علوم القرآن

علوم القرآن

قرآن مجید کلام الٰہی ہے جو لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس پر نازل کیا گیا جو سراسررحمت و شفاءہے-الاتقان میں قرآنِ مجید کو کس  خوبصورت  تشبیہ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے  :

كالبدر من حيث التفت رأيته
يهدي إلى عينيك نوراً ثاقبا
كالشمس في كبد السماء و ضوؤها
يغشى البلاد مشارقاً و مغاربا

’’جیسا کہ چودیں کا چاند، اس کو تم جس طرح سے بھی دیکھو ضرور وہ تمہاری آنکھوں کو ایک شفاف اور ثاقب نور بطور ہدیہ دے گا (اور) جس طرح کہ آفتاب آسمان کے وسط میں ہے اور اس کی روشنی مشارق ومغارب تک کی  زمین کو(اپنی نورانی چادر میں) ڈھانپے ہوئے ہے-

اِسی کتاب قرآن مجید کے بارے میں  ارشادِ باری تعالی ہے

’’وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ‘‘[1]

’’اور ہم نے آپ(ﷺ) پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے‘‘-

علامہ ابن کثیر الدمشقی (المتوفی : 774 ھ)  اسی آیت کی تفسیر میں  لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’ قَدْ بَيَّنَ لَنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ كُلَّ عِلْمٍ وَكُلَّ شَيْءٍ‘‘

’’ تحقیق اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے قرآن کریم میں ہر چیز اور تمام علوم بیان کردیے  ہیں‘‘-

حضرت مجاہد (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’كُلُّ حَلَالٍ وكل حرام ‘‘

’’ہر حلال اور ہر حرام( قرآن میں بتا دیا گیا ہے)‘‘-

 اس کے بعدعلامہ ابن کثیرؒ اپنی رائے لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ ) کا قول زیادہ جامع ہے

’’فَإِنَّ الْقُرْآنَ اشْتَمَلَ عَلَى كُلِّ عِلْمٍ نَافِعٍ مِنْ خَبَرِ ما سبق وعلم ما سيأتي، وكل حَلَالٍ وَحَرَامٍ، وَمَا النَّاسُ إِلَيْهِ مُحْتَاجُونَ فِي أَمْرِ دُنْيَاهُمْ وَدِينِهِمْ وَمَعَاشِهِمْ وَمَعَادِهِمْ‘‘

’’کیونکہ قرآن کریم تمام علومِ نافع کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے اس میں گزرے ہوئے لوگوں کی خبریں بھی ہیں اور آنے والے واقعات کا علم بھی ہے ہر حلال اور حرام اور تمام وہ امور جن کی طرف لوگ اپنی دنیا اور اپنے دین اور اپنی معاش اور اپنی معاد میں محتاج ہیں-سب مذکور ہیں‘‘-

قرآن کریم کاجامع العلوم ہونا :

امام سیوطی’’الاتقان‘‘میں امام بیہقی کے حوالے سے حضرت امام حسن بصریؒ کا قول مبارک نقل کرتے ہیں:

’’أنزل اللہ مائة وأربعة كتب وأودع علومها أربعة، منها التوراة والإنجيل والزبور والفرقان، ثم أودع علوم الثلاثة الفرقان‘‘

’’اللہ تعالیٰ نے ایک سو چار کتب(صحائف وکتب) نازل فرمائیں اور ان سب کا علم  چار کتابوں میں ودیعت فرمایا وہ چار کتابیں تورات ، انجیل، زبور، اورفرقان ہیں  پھر  تورات، انجیل، زبور ان تینوں کا علم قرآن مجید میں ودیعت  فرمایا‘‘-

تفسیر درمنثور کی روایت میں ہے:

’’ثم أودع علوم القرآن المفصل، ثم أودع علوم المفصل فاتحة الكتاب، فمن علم تفسيرها كان كمن علم تفسير جميع الكتب المنزلة‘‘

’’ پھر علومِ قرآن کو المفصل(سورتوں) میں ودیعت کیا -پھر علومِ مفصل کو  فاتحۃ الکتاب میں ودیعت فرمایا - پس جس شخص نے فاتحۃ الکتاب کی تفسیر کو جان لیا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے تمام نازل شدہ کتب کی تفسیر کو جان لیا ہے‘‘-

علامہ راغب الاصبہانیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب عزیز کو ایک معجزہ یہ بھی عطا فرمایا ہےکہ:

’’مع قلة الحجم متضمن للمعنى الجم‘‘

’’باوجود کمی حجم کے  کثیر معنی کو متضمن ہے  ‘‘-

پھر مزید فرماتے ہیں کہ  قرآنِ کریم کے معانی کی کثرت کا یہ عالم ہےکہ :

’’ تقصر الألباب البشرية عن إحصائه والآلات الدنيوية عن استيفائه‘‘

’’انسانی عقلیں ان کو شمار میں لانے اور دینوی آلات ان کو پوری طرح جمع کرلینے سے قاصر ہیں-

حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں :

’’مَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَعَلَيْهِ بِالْقُرْآنِ، فَإِنَّ فِيهِ خَبَرَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ ‘‘

’’جس شخص کا علم حاصل کرنے کا ارادہ ہو پس وہ قرآن کو لازم پکڑے بےشک قرآن میں اولین و آخرین کی خبریں موجود ہیں-(یعنی اگلوں اور پچھلوں سب کے بارے معلومات  جمع ہے)‘‘-

امام سیوطیؒ فرماتے ہیں :

’’وأنا أقول: قد اشتمل كتاب الله العزيز على كل شيء، أما أنواع العلوم فليس منها باب ولا مسئلة هي أصل إلا وفي القرآن ما يدل عليها‘‘

’’میں کہتا ہوں کہ بے شک کتاب اللہ العزیز ہر ایک شئے پر مشتمل ہے انواعِ علوم کو لیجئے! تو اس میں کوئی ایسا باب اور مسئلہ نہیں ہے کہ جو اصل الاصول ہو اور قرآن میں اس پر دلالت کرنے والی بات موجود نہ ہو‘‘-

اس میں تو شک نہیں ہے کہ قرآن مجید میں بے شمار علوم پائے جاتے ہیں جن میں:

’’ فن قرأت،علم النحو ، علم التفسیر، علم اصول ، علم الفرائض، علم التاریخ، علم تعبیر الرویا، علم المواقیت، علم المعانی، علم الاشارات والتصوف، علم الطب، علم الہندسہ، علم النجوم وغیرہ‘‘-

امام سیوطی الاتقان میں ابن ابی الفضل المرسی کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے تفسیر میں علوم قرآن کے حوالہ سے ( یہاں تک )بیان کیا ہے کہ قرآن کریم میں دستکاریوں کے اصول اور ان کے آلات کے نام تک بھی مذکور ہیں جن کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے مثلاً:

1.       ’’آہن گری (والحدادة) کا ذکر: {آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ} ؛ {وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ} الْآيَةَ میں ہے‘‘-

2.       ’’ معماری (وَالْبِنَاءِ) کا ذکر بہت ساری آیات میں آیا ہے‘‘-

3.       ’’ بڑھئی(وَالنِّجَارَةِ) کاذکر:{وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا}  میں ہے‘‘-

4.       ’’ سوت کاتنے(والغزل) کا بیان: {نَقَضَتْ غَزْلَهَا} میں ہے‘‘-

5.       ’’ بُننے (وَالنَّسْجِ) کا ذکر: {كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتاً}میں ہے‘‘-

6.       ’’ کھیتی باڑی(والفلاحة) کا ذکر:{أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ} ا ور کئی آیات میں ہے‘‘-

7.       ’’ اور شکار کا بیان (وَالصَّيْدِ) متعدد آیات میں ہے‘‘-

8.       ’’ اور غوطہ خوری (وَالْغَوْصِ) کا ذکر:{كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ} اور {وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً} میں ہے‘‘-

9.       ’’ اور زرگری (وَالصِّيَاغَةِ) کا ذکر: {وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلاً جَسَداً} میں ہے‘‘-

10. ’’ شیشہ اور کانچ(وَالزّجَاجَةِ) کا ذکر: {صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوَارِيرَ} {الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ} ا ور کئی آیات  میں ہے -

11.   ’’ اور خشت پختہ بنانے(والفخارة)کا ذکر: {فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ}میں ہے‘‘-

12.   ’’ اور کشتی بانی اور جہاز رانی (والملاحة)کا ذکر : {أَمَّا السَّفِينَةُ} ا ور کئی آیات میں ہے‘‘-

13.   ’’ اور علم کتابت (والكتابة) کا ذکر : {عَلَّمَ بِالْقَلَمِ} میں ہے‘‘-

14.   ’’ اورکھانےپکانے(والطبخ) کا ذکر :{بِعِجْلٍ حَنِيذٍ }  میں ہے‘‘-

15.   ’’دھونے اور کپڑا چھاڑنے (والغسل والقصارة) کا بیان:{وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ} قال الحواريون: وهم القصار ون {میں ہے -

16.   ’’ قصابوں (والجزارة)کا ذکر:{لَّا مَا ذَكَّيْتُمْ} میں ہے‘‘-

17.   ’’ خرید وفروخت (وَالْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ)کا ذکر متعدد آيَات میں ہے‘‘-

18.   ’’ رنگ ریزی (وَالصَّبْغِ)  کا بیان: {صِبْغَةَ اللہ}؛ {جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ} میں ہے‘‘-

19.   ’’ سنگ تراشی (وَالْحِجَارَةِ)کا ذکر: {وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتاً} میں ہے

20.    ’’ تول اور ماپ (وَالْكِيَالَةِ وَالْوَزْنِ) کا بیان  متعدد آیاتِ کریمہ میں ہے‘‘-

21. ’’تیر اندازی (وَالرَّمْيِ) کا ذکر: {وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ}  {وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ} میں ہے -

امام جلال الدین سیوطی ؒ مزیدلکھتے ہیں کہ:

22.  ’’وفيه من أسماء الآلات وضروب المأكولات و المشروبات و المنكوحات وجميع ما وقع ويقع في الكائنات ما يحقق معنى قوله (ما فرطنا في الكتاب من شيء} ‘‘

’’قرآن کریم میں آلات کے اسماء ،طرح طرح کے کھانے اور پینے کی چیزوں کے نام اور منکوحات کے اسماء او ر تمام وہ چیزیں جو اب تک کائنات میں واقع ہوچکی ہیں اور آئندہ واقع ہوں گی ان سبھی کا ذکر آیا ہے اور وہ اس بات کو اور ثابت کرتا ہے کہ (مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ) ،’’ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحتہً یا اشارۃً بیان نہ کردیا ہو)‘‘،بالکل درست اور بجا ہے‘‘-

علوم القرآن کی تعداد:

امام سیوطی الاتقان فی علوم القرآن میں لکھتے ہیں کہ قاضي أبو بكر بن عربي نے کتاب قانون التاویل میں لکھا ہے کہ:

’’علوم القرآن خمسون علماً وأربعمائة علم وسبعة آلاف علم وسبعون ألف علم ‘‘

’’قرآن کے علوم پچاس اور چار سو اور سات ہزار اور ستر ہزارعلوم ہیں۔

’’إذ لكل كلمة ظهر وبطن وحد ومطلع‘‘

 اس لئے کہ ہر ایک کلمے کا ایک ظاہر، ایک باطن ایک حد اور ایک مطلع پایا جاتا ہے‘‘-

قرآن ِ کریم میں مختلف علم ذکر کرنے کی وجہ :

ابن سراقہ کہتے ہیں کہ قرآن کے وجوہ اعجاز میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ:

’’ما ذكر اللہ فيه من أعداد الحساب والجمع والقسمة والضرب والموافقة والتأليف والمناسبة والتنصيف والمضاعفة ليعلم بذلك أهل العلم بالحساب أنه (ﷺ)صادق في قوله، وأن القرآن ليس من عنده، إذ لم يكن ممن خالط الفلاسفة ولا تلقى الحساب وأهل الهندسة‘‘

’’اس (قرآن کریم ) میں خدا تعالیٰ نے اعداد حساب، جمع، تقسیم، ضرب، موافقت، تالیف، مناسبت، تنصیف اور مضاعفت کا بیان فرمایا ہے تاکہ اس بات کے ذریعہ سے علم حساب کے عالموں کو رسول اللہ (ﷺ) کے اپنے قول میں صادق ہونے کا علم ہوجائے اور وہ جان لیں کہ فی الواقع قرآن خود ان کا کلام نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) ان لوگوں میں سے نہ تھے جنہوں نے اہل علم اور فلاسفروں کی صحبت اٹھائی ہو اور حساب و ہندسہ جاننے والے علماء سے فیض حاصل کیاہو‘‘-

سلف صالحین کا قرآن کریم سے استنباط مسائل کا  طریقہ کار :

اللہ تعالی جب بندے کے سینے کو نور سے منور فرمادیتا ہے تو اُس پر قرآن کریم کے علوم و معارف منکشف ہو جاتے ہیں اور  یہ ہی علم کی حقیقت ہے جیسا کہ امام مالک ؒ فرماتے ہیں:

’’ إن العلم ليس بكثرة الرواية، وإنما العلم نور يجعله اللہ في القلب‘‘-[2]

دوسری روایت کے الفاظ مبارک یہ ہیں کہ:

’’إن العلم ليس بكثرة الرواية ، إنما العلم نور يقذفه اللہ في القلب‘‘-[3]

’’علم کثرتِ روایات کا نام نہیں ہے بلکہ علم ایک ایسانور ہے  جس کو اللہ تعالیٰ آدمی کے دل میں ڈال دیتا ہے ‘‘-

جب ایسا علم عطا کیا جاتا ہے تو قرآن اس پر کھل جاتا ہے  پھر وہ ہر چیز قرآن سے تلاش کرتا ہے ، یہی وہ راز تھا جس کے سبب حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا  کہ:

’’لَوْ ضَاعَ لِي عِقَالُ بَعِيرٍ لَوَجَدْتُهُ فِي كِتَابِ اللہِ تَعَالَى‘‘

’’اگر میرے اونٹ باندھنےکی رسی بھی کھو جائے تو میں اس کو بھی کتاب اللہ میں پاؤں‘‘-

 مفتی بغداد علامہ سید محمود آلوسی بغدادیؒ المتوفی 1270ھ تفسیر روح المعانی میں نقل فرماتےہے کہ ایک دن شیخ محی الدین ابن عربی(قدس اللہ سرّہٗ) اپنے دراز گوش پر سوار ہوکر جارہے تھے اچانک شیخ گر گئے اور ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی لوگ شیخ اکبر کو سوار کروانے کے لئے آگے بڑھے انہوں نے کہا مجھے کچھ مہلت دو انہوں نے کچھ مہلت دی پھر شیخ نے ان کو سوار کرانے کی اجازت دی لوگوں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو شیخ نے کہا :

’’راجعت كتاب اللہ تعالى فوجدت خبر هذه الحادثة قد ذكر في الفاتحة‘‘

’’میں نے اللہ کی کتاب میں اس حادثے پر غور کیا تو مجھے سورۃ فاتحہ میں اس کا ذکر مل گیا‘‘-[4]

علامہ إبراهيم بن عمر البقاعی (المتوفى: 885ھ)’’ نظم الدرر في تناسب الآيات والسور‘‘ میں حضرت امام شافعی ؒ کا قول نقل کرتےہوئےلکھتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

’’فَلَيْسَتْ تَنْزِلُ بِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ دِينِ اللہ  نَازِلَةٌ إلَّا وَفِي كِتَابِااللہِ الدَّلِيلُ عَلَى سُبُلِ الْهُدَى فِيهَا‘‘

’’مسلمانوں کو اپنی زندگی میں جو بھی حادثہ پیش آئے گا اس کے متعلق اللہ کی کتاب میں ہدایت موجود ہوگی‘‘-

ایک مرتبہ حضرت امام شافعیؒ مکہ میں  موجود تھے کہ آپ ؒ نے لوگوں سے فرمایا :

’’سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ أُخْبِرْكُمْ عَنْهُ فِي كِتَابِ اللہِ فَقِيلَ لَهُ: مَا تَقُولُ فِي الْمُحْرِمِ يَقْتُلُ الزُّنْبُورَ؟ ‘‘

’’تم لوگ مجھ سے جس چیز کے بارے میں دریافت کرو میں تمہیں اس کا جواب کتاب اللہ سے دوں گاتو لوگوں نے پوچھا کہ آپ اس محرم (احرام باندھنے والا) کیلئے کیا فرماتے ہیں جو کہ زنبور (بھڑ)کو ماڑ ڈالے؟‘‘

امام شافعیؒ نے جواباً یوں فرمایا ۔

آپؒ نےبسم اللہ شریف کے بعد یہ آیت مبارکہ تلاوت کی:

{آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا}

پھر یہ حدیث پاک بیان کی جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ میرے بعد ابو بکر و عمر کی اقتداء کرو-

پھر آپؒ نےیہ روایت بیان کی:

’’عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ أَمَرَ بِقَتْلِ الْمُحْرِمِ الزَّنْبُورَ‘‘

’’حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے اور وہ حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (رضی اللہ عنہ) نے محرم کو زنبور کے مارنے کا حکم فرمایا‘‘-

امام بخاریؒ نے حضرت عبد اللہ ابن مسعود(رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی گودنے والی پر اور گودوانے والی پر لعنت کرتا ہے اور بال نوچنے والی پراور جو خوبصورتی کے لئے دانتوں میں جھری کرواتی ہیں اور اللہ تعالی کی بناوٹ کو تبدیل کرتی ہیں یہ بات بنی اسد کے گھرانے کی ایک عورت نے سنی تو اس نے آکر ابن مسعود(رضی اللہ عنہ) سے کہامیں نے سنا ہے کہ تم نے ایسی ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے ابن مسعود نے کہا جن پر رسول اللہ (ﷺ)نے لعنت کی ہو کیا وجہ ہے کہ میں  ان پر لعنت نہ کروں اور یہ بات کتاب اللہ میں ہے اس عورت نے کہا میں نے تو قرآن مجید کو پڑھا ہےاس میں تو اس لعنت کا ذکر نہیں ہےابن مسعود (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا :

’’ لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيْهِ‘‘

’’اگر تو قرآن کو پڑھتی تو ضرور اس بات کو اس میں پالیتی‘‘-

 آپ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا :

کیا تونے یہ نہیں پڑھا’’وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا‘‘ تو اس عورت نے کہا اس کو بے شک میں نے پڑھا ہےتو عبد اللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا کہ:

’’فَإِنَّهُ قَدْ نَهَى عَنْهُ‘‘

’’رسول اللہ (ﷺ) ہی نے اس بات سے منع فرمایا ہے‘‘-

امام سیوطیؒ ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مَا مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُمْكِنُ اسْتِخْرَاجُهُ مِنَ الْقُرْآنِ لِمَنْ فَهَّمَهُ اللہُ‘‘

’’کوئی چیز ایسی نہیں مگر اس کا استخراج قرآن سے ممکن ہےاس شخص کے لئے جس کو اللہ تعالیٰ نے فہم عطا کیا ہو‘‘-

ابن ابی الفضل المرسی نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہےکہ:

’’قرآن مجید میں اولین اور آخرین کے سب علوم جمع ہیں ان علوم کا حقیقتا احاطہ صرف اللہ تعالی نے کیا ہے پھر رسول اللہ (ﷺ )نے ، ما سوا ان چیزوں کے جن کو اللہ تعالی نے اپنے ساتھ خاص کر لیا ہے  اس کے بعد رسول اللہ (ﷺ) سے علم قرآن کی میراث معظم سادات صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اور ان کے ممتاز لوگوں کو پہنچی جیسے خلفائے اربعہ، ابن مسعود اور ابن عباس (رضی اللہ عنہ)-

بعد ازاں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سے اس علم کی وراثت تابعین کو پہنچی اور اس کے بعد سے ہمتیں پست ہوگئیں ارادوں میں سستی آگئی اور اہل علم میں کمزوری اور درماندی کا اظہار ہونے لگا وہ لوگ ان علوم و فنون قرآن کے حامل بننے میں سستی کرنے لگے جن کو صحابہ و تابعین سے اخذ کیا تھا‘‘-

 بعد ازاں اہل علم نے اپنی اپنی بساط کے مطابق قرآن مجید  سے اکتسابِ فیض کیا ، علوم اخذ کئے اور مسائل کا استنباطِ کیا –

مفسرین نے الفاظِ قرآن پرتوجہ دی اور اسی میں کام کیا-فنِ اصول کے علماء نےقرآن میں پائی جانے والی عقلی دلیلوں اور اصلی و نظری شواہد کی جانب توجہ کی، بعض نے قرآن کے حلال وحرام اور ان تمام احکام جو کہ اس میں موجود ہیں اُس پر محکم طریقے سے کام کیا اور مسائل کا استنباط کیا-کوئی قرآن کی حکمتوں اور نصیحتوں کی طرف مائل ہوا-کسی نے قرآن سے تعبیر ِخواب کے اصول اخذ کیے، کسی نے قرآن سے علم الفرائض کے اصول اخذ کیے-انشاءپردازوں اور شاعروں نے قرآن کے الفاظوں کی جزالت ، بدیع نظم ، اطناب و اعجاز وغیرہ امور کے پیش نظر اس سے علوم معانی، بیان اور بدیع کو اخذ کیا-

اسی طرح صوفیاء نے بھی قرآن میں غواصی کی، امام سیوطی (رضی اللہ عنہ)لکھتے ہیں

’’ونظر فيه أرباب الإشارات وأصحاب الحقيقة فلاح لهم من ألفاظه معان ودقائق جعلوا لها أعلاماً اصطلحوا عليها مثل الفناء والبقاء والحضور والخوف والهيبة والإنس والوحشة والقبض والبسط

’’ارباب اشارات و اصحاب حقیقت (صوفیاء) نےقرآن میں نظرکی ، تو ان پر اس کے الفاظ سے بہت کچھ معانی اور باریکیاں نمایاں ہوئی جن کی انہوں نے اصطلاحی اعلام مقرر کیے مثلا فناء و بقا، حضور، خوف، ہیبت، انس، وحشت اور قبض و بسط (وغیرہ)‘‘-

امام سیوطی الاتقان میں اسی تناظر میں روایت نقل کرتے ہوئےلکھتے ہیں کہ:

’’وَأَخْرَجَ أَبُو نُعَيْمٍ وَغَيْرُهُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعَمَ قَالَ قِيلَ لِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: يَا مُوسَى إِنَّمَا مَثَلُ كِتَابِ أَحْمَدَ فِي الْكُتُبِ بِمَنْزِلَةِ وِعَاءٍ فِيهِ لَبَنٌ كُلَّمَا مَخَّضْتَهُ أَخْرَجْتَ زُبْدَتَهُ‘‘

’’عبد الرحمٰن بن زیاد بن انعم سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا گیا کہ اے موسیٰ علیہ السلام کتب سماوی میں احمد (ﷺ) کی کتاب بہ منزلِ ایک ایسے برتن کے ہے جس میں دودھ بھرا ہو اور تم جس قدر اسے ہلاؤ اسی قدر اس کا مکھن نکالتے جاؤ‘‘-

اس لئے اقبال نے کہا ہے کہ:

قرآن میں ہو غوطہ زن، اے مرد مسلماں!
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار![5]

٭٭٭

(سوائے چند حوالہ جات کے بقیّہ مضمون الاتقان فی علوم القرآن / تالیف: امام جلال الدین سیوطیؒ / (مطبوعہ:مکتبہ دارالکتب العلمیہ، بیروت) سے اخذ کیا گیا ہے)


[1](النحل:89)

[2](تفسیر ابن کثیر، سورۃ فاطر زیر آیت:29)

[3](فیض القدیر شرح جامع صغیر، ج:4، ص:510)

[4](تفسیر روح المعانی، ج:4، ص:210)

[5](ضربِ کلیم)

قرآن مجید کلام الٰہی ہے جو لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس پر نازل کیا گیا جو سراسررحمت و شفاءہے-الاتقان میں قرآنِ مجید کو کس  خوبصورت  تشبیہ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے  :

كالبدر من حيث التفت رأيته
يهدي إلى عينيك نوراً ثاقبا
كالشمس في كبد السماء و ضوؤها
يغشى البلاد مشارقاً و مغاربا

’’جیسا کہ چودیں کا چاند، اس کو تم جس طرح سے بھی دیکھو ضرور وہ تمہاری آنکھوں کو ایک شفاف اور ثاقب نور بطور ہدیہ دے گا (اور) جس طرح کہ آفتاب آسمان کے وسط میں ہے اور اس کی روشنی مشارق ومغارب تک کی  زمین کو(اپنی نورانی چادر میں) ڈھانپے ہوئے ہے-

اِسی کتاب قرآن مجید کے بارے میں  ارشادِ باری تعالی ہے

’’وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ‘‘[1]

’’اور ہم نے آپ(ﷺ) پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے‘‘-

علامہ ابن کثیر الدمشقی (المتوفی : 774 ھ)  اسی آیت کی تفسیر میں  لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود (﷜) فرماتے ہیں کہ:

’’ قَدْ بَيَّنَ لَنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ كُلَّ عِلْمٍ وَكُلَّ شَيْءٍ‘‘

’’ تحقیق اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے قرآن کریم میں ہر چیز اور تمام علوم بیان کردیے  ہیں‘‘-

حضرت مجاہد(﷜ ) فرماتے ہیں کہ:

’’كُلُّ حَلَالٍ وكل حرام ‘‘

’’ہر حلال اور ہر حرام( قرآن میں بتا دیا گیا ہے)‘‘-

 اس کے بعدعلامہ ابن کثیر(﷫) اپنی رائے لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود (﷠ ) کا قول زیادہ جامع ہے

’’فَإِنَّ الْقُرْآنَ اشْتَمَلَ عَلَى كُلِّ عِلْمٍ نَافِعٍ مِنْ خَبَرِ ما سبق وعلم ما سيأتي، وكل حَلَالٍ وَحَرَامٍ، وَمَا النَّاسُ إِلَيْهِ مُحْتَاجُونَ فِي أَمْرِ دُنْيَاهُمْ وَدِينِهِمْ وَمَعَاشِهِمْ وَمَعَادِهِمْ‘‘

’’کیونکہ قرآن کریم تمام علومِ نافع کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے اس میں گزرے ہوئے لوگوں کی خبریں بھی ہیں اور آنے والے واقعات کا علم بھی ہے ہر حلال اور حرام اور تمام وہ امور جن کی طرف لوگ اپنی دنیا اور اپنے دین اور اپنی معاش اور اپنی معاد میں محتاج ہیں-سب مذکور ہیں‘‘-

قرآن کریم کاجامع العلوم ہونا :

امام سیوطی’’الاتقان‘‘میں امام بیہقی کے حوالے سے حضرت امام حسن بصری(﷜) کا قول مبارک نقل کرتے ہیں:

’’أنزل اللہ مائة وأربعة كتب وأودع علومها أربعة، منها التوراة والإنجيل والزبور والفرقان، ثم أودع علوم الثلاثة الفرقان‘‘

’’اللہ تعالیٰ نے ایک سو چار کتب(صحائف وکتب) نازل فرمائیں اور ان سب کا علم  چار کتابوں میں ودیعت فرمایا وہ چار کتابیں تورات ، انجیل، زبور، اورفرقان ہیں  پھر  تورات، انجیل، زبور ان تینوں کا علم قرآن مجید میں ودیعت  فرمایا‘‘-

تفسیر درمنثور کی روایت میں ہے:

’’ثم أودع علوم القرآن المفصل، ثم أودع علوم المفصل فاتحة الكتاب، فمن علم تفسيرها كان كمن علم تفسير جميع الكتب المنزلة‘‘

’’ پھر علومِ قرآن کو المفصل(سورتوں) میں ودیعت کیا -پھر علومِ مفصل کو  فاتحۃ الکتاب میں ودیعت فرمایا - پس جس شخص نے فاتحۃ الکتاب کی تفسیر کو جان لیا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے تمام نازل شدہ کتب کی تفسیر کو جان لیا ہے‘‘-

علامہ راغب الاصبہانی(﷫) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب عزیز کو ایک معجزہ یہ بھی عطا فرمایا ہےکہ:

’’مع قلة الحجم متضمن للمعنى الجم‘‘

’’باوجود کمی حجم کے  کثیر معنی کو متضمن ہے  ‘‘-

پھر مزید فرماتے ہیں کہ  قرآنِ کریم کے معانی کی کثرت کا یہ عالم ہےکہ :

’’ تقصر الألباب البشرية عن إحصائه والآلات الدنيوية عن استيفائه‘‘

’’انسانی عقلیں ان کو شمار میں لانے اور دینوی آلات ان کو پوری طرح جمع کرلینے سے قاصر ہیں-

حضرت ابن مسعود (﷠) فرماتے ہیں :

’’مَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَعَلَيْهِ بِالْقُرْآنِ، فَإِنَّ فِيهِ خَبَرَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ ‘‘

’’جس شخص کا علم حاصل کرنے کا ارادہ ہو پس وہ قرآن کو لازم پکڑے بےشک قرآن میں اولین و آخرین کی خبریں موجود ہیں-(یعنی اگلوں اور پچھلوں سب کے بارے معلومات  جمع ہے)‘‘-

امام سیوطی(﷫)فرماتے ہیں :

’’وأنا أقول: قد اشتمل كتاب الله العزيز على كل شيء، أما أنواع العلوم فليس منها باب ولا مسئلة هي أصل إلا وفي القرآن ما يدل عليها‘‘

’’میں کہتا ہوں کہ بے شک کتاب اللہ العزیز ہر ایک شئے پر مشتمل ہے انواعِ علوم کو لیجئے! تو اس میں کوئی ایسا باب اور مسئلہ نہیں ہے کہ جو اصل الاصول ہو اور قرآن میں اس پر دلالت کرنے والی بات موجود نہ ہو‘‘-

اس میں تو شک نہیں ہے کہ قرآن مجید میں بے شمار علوم پائے جاتے ہیں جن میں:

’’ فن قرأت،علم النحو ، علم التفسیر، علم اصول ، علم الفرائض، علم التاریخ، علم تعبیر الرویا، علم المواقیت، علم المعانی، علم الاشارات والتصوف، علم الطب، علم الہندسہ، علم النجوم وغیرہ‘‘-

امام سیوطی الاتقان میں ابن ابی الفضل المرسی کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے تفسیر میں علوم قرآن کے حوالہ سے ( یہاں تک )بیان کیا ہے کہ قرآن کریم میں دستکاریوں کے اصول اور ان کے آلات کے نام تک بھی مذکور ہیں جن کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے مثلاً:

1.       ’’آہن گری (والحدادة) کا ذکر: {آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ} ؛ {وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ} الْآيَةَ میں ہے‘‘-

2.       ’’ معماری (وَالْبِنَاءِ) کا ذکر بہت ساری آیات میں آیا ہے‘‘-

3.       ’’ بڑھئی(وَالنِّجَارَةِ) کاذکر:{وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا}  میں ہے‘‘-

4.       ’’ سوت کاتنے(والغزل) کا بیان: {نَقَضَتْ غَزْلَهَا} میں ہے‘‘-

5.       ’’ بُننے (وَالنَّسْجِ) کا ذکر: {كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتاً}میں ہے‘‘-

6.       ’’ کھیتی باڑی(والفلاحة) کا ذکر:{أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ} ا ور کئی آیات میں ہے‘‘-

7.       ’’ اور شکار کا بیان (وَالصَّيْدِ) متعدد آیات میں ہے‘‘-

8.       ’’ اور غوطہ خوری (وَالْغَوْصِ) کا ذکر:{كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ} اور {وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً} میں ہے‘‘-

9.       ’’ اور زرگری (وَالصِّيَاغَةِ) کا ذکر: {وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلاً جَسَداً} میں ہے‘‘-

10. ’’ شیشہ اور کانچ(وَالزّجَاجَةِ) کا ذکر: {صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوَارِيرَ} {الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ} ا ور کئی آیات  میں ہے -

11.   ’’ اور خشت پختہ بنانے(والفخارة)کا ذکر: {فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ}میں ہے‘‘-

12.   ’’ اور کشتی بانی اور جہاز رانی (والملاحة)کا ذکر : {أَمَّا السَّفِينَةُ} ا ور کئی آیات میں ہے‘‘-

13.   ’’ اور علم کتابت (والكتابة) کا ذکر : {عَلَّمَ بِالْقَلَمِ} میں ہے‘‘-

14.   ’’ اورکھانےپکانے(والطبخ) کا ذکر :{بِعِجْلٍ حَنِيذٍ }  میں ہے‘‘-

15.   ’’دھونے اور کپڑا چھاڑنے (والغسل والقصارة) کا بیان:{وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ} قال الحواريون: وهم القصار ون {میں ہے -

16.   ’’ قصابوں (والجزارة)کا ذکر:{لَّا مَا ذَكَّيْتُمْ} میں ہے‘‘-

17.   ’’ خرید وفروخت (وَالْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ)کا ذکر متعدد آيَات میں ہے‘‘-

18.   ’’ رنگ ریزی (وَالصَّبْغِ)  کا بیان: {صِبْغَةَ اللہ}؛ {جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ} میں ہے‘‘-

19.   ’’ سنگ تراشی (وَالْحِجَارَةِ)کا ذکر: {وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتاً} میں ہے

20.    ’’ تول اور ماپ (وَالْكِيَالَةِ وَالْوَزْنِ) کا بیان  متعدد آیاتِ کریمہ میں ہے‘‘-

21. ’’تیر اندازی (وَالرَّمْيِ) کا ذکر: {وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ}  {وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ} میں ہے -

امام جلال الدین سیوطی ؒ مزیدلکھتے ہیں کہ:

22.  ’’وفيه من أسماء الآلات وضروب المأكولات و المشروبات و المنكوحات وجميع ما وقع ويقع في الكائنات ما يحقق معنى قوله (ما فرطنا في الكتاب من شيء} ‘‘

’’قرآن کریم میں آلات کے اسماء ،طرح طرح کے کھانے اور پینے کی چیزوں کے نام اور منکوحات کے اسماء او ر تمام وہ چیزیں جو اب تک کائنات میں واقع ہوچکی ہیں اور آئندہ واقع ہوں گی ان سبھی کا ذکر آیا ہے اور وہ اس بات کو اور ثابت کرتا ہے کہ (مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ) ،’’ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحتہً یا اشارۃً بیان نہ کردیا ہو)‘‘،بالکل درست اور بجا ہے‘‘-

علوم القرآن کی تعداد:

امام سیوطی الاتقان فی علوم القرآن میں لکھتے ہیں کہ قاضي أبو بكر بن عربي نے کتاب قانون التاویل میں لکھا ہے کہ:

’’علوم القرآن خمسون علماً وأربعمائة علم وسبعة آلاف علم وسبعون ألف علم ‘‘

’’قرآن کے علوم پچاس اور چار سو اور سات ہزار اور ستر ہزارعلوم ہیں۔

’’إذ لكل كلمة ظهر وبطن وحد ومطلع‘‘

 اس لئے کہ ہر ایک کلمے کا ایک ظاہر، ایک باطن ایک حد اور ایک مطلع پایا جاتا ہے‘‘-

قرآن ِ کریم میں مختلف علم ذکر کرنے کی وجہ :

ابن سراقہ کہتے ہیں کہ قرآن کے وجوہ اعجاز میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ:

’’ما ذكر اللہ فيه من أعداد الحساب والجمع والقسمة والضرب والموافقة والتأليف والمناسبة والتنصيف والمضاعفة ليعلم بذلك أهل العلم بالحساب أنه (ﷺ)صادق في قوله، وأن القرآن ليس من عنده، إذ لم يكن ممن خالط الفلاسفة ولا تلقى الحساب وأهل الهندسة‘‘

’’اس (قرآن کریم ) میں خدا تعالیٰ نے اعداد حساب، جمع، تقسیم، ضرب، موافقت، تالیف، مناسبت، تنصیف اور مضاعفت کا بیان فرمایا ہے تاکہ اس بات کے ذریعہ سے علم حساب کے عالموں کو رسول اللہ (ﷺ) کے اپنے قول میں صادق ہونے کا علم ہوجائے اور وہ جان لیں کہ فی الواقع قرآن خود ان کا کلام نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) ان لوگوں میں سے نہ تھے جنہوں نے اہل علم اور فلاسفروں کی صحبت اٹھائی ہو اور حساب و ہندسہ جاننے والے علماء سے فیض حاصل کیاہو‘‘-

سلف صالحین کا قرآن کریم سے استنباط مسائل کا  طریقہ کار :

اللہ تعالی جب بندے کے سینے کو نور سے منور فرمادیتا ہے تو اُس پر قرآن کریم کے علوم و معارف منکشف ہو جاتے ہیں اور  یہ ہی علم کی حقیقت ہے جیسا کہ امام مالک (﷫) فرماتے ہیں:

’’ إن العلم ليس بكثرة الرواية، وإنما العلم نور يجعله اللہ في القلب‘‘-[2]

دوسری روایت کے الفاظ مبارک یہ ہیں کہ:

’’إن العلم ليس بكثرة الرواية ، إنما العلم نور يقذفه اللہ في القلب‘‘-[3]

’’علم کثرتِ روایات کا نام نہیں ہے بلکہ علم ایک ایسانور ہے  جس کو اللہ تعالیٰ آدمی کے دل میں ڈال دیتا ہے ‘‘-

جب ایسا علم عطا کیا جاتا ہے تو قرآن اس پر کھل جاتا ہے  پھر وہ ہر چیز قرآن سے تلاش کرتا ہے ، یہی وہ راز تھا جس کے سبب حضرت ابن عباس (﷠) نے فرمایا  کہ:

’’لَوْ ضَاعَ لِي عِقَالُ بَعِيرٍ لَوَجَدْتُهُ فِي كِتَابِ اللہِ تَعَالَى‘‘

’’اگر میرے اونٹ باندھنےکی رسی بھی کھو جائے تو میں اس کو بھی کتاب اللہ میں پاؤں‘‘-

 مفتی بغداد علامہ سید محمود آلوسی بغدادی( ﷫)المتوفی 1270ھ تفسیر روح المعانی میں نقل فرماتےہے کہ ایک دن شیخ محی الدین ابن عربی(قدس اللہ سرّہٗ) اپنے دراز گوش پر سوار ہوکر جارہے تھے اچانک شیخ گر گئے اور ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی لوگ شیخ اکبر کو سوار کروانے کے لئے آگے بڑھے انہوں نے کہا مجھے کچھ مہلت دو انہوں نے کچھ مہلت دی پھر شیخ نے ان کو سوار کرانے کی اجازت دی لوگوں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو شیخ نے کہا :

’’راجعت كتاب اللہ تعالى فوجدت خبر هذه الحادثة قد ذكر في الفاتحة‘‘

’’میں نے اللہ کی کتاب میں اس حادثے پر غور کیا تو مجھے سورۃ فاتحہ میں اس کا ذکر مل گیا‘‘-[4]

علامہ إبراهيم بن عمر البقاعی (المتوفى: 885ھ)’’ نظم الدرر في تناسب الآيات والسور‘‘ میں حضرت امام شافعی (﷫) کا قول نقل کرتےہوئےلکھتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

’’فَلَيْسَتْ تَنْزِلُ بِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ دِينِ اللہ  نَازِلَةٌ إلَّا وَفِي كِتَابِااللہِ الدَّلِيلُ ?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر