قرآن اور حجیتِ حدیث

قرآن اور حجیتِ حدیث

یہ بات ہر دین دار مسلمان کو معلوم ہے کہ دین کے اصول و فروع  اعتقادیات عملیات سب کی بنیاد قرآن و احادیث ہیں-اجماع امت اور قیاس کو جو بھی حیثیت ہےوہ کتاب اللہ و احادیث ہی کی بارگاہ سے سند ملنے کے بعد ہےاور یہ دونوں واجب الاعتقاد و العمل ہونے میں مساوی درجہ رکھتے ہیں-احادیث سے انکار کے بعد،قرآن پر ایمان کا دعویٰ محض باطل ہے-اس لئے کہ قرآن مجید نے ایک نہیں سینکڑوں جگہ رسول اللہ (ﷺ) کی  اطاعت و اتباع  کا حکم دیا ہے-وہ بھی اس طرح کہ رسول اللہ(ﷺ) کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا-ارشاد ہے:

’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ‘‘[1]

’’جس نے رسول اللہ (ﷺ)کی اطاعت کی پس تحقیق اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ‘‘-

رسول اللہ(ﷺ) کی بعثت کا مقصد ہی یہی قرار دیا کہ آپ(ﷺ) کی اطاعت کی جائے،فرمایا:

’’وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اﷲ‘‘[2]

’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘-

جگہ جگہ فرمایا،اللہ کی اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو،کہیں فرمایا،جس نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کی وہ بڑا کامیاب ہوا،جس نے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی کی وہ ضرور گمراہ ہوا-کہیں فرمایا کہ مومن کی شان یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ(ﷺ) کسی معاملہ میں فیصلہ کے لئے بلائیں تو بلا دریغ یہ کہے کہ ہم نے سنا اور مانا-ارشاد ہے:

’’اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘[3]

’’ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیااور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہوگئے ‘‘-

جن لوگوں نے رسول اللہ(ﷺ)کے فیصلہ کو تسلیم کرنے میں چون و چرا کیا اُن کے بارے میں صاف صاف فرمادیا کہ وہ مومن  نہیں -

’’ فَـلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘‘[4]

’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ(ﷺ)کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں‘‘-

یہاں تک کہ رسول اللہ(ﷺ) کےپکارنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا پکارنا قرار دیا،فرمایا:

’’یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْالِلہِ  وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ‘‘[5]

’’اے ایمان والو جب اللہ اور اس کا رسول(ﷺ) تمہیں پکاریں تو فوراً حاضر ہو‘‘-

رسول اللہ (ﷺ) کی نافرمانی تو بڑی بات ہے نافرمانی کی سرگوشی پر بھی پابندی لگادی گئی ہے،ارشاد فرمایا:

’’یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَـلَا تَتَنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ ‘‘[6]

’’اے ایمان والو! جب تم آپس میں سرگوشی کرو تو گناہ اور ظلم و سرکشی اور نافرمانیِٔ رسالت مآب (ﷺ) کی سرگوشی نہ کیا کرو ‘‘-

حتی  کہ رسول اللہ(ﷺ) کی نافرمانی کو منافقین کا طریقہ بتایا،فرمایا:

’’وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰـفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا‘‘[7]

’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول(ﷺ) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیں‘‘-

یہاں تک کہ دوذخی دوزخ میں یہ کہیں گے:

’’یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰـلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا‘‘[8]

’’جِس دن ان کے مُنہ آتشِ دوزخ میں (بار بار) الٹائے جائیں گے (تو) وہ کہیں گے: اے کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور ہم نے رسول اللہ(ﷺ) کی اطاعت کی ہوتی‘‘-

یہاں تک کہ رسول اللہ(ﷺ) کے فیصلہ کے بعدایمان والوں کایہ اختیار اللہ عزوجل نے سلب کر لیاکہ وہ مانیں یا نہ مانیں بلکہ انہیں سرتسلیم خم کرنا ہے-ارشادہے:

’’وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَامُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْط وَمَنْ یَّعْصِ اﷲَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰـلًا مُّبِیْنًا‘‘[9]

’’اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول(ﷺ) کسی کام کا فیصلہ(یا حکم) فرمادیں تو ان کے لیے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہواور جو شخص اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقینا کھلی گمراہی میں بھٹک گیا‘‘-

رسول اللہ(ﷺ) کی مخالفت پر ببانگ دہل عذاب کی دھمکی ارشاد ہوئی:

’’وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ م بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہٗ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ ط وَسَآئَتْ مَصِیْرًا‘‘[10]

’’اور جو شخص رسول (ﷺ) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے‘‘-

’’فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ‘‘[11]

’’پس وہ لوگ ڈریں جو رسول (ﷺ)کے امرِ(ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آ پہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر درد ناک عذاب آن پڑے گا ‘‘-

قرآن مجید کےا ن ارشادات پر غور کرو،قرآن مجید نے اس طرح جگہ جگہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول (ﷺ) کی اطاعت کا حکم دیا اور اللہ کے ساتھ ساتھ رسول (ﷺ) کی نافرمانی پر وعید ارشاد فرمائی رسول(ﷺ) کےبلانے کو اللہ نے اپنا بلانا قرار دیا-رسول (ﷺ) کی نافرمانی کے لئے سرگوشی منع فرمائی،رسول (ﷺ) کے فیصلے کو واجب التسلیم قرار دیا-وہ بھی اس حد تک کہ جو رسول(ﷺ) کے فیصلے کو نہ  مانے،اس میں ذرا بھی تردد کرے وہ مومن نہیں-رسول (ﷺ) کے حکم سے روگردانی کرنے والوں کو منافق فرمایا-رسول اللہ (ﷺ) کے حکم کو اس درجہ واجب الاتباع قرار دیا کہ رسول اللہ(ﷺ) کے حکم کے بعد نہ ماننے کا کسی مومن کو حق نہ دیا-جو نہ مانے اس کے لئے جہنم کی وعید سنائی-کیا یہ سب باتیں اس کی دلیل نہیں کہ جس طرح اللہ عزوجل کا ہرارشاد واجب التسلیم ہے اسی طرح رسول (ﷺ) کا بھی ہرفرمان واجب الاعتقاد و العمل ہے-یہی وجہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کے مابین تفریق کرنے والوں کو صاف صاف سنادیا-

’’وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍلا وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاًo اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّاج وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا‘‘[12]

’’اور چاہتے ہیں کہ اﷲ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اس (ایمان و کفر) کے درمیان کوئی راہ نکال لیں-ایسے ہی لوگ درحقیقت کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘-

رسول اللہ(ﷺ) کو واجب الاتباع نہ ماننے کا مطلب ہوا ان آیتوں کا انکار اور قرآن مجید کی کسی  ایک آیت کا انکار پورے قرآن کا انکار ہے:

’’ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ‘‘[13]

’’کیا کچھ پر ایمان لاتے ہو اور کچھ کے ساتھ کفرکرتے ہو؟‘‘-

غور کیجیئے! بہت سے وہ احکام ہیں جو قرآن مجید  میں مذکور نہیں،صرف حضور اقدس (ﷺ) نے ارشاد فرمائےاور وہ بھی قرآن کی طرح واجب العمل قرار پائے-مثلاً:

v     ’’اذان‘‘ قرآن پاک میں کہیں مذکور نہیں کہ نماز پنجگانہ کےلئے اذان دی جائے مگر اذان عہد رسالت سے لے کر آج تک شعارِ اسلام رہی  اور رہے گی-

v     ’’نماز جنازہ‘‘ قرآن میں اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں،مگر یہ بھی فرض ہےاس کی بنیاد ارشادِ رسول(ﷺ) ہی ہے-

v     ’’بیت المقدس‘‘ کو قبلہ بنانے کا قرآن میں کہیں حکم نہیں،مگر تحویل قبلہ سے پہلے ہی نماز کا قبلہ تھا یہ صرف ارشادِ رسول (ﷺ) ہی سے تھا-

v    ’’جمعہ و عیدین کے خطبے‘‘ کا کہیں قرآن میں حکم نہیں مگر یہ  بھی عبادت ہے اس کی بنیاد صرف ارشادِ رسول (ﷺ) ہی ہےاور وہ بھی اس شان سے کہ اگر اس میں کوئی کوتاہی ہوئی تو کوتاہی کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی-

مثلاً ایک بار جمعہ کا خطبہ ہورہا تھا اسی اثنا میں ایک قافلہ آگیا کچھ لوگ خطبہ چھوڑ کر چلے گئے،اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی:

’’وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَ نِانْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًاط قُلْ مَا عِنْدَ اللہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِط وَاﷲُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ‘‘[14]

’’اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو (اپنی حاجت مندی اور معاشی تنگی کے باعث) اس کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور آپ کو (خطبہ میں ) کھڑے چھوڑ گئے،فرما دیجیے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے‘‘-

یہ صرف اسی بناء پر ہے کہ قرآن کی طرح ارشادِ رسول (ﷺ) واجب الاعتقاد و العمل ہے اس میں بھی کوتاہی کی وہی سزا ہے جو قرآن کے فرمودات سے کوتاہی کی ہے-

علاوہ ازیں قرآن خدا کی کتاب ہے،واجب القبول ہے،یہ کیسے معلوم ہوا؟ اللہ عزوجل نے آسمان سے لکھی  لکھائی جلد بندھی ہوئی کتاب تو نازل نہیں کی اور اگر لکھی لکھائی،جلد بندھی ہوئی کتاب اُتارتا تو کیسے معلوم ہوتا کہ یہ خدا کی کتاب ہے-کہیں سے بھی اڑ کر آسکتی ہے ، کوئی فریب کار کسی خفیہ طریقے سے کہیں پہنچا سکتا ہے-اگر جبرائیل یا کوئی فرشتہ لے کر آتا تو کیسے پہچانتے کہ یہ جبرائیل یا فرشتہ ہے-کوئی جن ، کوئی شیطان،کوئی شعبدہ باز یہ کَہ سکتا ہے کہ میں جبرائیل ہوں،میں فرشتہ ہوں، یہ خدا کی کتاب لایا ہوں غرضیکہ رسول (ﷺ) کے مطاع ماننے سے انکار کے بعد قرآن کے کتاب اللہ ہونے پر کوئی یقینی قطعی دلیل نہیں رہ جاتی، ساری دلیلوں کا منتہا یہ ہے  کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ یہ خدا کی کتاب ہے،یہ جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، یہ آیت  لے کر آئے ہیں،کتاب اللہ کی معرفت اور کتاب اللہ کے لے کر آنے والے مَلک مقرب جبرائیل علیہ السلام کی معرفت قولِ رسول (ﷺ) ہی پر موقوف ہے-اگر رسول اللہ (ﷺ) کا قول ہی ناقابل قبول ہو جائے تو کتاب اللہ کا کوئی وزن نہیں رہ جائے گا-غور کیجیئے! رسول اللہ (ﷺ) نے لاکھوں باتیں ارشاد فرمائیں انہیں میں یہ فرمایا،مجھ پر قرآن نازل ہوا ، مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی، مجھ پر یہ سورۃ نازل ہوئی سننے والے صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) نے ان کو کتاب اللہ جانا اور مانا اور جن ارشادات کے بارے  میں یہ نہیں فرمایا،یہ احادیث ہوئیں-اب کوئی بتائے ایک ہی زبان مبارک سے دو قسم کی باتیں ہوئیں ایک مقبول اور دوسری مردود،یہ کس منطق سے درست ہوگا-ایک قسم  کو مردود قرار دینے کا مطلب ہوگا دوسری قسم کو بھی مردود قرار دینا،غرضیکہ حدیث کےناقابل قبول ماننے کے بعد قرآن کا بھی ناقابل قبول ہونا لازم ہے-

علاوہ ازیں اگرچہ قرآن کریم میں تمام چیزوں کا بیان ہے مگر ان میں کتنی چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے لئے مجمل اور مبہم ہیں مثلاً عبادات اربعہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو لے لیجیئے-قرآن مجید میں ان سب کا حکم ہے-مگر کیا قرآن مجید سے ان عبادات کی پوری تفصیل کوئی بتا سکتاہے-اگر احادیث کو ناقابل اعتبار ٹھہرا دیا جائےتو پھر ان عبادات پرعمل کیسے ہوگا کیونکہ ان سب کی ہیئت،ان سب کی تفصیل احادیثِ مبارکہ ہی سے معلوم ہوئی ہے-خود حضور پاک(ﷺ) نے فرمایا:

’’صلو کما رأیتمونی اصلی‘‘،متفق علیہ،اس طرح نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو-عبادات سے قطع نظر قرآن مجید کی سینکڑوں آیات وہ ہیں کہ اگر ان کی توضیح احادیث میں مذکور نہ ہوتی تووہ ’’لا ینحل ‘‘رہ جاتیں-مثلاً ارشاد ہے:

’’اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہُ اِذْاَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اﷲَ مَعَنَا‘‘[15]

’’اگر تم ان کی (یعنی رسول اللہ(ﷺ)کی غلبہ اسلام کی جدوجہد میں) مدد نہ کرو گے (تو کیا ہوا) سو بے شک اللہ نے ان کو (اس وقت بھی) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں (وطنِ مکہ سے) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو (ہجرت کرنے والوں) میں سے دوسرے تھے جب کہ دونوں (رسول اللہ(ﷺ)اور ابوبکر صدیقؓ) غارِ (ثور) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیقؓ) سے فرما رہے تھے غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘-

احادیث قطع نظرکرکے کوئی بتا سکتا ہے کہ کافروں نے کیا شرارت کی تھی؟رسول اللہ (ﷺ) کو کہاں سے باہر تشریف لے جانا پڑا؟ یہ ساتھی کون تھے؟یہ غار کونسی تھی؟اور کیوں ساتھی کو تسلی تشفی دینے کی حاجت پیش آئی؟دوسری جگہ فرمایا:

’’لَقَدْ نَصَرَکُمُ اﷲُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ‘‘[16]

’’بے شک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی ‘‘-

یہ جگہیں کون کون ہیں صرف قرآن سے کوئی بتا سکتا ہے ؟مزید فرمایا:

’’وَّعَلَی الثَّلٰـثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا ‘‘[17]

’’اور ان تینوں شخصوں پر (بھی نظرِ رحمت فرمادی) جن (کے فیصلہ) کو مؤخر کیا گیا تھا‘‘-

یہ تینوں کون تھے؟ان کا معاملہ کیا تھا؟ کیوں ان کا معاملہ ملتوی کی گیا؟کیا بغیر احادیث کے ان سوالوں کے جوابات دینا ممکن ہے-اللہ تعالیٰ نے مزیدارشاد فرمایا:

’’لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِط فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَہَّرُوْا ‘‘[18]

’’البتہ وہ مسجد،جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے،حقدار ہے کہ آپ اس میں قیام فرما ہوں-اس میں ایسے لوگ ہیں جو (ظاہراً و باطناً) پاک رہنے کو پسندکرتے ہیں ‘‘-

یہ مسجد کون ہے،یہ لوگ کون ہیں؟احادیث سے قطع نظر کرکے کوئی بتائے تو؟یہ چند مثالیں ہیں ورنہ قرآن میں اس کی صدہا مثالیں موجود ہیں کہ اگر احادیث میں ان کی توضیح نہ ہوتی تو ان کا ابہام کسی طرح دور ہی نہیں ہوسکتا تھا-مَیں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ’’لا الہ الا اللہ  محمد الرسول اللہ‘‘ پر ایمان  کے بعد قول رسول (ﷺ) کو حق نہ تسلیم کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے-

اِسی وجہ سے عہدِ صحابہ (رضی اللہ عنھم) سے لےکر آج تک اُمت بلا نکیر منکر قرآن کی طرح احادیث کو واجب الاعتقاد و واجب العمل مانتی چلی آئی ہے-البتّہ اِس زمانے میں بعض کلمہ گوئی کا دعویٰ کرنے 0648الے ایسے پیدا ہو گئے ہیں جو احادیث کو نا قابلِ قبول مانتے ہیں-

(ماخوذ از : مقدمہ نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری / تالیف: فقیہِ ہند علامہ محمد شریف الحق امجدی (رحمتہ اللہ علیہ) / مطبوعہ: فرید بک سٹال ،لاہور)

٭٭٭


[1](النساء:۸۰)

[2](النساء:۶۴)

[3](النور:۵۱)

[4](النساء:۶۵)

[5](الانفال:۲۴)

[6](المجادلہ:۹)

[7](النساء:۶۱)

[8](الاحزاب:۶۶)

[9](الاحزاب:۳۶)

[10](لنساء:۱۱۵)

[11](النور:۶۳)

[12](النساء:۱۵۱،۱۵۰)

[13](البقرۃ:۸۵)

[14](الجمعہ:۱۱)

[15](التوبہ:۴۰)

[16](التوبہ:۲۵)

[17](التوبہ:۱۱۸)

[18](التوبہ :۱۰۸)

یہ بات ہر دین دار مسلمان کو معلوم ہے کہ دین کے اصول و فروع  اعتقادیات عملیات سب کی بنیاد قرآن و احادیث ہیں-اجماع امت اور قیاس کو جو بھی حیثیت ہےوہ کتاب اللہ و احادیث ہی کی بارگاہ سے سند ملنے کے بعد ہےاور یہ دونوں واجب الاعتقاد و العمل ہونے میں مساوی درجہ رکھتے ہیں-احادیث سے انکار کے بعد،قرآن پر ایمان کا دعویٰ محض باطل ہے-اس لئے کہ قرآن مجید نے ایک نہیں سینکڑوں جگہ رسول اللہ (ﷺ) کی  اطاعت و اتباع  کا حکم دیا ہے-وہ بھی اس طرح کہ رسول اللہ(ﷺ) کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا-ارشاد ہے:

’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ‘‘[1]

’’جس نے رسول اللہ (ﷺ)کی اطاعت کی پس تحقیق اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ‘‘-

رسول اللہ(ﷺ) کی بعثت کا مقصد ہی یہی قرار دیا کہ آپ(ﷺ) کی اطاعت کی جائے،فرمایا:

’’وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اﷲ‘‘[2]

’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘-

جگہ جگہ فرمایا،اللہ کی اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو،کہیں فرمایا،جس نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کی وہ بڑا کامیاب ہوا،جس نے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی کی وہ ضرور گمراہ ہوا-کہیں فرمایا کہ مومن کی شان یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ(ﷺ) کسی معاملہ میں فیصلہ کے لئے بلائیں تو بلا دریغ یہ کہے کہ ہم نے سنا اور مانا-ارشاد ہے:

’’اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘[3]

’’ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیااور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہوگئے ‘‘-

جن لوگوں نے رسول اللہ(ﷺ)کے فیصلہ کو تسلیم کرنے میں چون و چرا کیا اُن کے بارے میں صاف صاف فرمادیا کہ وہ مومن  نہیں -

’’ فَـلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘‘[4]

’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ(ﷺ)کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں‘‘-

یہاں تک کہ رسول اللہ(ﷺ) کےپکارنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا پکارنا قرار دیا،فرمایا:

’’یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْالِلہِ  وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ‘‘[5]

’’اے ایمان والو جب اللہ اور اس کا رسول(ﷺ) تمہیں پکاریں تو فوراً حاضر ہو‘‘-

رسول اللہ (ﷺ) کی نافرمانی تو بڑی بات ہے نافرمانی کی سرگوشی پر بھی پابندی لگادی گئی ہے،ارشاد فرمایا:

’’یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَـلَا تَتَنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ ‘‘[6]

’’اے ایمان والو! جب تم آپس میں سرگوشی کرو تو گناہ اور ظلم و سرکشی اور نافرمانیِٔ رسالت مآب (ﷺ) کی سرگوشی نہ کیا کرو ‘‘-

حتی  کہ رسول اللہ(ﷺ) کی نافرمانی کو منافقین کا طریقہ بتایا،فرمایا:

’’وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰـفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا‘‘[7]

’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول(ﷺ) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیں‘‘-

یہاں تک کہ دوذخی دوزخ میں یہ کہیں گے:

’’یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰـلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا‘‘[8]

’’جِس دن ان کے مُنہ آتشِ دوزخ میں (بار بار) الٹائے جائیں گے (تو) وہ کہیں گے: اے کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور ہم نے رسول اللہ(ﷺ) کی اطاعت کی ہوتی‘‘-

یہاں تک کہ رسول اللہ(ﷺ) کے فیصلہ کے بعدایمان والوں کایہ اختیار اللہ عزوجل نے سلب کر لیاکہ وہ مانیں یا نہ مانیں بلکہ انہیں سرتسلیم خم کرنا ہے-ارشادہے:

’’وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَامُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْط وَمَنْ یَّعْصِ اﷲَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰـلًا مُّبِیْنًا‘‘[9]

’’اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول(ﷺ) کسی کام کا فیصلہ(یا حکم) فرمادیں تو ان کے لیے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہواور جو شخص اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقینا کھلی گمراہی میں بھٹک گیا‘‘-

رسول اللہ(ﷺ) کی مخالفت پر ببانگ دہل عذاب کی دھمکی ارشاد ہوئی:

’’وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ م بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہٗ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ ط وَسَآئَتْ مَصِیْرًا‘‘[10]

’’اور جو شخص رسول (ﷺ) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے‘‘-

’’فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ‘‘[11]

’’پس وہ لوگ ڈریں جو رسول (ﷺ)کے امرِ(ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آ پہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر درد ناک عذاب آن پڑے گا ‘‘-

قرآن مجید کےا ن ارشادات پر غور کرو،قرآن مجید نے اس طرح جگہ جگہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول (ﷺ) کی اطاعت کا حکم دیا اور اللہ کے ساتھ ساتھ رسول (ﷺ) کی نافرمانی پر وعید ارشاد فرمائی رسول(ﷺ) کےبلانے کو اللہ نے اپنا بلانا قرار دیا-رسول (ﷺ) کی نافرمانی کے لئے سرگوشی منع فرمائی،رسول (ﷺ) کے فیصلے کو واجب التسلیم قرار دیا-وہ بھی اس حد تک کہ جو رسول(ﷺ) کے فیصلے کو نہ  مانے،اس میں ذرا بھی تردد کرے وہ مومن نہیں-رسول (ﷺ) کے حکم سے روگردانی کرنے والوں کو منافق فرمایا-رسول اللہ (ﷺ) کے حکم کو اس درجہ واجب الاتباع قرار دیا کہ رسول اللہ(ﷺ) کے حکم کے بعد نہ ماننے کا کسی مومن کو حق نہ دیا-جو نہ مانے اس کے لئے جہنم کی وعید سنائی-کیا یہ سب باتیں اس کی دلیل نہیں کہ جس طرح اللہ عزوجل کا ہرارشاد واجب التسلیم ہے اسی طرح رسول (ﷺ) کا بھی ہرفرمان واجب الاعتقاد و العمل ہے-یہی وجہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کے مابین تفریق کرنے والوں کو صاف صاف سنادیا-

’’وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍلا وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاًo اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّاج وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا‘‘[12]

’’اور چاہتے ہیں کہ اﷲ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اس (ایمان و کفر) کے درمیان کوئی راہ نکال لیں-ایسے ہی لوگ درحقیقت کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘-

رسول اللہ(ﷺ) کو واجب الاتباع نہ ماننے کا مطلب ہوا ان آیتوں کا انکار اور قرآن مجید کی کسی  ایک آیت کا انکار پورے قرآن کا انکار ہے:

’’ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ‘‘[13]

’’کیا کچھ پر ایمان لاتے ہو اور کچھ کے ساتھ کفرکرتے ہو؟‘‘-

غور کیجیئے! بہت سے وہ احکام ہیں جو قرآن مجید  میں مذکور نہیں،صرف حضور اقدس (ﷺ) نے ارشاد فرمائےاور وہ بھی قرآن کی طرح واجب العمل قرار پائے-مثلاً:

v     ’’اذان‘‘ قرآن پاک میں کہیں مذکور نہیں کہ نماز پنجگانہ کےلئے اذان دی جائے مگر اذان عہد رسالت سے لے کر آج تک شعارِ اسلام رہی  اور رہے گی-

v     ’’نماز جنازہ‘‘ قرآن میں اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں،مگر یہ بھی فرض ہےاس کی بنیاد ارشادِ رسول(ﷺ) ہی ہے-

v     ’’بیت المقدس‘‘ کو قبلہ بنانے کا قرآن میں کہیں حکم نہیں،مگر تحویل قبلہ سے پہلے ہی نماز کا قبلہ تھا یہ صرف ارشادِ رسول (ﷺ) ہی سے تھا-

v    ’’جمعہ و عیدین کے خطبے‘‘ کا کہیں قرآن میں حکم نہیں مگر یہ  بھی عبادت ہے اس کی بنیاد صرف ارشادِ رسول (ﷺ) ہی ہےاور وہ بھی اس شان سے کہ اگر اس میں کوئی کوتاہی ہوئی تو کوتاہی کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی-

مثلاً ایک بار جمعہ کا خطبہ ہورہا تھا اسی اثنا میں ایک قافلہ آگیا کچھ لوگ خطبہ چھوڑ کر چلے گئے،اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی:

’’وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَ نِانْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًاط قُلْ مَا عِنْدَ اللہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِط وَاﷲُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ‘‘[14]

’’اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو (اپنی حاجت مندی اور معاشی تنگی کے باعث) اس کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور آپ کو (خطبہ میں ) کھڑے چھوڑ گئے،فرما دیجیے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے‘‘-

یہ صرف اسی بناء پر ہے کہ قرآن کی طرح ارشادِ رسول (ﷺ) واجب الاعتقاد و العمل ہے اس میں بھی کوتاہی کی وہی سزا ہے جو قرآن کے فرمودات سے کوتاہی کی ہے-

علاوہ ازیں قرآن خدا کی کتاب ہے،واجب القبول ہے،یہ کیسے معلوم ہوا؟ اللہ عزوجل نے آسمان سے لکھی  لکھائی جلد بندھی ہوئی کتاب تو نازل نہیں کی اور اگر لکھی لکھائی،جلد بندھی ہوئی کتاب اُتارتا تو کیسے معلوم ہوتا کہ یہ خدا کی کتاب ہے-کہیں سے بھی اڑ کر آسکتی ہے ، کوئی فریب کار کسی خفیہ طریقے سے کہیں پہنچا سکتا ہے-اگر جبرائیل یا کوئی فرشتہ لے کر آتا تو کیسے پہچانتے کہ یہ جبرائیل یا فرشتہ ہے-کوئی جن ، کوئی شیطان،کوئی شعبدہ باز یہ کَہ سکتا ہے کہ میں جبرائیل ہوں،میں فرشتہ ہوں، یہ خدا کی کتاب لایا ہوں غرضیکہ رسول (ﷺ) کے مطاع ماننے سے انکار کے بعد قرآن کے کتاب اللہ ہونے پر کوئی یقینی قطعی دلیل نہیں رہ جاتی، ساری دلیلوں کا منتہا یہ ہے  کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ یہ خدا کی کتاب ہے،یہ جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، یہ آیت  لے کر آئے ہیں،کتاب اللہ کی معرفت اور کتاب اللہ کے لے کر آنے والے مَلک مقرب جبرائیل علیہ السلام کی معرفت قولِ رسول (ﷺ) ہی پر موقوف ہے-اگر رسول اللہ (ﷺ) کا قول ہی ناقابل قبول ہو جائے تو کتاب اللہ کا کوئی وزن نہیں رہ جائے گا-غور کیجیئے! رسول اللہ (ﷺ) نے لاکھوں باتیں ارشاد فرمائیں انہیں میں یہ فرمایا،مجھ پر قرآن نازل ہوا ، مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی، مجھ پر یہ سورۃ نازل ہوئی سننے والے صحابہ کرام(﷢) نے ان کو کتاب اللہ جانا اور مانا اور جن ارشادات کے بارے  میں یہ نہیں فرمایا،یہ احادیث ہوئیں-اب کوئی بتائے ایک ہی زبان مبارک سے دو قسم کی باتیں ہوئیں ایک مقبول اور دوسری مردود،یہ کس منطق سے درست ہوگا-ایک قسم  کو مردود قرار دینے کا مطلب ہوگا دوسری قسم کو بھی مردود قرار دینا،غرضیکہ حدیث کےناقابل قبول ماننے کے بعد قرآن کا بھی ناقابل قبول ہونا لازم ہے-

علاوہ ازیں اگرچہ قرآن کریم میں تمام چیزوں کا بیان ہے مگر ان میں کتنی چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے لئے مجمل اور مبہم ہیں مثلاً عبادات اربعہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو لے لیجیئے-قرآن مجید میں ان سب کا حکم ہے-مگر کیا قرآن مجید سے ان عبادات کی پوری تفصیل کوئی بتا سکتاہے-اگر احادیث کو ناقابل اعتبار ٹھہرا دیا جائےتو پھر ان عبادات پرعمل کیسے ہوگا کیونکہ ان سب کی ہیئت،ان سب کی تفصیل احادیثِ مبارکہ ہی سے معلوم ہوئی ہے-خود حضور پاک(ﷺ) نے فرمایا:

’’صلو کما رأیتمونی اصلی‘‘،متفق علیہ،اس طرح نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو-عبادات سے قطع نظر قرآن مجید کی سینکڑوں آیات وہ ہیں کہ اگر ان کی توضیح احادیث میں مذکور نہ ہوتی تووہ ’’لا ینحل ‘‘رہ جاتیں-مثلاً ارشاد ہے:

’’اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہُ اِذْاَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اﷲَ مَعَنَا‘‘[15]

’’اگر تم ان کی (یعنی رسول اللہ(ﷺ)کی غلبہ اسلام کی جدوجہد میں) مدد نہ کرو گے (تو کیا ہوا) سو بے شک اللہ نے ان کو (اس وقت بھی) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں (وطنِ مکہ سے) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو (ہجرت کرنے والوں) میں سے دوسرے تھے جب کہ دونوں (رسول اللہ(ﷺ)اور ابوبکر صدیقؓ) غارِ (ثور) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیقؓ) سے فرما رہے تھے غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘-

احادیث قطع نظرکرکے کوئی بتا سکتا ہے کہ کافروں نے کیا شرارت کی تھی؟رسول اللہ (ﷺ) کو کہاں سے باہر تشریف لے جانا پڑا؟ یہ ساتھی کون تھے؟یہ غار کونسی تھی؟اور کیوں ساتھی کو تسلی تشفی دینے کی حاجت پیش آئی؟دوسری جگہ فرمایا:

’’لَقَدْ نَصَرَکُمُ اﷲُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ‘‘[16]

’’بے شک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی ‘‘-

یہ جگہیں کون کون ہیں صرف قرآن سے کوئی بتا سکتا ہے ؟مزید فرمایا:

’’وَّعَلَی الثَّلٰـثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا ‘‘[17]

’’اور ان تینوں شخصوں پر (بھی نظرِ رحمت فرمادی) جن (کے فیصلہ) کو مؤخر کیا گیا تھا‘‘-

یہ تینوں کون تھے؟ان کا معاملہ کیا تھا؟ کیوں ان کا معاملہ ملتوی کی گیا؟کیا بغیر احادیث کے ان سوالوں کے جوابات دینا ممکن ہے-اللہ تعالیٰ نے مزیدارشاد فرمایا:

’’لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِط فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَہَّرُوْا ‘‘[18]

’’البتہ وہ مسجد،جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے،حقدار ہے کہ آپ اس میں قیام فرما ہوں-اس میں ایسے لوگ ہیں جو (ظاہراً و باطناً) پاک رہنے کو پسندکرتے ہیں ‘‘-

یہ مسجد کون ہے،یہ لوگ کون ہیں؟احادیث سے قطع نظر کرکے کوئی بتائے تو؟یہ چند مثالیں ہیں ورنہ قرآن میں اس کی صدہا مثالیں موجود ہیں کہ اگر احادیث میں ان کی توضیح نہ ہوتی تو ان کا ابہام کسی طرح دور ہی نہیں ہوسکتا تھا-مَیں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ’’لا الہ الا اللہ  محمد الرسول اللہ‘‘ پر ایمان  کے بعد قول رسول (ﷺ) کو حق نہ تسلیم کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے-

اِسی وجہ سے عہدِ صحابہ (﷢) سے لےکر آج تک اُمت بلا نکیر منکر قرآن کی طرح احادیث کو واجب الاعتقاد و واجب العمل مانتی چلی آئی ہے-البتّہ اِس زمانے میں بعض کلمہ گوئی کا دعویٰ کرنے 0648الے ایسے پیدا ہو گئے ہیں جو احادیث کو نا قابلِ قبول مانتے ہیں-

(ماخوذ از : مقدمہ نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری / تالیف: فقیہِ ہند علامہ محمد شریف الحق امجدی (﷫) / مطبوعہ: فرید بک سٹال ،لاہور)

٭٭٭



[1](النساء:۸۰)

[2](النساء:۶۴)

[3](النور:۵۱)

[4](النساء:۶۵)

[5](الانفال:۲۴)

[6](المجادلہ:۹)

[7](النساء:۶۱)

[8](الاحزاب:۶۶)

[9](الاحزاب:۳۶)