قرآن کریم کی تفہیم (چند بنیادی پہلو)

قرآن کریم کی تفہیم (چند بنیادی پہلو)

قرآن کریم کی تفہیم (چند بنیادی پہلو)

مصنف: مفتی محمدمطیع اللہ قادری جون 2016

قرآنِ مقدس ایک بحرِ عمیق ہے جس کی حد اللہ و رسول ا کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں کہ اُس کی گہرائی کتنی ہے یا اِس کا کنارہ کیا ہے؟ اِس بحرِ عمیق میں غوطہ زن ہونے کے لیے اور اِس سے گوہرِ نایاب حاصل کرنے کے لیے جو غواصی کے اُصول و ضوابط ہیں ان کا اِدراک کرنا ازحد ضروری و لازم ہے- اگر آدمی اِن سے ناواقف ہو تو ممکن ہے کہ اِس کی نیّا موجوں کی طُغیانی کی نذر ہو جائے اور اِس کا نشان تک باقی نہ رہے- تمام عالَم کا کوئی ذرّہ اِس سے باہر نہیں- اَزل سے لے کر اَبد تک اس نے تمام کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے- اس کے ایک ایک حرف نے اپنے اندر لامتناہی مفاہیم کو جمع کر رکھا ہے- ایک ایک آیتِ کریمہ کے اندر بے شمار نکات، اسرار و رموز ہیں- کائناتِ عالَم کا کوئی ذرّہ ایسا نہیں جو اس سے باہر ہو تو پھر لازمی اَمر ہے کہ مقرر کردہ شرائط پر چل کر فوائد و منافع حاصل کیے جائیں-

قرآنِ مقدس کے دو وجود ہیں ایک ظاہر اور ایک باطن- حجۃ الاسلام اِمام محمد غزالی فرماتے ہیں کہ:- ﴿اِنَّ لِلْقُرْآنِ ظَاہِرًا وَ بَاطِنًا﴾ تو اس کے ظاہر سے فیض یاب ہونے کے لیے جن قوانین کا جاننا ضروری ہے وہ یہ ہیں:-

﴿۱﴾ مفہوم وحی اور نزول قرآن                              ﴿۲﴾ جمع و تدوین

﴿۳﴾ ناسخ و منسوخ آیات                          ﴿۴ ﴾محکم و متشابہات

﴿۵﴾ علمِ تفسیر و اقسامِ تفسیر

﴿۶﴾ مکّی مدّنی سورتوں پر تفسیر کے اثرات

یہ چند چیزیں بنیادی اور ضروری ہیں جن کی تفصیل پیشِ خدمت ہے:-

۱﴾- مفہوم وحی اور نزول قرآن:

وحی کی لغوی تعریف:-

﴿فی لغۃ العرب انّ الوحی الاشارۃ و الکتابۃ و الرسالۃ و الالھام و الکلام الخفی فکل ما القیتہ الی غیرک﴾

’’لغتِ عرب میں لفظِ وحی متعدد معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، مثلاً اِشارہ کرنا، لکھنا، اِرسال کرنا، اِلہام کرنا، سرًّا کلام کرنا اور کسی غیر کی طرف کوئی چیز اِلقائ کرنا‘‘- ﴿عمدۃ القاری: جلد۱، ص۴۱﴾

لغوی معنیٰ کے اعتبار سے لفظ وحی صرف انبیائ علیہ الصلاۃ و السلام کے ساتھ خاص نہیں بلکہ غیرِ انبیائ انسانوں، حتّٰی کہ حیوانات کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے:-

﴿اَوْحَیْنَا اِلٰی اُمِّ مُوْسٰی اَنْ اَرْضِعِیْہِ﴾

’’ہم نے حضرت موسیٰ ﴿علیہ السلام﴾ کی والدہ کی طرف اِلہام کیا کہ اسے ﴿حضرت موسیٰ کو﴾ دودھ پلاتی رہ‘‘- ﴿القصص : ۷﴾

اس آیتِ مبارکہ میں لفظِ وحی اِلقائ اور اِلہام کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہ اِلہام حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی والدہ کو ہوا جو کہ نبی کی والدہ محترمہ ہیں خود نبی نہیں-

اِسی طرح سورۃ نمل میں اِرشاد باری تعالیٰ ہے:-

﴿اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ﴾ ﴿النحل:۸۶﴾

’’ آپ کے ربّ نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی‘‘-

اس آیت مبارکہ میں لفظِ وحی اِلقائ اور اِلہام کے معنی میں استعمال ہوا ہے مگر یہ ایسا اِلقائ ہے جو خالقِ کائنات نے مکھی کی سرشت اور فطرت میں رکھ دیا ہے- سورۃ مریم میں فرمایا:-

﴿فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٰ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰی اِلَیْھِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُکْرَۃً وَّ عَشِیًّا﴾

’’تو وہ اپنی قوم پر مسجد سے باہر آیا تو انہیں اشارے سے کہا کہ صبح و شام تسبیح کرتے رہو‘‘- ﴿مریم : ۱۱﴾

وحی کی شرعی تعریف:-

’’اصطلاح میں وحی ان کلماتِ اِلٰہیہ کو کہتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے انبیائ اور اَولیائ کی طرف القائ فرماتا ہے- یہ القائ یا تو فرشتے کے واسطے سے ہوتا ہے جو دکھائی دے یا اس کا کلام صرف سنائی دے جیسے موسیٰ علیہ السلام سے کلام یا نبی کے دِل میں کوئی بات ڈال دی جائے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ جبرائیل نے میرے دِل میں یہ بات ڈال دی‘‘- ﴿نعمۃ الباری، ج:۱، ص:۶۱۱﴾

﴿مُنزّل بہ﴾ کے اعتبار سے وحی کی اقسام :-

اِس اعتبار سے وحی کی دو قسمیں ہیں ؛﴿۱﴾ وحی ٔ متلو ﴿۲﴾ وحی ٔ غیر متلو

﴿۱﴾ وحی ٔ متلو:

وحی کی اس قسم سے مراد قرآن مجید فرقانِ حمید ہے- جس کے الفاظ و معانی حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام پر حالت بیداری میں نازل ہوئے یا جبرائیلِ امین کے ذریعے سے نازل کیے گئے جس کی حفاظت و صیانت کی ذمہ داری اپنے سپرد کرتے ہوئے خالقِ کائنات نے ارشاد فرمایا:-

﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہ، لَحٰفِظُوْنَ﴾ ﴿الحجر: ۹﴾

’’بے شک ہم نے اس قرآن کو اُتارا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘‘-

﴿۲﴾ وحی ٔ غیر متلو:

یہ وحی کی وہ قسم ہے جس میں ربّ کریم کی طرف سے حضور نبی کریم ا کی طرف قرآنِ کریم کے علاوہ دیگر اَحکاماتِ وحی کے متذکرہ طریق کے مطابق حالتِ بیداری یا حا لتِ خواب میں نازل کیے گئے- وحی کی یہ قسم سُنّت کہلاتی ہے- قرآنِ کریم نے متعدد مقامات پر اس کی طرف اشارہ فرمایا:-

﴿مَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی﴾﴿النجم: ۳، ۴﴾

’’وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو وحی ہے جو انہیں کی جاتی ہے‘‘-

نزولِ وحی کی صورتیں اور اقسام:-

علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے ’’نعمۃ الباری‘‘ میں علامہ بدر الدین عینی ﴿متوفیٰ: ۵۵۸ھ﴾ کے حوالے سے وحی کی حسبِ ذیل اقسام لکھی ہیں:-

۱- موسیٰ علیہ السلام کا کلامِ قدیم کو سننا جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کلامِ قدیم کو سننا جیسا کہ احادیث میں ہے-

۲- فرشتے کے واسطے سے وحی کا نازل ہونا-

۳- دل میں کسی بات کا اِلقائ کیا جانا-

۴- ﴿صلصلۃ الجرس﴾ یعنی گھنٹی کی آواز کی صورت میں-

۵- جبرائیلِ امین کا کسی غیر معروف آدمی کی شکل میں آکر بات کرنا-

۶- جبرائیلِ امین اپنی اصلی شکل میں آئیں-

۷- جبرائیل امین کسی آدمی کی شکل میں آئیں جیسے جبرائیل امین کا حضرت دِحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شکل میں آکر بات کرنا-

۸- اللہ تعالیٰ کا براہِ راست حالتِ بیداری میں آپ ا سے ہم کلام ہونا جیسا کہ شبِ معراج میں ہوا-

۹- اللہ تعالیٰ کا آپ ا سے حالتِ نیند میں ہم کلام ہونا-

۰۱- نبی کریم ا کو خواب میں کوئی واقعہ دکھایا جانا- ﴿نعمۃ الباری، ج:۱، ص: ۶۱۱﴾

لفظِ وحی لغوی اور اصطلاحی اعتبار سے قرآن کریم میں کل ۸۷ مرتبہ ذکر ہوا ہے- اس لحاظ سے وحی کی چودہ ﴿۴۱﴾ اقسام بیان کی گئی ہیں:-

وحی کلامی، وحی خفی، وحی جلی، وحی منامی، وحی بالوسیلہ، وحی بلاواسطہ، وحی نفسی، وحی حقیقی، وحی معنوی، وحی کشفی، وحی الہامی، وحی قلبی، وحی لوحی، وحی صوتی- ﴿تفسیر نعیمی: جلد۴۱، ص۴۱﴾

نزول قرآن :

﴿تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾﴿الواقعہ:۰۸﴾

’’یہ قرآن تمام جہانوں کے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے‘‘-

قرآنِ مجید کی تنزیل تین بار ہوئی:-

﴿۱﴾ لوحِ محفوظ کی طرف،

﴿۲﴾ بیت العزۃ کی طرف،

﴿۳﴾ قلبِ مصطفی ا پر -

۱- لوحِ محفوظ کی طرف:-

سب سے پہلے قرآنِ مجید کی تنزیل لوحِ محفوظ کی طرف ہوئی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :-

﴿بَلْ ھُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ﴾ ﴿البروج: ۱۲، ۲۲﴾

’’بلکہ وہ بزرگی والا قرآن ایسی لوح میں لکھا ہوا ہے جو محفوظ ہے‘‘-

۲- بیت العزۃ کی طرف: -

دوسری مرتبہ قرآنِ کریم لوحِ محفوظ سے آسمانِ دُنیا میں بیت العزۃ کی طرف نازل ہوا- یہ نزول بھی نزولِ اوّل کی طرح یک بارگی ہوا جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:-

﴿اِنَّا اَنْزَلْنٰہ، فِیْ لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ﴾ ﴿الدخان:۳﴾

’’بے شک ہم نے اُسے بابرکت رات میں اُتارا ہے‘‘-

مزید فرمایا :-

﴿اِنَّا اَنْزَلْنٰہ، فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ﴾ ﴿القدر:۱﴾

’’بے شک ہم نے اسے شبِ قدر میں اُتارا‘‘

سورۃ البقرہ میں ارشاد فرمایا :-

﴿شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ﴾ ﴿البقرۃ: ۵۸۱﴾

’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اُترا‘‘-

مذکورہ آیاتِ بیّنات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مکمل قرآنِ کریم کا نزول رمضان المبارک کی ایک رات میں ہوا جسے ’’لیلۃ المبارکہ‘‘ ا ور ’’ لیلۃ القدر‘‘ کے مقدس ناموں سے تعبیر کیا گیا ہے- جب کہ آقا علیہ الصلوٰہ و السلام پر قرآن کریم کا نزول یک بارگی نہیں بلکہ متفرق طور پر لگ بھگ تئیس ﴿۳۲﴾ سال کے عرصے میں ہوا-

۳- قلبِ مصطفی ا پر:

تنزیلِ قرآن کی تیسری و آخری صورت یہ ہے کہ بیت العزۃ سے قلبِ مصطفی ا پر جبرائیل امین کے ذریعے نازل ہوا- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:-

﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ﴾ ﴿ الشعرائ: ۳۹۱﴾

’’ بلاشبہ یہ کتاب رب العالمین کی اُتاری ہوئی ہے اسے جبرائیلِ امین نے آپ ا کے قلب پر اُتارا تاکہ آپ لوگوں کو ڈرائیں- یہ ایسی عربی زبان میں ہے جو بالکل واضح ہے‘‘-

قرآن پاک سارے عالَم کے لیے معمور نور تھا اور تمام مخلوق کے لیے ہدایت کا سرچشمہ تھا اس لیے یک بار نازل ہونے کی بجائے ۳۲ سال کی طویل مدت میں نازل فرمایا گیا-

۲﴾- قرآن مجید کی جمع و تدوین:

نبی پاک ا کے قرآنِ مجید کو حفظ کرکے سینوں میں جمع کیا گیا اور سب سے پہلے نبی پاک ا کے سینے مبارک میں محفوظ ہوا-

آقا پاک ا ہر رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن پاک کا جبرائیل علیہ السلام سے مل کر دور کیا کرتے تھے اور صحابہ کرام، آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام سے سُن کر قرآن پاک یاد کیا کرتے تھے- حضرت ابراہیم نخعی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسروق کے سامنے حضرت عبد اللہ بن مسعود کا ذکر کیا تو اُنہوں نے کہا کہ میں ان سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں کیونکہ میں نے نبی پاک ا سے یہ سُنا ہے کہ چار آدمیوں سے قرآن مجید حاصل کرو- حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت سالم، حضرت معاذ، حضرت ابی بن کعب رضوان اللہ علیھم اجمعین-

حضرت مسروق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے کہا کہ:- خُدا کی قسم! جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، کتاب اللہ کی جو سورۃ بھی نازل ہوتی تھی مجھے اس کے متعلق علم ہوتا کہ یہ کس کے متعلق نازل ہوئی-﴿تبیان القرآن ، ج:۱، ص:۷۹﴾

آقا پاک کے دور مبارک میں قرآن پاک جمع کر لیا گیا تھا کیونکہ جب بھی کوئی آیت کریمہ نازل ہوتی تو رسول اللہ ا کاتبِ وحی کو حکم دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورۃ میں فلاں جگہ لکھ دو اور جب بھی کوئی سورۃ نازل ہوتی تو سرکار ا کاتبِ وحی کو حکم دیتے کہ اس کو فلاں سورۃ کے بعد لکھو-

نبی اکرم ا سے صحابہ کرام سُن کر قرآن لکھ لیتے تھے- مشہور یہ ہے کہ ۵۲ صحابہ کرام کاتبِ وحی تھے اور بعض کہتے ہیں کہ ۰۶ کاتبِ وحی تھے اور ان میں مشہور خلفائے اربعہ تھے- قرآنِ مقدس کو سرکارِ دو عالم ا کے دورِ مقدس میں اس لیے ایک مصحف میں جمع نہیں کیا گیا کہ نزولِ وحی کا عمل آپ ا کی حیاتِ مبارکہ میں مسلسل جاری تھا- ہر وقت کسی نئی وحی کے نازل ہونے کا امکان تھا- قرآنِ مقدس کی تمام آیات کپڑوں کے ٹکڑوں پر ہڈیوں پر، پتھروں پر اور پتوں سے صاف کی ہوئی کھجور کی ٹہنیوں پر لکھی ہوئی تھیں- پھر جب حضرت ابوبکر(رض) کے عہد میں جنگِ یمامہ کے دوران بہت سے حفاظِ قرآن شہید ہوگئے تب قرآن مجید کو پہلی بار ایک مصحف میں جمع کرنے کی تحریک ہوئی- ﴿ایضاً، ص: ۹۹﴾

حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم نے فرمایا کہ :- 

مصاحف کا سب سے زیادہ اجر و ثواب حضرت ابوبکر(رض) کو ہوگا، اللہ تعالیٰ ابو بکر(رض) پر رحم کرے، وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مصحف میں قرآنِ مجید کو جمع کیا-

﴿ایضاً، ص:۰۱۱﴾

اِبن اَبی دائود بیان کرتے ہیں حضرت عمر(رض) نے آکر کہا جس شخص نے رسول اللہ اسے سُن کر جتنا قرآنِ مجید حفظ کرلیا ہو وہ اِس کو لے کر آئے- اُس وقت لوگ صحیفوں میں، تختوں پر اور پتوں سے خالی شاخوں پر لکھتے تھے اور حضرت زید(رض) کسی سے اُس وقت تک کوئی چیز قبول نہیں کرتے تھے جب تک وہ اُس پر دو گواہ پیش نہ کرتا- تو حضرت زید(رض) کی وجہ تخصیص کیا ہے؟ اِس تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ جب نبی اکرم ا نے حضرت جبرائیل(ع) کے ساتھ قرآن مقدس کا آخری دور فرمایا تو حضرت زید بن ثابت بھی موجود تھے- اس لیے کتابتِ قرآن کا اہم کام حضرت زید بن ثابت سے انجام دلوایا گیا اور اُن پر یہ ذمہ داری عائد فرمائی گئی اس کے علاوہ جس سال سرکار ا کا وصال ہوا تو حضرت زید نے دو مرتبہ آقا پاک ا کو قرآن سُنایا-

حضرت ابوبکر(رض) نے حضرت عمر(رض) اور حضرت زید(رض) سے فرمایا آپ دونوں مسجد کے دروازے پر بیٹھ جائیں جو شخص کتاب اللہ پر دو گواہ پیش کرے اُس کو لکھ لیں- نوٹ فرمائیں کہ حضرت زید کو حضرت عمر کے ساتھ مسجد کے دروازے پر حضرت ابوبکر صدیق(رض) نے بٹھایا- علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ:-

’’ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دو گواہ اس پر گواہی دیں کہ انہوں نے اس آیت کولکھ لیا تھا اور اس آیت کو حفظ کیا تھا‘‘- ﴿ایضاً، ص:۱۰۱﴾

علامہ شمس الدین محمد بن عبد الرحمن السخاوی نے کہا کہ:-

’’ وہ گواہ اس پر گواہی دیں کہ رسول اللہ ا کے سامنے اس آیت کو لکھا تھا‘‘- ﴿ایضاً﴾

قرآنِ مجید سات حرفوں پر نازل ہوا تھا اور ہر قبیلہ کو ایک حرف پر قرآن مجید پڑھنے کی اجازت تھی لیکن جب اسلام سر زمینِ عرب سے نکل کر دُنیا کے دور دراز علاقوں میں پہنچا اور لوگوں نے مختلف حرفوں پر پڑھا جو شخص دوسرے حرف سے ناواقف تھا اُس نے اِس کی تکذیب شروع کر دی تو اِس صورت کی اصلاح کے لیے حضرت عثمان غنی(رض) نے اُس نسخہ کو منگوایا جو حضرت ابوبکر صدیق(رض) کے عہد مبارک میں جمع کیا گیا تھا اور اُس کی نقلیں تیار کرا کے تمام شہروں میں بھجوا دیں اور باقی نسخوں کو اکٹھا کرکے پانی میں دھو ڈالا اور تمام اُمت کو قرآن مقدس کے ایک حرف پر جمع کر دیا جو لغتِ قریش کے مطابق تھا اور یہ وہی نسخہ تھا جس کو حضرت ابوبکر(رض) کے عہد مبارک میں جمع کر لیا گیا تھا-﴿تبیان القرآن ، ج:۱، ص: ۲۰۱﴾

 آج ہمارے پاس وہی نسخہ ہے-

شروع میں جب قرآن مقدس لکھا جاتا تھا تو قرآن مجید کے حروف پر نقطے نہیں لگائے جاتے تھے اور نہ ہی حرکات و سکنات اور اعراب لگائے جاتے تھے کیونکہ اہلِ عرب اپنی زبان اور محاورہ کی مدد سے نقطوں، حرکات و سکنات اور اعراب کے بغیر بالکل صحیح قرآن پڑھ لیتے تھے- انہیں کسی فقرے کو ملانے یا اس پر وقف کرنے کے لیے ہماری طرح رموز و اوقاف کی ضرورت نہیں تھی- وہ اہلِ زبان تھے اور ان تمام چیزوں سے مستثنیٰ تھے- پھر جیسے جیسے اسلام پھیلتا گیا اور غیر عرب لوگ مسلمان ہوتے گئے - وہ اہلِ زبانِ عرب نہ ہونے کی وجہ سے قرأت میں غلطیاں کرنے لگے تو پھر قرآن مجید کی کتابت میں ان تمام چیزوں کا اہتمام اور التزام کیا گیا اور سب سے پہلے قرآن مجید کے حروف پر نقطے لگائے گئے پھر حرکات و سکنات اور اعراب لگائے گئے پر قرآن مجید کو صحیح پڑھنے کے لیے قرأت اور تجوید کے قواعد مقرر کیے گئے- ﴿ایضاً، ص: ۳۱۱﴾

۳﴾- ناسخ و منسوخ کا بیان:

نسخ کا لغوی معنٰی ہے کسی چیز کو زائل کرنا، کسی چیز کو باطل کرکے دوسری چیز کو اس کا قائم مقام کرنا- نسخ کا شرعی معنی یہ ہے کہ ناسخ وہ دلیلِ شرعی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ناسخ سے پہلے جو حکم کسی دلیلِ شرعی سے ثابت تھا وہ حکم اب نہیں ہے- علامہ سعد الدین تفتازانی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں، نسخ یہ ہے کہ:-

’’ ایک دلیلِ شرعی کے بعد ایک اور دلیلِ شرعی آئے جو پہلی دلیلِ شرعی کے حکم کے خلاف واجب کرے‘‘-

علامہ میر سیّد شریف علی بن محمد جرجانی ﴿متوفی۶۱۸ھ﴾ لکھتے ہیں:-

’’صاحبِ شرع کے حق میں کسی حکمِ شرعی کی انتہائ کو بیان کرنا نسخ ہے- اس حکم کی انتہائ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معلوم ہوتی ہے مگر ہمارے علم میں اس حکم کا دوام اور استمرار ہوتا ہے- ناسخ سے ہمیں اس حکم کی انتہائ معلوم ہوتی ہے اس لیے ہمارے لیے نسخ تبدیلی و تغیّر سے عبارت ہے ‘‘- ﴿ایضاً، ص: ۹۶﴾

علامہ عبد العظیم زرقانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :-

’’کسی حکمِ شرعی کو دلیلِ شرعی سے ساقط کر دینا نسخ ہے‘‘- ﴿ایضاً، ص: ۰۷﴾

امام فخرالدین رازی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک نسخ عقلاً جائز ہے اور دلائلِ سمعیہ سے نسخ ثابت اور واقع ہے -

نسخ کا موضوع :-

﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَا اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَئٍ قَدِیْرٌ﴾ ﴿البقرہ: ۶۰۱﴾

’’ہم جو آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اس کو بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی آیت لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر ﴿کامل﴾ قدرت رکھتا ہے‘‘-

﴿وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ وَّ اﷲُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوآ اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْن﴾ ﴿النحل:۱۰۱﴾

’’جب ہم ایک آیت کو بدل کر اس کی جگہ دوسری آیت لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ نازل فرماتا ہے تو کفار کہتے ہیں کہ آپ تو بس اپنی طرف سے گھڑنے والے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ ﴿اس کی حکمت﴾ نہیں جانتے‘‘-

ان دونوں آیتوں میں نسخ کے وقوع کی واضح اور روشن دلیل ہے - تمام علمائے سلف کا اس پر اجماع ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں نسخ واقع ہے اور قرآن مجید میں بعض ایسی آیات ہیں جن کے احکام خود ربِّ ذوالجلال کی طرف سے منسوخ فرمائے گئے-

نسخ کا ثبوت رسول اللہ ا کی صریح نقل سے حاصل ہوگا یا کسی صحابی کا قول ہو کہ ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ ہو گئی- کبھی نسخ کو استنباط سے معلوم کیا جائے گا جب دو آیتوں میں قطعی تعارض ہو اور کسی دلیل سے معلوم ہو جائے- ان میں سے ایک آیتِ متاخر سے نسخ کے متعلق عام مفسرین کے قول پر اعتماد نہیں کیا جائے گا اور نہ بغیر کسی نقلِ صریح کے مجتہدین کے اجتہاد پر عمل کیا جائے گا-  ﴿تبیان القرآن ، ج:۱، ص: ۴۷﴾

قرآن مقدس میں آیات کریمہ کے منسوخ ہونے کے مختلف طریقے ہیں:

﴿۱﴾ ایک صورت یہ ہے کہ کسی آیت کا حکم اور اس کی تلاوت دونوں کو منسوخ کر دیا گیا ہو جیساکہ حضرت ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:-

’’صحابہ کرام کی ایک جماعت نے کسی سورت کی قرأت کے لیے رات قیام کیا لیکن انہیں اس سورت سے صرف بسم اللہ ہی یاد آئی- چنانچہ وہ صبح سرکارِ دوعالم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ بات عرض کی تو رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ یہ سورت اپنی تلاوت اور حکم سمیت اُٹھالی گئی ہے ‘‘-

بعض علما نے کہا ہے کہ سورہ الاحزاب بھی سورۃ البقرہ کی طرح بڑی تھی پھر اس کا بعض حصہ تلاوت اور حکم دونوں اعتبار سے اُٹھا لیا گیا ہے- ﴿تفسیر خازن، ج:۱، ص:۲۸۲﴾

﴿۲﴾ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی آیت کی تلاوت اُٹھالی گئی ہو اور اس کا حکم باقی رکھا گیا جیسے آیتِ رجم - حضرت عبداللہ بن عباس(رض) سے روایت ہے کہ :-

’’ حضرت عمر(رض) نے ارشاد فرمایا جب کہ وہ منبر رسول پر بیٹھے ہوئے تھے کہ بے شک اللہ ربّ العزت نے سیّدنا محمد الرسول اللہ اکو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی تو جو کتاب آپ پر نازل کی گئی اس میں آیتِ رجم کو بھی ہم نے پڑھا، یاد کیا اور سمجھا- رسول اللہ ا نے بھی رجم کیا، آپ ا کے بعد ہم نے بھی رجم کیا-

﴿۳﴾ تیسری صورت یہ ہے کہ کسی آیت کا حکم اُٹھا لیاگیا ہو لیکن اس کا لکھا ہوا ہونا اور اس کی تلاوت باقی ہو- ایسی آیاتِ کریمہ قرآن مقدس میں کثرت کے ساتھ ہیں- ﴿ایضاً، ص:۳۸۲﴾

جن آیات کریمہ کو منسوخ کیا جاتا تو اس کی جگہ دوسری آیت کریمہ کو لایا جاتا تو اس میں عمل کے اعتبار سے زیادہ آسانی ہوتی مثلاً مسلمانوں پر پہلے رات کا قیام فرض تھا پھر اس کو منسوخ کر دیا گیا- یہ مسلمانوں کے لیے دُنیَوی اعتبار سے زیادہ بہتر تھا کیونکہ ان کی تھکاوٹ اور مشقت ختم ہوگئی-

وہ آیاتِ کریمہ جن کو منسوخ کرکے کوئی مشکل اور دُشوار حکم لایا گیا ہو وہ حکم ثواب کے اعتبار سے زیادہ کامل ہے جیسے مسلمانوں پر پہلے سال میں چند دنوں کے روزے فرض تھے پھر اس کو منسوخ کرکے ماہِ رمضان کے روزے فرض کیے گئے- ہر سال میں پورے ایک مہینے کے روزے رکھنا یہ نسبت چند دنوں کے روزوں کے بدن پر زیادہ بھاری اور دشوار ہے لیکن اس میں اجر و ثواب زیادہ کامل و وافر ہے-

جہاں تک تعلق ہے اس جیسی آیاتِ کریمہ لانے کا تو اس کی مثال یہ ہے کہ بیت المقدس کی طر ف رخ کرنے کو منسوخ کرکے مسجد حرام کی طرف رخ پھیر دیا گیا اور اس حکم میں اجر وثواب بھی برابر ہے کیونکہ نمازی پر فرض ہے کہ جس طرف اسے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس طرف اپنا رخ رکھے- ﴿ایضاً، ص:۴۸۲﴾

 یاد رہے کہ قرآن مقدس میں جو ناسخ اور منسوخ کا سلسلہ ہے تو اس میں بندے کے لیے زیادہ اجر و ثواب اور آسانی ہے- وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ہے- اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ایک آیت دوسری آیت سے بہتر ہے کیونکہ کلام الٰہی سارے کا سارا یکساں ہے-

آیاتِ منسوخہ:-

مفسرِ قرآن علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمۃ تفسیر ’’تبیان القرآن‘‘ میں وہ آیاتِ بینات جن کا حکم منسوخ ہے ان کی تعد اد ۲۱ بتائی ہے-

 ﴿۱﴾ ﴿کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَا نِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ﴾﴿البقرہ ۰۸۱﴾

’’جب تم میں سے کسی کو موت آئے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑے تو اس پر فرض کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے لیے دستور کے موافق وصیت کرے یہ متقین پر حق ہے ‘‘-

﴿۲﴾ ﴿ ٰیآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾﴿البقرہ :۳۸۱﴾

’’اے ایمان والو! تم پرروزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ تم متقی بن جائو‘‘-

﴿۳﴾ ﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِالْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ﴾﴿البقرہ:۷۱۲﴾

’’لوگ آپ سے ماہِ حرام میں قتال کاحکم پوچھتے ہیں آپ کہیے کہ ان مہینوں میں قتال کرنا بڑا گناہ ہے‘‘ -

﴿۴﴾ ﴿وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًاوَّصِیَّۃً لِاَّزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ فَاِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ﴾ ﴿البقرہ ۰۴۲﴾

’’ جو لوگ تم میں سے مرجائیں اور اپنی بیویاں چھوڑ جائیں وہ اپنی بیویوں کے لیے ان کے گھر سے نکالے بغیر ایک سال کا خرچ دینے کی وصیت کر جائیں پھر اگر وہ نکل جائیں تو تم پر ان کے اس کام کا کوئی گناہ نہیں ہے جو انہوں نے دستور کے مطابق کیا‘‘-

﴿۵﴾ ﴿وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمُ اللّٰہُ﴾﴿البقرہ:۴۸۲﴾

’’جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم اسے چھپائو یا ظاہر کرو اللہ پاک تم سے اس کا حساب لے گا‘‘ -

﴿۶﴾ ﴿وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ فَاِنْ اشَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْہُنَّ فِیْ الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اﷲُ لَہُنَّ سَبِیْ لًا﴾ ﴿النسائ ۵۱﴾

’’ تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کریں توان کے خلاف اپنے چار مردوں کی گواہی بھی طلب کرو پھر اگر وہ ان کے خلاف گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھر میں اس وقت تک مقید رکھو کہ انہیں موت آجائے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی راہ پیدا فرمادے ‘‘-

﴿۷﴾ ﴿یٰ آَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اﷲِ وَ لاَ الشَّہْرَ الْحَرَام﴾ ﴿المائدہ:۰۲﴾

’’اے ایمان والو! اللہ کی نشانیوں اور حرمت والے مہینوں کی بے حرمتی نہ کرو‘‘-

﴿۸﴾ ﴿ یٰآَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَال اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَ نَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ﴾ ﴿الانفال:۵۶﴾

’’اگر تم میں بیس صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آجائیں گے اگر تم میں سے ایک سو ﴿۰۰۱﴾ ہوں تو وہ ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے کیونکہ وہ بے وقوف لوگ ہیں‘‘-

﴿۹﴾ ﴿اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً وَ الزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَ حُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ﴿سورۃ النور:۳﴾

’’ زانی مرد صرف زانیہ عورت سے نکاح کرے اور زانیہ عورت صرف زانی یا مشرک مرد سے نکاح کرے مسلمانوں پریہ حرام کردیا گیا ہے‘‘-

﴿۰۱﴾ ﴿َا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآئُ مِنْ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ اِلَّا مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُ﴾ ﴿الاحزاب:۲۵﴾

’’ان کے بعد اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان بیویوں کی جگہ اور بیویاں تبدیل کریں خواہ ان کا جو آپ کو پسند ہو ماسوائ اس کنیز کے جوآپ کی ملک ہو‘‘-

﴿۱۱﴾ ﴿یٰ آَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوآ اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقَۃً ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْھَرُ﴾﴿المجادلۃ :۲۱﴾

’’اے ایمان والوجب تم تنہائی میں رسول اللہ ا سے کچھ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو‘‘-

﴿۲۱﴾ ﴿یٰ آَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلا نِّصْفَہ،ٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًااَوْزِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً﴾﴿المزمل:۱تا۴﴾

’’اے چادر لپیٹنے والے رات کونماز میں قیام کریں خواہ تھوڑی رات آدھی رات یا اس سے کچھ کم کریں اور ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھیں ‘‘-

یہ تحقیق علامہ غلام رسول سعید ی علیہ الرحمۃ کی تھی ان کی تحقیق کے مطابق بارہ آیات کریمہ کا حکم منسوخ ہے اور ان کے علاوہ فرماتے ہیں کہ وہ آیتیں جن میں نبوت کے ابتدائی دور میں کفار کی زیادتیوں کے مقابلہ میں صرف ضبط سے کام لینے کا حکم دیا تھا پھر آیتِ سیف نازل ہونے کے بعد ان کا حکم منسوخ ہوچکا ہے -

علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے لکھا قرآن مجید کی ۰۲ آیتوں کا حکم منسوخ ہے ﴿تبیان القرآن ، ج:۱، ص: ۸۷﴾ بعض علمائ کرام نے ۲ ۲ آیات لکھی ہیں -

احکام شرعیہ کومنسوخ کرنے کی حکمتیں :

اس کے اندر بیشمار حکمتیں ہیں بعض مقامات پر تلاوت کو باقی رکھا گیا اور ان کے حکم کو منسوخ کردیاگیا تاکہ مسلمان ان آیات کریمہ کو پڑھ کر اللہ رب العزت کی اس نعمت پر شکرادا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مشقت سے نجات دی اور ان کے لیے آسان احکام مشروع کردئیے اور بعض مقامات ایسے ہیں جن پر مشکل احکام کو منسوخ کرکے آسان احکام مشروع کیے گئے اور بعض منسوخ الحکم آیات ایسی ہیں جن میں آسان احکام کو منسوخ کرکے مشکل احکام مشروع کیے ان میں حکمت الٰہی یہ ہے کہ جب نبی اکرم ا نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو وہ زمانہ فرق تھا اور برسوں سے جو عقائد عادات اور معمولات ان میں رچ بس گئے تھے اوران کی فطرت ثانیہ بن چکے یک لخت ان تمام چیزوں سے ان کو چھڑانا بہت مشکل تھا کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا تو خدشہ تھا کہ وہ اسلام ہی کو چھوڑ جاتے - اس کی مثال یہ ہے کہ قریش نے وسائل کی کمی کی وجہ سے کعبہ کی تعمیر نامکمل کی تھی آقا پاک ابنیاد ابراہیم علیہ اسلام پر کعبہ کے مطابق کعبہ کو تعمیر کرنا چاہتے تھے اورآپ اس میں دخول اورخروج کے دو دروازے بنانا چاہتے تھے لیکن آپ نے اس لیے ایسا نہیں کیا کہ اہل عرب کو کعبہ سے والہانہ عقیدت تھی اگر نئی تعمیر کے لیے کعبہ کومنہدم کیا جاتا تو جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے وہ اسلام کو چھوڑ جاتے تو اس وجہ سے شروع میں آسان احکام مشروع کیے گئے اور جب لوگ اسلام میں راسخ اور پختہ ہوگئے تو پھر نسبتاً سخت احکام مشروع کیے گئے اسی طرح شراب کی حرمت وغیرہ-

 بعض ایسے احکام منسوخ کیے گئے جو مشکل اور سہل ہونے میں ناسخ کے مساوی ہیں ان میں نسخ کی حکمت یہ تھی کہ مسلمانوں کو ابتلائ اور امتحان میں ڈالا جائے تاکہ مومنوں اورمنافقوں کے درمیان امتیاز ہوجائے خبیث اور طیب الگ الگ ہوجائیں جیسے بیت المقدس کے قبلہ ہونے کو منسوخ کرکے بیت اللہ کو قبلہ بنایا گیا تو مومن اس امتحان میں کامیاب ہوئے اور منافقوں کا خبث ظاہر ہو گیا-

تویہ بحث تھی اسلام کے بعض احکام کے نسخ کے سلسلہ میں - رہا یہ امر کہ اسلام کے آنے کے بعد پہلی تمام شریعتیں منسوخ ہوگئیں اس کی کیاحکمت تھی؟ اس کے اندر یہ حکمت تھی نوعِ انسان اپنی عقل اور شعور کے اعتبار سے اس طرح بہ تدریج ترقی کرتی رہی ہے جس طرح بچہ اپنی نشوونماکے اعتبار سے بہ تدریج ترقی کرتا ہے اس لیے ہر نبی کے عہد میں نوعِ انسان اپنی عقل وشعور کے اعتبار سے جس درجہ میں تھی اسی درجہ کے اعتبارسے اس پہ احکام شرعیہ شروع کیے گئے اورجب نوعِ انسان اپنے کمالِ ارتقا کو پہنچ گئی تو سابقہ تمام احکام منسوخ کرکے اس پر قیامت تک کے لیے ایک کامل شریعت نازل کردی گئی - بہرحال! یہ تو ایک ضمناً بات بیان کردی ، اگر منسوخ کی اقسام کی بات کریں تو منسوخ آیات کی چار اقسام ہیں :

﴿۱﴾ایسی آیات جس کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوگئے ہوں: -

جیسے کہ ام المؤمنین اماںعائشہ صدّیقہ(رض) سے مروی ہے:-

﴿ عشر رضعیات معلومات یحرمن﴾

اس مرتبہ دودھ پینا متحقق ہو تو اس سے حرمت ثابت ہوگی یہ الفاظ پہلے اُترے تھے ان کی تلاوت ہوتی تھی اوران میں مذکور حکم نافذ تھا پھر اسے منسوخ کردیاگیا -اسی طرح سورۃ الطلاق اورسورۃ البقرہ کی طرح بڑی اور لمبی تھی اور سورۃ الاحزاب کی کم وبیش تین یا دوسو آیات تھیں جب کہ اس سورت میں اب ۳۲ آیات کریمہ ہیں -

﴿۲﴾ایسی آیات جن کی تلاوت منسوخ حکم باقی:-

﴿الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھا نکالا من اللّٰہ و اللّٰہ عزیز حکیم﴾

’’بوڑھا یا بوڑھی جب زنا کریں تو انہیں رجم کردو اللہ کی طرف سے یہ سامان عبرت سے اور اللہ غالب حکمت والا ہے ‘‘-

﴿۳﴾ایسی آیات جن کا حکم منسوخ اور تلاوت باقی ہیں:-

 اس مثال سورت الکافرون کی وہ آیات جن میں سورت مبارکہ کے مضمون کی طرح مضامین میں حکم دینکم ولی دین ہے یعنی کفار کے من پسند دین پر ڈٹے رہنے پر کوئی جواب دہی نہیں اور نہ ہی انہیں دین اسلام کی طرف کے لیے تبلیغ کرنے کا کہاگیا ہے لیکن یہ بات ابتدائ میں تھی بعد میں کفار کو کفر چھوڑنے اور دین اسلام قبول کرنے کی باقاعدہ تبلیغ اور انکار پر جہاد کاحکم دیا گیا-

﴿۴﴾ حکم میں موجود وصف کامنسوخ ہونا:-

’’اس کی مثال یہ ہے کہ مطلق کو مقید کردیا جائے جیسا کہ قرآن مجید کی نص دونوںپائوںکادھونامطلق بیان کررہی ہے اور حدیثِ مشہور جو موزوں پر مسح کے متعلق ہے اس کا تقاضاہے کہ جب موزوں کو پہنا ہوا ہو تو اُن کو دھونے کی بجائے اُن پر مسح کیاجائے اور یہ مطلق حکم کو مقید کرناہے اور نص قرآنی پر زیادتی کرنا ہے ہم احناف کے نزدیک نسخ کی ایک یہ بھی قسم ہے‘‘ - ﴿تفسیر اتِ احمدیہ ،ص:۰۴﴾

۴﴾- محکم و متشابہات کا بیان:

محکم کا لغوی اوراصطلاحی معنی:

 علامہ سیّد محمد مرتضیٰ زبیدی حنفی متوفی:۵۰۲۱ھ نے لکھا ہے کہ

’’ ﴿محکم حکم سے نکلا ہے اور﴾ حکم کے معنی ہیں منع کرنا،حکمت کو حکمت اس لیے کہتے ہیں کہ عقل اس کے خلاف کرنے کو منع کرتی ہے -اس لیے محکم کامعنی ہے جس میں اشتباہ اور خفائ ممنوع ہو اور نحکم وہ آیات ہیں جن میں تاویل اور نسخ ممنوع ہو‘‘- ﴿تاج العروس،ج:۸ -ص: ۳۵۳﴾

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی۲۰۵ ھ لکھتے ہیں :-

’’محکم وہ آیات ہے جس میں لفظ کی جہت سے کوئی شبہ پیدا ہو نہ معنی کی جہت سے ‘‘- ﴿المفرادات ص:۸۲۱﴾

 علامہ میر سیّد شریف علی بن محمد جرجانی ﴿متوفی۶۱۸ ھ﴾ لکھتے ہیں:-

’’جس لفظ کی مراد تبدیل ،تفسیر ،تخصیص اور تاویل سے محفوظ ہو وہ محکم ہے‘‘-﴿کتاب التعریفات: ص: ۹۸﴾

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی:۰۱۳ ھ لکھتے ہیں :-

’’حضرت اِبن عباس(رض) نے فرمایا محکمات وہ آیات ہیںجو ناسخ ہیں اور ان میں حلال،حرام، حدود اور فرائض کابیان ہے اور یہ کہ کس پرایمان لایا جائے اور کس پر عمل کیاجائے؟‘‘ ﴿تفسیر طبری ، ج:۳، ص:۲۰۲﴾

 محمد بن جعفر بن زبیر نے کہا:-

’’ محکم وہ آیات ہیں جن کا صرف ایک معنی اور ایک محمل ہے اور اس میں کسی اور تاویل کی گنجائش نہیں‘‘ -﴿جامع البیان، ج:۳، ص: ۶۱۱﴾

 اِبن زید نے کہا :-

’’محکم وہ آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ امتوں اوران کے رسولوں کے واقعات اور قصص بیان فرمائے اور سیّدنا محمد الرسول اللہ ا اور آپ کی اُمت کے لیے ان کی تفصیل کی ہو‘‘-﴿ایضاً﴾

حضرت جابر بن عبداللہ(رض) نے بیان فرمایا: -

’’محکم وہ آیات ہیں جن کے معنی اوران کی تاویل اور تفسیر علمائ کو معلوم ہو‘‘-﴿جامع البیان، ج:۳، ص: ۶۱۱﴾

 علّامہ نظام الدین الشاشی فرماتے ہیں :-

﴿واما المحکم فھو ما ازداد قوۃ علی المفسر بحیث لایجوز خلافہ اصلاً﴾

’’محکم وہ لفظ ہے جو قوت میں مفسر سے بڑھا ہوا ہو اِسی کے خلاف بالکل جائز نہیں ہے‘‘ -﴿اصول الشاشی، ص: ۷۴﴾

﴿عن محمد بن جعفر بن الزبیر قال المحکمات حجۃ الرّبّ و عصمۃ العباد و دفع الخصومۃ و الباطل لیس لھا تعریف و لا تحریف عما وضعت علیہ ﴾

’’محمد بن جعفر بن زبیر سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ:- محکم آیات رب تعالیٰ کی طرف سے حجت اور بندوں کے لیے عزت ہیں- یہ باطل اور دشمنوں سے دفاع کے کام آتی ہیں اور جس کے لیے انہیں وضع کیا گیا ہے اس میں تعریف اور تحریف کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی‘‘- ﴿تفسیر درِ منثور ،ج:۲، ص:۷﴾

﴿عن مجاہد قال المحکمات مافیہ الحلال والحرام وماسویٰ ذللاے منہ ﴾

’’مجاہد فرماتے ہیں کہ محکمات وہ ہیں جس میں حلال وحرام اور اس کے علاوہ ان کے احکام ہوں‘‘ -﴿ایضاً، ص:۸﴾

﴿نعن ابن مالک قال المحکمات الناسخات التی بعمل بھن﴾

’’ابنِ مالک فرماتے ہیں کہ محکمات وہ آیات ہیں جن پر عمل کیا جاتا ہے‘‘- ﴿تفسیر درِ منثور ،ج:۲، ص:۷﴾

متشابہ کا لغوی اور اصطلاحی معنی:

متشابہ وہ لفظ ہے جس کا مقصود طلب کرنے سے اور غور و فکر کرنے سے معلم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی متکلم یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف دنیا میں اس کی مزید وضاحت آنے کی کوئی امید ہو سکتی ہے اس کے برعکس محکم کا مقصود بالکل واضح ہوتا ہے-

﴿و اما المتشابہ فھو اسم لما انقطع رجائ معرفۃ المراد منہ و لا یرجی بدؤہ اصلاً فی غایۃ الخفائ بمنزلۃ المحکم فی غایۃ الظہور﴾

’’متشابہ ایسے کلام کانام ہے جس کی مراد کے سمجھنے کی اُمید منقطع ہوچکی ہو اور اس کے ظاہر ہونے کی بالکل اُمید نہ ہو پس وہ آخری درجے کی خفائ میں ہو جیسے محکم آخری درجے کے ظہور میں ہونا ہے‘‘-﴿شرح نور الانوار، ج:۲، ص:۷۴﴾

﴿ عن محمد بن جعفر بن الزبیر قال المتشابھات ھو فی الصدق لھن تعریف و تحریف و تاویل ابتلی اللّٰہ فیھن العباد کما ابتلاھم فی الحلال و الحرام لایعرفن الی الباطل و لایحرفن عن الحق﴾

’’حضرت محمد بن جعفر بن زبیرسے روایت ہے ؛ فرمایا کہ متشابہ کی تعریف کرنی ہوتی ہے، تحریف بھی اور تاویل بھی کرنی پڑتی ہے- ان متشابہ آیات سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسے ہی آزماتا ہے جیسے وہ حلال و حرام ﴿کی محکم آیات﴾ میں آزماتا ہے کہ وہ نہ باطل سے ملتی ہیں اور نہ حق سے دور ہوتی ہیں‘‘-﴿تفسیر در منثور ج: ۲، ص:۷﴾

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی: ۰۱۳ھ لکھتے ہیں :-

حضرت اِبن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما فرماتے ہیں کہ

﴿ المتشابھات منسوفۃ ومقدمۃ و مؤخرۃ وا مثالہ وافسانہ ومایومن بہ ولایعمل بہ﴾

’’متشابہ وہ آیات ہیں جو منسوخ ہیں اور مقدم اور مؤخر ہیں ان پر ایمان لایاجائے اوراُن پر عمل نہ کیا جائے ‘‘-﴿ایضاً، ص:۶﴾

 حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنھما فرماتے ہیں:-

’’متشا بہ وہ آیات ہیں جن کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے اور مخلوق میں سے کسی کو بھی ان کا علم نہیں ہے آیات متشابہات میں حروف مقطعہ ہیں جو سورتوں کے اوائل میں مذکور ہیں‘‘ -﴿تبیان القرآن ، ج:۲، ص:۱۶﴾

علامہ سید محمد مرتضیٰ حسینی زبیدی متوفی ۵۰۲۱ھ لکھتے ہیں -

 ’’جس کا لفظی معنیٰ اِس لفظ سے معلوم ہوسکے وہ متشابہ ہے اِس کی دو قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے کہ ِاس کو محکم کی طرف لوٹانے سے اس کا معنیٰ معلوم ہوجائے -دوسری قسم وہ ہے جس کی حقیقت کی معرفت کا کوئی ذریعہ معلوم نہ ہو اور جو شخص اس کے معنیٰ کے درپے ہو وہ بد عتی اور فتنہ پرور ہے ‘‘-﴿تاج العروس، ج: ۸، ص:۳۵۳﴾

علامہ عبدلعزیز بن احمد بخاری متوفی ۰۳۷ ھ لکھتے ہیں :-

’’جب کسی لفظ سے اُس کی مراد متشبہ ہو اوراُس کی معرفت کا کوئی ذریعہ نہ ہو حتیٰ کہ اس کی مراد کی طلب ساقط ہو جائے اور اُس کی مراد کے حق ہونے کا اعتقاد واجب ہوتو اِس کو متشابہ کہتے ہیں ‘‘-﴿کشف الاسرار، ج: ۱، ص: ۶۳۱﴾

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ۲۰ ۵ھ وہ لکھتے ہیں:-

متشابہ کی تین قسمیں ہیں :-

’’اول: جس کی معرفت کا کوئی ذریعہ نہ ہو جیسے قیمات واقع ہونے کا وقت - ثانی : جس کی معرفت کا انسان کے لیے کوئی ذریعہ نہ ہو جیسے مشکل اور غیر مانوس الفاظ - ثالث: جو اِن دونوں کے درمیان ہو علمائ راسخین کے لیے اُس کی معرفت حاصل کرنا ممکن ہو اور عام لوگوں کے لیے ممکن نہ ہو ‘‘- ﴿المفرادات، ص: ۵۵۲﴾

محکم کا حکم :-

﴿حکم المحکم وجوب العمل بہ من غیر احتمال التاویل و التخصیص و لا احتمال النسخ فھو اتم القطعیات فی افادۃ الیقین﴾

’’محکم کا حکم یہ ہے کہ اُس پر عمل کرنا واجب ہوتاہے اور اُس میں کسی طرح کا کوئی احتمال نہیں ہوتا نہ تاویل و تخصیص کا احتمال ہوتا ہے اور نہ منسوخ ہونے کا احتمال ہوتاہے پس ظاہر ،نص ،مفسر اگرچہ یقین کا فائدہ دینے میں قطعی ہیں لیکن محکم یقین کا فائدہ دینے میں تمام ق?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر