فہمِ قرآن اور جحیت حدیث : چنداصولی مباحث کی روشنی میں

فہمِ قرآن اور جحیت حدیث : چنداصولی مباحث کی روشنی میں

فہمِ قرآن اور جحیت حدیث : چنداصولی مباحث کی روشنی میں

مصنف: سیدعزیزاللہ شاہ ایڈووکیٹ مئی 2018

دینِ اسلام ایک ایسا نظامِ حیات ہےجس کی عمارت ایسےآفاقی اصولوں پر استوار ہے کہ ہر اصول نہ صرف دوسرے سے ہم آہنگ و مطابقت میں یکتا ہے بلکہ ان کےمابین تضاد ممکن نہیں-کسی ایک مسلّمہ اصول سےانحراف باقی تمام قوانین کی اصولی موافقت میں تضاد کو جنم دیتا ہے ، اِس لئے دین کے کسی بھی مسلّمہ اصُول سے اِنحراف ممکن نہیں ہے -دینِ اسلام میں ان اصولوں کا بنیادی مآخذ قرآن مجید ہے- قرآن کریم نہ صرف شرعی احکام کی وضاحت بیان فرماتا ہے بلکہ احکام شرعی کے لئے دیگر مآخذ شریعت کی رہنمائی بھی کرتا ہے-قرآن کریم کے بعد سنتِ رسول(ﷺ)،قانون وضع کرنے کیلئے دوسرا ماخذ ہے جو قرآن مجید کا تسلیم شدہ مآخذ ہے-جبکہ دوسری طرف قرآن پاک کی ایک ایک آیت کا ثبوت ارشادِ نبوی(ﷺ) سے ہی ملتا ہے-بالفاظ دیگرقرآن و حدیث دونوں کا باہمی تعلق و ربط ہے-قرآن مجید سے حقیقی مراد کلامِ الٰہی سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے سنت نبوی (ﷺ)سے راہنمائی انتہائی ضروری ہو جاتی ہے ورنہ  متشابہ آیات کا فہم ممکن نہیں-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌط فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْـلِہٖج وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللہُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاج وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ‘‘[1]

’’وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیراثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے‘‘-

متشابہ آیات جن میں کئی معنوں کا احتمال ہوتا ہے-محمد بن جعفر بن زبیر نے کہا محکم وہ آیات ہیں جن کا صرف ایک معنی اور محمل ہے اور اس میں کسی اور تاویل کی گنجائش نہیں ہے اور متشابہ وہ آیات ہیں جن میں کئی تاویلات کی گنجائش ہے-

ان تاویلات میں شارع (اللہ رب العزت ) کی ذات کے قریب معنوں تک پہنچنے اور گمراہی سے بچنے کے لئے حضرت عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:

’’عنقریب لوگ قرآن کے متشابہ میں بحث کریں گے تو تم سنت کا علم رکھنے والے لوگوں کو لازم پکڑ لینا‘‘-[2]

صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)نے ہمیشہ اپنی راہنمائی کیلئے قرآن و سنت کو شعار بنائے رکھااور حقیقی مراد الہیٰ اوردین و شریعت کی تعبیر و تشریح کیلئے رسول کریم (ﷺ)کی احادیث سے راہنمائی حاصل کی-

قول مذکورہ کی مزید وضاحت حافظ ابن کثیر کی مندرجہ بالا آیت  کی تفسیر میں دیکھی جا سکتی ہے جیساکہ آپ فرماتے ہیں کہ :

’’اللہ تعالیٰ متشابہات کے ذریعےاپنے بندوں کے ایمان کو آزماتا ہے-جیسےحرام و حلال سے-یعنی متشابہ آیات کی باطل اور غلط تاویل نہ کی جائے اور نہ ہی ان میں کسی قسم کی تحریف کی جائے-لیکن دل میں کجی رکھنے والے لوگ متشابہ آیات کی طرف رجحان رکھتےہیں-وہ متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہیں جنہیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کےلئےتعبیر وتاویل کرتے ہیں-چونکہ یہ الفاظ کئی معانی کااحتمال رکھتے ہیں‘‘-[3]

ان کجی دل والے گمراہ کن گروہوں اور خوارج نےقرآن سے اپنے خود ساختہ نظریات کی تعبیر کرنا چاہی تو ان کےفرسودہ و گمراہ کن نظریات کی تعبیر سنت کی روشنی میں ممکن نہ ہو پائی اور نہ ہی احادیث سےمطابقت وموافقت پرمبنی نظریات کو تعبیر کر پائےجس کے نتیجے میں گمراہ گروہوں بشمول خوارج نےحدیث کو بطور ماخذ ماننے سے انکار کردیا-جس کی مزید وضاحت حضرت علی المرتضٰے (رضی اللہ عنہ) کے مندرجہ ذیل قول سے ہوتی ہےجوآپ نے حضرت عبداللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کو خوارج کے ساتھ گفتگو کیلئے روانہ کرتے ہوئے ادا فرمائے:

’’اذھب الیھم فخاصمھم ،ولاتحاجھم بالقرآن فانہ ذووجوہ ولکن خاصمھم بالسنتہ --- قال لہ: یا امیر المومنین فانا اعلم بکتاب اللہ منھم ،فی بیوتنا نزل، قال: صدقت ولکن القرآن حمال ذووجوہ،تقول و یقولون، و لکن خاصمھم بالسنن، فانھم لن یجدوا عنھا محیصا‘‘[4]

’’ان کے پاس جاؤ اوران سے بحث کرو،لیکن ان کے سامنے قرآن سے استدلال نہ کرنا ،اس لئے کہ قرآن کے الفاظ میں مختلف معانی کا احتمال ہوتا ہے بلکہ ان کےساتھ سنت کے حوالے سے گفتگو کرنا-حضرت عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ)نے کہا کہ اے امیر المومنین میں قرآن کریم کو ان سے زیادہ جاننے والا ہوں-یہ توہمارے گھروں میں اترا ہے(وہ قرآن کی گفتگو میں غالب نہیں آسکتے)-حضرت علی (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا تم ٹھیک کَہ رہے ہو لیکن قرآن کریم احتمالات کا حامل ہے-تم ایک مطلب بیان کرو گے تو دوسرامطلب نکال لیں گے-تم ان کے ساتھ سنن کی بنیاد پر بحث کرنا ،کیونکہ ان سے بھاگنے کی راہ انہیں نہیں مل سکے گی‘‘-

قرآن مجیدکےالفاظ میں مختلف معنوں کے احتمال  کےباعث علماء اصول واضح کرتے ہیں کہ تمام آیاتِ قرآنی کےمعانی ایک درجہ کی بجائے مختلف مدارج میں واضح ہوتےہیں- آیات ِ قرانی کے معانی واضح کرنے کےلئے فقہاء انہیں دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں-’’واضح الدلالتہ‘‘ اور’’خفی الدلالتہ‘‘-جنہیں محکم و متشابہ کے تحت مُفسر ملا احمد جیونؒ یوں بیان کرتے ہیں کہ:

’’محکم کی اگر مراد واضح ہو تو اسے ظاہر کہتے ہیں-اگر وضاحت میں کچھ زیادتی ہو تو اسے نص اور زیادتی ہو تو اسے ’’مفسر‘‘کہتے ہیں-یونہی متشابہ اگر ایسا ہے کہ اس کی مراد پوشیدہ ہے تو اسے خفی کہتے ہیں -اگر خفا زیادہ ہوتو مشکل اور اگر اور زیادہ ہو تو مجمل کہتے ہیں-اسی طرح صاحب اتقان نے ظاہر،نص اور مفسر کو ’’محکم‘‘ کے تحت داخل کیا اور خفی مشکل اور مجمل کو ’’متشابہ‘‘ کی اقسام کہا--- تمام اقسام کو انہی دو(محکم اور مفسر) میں منحصر کیا‘‘-[5]

اگر منکرین حدیث ہر آیت کا معنی ’’واضح الدلالتہ‘‘ سے تعبیر کریں اور ہر لفظ کو مفسر یا محکم جانیں کہ مفسر یا محکم کے علاوہ کسی دوسرے معانی اورتعبیر کا احتمال ہی نہیں-پھر جو متشابہ آیات بیان ہیں ان کا معنی ہر قاری خود اپنے وہم و گمان سےمتعین کرے گا اور تاویل کرتا رہے گا-جبکہ اس پوزیشن کو تسلیم کرنے سے’’واضح الدلالتہ‘‘  خود’’خفی الدلالتہ‘‘ میں تبدیل ہوجاتی ہے-یوں ان احتمالات پرحتمی معانی متعین کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے-ایسی اتھارٹی کی ضرورت پیش آتی ہے جو ایک معانی معین کرے-کسی لفظ میں مختلف معنوں کا احتمال اور اس کے تعین کے لئے عصر جدید میں عمدہ اور قابل ِ عمل مثال کسی ملک کی اعلیٰ عدالتیں ہیں جو کسی آئینی دفعات کی تعبیر کرنے کے لئے حتمی شمار ہوتی ہیں-بعین قرآن کی تفسیر میں حدیث تخصیص و وضاحت کی حتمی حیثیت رکھتی ہے - اِس اعتبار سے بھی آقا کریم (ﷺ)کی ذاتِ گرامی وہ ہے کہ آپ کے نُطق و کلام کے وحی ہونے پہ قرآنی تصدیق موجود ہے ، لہٰذا قرآن کی جو شرح آپ (ﷺ) فرمائیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معتبر ہے - یعنی آپ (ﷺ) اپنی سُنّت کے ذریعے عین منشائے الٰہی کے مطابق قرآن کی شرح و وضاحت فرمانے والے ہیں -  مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تصدیق و تحسین نازل فرمائی کہ آپ (ﷺ) اپنی اُمّت کو حکمت کی تعلیم عطا فرماتے ہیں حکمت سے مُراد بھی سُنّت ہے - جیسا کہ شیخ عبد الغنی محمد عبد الخالق المصری اپنی تصنیف میں بیان کرتے ہیں کہ:

’’ آپ(ﷺ) اپنی امت کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور حکمت سے مراد،جیساکہ امام شافعیؒ اور دوسرے اہل علم نے کہا ہے،سنت ہے-اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اس سے مراد کتاب اللہ ہے تب بھی امت کو اس کی تعلیم دینے کا مطلب اس کی شرح،اس کی مجمل باتوں کی تفصیل اور اس کے مشکل امور کی تو ضیح ہوگا،اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آنحضرت نے اپنے قول فعل اور تقریر (سکوت) سے کتاب اللہ کی جو تشریح کی ہے وہ حجت ہے‘‘-[6]

بالفاظ دیگر حضور نبی کریم (ﷺ) قرآن مجید کی مزید وضاحت،  تفصیل اور ابہام کو ختم کرنےوالے ہیں-جیسا کہ رسول اللہ(ﷺ) کے فرائض منصبی میں قرآن کی تبیین اوراحکام کی تشریح بھی شامل ہےجیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ‘‘[7]

’’اے محبوب (ﷺ) ہم نے تمہاری ہی طرف یہ یاد گار اتاری کہ تم لوگوں سے بیان کردو جو ان کی طرف اترا اور کہیں وہ دھیان کریں‘‘-

دورِ حاضر کے عظیم مُفسر علامہ غلام رسول سعیدیؒ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ اگر احادیث کو مآخذ اور حجت نہ مانا جائے تو دین نامکمل اور ناقابلِ عمل رہےگا جیساکہ موصوف فرماتے ہیں کہ:

’’وراثت کا بھی قرآن مجید میں ذکر ہےلیکن عصبات اور ذوی الارحام کے فرق اور ان میں ترتیب اور ’’احق بالوراثت‘‘ کا بیان نہیں ہے،اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے صرف کتاب نازل کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ کتاب کے ساتھ اس کی تعلیم،تشریح اور تفصیل کیلئے نبی کریم (ﷺ)  کو معبوث فرمایا اور کتاب میں مذکور تمام احکام کی عملی تصویر اور نمونہ کےلئے آپ (ﷺ)کو بھیجا-صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ (ﷺ) سے براہ راست یہ تعلیم حاصل کی اور ہمارے لیےاس تعلیم کے حصول کا ذریعہ صرف مروجہ کتب احادیث ہیں اور اگر ان کتب احادیث کو معتبر مآخذ اور حجت نہ مانا جائےتو دین نامکمل اور ناقابل عمل رہے گا اور بندوں پر اللہ کی حجت قائم نہیں ہوگی اور قرآن مجید کی اکثر و بیشتر آیتوں کے معانی معلوم نہیں ہو سکیں گے‘‘[8]-

اگر اصولیین کے مختلف مناہج کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اُن کی اکثریت اس کی قائل ہے کہ :

I. سُنت کے ذریعہ قرآن کریم کے عموم کی تخصیص کی جا سکتی ہے -

                II. سُنّت کی ذریعے قرآن کریم کے مُطلَق فرامین کی تقیید اور تنسیخ کی جا سکتی ہے -

                III. سُنّت کے ذریعے قرآن کی سب سے قابلِ اعتبار تاویل کی جا سکتی ہے -

                IV. قرآن کے اجمال کی معتبر ترین تفصیل سُنّت ہے -

                V. قرآن مجید کے قابل تفسیر الفاظ کو حدیث ِمبارکہ مُفَسَّر کرتی ہے-

                VI. آپ (ﷺ)کےفرائض نبوت میں قرآن کا لقبِ مُبیّن سے نوازنا ، قرآن کی تعلیم، تشریح اورتفصیل کی دلیل ہے-

                VII. احکامِ قرآنی میں احادیث رسول (ﷺ) استثنائی  صورت حال کی وضاحت فرماتی ہے-

                VIII. ہر وہ بات جو (اگر بالفرض) قرآن کریم میں مبہم طور پہ بیان ہوئی ہے تو اُس کی اجمع و اصح توضیح سُنّت ہی ہے 

                IX. اور ایسی بات جو قرآن میں اختصار سے آئی ہے اُس کی معتبر ترین تشریح سُنت ہی ہے

مذکورہ نِکات کو حضرت معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ)سے مروی حدیث[9] کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے-یہ حدیث اصول فقہ کی بنیاد ہے جس میں بطور مآخذ قرآن و حدیث حکم شرعی کے حصول کے لئے بالترتیب بیان ہوئے ہیں-  کہ درپیش مسئلہ کا حکم معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے قانون کے کس مآخذ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ؟ یقیناً قرآن کریم سے رہنمائی لی جائے گی اگر قرآن سے نہ ملے تو حدیث کی طرف رجو ع کیا جائے گا-لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ قرآن میں حکم ملے تو سنت کی طرف نہیں جائیں گے؟ ہرگز نہیں-سنت کی طرف جانا ضروری ہے کیونکہ سنت سے قرآن کریم کی شرح ہوتی ہے-یا ممکن ہے کہ سنت نے اس قرآنی حکم جو بظاہر عام ہو لیکن سنت نے اس کی تخصیص کردی ہو وغیرہ-

علامہ عبد العزيز بن عبد الله بن عبد الرحمن الراجحيؒ اسی تناظر میں احادیث کے ذریعے قرآنی احکام کی تقیید اور تخصیص پر فرماتے ہیں :

’’وأن القرآن إلى السنة أحوج من السنة إلى القرآن‘‘[10]

’’سنت قرآن کریم کی شاید اتنی محتاج نہیں جتنا قرآن کریم سنت کا محتاج ہے‘‘-

اسی طرح قرآن مجید نے بعض چیزوں کا عمومی حکم بیان فرمایا لیکن نبی کریم (ﷺ) نے ان میں سے بعض چیزوں کے استثنیٰ کا بیان فرمایا مثلاً قرآن مجید میں حکم ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں پڑھا جائے:

’’إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا‘‘[11]

’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے‘‘-

اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر نماز اپنے وقت میں پڑھی جائے، لیکن نبی کریم (ﷺ) نے عرفات میں عصر  کو ظہر کے وقت میں پڑھا اور مزدلفہ میں مغرب کی نماز کو عشاء کے وقت میں پڑھا، اس سے معلوم ہوا کہ عرفات اور مزدلفہ میں یہ دو نمازیں اس عام حکم اور قاعدہ کلیہ سے مستثنیٰ ہیں-اس کی اور بھی نظائر ہیں،حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری (﷜)کی ایک گواہی کو دو گواہوں کے قائم مقام قرار دینا شامل ہیں‘‘-[12]اسی مثال کو امام شاطبیؒ یوں بیان فرماتے ہیں کہ:

’’سنت اپنے معنی کے اعتبار سے قرآن کی طرف راجع ہے-وہ قرآن کے مجمل کی تشریح،اس کی مشکل کی تشریح اور اختصار کی تفصیل کرتی ہے‘‘-[13]

یعنی سنتِ رسول (ﷺ)مجمل کی تفسیر،مشکل  کو آسان اور مطلق کو مقید کرتی ہے- مطلق سے مراد کسی عبارت میں ایسے عمومی یا غیر متعین الفاظ کا  استعمال جو بنا کسی قید یا حد،کثیر التعداد اشیاء کو اپنے احاطہ میں لئے ہو-

مثلاً فرضیتِ زکوٰۃ کے متعلق ہے کہ زکوٰۃ فرض ہے-یہ حکم مطلق ہے لیکن اگر کہا جائے زکوۃ فرض ہے عاقل پر، تو مجنوں نکل گئے-بالغ پر،تو بچے نکل گئے اور صاحبِ نصاب پر تو غریب نکل گئے-یہاں پر عاقل، بالغ اور صاحبِ نصاب نے فرضیتِ زکوٰۃ کو مقید کردیا-

’’حضرت علی (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ جب فرضیت حج کی آیت نازل ہوئی:

’’وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا“[14]

’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو‘‘-

’’تو لوگوں نے پوچھا:یا رسول اللہ (ﷺ)!کیا ہر سال؟ آپ (ﷺ)نے سکوت فرمایا،پھر لوگوں نے دریافت کیا:کیا ہر سال؟ تو آپ (ﷺ) نے فرمایا:نہیں،اگر میں ہاں کر دیتا تو ہر سال حج کرنا تم پر فرض ہو جاتا اور اگر ہر سال فرض ہو جاتا تو تمہارے بس میں نہ ہوتا-اس وقت مذکورہ بالا آیت کا نزول ہوا‘‘- [15]

احکامِ حج کو سنت کے مزید تخصیص کیا گیا ہے جس کی وضاحت مُفسر ملا احمد جیونؒ یوں فرماتے ہیں کہ:

’’اس مقام میں ایک اشکال ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرات علمائے کرام نے وجوب ِ حج کی شرائط میں سے یہ بھی کہی ہے کہ حج کرنے والا ’’آزاد‘‘ ہونا چاہیے اور ’’بالغ‘‘ ہونا چاہیے-ان حضرات نے ان شرائط کا تمسک حضور نبی کریم(ﷺ) کے اس قول مبارک سے کیا ہے:

’’ایما عبد حج عشرحجج ثم اعتق فعلیہ حجۃ الاسلام و ایماصبی حج عشر حجج ثم بلغ فعلیۃ حجۃ الاسلام‘‘

’’جس غلام نے حالت غلامی میں دس حج بھی کئے پھر اسے آزاد کر دیا گیا تو اس پر فرضی حج اب بھی لازم ہے اور جس نابالغ نے دس حج کئے پھر بالغ ہو گیا اس پر بھی حج لازم ہے‘‘-

اسی طرح حضرات علمائے کرام نے عورت کے لئےخاوند یا محرم ساتھ ہونے کی بھی شرط لگائی ہے-جس کی دلیل حضور نبی کریم (ﷺ) کا یہ قول شریف ہے:

’’لا یحجن امراۃ الاومعھا محرم‘‘

’’ عورت ہرگز محرم کے بغیر حج نہ کرے‘‘-

لیکن نص قرآنی ان شرائط و قیودات سے عام ہے-(یعنی ان کی پابندی اور تخصیص نہیں کرتی)---پس انتہائی طور پر یہ کہا جا سکتا ہےکہ یہ آیت اگرچہ عام ہے لیکن اس سے بعض افراد کو حدیث سے مخصوص کر لیا گیا ہے‘‘-[16]

امام شاطبیؒ حدیث کو ماخذ دین و شریعت بیان کرتے ہوئے قرآن مجید کے کچھ مختلف احکام بیان فرماتے ہیں جو اجمالاً بیان ہوئے ہیں جن کی تفسیر احادیث نے بیان فرمائیں ہیں:

’’حدیث علماء کے نزدیک دوسرا مآخذ مشہور ہے(یعنی یہ کہ احادیث قرآن کی شارح ہیں) مثلاً مندرجہ ذیل احادیث جو قرآن کے مجمل احکام کی تشریح کرتی ہیں یا تو وہ اس کی عملی کیفیات بیان کرتی ہیں یا اسباب،شرائط اور موانع لواحق اور اس کے مثل چیزیں بیان کرتی ہیں-مثلاً احادیث سے مختلف نمازوں کے اوقات، رکوع و سجود اور دیگر احکام کی تفصیلات معلوم ہوتی ہیں-زکوٰۃکی مقدار، اوقات، نصاب اور کن چیزوں پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہےاور کن پر نہیں ہوتی ان کی تشریح -اسی طرح روزہ کے احکام اور روزہ سے متعلق وہ امور جن کی صراحت قرآن میں نہیں ہے-حدث اصغر و حدث اکبر کی صورت میں طہارت،حج،ذبیحہ اور شکار کے احکام،حلال اور حرام جانوروں کا بیان، نکاح اور اس کے متعلقات جیسے طلاق، رجعت، ظہار، لعان وغیرہ کےاحکام اور قصاص کی قسم کے جرائم وغیرہ-یہ احادیث قرآن کے مجمل کا بیان ہیں‘‘-[17]

المختصر! حضور نبی کریم (ﷺ) کی احادیثِ مبارکہ کو دین و شریعت کا معتبر مآخذ و مصدر نہ ماننے، احادیث کو تشریحی و تشریعی حیثیث نہ دینےاورحجتِ دین تسلیم نہ کرنے،شرعی و دینی اصولوں میں صرف تضاد واقعہ نہ ہو گا بلکہ ہم، فی الاصل، دین اسلام کی حضورنبی کریم (ﷺ) کے طفیل ملنےوالی حقیقی ہدایت سےبھی محروم ہوجائیں گئے-مزیدجبکہ اللہ تعالیٰ نےصرف نزول کتاب قرآن مجید پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ قرآن کی تعلیم، تشریح اورتفصیل کیلئے آپ (ﷺ)  کے فرائض منصبی ذکر فرماتے ہوئے آپ (ﷺ) کو لقب و صفتِ مُبیّن سے نوازا تو دین کا اصل الاصول یہ ہے کہ قرآن کی کامل تفہیم کیلئے احادیثِ رسول (ﷺ) کے بغیر چارہ نہیں ، اور ہر وہ حدیث جس کا رسول اللہ (ﷺ) سے صادر ہونا ثابت ہو اُسے جُزوِ ایمان بنائے بغیر نُورِ قرآن سینے میں داخل نہیں ہوتا -

٭٭٭


[1](آل عمران:7)

[2](تفسیر تبیان القرآن،ج:2، ص:64)

[3](تفسیر ابن کثیر، ج:1، ص:494)

[4](الاتقان  فی القرآن علوم القرآن، ج:1، ص:410)

[5](تفسیراتِ احمدیہ، ص:288)

[6](حجیتِ سنت، ص:444)

[7](النحل:44)

[8](تبیان القرآن، ج:8، ص:455)

[9](جامع ترمذی،باب ماجاء فی القاضی کیف یقضی)

[10](شرح كتاب السنة للبربهاري، ج:8، ص:166)

[11](النساء:103)

[12](تبیان القرآن، ج:2، ص:369)

[13](الموافقات،ج:4، ص:12)

[14](آلِ عمران:97)

[15](تفسیرِابنِ کثیر،ج:2، ص:178)

[16](تفسیراتِ احمدیہ، ص:303)

[17](الموافقات، ج:4، ص:25)

دینِ اسلام ایک ایسا نظامِ حیات ہےجس کی عمارت ایسےآفاقی اصولوں پر استوار ہے کہ ہر اصول نہ صرف دوسرے سے ہم آہنگ و مطابقت میں یکتا ہے بلکہ ان کےمابین تضاد ممکن نہیں-کسی ایک مسلّمہ اصول سےانحراف باقی تمام قوانین کی اصولی موافقت میں تضاد کو جنم دیتا ہے ، اِس لئے دین کے کسی بھی مسلّمہ اصُول سے اِنحراف ممکن نہیں ہے -دینِ اسلام میں ان اصولوں کا بنیادی مآخذ قرآن مجید ہے- قرآن کریم نہ صرف شرعی احکام کی وضاحت بیان فرماتا ہے بلکہ احکام شرعی کے لئے دیگر مآخذ شریعت کی رہنمائی بھی کرتا ہے-قرآن کریم کے بعد سنتِ رسول(ﷺ)،قانون وضع کرنے کیلئے دوسرا ماخذ ہے جو قرآن مجید کا تسلیم شدہ مآخذ ہے-جبکہ دوسری طرف قرآن پاک کی ایک ایک آیت کا ثبوت ارشادِ نبوی(ﷺ) سے ہی ملتا ہے-بالفاظ دیگرقرآن و حدیث دونوں کا باہمی تعلق و ربط ہے-قرآن مجید سے حقیقی مراد کلامِ الٰہی سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے سنت نبوی (ﷺ)سے راہنمائی انتہائی ضروری ہو جاتی ہے ورنہ  متشابہ آیات کا فہم ممکن نہیں-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌط فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْـلِہٖج وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللہُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاج وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ‘‘[1]

’’وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیراثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے‘‘-

متشابہ آیات جن میں کئی معنوں کا احتمال ہوتا ہے-محمد بن جعفر بن زبیر نے کہا محکم وہ آیات ہیں جن کا صرف ایک معنی اور محمل ہے اور اس میں کسی اور تاویل کی گنجائش نہیں ہے اور متشابہ وہ آیات ہیں جن میں کئی تاویلات کی گنجائش ہے-

ان تاویلات میں شارع (اللہ رب العزت ) کی ذات کے قریب معنوں تک پہنچنے اور گمراہی سے بچنے کے لئے حضرت عمر بن الخطاب (﷜)فرماتے ہیں کہ:

’’عنقریب لوگ قرآن کے متشابہ میں بحث کریں گے تو تم سنت کا علم رکھنے والے لوگوں کو لازم پکڑ لینا‘‘-[2]

صحابہ کرام (﷢)نے ہمیشہ اپنی راہنمائی کیلئے قرآن و سنت کو شعار بنائے رکھااور حقیقی مراد الہیٰ اوردین و شریعت کی تعبیر و تشریح کیلئے رسول کریم (ﷺ)کی احادیث سے راہنمائی حاصل کی-

قول مذکورہ کی مزید وضاحت حافظ ابن کثیر کی مندرجہ بالا آیت  کی تفسیر میں دیکھی جا سکتی ہے جیساکہ آپ فرماتے ہیں کہ :

’’اللہ تعالیٰ متشابہات کے ذریعےاپنے بندوں کے ایمان کو آزماتا ہے-جیسےحرام و حلال سے-یعنی متشابہ آیات کی باطل اور غلط تاویل نہ کی جائے اور نہ ہی ان میں کسی قسم کی تحریف کی جائے-لیکن دل میں کجی رکھنے والے لوگ متشابہ آیات کی طرف رجحان رکھتےہیں-وہ متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہیں جنہیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کےلئےتعبیر وتاویل کرتے ہیں-چونکہ یہ الفاظ کئی معانی کااحتمال رکھتے ہیں‘‘-[3]

ان کجی دل والے گمراہ کن گروہوں اور خوارج نےقرآن سے اپنے خود ساختہ نظریات کی تعبیر کرنا چاہی تو ان کےفرسودہ و گمراہ کن نظریات کی تعبیر سنت کی روشنی میں ممکن نہ ہو پائی اور نہ ہی احادیث سےمطابقت وموافقت پرمبنی نظریات کو تعبیر کر پائےجس کے نتیجے میں گمراہ گروہوں بشمول خوارج نےحدیث کو بطور ماخذ ماننے سے انکار کردیا-جس کی مزید وضاحت حضرت علی المرتضٰے (﷜) کے مندرجہ ذیل قول سے ہوتی ہےجوآپ نے حضرت عبداللہ ابن عباس (﷠) کو خوارج کے ساتھ گفتگو کیلئے روانہ کرتے ہوئے ادا فرمائے:

’’اذھب الیھم فخاصمھم ،ولاتحاجھم بالقرآن فانہ ذووجوہ ولکن خاصمھم بالسنتہ --- قال لہ: یا امیر المومنین فانا اعلم بکتاب اللہ منھم ،فی بیوتنا نزل، قال: صدقت ولکن القرآن حمال ذووجوہ،تقول و یقولون، و لکن خاصمھم بالسنن، فانھم لن یجدوا عنھا محیصا‘‘[4]

’’ان کے پاس جاؤ اوران سے بحث کرو،لیکن ان کے سامنے قرآن سے استدلال نہ کرنا ،اس لئے کہ قرآن کے الفاظ میں مختلف معانی کا احتمال ہوتا ہے بلکہ ان کےساتھ سنت کے حوالے سے گفتگو کرنا-حضرت عبد اللہ ابن عباس (﷠)نے کہا کہ اے امیر المومنین میں قرآن کریم کو ان سے زیادہ جاننے والا ہوں-یہ توہمارے گھروں میں اترا ہے(وہ قرآن کی گفتگو میں غالب نہیں آسکتے)-حضرت علی (﷜)نے فرمایا تم ٹھیک کَہ رہے ہو لیکن قرآن کریم احتمالات کا حامل ہے-تم ایک مطلب بیان کرو گے تو دوسرامطلب نکال لیں گے-تم ان کے ساتھ سنن کی بنیاد پر بحث کرنا ،کیونکہ ان سے بھاگنے کی راہ انہیں نہیں مل سکے گی‘‘-

قرآن مجیدکےالفاظ میں مختلف معنوں کے احتمال  کےباعث علماء اصول واضح کرتے ہیں کہ تمام آیاتِ قرآنی کےمعانی ایک درجہ کی بجائے مختلف مدارج میں واضح ہوتےہیں- آیات ِ قرانی کے معانی واضح کرنے کےلئے فقہاء انہیں دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں-’’واضح الدلالتہ‘‘ اور’’خفی الدلالتہ‘‘-جنہیں محکم و متشابہ کے تحت مُفسر ملا احمد جیون(﷫) یوں بیان کرتے ہیں کہ:

’’محکم کی اگر مراد واضح ہو تو اسے ظاہر کہتے ہیں-اگر وضاحت میں کچھ زیادتی ہو تو اسے نص اور زیادتی ہو تو اسے ’’مفسر‘‘کہتے ہیں-یونہی متشابہ اگر ایسا ہے کہ اس کی مراد پوشیدہ ہے تو اسے خفی کہتے ہیں -اگر خفا زیادہ ہوتو مشکل اور اگر اور زیادہ ہو تو مجمل کہتے ہیں-اسی طرح صاحب اتقان نے ظاہر،نص اور مفسر کو ’’محکم‘‘ کے تحت داخل کیا اور خفی مشکل اور مجمل کو ’’متشابہ‘‘ کی اقسام کہا--- تمام اقسام کو انہی دو(محکم اور مفسر) میں منحصر کیا‘‘-[5]

اگر منکرین حدیث ہر آیت کا معنی ’’واضح الدلالتہ‘‘ سے تعبیر کریں اور ہر لفظ کو مفسر یا محکم جانیں کہ مفسر یا محکم کے علاوہ کسی دوسرے معانی اورتعبیر کا احتمال ہی نہیں-پھر جو متشابہ آیات بیان ہیں ان کا معنی ہر قاری خود اپنے وہم و گمان سےمتعین کرے گا اور تاویل کرتا رہے گا-جبکہ اس پوزیشن کو تسلیم کرنے سے’’واضح الدلالتہ‘‘  خود’’خفی الدلالتہ‘‘ میں تبدیل ہوجاتی ہے-یوں ان احتمالات پرحتمی معانی متعین کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے-ایسی اتھارٹی کی ضرورت پیش آتی ہے جو ایک معانی معین کرے-کسی لفظ میں مختلف معنوں کا احتمال اور اس کے تعین کے لئے عصر جدید میں عمدہ اور قابل ِ عمل مثال کسی ملک کی اعلیٰ عدالتیں ہیں جو کسی آئینی دفعات کی تعبیر کرنے کے لئے حتمی شمار ہوتی ہیں-بعین قرآن کی تفسیر میں حدیث تخصیص و وضاحت کی حتمی حیثیت رکھتی ہے - اِس اعتبار سے بھی آقا کریم (ﷺ)کی ذاتِ گرامی وہ ہے کہ آپ کے نُطق و کلام کے وحی ہونے پہ قرآنی تصدیق موجود ہے ، لہٰذا قرآن کی جو شرح آپ (ﷺ) فرمائیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معتبر ہے - یعنی آپ (ﷺ) اپنی سُنّت کے ذریعے عین منشائے الٰہی کے مطابق قرآن کی شرح و وضاحت فرمانے والے ہیں -  مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تصدیق و تحسین نازل فرمائی کہ آپ (ﷺ) اپنی اُمّت کو حکمت کی تعلیم عطا فرماتے ہیں حکمت سے مُراد بھی سُنّت ہے - جیسا کہ شیخ عبد الغنی محمد عبد الخالق المصری اپنی تصنیف میں بیان کرتے ہیں کہ:

’’ آپ(ﷺ) اپنی امت کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور حکمت سے مراد،جیساکہ امام شافعی (﷫) اور دوسرے اہل علم نے کہا ہے،سنت ہے-اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اس سے مراد کتاب اللہ ہے تب بھی امت کو اس کی تعلیم دینے کا مطلب اس کی شرح،اس کی مجمل باتوں کی تفصیل اور اس کے مشکل امور کی تو ضیح ہوگا،اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آنحضرت نے اپنے قول فعل اور تقریر (سکوت) سے کتاب اللہ کی جو تشریح کی ہے وہ حجت ہے‘‘-[6]

بالفاظ دیگر حضور نبی کریم (ﷺ) قرآن مجید کی مزید وضاحت،  تفصیل اور ابہام کو ختم کرنےوالے ہیں-جیسا کہ رسول اللہ(ﷺ) کے فرائض منصبی میں قرآن کی تبیین اوراحکام کی تشریح بھی شامل ہےجیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ‘‘[7]

’’اے محبوب (ﷺ) ہم نے تمہاری ہی طرف یہ یاد گار اتاری کہ تم لوگوں سے بیان کردو جو ان کی طرف اترا اور کہیں وہ دھیان کریں‘‘-

دورِ حاضر کے عظیم مُفسر علامہ غلام رسول سعیدی (﷫) مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ اگر احادیث کو مآخذ اور حجت نہ مانا جائے تو دین نامکمل اور ناقابلِ عمل رہےگا جیساکہ موصوف فرماتے ہیں کہ:

’’وراثت کا بھی قرآن مجید میں ذکر ہےلیکن عصبات اور ذوی الارحام کے فرق اور ان میں ترتیب اور ’’احق بالوراثت‘‘ کا بیان نہیں ہے،اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے صرف کتاب نازل کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ کتاب کے ساتھ اس کی تعلیم،تشریح اور تفصیل کیلئے نبی کریم (ﷺ)  کو معبوث فرمایا اور کتاب میں مذکور تمام احکام کی عملی تصویر اور نمونہ کےلئے آپ (ﷺ)کو بھیجا-صحابہ کرام (﷢) نے رسول اللہ (ﷺ) سے براہ راست یہ تعلیم حاصل کی اور ہمارے لیےاس تعلیم کے حصول کا ذریعہ صرف مروجہ کتب احادیث ہیں اور اگر ان کتب احادیث کو معتبر مآخذ اور حجت نہ مانا جائےتو دین نامکمل اور ناقابل عمل رہے گا اور بندوں پر اللہ کی حجت قائم نہیں ہوگی اور قرآن مجید کی اکثر و بیشتر آیتوں کے معانی معلوم نہیں ہو سکیں گے‘‘[8]-

اگر اصولیین کے مختلف مناہج کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اُن کی اکثریت اس کی قائل ہے کہ :

                       I.            سُنت کے ذریعہ قرآن کریم کے عموم کی تخصیص کی جا سکتی ہے -

                     II.            سُنّت کی ذریعے قرآن کریم کے مُطلَق فرامین کی تقیید اور تنسیخ کی جا سکتی ہے -

                   III.            سُنّت کے ذریعے قرآن کی سب سے قابلِ اعتبار تاویل کی جا سکتی ہے -

                   IV.            قرآن کے اجمال کی معتبر ترین تفصیل سُنّت ہے -

                     V.            قرآن مجید کے قابل تفسیر الفاظ کو حدیث ِمبارکہ مُفَسَّر کرتی ہے-

                   VI.            آپ (ﷺ)کےفرائض نبوت میں قرآن کا لقبِ مُبیّن سے نوازنا ، قرآن کی تعلیم، تشریح اورتفصیل کی دلیل ہے-

                VII.             احکامِ قرآنی میں احادیث رسول (ﷺ) استثنائی  صورت حال کی وضاحت فرماتی ہے-

               VIII.             ہر وہ بات جو (اگر بالفرض) قرآن کریم میں مبہم طور پہ بیان ہوئی ہے تو اُس کی اجمع و اصح توضیح سُنّت ہی ہے 

                   IX.              اور ایسی بات جو قرآن میں اختصار سے آئی ہے اُس کی معتبر ترین تشریح سُنت ہی ہے

مذکورہ نِکات کو حضرت معاذ بن جبل (﷫)سے مروی حدیث[9] کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے-یہ حدیث اصول فقہ کی بنیاد ہے جس میں بطور مآخذ قرآن و حدیث حکم شرعی کے حصول کے لئے بالترتیب بیان ہوئے ہیں-  کہ درپیش مسئلہ کا حکم معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے قانون کے کس مآخذ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ؟ یقیناً قرآن کریم سے رہنمائی لی جائے گی اگر قرآن سے نہ ملے تو حدیث کی طرف رجو ع کیا جائے گا-لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ قرآن میں حکم ملے تو سنت کی طرف نہیں جائیں گے؟ ہرگز نہیں-سنت کی طرف جانا ضروری ہے کیونکہ سنت سے قرآن کریم کی شرح ہوتی ہے-یا ممکن ہے کہ سنت نے اس قرآنی حکم جو بظاہر عام ہو لیکن سنت نے اس کی تخصیص کردی ہو وغیرہ-

علامہ عبد العزيز بن عبد الله بن عبد الرحمن الراجحي (﷫) اسی تناظر میں احادیث کے ذریعے قرآنی احکام کی تقیید اور تخصیص پر فرماتے ہیں :

’’وأن القرآن إلى السنة أحوج من السنة إلى القرآن‘‘[10]

’’سنت قرآن کریم کی شاید اتنی محتاج نہیں جتنا قرآن کریم سنت کا محتاج ہے‘‘-

اسی طرح قرآن مجید نے بعض چیزوں کا عمومی حکم بیان فرمایا لیکن نبی کریم (ﷺ) نے ان میں سے بعض چیزوں کے استثنیٰ کا بیان فرمایا مثلاً قرآن مجید میں حکم ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں پڑھا جائے:

’’إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا‘‘[11]

’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے‘‘-

اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر نماز اپنے وقت میں پڑھی جائے، لیکن نبی کریم (ﷺ) نے عرفات میں عصر  کو ظہر کے وقت میں پڑھا اور مزدلفہ میں مغرب کی نماز کو عشاء کے وقت میں پڑھا، اس سے معلوم ہوا کہ عرفات اور مزدلفہ میں یہ دو نمازیں اس عام حکم اور قاعدہ کلیہ سے مستثنیٰ ہیں-اس کی اور بھی نظائر ہیں،حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری (﷜)کی ایک گواہی کو دو گواہوں کے قائم مقام قرار دینا شامل ہیں‘‘-[12]اسی مثال کو امام شاطبی(﷫) یوں بیان فرماتے ہیں کہ:

’’سنت اپنے معنی کے اعتبار سے قرآن کی طرف راجع ہے-وہ قرآن کے مجمل کی تشریح،اس کی مشکل کی تشریح اور اختصار کی تفصیل کرتی ہے‘‘-[13]

یعنی سنتِ رسول (ﷺ)مجمل کی تفسیر،مشکل  کو آسان اور مطلق کو مقید کرتی ہے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر