نظریہ تخلیق اور صداقتِ قرآن

نظریہ تخلیق اور صداقتِ قرآن

نظریہ تخلیق اور صداقتِ قرآن

مصنف: عثمان حسن جون 2017

قرآن کریم اللہ رب العزت کا لاریب کلام ہے-یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور انسان کے ذاتی،اخلاقی،سماجی،معاشرتی،معاشی،قانونی اور زندگی کے دیگر پہلوؤں پر رہنمائی فراہم کرتا ہے-انسان کی پیدائش اور اس کائنات کی پیدائش،یہ ایسے موضوعات ہیں جو فلسفیوں، سائنس دانوں،مذہبی دانشوروں سمیت مختلف شعبہ جات میں انسان کے ہاں ہمیشہ سے مقبول رہے ہیں-جدید دور میں علم کے دیگر شعبہ جات کے مقابلے میں سائنس کو زیادہ پذیرائی ملی ہے اور سائنسی بنیادو ں پر مرتب ہونے والے اس کے انکشافات بہت حد تک  قابلِ بھروسہ سمجھے جاتے ہیں-اگرچہ ہر دور میں سائنس ارتقاء پذیر رہتی ہے جس کے سبب  بسا اوقات اس کے انکشافات میں بڑے پیمانے پر تبدیلی واقع ہوتی ہے تاہم اس سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ کائنات کے چھپے ہوئے گوشوں سے پردہ اٹھاتی رہے  اور بے شمار زیرِ بحث سوالات کا تسلی بخش اور تجربات و مشاہدات پر مبنی جوابات دے-اگرچہ یہ تجربات بذاتِ خود بھی ارتقاء پذیر بلکہ ’’غیر دوامی و غیر مستقل‘‘ رہتے ہیں-

انسان اور کائنات کی تخلیق کے متعلق بھی عصرِ حاضر میں سائنسی جوابات کو زیادہ تر قابلِ بھروسہ سمجھا جاتا ہے یہ جوابات انہی سائنسی قوانین کی روشنی میں مرتب کئے گئے ہیں جن قوانین کا جادو ہماری روزمرہ زندگی میں سر چڑھ کر بولتا ہے-چاہے وہ ’’ڈی این اے‘‘کا تجزیہ ہو، موروثی بیماریوں کا علاج ہو،ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی صحت و افزائش کے معاملات ہوں،خلاء میں موجود سیٹلائٹس کے ذریعہ راستہ کی تلاش ہو،ٹیلی کمیونیکیشن ہو،کمپیوٹرز ہوں یا دیگر جدید ایسی سائنسی ایجادات ہوں،انہوں نے اپنے قابلِ بھروسہ ہونے کا ثبوت اپنی کارکردگی سے دیا ہے-ایسے حالات میں مذہب میں موجود کائنات اور انسانی جسم یعنی سائنسی موضوعات سے متعلقہ اصولوں  کا سائنسی انکشافات کے ساتھ ہم آہنگی کا تجزیہ بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے-اگرچہ یہ غالب حقیقت ہے کہ سائنس کے اصول ارتقاء پذیری رہتے ہیں جبکہ کلامِ الٰہی حتمی علم کا حامل ہے -  اس لئے قرآن کے احکامات و انکشافات ’’دوامی و مستقل‘‘ ہیں -  تاہم یہ درست ہے کہ قرآن کریم میں کئی سائنسی امور پر راہنما اصول فراہم کئے گئے ہیں اور وقت کے ساتھ جوں جوں سائنسی نظریات پختگی اختیار کر ہے ہیں،توں توں یہ قرآن کریم کے فرمودات کی تصدیق کرتے چلے جا رہے ہیں- زیرِ نظر مضمون میں تخلیقِ کائنات اور تخلیقِ انسان کے متعلق جدید سائنسی نظریات،چند سائنسدانوں کی آراء اور قرآن کریم میں موجود انہی موضوعات کا مختصر  مطالعہ پیش کیا گیا ہے-

پیدائشِ حیات اور پانی:

قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے واضح فرمایا:

’’وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ط اَفَـلَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘[1]

’’اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان لائیں گے‘‘-

یعنی تمام جاندار اشیاء کی ابتدا پانی  سے کی گئی ہےاور یہ اصول بھی آج کے موجودہ سائنسی نظریات کےلئے راہنما اصول ہے جو یہ ماننے پر مجبور ہوئے ہیں کہ تمام تر زندگی کی موجودگی کےلئے پانی کی موجودگی اور اس سے تعلق لازم ہے-

زمین پر زندگی کی ابتداء کے متعلق غالب سائنسی نظریہ جن بنیادی قوانین پر قائم ہے ان میں ایک پانی کی موجودگی ہے جیسا کہ  پروفیسر ڈیلتوو مولر (Detlev Möller) کہتے ہیں:

‘‘One of the fundamental requirements for life as we know it is the presence of liquid water on (or below) a planet’s surface.’’

’’ زندگی کی جس حالت کو ہم جانتے ہیں اس  کےلئے ایک بنیادی ضرورت سیارہ کی سطح پر(یا نیچے) پانی کی موجودگی ہے‘‘-

برٹش بائیو کیمسٹ ڈاکٹر نِک لین(Nick Lane) کے مطابق:

‘‘It is possible to trace a coherent pathway leading from no more than rocks, water and carbon dioxide to the strange bioenergetics properties of all cells living today.’’

’’ایسا بالکل ممکن ہے کہ آج  تمام زندہ خلیوں کی عجیب بائیو جینیٹک خصوصیات  کا تعلق چٹانوں،پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تلاش کر لیا جائے‘‘-

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی نشانی بیان فرمائی مگر ان امور کی تفصیل انسان کے لئے چھوڑی گئی ہے کہ اپنی سمجھ بوجھ اور عقل کو استعمال کرتے ہوئے اللہ رب العزت کی مخلوق کے متعلق علم حاصل کرے -یہ علم انسان کے ایمان میں اضافہ کا ہی باعث بنتا ہے - بشرطیکہ اس کی حدود و قیود اور دائرہ کار کو پرکھتے ہوئے ان حقائق کا مطالعہ کیا جائے اور ان سے سبق حاصل کیا جائے-

زمانہ قدیم میں یہ ایک غالب امر  سمجھا جاتا تھا کہ پیدا ہونے والے بچے کی جنس کا تعین دراصل ماں کی خاصیت ہے حتیٰ کہ ابھی بھی بعض لوگ اسی بات پر یقین رکھتے ہیں - جبکہ جدید سائنس نے ثابت کیا ہے کہ مادہ یا نر کی خاصیت کا اختیار باپ کے جسم میں ودیت کیا گیا ہے-قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا:

’’وَ اَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰیo مِنْ نُّطْفَۃٍ اِذَا تُمْنٰی‘‘[2]

’’اور یہ کہ اُسی نے نَر اور مادہ دو قِسموں کو پیدا کیا-نطفہ (ایک تولیدی قطرہ) سے جب کہ وہ (رَحمِ مادہ میں) ٹپکایا جاتا ہے‘‘-

ماں کے پیٹ میں پیدائش کے مراحل کے متعلق جدید سائنسی علوم کا کہنا ہے کہ  سب سے پہلے نطفہ ٹھہرتا ہے جس سے بچے کی پیدائش کی ابتدا ہوتی ہے-ماہرِ جینیات ’جان لانگ مین‘اپنی کتاب ’’Medical Embryology‘‘میں تحریر کرتے ہیں- 

‘‘The development of human being begin with fertilization, a process by which two highly specialized cell the spermatozoon from male and oocyte from female, unite to give rise to new organism, the zygote.’’

’’انسان کی نشونما فرٹیلائزیشن سے شروع ہوتی ہے،ایک ایسا سلسلہ جس میں دو نہایت خاص خلیے یعنی نر نطفہ اور مادہ نطفہ مل کر نیا وجود یعنی زائیگوٹ بناتے ہیں‘‘-

پروفیسر ’کیتھ ایل موور‘ اپنی کتاب ’’Essentials of Human Embryology‘‘ میں لکھتے ہیں :

‘‘Fertilization is a sequence of events that begins with the contact of a sperm (spermatozoon) with a secondary oocyte (ovum) and ends with the fusion of their pronuclei (the haploid nuclei of the sperm and ovum) and the mingling of their chromosomes to form a new cell. This fertilized ovum, known as a zygote, is a large diploid cell that is the beginning, or primordium, of a human being’’.

’’فرٹیلائزیشن ایسے واقعات کا تسلسل ہے جو نر اور مادہ خلیوں (سپرم اور دوسرے مرحلہ کا بیضہ)کے ملنے سے شروع ہوتا ہے  اور اس کا اختتام ان کے نیوکلیئس کے ملنے  اور  ان کے کروموسومز کے انضمام  سے نئے خلیہ کی تخلیق پر ہوتا ہے-یہ زائیگوٹ ایک بڑا خلیہ(دو خلیوں کا انضمام) ہوتاہے جو انسانی جسم کی نشونما کی ابتدا ہے‘‘-

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:

’’وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍo ثُمَّ جَعَلْنٰـہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍoثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰـمَ لَحْمًاق ثُمَّ اَنْشَاْنٰـہُ خَلْقًا اٰخَرَط فَتَبٰـرَکَ اﷲُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ‘‘[3]

’’اور بے شک ہم نے انسان کی تخلیق (کی ابتداء) مٹی (کے کیمیائی اجزاء) کے خلاصہ سے فرمائی-پھر اسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحم مادر) میں رکھا-پھر ہم نے اس نطفہ کو (رحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلّق وجود بنا دیا، پھر ہم نے اس معلّق وجود کو ایک (ایسا) لوتھڑا بنا دیا جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے، پھر ہم نے اس لوتھڑے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا، پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت (اور پٹھے) چڑھائے، پھر ہم نے اسے تخلیق کی دوسری صورت میں (بدل کر تدریجاً) نشوونما دی، پھر (اس) اﷲ نے (اسے) بڑھا (کر محکم وجود بنا) دیا جو سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہے‘‘-

یعنی اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں انسانی جسم کی پیدائش کے اصول بیان فرمائے-یہ قابلِ غور بات ہے کہ ان عوامل کی سائنسی تصدیق نزول قرآن کے بہت بعد میں ممکن ہوئی-تاہم جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ملنے والی معلومات نے انہی امور کی تصدیق کی-’پروفیسر کیتھ موور‘ انہی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘The interpretation of the verses in the Qur'an referring to human development would not have been possible in the 7th century A.D., or even a hundred years ago. We can interpret them now because the science of modern Embryology affords us new understanding. Undoubtedly there are other verses in the Qur'an related to human development that will be understood in the future as our knowledge increases.’’

’’انسانی نشونما سے متعلق قرآن مجید کی آیات کی توضیح ساتویں صدی عیسوی میں ممکن نہیں ہوئی ہو گی حتیٰ کہ ایک سو سال قبل بھی -اب ہم ان کی توضیح کر سکتے ہیں کیونکہ جینیات سے متعلق جدید سائنس نے ہمیں نئی سمجھ بوجھ دی ہے-بلاشک و شبہ  قرآن کریم میں انسانی نشونما سے متعلق دیگر آیات بھی ہیں جنہیں مستقبل میں سمجھا جا سکے گا جوں جوں ہمارا علم بڑھے گا‘‘-

’پروفیسر ڈاکٹر ٹی وی این پرساد‘ کہتے ہیں:

‘‘There are too many accuracies [in the Qur'an] and, like Dr. Moore, I have no difficulty in my mind that this is a divine inspiration or revelation which led him to these statements’’.

’’(قرآن کریم میں) بہت زیادہ صداقت ہے اور ڈاکٹر موور کی طرح میرے ذہن میں کوئی الجھن نہیں ہے کہ یہ خدائی الہام یا وحی ہے جس نےانہیں(نبی اکرم(ﷺ)کو) ان فرمودات تک لایا‘‘-

’تھامس جیفرسن یونیورسٹی، پنشلوینیا،امریکہ کے  پروفیسر ڈاکٹر ای مارشل جانسن‘ کہتے ہیں:

‘‘The Quran describes not only the development of external form, but emphasizes also the internal stages, the stages inside the embryo, of its creation and development, emphasizing major events recognized by contemporary science.’’

’’قرآن نہ صرف (انسان کی) بیرونی حالت کی نشونما کے متعلق بیان کرتا ہے بلکہ اندرونی مراحل پر بھی زور دیتا ہے،مضغہ کے اندرونی مراحل،اس کی پیدائش اور نشونما اور اس دوران اہم تبدیلیوں پر زور دیتا ہے جنہیں جدید سائنس نے تسلیم کیا ہے‘‘-

پیدائش و ابتدائے کائنات:

البرٹ آئن سٹائن نے۱۹۱۶ءمیں زمان و مکان کےنظریات(general theory of  relativity) پیش کئے اور اُس وقت آئن سٹائن کا ماننا تھا کہ کائنات ایک ساکت حالت میں ہے(نہ پھیل رہی ہے نہ سکڑ رہی ہے)  تاہم تجربات اور آئن سٹائن ہی  کی تھیوری  کی روشنی میں ماہرِ طبیعات الیگزینڈر فرائڈمین(Alexander Friedman)نے یہ پیش گوئی کی کہ ہماری کائنات پھیل رہی ہے-ایڈون ہبل(Edwin  Hubble) کی تحقیق نے اس نظریہ کو پختہ کیا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے-سال ۲۰۱۱ءکا طبیعات میں نوبیل انعام کائنات کے تسلسل کے ساتھ پھیلنے بلکہ سرعت انگیزی سے پھیلنے کی دریافت پر تین سائنسدانوں کو دیا گیا جن میں کیلیفورنیا برکلے یونیورسٹی امریکہ کے  پروفیسر سائول پرلموتر (Saul Perlmutter)، آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی ویسٹن کریک کے پروفیسر برائن پی سمتھ(Brian P. Schmidt) اور جان ہاپکنز یونیورسٹی بالٹی مور،امریکہ کے پروفیسر ایڈم جی رئیس (Adam G. Riess) شامل ہیں-

یہ سوال بھی سائنسدانوں کے ہاں زیرِ بحث رہا ہے کہ اگرکائنات مسلسل پھیل رہی ہے تو اس کے پھیلاؤ کی یقیناً کوئی ابتدا ہو گی؟ اسی سوال اور سائنسی ارتقاء نے سائنسدانوں کو بگ بینگ کےنظریہ پر لا کھڑا کیا جسے کائنات(زمان و مکان) کی ابتدا سمجھا جاتا ہے-اس دریافت کے ضمن میں ۱۹۷۸ءکا نوبیل انعام تین(۳)سائنسدانوں پوئیٹر کیپٹسا،آرمو پینزیاس اور رابرٹ ووڈرو (Pyotr Kapitsa, Arno Penzias, Robert Woodrow Wilson) کو دیا گیا جنہوں نے بگ بینگ کے وقت پیدا ہونے والی شعاعوں (Cosmic Microwave Background Radiation)کی دریافت کر کے اس نظریے کو جدید سائنسی طریقہ کار سے ثابت کیا-

قرآن کریم میں  اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :

’’اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ ط بَلٰیق وَہُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُo اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ‘‘[4]

’’اور کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے اس بات پر قادر نہیں کہ ان جیسی تخلیق (دوبارہ) کردے، کیوں نہیں، اور وہ بڑا پیدا کرنے والا خوب جاننے والا ہے-اس کا امرِ (تخلیق) فقط یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو (پیدا فرمانا) چاہتا ہے تو اسے فرماتا ہے ہو جا، پس وہ فوراً (موجود یا ظاہر) ہو جاتی ہے (اور ہوتی چلی جاتی ہے)‘‘-

’’وَ السَّمَآئَ بَنَیْنٰـھَا بِاَیْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ‘‘[5]

’’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقینا ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘-

’’اَوَلَمْ یَرَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا‘‘[6]

’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا ‘‘-

یعنی یہ بات قرآن کریم نے واضح فرما دی ہے کہ زمین و آسمان تمام چیزیں پہلے آپس میں ایک تھیں جو بعد میں الگ ہوئیں اور یہ بھی کہ آسمان کو اللہ رب العزت نے وسعت بخشی ہے-ان احکاماتِ قرآنی کی روشنی میں بہت سے سکالرز نے یہ کہا ہے کہ بگ بینگ کا نظریہ اور کائنات کے پھیلاؤ کا نظریہ قرآن کریم میں موجود انکشافات سے متصادم نہیں ہے اور ابھی تک کے بہت سے سائنسی حقائق قرآن کریم کے فرمودات کی تصدیق ہی کرتے ہیں-

وسعتِ کائنات:

جدید سائنس کے مطابق ہماری قابلِ مشاہدہ کائنات کی وسعت قریباً  ۹۳ ارب نوری سال کے قریب ہے(ایک نوری سال  قریباً ساٹھ (۶۰) کھرب میل کے برابر ہے ) یعنی یہ اتنی وسیع ہے کہ اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے جبکہ کُل کائنات کی وسعت کے متعلق امریکی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی بھی یقین سے نہیں جان سکا کہ ہماری کائنات کا کُل سائز کیا ہے؟اور ابھی تک موجودہ سائنسی نظریات کے مطابق ہم شائد ہی پوری کائنات کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہو سکیں-اللہ رب العزت نے اپنی اس تخلیق کی جانب بھی قرآن کریم میں توجہ مبذول کروائی:

’’الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاط مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍط فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍoثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّھُوَ حَسِیْرٌ‘‘[7]

’’جس نے سات (یا متعدّد) آسمانی کرّے باہمی مطابقت کے ساتھ (طبق دَر طبق) پیدا فرمائے،تم (خدائے) رحمان کے نظامِ تخلیق میں کوئی بے ضابطگی اور عدمِ تناسب نہیں دیکھو گے،سو تم نگاہِ (غور و فکر) پھیر کر دیکھو،کیا تم اس (تخلیق) میں کوئی شگاف یا خلل (یعنی شکستگی یا اِنقطاع) دیکھتے ہو-تم پھر نگاہِ (تحقیق) کو بار بار (مختلف زاویوں اور سائنسی طریقوں سے) پھیر کر دیکھو،(ہر بار) نظر تمہاری طرف تھک کر پلٹ آئے گی اور وہ (کوئی بھی نقص تلاش کرنے میں) ناکام ہو گی‘‘-

یعنی اللہ رب العزت نے اس بات کی کھلی دعوت دی کہ کائنات کو نگاہ اٹھا کر دیکھا جائے لیکن جہاں تک بھی دیکھ لیا جائے بالآخر نگاہ تھکی ہاری واپس ہی آتی ہے-جدید ترین آلات بھی کائنات کے ایک انتہائی چھوٹے حصے کا ہی مشاہدہ کر پائے ہیں-وسعتِ کائنات کے موضوع پر بھی جدید سائنسی نظریات قرآنی انکشافات سے ہم آہنگی رکھتے ہیں اور مشاہدات انہی قرآنی اصولوں کے مطابق نظر آتے ہیں-

سورج اور ستاروں کے متعلق:

جدید سائنسی علوم کے مطابق سورج ایک سیارہ ہے جو بذاتِ خود چمکتا ہے جبکہ چاند محض سورج کی روشنی کو منعکس کرتا ہے-قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے چاند اور سورج دونوں کے چمکنے میں فرق بیان فرمایا:

’’وَّ جَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا‘‘[8]

’’اور اس نے ان میں چاند کو روشن کیا اور اس نے سورج کو چراغ (یعنی روشنی اور حرارت کا منبع) بنایا‘‘-

مزید برآں ہمیں نظر آنے والے ستارے بھی اپنی روشنی سے چمکتے ہیں-اللہ رب العزت کا فرمان ہے:

’’وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنٰـھَا رُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ وَاَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ‘‘[9]

’’اور بے شک ہم نے سب سے قریبی آسمانی کائنات کو (ستاروں، سیاروں، دیگر خلائی کرّوں اور ذرّوں کی شکل میں) چراغوں سے مزیّن فرما دیا ہے اور ہم نے ان (ہی میں سے بعض) کو شیطانوں (یعنی سرکش قوتوں) کو مار بھگانے (یعنی ان کے منفی اَثرات ختم کرنے) کا ذریعہ بھی بنایا ہےاور ہم نے ان (شیطانوں) کے لیے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘-

’’تَبٰـرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآئِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْہَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِیْرًا‘‘[10]

’’وہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوی کرّوں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اس نظامِ شمسی میں) چمکنے والا چاند بنایا‘‘-

’’فَقَضٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ وَاَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَھَاط وَزَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًاط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ‘‘[11]

’’پھر دو دِنوں (یعنی دو مرحلوں) میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر سماوی کائنات میں اس کا نظام ودیعت کر دیا اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں (یعنی ستاروں اور سیّاروں) سے آراستہ کر دیا اور محفوظ بھی (تاکہ ایک کا نظام دوسرے میں مداخلت نہ کر سکے)، یہ زبر دست غلبہ (و قوت) والے، بڑے علم والے (رب) کا مقرر کردہ نظام ہے‘‘-

فلاسفہ اور سائنسدانوں کے ہاں یہ ایک لمبی بحث رہی ہے کہ کیا سورج،چاند، زمین اور ستارے گھومتے ہیں؟کائنات کے جدید سائنسی علم کے مطابق سورج اور چاند سمیت تمام اجسام اپنے مخصوص مدار میں گھومتے ہیں-سورج کی حرکت کے متعلق امریکی ادارے ناسا کا کہنا ہے:

‘‘The Sun - in fact, our whole solar system - orbits around the center of the Milky Way Galaxy. We are moving at an average velocity of 828,000 km/hr. But even at that high rate, it still takes us about 230 million years to make one complete orbit around the Milky Way’’!

’’سورج بلکہ در حقیقت ہمارا پورا نظامِ شمسی،ہماری کہکشاں ’’ملکی وے‘‘کے مرکز کے گرد گھومتے ہیں-ہم اوسطاً آٹھ لاکھ اٹھائس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہے ہیں مگر اتنی سبق رفتاری کے باوجود اپنی کہکشاں کے گرد ایک مدیر مکمل کرنے میں ہمیں قریباً دو سو تیس ملین سال لگتے ہیں‘‘-

جدید سائنس نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ ہمیں نظر آنے والے (اور نظر نہ آنے والے ) ستارے اپنی اپنی کہکشاؤں میں اپنے مخصوص مدار میں گھومتے ہیں حتیٰ کہ وہ کہکشائیں بھی کائنات میں حرکت پذیر ہیں-  ناسا کے مطابق:

‘‘ The stars, including the Sun, travel in their own separate orbits through the Milky Way galaxy. The stars move along with fantastic speeds, but they are so far away that it takes a long time for their motion to be visible to us.’’

’’سورج سمیت تمام ستارے ملکی وے کہکشاں میں الگ اپنے اپنے  مدار میں گھومتے ہیں-ستارے بہت تیز رفتار پر حرکت کرتے ہیں مگر وہ ہم سے اتنی زیادہ دوری پر ہیں کہ ان کی حرکت محسوس کرنے  کے لئے ہمیں لمبا وقت درکار ہوتاہے‘‘-

قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا:

’’وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَط کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ‘‘[12]

’’اور وہی (اﷲ) ہے جس نے رات اور دن کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو (بھی)، تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں‘‘-

’’خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ج یُکَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّھَارِ وَیُکَوِّرُ النَّھَارَ عَلَی الَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَط کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّیط اَلاَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ‘‘[13]

’’اُس نے آسمانوں اور زمین کو صحیح تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا-وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو (ایک نظام میں) مسخّر کر رکھا ہے ہر ایک (ستارہ اور سیّارہ) مقرّر وقت کی حد تک (اپنے مدار میں) چلتا ہے، خبردار! وہی (پورے نظام پر) غالب، بڑا بخشنے والا ہے‘‘-

’’اِنَّ رَبَّکُمُ اﷲُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِقف یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍم بِاَمْرِہٖط اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط تَبٰرَکَ اﷲُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘[14]

’’بے شک تمہارا رب اﷲ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی کائنات) کو چھ مدتوں (یعنی چھ ادوار) میں پیدا فرمایا پھر (اپنی شان کے مطابق) عرش پر استواء (یعنی اس کائنات میں اپنے حکم و اقتدار کے نظام کا اجراء) فرمایا-وہی رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے (درآنحالیکہ دن رات میں سے) ہر ایک دوسرے کے تعاقب میں تیزی سے لگا رہتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے (سب) اسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیے گئے ہیں-خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے-اﷲ بڑی برکت والا ہے جو تمام جہانوں کی (تدریجاً) پرورش فرمانے والا ہے‘‘-

’’لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِط وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ‘‘[15]

’’نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنا مدار چھوڑ کر) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہوسکتی ہےاور سب (ستارے اور سیارے)اپنے (اپنے) مدار میں حرکت پذیر ہیں‘‘-

یعنی  واضح فرما دیا کہ سورج، چاند اور ستارے اسی کے حکم کے تابع اپنے اپنے مدار میں رہتے ہیں-جدید سائنسی مشاہدات نے قرآن کریم کی اسی حقانیت کی تصدیق کی ہے-

یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کائنات کا مرکز کیا ہے؟تاہم جدید سائنس کا یہ کہنا ہے کہ کائنات کا کوئی ایک مرکز نہیں ہے اور ناسا کے مطابق بھی کسی ایک جگہ کوکائنات کا مرکز قرار نہیں دیا جا سکتا-چنانچہ زمین اور دیگر ستاروں سمیت تمام اشیاء  کی موجودگی اور حرکات و سکنات کائنات میں موجود دیگر اجسام کی نسبت سے با آسانی متعین ہوتی ہے اور یہی معاملہ زمین کا بھی ہے-اللہ رب العزت نے اپنی اس قدرت کا اظہار بھی قرآن کریم میں فرمایا:

’’وَعَلٰمٰتٍط وَبِالنَّجْمِ ہُمْ یَہْتَدُوْنَ‘‘[16]

’’اور (دن کو راہ تلاش کرنے کے لیے) علامتیں بنائیں اور (رات کو) لوگ ستاروں کے ذریعہ (بھی) راہ پاتے ہیں‘‘-

اگر ہمارے ارد گرد ستارے موجود نہ ہوتے تو شاید ہمارے لئے اپنی زمین کی حرکت کو پرکھنا اور زمین کے مختلف زاویوں کا مشاہدہ کرنا ممکن نہ ہو پاتا-

زمین کے متعلق:

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے زمین پر رکھے بھاری بوجھ(پہاڑوں) کی جانب اشارہ فرمایا:

’’وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ وَاَنْہٰـرًا وَّسُبُـلًا لَّعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ‘‘[17]

’’اور اسی نے زمین میں (مختلف مادوں کو باہم ملا کر) بھاری پہاڑ بنا دیے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کہیں وہ (اپنے مدار میں حرکت کرتے ہوئے) تمہیں لے کر کانپنے لگے اور نہریں اور (قدرتی) راستے (بھی) بنائے تاکہ تم (منزلوں تک پہنچنے کے لیے) راہ پا سکو‘‘-

’’وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِھِمْ وَجَعَلْنَا فِیْھَا فِجَاجًا سُبُـلاً لَّعَـلَّـھُمْ یَھْتَدُوْنَ‘‘[18]

’’اور ہم نے زمین میں مضبوط پہاڑ بنا دیے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کہیں وہ (اپنے مدار میں حرکت کرتے ہوئے) انہیں لے کر کانپنے لگے اور ہم نے اس (زمین) میں کشادہ راستے بنائے تاکہ لوگ (مختلف منزلوں تک پہنچنے کے لیے) راہ پاسکیں‘‘-

سائنسی نظریات کے مطابق پہاڑوں کی زمین میں جڑیں(roots) موجود ہیں یعنی اگر بڑے سکیل پر دیکھا جائے تو یہ میخوں کی مانند زمین میں ٹھونکے ہوئے محسوس ہوتے ہیں-زمین پر پائے جانے والے پہاڑوں کے متعلق سائنسی نظریہ انیسویں صدی میں پیش کیا گیا کہ پہاڑ دراصل دنیادوں پر قائم ہیں یعنی زمین کے اندر ان کی گہری جڑیں ہیں-لاری ڈبلیو پرائس اپنی کتاب Mountains and Man: A Study of Process and Environment میں لکھتے ہیں:

‘‘…evidence for the presence of mountain roots came during the middle 1800s from northern India, where a team of surveyors was establishing precise land-measurements.’’

’’---انیسویں صدی میں پہاڑوں کی بنیادوں(جڑوں) کے شواہد شمالی انڈیا سے ملے جہاں سروے کرنے والوں کی ایک ٹیم زمین کی درست پیمائش لے رہی تھی‘‘-

سائنس کے معروف جریدہ نیچر میں ڈیوڈ جیمز تحریر کرتے ہیں:

‘‘Active mountain belts have crustal ‘roots’ that gravitationally balance the high topography.’’

’’ایکٹو پہاڑوں کے سلسلوں کی جڑیں ہوتی ہیں جو ثقلی طور پر بلند مقامات کا توازن رکھتی ہیں‘‘-

یعنی پہاڑمیخوں کی مانند ہیں جن کا ایک بڑا حصہ زمین میں موجود ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ ثقلی طور پر توازن کا باعث ہیں-اب اِسی چیز کو سورہ حم سجدہ/ فصلت کی آیت دس میں دیکھیں کہ قرآن پاک کیسے اس حقیقت کو آج سے چودہ سو برس قبل بیان فرما دیتا ہے:

’’وَجَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَبٰـرَکَ فِیْھَا‘‘[19]

’’اور اُس کے اندر (سے) بھاری پہاڑ (نکال کر) اس کے اوپر رکھ دیے اور اس کے اندر (معدنیات،آبی ذخائر، قدرتی وسائل اور دیگر قوتوں کی) برکت رکھی‘‘-

اس تمام تر بحث سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ جدید سائنسی تجربات نے دھیرے دھیرے قرآن کریم کی صداقت کا اعتراف کیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں بلکہ جاری ہے اور جلد ہی قرآن کریم میں بیان کردہ دیگر سائنسی امور پر راہنمائی کو بھی سائنس اپنے لئے کھل کر رول ماڈل تسلیم کرے گی کیونکہ محض چند صدیاں قبل ہی دیکھ لیا جائے تو اُس دور کی جدید سائنس نہ تو بگ بینگ کو تسلیم کرتی تھی نہ کائنات کے پھیلاؤ کو اور دیگر بھی بہت سے سائنسی نظریات وقت کے ساتھ ساتھ تجربات اور مشاہدات کے ارتقاء سے سامنے آئے ہیں اور تجربات میں ارتقاء کا سلسلہ کبھی رکنے والا محسوس نہیں ہوتا اس لئے ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ شائد قرآن کریم کے بیان کردہ حقائق کی تَہ تک تو کوئی نہ پہنچ سکے مگر اُن حقائق کی صداقت کا اعتراف ارتقائے علوم سے ہوتا رہے -

٭٭٭


[1](الانبیاء:۳۰)

[2](النجم:۴۵-۵۶)

[3](المومنون:۱۴،۱۳،۱۲)

[4](یسین:۸۱-۸۲)

[5](الذاریات:۴۷)

[6](الانبیاء:۳۰)

[7](المُلک:۳-۴)

[8](نوح:۱۶)

[9](المُلک:۵)

[10](الفرقان:۶۱)

[11](حم/سجدہ/فصلت:۱۲)

[12](الانبیاء:۳۳)

[13](الزمر:۵)

[14](الاعراف:۵۴)

[15](یسین:۴۰)

[16](النحل:۱۶)

[17](النحل:۱۵)

[18](الانیباء:۳۱)

[19](حم سجدہ/فصلت:۱۰)

قرآن کریم اللہ رب العزت کا لاریب کلام ہے-یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور انسان کے ذاتی،اخلاقی،سماجی،معاشرتی،معاشی،قانونی اور زندگی کے دیگر پہلوؤں پر رہنمائی فراہم کرتا ہے-انسان کی پیدائش اور اس کائنات کی پیدائش،یہ ایسے موضوعات ہیں جو فلسفیوں، سائنس دانوں،مذہبی دانشوروں سمیت مختلف شعبہ جات میں انسان کے ہاں ہمیشہ سے مقبول رہے ہیں-جدید دور میں علم کے دیگر شعبہ جات کے مقابلے میں سائنس کو زیادہ پذیرائی ملی ہے اور سائنسی بنیادو ں پر مرتب ہونے والے اس کے انکشافات بہت حد تک  قابلِ بھروسہ سمجھے جاتے ہیں-اگرچہ ہر دور میں سائنس ارتقاء پذیر رہتی ہے جس کے سبب  بسا اوقات اس کے انکشافات میں بڑے پیمانے پر تبدیلی واقع ہوتی ہے تاہم اس سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ کائنات کے چھپے ہوئے گوشوں سے پردہ اٹھاتی رہے  اور بے شمار زیرِ بحث سوالات کا تسلی بخش اور تجربات و مشاہدات پر مبنی جوابات دے-اگرچہ یہ تجربات بذاتِ خود بھی ارتقاء پذیر بلکہ ’’غیر دوامی و غیر مستقل‘‘ رہتے ہیں-

انسان اور کائنات کی تخلیق کے متعلق بھی عصرِ حاضر میں سائنسی جوابات کو زیادہ تر قابلِ بھروسہ سمجھا جاتا ہے یہ جوابات انہی سائنسی قوانین کی روشنی میں مرتب کئے گئے ہیں جن قوانین کا جادو ہماری روزمرہ زندگی میں سر چڑھ کر بولتا ہے-چاہے وہ ’’ڈی این اے‘‘کا تجزیہ ہو، موروثی بیماریوں کا علاج ہو،ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی صحت و افزائش کے معاملات ہوں،خلاء میں موجود سیٹلائٹس کے ذریعہ راستہ کی تلاش ہو،ٹیلی کمیونیکیشن ہو،کمپیوٹرز ہوں یا دیگر جدید ایسی سائنسی ایجادات ہوں،انہوں نے اپنے قابلِ بھروسہ ہونے کا ثبوت اپنی کارکردگی سے دیا ہے-ایسے حالات میں مذہب میں موجود کائنات اور انسانی جسم یعنی سائنسی موضوعات سے متعلقہ اصولوں  کا سائنسی انکشافات کے ساتھ ہم آہنگی کا تجزیہ بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے-اگرچہ یہ غالب حقیقت ہے کہ سائنس کے اصول ارتقاء پذیری رہتے ہیں جبکہ کلامِ الٰہی حتمی علم کا حامل ہے -  اس لئے قرآن کے احکامات و انکشافات ’’دوامی و مستقل‘‘ ہیں -  تاہم یہ درست ہے کہ قرآن کریم میں کئی سائنسی امور پر راہنما اصول فراہم کئے گئے ہیں اور وقت کے ساتھ جوں جوں سائنسی نظریات پختگی اختیار کر ہے ہیں،توں توں یہ قرآن کریم کے فرمودات کی تصدیق کرتے چلے جا رہے ہیں- زیرِ نظر مضمون میں تخلیقِ کائنات اور تخلیقِ انسان کے متعلق جدید سائنسی نظریات،چند سائنسدانوں کی آراء اور قرآن کریم میں موجود انہی موضوعات کا مختصر  مطالعہ پیش کیا گیا ہے-

پیدائشِ حیات اور پانی:

قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے واضح فرمایا:

’’وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ط اَفَـلَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘[1]

’’اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان لائیں گے‘‘-

یعنی تمام جاندار اشیاء کی ابتدا پانی  سے کی گئی ہےاور یہ اصول بھی آج کے موجودہ سائنسی نظریات کےلئے راہنما اصول ہے جو یہ ماننے پر مجبور ہوئے ہیں کہ تمام تر زندگی کی موجودگی کےلئے پانی کی موجودگی اور اس سے تعلق لازم ہے-

زمین پر زندگی کی ابتداء کے متعلق غالب سائنسی نظریہ جن بنیادی قوانین پر قائم ہے ان میں ایک پانی کی موجودگی ہے جیسا کہ  پروفیسر ڈیلتوو مولر (Detlev Möller) کہتے ہیں:

‘‘One of the fundamental requirements for life as we know it is the presence of liquid water on (or below) a planet’s surface.’’

’’ زندگی کی جس حالت کو ہم جانتے ہیں اس  کےلئے ایک بنیادی ضرورت سیارہ کی سطح پر(یا نیچے) پانی کی موجودگی ہے‘‘-

برٹش بائیو کیمسٹ ڈاکٹر نِک لین(Nick Lane) کے مطابق:

‘‘It is possible to trace a coherent pathway leading from no more than rocks, water and carbon dioxide to the strange bioenergetics properties of all cells living today.’’

’’ایسا بالکل ممکن ہے کہ آج  تمام زندہ خلیوں کی عجیب بائیو جینیٹک خصوصیات  کا تعلق چٹانوں،پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تلاش کر لیا جائے‘‘-

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی نشانی بیان فرمائی مگر ان امور کی تفصیل انسان کے لئے چھوڑی گئی ہے کہ اپنی سمجھ بوجھ اور عقل کو استعمال کرتے ہوئے اللہ رب العزت کی مخلوق کے متعلق علم حاصل کرے -یہ علم انسان کے ایمان میں اضافہ کا ہی باعث بنتا ہے - بشرطیکہ اس کی حدود و قیود اور دائرہ کار کو پرکھتے ہوئے ان حقائق کا مطالعہ کیا جائے اور ان سے سبق حاصل کیا جائے-

زمانہ قدیم میں یہ ایک غالب امر  سمجھا جاتا تھا کہ پیدا ہونے والے بچے کی جنس کا تعین دراصل ماں کی خاصیت ہے حتیٰ کہ ابھی بھی بعض لوگ اسی بات پر یقین رکھتے ہیں - جبکہ جدید سائنس نے ثابت کیا ہے کہ مادہ یا نر کی خاصیت کا اختیار باپ کے جسم میں ودیت کیا گیا ہے-قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا:

’’وَ اَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰیo مِنْ نُّطْفَۃٍ اِذَا تُمْنٰی‘‘[2]

’’اور یہ کہ اُسی نے نَر اور مادہ دو قِسموں کو پیدا کیا-نطفہ (ایک تولیدی قطرہ) سے جب کہ وہ (رَحمِ مادہ میں) ٹپکایا جاتا ہے‘‘-

ماں کے پیٹ میں پیدائش کے مراحل کے متعلق جدید سائنسی علوم کا کہنا ہے کہ  سب سے پہلے نطفہ ٹھہرتا ہے جس سے بچے کی پیدائش کی ابتدا ہوتی ہے-ماہرِ جینیات ’جان لانگ مین‘اپنی کتاب ’’Medical Embryology‘‘میں تحریر کرتے ہیں- 

‘‘The development of human being begin with fertilization, a process by which two highly specialized cell the spermatozoon from male and oocyte from female, unite to give rise to new organism, the zygote.’’

’’انسان کی نشونما فرٹیلائزیشن سے شروع ہوتی ہے،ایک ایسا سلسلہ جس میں دو نہایت خاص خلیے یعنی نر نطفہ اور مادہ نطفہ مل کر نیا وجود یعنی زائیگوٹ بناتے ہیں‘‘-

پروفیسر ’کیتھ ایل موور‘ اپنی کتاب ’’Essentials of Human Embryology‘‘ میں لکھتے ہیں :

‘‘Fertilization is a sequence of events that begins with the contact of a sperm (spermatozoon) with a secondary oocyte (ovum) and ends with the fusion of their pronuclei (the haploid nuclei of the sperm and ovum) and the mingling of their chromosomes to form a new cell. This fertilized ovum, known as a zygote, is a large diploid cell that is the beginning, or primordium, of a human being’’.

’’فرٹیلائزیشن ایسے واقعات کا تسلسل ہے جو نر اور مادہ خلیوں (سپرم اور دوسرے مرحلہ کا بیضہ)کے ملنے سے شروع ہوتا ہے  اور اس کا اختتام ان کے نیوکلیئس کے ملنے  اور  ان کے کروموسومز کے انضمام  سے نئے خلیہ کی تخلیق پر ہوتا ہے-یہ زائیگوٹ ایک بڑا خلیہ(دو خلیوں کا انضمام) ہوتاہے جو انسانی جسم کی نشونما کی ابتدا ہے‘‘-

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:

’’وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍo ثُمَّ جَعَلْنٰـہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍoثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰـمَ لَحْمًاق ثُمَّ اَنْشَاْنٰـہُ خَلْقًا اٰخَرَط فَتَبٰـرَکَ اﷲُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ‘‘[3]

’’اور بے شک ہم نے انسان کی تخلیق (کی ابتداء) مٹی (کے کیمیائی اجزاء) کے خلاصہ سے فرمائی-پھر اسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحم مادر) میں رکھا-پھر ہم نے اس نطفہ کو (رحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلّق وجود بنا دیا، پھر ہم نے اس معلّق وجود کو ایک (ایسا)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر