اخلاقی اقداروقرآنی تعلیمات اور عصرحاضرکامسلمان

اخلاقی اقداروقرآنی تعلیمات اور عصرحاضرکامسلمان

اخلاقی اقداروقرآنی تعلیمات اور عصرحاضرکامسلمان

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی جولائی 2019

جب عفو و درگزر کو بزدلی،قتل کو غیرت، شرافت کو کمزوری،فحش و بیہودہ گفتگو کو فصاحت و بلاغت،سرِ بازار کسی کی پگڑی اُچھالنے اور عزت کے ساتھ کھیلنے کو بہادری، لوٹ مار و ذخیرہ اندوزی کو سمجھداری کا نام دیا جائے،مخلوقِ خدا کے دکھ درد بانٹنے کی بجائے ان کے دکھوں کا سبب بننے اور ان پہ خوش ہونا معمول بن جائے،خوشامد ترقی کا زینہ و ذریعہ اور حق گوئی عہدے سے معزولی کا باعث بن جائے، بے حیائی و بے پردگی کو ترقی کی علامت اور ’’مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا‘‘[1] کو نظر انداز کر کے ملاوٹ و دھوکا دہی کو عقل مندی اور کاروباری ترقی کی ضمانت سمجھ لیا جائے،سود خوری و رشوت ستانی رگ و پے میں سرایت کر جائے،قریب کے رشتے کچے دھاگے کی طرح ٹوٹنے لگیں، تعلقات کی بنیاد محض دولت پر رکھ لی جائے، مفاد پرستی اس قدر عام ہو جائے کہ اسلام تک بھی خلوص و للہیت کی بجائے ضرورت کے پیش ِ نظر کیاجائے -اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں پہ تنقید کرنا فرض منصبی سمجھا جائے، مثبت تنقید سنتے ہوئے ذاتی اَنا آڑے آجائے؛ المختصر! اعلیٰ اخلاقی اقدارپہ عمل پیرا ہونے کو قدامت پرستی کا نام دے دیا جائے اور جہاں اس طرح دیگر اخلاقی اقدار خس و خاشاک کی طرح بہتی نظر آئیں تو خود غور و فکر فرمائیں کہ وہاں انسان کو انسانیت سے گرنے کے لیے کون سی چیز مانع ہو سکتی ہے؟

مزید یہ کہ جہاں اسلامی تعلیمات کو اپنے قلوب و اذہان میں جگہ دینے کی بجائے فرمانِ رسول  اللہ(ﷺ) ’’مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ ‘‘ [2]کو نظر انداز کرکے حصولِ علم ِ دین کو باعث ِ عار سمجھ لیا جائے اور قرآنی تعلیمات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے اور ’’پیکرِ کردار سے قرآن مجسم ہونے‘‘کی بجائے اسے صرف حصول ثواب اور برکت کا ذریعہ سمجھ لیا جائے- حالانکہ قرآن پاک اللہ پاک کی وہ لاریب و مقدس کتاب ہے جس میں نہ صرف تمام بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کا سامان موجود ہے بلکہ اس میں کائنات کے اسرار و رموز بھی پائے جاتے ہیں -قرآن مجیدمیں کم وبیش چھ ہزار آیات بینات ہیں، ان میں تقریباً  500 کےقریب آیات مبارکہ فقہی احکام کے متعلق ہیں جو قرآن پاک کا تقریباً 7.86 فیصد بنتا ہے اور باقی قرآن مجید (92.14فیصد) مختلف علوم پہ مشتمل ہے جس میں چند علوم درج ذیل ہیں:

فلکیات، موسمیات، آفرینش، ریاضی، فزکس، کیمسٹری، نبادات، جمادات، برقیات، نفسیات، ارضی سائنس، بحری علوم، جغرافیہ، شہریت، سیاست، اقتصادیات، عمرانیات، علم الجبال، علم طبقات الارض،علم تصوف اور دیگر اس طرح کے کئی علوم قرآن پاک میں موجود ہیں- جیسا کہ امام جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی کتاب ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ کی ’’النوع الخامس و الستون فی العلوم المستنبطۃ من القرآن‘‘میں علامہ ابن ابی الفضل المرسیؒ کاایک قول نقل کرتے ہوئے فرمایا :

’’قرآن میں علوم ِ اولین و آخرین جمع کر دئیے گئے ہیں یہاں تک کہ کو ئی علم ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں قرآن نے اشارہ نہ فرمایا ہو‘‘-

آپؒ نے علم قرأت، تفسیر، فقہ، تاریخ، قصص، مواعظ و حکم، الامثال، تعبیر، فرائض اور علم المواقیت وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

’’ان علوم کے علاوہ اوربھی بہت سے علوم قرآن میں ہیں، مثلاً طب، علم جدل، علم ہیت، علم ہندسہ، جبر و مقابلہ اور علم نجوم وغیرہ‘‘-

امام غزالیؒ اپنی کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ کے باب ’’الباب الرابع في فهم القرآن و تفسيره بالرأی من غير نقل‘‘ میں رقمطرازہیں  کہ :

’’ایک بزرگ کا قول ہے کہ قرآن 70200علوم پرحاوی ہے ‘‘-

ورطہِ حیرت میں مبتلا کردینے والی بات ہے کہ وہ قرآن جس کواللہ پاک نے تورات، زبور، انجیل اور دیگر کتب سماوی کا جامع بنا کر قلب ِ مصطفٰے (ﷺ) پہ نازل فرمایا ہو اور جس کی آفاقی و ابدی تعلیمات اقوام کی ترقی کی ضامن ہوں اس کے ہوتے ہوئے مسلمان اپنی کامیاب زندگی گزارنے کے لیے اغیار کی طر ف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھے اور اپنا آئیڈیل صاحبِ قرآن سیدنا حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ)، صدق دل سےقرآن پہ عمل پیرا سیدنا علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ)اور دیگر بزرگان ِ دین کی بجائے غیر مسلم کو مانے-

عام فہم سی بات ہے جس کو سمجھنے سے شاید کچھ قلوب و اذہان قاصر ہیں کہ کوئی بھی کمپنی جب اپنی پراڈکٹ بازار میں متعارف کرواتی ہے تو ساتھ ہی اس کے تادیر نفع بخش اور کار آمد رہنے کے لیے ہدایت نامہ جاری کرتی ہے -اب اگر انسان اس ہدایت نامہ پہ عمل پیرا ہونے کی بجائے اپنی خود تراشیدہ ترکیبات شروع کردے تو اس کا رزلٹ کیا نکلے گا؟ مثلاً کمپنی موبائل و لیپ ٹاپ کو چلانے کے لیے چارجنگ کا اصول وضع کرتی ہے اور بعض کمپنیاں موٹرز وغیرہ  کو پانی میں رکھنے کی تجویز دیتی ہیں اگر انسان ان ہدایات کو نظر انداز کرے تو متعلقہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے-

اب اس بات پہ غورکریں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی ہوئی مخلوق ہے تو اسی ذات پاک نے اس کے رہن سہن اورطرزِ زندگی کے بہتر قوانین و اصول وضع فرمائے اور سلسلہ نبوت و رسالت شروع فرمایا- حضور خاتم النبیین (ﷺ)کی نبوت و رسالت کا باب بند ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ افراد کا انتخاب فرمایا جو الوہی احکامات کی روشنی میں نباض ِ عصر بن کر تجدید دین  کا فریضہ سر انجام دیتے رہے - اب انسان کی حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ منزل من اللہ احکامات کو دل و جان سے تسلیم کر کے ان پہ عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے کیونکہ اسی میں اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے، ورنہ خسارہ ہی خسارہ ہے-کیونکہ انسان جسم و روح سے مرکب ہے اور انسان کا سفر دنیا، عالم ِ برزخ اور روز محشر پہ مشتمل ہے- عام انسان کی نگاہ صرف ظاہر اور دنیاوی مفاد تک محدود رہتی ہے جبکہ خالقِ کائنات نے انسان کی فلاح کے لیے ایسے اصول و قوانین اور احکام صادر فرمائے ہیں جن پہ عمل پیرا ہونے سے ہی انسان کی دنیا و آخرت میں کامیابی ہے-

اب ہم ذیل میں چند قرآنی احکام بیان کرنے کی سعی سعید کرتے ہیں اور پھر اپنی روزمرہ زندگی کے معمولات کو اس پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس حدتک ہم نے اپنی زندگیوں میں الوہی احکام کو اپنے قلوب و اذہان میں جگہ دے کر اپنی زندگیوں کو ان کے سانچے میں ڈھالاہے :

1-’’وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃًط فَلَوْلَا نَفَرَمِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ‘‘[3]

’’اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقُّہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں-

2-’’وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِلا وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْط اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا‘‘[4]

’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)،  بے شک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو‘‘-

3-’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَ الِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَااللہُ اَوْلٰی بِہِمَا فَـلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْاج وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْراً‘‘[5]

’’اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لیے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مالدار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے-سو تم خواہش نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے) اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بے شک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے‘‘-

4-’’وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِـنْـھَا وَمَا بَطَنَج وَلَا تَقْتُـلُوا النَّـفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِـہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ‘‘[6]

’’اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ (خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام کیا ہے بجز حقِ (شرعی) کے، یہی وہ (اُمور) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو‘‘-

5-’’مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا‘‘[7]

’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)‘‘-

6-’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘[8]

’’اے ایمان والو! بے شک شراب اور جوأ اور (عبادت کے لیے) نصب کیے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لیے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں-سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ‘‘-

7-’’وَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ‘‘[9]

’’اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں‘‘-

8-’’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنہُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِط بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓـئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ‘‘[10]

’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخُر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘-

9-’’وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُورِ ‘‘[11]

’’اور یقیناً جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو بے شک یہ بلند ہمت کاموں میں سے ہے‘‘-

10-’’اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ الْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘[12]

’’یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘-

11-’’اِنَّ اللہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo‘‘[13]

’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو‘‘-

وَ اَوْفُوْا بِعَھْدِ اللہِ اِذَا عٰـھَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًاط اِنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَo‘‘[14]

’’اور تم اللہ کا عہد پورا کر دیا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو پختہ کر لینے کے بعد انہیں مت توڑا کرو حالانکہ تم اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بنا چکے ہو بے شک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو‘‘-

ہمارے اسلاف نے معاشرتی اقدار(چاہے ان کا تعلق ذات سے ہو یا معاشرے سے )کو کتنی اہمیت دی ہے اس کا اندازہ آپ سلطان العارفین حضرت سخی سطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) کے اس اقتباس سے لگاسکتے ہیں  کہ:

’’مجلس ِمحمدی (ﷺ) میں داخل ہو کر حضوری پانا آسان ہے لیکن ولایت و ہدایت ِمحمدی، خوئے محمدی، خُلقِ محمدی، ملک ِمحمدی، ترک و توکل ِمحمدی، تسلیم و رضائے محمدی (ﷺ) اور مجموعہ فقرِ محمدی (ﷺ) کو اپنانا بہت دشوار کام ہے بادشاہ بننا اور مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئے ملک ِسلیمانی کو اپنے قبضے میں لینا آسان ہے مگر عدل و احسان قائم کرنا اور مسلمانوں کو اُن کے حقوق پہنچانا بہت دشوار کام ہے ‘‘-[15]

ددسرے مقام پہ آپؒ فرماتے ہیں :

’’حضورنبی رحمت (ﷺ)کی مجلس کی حضوری میں رحمت ِ اِلٰہی کے دیدار و ملاقات سے مشرف ہونا اور حضورنبی رحمت (ﷺ)پر جان نثار کرنا آسان ہے لیکن ہدایت و ولائت ِمحمدی (ﷺ)کا حاصل کرنا، خُلقِ محمدی (ﷺ) کو اپنانا، حضور نبی رحمت (ﷺ)کی صفت ِکریمی و رحیمی سے متصف ہونا، خو شبوئے محمدی (ﷺ) کو اختیار کرنا، اپنے دل کو قلب ِسلیم بنانا، بارگاہ ِ اِلٰہی میں تسلیم و رضا اختیار کرنا، شوق و شریعت ِمحمدی (ﷺ) کو اختیار کرنا، حضور نبی رحمت (ﷺ) کی طرح ترک و توکل اختیار کرنا اور استقامت سے فقرِ محمدی (ﷺ) کو اختیار کرنا بہت مشکل و دشوار کام ہے ‘‘-[16]

مزید ارشادفرماتے ہیں :

’’جو شخص قہر اور غصہ چھوڑتا ہے وہ معرفت ِالٰہی اور نورِ بصیرت کو پالیتا ہے ‘‘- [17]

اس طرح آپ (قدس اللہ سرّہٗ) دنیا میں کامیاب زندگی گزازنے کےطریق کو اپنے پنجابی کلام میں یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ:

سَو ہزار تِنہاں تُوں صَدقے جہڑے مُنہ نہ بولن پھِکّا ھو
لَکھ ہَزار تِنہاں تُوں صَدقے جہڑے گَل کریندے ہِکّا ھو
لَکھ کروڑ تِنہاں تُوں صَدقے جہڑے نَفْس رکھیندے جھِکّا ھو
نِیل پَدم تِنہاں تُوں صَدقے باھوؒ جِہڑے ہوون سون سڈاوِن سِکّا ھو

