مُشکلات القرآن

مُشکلات القرآن

اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:

’’أِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰ نَہٗoفاِذَا قَرَاْنٰـہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗo ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗo[1]

’’آپ (قرآن کو یاد کرنے کے لیے )جلدی میں اپنی زبان کو حرکت نہ دیاکریں ،بے شک اس کو (آپ کے سینے میں)جمع کرنا اور آپ کو اس کا پڑھانا ہمارے ذمے ہے ،پس جب ہم(یعنی جبریلِ امین) اس کو پڑھ چکیں تو آپ اس کے پڑھے ہوئے کی پیروی کیا کریں ،پھر اس کا (معنی)بیان کرنا (بھی)ہمارے ذمۂ کرم پر ہے‘‘-

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قرآن کے معانی اورمطالب، جو اللہ تعالیٰ کی مراد ہیں ،کو جاننے کا مدار لغتِ عربی پر ہے،سو جسے عربی پر عبور ہو،وہ قرآن کے حقیقی معنی کوسمجھ سکتا ہے،لیکن ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان فرمایا کہ جس ذاتِ مبارک کی طرف سے قرآن آیا،بیان بھی اُسی کی طرف سے آئے گا اور جس پر قرآن نازل ہوا،یقیناً بیان بھی اُسی پر نازل ہوگا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِط وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo[2]

’’(انہیں بھی) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ (بھیجا تھا)، اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے وہ (پیغام اور احکام)خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں‘‘-

عربی پر عبور یا لغتِ عربی سے واقفیت کے باوجود قرآن کے معانی اور مطالب کو پوری طرح سمجھنا آسان نہیں ہے اور بعض مقامات تو وہ ہیں، جنہیں ’’مُشکلاتُ القرآن‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے،ان میں آیاتِ متشابہات بھی ہیں اور بعض دیگر مقامات بھی ہیں-عربی زبان کی خصوصیت یہ ہے کہ بعض اوقات ایک کلمہ ایک سے زیادہ معانی کا احتمال رکھتا ہے اور کہاں کونسا معنی لیا جانا چاہیے، اس کے لیے روحِ قرآن کو جاننا از حد ضروری ہے-مثلاً:قرآن کریم میں ایک ہی جیسے کلمات اللہ تعالیٰ اور رسولِ مکرّم (ﷺ)کے لیے نازل ہوئے ہیں،جیسے:عَزِیز،رؤف ،رحیم وغیرہ-توجہاں یہ کلمات اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے استعمال ہوں گے،وہاں وہ معنی مراد لیے جائیں گے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے شایانِ شان ہیں اور جب وہی کلمہ رسول اللہ (ﷺ) کے لیے استعمال ہوگا تو وہاں وہ معنی مراد ہوں گے جو ذاتِ رسالت مآب (ﷺ)سے مناسبت رکھتے ہیں، اسی طرح بعض اسماء تو عام بندوں کے لیے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں، جیسے رحیم، کریم، عزیز،علیم وغیرہ-

ایسے مقامات کو مترجمین نے،جن میں بڑے نامی گرامی علماء شامل ہیں،اردو زبان میں منتقل کرنے میں لغزشیں کھائی ہیں، ذاتِ باری تعالیٰ اور ذاتِ رسالت مآب (ﷺ) کے لیے استعمال کیے گئے الفاظ کے لیے اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ لغت میں اس کا اردو معنی یہ ہے، بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کون سا معنی ذاتِ باری تعالیٰ اور ذاتِ رسالت مآب (ﷺ) کی شان سے مناسبت رکھتا ہے-ذیل میں ہم چند مثالوں سے اپنے موقف کو واضح کریں گے:

(1)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’حَتّٰی إِذَا اسْتَیَٔسَ الرُّسُلُ وَظَنُّواْ أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُواْ جَائَ ہُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَن نَّشَآء وَلَا یُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْن‘‘[3]

اس آیت کا ترجمہ مختلف مترجمین نے یہ کیا ہے:

موضح فرقان:’’ یہاں تک کہ جب ناامید ہونے لگے رسول اورخیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہاگیاتھا، پہنچی ان کو ہماری مدد،پھر بچادیا جن کو ہم نے چاہا اور پھرتا نہیں عذاب ہماراقوم گنہگار سے‘‘-

بیان القرآن: ’’یہاں تک کہ پیغمبر( اس بات سے) مایوس ہوگئے اوران( پیغمبروں )کو گمانِ غالب ہوگیا کہ ہمارے فہم نے غلطی کی،ان کو ہماری مددپہنچی ،پھر(اس عذاب سے)ہم نے جس کو چاہا وہ بچالیا گیااور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے نہیں ہٹتا‘‘-

فتح المجید:’’یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا کہ (اپنی نصرت کے بارے میں جو بات انہوں نے کہی تھی ، اس میں) وہ سچے نہ نکلے، تو ان کے پاس ہماری مدد آپہنچی ،پھر جسے ہم نے چاہا بچادیا اور ہمارا عذاب (اتر کر) گنہگار لوگوں سے پھرا نہیں کرتا‘‘-

تفسیر ماجدی:’’(پہلے بھی مہلتیں دی جاچکی ہیں) یہاں تک کہ پیغمبر مایوس ہی ہوگئے ہیں اور گمان کرنے لگے کہ ان سے غلطی ہوئی (کہ اتنے میں) انہیں ہماری مدد آپہنچی ،سو ہم نے جس کے لیے چاہا وہ بچالیا گیااور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے ہٹتا نہیں‘‘-

رسلِ عظام (علیھم السلام) کے بارے میں ان مترجمین کے یہ کلمات انبیائے کرام کے شایانِ شان نہیں ہیں:

(الف)’’خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہاگیاتھا،(موضح فرقان)‘‘-

ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ نبی جو معصوم ہوتا ہے ، کیا وہ یہ سوچ بھی سکتا ہے کہ العیاذ باللہ !اللہ اُن سے جھوٹ بولے گا؟

(ب)’’اوران پیغمبروں کو گمانِ غالب ہوگیا کہ ہمارے فہم نے غلطی کی،(بیان القرآن)‘‘-

را سوچیے!اگر وحیِ ربانی کے بارے میں نبی کی فہم میں غلطی کا امکان ادنیٰ درجے میں بھی تسلیم کرلیا جائے،تو کیا نبی ’’مُطَاعِ مُطلَق‘‘ ہوسکتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّٰہِ‘‘[4]

’’اور ہم نے ہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘-

جس کی بابت ایک فیصد یا ایک فی ہزار بھی غلطی کے امکان کو تسلیم کرلیا جائے، توکیا اُسے ’’مُطَاعِ مُطلَق‘‘قرار دیا جاسکتا ہے؟

(ج)’’اور انہوں نے خیال کیا کہ (اپنی نصرت کے بارے میں) جو بات انہوں نے کہی تھی ، (اس میں) وہ سچے نہ نکلے-(فتح المجید)‘‘-

ذرا سوچئے!کیا نبی العیاذ بااللہ! اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی وعید کی بابت اپنے آپ کو جھوٹا سمجھ سکتا ہے؟-نبی تو معیارِ صدق ہوتا ہے -

(د)’’یہاں تک کہ پیمبر مایوس ہی ہوگئے ہیں اور گمان کرنے لگے کہ ان سے غلطی ہوئی-(تفسیر ماجدی)‘‘-

ذرا سوچئے! اللہ تعالیٰ تو مقامِ نبوت کے بارے میں فرماتا ہے:

’’مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ ‘‘[5]

’’جس نے رسول (ﷺ) کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی‘‘-

نیز ان تمام تراجم میں مطلقاً رسولوں کی طرف ناامیدی کی نسبت کی گئی ہے ،جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی نصرت سے نا امید ہوگئے اور یہ نبوت ورسالت کی شان کے خلاف ہے-

ذیل میں ہم اکابر علمائے اہلسنت کے دو تراجم نقل کر رہے ہیں جو ان فحش غلطیوں سے پاک ہیں اوررُسلِ عِظام کے شایانِ شان ہیں:

کنز الایمان:’’ یہاں تک کہ جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی اور لوگ سمجھے کہ رسولوں نے ان سے غلط کہاتھا ،اس وقت ہماری مدد آئی تو جسے ہم نے چاہا بچالیا گیا، اور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے پھیرا نہیں جاتا‘‘-

امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادریؒ نے اللہ کی ذات سے رسولوں کی ناامیدی کی بات نہیں کی ،بلکہ یہ کہا :’’جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی‘‘ اورکذب کی نسبت رسولوں کی طرف نہیں کی گئی ،بلکہ اُن کے مخاطَب لوگوں کی طرف کی گئی ہے کہ معاذ اللہ!ان لوگوں نے اپنے گمان میں یہ سمجھا کہ اُن کو عذابِ الٰہی کی جو وعید سنائی گئی تھی،العیاذ باللہ! اُس میں رسول جھوٹے ثابت ہوئے، حالانکہ رسولوں نے قبولِ حق سے انحراف کی صورت میں عذابِ الٰہی کی سچی وعید سنائی تھی اور اس کا وقت مقرر نہیں کیا تھا کہ اس کے گزرنے پر ان کی طرف جھوٹ کی نسبت کی جاتی،چنانچہ بالآخر عذابِ الٰہی مجرموں سے نہیں ٹلا، وہ اس کا شکار ہوئے اور اللہ کے رسول سچے ثابت ہوئے-

انوارِ تبیان القرآن:’’یہاں تک کہ جب رسول لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے اور لوگوں نے یہ گمان کرلیا کہ ان کو ایمان نہ لانے پر جھوٹی دھمکیاں دی گئی تھیں تو اُن رسولوں کے پاس ہماری مدد آگئی اور جس کو ہم نے چاہا عذاب سے بچالیا ،کیونکہ ہمارا عذاب مجرموں سے لوٹایا نہیں جاتا‘‘-

مفسرین کرام نے ایک معنی یہ لیا ہے کہ رسول لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے اور صاحب انوارِ تبیان القرآن علامہ غُلام رسول سعیدی رحمہ اللہ نے اُسی کو اختیار کیا ہے،یعنی اللہ کی نصرت سے مایوسی مراد نہیں ہے اور کذب کی نسبت منکرین کے گمانِ فاسد کی طرف کی گئی،ان تراجم سے شانِ نبوت ہرنقص سے بالا تر ثابت ہورہی ہے-

مترجم کو چاہیے کہ وہ ترجمہ کرتے وقت صرف کسی لفظ یا کلمے کے لغوی معنی پر انحصار نہ کرے،بلکہ یہ دیکھے کہ اس کے متعدد معانی میں سے کون سا معنی ہے جو ذاتِ باری تعالیٰ یا ذاتِ رسالت مآب (ﷺ)کے شایانِ شان ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیس اور نبی کی تعظیم وتوقیر دینی مسلّمات میں سے ہے اور ’’البقرۃ:104‘‘میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصول طے فرمادیا کہ نبی کریم (ﷺ)کے لیے ایسا ذو معنی کلمہ استعمال کرنا بھی ممنوع ہے،جس کے ایک معنی صحیح ہوں اور قائل کی مراد بھی یہی معنی ہوں،لیکن کوئی بدطینت شخص دور کا اہانت کا معنی مراد لے سکتا ہو-اسی لیے نبی کریم (ﷺ) کے لیے ’’رَاعِنَا‘‘کا کلمہ استعمال کرنے سے منع فرما دیا گیا اور حکم فرمایا:

’’اگر تمہیں نبی کریم (ﷺ) کی بات پوری طرح سے سمجھ میں نہ آئی ہو،تو ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’رَاعِنَا‘‘کی بجائے ’’اُنْظُرْنَا‘‘ (ہماری طرف نگاہِ کرم ہوجائے) کہا جائے اور مزید تاکید فرمائی کہ ابتداء ً ہی توجہ سے سنا کرو تاکہ نبی کریم (ﷺ) کو ایک ہی بات دوبارہ کہنے کی زحمت نہ دینی پڑے‘‘-

ذیل میں ہم ’’الانفال:30‘‘درج کر رہے ہیں:

(2)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللّہُ وَاللّہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْن‘‘[6]

اس کا ترجمہ بعض مترجمین نے یہ کیا ہے:

موضح فرقان: ’’وہ بھی داؤ کرتے تھے اور اللہ بھی داؤ کرتا تھااور اﷲکا داؤسب سے بہتر ہے‘‘-

(ترجمہ)غرائب القرآن: ’’اور حال یہ ہے کہ کافر داؤ کررہے تھے اور اللہ اپنا داؤ کررہا تھااور اللہ سب داؤکرنے والوں سے بہتر داؤ کرنے والا ہے‘‘-

تفہیم القرآن:’’وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہاتھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘-

ان آیات میں ان مترجمین حضرات نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے مکر کے یہ معنی کیے ہیں:

(الف):’’اللہ بھی داؤ کرتا تھا،(موضح فرقان)‘‘-

(ب):’’اللہ اپنا داؤ کر رہا تھا،(غرائب القرآن)‘‘-

(ج):’’اللہ اپنی چال چل رہا تھا،(تفہیم القرآن)‘‘-

اگرچہ لغت میں مکر کے معنی داؤکرنا یا چال چلنا بھی ہے،لیکن اردو زبان میں یہ کلمات مثبت معنی کی بجائے منفی معنی میں استعمال ہوتے ہیں، اس کے برعکس مندرجہ ذیل تراجم ملاحظہ فرمائیں:

کنز الایمان: ’’وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اﷲاپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھااور اﷲکی خفیہ تدبیر سب سے بہتر ہے‘‘-

انوارِ تبیان القرآن: ’’وہ اپنی سازش میں لگے ہوئے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر خفیہ تدبیر کرنے والا ہے‘‘-

اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے امام احمد رضا قادری اور علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے خفیہ تدبیر کے معنی کیے ہیں اور یہ معنی اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہیں-

(3)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’وَمَکَرُواْ وَمَکَرَ اللّہُ وَاللّہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ‘‘[7]

(ترجمہ)غرائب القرآن:’’اور یہود نے داؤ کیا اور اللہ نے ان سے داؤکیااور داؤکرنے والوں میں اللہ سب سے بہتر داؤ کرنے والا ہے‘‘-

لفظی ترجمۃ القرآن:’’اورمکر کیا انہوں نے اور مکر کیا اﷲنے اور اﷲبہتر ہے مکرکرنے والا‘‘-

موضح القرآن:’’اور فریب کیا ان کافروں نے اور فریب کیا اللہ نے اور اللہ کا داؤسب سے بہتر ہے‘‘-

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے صاحب ترجمہ غرائب القرآن نے ایک بار پھر مکر کے معنی ’’داؤ‘‘کیے ہیں اور صاحبِ لفظی ترجمۃ القرآن نے ’’مکر‘‘کیے ہیں اور صاحب موضح القرآن نے ’’فریب‘‘ کیے ہیں،اردو زبان میں یہ تینوں الفاظ منفی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں،جو اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہیں- یہاں امام احمد رضا قادری اور علامہ غلام رسول سعیدی نے دوبارہ ذاتِ باری تعالیٰ کی نسبت سے مکر کے معنی ’’خفیہ تدبیر‘‘کے کیے ہیں،جو ذاتِ باری تعالیٰ کے شایانِ شان ہیں:

(4)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’وَذَا النُّونِ إِذ ذَّہَبَ مُغَاضِباً فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَیْہ‘‘[8]

اس آیت کا ترجمہ بعض مترجمین حضرات نے یہ کیا ہے:

موضح فرقان:’’اور مچھلی والو کو جب چلا گیا غصہ ہو کر، پھر سمجھا کہ ہم نہ پکڑ سکیں گے اس کو‘‘-

فتح المجید: ’’اور ذوالنون (کو یاد کرو ) جب وہ اپنی قوم سے ناراض ہوکر غصے کی حالت میں چل دئیے اور خیال کیا کہ ہم ان پر قابو نہیں پاسکیں‘‘-

معانی القرآن:’’مچھلی والے (حضرت یونس علیہ السلام )کو یاد کرو، جب کہ وہ غصے سے چل دیا اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے‘‘-

تفہیم القرآن:’’اور مچھلی والے کوبھی ہم نے نوازا،یاد کروکہ جب وہ بگڑ کر چلا گیا تھا ‘‘-

اس آیت میں حضرت یونس علیہ السلام کے حوالے سے مترجمین حضرات نے یہ تراجم کیے ہیں:

(الف):’’پھر سمجھا کہ ہم نہ پکڑ سکیں گے اس کو،(موضح فرقان)‘‘-

(ب):’’اور خیال کیا کہ ہم ان کو پر قابو نہیں پاسکیں ،( فتح المجید)‘‘-

(ج):’’اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے،(معانی القرآن)‘‘-

ذرا سوچئے! ایک عام مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں یہ تصور نہیں کرسکتا کہ وہ اُسے پکڑ نہیں سکے گا یا اس پر قابو نہیں پاسکے گا،چہ جائیکہ ایک نبی یہ گمان کرے،یہ بات مقامِ نبوت کے خلاف ہے اور کافی خطرناک ہیں-اسی طرح صاحبِ تفہیم القرآن کا نبی کے بارے میں یہ کہنا ’’جب وہ بگڑ کر چلا گیا تھا‘‘، ہرگز مقامِ نبوت کے شایانِ شان نہیں ہے،بگڑ کر جانا تہذیب ووقار سے گرا ہوا لفظ ہے، اس کے برعکس علمائے اہلسنت نے یہ ترجمہ کیا ہے:

کنز الایمان:’’اور ذوالنون کو( یاد کرو) جب چلا غصے میں بھر ا توگمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے‘‘-

انوارِ تبیان القرآن:’’اور مچھلی والے(یونس)کو یاد کیجیے جب وہ (اپنی قوم پر) غضب ناک ہوکر نکلے تو انہوں نے یہ گمان کیا کہ ہم ہرگز ان پر تنگی نہیں کریں گے‘‘-

ان دونوں حضرات نے یہ ترجمہ کیا ہے:’’تو گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے‘‘ یا ’’انہوں نے یہ گمان کیا کہ ہم ہرگز ان پر تنگی نہیں کریں گے‘‘اور لغت میں جہاں قدرت کے معنی قابو پانے کے ہیں،وہیں پر اس کے ایک معنی ’’تنگی‘‘ کے بھی ہیں،جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اللّہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَاء ُ وَیَقَدِرُ‘‘[9]

’’اللہ جس کے لیے چاہتا ہے روزی کشادہ فرمادیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ فرمادیتا ہے‘‘-

(5)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنتَ عَلَیْہَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن یَنقَلِبُ علٰی عَقِبَیْہِ‘‘[10] ‘‘-

      بعض مترجمین حضرات نے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے:

موضح فرقان:’’اور نہیں مقرر کیا تھا ہم نے وہ قبلہ کہ جس پر تو پہلے تھا ،مگر اس واسطے کہ معلوم کریں کہ کون تابع رہے گا رسول کا اور کون پھر جائے گا الٹے پاؤں‘‘-

بیان القرآن:’’ اور جس سمت قبلہ پر آپ رہ چکے ہیں (یعنی بیت المقدس ) وہ تو محض اس لیے تھا کہ ہم کو معلوم ہو جاوے کہ کون رسول اللہ (ﷺ) کا اتباع اختیار کرتا ہے اور کون پیچھے کو ہٹتا جاتا ہے‘‘-

معانی القرآن:’’جس قبلہ پر تم پہلے سے تھے اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے‘‘-

تفسیر ماجدی:’’ اور جس قبلہ پر آپ (اب تک) تھے،اسے تو ہم نے اسی لیے رکھا تھا کہ ہم پہچان لیں رسول کا اتباع کرنے والوں کو الٹے پاؤں واپس چلے جانے والوں سے‘‘-

ان حضرات نے ’’لِنَعْلَمَ‘‘کے معنی کیے ہیں:

(الف)’’اس واسطے کہ معلوم کریں،(موضح فرقان)‘‘-

(ب): ’’اس لیے تھا کہ ہم کو معلوم ہوجاوے،(بیان القرآن)-

(ج):’’اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں،(معانی القرآن)‘‘-

(د):’’ہم نے اسی لیے رکھا تھا کہ ہم پہچان لیں،(تفسیر ماجدی)‘‘-

’’لِنَعْلَمَ‘‘کے یہ معانی لغت میں مل جائیں گے،لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کے شایانِ شان نہیں ہیں،اُسے تو اَزل سے سب کچھ معلوم ہے،تو وہ کیسے یہ معنی مراد لے سکتا ہے کہ:’’معلوم کریں، ہم کو معلوم ہوجاوے، ہم جان لیں، ہم پہچان لیں‘‘،کیونکہ اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ بیت المقدس کو کچھ عرصے کے لیے قبلہ اس لیے بنایا تھا کہ اللہ تعالیٰ العیاذ باللہ! معلوم کرنا چاہتا تھایا جاننا چاہتا تھا کہ لوگ کیا کریں گے-

علمائے اہلسنت نے ’’لِنَعْلَمَ‘‘کے وہ معنی کیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے شایانِ شان ہیں:

کنز الایمان:’’اور اے محبوب!تم پہلے جس قبلہ پر تھے، ہم نے وہ اسی لیے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پائوں پھر جاتا ہے‘‘-

انوارِ تبیان القرآن:’’اور (اے رسول!) جس قبلہ پر آپ پہلے تھے،ہم نے اس کو اسی لیے قبلہ بنایا تھا تاکہ ہم ظاہر کردیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور اس کو اس سے ممتاز کرلیں جو اپنی ایڑیوں پر پلٹ جاتا ہے‘‘-

امام احمد رضا قادری نے ’’لِنَعْلَمَ‘‘کا ترجمہ کیا:’’کہ دیکھیں‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کو تو ازل سے معلوم تھا،مگر اب اس کی حکمت اس کا ظہور چاہتی تھی،چنانچہ علامہ غُلام رسول سعیدی نے ترجمہ کیا ’’تاکہ ہم ظاہر کر دیں‘‘، یعنی جو اللہ کے علم میں ازل سے تھا، اب اس کا ظہور مقصود تھا-

(6)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَان‘‘[11]

اس کا ترجمہ بعض مترجمین حضرات نے یہ کیا ہے:

موضح فرقان:’’اے گروہ جنوں کے اور انسانوں کے اگر تم سے ہوسکے کہ نکل بھاگو،آسمان اورزمین کے کناروں سے تونکل بھاگو،نہیں نکل سکتے، بدون سند کے‘‘-

بیان القرآن:’’اے گروہ جن اور انسان کے، اگر تم کو یہ قدرت ہے کہ آسمان اور زمین کی حدود سے کہیں باہر نکل جاؤ تو ہم بھی دیکھیں نکلو(مگر ) بدوں زور کے نکل نہیں سکتے (اور زور ہے نہیں، پس نکلنے کا وقوع بھی متحمل نہیں)‘‘-

تفہیم القرآن:’’اے گروہِ جن وانس !اگرتم زمین وآسمان کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو توبھاگ دیکھو،نہیں بھاگ سکتے،اس کے لئے بڑا زور چاہئے‘‘-

معانی القرآن:’’اے گروہ جنات و انسان! اگر تم میں آسمانوں اور زمین کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو بغیر غلبہ اور طاقت کے تم نکل نہیں سکتے‘‘-

تفسیر ماجدی:’’اے گروہ جن وانس اگر تمہیں یہ قدرت ہے کہ آسمانوں اور زمین کے حدود سے کہیں باہر نکل جاؤ تو نکل دیکھو (لیکن) بغیر زور کے نکل سکتے ہی نہیں ہو‘‘-

فتح المجید:’’اے گروہِ جن وانس اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ، تو نکل جاؤ، اور زور کے سوا تو تم نکل سکنے ہی کے نہیں‘‘-

تدبر القرآن:’’اے جنوں اور انسانوں کے گروہ، اگر تم یہ کر سکو کہ نکل بھاگو آسمانوں اور زمین کے اطراف سے تو نکل بھاگو، تم پروانۂ راہداری کے بدون نہیں نکل سکو گے‘‘-

البیان:’’اے گروہ جن و انس، زمین اور آسمانوں کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھو- نہیں بھاگ سکتے، اِس کے لیے پروانہ چاہیے‘‘-

ان حضرات نے’’سلطان‘‘ کے معنی سند،زور،غلبہ اور طاقت وغیرہ سے کیے ہیں، لغت میں یقینا سلطان کے معنی ’’زور یا طاقت یا سند یا غلبہ یا پروانۂ راہداری‘ ‘کے بھی ہیں اور یہ کہاجاسکتا ہے کہ لغت میں یہ معنی موجود ہیں،لیکن اس مقام کے شایانِ شان نہیں ہیں، کیونکہ اب انسان کم از کم زمین کی حد یا دائرۂ کششِ ثقل سے طاقتور راکٹ کی مدد سے نکل چکا ہے،تو کوئی کافر معاذ اللہ! یہ کَہ سکتا ہے کہ تمہارے قرآن نے کہا تھاکہ طاقت کے بغیر نہیں نکل سکتے اور اب انسان کو طاقت حاصل ہوگئی ہے اور نہ جانے مستقبل میں انسان اور کتنی بلندیوں کی جانب پرواز کرے گا،لمحۂ موجود میں اس کا تعیّن کوئی نہیں کرسکتا-اس کے برعکس علمائے اہلسنت نے ’’سلطان‘‘ کے معنی ’’سلطنت ‘‘کے کیے ہیں جو لغت کے بھی مطابق ہیں اور اس مقام کے شایانِ شان بھی ہیں، ملاحظہ کیجیے:

کنزا لایمان:’’اے جن وانس کے گروہ! اگر تم سے ہوسکے کہ آسمانوں اورزمین کے کناروں سے نکل جاؤ، تو نکل جاؤ جہاں نکل کرجاؤگے،اسی کی سلطنت ہے‘‘-

انوارِ تبیان القرآن:’’اے جنات و انسان کے گروہو! اگر تم یہ طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمینوں کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ!تم جہاں بھی جاؤ گے وہاں اسی کی سلطنت ہے‘‘-

یہ ایسے معنی ہیں جو نہ صرف اب قرآن کی حقانیت کو ثابت کر رہے ہیں بلکہ اگر یہ دنیا ہزاروں لاکھوں سال بھی قائم رہتی ہے، تو تب بھی یہ معنی صادق رہیں گے،کیونکہ انسان خلاؤں کی کتنی ہی بلندیوں تک پہنچ جائے اور کتنے ہی ستاروں اور سیاروں پر کمندیں ڈالے اور کتنی ہی بلندیوں پر جاکر پڑاؤ ڈالے، ہرجگہ اُسے اللہ ہی کی بادشاہت ملے گی،اُسی کی سلطنت نظر آئے گی،الغرض وہ سائنس اور جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے بعض سیاروں اور ستاروں کی حدود سے ماورا تو چلا جائے گا،لیکن اللہ کی سلطنت کی حد سے ماورا نہیں جا سکتا، کیونکہ جہاں بھی وہ جائے گا،وہاں اُسے اللہ ہی کی بادشاہت اور اس کی قدرت کے جلوے ملیں گے-

’’مشکلات القرآن‘‘ کی بحث اور مثالیں بڑی طویل ہیں اور اگر ان کا احاطہ کیا جائے تو اس مجلّے کی پوری ضخامت بھی ناکافی رہے گی، ہم نے قارئین کے ذوقِ نظر کے لیے چند مثالوں پر اکتفاکی ہے تاکہ نفسِ ترجمے،مطلق ترجمے اور عقیدت سے معمور ترجمے میں کیا فرق ہوتا ہے،انہیں پتا چل جائے اور اُن کی عقیدت کو تسکین ملے اور قرآنِ مجید کی فصاحت وبلاغت اور شانِ اعجاز کی ایک جھلک اُن کے سامنے آئے-

٭٭٭


[1](القیامۃ:16-19)

[2](النحل:44)

[3](الیوسف:110)

[4](النساء:64)

[5](النساء:80)

[6](الانفال:30)

[7](آل عمران:54)

[8](الانبیا:87)

[9](الرعد:26)

[10](البقرۃ:143)

[11](الرحمٰن:33)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:

’’أِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰ نَہٗoفاِذَا قَرَاْنٰـہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗo ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗo[1]

’’آپ (قرآن کو یاد کرنے کے لیے )جلدی میں اپنی زبان کو حرکت نہ دیاکریں ،بے شک اس کو (آپ کے سینے میں)جمع کرنا اور آپ کو اس کا پڑھانا ہمارے ذمے ہے ،پس جب ہم(یعنی جبریلِ امین) اس کو پڑھ چکیں تو آپ اس کے پڑھے ہوئے کی پیروی کیا کریں ،پھر اس کا (معنی)بیان کرنا (بھی)ہمارے ذمۂ کرم پر ہے‘‘-

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قرآن کے معانی اورمطالب، جو اللہ تعالیٰ کی مراد ہیں ،کو جاننے کا مدار لغتِ عربی پر ہے،سو جسے عربی پر عبور ہو،وہ قرآن کے حقیقی معنی کوسمجھ سکتا ہے،لیکن ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان فرمایا کہ جس ذاتِ مبارک کی طرف سے قرآن آیا،بیان بھی اُسی کی طرف سے آئے گا اور جس پر قرآن نازل ہوا،یقیناً بیان بھی اُسی پر نازل ہوگا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِط وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo[2]

’’(انہیں بھی) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ (بھیجا تھا)، اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے وہ (پیغام اور احکام)خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں‘‘-

عربی پر عبور یا لغتِ عربی سے واقفیت کے باوجود قرآن کے معانی اور مطالب کو پوری طرح سمجھنا آسان نہیں ہے اور بعض مقامات تو وہ ہیں، جنہیں ’’مُشکلاتُ القرآن‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے،ان میں آیاتِ متشابہات بھی ہیں اور بعض دیگر مقامات بھی ہیں-عربی زبان کی خصوصیت یہ ہے کہ بعض اوقات ایک کلمہ ایک سے زیادہ معانی کا احتمال رکھتا ہے اور کہاں کونسا معنی لیا جانا چاہیے، اس کے لیے روحِ قرآن کو جاننا از حد ضروری ہے-مثلاً:قرآن کریم میں ایک ہی جیسے کلمات اللہ تعالیٰ اور رسولِ مکرّم (ﷺ)کے لیے نازل ہوئے ہیں،جیسے:عَزِیز،رؤف ،رحیم وغیرہ-توجہاں یہ کلمات اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے استعمال ہوں گے،وہاں وہ معنی مراد لیے جائیں گے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے شایانِ شان ہیں اور جب وہی کلمہ رسول اللہ (ﷺ) کے لیے استعمال ہوگا تو وہاں وہ معنی مراد ہوں گے جو ذاتِ رسالت مآب (ﷺ)سے مناسبت رکھتے ہیں، اسی طرح بعض اسماء تو عام بندوں کے لیے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں، جیسے رحیم، کریم، عزیز،علیم وغیرہ-

ایسے مقامات کو مترجمین نے،جن میں بڑے نامی گرامی علماء شامل ہیں،اردو زبان میں منتقل کرنے میں لغزشیں کھائی ہیں، ذاتِ باری تعالیٰ اور ذاتِ رسالت مآب (ﷺ) کے لیے استعمال کیے گئے الفاظ کے لیے اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ لغت میں اس کا اردو معنی یہ ہے، بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کون سا معنی ذاتِ باری تعالیٰ اور ذاتِ رسالت مآب (ﷺ) کی شان سے مناسبت رکھتا ہے-ذیل میں ہم چند مثالوں سے اپنے موقف کو واضح کریں گے:

(1)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’حَتّٰی إِذَا اسْتَیَٔسَ الرُّسُلُ وَظَنُّواْ أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُواْ جَائَ ہُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَن نَّشَآء وَلَا یُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْن‘‘[3]

اس آیت کا ترجمہ مختلف مترجمین نے یہ کیا ہے:

موضح فرقان:’’ یہاں تک کہ جب ناامید ہونے لگے رسول اورخیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہاگیاتھا، پہنچی ان کو ہماری مدد،پھر بچادیا جن کو ہم نے چاہا اور پھرتا نہیں عذاب ہماراقوم گنہگار سے‘‘-

بیان القرآن: ’’یہاں تک کہ پیغمبر( اس بات سے) مایوس ہوگئے اوران( پیغمبروں )کو گمانِ غالب ہوگیا کہ ہمارے فہم نے غلطی کی،ان کو ہماری مددپہنچی ،پھر(اس عذاب سے)ہم نے جس کو چاہا وہ بچالیا گیااور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے نہیں ہٹتا‘‘-

فتح المجید:’’یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا کہ (اپنی نصرت کے بارے میں جو بات انہوں نے کہی تھی ، اس میں) وہ سچے نہ نکلے، تو ان کے پاس ہماری مدد آپہنچی ،پھر جسے ہم نے چاہا بچادیا اور ہمارا عذاب (اتر کر) گنہگار لوگوں سے پھرا نہیں کرتا‘‘-

تفسیر ماجدی:’’(پہلے بھی مہلتیں دی جاچکی ہیں) یہاں تک کہ پیغمبر مایوس ہی ہوگئے ہیں اور گمان کرنے لگے کہ ان سے غلطی ہوئی (کہ اتنے میں) انہیں ہماری مدد آپہنچی ،سو ہم نے جس کے لیے چاہا وہ بچالیا گیااور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے ہٹتا نہیں‘‘-

      رسلِ عظام (﷩) کے بارے میں ان مترجمین کے یہ کلمات انبیائے کرام کے شایانِ شان نہیں ہیں:

(الف)’’خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہاگیاتھا،(موضح فرقان)‘‘-

ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ نبی جو معصوم ہوتا ہے ، کیا وہ یہ سوچ بھی سکتا ہے کہ العیاذ باللہ !اللہ اُن سے جھوٹ بولے گا؟

(ب)’’اوران پیغمبروں کو گمانِ غالب ہوگیا کہ ہمارے فہم نے غلطی کی،(بیان القرآن)‘‘-

را سوچیے!اگر وحیِ ربانی کے بارے میں نبی کی فہم میں غلطی کا امکان ادنیٰ درجے میں بھی تسلیم کرلیا جائے،تو کیا نبی ’’مُطَاعِ مُطلَق‘‘ ہوسکتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّٰہِ‘‘[4]

’’اور ہم نے ہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘-

جس کی بابت ایک فیصد یا ایک فی ہزار بھی غلطی کے امکان کو تسلیم کرلیا جائے، توکیا اُسے ’’مُطَاعِ مُطلَق‘‘قرار دیا جاسکتا ہے؟

(ج)’’اور انہوں نے خیال کیا کہ (اپنی نصرت کے بارے میں) جو بات انہوں نے کہی تھی ، (اس میں) وہ سچے نہ نکلے-(فتح المجید)‘‘-

ذرا سوچئے!کیا نبی العیاذ بااللہ! اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی وعید کی بابت اپنے آپ کو جھوٹا سمجھ سکتا ہے؟-نبی تو معیارِ صدق ہوتا ہے -

(د)’’یہاں تک کہ پیمبر مایوس ہی ہوگئے ہیں اور گمان کرنے لگے کہ ان سے غلطی ہوئی-(تفسیر ماجدی)‘‘-

ذرا سوچئے! اللہ تعالیٰ تو مقامِ نبوت کے بارے میں فرماتا ہے:

’’مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ ‘‘[5]

’’جس نے رسول (ﷺ) کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی‘‘-

نیز ان تمام تراجم میں مطلقاً رسولوں کی طرف ناامیدی کی نسبت کی گئی ہے ،جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی نصرت سے نا امید ہوگئے اور یہ نبوت ورسالت کی شان کے خلاف ہے-

ذیل میں ہم اکابر علمائے اہلسنت کے دو تراجم نقل کر رہے ہیں جو ان فحش غلطیوں سے پاک ہیں اوررُسلِ عِظام کے شایانِ شان ہیں:

کنز الایمان:’’ یہاں تک کہ جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی اور لوگ سمجھے کہ رسولوں نے ان سے غلط کہاتھا ،اس وقت ہماری مدد آئی تو جسے ہم نے چاہا بچالیا گیا، اور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے پھیرا نہیں جاتا‘‘-

امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری(﷫) نے اللہ کی ذات سے رسولوں کی ناامیدی کی بات نہیں کی ،بلکہ یہ کہا :’’جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی‘‘ اورکذب کی نسبت رسولوں کی طرف نہیں کی گئی ،بلکہ اُن کے مخاطَب لوگوں کی طرف کی گئی ہے کہ معاذ اللہ!ان لوگوں نے اپنے گمان میں یہ سمجھا کہ اُن کو عذابِ الٰہی کی جو وعید سنائی گئی تھی،العیاذ باللہ! اُس میں رسول جھوٹے ثابت ہوئے، حالانکہ رسولوں نے قبولِ حق سے انحراف کی صورت میں عذابِ الٰہی کی سچی وعید سنائی تھی اور اس کا وقت مقرر نہیں کیا تھا کہ اس کے گزرنے پر ان کی طرف جھوٹ کی نسبت کی جاتی،چنانچہ بالآخر عذابِ الٰہی مجرموں سے نہیں ٹلا، وہ اس کا شکار ہوئے اور اللہ کے رسول سچے ثابت ہوئے-

انوارِ تبیان القرآن:’’یہاں تک کہ جب رسول لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے اور لوگوں نے یہ گمان کرلیا کہ ان کو ایمان نہ لانے پر جھوٹی دھمکیاں دی گئی تھیں تو اُن رسولوں کے پاس ہماری مدد آگئی اور جس کو ہم نے چاہا عذاب سے بچالیا ،کیونکہ ہمارا عذاب مجرموں سے لوٹایا نہیں جاتا‘‘-

مفسرین کرام نے ایک معنی یہ لیا ہے کہ رسول لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے اور صاحب انوارِ تبیان القرآن علامہ غُلام رسول سعیدی رحمہ اللہ نے اُسی کو اختیار کیا ہے،یعنی اللہ کی نصرت سے مایوسی مراد نہیں ہے اور کذب کی نسبت منکرین کے گمانِ فاسد کی طرف کی گئی،ان تراجم سے شانِ نبوت ہرنقص سے بالا تر ثابت ہورہی ہے-

مترجم کو چاہیے کہ وہ ترجمہ کرتے وقت صرف کسی لفظ یا کلمے کے لغوی معنی پر انحصار نہ کرے،بلکہ یہ دیکھے کہ اس کے متعدد معانی میں سے کون سا معنی ہے جو ذاتِ باری تعالیٰ یا ذاتِ رسالت مآب (ﷺ)کے شایانِ شان ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیس اور نبی کی تعظیم وتوقیر دینی مسلّمات میں سے ہے اور ’’البقرۃ:104‘‘میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصول طے فرمادیا کہ نبی کریم (ﷺ)کے لیے ایسا ذو معنی کلمہ استعمال کرنا بھی ممنوع ہے،جس کے ایک معنی صحیح ہوں اور قائل کی مراد بھی یہی معنی ہوں،لیکن کوئی بدطینت شخص دور کا اہانت کا معنی مراد لے سکتا ہو-اسی لیے نبی کریم (ﷺ) کے لیے ’’رَاعِنَا‘‘کا کلمہ استعمال کرنے سے منع فرما دیا گیا اور حکم فرمایا:

’’اگر تمہیں نبی کریم (ﷺ) کی بات پوری طرح سے سمجھ میں نہ آئی ہو،تو ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’رَاعِنَا‘‘کی بجائے ’’اُنْظُرْنَا‘‘ (ہماری طرف نگاہِ کرم ہوجائے) کہا جائے اور مزید تاکید فرمائی کہ ابتداء ً ہی توجہ سے سنا کرو تاکہ نبی کریم (ﷺ) کو ایک ہی بات دوبارہ کہنے کی زحمت نہ دینی پڑے‘‘-

ذیل میں ہم ’’الانفال:30‘‘درج کر رہے ہیں:

(2)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللّہُ وَاللّہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْن‘‘[6]

اس کا ترجمہ بعض مترجمین نے یہ کیا ہے:

موضح فرقان: ’’وہ بھی داؤ کرتے تھے اور اللہ بھی داؤ کرتا تھااور اﷲکا داؤسب سے بہتر ہے‘‘-

(ترجمہ)غرائب القرآن: ’’اور حال یہ ہے کہ کافر داؤ کررہے تھے اور اللہ اپنا داؤ کررہا تھااور اللہ سب داؤکرنے والوں سے بہتر داؤ کرنے والا ہے‘‘-

تفہیم القرآن:’’وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہاتھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘-

ان آیات میں ان مترجمین حضرات نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے مکر کے یہ معنی کیے ہیں:

(الف):’’اللہ بھی داؤ کرتا تھا،(موضح فرقان)‘‘-

(ب):’’اللہ اپنا داؤ کر رہا تھا،(غرائب القرآن)‘‘-

(ج):’’اللہ اپنی چال چل رہا تھا،(تفہیم القرآن)‘‘-

اگرچہ لغت میں مکر کے معنی داؤکرنا یا چال چلنا بھی ہے،لیکن اردو زبان میں یہ کلمات مثبت معنی کی بجائے منفی معنی میں استعمال ہوتے ہیں، اس کے برعکس مندرجہ ذیل تراجم ملاحظہ فرمائیں:

کنز الایمان: ’’وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اﷲاپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھااور اﷲکی خفیہ تدبیر سب سے بہتر ہے‘‘-

انوارِ تبیان القرآن: ’’وہ اپنی سازش میں لگے ہوئے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر خفیہ تدبیر کرنے والا ہے‘‘-

اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے امام احمد رضا قادری اور علامہ غلام رسول سعیدی (﷭)نے خفیہ تدبیر کے معنی کیے ہیں اور یہ معنی اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہیں-

(3)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’وَمَکَرُواْ وَمَکَرَ اللّہُ وَاللّہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ‘‘[7]

(ترجمہ)غرائب القرآن:’’اور یہود نے داؤ کیا اور اللہ نے ان سے داؤکیااور داؤکرنے والوں میں اللہ سب سے بہتر داؤ کرنے والا ہے‘‘-

لفظی ترجمۃ القرآن:’’اورمکر کیا انہوں نے اور مکر کیا اﷲنے اور اﷲبہتر ہے مکرکرنے والا‘‘-

موضح القرآن:’’اور فریب کیا ان کافروں نے اور فریب کیا اللہ نے اور اللہ کا داؤسب سے بہتر ہے‘‘-

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے صاحب ترجمہ غرائب القرآن نے ایک بار پھر مکر کے معنی ’’داؤ‘‘کیے ہیں اور صاحبِ لفظی ترجمۃ القرآن نے ’’مکر‘‘کیے ہیں اور صاحب موضح القرآن نے ’’فریب‘‘ کیے ہیں،اردو زبان میں یہ تینوں الفاظ منفی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں،جو اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہیں-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر