قرآن اِک کتاب ہے اَسرارِ سرمدی

قرآن اِک کتاب ہے اَسرارِ سرمدی

قرآن اِک کتاب ہے اَسرارِ سرمدی

مصنف: مفتی محمدمطیع اللہ قادری جون 2015

اللہ رب العزت نے اپنے بندو ں پر احسان فرمایا اور ان کی حقیقی فلاح و کامیابی و کامرانی کے لیے جو کتاب مقدس اپنے حبیب خاتم الانبیاء ، احمدِ مجتبیٰ ، شافعِ روزِ جزاء کے قلبِ منیر پر نازل فرمائی جس کو ہم قرآن مقدس کے نام سے جانتے ہیں - اور یہ وہ مقدس کتاب ہے جس میں ہر خشک و تر کا علم رکھ دیا گیا ہے - بظاہر دیکھنے میں ایک کتاب نظر آتی ہے جبکہ باقی بھی بے شمار کتابیں ہیں با اعتبار ظاہر کے بڑی ضخیم ،نرالی، دل آویز لیکن اس کتاب مقدس کی اپنی انفرادیت ہے -یہ مبارک صحیفہ بیک وقت کتاب بھی ہے اور علم و معرفت کا آفتابِ جہاں تاب بھی، جس میں زندگی کی حرارت اور ہدایت کا نور دونوں یکجا نظر آتے ہیں - اس کا حسن و جمال قلب و نگاہ کو یکساں متأثر کرتا ہے - اس کی نورانی کرنوں سے دنیا اور عقبیٰ، ظاہر و باطن دونوں جگمگا رہے ہیں اس کا فیض لامتناہی ، کوئی پیاسا اس فیض سے محروم نہیں - اس کا پیغام ظاہر کے ساتھ ساتھ قلب و رُوح کو بھی جلا بخشتا ہے ،اس کی تعلیم نے انسانوں کو خود شناس بھی بنایا اور خدا شناس بھی - یہ مقدس کتاب ہر لحاظ سے سراپا اعجاز ہے ،جتنا اس کتاب مقدس کے متعلق لکھا گیا اتنا کسی کتاب کے متعلق نہیں لکھا گیا - اس بحرِ بیکراں سے ہر آدمی نے اپنی وسعت کے مطابق غوطہ لگایا اور اس سے موتی نکالے - یہ دعویٰ کوئی نہیں کر سکتا کہ اب اس میں مزید موتیوں کی گنجائش نہیں ہے سب مَیں نے چُن لیے ہیں - یہ کلامِ ربانی ہے اس کی کامل کُنہہ تک رسائی حاصل کرنا بغیر اس کے فضل کے ناممکن و محال ہے - اس مقدس کتاب کو سمجھنے اور اَسرار و رَموز تک رسائی حاصل کرنے کیلئے دو چیزوں کی ضرورت ہے ایک ظاہر کی پاکی اور دوسری باطن کی پاکی - جب تک یہ دونوں نصیب نہ ہوں گی اس وقت تک قرآن مقدس کے ظاہری و باطنی اَسرار و رَموز تک رسائی حاصل نہیں ہو سکتی جس طرح فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

{لا یمسہ الا المطھرون}(۱)

’’ اس کو نہیں چھوتے مگر جو پاک ہیں-‘‘

اس کے لطائف و اَسرار و رَموز تک رسائی کی سعادت ہر کس و ناقص کو نہیں بخشی جاتی بلکہ یہ صرف ان نفوسِ قدسیہ کا حصہ ہے جن کا ظاہر و باطن ، جن کا دل اور ذہن ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہو-ظاہر اعمالِ شریعت کے ساتھ اور باطن اللہ کے نور سے جب منور ہوگا تو پھر اس کتاب کے اَسرار و رَموز بندے پر منکشف ہوتے ہیں اور بندہ اس کلام مقدس کی رُوحانی لذتوں اور چاشنی سے محظوظ ہوتا ہے - بعض مفسرین فرماتے ہیں جس مومن کا دل پاکیزہ نہیں وہ اس کلام کو ہاتھ لگانے کا مستحق نہیں ہاں دل جب ماسوی اللہ سے پاکیزہ ہوجائے پھر اس کتاب کو ہاتھ لگا سکتا ہے اور اس کی لطافتوں سے بہرہ ور ہوسکتا ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

{یایھا الناس قد جاء تکم مو عظۃ من ربکم و شفاء لما فی الصدور و ھدی و رحمۃ للمومنین} (۲)

’’ اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک عظیم نصیحت آگئی ہے اور دلوں کی بیماریوں کی شفا آگئی اور مومنین کیلئے ہدایت اور رحمت ہے- ‘‘

 قرآن مقدس جسمانی اور رُوحانی دونوں اَمراض کیلئے شفا ہے- جسمانی بیماریاں تمام افعالِ قبیحہ ہیں اور رُوحانی بیماریاں غیر اخلاقی عادات اور اُن سے محبت جیسے تکبر ، حسد ، بخل، حرص وغیرہ - ان اخلاقی عیوب کو واضح کیا اور ان کے مقابلہ میں تواضع ، لوگوں کی بھلائی، قناعت، سخاوت، صبر و عدل وغیرہ کی دنیا و آخرت میں فضیلت بیان فرمائی اور دلوں میں اس طرح خوفِ خدا بٹھایا جن دلوں پر معصیت کا رنگ چڑھا ہوا تھا وہ دُھل کر صاف ہوجاتا ہے اور گناہوں سے محبت جاتی رہتی ہے اور اس دل میں نورانیت ، دماغ میں اچھی سوچ پیدا ہوجاتی ہے - گزشتہ آیتِ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے قرآن کی چار صفات بیان کی ہیں :

۱- اللہ کی طرف ہدایت

۲- قرآن مجید دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا

۳- قرآن مجید ہدایت ہے

۴- قرآن مجید مومنوں کے لیے رحمت ہے

قرآن مقدس کی ان چار صفات کا نبی آخرا لزمان کے منصبِ نبوت کے ساتھ بہت قوی ربط ہے - جب انسان کا اللہ کے نبی سے رابطہ نہ ہو اور وہ صرف اپنی عقل سے اپنے عقائد واضح کرے ، اپنی زندگی گزارنے کیلئے خود ضابطہ حیات مقرر کرے، اس کے دماغ پر اور دل پر شیطان کا تسلط ہوجاتا ہے اور اس کے عقائد ملحدانہ ہوجاتے ہیں اور اس کے اعمال کفر و شرک اور زندیقیت پر مبنی ہوتے ہیں - اس کو حلال و حرام ، اچھا برا ، نیک و بد کسی کی تمیز نہیں رہتی - تو اللہ پاک ایسے لوگوں کی نفسانی، رُوحانی، قلبی امراض کیلئے علاج اور اِصلاح کیلئے نبی مبعوث فرماتا ہے اور ان کو بطور نسخہ کتاب عطا فرماتا ہے - لہٰذا سنت ِ الٰہیہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو مبعوث فرمایا اور رُوحانی بیماریوں کیلئے علاج اور ان کی اِصلاح کیلئے قرآن آپ ﷺ پر نازل فرمایا - قرآن پاک روحانی کیساتھ ساتھ جسمانی امراض کیلئے بھی شفا ہے جیسا کہ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں:

 جب رسولِ عربی ﷺ بیمار ہوتے تو اپنے اوپر سورۃ الفلق اور الناس پڑھ کر دم کرتے اور اپنا ہاتھ اپنے جسم پر پھیرتے -

انہیں سے ایک اور روایت ہے کہ

 جب رسول اللہ ﷺ کے اہل میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آپ ﷺ ان کے اوپر بھی سورۃ الفلق اور الناس پڑھ کر دم کرتے- (۳)

حضرت ابو سعید ؓ فرماتے ہیں :

ایک شخص نبی پاک ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی یارسول اللہ میرے سینہ میں تکلیف ہے آپ نے فرمایا قرآن پڑھو کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے {شفاء لما فی الصدور}-‘‘

امام بیہقی فرماتے ہیں:

’’ ایک شخص نے آقا پاک ﷺ سے شکایت کی کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے حلق میں درد ہے فرمایا قرآن پڑھنے کو لازم رکھو -‘‘ (۴)

امام بیہقی نے طلحہ بن مَصرف سے روایت کیا:

’’کہ مریض کے پاس جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ آرام محسوس کرتا ہے -‘‘ (۵)

حضرت علی پاک فرماتے ہیں :

’’کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا بہترین دوا قرآن ہے-‘‘ (۶)

علامہ شمس الدین محمد بن ابو بکر لکھتے ہیں :

’’کہ یہ بات معلوم ہے کہ بعض کے کلام خاص ہوتے ہیں اور ان کی تاثیرات ہوتی ہیں تو تمہارا رب العالمین کے کلام کے متعلق کیا خیال ہے جس کو ہر کلام پر فضیلت اس طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فضیلت تمام مخلوق پر ہے اس کا کلام مکمل شفا ہے-‘‘ (۷)

اسی طرح قرآنِ مقدس رُوحانی امراض کیلئے بھی شفا ہے- طبیبِ حازق مریض کو ان تمام اشیاء سے روکتا ہے جن سے اصل حیات خطرہ میں پڑ جاتی ہے اس طرح یہ کلام مقدس بھی انسان کو شرک و کفر سے روکتا ہے کیونکہ ان کے ارتکاب سے انسان سرمدی اور دائمی عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے اسی طرح اللہ پاک کے نبی جب لوگوں کو ممنوع کا موں کے ارتکاب سے منع کرتے ہیں تو ان کا ظاہر گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے پھر وہ باطن کی طہارت کا حکم دیتے ہیں جس کو تزکیہ نفس کہتے ہیں - ظاہری اعمال سے بدن پاک ہوتا ہے اور باطنی اعمال سے آدمی کا قلب پا ک ہوتا ہے گویا کہ تمام عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ رذیلہ اور اخلاقِ مذمومہ امراض کے قائم مقام ہیں جب یہ چیزیں زائل ہوجاتی ہیں تو قلب کو شفا نصیب ہوتی ہے اور اس کی رُوح تمام آلودگیوں سے پاک صاف و شفاف ہوجاتی ہے جو اس کو انوارِ الٰہیہ کے مطالعہ سے مانع ہوتی ہے - اور انہی دو مرتبوں کی طرف قرآن کی ان دو صفات میں اشارہ ہے-

{ موعظۃ من ربکم }

{شفاء لما فی الصدور}

’’یہ تمہارے رب کی طرف سے نصیحت ہے اور دل کی بیماریوں کیلئے شفا ہے-‘‘

آدمی کا دل اِن تمام خصائل رذیلہ گو جسمانی ہوں یا رُوحانی جب روشن ہوجاتا ہے اور اس میں انوارِ الٰہیہ منعکس ہونے لگتے ہیں ، اس کی رُوح تجلیاتِ قدسیہ سے فیض یاب ہونے کے قابل ہو جاتی ہے اس مرتبہ کو اس آیت میں ہدایت کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے جب انسان درجاتِ رُوحانیہ اور معارجِ ربانیہ تک پہنچ جائے تو اس کے انوار سے دوسرے قلوب بھی روشن ہونے لگتے ہیں -

حاصل کلام یہ ہے کہ جو شخص قرآن مجید سے اپنے نفس کے کمالات حاصل کرنا چاہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ نا مناسب کام چھوڑ کر اپنے ظاہر کو درست کرلے اور اس کی طرف {موعظۃ} سے اشارہ فرمایا اس کا معنی ہے گناہوں سے منع کرنا-

دوسرا مرتبہ عقائدِ فاسدہ صفات رویہ سے اپنے باطن کو صاف کرنا{ شفاء لما فی الصدور }سے اس کی طرف اشارہ ہے-

تیسرا مرتبہ نفس کو برحق عقائد اور عمدہ اخلاق سے مزین کرنا اس کی طرف {ھدی }سے اشارہ ہے -

چوتھا مرتبہ اللہ کی رحمتوں کے انوار سے قلب کا روشن ہونا اس کی طرف{ رحمۃ اللمومنین} سے اس کی طرف اشارہ ہے-

قرآن مقدس جب ہماری ہر ہر قدم پر رہنمائی کرتا ہے تو ہم نے قرآن کو کیوں چھوڑ دیا ہے ؟ ہم قرآن سے ہدایت لینے کیلئے کیوں تیار نہیں ؟ جبکہ صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ چیز کثرت سے ملے گی کہ صحابہ کرام پہلے ایک آیت سیکھ لیتے تو پھر دوسری آیت پڑھتے ، حضر ت عمر پاک ؓ نے سورۃ البقرہ سیکھی کیا اس طویل مدت میں فقط انہوں نے سورۃ البقرہ پڑھی؟ کیا اس سے مراد ان آیات کے معانی و مطالب و مفاہیم و اسرار و حقائق اور اشارات و رَموز سمجھنا مراد ہے اور پر عمل کرنا مراد ہے جب ہم صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں آخر کیا وجہ تھی کہ قرآن پر اتنی محبت سے عمل کرتے تھے-حضرت جندب بن عبداللہ فرماتے ہیں:

{قال کنا مع النبی ﷺ ونحن فتیان حزاورۃ فتعلمنا الایمان قبل ان نتعلم القرآن ثم تعلمنا القرآن فازددنا بہ ایمانا} (۸)

’’فرماتے ہیں کہ ہم نبی پاک ﷺ کے ساتھ ہوتے تھے ہم زور آور نوجوان تھے ، ہم نے آپ ﷺ سے قرآن سیکھنے سے پہلے ایمان سیکھا تو (پھر جب قرآن پڑھا، تو ) اس نے ہمارے ایمان کو اور بڑھا دیا-‘‘

حوالہ جات:

(۱)(الواقعہ:۷۹)

(۲)(یونس:۵۷)          

(۳)(مسلم شریف: ۲۱۹۲، مشکوٰۃ : ۱۵۳۲)

(۴)(شعب الایمان : ۲۵۸۰)

(۵)(تبیان القرآن : جلد ۵ ص ۳۹۱)                     

(۶)(ابن ماجہ: ۳۵۰۱)                    

(۷)(تبیان القرآن جلد ۵ ، ص ۳۹۲)

(۸)(سنن ابن ماجہ ، کتاب المقدمہ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر