رموزِ قرآن

رموزِ قرآن

دائرہ ِکائنات کسی ایسے مرکز کا متلاشی تھا جس کی طرف سب کا رجوع ہو-اسی آرزو پر اللہ رب العزت نے رحم فرمایا کہ مخلوق کو خالق سے ملانے، بگڑوں کو سنوارنے،گرتوں کو تھامنے، بکھروں کو یکجا کرنے،نابینوں کو بینائی دینے، بھٹکے ہوؤں کو ہدایت دینے،گمراہوں کو راہ پر چلانے اور منزل تک پہنچانے کےلئے اس ذاتِ اقدس کو پیدا فرماکر اُس پر اپنے کلام’’قرآن مجید‘‘کا نزول فرمایا-اس ہستی پاک کوعرش والے احمد مجتبیٰ(ﷺ) اور فرش والے محمد مصطفےٰ (ﷺ) کے اسمِ گرامی کے نام سے یادکرتے ہیں-

اللہ پاک کا کلام ’’قرآن مجید‘‘ایک ایسانسخۂ کیمیا ہے جوبیماروں کی شفاء اورگمراہوں کا رہنما ہے-مزید یہ انسان کی دینی اور دنیوی زندگی کا مکمل دستور العمل ہے-ہر مسلمان و مومن کے دل میں یہ جذبہ و تڑپ موجود ہے کہ اللہ پاک اس کو اس لاریب کتاب کی صحیح فہم عطا فرمائے-اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا:

’’افَـلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ‘‘[1]

’’کیا تم قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے ‘‘- 

اسی طرح اگر قرآن مجید میں غور و فکر کیا جائے تو ہمیں اس کلام کو سمجھنے اور اس تک پہنچنے کے لئےیہ  آیت مبارکہ ہماری رہنمائی کرتی ہے:

’’ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌط فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَ ابْتِغَآئَ تَاْوِیْـلِہٖج وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلاَّ اﷲُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاج وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘[2]

’’وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں،سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیراثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سےاور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتااور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے،ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہےاور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے‘‘-

مفسرین کرام نے تفاسیر میں  ان کو اس انداز میں بیان فرمایا-

1)       مقطعات

2)       مُتشابہات

3)       محکمات

حروفِ مقطعات کے بارے میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی (﷫)فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) حضرت عثمان غنی حضرت عبداللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ)اور کثیر محدثین فرماتے ہیں:

’’عن الصدر الاول فی الحروف التہجی أنھا سر بین اللہ وبین نبیہ(ﷺ)‘‘[3] 

’’سورتوں کی ابتداء میں  حروف مقطعات اللہ اور اس کے محبوب(ﷺ)کے درمیان راز ہیں ‘‘- 

علامہ سیدمحمود آلوسی(رحمتہ اللہ علیہ)فرماتے ہیں:

’’قال الشعبی سراللہ تعالیٰ فلا تطلبوہ فلا یعرفہ بعد رسول اللہ (ﷺ) الا الاولیاء الورثۃ فھم یعرفونہ من تلک الحضرۃ ‘‘[4]

’’یہ اللہ تعالیٰ کا راز ہے اسے تم طلب نہ کرو-(مقطعات)حضور(ﷺ)کے بعد کوئی نہیں جانتا سوائے اولیاء کے کیونکہ وہ انبیاء کے (علم)کے وارث ہیں اور وہی ان کو پہچانتے ہیں (یعنی اسرارورموز)‘‘-

حروفِ مقطعات کے متعلق تفسیر مظہری میں امام بغوی (رحمتہ اللہ علیہ)کے حوالہ سے منقول ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں:

’’ قال ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فی کل کتاب سر و سر اللہ تعالیٰ فی القرآن اوائل السورۃ ‘‘[5]

’’حضرت ابو بکر صدیق(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ہر کتاب میں راز ہوتا ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا راز سورتوں کی ابتداء میں ہے یعنی حروف مقطعات میں‘‘-

مُتشابہات:

متشابہات کے بارے میں فرمانِ الٰہی ہے:

’’وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلاَّ اللہُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ‘‘[6]

’’اور نہیں جانتا اس کے صحیح معنیٰ کو بغیر اللہ تعالیٰ کے اور پختہ علم والوں کے ‘‘-

اس آیت کے تحت خاتم المفسرین علامہ سیدمحمود آلوسی (رحمتہ اللہ علیہ) فرماتے ہیں :

’’لعل القائل یکون المتشابہہ مما استأ ثراللہ تعالیٰ بعلمہ لا یمنع تعلیمہ للنبی (ﷺ) بواسطۃ الوحی مثلاولا القاء ہ فی روح الولی الکامل مفصلا لکن لا یصل الیٰ درجۃ الا حاطۃ لعلم اللہ تعالیٰ ومنع ھذاوذاک ممالا یکاد یقول بہ من یعرف رتبۃ النبی(ﷺ) و رتبۃ اولیاء امتہ الکاملین وانما المنع من الاحاطۃ ومن معرفتہٖ علیٰ سبیل النظر والفکر‘‘[7]

’’یعنی جن علماء کے نزدیک متشابہات سے مراد وہ امور ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مختص فرمایا ہے وہ علماء بھی اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان امور کا علم بذریعہ وحی اپنے رسول(ﷺ)کو دیا یا اولیاء کاملین کے قلوب میں القاء فرمایا ہے کیونکہ جو شخص حضور (ﷺ)کی امت کے اولیاء کاملین کے مرتبہ کو پہچانتا ہے وہ انکار نہیں کرسکتا‘‘-

نفی علم کے احاطہ کی ہے اور اس علم کی جو انسان اپنی عقل و فکر سے حاصل کرتا ہے نہ کہ اس علم کی جو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو یا بذریعہ الہام اپنے ولی کو عطا فرماتا ہے جیسے حضور نبی کریم(ﷺ)نے حضرت عبداللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ)کے لئے دعا فرمائی:

’’اللھم فقھہ فی الدین وعلمہ التاویل‘‘[8]

’’اے اللہ!عبداللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ)کو دین میں فقاہت (سمجھ بوجھ)اور تاویل کا علم عطا فرما‘‘-

امام قرطبی (رحمتہ اللہ علیہ)نے حضرت محمدبن جعفر بن زبیر(رضی اللہ عنہ)کے حوالے سے فرمایا کہ:

’’متشابہات وہ آیات ہیں جن  میں تصریف و تحریف اور تاویل ہوسکتی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ بندوں کو آزمایا ہے مجاہد اور ابن اسحاق نے بھی یہی کہا ہے-ابن عطیہ نے کہا ہے کہ اس آیت کےبارے میں سب سے احسن قول یہی ہے‘‘-[9]

علامہ غلام رسول سعیدی (رحمتہ اللہ علیہ)متشابہات کے حوالے سے علامہ عبدالعزیز بن احمد بخاری (المتوفیٰ:۷۳۰ھ) کا قول نقل کرتےہیں کہ:

’’جب کسی لفظ سے اس کی مراد مشتبہ ہو اور اس کی معرفت کا کوئی ذریعہ نہ ہو حتیٰ کہ اس کی مراد کی طلب ساکت ہو جائے اور اس کی مراد کےحق ہونے کا اعتقاد واجب ہو تو اس کو متشابہ کہتے ہیں‘‘-[10]

آیاتِ محکمات اور ذکر کی مناسبت :

علامہ غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں کہ عیسائیوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا :

’’ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللہِ وَکَلِمَتُہٗج اَلْقٰھَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ ‘‘[11]

’’اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ ہے جس کو اللہ نے(حضرت) مریم (علیھا السلام)کی طرف القاء کیا اور اللہ کی طرف سے روح ہے‘‘-

عیسائیوں نے یہ کہا کہ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا کلمہ اور اس کی روح کہا ہےاس سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن اللہ ہیں-مگراللہ تعالیٰ نے اس کے رد میں یہ آیات نازل فرمائیں کہ قرآن مجید میں محکم آیات بھی ہیں اور متشابہات آیات بھی ہیں اور یہ آیت بھی آیاتِ متشابہات میں سے ہے اور اس کی اصل مراد کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا-

محکم کا لغوی اور اصطلاحی معنیٰ:

علامہ سید محمد مرتضیٰ زبیدی حنفی (المتوفیٰ:۱۲۰۵ھ) لکھتے ہیں کہ:

’’محکم کے معنیٰ ہیں منع کرنا-حکمت کو، حکمت  اس کے لئے کہتے ہیں کہ عقل اس کے خلاف کو منع کرتی ہے اس لئے محکم کا معنیٰ ہے جس میں اشتباہ اور خفاء ممنوع ہو اور محکم وہ آیات ہیں جن میں تاویل اور نسخ ممنوع ہو‘‘-[12]

علامہ میر سید شریف علی بن محمد جرجانی (المتوفیٰ:۸۱۶ھ) لکھتے ہیں کہ:

’’المحکم ما احکم المراد بہ عن التبدیل و التغیر ای التخصیص و التاویل و النسخ مأخوذ من قولھم:بناء محکم، ای متقن مأمون الانتقاض، و ذلک مثل قولہ تعالیٰ:’’ َ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللہَ  بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ‘‘[13]وا لنصوص الدالۃ علی ذات اللہ تعالیٰ و صفاتہ لأن ذلک لا یحتمل النسخ‘‘[14]

’’جس لفظ کی مراد تبدیل، تغیر،تخصیص اور تاویل سے محفوظ ہو وہ محکم ہے-اس کی مثال وہ آیات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر دلالت کرتی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے اس آیت کے منسوخ ہونے کا احتمال نہیں‘‘-

امام ابو عبداللہ محمد بن احمد  بن ابوبکر قرطبی (رحمتہ اللہ علیہ)حضرت عبدا للہ ابن عباس(رضی اللہ عنہ) کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

’’ محکمات سے مراد ناسخ آیات ہیں اور متشابہات سے مراد منسوخ آیات ہیں اور یہی حضرت قتادہ اور ربیع اور ضحاک(رحمتہ اللہ علیہ)‘‘ نے بھی فرمایا[15]-

امام راغب اصفہانی(رحمتہ اللہ علیہ)محکم آیات کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’فالمحکم مالا یعرض فیہ شبھۃ من حیث اللفظ ولا من حیث المعنی ‘‘[16]

’’محکم وہ آیت ہے جس کا مفہوم واضح اور بیّن ہو اس کے لفظ یا معنیٰ کے اعتبار سے اس پر کسی قسم کا شبہ وارد نہ ہو سکتا ہو جیسے اقیموالصلوٰۃ ‘‘-

تفسیر قرطبی میں محمد بن جعفر  بن زبیر (رحمتہ اللہ علیہ) کے حوالے سے منقول ہے ،فرماتے ہیں:

’’محکمات وہ آیات ہیں جن میں رب کریم کی حجت بندوں کی عصمت اور جھگڑوں اور باطل کو دور کرنے کا ذکر ہے جس معنی پر انہیں وضع کیا گیا ہے اس سے نہ انہیں پھیرا جاسکے اور نہ اس میں کوئی تحریف کی جاسکے‘‘-[17]

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری (المتوفیٰ:۳۰۳ھ) کے حوالے سے علامہ غلام رسول سعیدی(رحمتہ اللہ علیہ) لکھتے ہیں کہ حضرت عبدا للہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا ہے کہ :

’’محکمات وہ آیات ہیں جو ناسخ ہیں اور ان میں حلال، حرام،حدود اور فرائض کا بیان ہے اور یہ کہ کس پر ایمان لایا جائے اور کس پر عمل کیا جائے‘‘-[18]

امام طبری حضرت جابر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) کا فرمان ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’ محکم وہ آیات ہیں جن کے معنی اور ان کی تاویل  اور تفسیر علماء کو معلوم ہے‘‘-[19]

یاد رکھیں! قرآن کریم کے نزول کا مقصد پوری انسانیت کی ہدایت ہے-قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نزول کے مقاصد کا تذکرہ کرتےہوئے فرمایا :

’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ‘‘[20]

’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں ‘‘-

مگرہدایت کے حصول کے لئے محض زبان تک محدود کرنے سے انسان اس سے اس کامل ہدایت کو حاصل نہیں کرسکتا جس کا وعدہ اس آیتِ مبارکہ میں کیا گیا ہے بلکہ اس کے لئے زبان سے گزرکر دل کی گہرائیوں تک قرآنِ کریم کو اتارنا ضروری ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:

’’اَفَـلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا‘‘[21]

’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں‘‘-

جب تک قرآنِ کریم کی تاثیر دل پر واردنہ ہو اس وقت تک دل میں نور داخل نہیں ہوتا اور دل کا منور ہونا ہی ہدایت کا باعث ہے-بقول علامہ اقبال (رحمتہ اللہ علیہ):

تیرے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف[22]

افسوس! یہ ہے کہ آج ہم نے قرآن کریم سے محض فرضی رشتہ و تعلق جوڑرکھا ہے-ہم نے کبھی قرآن میں غورو فکر کرکے حقائق کو پانے کی کوشش نہیں کی-ہم قرآن کو اپنے انداز میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن خود کو قرآن کے مطابق نہیں ڈھالتے-بقول اقبال (رحمتہ اللہ علیہ):

صاحب قرآن و بے ذوق طلب؟
اَلْعَجَبْ ثُمَّ الْعَجَبْ ثُمَّ الْعَجَبْ![23]

’’صاحب قرآن ہو کر بھی قرآن کی طلب نہیں رکھتے یہ کتنی عجیب بات ہے کتنی ہی عجیب ہے کتنی زیادہ ہی  عجیب ہے‘‘-

حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا:

’’ ان اللہ یرفع بھذا الکتاب اقواما ویضع اخرین‘‘[24]

’’بے شک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعےکئی قوموں کو بلند کرتا ہے اور دوسری قوموں کو گرا دیتا ہے‘‘-

اس کتاب کے ذریعے وہ قومیں عزت پاتی ہیں جو قرآن کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں، جو اس میں غوطہ زنی کر کےقرآن کریم کے اسرار و رموز سے سرفرازی و سربلندی پاتی ہیں-اس کے برعکس جو قومیں قرآن کو چھوڑ دیتی ہیں تو زوال ان کا مقدر بن جاتا ہے- 

حضرت عبداللہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

’’الصیام و القرآن یشفعان للعبد یوم القیامۃیقول الصیام ای رب منعتہ الطعام و الشھواۃ بالنھار فشفعنی فیہ ویقول القرآن منعتہ النوم فشفعنی فیہ قال فیشفعان‘‘[25]

’’روزے اور قرآن قیامت کے دن بندے کی شفاعت کریں گےروزہ کہے گا اے میرے رب میں نے اسے کھانے اور شہوت سے دن کو منع کیا تھا پس میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہے گا مَیں نے اسے سونے سے منع کیا تو میری شفاعت کو اس حق میں قبول فرما، پھر آقا پاک(ﷺ) نے فرمایا ان دونوں کی شفاعت کو قبول کیا جائے گا‘‘-

بقول علامہ اقبال(رحمتہ اللہ علیہ):

ز قرآن پیش خود آئینہ آویز
دگر گوں گشتۂ! از خویش بگریز[26]

’’ تم اپنے سامنے قرآن کا آئینہ رکھو تمہاری حالت غیر ہو چکی ہے اپنے آپ کی اس حالت سے بچو‘‘-

اندکے گم شو بقرآن و خبر
باز اے ناداں بخویش اندر نگر[27]

’’کبھی قرآ ن اور حدیث میں گم ہوجا اے نادان پھر اپنے اندر دیکھ‘‘-

آپ(رحمتہ اللہ علیہ) مزید فرماتے ہیں کہ:

نقشِ قرآن تا درین عالم نشست
بندۂ مومن ز قرآن بر نَخُورد
سینہ ہا از گرمیٔ قرآن تہی
چوں مسلماناں اگر داری جگر

 

نقشہائے کاہن و پاپا شکست
در ایاغِ او نہ مے دیدم، نہ دُرد
از چنین مرداں چہ امید بہی
در ضمیرِِ خویش و در قرآں نگر[28

 

 

       

’’جب قرآن کا نقش اس جہاں پر ثبت ہوا تو برہمنوں اور پادریوں کے نقش مٹ گئے-آج کا مسلمان قرآن کا پھل نہیں کھاتا(جس کی وجہ سے) اس کے پیالے(دل) میں نہ شراب ہے اور نہ تلچھٹ-ان(مسلمانوں) کے سینے گرمیٔ قرآن سے خالی ہوگئے ایسے مردوں سے نیکی کی کیا اُمید رکھی جاسکتی ہے -اگر مسلمانوں (یعنی اپنے اسلاف)کی طرح جگر رکھتے ہو تو اپنے ضمیر میں اور قرآن میں نگاہ کرو‘ ‘-

ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن پاک کو محض پڑھنے پڑھانے تک محدود نہ کیا جائے بلکہ اس سے اپنے ظاہر و باطن کی تربیت کے رہنما اصول اخذ کرکےعملی جامہ پہنایا جائے اور اپنے کردار کو قرآن کریم کی عملی تفسیر بنایا جائے-

٭٭٭


[1](النساء:۸۲)

[2](العمران:۷)

[3](تفسیر مظہری ج:۱ص،۲۶)

[4](تفسیر روح المعانی ج:۱،ص:۱۶۷)

[5](تفسیر مظہری ، ج: ۱،ص:۲۵)

[6](العمران:۷)

[7](روح المعانی ،ج:۲،ص:۱۴۱)

[8](روح المعانی ،ج: ۲،ص:۱۳۷)

[9](تفسیر قرطبی، ج:۲، ص:۵۲۶)

[10](تبیان القرآن،ج:۲، ص:۶۳)

[11](النساء:۱۷۱)

[12](تاج العروس،ج:۸،ص:۳۵۳)

[13](البقرۃ:۲۳۱)

[14](کتاب التعریفات،ص:۱۴۵)

[15](تفسیر قرطبی، ج:۲، ص:۵۲۶)

[16](المفردات،ص:۱۲۸ مطبوعہ ایران)

[17](تفسیر قرطبی، ج:۲،ص:۵۲۶)

[18](تبیان القرآن، ج:۲، ص:۶۱)

[19](جامع البیان، ج:۳، ص:۱۱۶)

[20](البقرۃ:۱۸۵)

[21](محمد:۲۴)

[22](بالِ جبریل)

[23](جاوید نامہ)

[24](مسند الشامین الطبرانی، ج:۸، ص: ۳۷۷)

[25](المستدرک علی الصحیحین، ج:۵، ص: ۱۰۰)

[26](ارمغانِ حجاز)

[27](پس چہ باید کرد اے اقوامِ مشرق)

[28](جاوید نامہ)

دائرہ ِکائنات کسی ایسے مرکز کا متلاشی تھا جس کی طرف سب کا رجوع ہو-اسی آرزو پر اللہ رب العزت نے رحم فرمایا کہ مخلوق کو خالق سے ملانے، بگڑوں کو سنوارنے،گرتوں کو تھامنے، بکھروں کو یکجا کرنے،نابینوں کو بینائی دینے، بھٹکے ہوؤں کو ہدایت دینے،گمراہوں کو راہ پر چلانے اور منزل تک پہنچانے کےلئے اس ذاتِ اقدس کو پیدا فرماکر اُس پر اپنے کلام’’قرآن مجید‘‘کا نزول فرمایا-اس ہستی پاک کوعرش والے احمد مجتبیٰ(ﷺ) اور فرش والے محمد مصطفےٰ (ﷺ) کے اسمِ گرامی کے نام سے یادکرتے ہیں-

اللہ پاک کا کلام ’’قرآن مجید‘‘ایک ایسانسخۂ کیمیا ہے جوبیماروں کی شفاء اورگمراہوں کا رہنما ہے-مزید یہ انسان کی دینی اور دنیوی زندگی کا مکمل دستور العمل ہے-ہر مسلمان و مومن کے دل میں یہ جذبہ و تڑپ موجود ہے کہ اللہ پاک اس کو اس لاریب کتاب کی صحیح فہم عطا فرمائے-اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا:

’’افَـلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ‘‘[1]

’’کیا تم قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے ‘‘-

اسی طرح اگر قرآن مجید میں غور و فکر کیا جائے تو ہمیں اس کلام کو سمجھنے اور اس تک پہنچنے کے لئےیہ  آیت مبارکہ ہماری رہنمائی کرتی ہے:

’’ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌط فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَ ابْتِغَآئَ تَاْوِیْـلِہٖج وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلاَّ اﷲُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاج وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘[2]

’’وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں،سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیراثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سےاور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتااور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے،ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہےاور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے‘‘-

مفسرین کرام نے تفاسیر میں  ان کو اس انداز میں بیان فرمایا-

1)      مقطعات

2)      مُتشابہات

3)      محکمات

حروفِ مقطعات کے بارے میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی (﷫)فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (﷜) حضرت عثمان غنی حضرت عبداللہ ابن مسعود (﷢)اور کثیر محدثین فرماتے ہیں:

’’عن الصدر الاول فی الحروف التہجی أنھا سر بین اللہ وبین نبیہ(ﷺ)‘‘[3]

’’سورتوں کی ابتداء میں  حروف مقطعات اللہ اور اس کے محبوب(ﷺ)کے درمیان راز ہیں ‘‘-

علامہ سیدمحمود آلوسی(﷫)فرماتے ہیں:

’’قال الشعبی سراللہ تعالیٰ فلا تطلبوہ فلا یعرفہ بعد رسول اللہ (ﷺ) الا الاولیاء الورثۃ فھم یعرفونہ من تلک الحضرۃ ‘‘[4]

’’یہ اللہ تعالیٰ کا راز ہے اسے تم طلب نہ کرو-(مقطعات)حضور(ﷺ)کے بعد کوئی نہیں جانتا سوائے اولیاء کے کیونکہ وہ انبیاء کے (علم)کے وارث ہیں اور وہی ان کو پہچانتے ہیں (یعنی اسرارورموز)‘‘-

حروفِ مقطعات کے متعلق تفسیر مظہری میں امام بغوی (﷫)کے حوالہ سے منقول ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (﷜)فرماتے ہیں:

’’ قال ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فی کل کتاب سر و سر اللہ تعالیٰ فی القرآن اوائل السورۃ ‘‘[5]

’’حضرت ابو بکر صدیق(﷜) فرماتے ہیں کہ ہر کتاب میں راز ہوتا ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا راز سورتوں کی ابتداء میں ہے یعنی حروف مقطعات میں‘‘-

مُتشابہات:

متشابہات کے بارے میں فرمانِ الٰہی ہے:

’’وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلاَّ اللہُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ‘‘[6]

’’اور نہیں جانتا اس کے صحیح معنیٰ کو بغیر اللہ تعالیٰ کے اور پختہ علم والوں کے ‘‘-

اس آیت کے تحت خاتم المفسرین علامہ سیدمحمود آلوسی (﷫) فرماتے ہیں :

’’لعل القائل یکون المتشابہہ مما استأ ثراللہ تعالیٰ بعلمہ لا یمنع تعلیمہ للنبی (ﷺ) بواسطۃ الوحی مثلاولا القاء ہ فی روح الولی الکامل مفصلا لکن لا یصل الیٰ درجۃ الا حاطۃ لعلم اللہ تعالیٰ ومنع ھذاوذاک ممالا یکاد یقول بہ من یعرف رتبۃ النبی(ﷺ) و رتبۃ اولیاء امتہ الکاملین وانما المنع من الاحاطۃ ومن معرفتہٖ علیٰ سبیل النظر والفکر‘‘[7]

’’یعنی جن علماء کے نزدیک متشابہات سے مراد وہ امور ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مختص فرمایا ہے وہ علماء بھی اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان امور کا علم بذریعہ وحی اپنے رسول(ﷺ)کو دیا یا اولیاء کاملین کے قلوب میں القاء فرمایا ہے کیونکہ جو شخص حضور (ﷺ)کی امت کے اولیاء کاملین کے مرتبہ کو پہچانتا ہے وہ انکار نہیں کرسکتا‘‘-

نفی علم کے احاطہ کی ہے اور اس علم کی جو انسان اپنی عقل و فکر سے حاصل کرتا ہے نہ کہ اس علم کی جو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو یا بذریعہ الہام اپنے ولی کو عطا فرماتا ہے جیسے حضور نبی کریم(ﷺ)نے حضرت عبداللہ ابن عباس (﷠)کے لئے دعا فرمائی:

’’اللھم فقھہ فی الدین وعلمہ التاویل‘‘[8]

’’اے اللہ!عبداللہ ابن عباس (﷠)کو دین میں فقاہت (سمجھ بوجھ)اور تاویل کا علم عطا فرما‘‘-

امام قرطبی (﷫)نے حضرت محمدبن جعفر بن زبیر(﷫)کے حوالے سے فرمایا کہ:

’’متشابہات وہ آیات ہیں جن  میں تصریف و تحریف اور تاویل ہوسکتی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ بندوں کو آزمایا ہے مجاہد اور ابن اسحاق نے بھی یہی کہا ہے-ابن عطیہ نے کہا ہے کہ اس آیت کےبارے میں سب سے احسن قول یہی ہے‘‘-[9]

علامہ غلام رسول سعیدی (﷫)متشابہات کے حوالے سے علامہ عبدالعزیز بن احمد بخاری (المتوفیٰ:۷۳۰ھ) کا قول نقل کرتےہیں کہ:

’’جب کسی لفظ سے اس کی مراد مشتبہ ہو اور اس کی معرفت کا کوئی ذریعہ نہ ہو حتیٰ کہ اس کی مراد کی طلب ساکت ہو جائے اور اس کی مراد کےحق ہونے کا اعتقاد واجب ہو تو اس کو متشابہ کہتے ہیں‘‘-[10]

آیاتِ محکمات اور ذکر کی مناسبت :

علامہ غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں کہ عیسائیوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا :

’’ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللہِ وَکَلِمَتُہٗج اَلْقٰھَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ ‘‘[11]

’’اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ ہے جس کو اللہ نے(حضرت) مریم (﷥)کی طرف القاء کیا اور اللہ کی طرف سے روح ہے‘‘-

عیسائیوں نے یہ کہا کہ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا کلمہ اور اس کی روح کہا ہےاس سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن اللہ ہیں-مگراللہ تعالیٰ نے اس کے رد میں یہ آیات نازل فرمائیں کہ قرآن مجید میں محکم آیات بھی ہیں اور متشابہات آیات بھی ہیں اور یہ آیت بھی آیاتِ متشابہات میں سے ہے اور اس کی اصل مراد کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا-

محکم کا لغوی اور اصطلاحی معنیٰ:

علامہ سید محمد مرتضیٰ زبیدی حنفی (المتوفیٰ:۱۲۰۵ھ) لکھتے ہیں کہ:

’’محکم کے معنیٰ ہیں منع کرنا-حکمت کو، حکمت  اس کے لئے کہتے ہیں کہ عقل اس کے خلاف کو منع کرتی ہے اس لئے محکم کا معنیٰ ہے جس میں اشتباہ اور خفاء ممنوع ہو اور محکم وہ آیات ہیں جن میں تاویل اور نسخ ممنوع ہو‘‘-[12]

علامہ میر سید شریف علی بن محمد جرجانی (المتوفیٰ:۸۱۶ھ) لکھتے ہیں کہ:

’’المحکم ما احکم المراد بہ عن التبدیل و التغیر ای التخصیص و التاویل و النسخ مأخوذ من قولھم:بناء محکم، ای متقن مأمون الانتقاض، و ذلک مثل قولہ تعالیٰ:’’ َ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللہَ  بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ‘‘[13]وا لنصوص الدالۃ علی ذات اللہ تعالیٰ و صفاتہ لأن ذلک لا یحتمل النسخ‘‘[14]

’’جس لفظ کی مراد تبدیل، تغیر،تخصیص اور تاویل سے محفوظ ہو وہ محکم ہے-اس کی مثال وہ آیات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر دلالت کرتی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے اس آیت کے منسوخ ہونے کا احتمال نہیں‘‘-

امام ابو عبداللہ محمد بن احمد  بن ابوبکر قرطبی (﷫)حضرت عبدا للہ ابن عباس(﷠) کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

’’ محکمات سے مراد ناسخ آیات ہیں اور متشابہات سے مراد منسوخ آیات ہیں اور یہی حضرت قتادہ اور ربیع اور ضحاک(﷭)‘‘ نے بھی فرمایا[15]-

امام راغب اصفہانی(﷫)محکم آیات کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’فالمحکم مالا یعرض فیہ شبھۃ من حیث اللفظ ولا من حیث المعنی ‘‘[16]

’’محکم وہ آیت ہے جس کا مفہوم واضح اور بیّن ہو اس کے لفظ یا معنیٰ کے اعتبار سے اس پر کسی قسم کا شبہ وارد نہ ہو سکتا ہو جیسے اقیموالصلوٰۃ ‘‘-

تفسیر قرطبی میں محمد بن جعفر  بن زبیر (﷫) کے حوالے سے منقول ہے ،فرماتے ہیں:

’’محکمات وہ آیات ہیں جن میں رب کریم کی حجت بندوں کی عصمت اور جھگڑوں اور باطل کو دور کرنے کا ذکر ہے جس معنی پر انہیں وضع کیا گیا ہے اس سے نہ انہیں پھیرا جاسکے اور نہ اس میں کوئی تحریف کی جاسکے‘‘-[17]

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری (المتوفیٰ:۳۰۳ھ) کے حوالے سے علامہ غلام رسول سعیدی(﷫) لکھتے ہیں کہ حضرت عبدا للہ ابن عباس (﷠) نے فرمایا ہ?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر