دنیا کی چند مشہور جامعات میں تصوف کی تعلیم بطورِنصاب : مختصر جائزہ

دنیا کی چند مشہور جامعات میں تصوف کی تعلیم بطورِنصاب : مختصر جائزہ

دنیا کی چند مشہور جامعات میں تصوف کی تعلیم بطورِنصاب : مختصر جائزہ

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز جولائی 2019

اسلام اپنے معتقدین کو جہاں اعلیٰ و منفرد نوعیت کے اسلوب زندگی فراہم کرتا ہےوہیں ایک ایسے مثالی معاشرےکی تشکیل پر بھی زور دیتا ہے جس کی غایتِ اولیٰ ایمانی، اخلاقی و روحانی اقدار کا غلبہ، احترامِ آدمیت، امن و آشتی اور وحدت نوع ِانسانی کا عالمگیر تصور ہے تاکہ معاشرے میں بسنے والے افراد اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں باہم متحد،مخلص، وفادار اور سماج کے کار آمد رکن کی حیثیت سےمتحرک، محبِ انسانیت، روحانی الذہن اور اخلاق حسنہ کا عملی نمونہ ہوں- اسی غایت و ضرورت کی تکمیل اور فرد کی روحانی نشوونما کے لئے اِسلامی تہذیب کا مستقل شعبہ اور علوم ِ دینیہ کا اہم موضوع تصوف (روحانیت) کے نام سے معروف ہے جسے انگریزی اصطلاح میں ’’Mysticism“ یا”Sufism” کہا جاتا ہے-

اسلامی تصوف اپنی حقیقت و نصب العین میں فعاّل، تکریم اِنسانی کاعلمبردار،عالمگیرامن کاداعی، مکارمِ اخلاق، تزکیہ نفس، تصفیۂ قلب، خود گری (Selfactualization)، اخلاص فی العمل، حسن ِمعاملہ اور معرفتِ ربّانی سے عبارت ہے جس کے مآخذ و مصادر قرآنِ کریم و سنت ِنبوی (ﷺ) ہیں- [1] تصوف اور اسلام ایک دوسرے کا تکملہ ہیں کیونکہ تعلیماتِ تصوف کو سمجھے اور اپنائے بغیر کما حقہ فہمِ دین ممکن نہیں کیونکہ تصوف نہ صرف اسلامی تعلیمات، روایات، ثقافت اور تہذیب و تمدن کا ناگزیر حصہ ہے بلکہ اسے روحِ دین (اسلام کا باطنی پہلو) کی حیثیت بھی حاصل ہے-

عظیم سکالر حضرت شاہ ولی اللہؒ اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ:

’’جس طرح دین کے تمام اعمال کی ایک ظاہری شکل ہے اور ایک اس کی باطنی حقیقت- ظاہری شکل کے بغیر باطنی حقیقت کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور باطنی حقیقت کے بغیر ظاہری شکل ایک بے جان جسم کی طرح ہے-بس یونہی دین کی ظاہری شکل کا تعلق شریعت سے ہے اور باطنی حقیقت کا تعلق طریقت یا تصوف سے‘‘-[2]

باالفاظ دیگر یہی حقیقت شیخ ابو نصر سراج الطوسیؒ نے ’’کتاب اللمع فی اتصوف‘‘ میں کچھ اس طرح بیان کی:

’’دنیا میں ہر شے کا ایک ظاہری پہلو ہے اور ایک باطنی، قرآن کا ایک ظاہر ہے ایک باطن- حدیث کا ایک ظاہر ہے ایک باطن، کتاب اللہ و سنتِ رسول (ﷺ) کے اسی باطنی پہلو کا نام طریقت ہے-طریقت کتاب اللہ و سنتِ رسول (ﷺ) سے الگ کوئی شئے نہیں، بلکہ انہی کے مغز و باطن کا نام ہے‘‘-

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو تصوف کے آثار اوائل اسلام سے ہی ملتے ہیں[3] جبکہ دیگراصطلاحات کی طرح علمی سطح پر حسب ِضرورت لفظ ’’تصوف‘‘ اور ’’صوفی‘‘ کی اصطلاحات بعد میں رائج ہوئیں اور اس کا باقاعدہ آغاز دورِ اسلام کےبعدہی ہوا- معروف انگریز سکالر رینولڈ اے نکلسن اپنی تصنیف ’’A Literary History of the Arabs‘‘ میں آغاز ِتصوف کے حوالے سےرقم طراز ہیں کہ:

’’تصوف کی نشوونما کے دو ادوار ہیں-پہلا دور اسلام کی ابتدا سے نویں صدی عیسوی کے آغاز تک اور دوسرا نویں صدی سے بارہویں صدی تک اور اسلام کے آغاز کے بعد ہی تصوف کی با قاعدگی سے شروعات ہوئی‘‘-[4]

موضوع کی مطابقت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعریفِ تصوف اور صوفی سے متعلق آئمہ تصوف کے صرف چنداقوال نقل کر دیتا ہوں-

دونوں لفظ ’’صوفی اور تصوف‘‘ کے مادہ اشتقاق اورلغوی و اصطلاحی معنوں سے متعلق آئمہ، صوفیاء اور اصحابِ لغت نے اپنی مختلف آراء، اقوال اور نقطہ نظر پیش کئے ہیں- بعض کی رائے میں ’’تصوف‘‘ صفوہ (صفائی، پاکیزگی) سے ماخوذ ہے، جبکہ بعض کے نزدیک صوفی کا لفظ ’’صوف‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی ’’اُون‘‘ کے ہیں- حلقۂ علم وتحقیق میں یہ اقوال زیادہ قوی اور مدلل حیثیت رکھتے ہیں-اس کےعلاوہ دیگربھی کثیر آراء ہیں-

امام ابو القاسم عبد الکریم القشیریؒ ’’رسالہ قشیریہ‘‘ [5] میں صوفی کی تعریف اور وجہ تسمیہ بیان کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’جو شخص دل کی صفائی پر توجہ دیتا ہے اور دنیوی مرغوبات سے کنارہ کش ہو جاتا ہے صوفی کہلاتا ہے- صوفی کی وجہ تسمیہ اس طرح بیان کی کہ: ’’صفائے باطن اور پرہیز گاری کی وجہ سےایسےآدمی کو صوفی اور جماعت کو صوفیہ کہا جانے لگا- اس جماعت سے وابستہ آدمی کیلئے متصوف اور جماعت کیلئے متصوفہ کا لفظ استعمال ہونے لگا‘‘- [6]

شیخ ابو نصر عبداللہ بن علی سراج طوسیؒ کا خیا ل ہے کہ:

’’وہ اصحاب جو اون کا لباس پہنتے تھے انہیں صوفی کہاجاتا تھا---صوف کا لباس انبیائے کرام(علیھم السلام) کا طریقہ ا ور اولیاء و اصفیاء کا شعار رہا ہے‘‘- [7]

محیّ الدین سیّدنا غوث الثقلین، سلطان الاولیاءحضرت شیخ عبد القادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ) تعریفِ تصوف و صوفی کے حوالے سے رقم طرا زہیں کہ:

’’یہ لفظ اصل میں صوفی بروزن فوعل ہے اور مصافاۃ سے ماخوذ ہے یعنی ایسا بندہ جس کواللہ تعالیٰ نے پاک کر دیا- اسی لئے کہا جاتا ہے کہ صوفی وہ ہے جو نفس کی آفات سے صاف، مذموم خصلتوں سے خالی، قابلِ تعریف راستے پر چلنے والا اور حقائق کو اختیار کرنے والا ہو اور کسی مخلوق کے سبب اس کے دل کو قرار نہ ملتا ہو(بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سکون قلب حاصل ہو) یہ بھی کہا گیا ہے کہ تصوف ’’خدا کے ساتھی اور مخلوق کے ساتھ حسن اخلاق کا نام ہے‘‘- [8]

فقر و تصوف کے درخشندہ آفتاب سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتےہیں:

’’تصوف دل سے ما سویٰ اللہ کا زنگ اتارنے کی راہ ہے‘‘-[9]

اسی طرح شیخ ابو الحسن علی بن عثمان ہجویریؒ نے ’’کشف المحجوب‘‘ میں تصوف کےمتعلق حضرت حصریؒ کایہ قول نقل فرمایا ہے:

’’تصوف دل اور بھید کی صفائی کا نام ہے مخالفت کی کدورت سے‘‘- [10]

چونکہ تصوف اپنی حقانیت میں (بلا امتیازِ رنگ ونسل، علاقہ، مذہب وغیرہ) عالمگیر اور آفاقی نوعیت کا ہے اس لئے تصوف (تعلیماتِ تصوف) نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ غیرمسلم معاشرے (جیسےمغرب و یورپ) میں بھی مقبول ہیں جسے اہلِ مغرب اپنے سماج کا علمی، ادبی و فکری حصہ سمجھتے ہیں بلکہ مغربی دانشور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس مادہ پرستانہ دور میں بھی اگر انسانیت کی باطنی تطہیر کا کوئی واحد ذریعہ ہے تو وہ اسلام کا روحانی نظام (تصوف) ہے- عصر حاضرکے نامور فرانسیسی سائنس دان ڈاکٹر موریس بوکائیے اپنی معروف تصنیف ’’بائبل، قرآن اور سائنس‘‘ میں اس حقیقت کا اعتراف یوں کرتے ہیں کہ:

’’موجودہ سائنس (کے تحت ہونے والی مادی ترقی) نے انسانی دماغوں کو جس قدر ناپاک کر دیا ہے ان کو پاک کرنے کیلئے بڑی روحانی قوت کی ضرورت ہے اور وہ اسلام کی تعلیمات سے ہی حاصل ہو سکتی ہے‘‘-

شایدیہی وجہ ہےکہ اس وقت بھی مغرب میں (Best seller books)مولانا رومی ؒ کی ہیں اورتصوف (تعلیماتِ تصوف) دین ِ اسلام کے اہم ثقافتی و تہذیبی شعبہ کی حیثیت سے دنیا (بالخصوص مغرب و یورپ) کےمختلف تحقیقی وتعلیمی اداروں اور جامعات میں بطورِ نصاب پڑھایا جاتا ہے جس میں دنیا کے چند عظیم اور مشہور تعلیمی اداروں کا تذکرہ زیرِ نظر مضمون میں کیا گیا ہے-

ہم سب سے پہلے ورلڈ سنٹر فار یونیورسٹی رینکنگ (2018-19) کےلحاظ سے دنیا کی چند بڑی جامعات کا تذکرہ کریں گے جن میں تصوف کی تعلیم (بطورِ نصاب ) دی جاتی ہے - اسی طرح پھر دنیا کے چند بڑے مسلم و غیر مسلم ممالک کے مشہور تعلیمی اداروں کا جائزہ لیں گے جن میں تصوف کو باقاعدہ طور پر پڑھایا جاتا ہے-

ہارورڈ یونیورسٹی ( امریکہ)

ورلڈ سنٹر فاریونیورسٹی رینکنگ (19-2018) کے مطابق امریکہ میں واقع ہارورڈ یونیورسٹی کا شمار اس وقت دنیا کی ٹاپ یونیورسٹی میں ہوتا ہے- ہارورڈ کے ادارے (Harward Divinity School) میں اسلامی تصوف اور الٰہیات کے مضامین باقاعدہ نصاب کاحصہ ہیں جن پرمختلف کورس (ماسٹر پروگرامز)کروائے جاتے ہیں جن میں اسلامی تصوف اور صوفیاء کی روایات کا تعارف اور مسلم دنیا کے ادبی اور معاشرتی پہلوؤں پر اس کے اثر و رسوخ سے متعلق تعلیم دی جاتی ہے-اس کورس کا اصل مقصد صوفیانہ نقطہ نظر کو فروغ دینا ہے -

2۔      سٹینفورڈ یونیورسٹی (کیلیفورنیا)

امریکی ریاست کیلیفورنیا میں واقع سٹینفورڈ (Stanford) کا شمار اس وقت دنیا کی دوسری ٹاپ یونیورسٹی میں ہوتا ہے- یونیورسٹی کے شعبہ مذہبی تعلیم(Religious Studies) میں دنیا کے تمام بڑے مذاہب پر تعلیم (گریجویشن) دی جاتی ہے جن میں اسلام، عیسائیت اوربدھ مت قابل ذکر ہیں- مذہبی تعلیم (اسلامک سٹڈیز) میں بالخصوص اسلامی تاریخ، قرآن و حدیث،اسلامی قانون اور تصوف کے مضامین گریجویشن کے نصاب کا حصہ ہیں -اس کے علاوہ روحانیت اور فلسفہ پر مختلف کورسز بھی پڑھائے جاتے ہیں-

3۔      کیمبرج یونیورسٹی(یو-کے)

کیمبرج یونیورسٹی انگلینڈ کے مشہور شہر کیمبرج میں واقع ہے- یونیورسٹی کے شعبہ الٰہیات میں اسلامک سٹڈیز کے مضامین انٹر میڈیٹ میں پڑھائے جاتے ہیں جن میں بالخصوص تصوف کا مابعد الطبیعیاتی نظام، اسلامی ثقافت اورمسلم فلسفہ شامل ہیں- اس کےعلاوہ یونیورسٹی کے ادارے (Continuing Education) میں تعارفِ اسلام اورمسلم فلسفہ (جن میں ابنِ سینا، الکندی، الفارابی قابلِ ذکر ہیں) پر مختلف کورسز اور سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کا مقصد اسلامی تاریخ،عقائد اور اسلام کے اہم عنصرکی حیثیت سےتصوف سےآشنائی اور مذکورہ مسلم فلاسفہ کے افکار و نظریات کو فروغ دینا ہے-

4.      آکسفورڈ یونیورسٹی (یو-کے)

انگلینڈ میں واقع آکسفورڈ یونیورسٹی کا شمار دنیا کی مشہور ترین یونیورسٹیز میں ہوتا ہے- آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز کے شارٹ کورسز میں، اسلامی تاریخ ،اسلامک آرٹ وفنِ تعمیر، روحانیت اور مسلم عقیدت جیسے مضامین پڑھائے جاتے ہیں-مزید سنٹر کے تحقیقی پروجیکٹ (ATLAS) کے تحت جنوبی ایشیاء میں مسلم دنیا کی علمی،سماجی اور مذہبی تاریخ اورتحریکوں پر جن میں صوفی ازم بھی شامل ہے، باقاعدہ تحقیق کی جاتی ہے-اسی طرح یونیورسٹی کے ’’Department of Countinuing Education‘‘ کے تحت مختلف شارٹ کورسز (سرٹیفیکیٹ، ڈپلومہ، ایڈوانس ڈپلومہ) میں اسلام اور مسلم فلسفہ کا تعارف پڑھایا جاتا ہے جس میں قرآن و حدیث، اخلاقیات، تاریخِ اسلام، اسلامی عقائد اور اسلام کے روحانی عنصر کی حیثیت سے تصوف شامل ہے جبکہ فلسفہ میں عظیم مسلم فلاسفہ بشمول الکندی، الفارابی، ابنِ سینا، الغزالیؒ اور ابنِ رشد پر لیکچرز دیئے جاتے ہیں-مذکورہ ڈیپارٹمنٹ کے آن لائن شارٹ کورسز میں بھی روحانیت پر تعلیم دی جاتی ہے- مزید برآں یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اورئینٹیل سڈیز کے تحت بیچلر آف آرٹس میں اسلامک سٹڈیز کے مضامین قرآنک کمنٹری، اسلامی قانون اور تصوف عربی زبان میں نصاب کا حصہ ہیں -

5.      یونیورسٹی آف کیلیفورنیا(برکلے)

یہ یونیورسٹی مشہور امریکی ریاست کیلیفورنیا کےشہر برکلے میں واقع ہے- یونیورسٹی کےشعبہ مشرقی سٹڈیز (پی-ایچ-ڈی پروگرام) کے مختلف کورسز میں اسلامک آرٹ، قدیم و جدید اسلامی افکار،اسلامی تصوف، اصولِ تصوف،تاریخِ تصوف، اسلام میں صوفی ازم کا کردار، تصوف کے روایتی و نظریاتی پہلو، ادب اورتصوف میں تعلق (بالخصوص شاعری میں) جیسے مضامین نصاب کا حصہ ہیں اور یہ مضامین عربی زبان میں پڑھائے جاتے ہیں-

6.      پرنسٹن یونیورسٹی(امریکہ)

پرنسٹن یونیورسٹی امریکی ریاست (New Jersey) کے مشہور شہر پرنسٹن میں واقع ہے- یونیورسٹی کے شعبہ مشرقی سٹڈیز کے اَنڈر گریجویٹ پرو گرام میں صوفی ازم کا کورس پڑھایا جاتا ہے جس کا مقصد اسلامی تصوف کی روایات سے آشنائی اور اسلام کے ایک سافٹ امیج کے طور پر تصوف کا مطالعہ ہے-

7.      کولمبیا یونیورسٹی(امریکہ)

کولمبیا یونیورسٹی امریکہ کے شہر نیو یارک میں واقعہ ہے- یونیورسٹی کے شعبہ مذہب کے تحت گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ طلباء کیلئے شارٹ کورسز کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں اسلام، عیسائت اور بدھ مت جیسے مذاہب کی تعلیمات پڑھائی جاتی ہیں- اسلام سےمتعلق مضامین میں اسلامی قانون، تھیالوجی اور اسلامی تصوف پڑھایا جاتا ہے جس میں قرآن و تصو ف اور صوفیاء کی روایات جیسے مضامین کورس کا حصہ ہیں-

8.      (امریکہ) یونیورسٹی آف شکا گو

یہ یونیورسٹی امریکی ریاست (Illinois)کےشہر شکاگو میں واقع ہے- یونیورسٹی کےشعبہ (Divinity School) میں اسلامک سٹڈیز کے کم از کم دو تحریری مضامین کا انتخاب طلباء کیلئے لازم قرار دیا گیا ہے- اسلامک سٹڈیز میں قرآنی تعلیم، صوفی لٹریچر، مسلم فلسفہ،اسلامی ارتقاء اور جدید اسلامی افکار پی-ایچ-ڈی کے تحریری نصاب کا حصہ ہیں- اس کے علاوہ بالخصوص اسلامک سٹڈیز پر منتخب کورسز کروائے جاتے ہیں جن میں تعارف ِ قرآن، تاریخ اسلام، اسلامی قانون کا تعارف، فارسی شاعری میں شاہنامہ حاکم ابو القاسم فردوسی طوسیؒ اور مثنوی مولانا رومؒ وغیرہ شامل ہیں- مذکورہ شعبہ مذہب کے علمی مطالعہ پرہر سال تقریباً 100کورسرز کرواتا ہے-

9.      ییل یونیورسٹی(امریکہ)

امریکی ریاست(Connecticut) میں واقع ییل کاشمار دنیا کی بڑی یونیورسٹیز میں ہو تاہے- یونیورسٹی کےشعبہ (Religious Studies)کےتحت اسلامک سٹڈیز میں پی-ایچ-ڈی کروائی جاتی ہے جس میں اسلام کی علمی تاریخ اورمذہبی افکار پڑھائے جاتے ہیں- علمی تاریخ میں اسلامی تہذیب کی ترقی، اسلامی قانون اورمعاشرہ شامل ہیں جبکہ مذہبی افکار میں اسلامی فلسفہ، تھیولوجی اور اسلامی تصوف جیسے مضامین ڈگری کا حصہ ہیں- مذکورہ شعبہ کے تحت شارٹ کورسز میں بھی تعارف ِ اسلام، تعارف ِقرآن اور مسلم فلسفہ بشمول امام غزالیؒ اور دیگر مسلم فلاسفہ کے افکار پڑھائے جاتے ہیں -

10. سو آس یونیورسٹی (SOAS) آف لندن

انگلینڈ کے شہر لندن میں واقع (SOAS) کا شمار دنیا کی مشہور یونیورسٹیز میں ہوتا ہے- یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ (Languages and Cultures of the Near and Middle East) کے تحت اسلامک سٹڈیز میں پی-ایچ-ڈی کروائی جاتی ہے جس میں صوفی ازم، قرآن و حدیث، اسلامک لیگل ٹیکسٹ عربی زبان میں (Postgraduate Module) کےطور پر پڑھایا جاتا ہے- صوفی ازم کےمطالعہ کیلئے تصوف کی امہات کتب (احیاء العلوم، کشف المحجوب، رسالہ قشیریہ، کتاب اللمع فی التصوف ) تجویز کی گئی ہیں- اس کے علاوہ انڈر گریجویٹ (Module) میں بھی تصوف اور عظیم روایات کے نام سے کورس پڑھایا جاتا ہے جس میں تصوف کی مختصر علمی تاریخ، تصوف اور اخلاقیات، تصوف اور حب الوطنی جسے مضامین کورس کا حصہ ہیں- مزید مسلم فلاسفی پر بھی کورسز پڑھائے جاتے ہیں-

11. کنگز کالج لندن

یہ لندن کا مشہور تعلیمی ادارہ ہے جس کے انڈر گریجویٹ پروگرام میں’’Themes in Sufism and Islamic Philosophy‘‘کے نام سے باقاعدہ کورس پڑھایا جاتا ہے- اس کے علاوہ پوسٹ گریجو یٹ پروگرام میں ’’Classics of Sufi Literature‘‘ پر کورس پڑھایا جاتا ہے جس کا مقصد اسلام کے اہم عنصر کی حیثیت سے تصوف کا مطالعہ اور طلباء کو تصوف کے علمی اور عملی پہلؤوں سے روشناس کرانا ہے-

12. کیمبرج اسلامک کالج

کیمبرج میں واقع اس کالج کا شمار دنیا کے مشہور تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے- کالج کے تحت شارٹ کورسز میں ’’History of Sufism and Introduction to Classical Spirituality Text‘‘ پر ڈپلومہ کروایا جاتا ہے جس میں صوفی ازم (تصوف) کی تاریخ، رسالہ قشیریہ، احیاء العلوم، مثنوی مولانا رومؒ، کتاب الحکم وغیرہ کورس میں شامل ہیں-

13.     یونیورسٹی آف میسَاچیسٹس  (Massachusetts)

یہ یونیورسٹی مشہور امریکی ریاست میساچیسٹس (Massachusetts) کے شہر ایمرسٹ میں واقع ہے- یونیورسٹی کے ’’Religious Studies Certificate Programme‘‘ میں ’’Sufism: Islamic Mystical Traditions and Legacies‘‘ کے نا م سے باقاعدہ کورس پڑھایا جاتا ہے جس میں اسلام کی متصوفانہ روایات کا تعارف، صوفیاء کا نظریہ، معرفت الٰہی، روح کی پاکیزگی کیلئے ریاضت اور دورِ جدید میں تصوف کی ضرورت و اہمیت سے متعلق تعلیم دی جاتی ہے-

14. یونیورسٹی آف ساؤتھ افریقہ

اس کا شمار ساؤتھ افریقہ کی بڑی یونیورسٹیز میں ہوتا ہے- یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک سٹڈیز کے تحت انڈر گریویٹ پروگرام میں اسلامی تصوف، تھیالوجی اور مسلم فلسفہ پر باقاعدہ کورس پڑھایا جاتا ہے جس کا مقصد طلباء کو سماجی تعمیر و ترقی میں اسلام کے اہم عناصر کی حیثیت سے تصوف اور مسلم فلسفہ کے کردار سے آشنا کرانا ہے- مزید اسلامی نظامِ اقتصاد، سیاست، قرآنک سائنسز، لٹریچرِ، حدیث، اخلاقیات ،اسلامی قانون اور فقہ پر بھی کورسز پڑھائے جاتے ہیں-

15. چارلس سٹرٹ یونیورسٹی (آسٹریلیا)

چارلس سٹرٹ آسٹریلیا کی مشہور یونیورسٹی ہے جو اس کے ٹاؤن (بیتھرسٹ) میں واقع ہیں-یونیورسٹی کے ’’Centre for Islamic Studies and Civilization‘‘ کے تحت اسلامک سٹڈیز میں ماسٹر اور بیچلر کی تعلیم دی جاتی ہے-سنٹر کے تحت مختلف کورسز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ’’Islamic Spirituality‘‘ کے نام سے باقاعدہ کورس شامل ہے-کورس میں اسلامی تصوف کا ارتقاء، راہِ سلوک و عالمگیر انسانیت،حیاء و عاجزی اور وحی و الہام جیسے مضامین نصاب کا حصہ ہیں- جس کا مقصد اسلام کے اہم پہلو کی حیثیت سے تصوف کا مطالعہ ہے-

16. یونیورسٹی آف اتا گو (نیوزی لینڈ)

اتاگویونیورسٹی نیوزی لینڈ کے شہر (Dunedin)میں واقع ہے- یونیورسٹی کے شعبہ مذہبی تعلیم کے تحت باقاعدہ کورسز کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں دنیا کے تین بڑے مذاہب (اسلام، عیسائیت اور یہودیت) پر تعلیم دی جاتی ہے- اسلام سے متعلقہ مضامین میں اسلامی تصوف اور نیو-صوفی ازم بطورِ خاص کورس کا حصہ ہیں-

17. یونیورسٹی آف ایڈن برگ (سکاٹ لینڈ)

ایڈن برگ (سکاٹ لینڈ کا دارالحکومت) میں واقع اس یونیورسٹی کاشمار دنیا کی مشہور یونیورسٹیز میں ہوتا ہے- یونیورسٹی کے شعبہ ’’Islamic and Middle Eastern Studies‘‘ کےتحت ماسٹرآف ریسرچ کےپوسٹ گریجویٹ پروگرام میں اسلامی تاریخ، مسلم فلسفہ، صوفی ازم،’’Modern and Classical Arabic Literature‘‘ اور ’’Modern and Classical Persian Literature‘‘پر باقاعدہ تحقیق کی جاتی ہے- اس کے علاوہ MSC کے پروگرام ’’Persian Civilization‘‘ میں اسلامی تصوف اور قرآن کے نام سے مضامین پروگرام کا حصہ ہیں-

18. مِک گل یونیورسٹی (کینیڈا)

مکِ گل (McGill) یونیورسٹی کینیڈا کے مشہور شہر کیوبک میں واقع ہے- یونیورسٹی کے ادارے اسلامک سٹڈیز کے تحت انڈرگریجویٹ پروگرام میں اسلامی تصوف پر باقاعدہ کورسز پڑھائے جاتے ہیں- اس کے علاوہ ادارے کے تحت اسلامک سٹڈیز میں ماسٹر اور پی-ایچ-ڈی کروائی جاتی ہے جس میں اسلامی تاریخ، قانون، ادب، آرٹ اور مسلم فلسفہ جیسے مضامین نصاب کا حصہ ہیں-

19. مِک ماسٹر یونیورسٹی( کینیڈا)

کینیڈا کے شہر ہملٹن میں واقع مِک ماسٹر (McMaster) کینیڈا کی مشہور یونیورسٹی ہے- یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ ’’Religious Studies‘‘ کے تحت انڈر گریجویٹ پروگرام میں اسلامی تصوف پر باقاعدہ کورس پڑھایا جاتا ہے جس میں اسلامی تصوف کے ارتقاء کا تاریخی سروے، مجاہدہ و ریاضت کا آغاز اور صوفیانہ طریقہ کار مطالعہ شامل ہیں- اس کےعلاوہ مذہبی تعلیم میں PHD کروائی جاتی ہے-

20.  آرہس یونیورسٹی(ڈنمارک)

ڈنمارک کے شہر آرہس (Arhus) میں واقع اس یونیورسٹی کا شمار دنیا کی مشہور یونیورسٹیز میں ہوتا ہے-یونیورسٹی مختلف تحقیقی پرو جیکٹس پر کام کرتی ہے جن میں’’Sufism and Transnational Spirituality‘‘ کے نام سے ایک باقاعدہ ریسرچ پروجیکٹ شامل ہے جس میں اسلام کے اہم عنصر کی حیثیت سےتصوف اور روحانیت پر باقاعدہ ریسرچ کی جاتی ہے- مزید یونیورسٹی اس حوالے سے کانفرنسز اور ورکشاپس کا بھی اہتمام کرتی ہے- اس کے علاوہ یونیورسٹی اسلامک سٹڈیز میں بیچلر اور ماسٹر بھی کرواتی ہے-

21. گوئیتھ یونیورسٹی(جرمنی)

گوئیتھ یونیورسٹی جرمنی کے مشہور شہر فرینکفرٹ میں واقع ہے- یونیورسٹی کےادارے ’’Study of Islamic Culture and Religion‘‘ کے تحت اسلامک سٹڈیز میں ماسٹر(ماسٹرآف آرٹس)کروایا جاتا ہے جس میں اسلامی افکار، ثقافت اور سماجی تاریخ نصاب کاحصہ ہیں-اسلامی افکار میں مسلم فلسفہ، اسلامی تصوف اور اخلاقیات جیسے مضامین شامل ہیں جو جرمن زبان میں پڑھائے جاتے ہیں-اس کےعلاوہ ادارے کے تحت اسلامک سٹڈیز پر کانفرنسز اور سیمینار کا بھی انعقاد ہو تا ہے -مثلاً مذکورہ ادارے کے تحت 2014ء میں ’’Horizons of Islamic Theology‘‘ کے نام سے ایک بین الاقوامی کانفرس کا انعقاد ہوا جس کے چوتھے سیشن کا موضوع ہی اسلامی تصوف تھا-

22.  ٹوکیویو نیورسٹی (جاپان)

ٹوکیو یونیورسٹی کا شمار جاپان کی مشہور یونیورسٹیز میں ہوتا ہے- یونیورسٹی کے ’’Center for Islamic Area Studies‘‘ میں مسلم تہذیب اور صوفی ازم پر باقاعدہ ریسرچ کی جاتی ہے- یہ ادارہ دیگر مسلم ممالک میں موجود (تصوف پر) اداروں کے اشتراک سے تصوف پر باقاعدہ کانفرنسز اور تعلیمی سرگرمیوں کا بھی اہتمام کرتا ہے جس میں نوجوان محققین کو اس حوالے سے تربیت دی جاتی ہے- اس کے علاوہ ادارہ صوفی ازم پر مختلف زبانوں میں باقاعدہ مضامین اور کتب بھی شائع کرتا ہے-

23.  انقرہ یونیورسٹی(ترکی)

انقرہ یونیورسٹی کا شمار ترکی کی مشہور ترین یونیورسٹیز میں ہوتا ہے جو اس کے دار الحکومت انقرہ میں واقع ہے- یونیورسٹی کے ادارے سوشل سائنسز کے تحت ’’Department of Basic Islamic Sciences‘‘ میں تصوف پر ماسٹر ڈگری کروائی جاتی ہے جس کا مقصد اسلامی افکار میں تصوف کی اہمیت اور اس کے متصوفانہ کلچر کا مطالعہ ہے- اس کے علاوہ یونیورسٹی کی ’’Faculty of Divinity‘‘ میں اسلامک فلسفہ پرکورسز کروائے جاتے ہیں جس میں مسلم فلاسفہ (جیسے ابنِ رشد،ابنِ سینا، امام غزالیؒ) کے افکار کا مطالعہ شامل ہے- مزید جبکہ منطق، مابعد الطبیعیات، اخلاقیات اور سیاسیات اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پڑھائے جاتے ہیں-

24.  اسکدار یونیورسٹی (ترکی)

اسکدار(Uskudar) یونیورسٹی ترکی کے مشہور شہر استنبول میں واقع ہے- یونیورسٹی میں صوفی سٹڈیز کے نام سے باقاعدہ ادارہ موجود ہے جس میں صوفی کلچر اور ادب پر ماسٹر ڈگری کروائی جاتی ہے- ڈگری میں بنیادی اسلامی تعلیم، ادب، فلسفہ، اسلامی تصوف، تاریخ، سماج، موسیقی اور Architecture  نصاب کا حصہ ہیں-مزید لازمی کورسز جو ماسٹر ڈگری کے مقالہ کا حصہ ہیں ان میں صوفیانہ افکار، صوفی ازم کی تاریخ، صوفی کلچر اور آرٹ، صوفی لٹریچر اور ’’Textual Analysis‘‘ شامل ہیں-

25.  یونیورسٹی آف تہران (ایران)

یہ یونیورسٹی ایران کے دار الحکومت تہران میں واقع ہے- یونیورسٹی کی ’’Faculity of Theology and Islamic Studies‘‘ کے ’’Department of comparative religion and Mysticism‘‘ میں تصوف اور مذہب کے موازنہ پر مضامین MSC، BSC اور PHD پروگرامز کا حصہ ہیں- اسی طرح فلاسفی آف ریلیجن، قرآنک سائنسز اور حدیث،اسلامک فلاسفی اینڈ اسلامک کلام کے نام سےباقاعدہ ڈیپارٹمنٹس موجود ہیں جس میں یہ مضامین مذکورہ پروگرامز میں پڑھائے جاتے ہیں- اس کے علاوہ یہ ڈیپارٹمنٹس ان مضامین پر باقاعدہ ریسرچ جنرل بھی شائع کرتے ہیں-

26.  امیرکن یونیورسٹی (مصر)

امیرکن یونیورسٹی مصر کے دارلحکومت قاہرہ میں واقع ہے- یونیورسٹی کے تحت جنرل اسلامک سٹڈیز پروگرام میں کورس پڑھایا جاتا ہے جس میں قرآن و تفسیر، اسلامک لاء، حدیث اور صوفی ازم جیسے مضامین کورس نصاب کا حصہ ہیں- مزید اسلامک فلاسفی، مسلم سیاسی افکار اور ابنِ خلدون سٹڈیز پر بھی کورسز پڑھائے جاتے ہیں-

27 الازہر یونیورسٹی (مصر)

مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں واقع الازہر کا شمار دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیز میں ہوتا ہے- یونیورسٹی کیFaculity of Islamic Sciences میں اسلامی تصوف کی تاریخ ، عصرِ حاضر میں تصوف کی اہمیت ، علوم قرآن و تفسیر، علومِ حدیث، الٰہیات اور اسلامی اقتصاد جیسے مضامین پڑھائے جاتے ہیں-

28. الاخوین یونیورسٹی(مراکش)

الاخوین یونیورسٹی کا شمار مراکش Morocco)) کی مشہور ترین یونیورسٹیز میں ہوتا ہے جو اس کے شہر افران میں واقع ہے- یونیورسٹی کے “School of Humanities and Social Sciences‘‘میں اسلامک سٹدیز ( ماسٹر کے طلباء کو) جو بنیادی کورسز پڑھائے جاتے ہیں ان میں تصوف اور صوفی ازم کے نام سے باقاعدہ کورس شامل ہے- اس کے علاوہ یونیورسٹی کے تحت اسلامک سٹڈیز میں ماسٹر کروایا جاتاہے جس میں اسلامک ڈکٹرائن، لاء، تاریخ اور معروف مسلم مؤرخین اور علمِ دین کے ماہرین پر تعلیم دی جاتی ہے- مزیدیونیورسٹی مسلم فلسفہ اور تصوف پر شارٹ کورسز کا بھی اہتمام کرتی ہے-

اس کےعلاوہ بھی دیگر بے شمار مسلم اور غیر مسلم ممالک میں تعلیمی ادارے (جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں) موجود ہیں جن میں تصوف باقاعدہ کورس کی صورت میں پڑھایا جاتا ہے اور اس پر تحقیق کی جاتی ہے-

مذکورہ تفصیل کے بعد یہ قیاس کرنا کوئی مشکل امر نہیں رکھتا کہ اس مادہ پرستانہ دور میں بھی شناسان ِ تصوف اورروحانیت کا اشتیاق رکھنے والے لوگوں کی تعداد(جو مطالعہ تصوف کواپنی سماجی اور علمی ضرورت سمجھتے ہیں) نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلم دنیا میں بھی آئے روز بڑھ رہی ہے- غیر مسلم محققین تصوف کو اسلئے بھی پڑھتے ہیں کہ وہ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ اسلامی تاریخ میں تصوف ایک غالب نظریہ رہا ہے اور اسلامی تہذیب و معاشروں کے خدوخال کو سمجھنا تصوف کو سمجھے بنا ممکن نہیں- لیکن بد قسمتی سے وطنِ عزیز( اسلامی جمہوریہ پاکستان ) جو نظریہ اسلام پر قائم ہونے والی ریاست ہے میں کوئی ایسا با قاعدہ ادارہ موجود نہیں جو تصوف پر باقاعدہ تعلیم دے- پاکستان میں کچھ برائے نام ادارے موجود ہیں جو تصوف پر کا م کررہے ہیں لیکن تصوف کے فروغ کیلئے جس قدر وسیع پیمانے پرتعلیمی و تحقیقی کا م ہونا چاہیے اس حد تک نہیں ہوا- یہ ہمارا قیمتی اثاثہ ہے اور دینِ اسلام کی اصل روح ہے- اس پر ہر نئے نکتہ تحقیق و مکالمہ کا آغاز وہیں سے ہونا چاہئے جہاں اسے اس کی اصل روح کے مطابق سمجھا جاتا ہے-

گزشتہ دنوں بدست جناب وزیر ِ اعظم عمران خان صاحب القادر یونیورسٹی کا سنگ ِ بنیاد تعلیماتِ تصوف کے فروغ کیلئےایک خوش آئند قدم ہے لیکن تصوف کی وسعت، ناقابلِ انکار ضرورت و لافانی اہمیت کو مدِ نظررکھتے ہوئے اس پر مستقل کام کرنے کی ضرورت ہے جس کا دائرہ کار صرف جامعات تک محدود نہ ہو بلکہ کالجز، سکولز اور دیگر علمی و تحقیقی مراکز بھی تعلیمات ِ تصوف کے فروغ میں اپنا مثبت کردار ادا کریں- تصوف نہ صرف ہماری علمی، دینی، عملی، اخلاقی اور روحانی ضرورت ہے بلکہ بقائے دین بھی اسی میں مضمر ہے جس طرح ابتدا میں تذکرہ کیا کہ تصوف کو روحِ دین کی حیثیت حاصل ہے اس لئے تعلیماتِ تصوف کا احیاء فی الحقیقت دین کا احیاء ہے-

مزیدبرآں! اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حقیقی معنوں میں بطورِ فلاحی ریاست تکمیل، اسلامی اصولوں کے تحت جمہوریت کا قیام،[11] قومی سالمیت، سماجی، اقتصادی، سیاسی، روحانی و نظریاتی استحکام، عصرِ حاضر میں عالمی سطح پر درپیش مسائل (جیسے سیاسی، سفارتی، اقتصادی، ثقافتی، آئینی) کے مؤثر حل، موجودہ باطنی اضطراب (انفرادی و اجتماعی سطح پر) سے نجات اور روحانی سکون تک رسائی کیلئے تعلیماتِ تصوف کا فروغ ہر ممکن سطح (جیسے علمی، ادبی، تعلیمی وتحقیقی) پر یقینی بنانا ہو گا تاکہ اس عظیم دینی ورثے بلکہ روحِ دین (اسلامی تصوف) کاتحفظ کرتے ہوئے ہم اس کے احیاء کیلئے اپنا کلیدی کردار ادا کر سکیں-

خلاصہ بحث حکیم الاُمت شاعرِ مشرق و مدبرمغرب حضرت علامہ اقبال (﷫) کے اس آفاقی پیغام سے کرنا چاہوں گا جو دینِ اسلام کاحقیقی نصب العین اور عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے بقائے انسانی کیلئے بہترین لائحہ عمل ہے-

اقبالؒ اپنے شہرہ آفاق خطبات’’The Reconstruction of Religious Thought in Islam‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

“Humanity needs three things to-day a spiritual interpretation of the universe, spiritual emancipation of the individual, and a basic principle of a universal import directing the evolution of a human society on a spiritual basis”.

’’انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے (1)کائنات کی روحانی تعبیر، (2) فرد کا روحانی استخلاص اور (3) ایسے عالمگیر نوعیت کے بنیادی اُصول جو روحانی بنیادوں پر انسانی سماج کی نشو و نما میں رہنما ہوں-

٭٭٭


[1](مثلاً قرآن کریم میں تصوف کے مترادف کے طور پر ’’تزکیہ‘‘ جبکہ حدیث مبارکہ میں ’’احسان‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے- اسی ضمن میں قابل ِ توجہ بات یہ ہے کہ بعض منکرین و معترضینِ تصوف کے ہاں اس مسلک(تصوف) کا قرآن و سنت میں کہیں ذکر نہیں ملتا اور نہ ہی اس مسلک کا اسلام سے کو ئی تعلق ہے -حالانکہ جتنے بھی اربابِ تصوف ہو گزرے ہیں کسی کے نزدیک بھی یہ ثابت نہیں کہ تصوف قرآن وسنت سے الگ کوئی چیز ہے- تمام کےہاں اس کی اساس اور منابع علومِ قرآن وسنتِ نبوی (ﷺ) ہیں اور اسے روحِ اسلام کا درجہ حاصل ہے جیسا کہ شیخ محقق حضرت شاہ عبدالحق محدثِ دہلو یؒ فرماتے ہیں: ’’یہ خیال بڑاہی نا پختہ ہے کہ ہم طریقِ تصوف کو شریعت اور قرآن و سنت کے مخالف سمجھنے لگیں،حاشا و کلاان دونوں چیزوں میں کوئی مغائرت یا اختلاف نہیں ہے- یہ نقطہ نظر فقظ محدثِ دہلویؒ کا ہی نہیں بلکہ تصوف و عرفان کاجتنا بھی لٹریچر ہے اگر اس کا بنظر تعمق ّمطالعہ کیا جائے تو نچوڑ درج ذیل الفاظ ہی نظر آئیں گے- فقر (تصوف ) حضرت محمد (ﷺ) کا ورثہ ہے جس کی ابتداء بھی شریعت اور انتہاء بھی شریعت ہے-( عین الفقر) -ہماری طریقت کی بنیادیں کتاب وسنت پر ہیں،جو ان کی مخالفت کرتا ہے ہمارے نزدیک وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور ہم اسے منکر احکامِ رسول (ﷺ) جانتے ہیں-(ماخوذ از مرج البحرین)

[2](حقیقتِ تصوف،ڈاکٹر طاہرالقادری،منہاج القرآن پبلی کیشنز لاہور،ج:1،ص: 16)

[3](جیساکہ مولانا عبدالماجد دریاآبادی ؒاپنی تصنیف ،تاریخ ِتصوف میں فرماتے ہیں کہ ’’مسلمانوں میں ابتداء سےایک گروہ ایسا موجود ہے جس نے تمام مقاصد دینوی سے قطع نظر کرکے اپنا نصب العین محض یادِ خدا و ذکرِ الٰہی کو رکھا اور صدق وصفا،سلوک و احسان کے مختلف طریقوں پرعامل رہا- شروع شروع میں یہ گروہ دوسرے ناموں سے ملقب رہا -ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد اس کے مسلک کا نام مسلکِ تصوف پڑگیا اور یہ گروہ ’’صوفیا‘‘کہلانے لگا‘‘-)

[4](Urdu Research Journal: Refereed Journal for Urdu,ISSN 2348-3687,Issue: 11th July-Sept. 2017 Page No.155-159)

[5](جس کا شمار تصوف کی اُمہات کتب میں ہوتا ہے -دیگر ایسی کتب میں کتاب اللمع فی التصوف (شیخ ابو سراج الطوسیؒ)، کشف المحجوب (شیخ ابوالحسن علی ہجویریؒ ) ،تاریخ ِتصوف (مولانا عبدالماجددریا آبادیؒ)، احیاء العلوم (امام ابوحامد الغزاؒلی) ، عوارف المعارف ( شیخ شہاب الدین سہر وردیؒ) ،لوائح جامی ( مولانا عبد الرحمن جامی ِ)وغیرہ قابلِ ذکر ہیں-)

[6](ابوالقاسم عبدالکریم القشیری،الرسالہ قشیریہ،المطبعہ العامرہ العثمانیہ مصر1304ھ،ص: 165)

[7](ابو نصر عبداللہ بن علی سراج طوسی،کتاب اللمع فی تصوف،دارالکتب الحدیثتہ،قاھرہ1960ء،ص: 40)

[8](غنیۃ ُالطّالبین، محبوبِ سبحانی حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ، ص: 718،مترجم،مولا نا محمد عبد الاحد قادری،قادری رضوی کتب خانہ لاہور)

[9](عقلِ بیدار)

[10](شیخ ابوالحسن علی بنی عثمان ہجویریؒ، کشف المحجوب، ص: 63،مترجم،علامہ ظہر الدین بد ایونی، راحت مارکیٹ اردو بازار لاہور)

[11](روحانی جمہوریت فکرِ اقبالؒ کےبنیادی موضوعات میں سے اہم موضوع ہے جس میں اقبالؒ مذہب اوراخلاق عالیہ سے بے نیاز سیاسی نظام ( باالفاظ دیگراسے اپنےکلام میں چنگیزیت کہ کر پکا را) کارد کرتے ہوئے اسلام کے روحانی سیاسی نظام (جوروحانی تصورات،اعلیٰ اخلاق، مساوات و تکریم ِانسانی اور وحدِ ت انسانی کے تصورپر مبنی ہے) کی دعوت دیتے اوراسی نظام کےقیام کو عصرِ حاضر میں ملت ِاسلامیہ کی وحدت کاذریعہ قرار دیتے ہیں -ڈاکٹر طالب حسین سیال اپنی تصنیف ’’تصوف اور عمرانی مسائل اقبال کی نظر میں‘‘مذکورہ نظام پر یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ ’’اس نظام میں نہ صرف حقوقِ انسان محفوظ ہوتے ہیں بلکہ انسان کی شخصیت بھی قائم رہتی ہےاور انسان اشرف المخلوقات کی حیثیت سے بھر پور اخلاقی و روحانی زندگی گزار سکتا ہے-روحانی جمہوریت ہی اسلام کا حتمی نصب العین ہے)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر