :

ریاست جموں و کشمیر کے مہارجہ ہری سنگھ نے الحاق کے متعلق فیصلےکے لیے وقت مانگا مگر بھارتی  دباؤ نے اسے بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور کر دیا جو کہ اوپر بیان کردہ قوانین کی سخت مخالفت تھی-  جیسا کہ مہارجہ ہری سنگھ کے خیالات کو الیسٹر لیمب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:

“…If Kashmir joined the Pakistan Constitution Assembly presumably Mr. Jinnah would protect them against pressure from the congress. If they joined the Hindustan Assembly it would be inevitable that they would be treated with consideration by Hindustan.”[14]

’’اگر کشمیر  پاکستان دستور ساز اسمبلی کے ساتھ الحاق کرے تو  بر توقع  مسٹر جناح انہیں کانگریس کے پریشر سے بچائیں  گے- اگر وہ بھارت دستور ساز اسمبلی کے ساتھ الحاق کریں تو ان کو بھارت کے طریق سے دیکھا جائے گا‘‘-

جونا گڑھ:

ریاست جونا گڑھ کے مسلمان نواب عالیجاہ مہابت  خانجی نے اپنی ریاستی کو نسل جِس میں  ہندو و مسلم شامل تھے کے فیصلے کے پیش ِ نظر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا مگر بھارت نے اُس پر فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا-

حیدر آباد دکن:

حیدر آباد بھارت کی آبادی و رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست تھی مگر نظامِ حیدر آباد نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا  مگر بھارتی فوج نے اِن کو بھی دشمن گردانتے ہوئے ناجائز قبضہ کر لیا-

 اِسی طرح بہت سی اور بھی کئی ریاستوں نے مسلم  لیگ اور خصوصاً قائد اعظم کے نظریات اور مسلم لیگ کی شاہی ریاستوں کے متعلق معتدل پالیسی سے متاثر ہو کر مذہبی و سماجی  تفریق کے باوجود پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا جیسا کہ اسماعیل پادھیار،  Junagadh: The Paradise Lost میں صفحہ 8 پہ لکھتے ہیں کہ:

“Many of the native states in former British India were Muslim States and their Rulers were also Muslims. There were many Hindu States like Jodhpur, Jaipur etc. annexed to the border of West Pakistan and its Hindu rulers intended to accede to Pakistan”

’’سابقہ برطانوی بھارت میں بہت سی مقامی   ریاستیں مسلمان ریاستیں  اور ان کے حکمران  بھی مسلمان تھے- بہت سی ہندو ریاستیں بھی جیسا کہ جودھ پور،جے پور وغیرہ مغربی پاکستان کے ساتھ جڑی ہوئی ریاستیں تھیں- اور اِن کے ہندو رہنما پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے‘‘-

جودھ پور:

ریاست جودھ پور ، سندھ  پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع ایک وسیع ریاست تھی جِس میں زیادہ تر لوگ اور اِس کا مہارجہ ہنوت سنگھ تھا جِس کے بارے میں رام چندرا گوہا  لکھتے ہیں کہ:

“He even briefly considered acceding to Pakistan, for Jodhpur shared            a border with the new nation and he had been personally given assurance of access to sea ports in Pakistan by Muhammad Ali      Jinnah. [15]

’’اس نے (مہاراجہ ہنوت سنگھ Hanwant Singh)  پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا  جیسا کہ جودھ پورکی سرحد  نئی ریاست  کے ساتھ ملتی ہیں اور محمد علی جناح نےذاتی طور پر    پاکستان کی بندر گاہوں کو استعمال کرنے کی یقین دہانی دی تھی‘‘-

پاکستان سے الحاق کرنے والی دیگر اہم شاہی ریاستیں :

کچھ ریاستیں تو اپنے حجم میں اتنی بڑی نہیں تھیں کہ ان سے ہندوستان یا پاکستان کو باضابطہ الحاق کی ضرورت پیش آتی یا یہ کہ وہ خود مختار آزادی کا اعلان کر سکتیں، وہ جغرافیائی اعتبار سے انڈیا/ پاکستان میں سے جس کی حدود میں آئیں انہیں کی  ہو کر رہ گئیں - لیکن کچھ شاہی ریاستیں اپنی جغرافیائی حدود کی وُسعت یا اس  کی تزویراتی اہمیت (Strategic Impotance) کی وجہ سے یا پھر بہترین معاشی حالت کی وجہ سے تمام آپشنز استعمال  کر سکتی تھیں لہٰذا ان میں سے جن جن کی سرحدیں پاکستان سے لگتی تھیں ، انہوں نے نہ صرف پاکستان سے الحاق کیا بلکہ دِل کھول کر اس نئی مملکتِ خداداد میں اپنا بھر پور حصہ شامل کیا - پاکستان سے الحاق کرنے والی اُن ریاستوں میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

1.       قلات

2.       لسبیلہ

3.       خاران

4.       مکران

 

5.       خیر پور

6.       بہاولپور

7.       ریاست دیر

8.       پھلڑا

 

9.       نواب آف امب

10.   سوات

11.   چترال

12.   ہنزہ

 

مذکورہ بالا ریاستوں کے علاوہ پروفیسر اے-چن(Aye Chan)  کندا یونیورسٹی (چین) کے مطابق ریاست ِآراکان (موجودہ راکھیان: برما) نے بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا-

اختتامیہ:

شاہی ریاستوں کے الحاق کا مطالعہ کیا  جائے تو اِس  بات کا علم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ  خصوصاً قائد اعظم کی منصفافہ  قانونی جنگ اور معتدل رویہ کی وجہ سےمختلف ریاستوں کے حکمرانوں کو یہ بات واضح تھی کہ ان کا مستقبل صرف پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں ہے-حتیٰ کہ کئی ہندو ریاستوں کے ہندو حکمران بھی قائد کی اصول پسندی اور قانون کی پاسداری کی وجہ سے پاکستان سے الحاق چاہتے تھے مگر کانگریس کی قیادت کی روایتی ہٹ دھرمی و بے اصولی اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی ساز باز کے سبب انہیں ایسے اقدامات سے روک دیا گیا- یہ حقیقت اپنی جگہ تسلیم شدہ ہے کہ یہ ریاستیں دونوں ممالک میں سے جس کے ساتھ بھی جاتیں یہ انہیں وراثت میں  ملنی تھیں ان ممالک کی اپنی قائم کردہ نہ تھیں - مگر کانگریس کی  قیادت میں نہرو جیسے سوشلسٹ لوگوں سے نوابین کو زیادتی  کا شدید خدشہ تھا - پاکستان کے متعلق بھی ریاستوں کو یہ اندازہ تھا کہ ایک مرحلہ پہ پاکستان بھی ان کو ضم کرنے (merger in federation) پہ سوچے گا مگر قائد اعظم کے ذاتی کردار اور اصول پسندی سے وہ بایں قدر مطمئن تھے کہ جائیداد و جواہرات میں  ان کی ذاتی ملکیتوں کے معاملہ میں انہیں رعایت دی جائے گی - گو کہ قائد اعظم کی اچانک وفات اور نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کی سیاسی افراتفری میں ان ریاستوں سے کئے گئے وعدے پورے نہ ہو سکے ، مگر تقسیمِ ہند کے وقت شاہی ریاستوں کے پاس سب بہترین آپشن پاکستان سے الحاق تھا -

اُس وقت کے حکمرانوں کے  ہندو شدت پسندانہ خیالات کے متعلق شکوک و شبہات بھارت میں ہونے والےمظالم اور علیحدگی پسند تحریکوں کی صورت میں آج عیاں ہیں-نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کی غیر منصافہ تقسیم نے کئی لاکھ جانوں اور املاک کا ضیاع کیا جِس کو بچانے کی خاطر قائد اعظم ؒنے تشدد کا راستہ ترک کر  کے پاکستان کے لیے قانون کی جنگ لڑی-قائد کی اعلیٰ ظرفی و قانون شناسی نے ایک پر امن  اور قانونی تقسیم کا خواب  دیکھا تھا جِس کو ہندو بنیے کے درندے دماغ نے مسلمانوں کے خون سے سرخ کر دیا-

٭٭٭

 



[1] Hamid Khan, Constitutional and Political History of Pakistan, 2nd ed. (Karachi: Oxford Press, 2009) p.40

[2] Ibid. p.37

[3] Hamid Khan, Constitutional and Political History of Pakistan, 2nd ed. (Karachi: Oxford Press, 2009) p.41-42

[4] Indian Independence Act, 1947

[5] Indian Independence Act, 1947

[6] Ibid.

[7] Ibid.

[8] Hamid Khan, Constitutional and Political History of Pakistan, 2nd ed. (Karachi: Oxford Press, 2009) p.43

[9] تحسین حسین، قائد اعظم: ارشادات و اقتباسات (لاہور: نذیر سننز پبلیشرز،2008) ص،57

[10] http://primeministerofindia.co.in/first-prime-minister-of-india/

[11] Sankar Ghose, Jawaharlal Nehru, a Biography (Mumbai: Allied Publishers, 1992) p.168

[12]  Alastair Lamb, Kashmir: A Disputed Legacy 1846-1990 (Hertingfordbury: Roxford books, 1991) p.4

[13] Hamid Khan, Constitutional and Political History of Pakistan, 2nd ed. (Karachi: Oxford Press, 2009) p.43

[14]  Alastair Lamb, Kashmir: A Disputed Legacy 1846-1990 (Hertingfordbury: Roxford books, 1991) p.109-110

[15] Ramachandra Guha, India after Gandhi: The History of the World's Largest Democracy. HarperC ollins, 2007 

پوری سیاسی جد و جہد میں قائد اعظم (﷫)نے جو بھی لفظ استعمال کیا اُس کا پورا پورا پہرہ دیا ، حتیٰ کہ اپنی وکالت کے پیشہ میں بھی اُن کے اعلیٰ کردار کا ہر ایک معترف تھا-مسلم  لیگ اور قائد اعظم کی  جدوجہد نے انگریز کو   آزادیِ ہند ایکٹ کے اعلان پہ مجبور کیا-آپ کی ایمانداری اور انصاف پسندانہ سوچ  کے باوجود ہندو بُنیا اور برطانوی سامراج کے نمائندوں نے مسلم لیگ کی جانبازانہ حمایت اور تقسیمِ ہند کے جرم  کی پاداش میں اِسلامیانِ ہند کو اپنے اِنتقام کا مزہ چکھانے کے لئے  تقسیم کے طے شُدہ فارمولے کو اپنی بد دیانتی و بے انصافی کا نشانہ بنایا جس سے آج بھی نہ صرف یہ خطہ جل رہا ہے بلکہ ہندوستان میں مسلمان ہونا ایک قطعی جرم سمجھا جاتا ہے - بعد از تحقیق مجھے یہ کہنے میں کوئی شک و شُبہ نہیں کہ ’’آزادیٔ ہند ایکٹ‘‘ مسلم لیگ کے پرچم تلے اسلامیانِ ہند کی جد و جہدِ آزادی کا شاندار ثمر تھا اور ’’ریڈ کلف ایوارڈ‘‘ اُس ثمر کو زہر آلود کرنے کی انگریز اور کانگریس کی متفقہ سازش تھی جس کا ایک سِرا ویسٹ منسٹر کے کلاک ٹاور سے بندھا تھا اور دوسرا سِرا مسز ماؤنٹ بیٹن کے ہاتھ میں تھا -

آزادیِٔ ہند ایکٹ پہ بات سے قبل مختصراً ریڈ کلف ایوارڈ کے زہریلے تیر کا جائزہ لیتے جائیں :

ریڈ کلف ایوارڈ:

یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ لارڈماؤنٹ بیٹن پاکستان کے مخالف تھے اور انہوں نے  پاکستان کی تخلیق کے ہر مرحلے پر اِس کو نقصان پہنچایا-جِس کی مثال ہمیں  ماؤنٹ بیٹن پلان  3 جون 1947ء سے واضح طور پر ملتی ہے- لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنا  پلان صرف ہندو رہنما وی-پی-مینن کے ساتھ مل کر تیار کیا اور یہ پلان صرف کانگریس رہنما جواہر لال نہرو کو دیکھایا گیا-مسلم لیگ کی قیادت کو یہ پلان نہیں دیکھایا گیا - جیسا کہ حامد خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

“It is quite clear that his [Mountbatten] final draft for the transfer of power was prepared in consultation with Mountbatten’s Hindu constitutional adviser, V.P. Menon, and that this draft had been shown only to Nahru. The Muslim league and its leaders were not taken into confidence at the time of making the final draft.”[1]

’’ یہ واضح ہے کہ اس (ماؤنٹ بیٹن ) کا حکومت کی منتقلی کا حتمی  خاکہ ماؤنٹ بیٹن کے ہندو آئینی مشیر  وی-پی-مینن کی مدد سے تیار کیا گیا اور یہ حتمی خاکہ صرف نہرو کو دیکھایا گیا-مسلم لیگ اور اِس کے رہنماؤں کو اِس حتمی خاکہ کی تیاری کے موقع پر اعتماد میں نہیں لیا گیا‘‘-

اِس طرح ماؤنٹ بیٹن پلان میں مسلم لیگ کے مطالبے، کہ مسلم اکثریت علاقے پاکستان میں اور غیر مسلم علاقے ہندوستان کا حصہ ہوں گے، کی غلط تشریح کی گئی-لارڈ ماؤنٹ  بیٹن نے مسلم لیگ کے لفظ مسلم اکثریت علاقے کو صرف پنجاب و بنگال پر  لاگو کرتے ہوئے پنجاب و بنگال کی تقسیم کا  پلان بنایا-جِس کے تحت پنجاب کو مسلمانوں  اور سکھوں کے درمیان اور بنگال کو پاکستان اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے ریڈ کلف ایوارڈ کی منظوری دی گئی-اگر مسلم لیگ کا واقعی یہی مطلب  تھا جو ماؤنٹ بیٹن نے لیا   تو اِس کو پورے  متحدہ بھارت پر لاگو کیا جاتا تا کہ جہاں جہاں مسلمان اکثریت علاقے تھے وہ پاکستان ہوتے اور غیر مسلم علاقےبھارت کے نام سے جانے جاتے-

کیونکہ مسلم لیگ نے ان علاقوں سے مراد پنجاب و بنگال  کاپورا علاقہ تھا جیسا کہ مسلم لیگ نے ان علاقوں کے حصول کے لیے قرارداد بھی منظور کی جِس میں مسلم لیگ نے کچھ یوں مطالبہ کیا:

“The Muslim League had passed a resolution demanding that the six provinces of Bengal and Assam in the north-east, and the Punjab, North West Frontier Province, Sindh and Balochistan in the north-west, be constituted into a sovereign independent state of Pakistan”[2]

’’مسلم لیگ نے شمال مشرق میں آسام اور بنگال کے چھ صوبوں، پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک آزاد خود مختا ریاست کا مطالبہ کرتے ہوئےایک قرار داد منظور کی‘‘-

اوپر بیان کردہ قرارداد میں کہیں بھی مشرقی بنگال یا مغربی بنگال اور مشرقی پنجاب یا مغربی پنجاب کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا- ویسے بھی پنجاب میں تقسیم  کے وقت ستاون  فیصد (57%)اور بنگال میں پچپن فیصد (55%) مسلمان آباد تھے-مسلم لیگ کے مطالبے کے تحت یہ پاکستان میں شامل ہوتے – ہندوؤں کی وفاداری کے صِلے میں اِس تلخ حقیقت کو ریڈ کلف ایوارڈ کی مدد سے تبدیل کر دیا گیا-اِس تقسیم کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں-

v     پنجاب کی تقسیم سے ایک طرف تو پاکستان کا رقبہ کم کرنا تھا تو دوسری طرف بھارت کو کشمیر تک زمینی راستہ مہیا کرنا تھا-

v     بنگال کی تقسیم سے پاکستان کا رقبہ  کم کرنا تھا اور بھارت کو اِس علاقے کی اہم جغرافیائی علاقے مہیا کرنے تھے جِن کو بیان کرنے کو الگ تحریر درکار ہے-

ریڈ کلف ایوارڈ کی تخلیق کے پیچھے ماؤنٹ بیٹن کا وہ گھناؤنا کھیل تھا جِس کو پورا کرنے کے لیے تقسیم کا فارمولہ مسلم لیگ سے چھپایا گیا-ظلم کی انتہاء تو یہ کہ ریڈ کلف ایوارڈ کا اعلان بھی 18 اگست کو کیا گیا   کیونکہ اگر اِس کو آزادی سے پہلے واضح کر دیا جاتا تو پاکستان کے پاس برطانوی قانون کے تحت اِس کالے کارنامے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق ہوتا مگر آزادی کے بعد جیسا کہ بیان ہے :

“The British government was to cease to have control over the affairs of the dominions, provinces, or any part of the dominion after 15 August 1947.with the end of the sovereignty of the British government over the Indian States, treaties and agreement between the British and any of the authorities in the tribal areas also lapsed”[3]

’’برطانوی حکومت 15اگست1947ءکے بعد نئی ریاستوں (پاکستان اور بھارت) کے کسی بھی صوبے یا علاقے پر اپنے کنٹرول کو ختم کرنے جا رہی تھی-برطانوی سامراج  کی  بھارتی ریاستوں پر خود مختاری ختم ہونے کے ساتھ ہی،برطانوی سامراج اور قبائلی علاقو ں کے نمائندوں کے ساتھ معاہدے ختم ہو جائیں گے-

اِسی لیے تو  آزادی ہند ایکٹ کے سیکشن (2) کی سب سیکشن (3)کے تحت 15اگست کے بعد برطانوی قانون ہندوستان کے انتظامی امور   میں مداخلت نہ کرنے کا ثبوت ہے کہ:

“Nothing in this section shall prevent any area being at any time included in or excluded from either of the new Dominions”[4]

’’اِس سیکشن کے تحت کوئی بھی قانون کے تحت کسی بھی علاقے کو کسی بھی نئی ریاست میں شامل یا نکالا نہیں جائے گا‘‘-

تقسیم کے اِس گھناؤنے پلان کو برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کر کےاِس کو آزادیِ ہند ایکٹ Indian Independence Act, 1947)) کے طور پر منظور کروایا گیا-

آزادی ہند ایکٹ1947ء:

24مارچ 1947ء کو تقسیم کے منصوبے کی تکمیل  کی غرض سے لارڈ ماونٹ بیٹن دہلی پہنچے-ہندوستان    کے  طول و عرض میں پھیلی مسلم و ہندو آبادی کی تقسیم کا کام کسی نا ممکن  کوشش سے کم نہ تھا- برطانوی سامراج کے نمائندوں نے کانگریس اور مسلم لیگ کے ساتھ مل کر تقسیم کا فارمولہ بنایا جِس کو آزادیِ ہند بل (Indian Independence Bill)کا نام دیا گیا-اِس منصوبے کے تحت 15جون کو تقسیم ہند (پاکستان و بھارت) کا فیصلہ کیا گیا- اِس بل کو 4جولائی 1947ءکو برطانوی پارلیمنٹ (لندن) میں پیش کیا گیا-یہ بل صرف چودہ دن کی بحث کے بعد  18جولائی 1947ءکو  برطانوی تاج نے منظور کرتے ہوئے  اِس بل کو آزادی ِ ہند ایکٹ کا نام دیا- جِس کی سیکشن 1،سب سیکشن 1 کے مطابق:

“As from the fifteenth day of August, nineteen hundred and forty-seven, two independent Dominions shall be set up in India, to be known respectively as India and Pakistan”[5]

’’15اگست 1947ء سے  بھارت میں دو نئی ریاستیں بنائی جائیں گیں جو کہ  بالترتیب  پاکستان اور بھارت کے نام سے جانی جائیں گیں‘‘-

آزادی ِہند ایکٹ کی سیکشن (7)  کی سب سیکشن (a) میں کچھ یوں بیان ہے کہ تقسیم کے بعد:

“His Majesty's Government in the United Kingdom have no responsibility as respects the government of any of the territories”[6]

’’ برطانوی حکومت ]تقسیم کے بعد ہِند کے کسی بھی[  علاقے کی حکومت کی  ذمہ داری نہیں رکھتی‘‘-

مزید سب سیکشن (b)  کے مطابق:

“The suzerainty of His Majesty over the (princely) Indian States lapses, and with it, all treaties and agreements in force at the date of the passing of this Act between His Majesty and the rulers of (princely) Indian States”[7]

’’ بھارتی (شاہی) ریاستوں پر برطانوی تاج پر خود مختاری ختم ہوتی ہے اور اِس قانون کے پاس ہوتے ہی برطانوی تاج اور بھارتی (شاہی) ریاستوں کے حکمرانوں کے درمیان  قابل عمل معاہدے بھی معطل ہوتے ہیں‘‘-

اِسی لیے تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 4جون 1947ءکو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ:

“…the Indian states had been independent in treaty relations with the British and with the lapse of paramountcy, they would assume an independent status and were absolutely free to choose to join one constitution assembly or the other, or make some other arrangement”[8]

’’آئینی اور قانونی طور پر ہندوستانی (شاہی) ریاستیں برطانوی راج کے ختم ہوتے ہی آزاد اور خودمختار ریاستیں ہوں گی اور انہیں اپنی راہ خود متعین کرنے کی کا اختیار ہو گا-وہ خود مختارہوں گی کہ وہ ہندوستان میں شامل ہوں یا  پاکستان میں یا آزاد رہیں-آزاد رہنے کی صورت میں وہ ہندوستان یا پاکستان سے اپنی مرضی اور اپنے فائدے کے مطابق معاہدے کر سکیں گے‘‘-[9]

جب کہ دوسری طرف  کانگریس لیڈرز کے بیانات کا جائزہ کچھ یوں لیا جا سکتا ہے:

جیسا کہ نہرو نے تو پہلے ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ اگر کوئی بھی شاہی ریاست انڈیا کے ساتھ الحاق سے انکار کرے گی تو اُسے دُشمن سمجھا جائے گا ، اس دھمکی سے مقصد یہ تھا کہ اگر وہ  پاکستان سے الحاق یا مکمل اآزادی پہ سوچیں گی تو انہیں بزورِ شمشیر بھارت کے ساتھ شامل کیا جائے گا   :

“In May 1947, he declared that any princely state which refused to join the Constituent Assembly would be treated as an enemy state”[10]

’’1947ء میں اس (نہرو) ے واضح کر دیا کہ کوئی بھی شاہی ریاست (بھارتی) دستور ساز اسمبلی کے ساتھ الحاق سے انکار کرے گی تو اسے دشمن کے طور پر دیکھا جائے گا‘‘-

گاندھی نے کہا کہ :

“Even if the whole of India burns, we shall not concede Pakistan, even if the Muslims demanded it at the point of sword.”[11]

’’اگرچہ   پورا بھارت جل جائے،  ہم پاکستان کو نہیں مانے گے،اگرچہ مسلمان اِس کو تلوار کے زور پر بھی مانگے‘‘-

جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ مسلم لیگ (خصوصاً قائد اعظم) آزادی ہند ایکٹ کی ساری آپشنز سے متفق تھی اور کسی بھی ملک کے ساتھ الحاق سے ساتھ ساتھ ریاستو ں کو آزاد بھی رہنے کے حق میں تھے (جیسا کہ بعد میں حیدر آباد دکن وغیرہ نے آزاد رہنے کی کوشش بھی کی )- اِس لیے توقائد اعظم (﷫)ایک اصول پسند اور قانون آشنا لیڈر جانے جاتے ہیں-وہ قانون کی جنگ اور انسانوں کے جذبات میں فرق سمجھتے تھے اور ہمیشہ اپنی قانونی جنگ کو انسانوں کے جذبات  کے ساتھ  ہم آہنگ رکھتے تھے-آپ (﷫)نے کبھی ذاتی، مذہبی، سماجی، یا ثقافتی بالا دستی  کا مظاہرہ نہیں کیا-مگر ہاں ان کی نظر میں اسلام کی تعلیمات ہندوستان میں  رہنے والے باقی مذاہب کے لوگوں سے الگ ہے-آپ نے وقت سے پہلے ہی یہ باور کروا دیا تھا کہ متحدہ بھارت میں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی ہو گی اور ایک اسلامی ریاست میں نہ صرف مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت ہو گی بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے حقوق کی حفاظت ہو گی-

شاہی ریاستوں کے الحاق کا جائزہ:

1939ءمیں تقسیم کے وقت ہندوستان میں 562 (کچھ لوگ  565 یا پھر 584 گردانتے ہیں ) شاہی ریاستیں تھیں-یہ شاہی ریاستیں انتظامی ،قانونی، اور جغرافیائی  طور پر  تین درجوں میں تقسیم تھیں-

1)      ایسی تقریباً ایک سو پچاس  ریاستیں  جو برطانوی حکومت سے معاہدے کی صورت میں اپنے قانونی و انتظامی امور پر مکمل اختیار  رکھتی تھیں  مثلاً ریاستِ   جموں و کشمیر، جوناگڑھ، اور حیدر آباد دکن وغیرہ-

2)      دوسرے درجے کی  وہ ریاستیں جِن کے  چند داخلی معاملات میں برطانوی سامراج کو اختیارات حاصل تھے-

3)        تیسرے درجے پر تقریباً تین سو ایسی ریاستیں تھی جو  رقبہ کے لحاظ سے کم اورخود مختاری نہ رکھتی تھی-[12]