لمحہ ٔفکر یہ ہے کہ جب مسلمانوں کا ہرشعبہ رو بہ زوال ہو اور ہر میدان میں مسلمانوں کو شکست دینے کے لیے یہود و ہنود اکٹھے ہوگئے ہوں اور وہ مسلمانوں کو تفرقہ بازی کا شکارکرکے اپنے شیطانی عزائم کا شکار کر رہے ہوں تو کیا مسلمانوں کو خواب ِ غفلت سے جگانے کے لیے یہ چیزیں کافی نہیں ہوں گی؟ اور مسلمان کب ’’مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ كَمَثَلِ جَسَدٍ وَاحِدٍ؛ اشْتَكَى بَعْضُهُ تَدَاعَى كُلُّهُ بِالسَّهَرِ وَالْوَجَعِ‘‘[18]پہ عمل پیرا ہوکر اپنے زیاں کی تلافی اور عہدِ رفتہ کی بحالی کے لیے سعی کریں گے؟ ہم کب ’’ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر ِ فردا ‘‘کے بجائے ’’عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی ‘‘کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں گے-دوسری طرف جب مسلمانوں میں سیکولر ذہنیت اور مادیت پرستی اس قدر سرایت کر گئی  ہوکہ غیر اخلاقی اقدار پہ عمل پیرا ہونے کو فیشن کا درجہ دے کر لوگ جوق در جوق اس کارواں کا حصہ بن رہے ہوں (حالانکہ اس کے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں یہ بات ضرور ہوتی ہے، اس ڈگر پہ چلنے سے میرے ایمان کا گھاٹا اور آخرت کا نقصان ہے)تو اپنے اندر دین کا جذبہ رکھنے والوں کو کون سی چیز رکاوٹ بن رہی ہوتی ہے کہ وہ حق سچ کا کھل کر ساتھ نہ دیں،یا اپنے اندر اتنی اخلاقی جرأت پیدا نہ کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک ’’یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ‘‘[19]پہ عمل پیرا ہونے کی بجائے مصلحت کا شکار ہو جائیں -حالانکہ ہمارے نظریاتی مفکر نے تو ہمیں درس دیاہے :

آئیں جوان مردی حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

سلطان الفقر(ششم) حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب  (قدس اللہ سرّہٗ)نے بنی نوع انسان کے قلوب و اذہان کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے اور اسلاف کے اخلاقی اقدار کے احیاء کیلیے’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ کی بنیاد رکھی-آج اس تحریک کی قیادت و سر پرستی جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی (دامت برکاتہم العالیہ)کے دست اقدس میں ہے، آپ ( مد ظلہ الاقدس )نہ صرف اتحادِ امت اور امت مسلمہ کی کھوئی ہوئی ساکھ کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں بلکہ دیگر اخلاقی اقدار کو بھی معاشرے میں پروان چڑھنے کی تعلیم و تلقین فرما رہے ہیں-جس کے لیے آپ (مدظلہ الاقدس) نے کئی اداروں  مثلاً غوثیہ عزیر یہ انوارِ حق باھؒوکے حسین نام سے موسوم مدارس ،ایس-بی سکول،مسلم انسٹیٹیوٹ، ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل، العارفین پیلیکیشنز اور العارفین ڈیجیٹل پروڈکشن کا قیام عمل میں لایا ہے- اسی کے ساتھ حقیقی دردِ دل رکھنے اور انسانیت کے غم سینے میں رکھنے والوں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اصلاحی جماعت کے صدور اور کارکنان کے شانہ بشانہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے اپنی خداداد صلاحیتوں کو عملی جامہ پہنائیں- اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں- آمین!

٭٭٭


[1]’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘-(سنن الترمذی، ابواب البیوع)

[2]’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی  کا اردہ فرماتا ہے اسے دین کی فہم عطا فرماتا ہے‘‘-(کتاب العالمین)

[3](التوبہ:122)

[4](النساء:36)

[5](النساء:135)

[6](الانعام :151)

[7](المائدہ:32)

[8](المائدہ:90)

[9](المؤمنون:3)

[10](الحجرات:11)

[11](الشورٰی:43)

[12](آل عمران:134)

[13](النحل:90)

[14](النحل:91)

[15](کلیدالتوحید(خورد)

[16](کلیدالتوحید(کلاں)

[17](ایضاً)

[18]’’ سب مؤمن ایک جسم کی مانند ہیں اگراس میں ایک عضو کو بیماری لگتی ہے تو سارا جسم اس کے لیے بیداری اور بخار کے ساتھ ایک دوسرے کو بلا لیتا ہے-‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی)

[19]’’ اللہ پاک  کی راہ میں  جہادکریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے‘‘(المائدۃ:54)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر