ہندو پاک میں رائج و متعارف قرآن کریم کارسم الخط

ہندو پاک میں رائج و متعارف قرآن کریم کارسم الخط

ہندو پاک میں رائج و متعارف قرآن کریم کارسم الخط

مصنف: مفتی وسیم اختر المدنی جون 2017

ہندو پاک میں قرآن کریم کی کتابت  جو بطور رسم ِعثمانی متعارف ہے،اس کا مرکز و محور  اِس فن کے امام ابو عمروالدانی(رحمتہ اللہ علیہ)(م: ۴۴۴ھ) کی نصوص و ترجیحات ہیں،جبکہ عرب دنیا میں متعارف رسم الخط  ان کے شاگرد امام ابوداؤد بن نجاح (رحمتہ اللہ علیہ)( م: ۴۹۶ ھ) کی ترجیحات کے مطابق ہے-جبکہ نُقَط،وقف اور اعراب کے لیے وضع کردہ علامات اجتہادی ہیں،جن میں عرب و عجم کے علماء نے اپنی علاقائی ضروریات کو پیش نظر رکھا اور تا حال اسی پر عمل ہورہا ہے -مگر اب ایک مخصوص  طبقے نے آواز اٹھائی ہےکہ اس کو بدل کر عربوں میں رائج رسم و ضبط کو ہند و پاک میں بھی رائج کرنا چاہیےجس سے چند سوالات وقوع پذیر ہوتے ہیں:

1)       عام طور پر شائع ہونے والا رسم وضبط (مثلاً: تاج کمپنی والا) جو ہندو پاک میں رائج ومتعارف ہے، وہ صحیح ہے یا غلط ؟

2)       کیا ہندو پاک میں عرب ممالک کے (علامات واعراب)کو رائج کرنا ضروری ہے ؟

3)       ایسی تبدیلی کیا  امت میں ایک نئے اختلاف کی بنیاد بن سکتی ہے یا نہیں ؟

ہم نے اس مقالہ میں انہیں سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے-

جمعِ قرآن کی ابتداء:

رسول اللہ(ﷺ)پر اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کو تئیس (۲۳)سال کے عرصے میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا -

رسول اللہ (ﷺ)پر جو بھی وحی نازل ہوتی،آپ(ﷺ)صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کو اس کی تعلیم فرمایا کرتے اورجو صحابہ کرام لکھنا (رضی اللہ عنھم) جانتے تھے، ان کے ذریعے اس وحی ِالہی کو  تحریر  ی صورت میں بھی محفوظ کر لیا جاتا تھااور یہ سب کام حکم خداوندی کے مطابق انجام پاتاتھا-

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:

’’لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖo أِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰ نَہٗo فَاِذَا قَرَاْنٰـہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗo ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ‘‘[1]

 

 

’’(اے حبیب(ﷺ)آپ (قرآن کو یاد کرنے کی) جلدی میں (نزولِ وحی کے ساتھ) اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں-بےشک اسے (آپ(ﷺ) کے سینہ میں) جمع کرنا اور اسے (آپ کی زبان سے) پڑھانا ہمارا ذِمّہ ہے-پھر جب ہم اسے (زبانِ جبریل سے) پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی پیروی کیا کریں-پھر بے شک اس (کے معانی) کا کھول کر بیان کرنا ہمارا ہی ذِمّہ ہے‘‘-

صحابہ کرام  (﷢) نے حفظ اور تحریر دونوں ذرائع سے قرآنِ کریم کو رسول اللہ (ﷺ)سے حاصل کیا-

رسول اللہ(ﷺ)کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعدجب جنگ یمامہ میں کئی حفاظِ صحابہ کرام شہید ہو گئے تو حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کے مشورے پر خلیفہ اول حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہُ) نےجمعِ قرآن  کے لئے حضرت زید بن ثابت (رضی اللہ عنہُ)  کی سربراہی میں اکابر اور جلیل القدر صحابہ کرام (رضی اللہ عنہُ)کی ایک مجلس بنائی،جس نے کڑی شرائط کے تحت جمعِ قرآن کا فريضہ انجام دیا -اس مرتّب و مدوّن  مصحف مقدس کو ’’مصحف ِ صدیقی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کی اساس اس عہد کے قُرَّاءِ قرآن کی یاد داشت اور صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) کے پا س متفرق طور پر مکتوب آیا ت وسُوَر ِ قرآنی تھیں-حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہُ) کے جمع کردہ قرآنِ کریم کی صحت پر تمام صحابہ کرام  (رضی اللہ عنہُ)و امت مسلمہ کا اجماع واتفاق ہے-

’’ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيَّ (رضی اللہ عنہُ)-وَكَانَ مِمَّنْ يَكْتُبُ الوَحْيَ - قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ اليَمَامَةِ وَعِنْدَهُ عُمَرُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي، فَقَالَ: إِنَّ القَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ اليَمَامَةِ بِالنَّاسِ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ القَتْلُ بِالقُرَّاءِ فِي المَوَاطِنِ، فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ القُرْآنِ إِلَّا أَنْ تَجْمَعُوهُ، وَإِنِّي لَأَرَى أَنْ تَجْمَعَ القُرْآنَ‘‘، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قُلْتُ لِعُمَرَ: كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ)؟ فَقَالَ عُمَرُ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي فِيهِ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ لِذَلِكَ صَدْرِي، وَرَأَيْتُ الَّذِي رَأَى عُمَرُ.

 

 

قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: وَعُمَرُ عِنْدَهُ جَالِسٌ لاَ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ، وَلاَ نَتَّهِمُكَ، كُنْتَ تَكْتُبُ الوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ (ﷺ)، فَتَتَبَّعِ القُرْآنَ فَاجْمَعْهُ، فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفَنِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ القُرْآنِ، قُلْتُ: «كَيْفَ تَفْعَلاَنِ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ النَّبِيُّ (ﷺ)؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ أَزَلْ أُرَاجِعُهُ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ اللَّهُ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَقُمْتُ فَتَتَبَّعْتُ القُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الرِّقَاعِ وَالأَكْتَافِ، وَالعُسُبِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ، حَتَّى وَجَدْتُ مِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ آيَتَيْنِ مَعَ خُزَيْمَةَ الأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهُمَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ،﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ﴾[2]إِلَى آخِرِهِمَا، وَكَانَتِ الصُّحُفُ الَّتِي جُمِعَ فِيهَا القُرْآنُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ»[3]

 

’’زید بن ثابت انصاری (رضی اللہ عنہُ)اور یہ ان صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) میں سے تھے جو وحی لکھتے تھے،نے بیان کیا: حضرت ابو بکر صدیق(رضی اللہ عنہ)نے مجھے بتایا جن دنوں اہل یمامہ سے لڑائی ہوئی تھی اور ان کے پاس اس وقت حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) بھی تھے،پس حضرت ابو بکر  (رضی اللہ عنہ)نے بتایا کہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) میرے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت زیادہ مسلمان شہید ہوگئے ہیں اور مجھے یہ  خدشہ ہے کہ مختلف علاقوں کی جنگوں میں قرآن مجید کےمزید قاری شہید ہوتے رہیں گے تو اکثر قرآن جاتا رہے گا سوا اس کے کہ آپ اس کو کسی مصحف میں جمع کر لیں اور میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کو جمع کریں- حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) نے بتایا کہ میں نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) سے کہا: میں وہ کام کیسے کروں جس کو رسول اللہ(ﷺ)نے نہیں کیا، تو حضرت  عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا: اللہ کی قسم! اس کام میں خیر ہے، پھر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) مجھ سے مسلسل اس کام کیلئے بات کرتے رہے، حتى کہ اللہ تعالى نے اس کام کےلئے میرا سینہ کھول دیا اور میری بھی وہی رائے ہوگئی جو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی رائے تھی-

حضرت زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ) نے کہا: حصرت عمر (رضی اللہ عنہ) بھی اس وقت وہیں  تھے اور کوئی بات نہیں کر رہے تھے- پٍس حضرت ابو بکر نے کہا: تم جوان مرد ہو اورعقل مند ہو اور ہم تم پر کوئی تہمت نہیں لگاتے، تم رسول اللہ (ﷺ)کےلئے وحی لکھتے تھے،پس تم قرآن مجید کو تلاش کرو اور اس کو جمع کرو- حضرت زید (رضی اللہ عنہ) نے کہا: اللہ کی قسم! اگر وہ مجھے پہاڑ  کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو وہ مجھ پر اتنا بھاری نہ ہوتا جتنا مجھ پر یہ  بھاری تھا کہ انہوں نے مجھے قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم دیا-میں نےکہا: آپ دونوں وہ کام کیسے کریں گے جس کو نبی(ﷺ) نے نہیں کیا،تو حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) نے کہا: اللہ کی قسم! اس کا م میں خیر ہے،پھر میں ان سے مسلسل اس سلسلہ میں بات کرتا رہا حتى کہ اللہ تعالى نے میرا سینہ بھی اس کام کیلئے کھول دیا جس کام کےلئے حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا سینہ کھولا تھا ، پھر میں کھڑا ہوا اور میں نےقرآن مجید کو تلاش کیا- میں نے قرآن مجید کو چمڑوں سے،چوڑی ہڈیوں سے اور کھجور کی چوڑی شاخوں سے اور مردوں کے سینوں سے جمع کرتا رہا حتى کہ میں نے  سورہ توبہ کی دوآیتوں کو حضرت خذیمہ انصاری (رضی اللہ عنہ) کے پاس پایا اور میں نے ان آیتوں کو ان کے سوا کسی اور کے پاس نہیں پایا- وہ آیتیں یہ ہیں: ﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ.... ﴾اور وہ صحیفے جن کو قرآن مجید میں جمع کیا گیا حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس  تھے حتى کہ جب اللہ تعالى نے ان کو وفات دے دی توپھر وہ صحیفے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کےپاس تھے،پھر جب اللہ تعالى نے ان کو بھی وفات دے  دی تو پھر وہ صحیفے حضرت حفصہ بنت عمر (رضی اللہ عنہا)کے پاس تھے‘‘-

مصحفِ عثمانی کی تدوین:

پھر حضرت عثمان غنی(رضی اللہ عنہ)نے اپنے دور خلافت میں شاذ اور غیر متواتر قرأت کے فتنے سے امت کو بچانے کے لئے   مہاجرین و انصار میں سے اکابر قُرَّاءِ صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) کی سرپرستی  میں حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ)کے اسی مصحف میں سے قرآنِ کریم کے متعدد مصاحف نقل کروائے-یہ وہ قراء صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ)تھے جنہوں نے ذات رسالت مآب(ﷺ)سے براہ راست قرآن کریم کو سنا اور پڑھا اور جو حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کی خصوصی مجلس ِ جمع قرآن میں شامل رہے تھے-حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ)نے پوری امت کو انہی مصاحف پر جمع فرمایااور تمام شاذ اور غیر متواتر قرأت پر پابندی لگا دی-بعض صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم)،جنہوں نے اپنے ذاتی مصاحف میں کچھ ایسی باتیں بھی تحریر کر رکھیں تھی جو رسول  اللہ (ﷺ)نے بطور تفسیر بیان فرمائیں تھیں، آپ (رضی اللہ عنہ)نے ان تمام پربھی پابندی عائد کردی تاکہ ناواقف ان تفسیری باتوں کو قرآن کا حصہ نہ سمجھ لیں-

’’ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، حَدَّثَهُ: أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ اليَمَانِ، قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّأْمِ فِي فَتْحِ أَرْمِينِيَةَ، وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ العِرَاقِ، فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةَ اخْتِلاَفُهُمْ فِي القِرَاءَةِ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ لِعُثْمَانَ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، أَدْرِكْ هَذِهِ الأُمَّةَ، قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الكِتَابِ اخْتِلاَفَ اليَهُودِ وَالنَّصَارَى، فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى حَفْصَةَ: «أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي المَصَاحِفِ، ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ»، فَأَرْسَلَتْ بِهَا حَفْصَةُ إِلَى عُثْمَانَ، فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدَ بْنَ العَاصِ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَسَخُوهَا فِي المَصَاحِفِ، وَ قَالَ عُثْمَانُ لِلرَّهْطِ القُرَشِيِّينَ الثَّلاَثَةِ: «إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْءٍ مِنَ القُرْآنِ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ، فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ» فَفَعَلُوا حَتَّى إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي المَصَاحِفِ، رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَى حَفْصَةَ، وَأَرْسَلَ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا، وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنَ القُرْآنِ فِي كُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ  أَنْ يُحْرَقَ‘‘[4]

 

’’حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ)نے بیان کیا کہ حضرت حذیفہ بن یمان(رضی اللہ عنہ)حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)کے پاس آئے اس وقت حضرت حذیفہ (رضی اللہ عنہ)اہل شام کے ساتھ مل کر آرمینیہ اور آذر بائیجان کی فتح کیلئے اہل شام سے مل کر جہاد  کررہے تھے تب حضرت حضرت حذیفہ (رضی اللہ عنہ) مسلمانوں کے قرآن مجید پڑھنے میں اختلاف سے گھبرا گئے،پس حضرت حذیفہ (رضی اللہ عنہ) نے حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ)سے کہا:اے امیر المؤمنین ! اس سے پہلے کہ یہ امت کتاب میں یہودو نصارى کے اختلاف کی طرح اختلاف کرنے لگے،آپ اس  کا تدارک کر لیجئے-پھر حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ) نے ام المؤمنین حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا)کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے پاس وہ مصحف بھیج دیں ،ہم اس کے موافق مصاحف لکھیں گے پھر ہم اس کو آپ کی طرف واپس کردیں گے-پس حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا)نے وہ مصحف حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)کی طرف بھیج دیا،پھر حضرت زید بن ثابت،حضرت عبد اللہ بن زبیر،حضرت سعید بن العاص اور حضرت عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام(رضی اللہ عنہ) کو یہ حکم دیا کہ وہ اس نسخہ کے موافق مصاحف لکھیں-پھر حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے تین قریشی صحابہ سے یہ کہا جب تمہارا اور حضرت زید بن ثابت(رضی اللہ عنہ) سے  کسی لفظ میں اختلاف ہو تو تم اس لفظ کو قریش کی زبان کی موافق لکھنا کیونکہ قرآن مجید قریش کی زبان پر نازل ہوا ہے-سو انہوں نے اسی طرح کیا حتى کہ جب انہوں نے مصاحف میں اس مصحف کے موافق لکھ لیا پھر حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ)نے وہ مصحف حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا)کی طرف واپس کردیا- پھر انہوں نے تمام شہروں میں اس مصحف کی نقل بھیج دی جس کو انہوں نے لکھااور یہ حکم دیا کہ اس کے سوا قرآن مجید کے ہر صحیفہ کو یا مصحف کو جلا دیا جائے ‘‘-

چنانچہ قرآنِ کریم رسول اللہ (ﷺ)سے حفظ و کتابت دونوں طرح بذریعہ تواتر ہم تک پہنچا ہے-پھر لاکھوں لوگوں نے  کسی ادنیٰ کمی و بیشی اور تغیُّر و تبدُّل کے بغیر اسے لاکھوں لوگوں کی طرف آگے نقل کیا اور یقیناً روزِ قیامت تک  یہ بذریعہ تواتر ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہے گا-

اس وقت روئے زمین پروحی الٰہی میں سے  قرآنِ کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو اَب تک اُسی طرح محفوظ ہےجس طرح اس کا نزول ہوا تھا، کیونکہ اسے قیامت تک  تمام انسانیت کے لئے ہدایت کا چراغ اور پوری نوعِ انسانی کے لئے حجت بننا تھا-چنانچہ حفاظت ِقرآن کے اس ربانی وعدہ نے پوری دنیا پر یہ مہر تصدیق ثبت کردی ہے:

’’ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ‘‘[5]

 

’’بیشک ہم ہی نے یہ قرآن نازل کیا اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘-

کتابتِ قرآن کا رسمِ عثمانی کے مطابق ہونا ضروری ہے:

صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) سے لےکر آج تک سوائے چند افراد کے پوری امت اس بات پر متفق ہے کہ قرآن پاک کی کتابت اسی طرز تحریر میں ہونا ضروری ہے،جس کو حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ)نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی تائید اور اتفاق کے ساتھ اختیار فرمایا اور اسی طرز تحریر میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے رسول اللہ(ﷺ)کی ہدایت کی روشنی میں آپ کی حیات طیبہ میں قرآن پاک کو تحریر کیا-اس طرز تحریر کو رسمِ عثمانی کہا جاتا ہے-حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ)نے جو مصاحف تحریر کیے تھے ان کی تعداد اکثر علماء کے نزدیک  چھ (۶)بیان کی جاتی ہے-ان مصاحف میں الفاظ کے لکھنے میں بعض جگہ پر اختلاف بھی تھا مثلاً:’’یلتقیان‘‘الف کے ساتھ اور’’یلتقیٰن‘‘الف کے بغیر دونوں طرح لکھا جاسکتا ہے اگرچہ قرأت  اور معنی میں دونوں ایک ہی ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی فرق صرف رسم میں ہوگا-اُن مصاحف میں دونوں طرز تحریر کو اختیار کیا گیا ہے تاکہ یہ دونوں طریقے محفوظ ہو جائیں-بعض مصاحف میں تثنیہ کے الفاظ الف کے ساتھ اور بعض میں بغیر الف کے تحریر کیے گئے-اسی طرح  بعض دیگر الفاظ کے رسم اور طرز تحریرمیں فرق تھا-

 ہر وہ مُصحف رسم عثمانی کے مطابق قرار پائے گا،جس کے الفاظ کی تحریر کا انداز اُن مصاحف میں سے کسی ایک کے مطابق ہو-اسی لئے ہر دور کے علماء کرام اپنی سہولت ،آسانی اور اس علاقے میں رائج مصحف عثمانی سے مطابقت رکھنے والے طرز تحریر میں قرآن پاک کی کتابت کرتے رہے اور کبھی کسی عالم نے رسم عثمانی سے مطابقت کرنے والے طرز تحریر کو غلط نہیں کہا-

یہی وجہ ہے کہ اكثر  علماء کرام کے نزدیک قرآن پاک کا رسم توقیفی ہے   اور اس کے خلاف رسم کو اپنانا حرام ہے-

امام  ابو عمرو الدانی (رحمتہ اللہ علیہ)امام مالک(رحمتہ اللہ علیہ) کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:

’’قَالَ أَشهب سُئِلَ مَالك فَقيل لَهُ أَرَأَيْت من استكتب مُصحفا الْيَوْم أَتَرَى أَن يكْتب على مَا أحدث النَّاس من الهجاء الْيَوْم فَقَالَ لَا أرى ذَلِك وَلَكِن يكْتب على الكتبة الأولى‘‘[6]

 

’’اشہب نے کہا کہ امام مالک ؒ سے سوال  کیا گیا کہ آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ جو شخص آج قرآن کو تحریر کرے تو لوگوں کے آج کے طرز کے مطابق لکھے؟ تو آپ ؒ نے فرمایا: میں اس کو صحیح نہیں سمجھتا تو وہ اسی طرح لکھے جس طرح پہلی دفعہ لکھا گیا‘‘-

امام احمد بن حنبل ؒ  فرماتے ہیں:

’’ تحرم مخالفة خط عثمان في ياء أو ألف أو واو أو غيره‘‘[7]

 

’’حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)کے خط کی مخالفت کرنا حرام ہے یاء ، الف ، واؤ  وغیرہ میں‘‘-

کتابتِ قرآن کے متعلق علماء کی تحقیقات:

قرآن مجید کی طرز تحریر کے بارے میں دو علماء کرام کی تحقیقات بہت مشہور ہیں-ان میں ایک امام ابو عمرو الدانی(م:۴۴۴ھ)اور دوسرے اُن کے شاگرد ابو داؤد بن نجاح (م: ۴۹۶ھ )ہیں -

1.       امام ابو عمر الدانی نے اپنی مشہور کتاب’’ المُقنِّع فی معرفۃِ مرسومِ مَصاحفِ اھلِ الاَمصار‘‘میں رسم عثمانی کے مطابق قرآنی کلمات کے طرز تحریر کو ضبط کیا ہے اور حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ)کے مَصاحِف میں کلمات کے طرز تحریر میں جوبعض جگہ پر اختلافات تھے،ان کو بھی بیان کیا ہے اور ان اختلافی جگہوں میں ان کے نزدیک جو زیادہ پسندیدہ صورت تھی،اس کو بھی بیان کیا ہے-ان کے شاگرد امام ابو داؤد بن نجاح نے اپنی کتاب ’’مُختَصرُ التَّبیِین لِھجاءِالتَّنزیل ‘‘میں بعض جگہوں پر اپنے استاد کے مختار قول سے اختلاف کیا ہے اور دوسرے قول کو اپنا پسندیدہ قرار دیا، مثلاً: تثنیہ کے تمام کلمات،چاہے وہ اَفعال میں سے ہوں یا اَسماء میں سے،ان کو کلمے کے وسط میں واقع الف کے بغیر لکھتے ہیں اِلّا یہ کہ وہ کلمے کے آخر میں واقع ہو-

2.       امام ابو داؤد بن نجاح تثنیہ کے تمام کلمات میں  الف کے اثبات کے  راوی اور قائل ہیں،اس کی مثال افعال میں ’’تکذبان‘‘ اور ’تجریان ‘ کا الف ہےاور اَسماء میں’’طائفتان‘‘اور’’الجمعان‘‘کا الف ہے-تثنیہ کا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آرہا ہوتو تحریر میں  اس  کے اثبات پر سب کا اتفاق ہے،جیسےلفظ’’قالا‘‘کا الف بالاتفاق ثابت ہے،کیونکہ وہ کلمے کے آخر میں ہےوسط میں نہیں ہے-اسی طرح امام إبراهيم بن موسى بن محمد اللخمي الغرناطي المعروف امام الشاطبی(م: ۷۹۰ھ)نے امام دانی کی کتاب ’’المقنع ‘‘کو اپنی نظم ’’عقیلۃُ اَتراب القصائد ‘‘میں بطور اشعار تحریر کیا ہے اوربعض الفاظ میں انہوں نےبھی امام دانی کے برخلاف دوسرے طرز تحریر کو اپنا پسندیدہ قرار دیا ہے-

تفصیل کےلئے امام ابو عمرو دانی کی کتب’’المحكم في نقط المصاحف، المقنع في رسم مصاحف الأمصار، الأحرف السبعة للقرآن،  جامع البيان في القراءات السبع‘‘اور ابو داؤد سليمان بن نجاح  کی کتاب ’’مختصر التبیین لهجاء التنزیل‘‘  کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے-

عالمِ اسلام میں طرزِ تحریرِ قرآن کی تقسیم:

اختلافی کلمات جن کا طرز تحریر حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ)کے مصاحف میں مختلف فیہ  ہے،صرف چند سو ہیں-عالم اسلام میں ان کلمات کو تحریر کرنے کے طرز میں تین طرح کے مصحف عام طورپر پائے جاتے ہیں،جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

1)       مصر،سعودی عرب،شام،عراق اور دیگر عربی ممالک میں اِن اختلافی کلمات کے تحریر کرنے میں اکثر طور پر امام ابوداؤد بن نجاح کی ترجیحات پر عمل کیا جاتا ہے-

2)      مغربی ممالک مراکش،الجزائر،تیونس وغیرہ میں روایت قالون اور روایت وَرش میں قرآن پاک تحریر کیے جاتے ہیں اور اختلافی کلمات میں عرب ممالک کی طرح اکثر وبیشتر امام ابوداؤد بن نجاح کی ترجیحات ہی پر عمل کیاجاتا ہے،سوائے چند کلمات کے جہاں امام ابوداؤد نے اپنی کتاب میں سکوت اختیار کیا ہے-یہ ممالک امام ابوالحسن البلنسی(م:۵۶۷ھ) کی ترجیحات کو اختیار کرتے ہیں-

بر صغیر میں استعمال ہونے والا رسم الخط:

3)       برصغیر پاک وہند میں مروَّجہ مَصاحف بالکل درست اور رسم  عثمانی کے مطابق ہیں کیونکہ ان کا رسم الخط امام ابو عمرو دانی کی تحقیق اور مختار قول کے مطابق ہے اور بعض الفاظ میں امام شاطبى کے مختار قول کو بھی اختیار کیا گیا ہے-مثلاً:’’سورہ شوری :۲۲‘‘ میں ’’روضات الجنات‘‘کے دونوں لفظ  جمع مؤنَث سالم کے صیغے ہیں اور جمع مؤنث سالم کے قاعدے کی رو سے ان دونوں میں الف محذوف ہونا چاہیے،مگر چونکہ امام ابو عمرو دانی اور امام ابوداؤدبن نجاح نے ان دونوں الفاظ کو عام قاعدے سے مستثنیٰ کرتے ہوئے ان میں اثبات ِاَلف نقل کیا ہے-یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک میں چھپنے والے تمام مصاحف میں مذکورہ دونوں الفاظ میں اثبات ِ الف ہی کو اختیار کیا گیا ہے،لیکن  امام شاطبى نے اپنی کتاب ’’العقیلۃ‘‘ میں ان دونوں الفاظ کو عام قاعدے سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا-ان کے نزدیک ان دونوں الفاظ کا الف بھی دیگر جمع مونث سالم کےالفاظ کی مانند محذوف ہی رہے گا-برصغیر کے تمام مصاحف میں ان دونوں الفاظ میں امام شاطبى کے قول  کو اختیار کرتے ہوئے الف کومحذوف کرکے دونوں پر کھڑی زبر ڈالی گئی  ہے-

اسلامی ممالک میں مروج تمام مصاحف صحیح اور درست ہیں کیونکہ ان میں سےہر ایک مصحف کا رسم اور طرز تحریر مَصاحف عثمانی میں موجود رسم سے مطابقت رکھتا ہے،ان میں سےکسی بھی مصحف کے انداز تحریریا رسم کو غلط کہنا پرلے درجے کی جہالت اور مسلمانو ں کو فتنے میں ڈالنا ہے-

جہاں جو رسم الخط رائج ہے اُسی کا ہونا ضروری ہے:

ہر خطے کے لو گ اپنے یہاں مروج مصاحف کے طرز تحریر ہی  سے مانوس ہوتے ہیں اور ان کے لئے ان مصاحف  ہی سے قرأت کرنا آسان ہوتا ہے اس لئے ہر خطے کے ارباب اقتدار پر لازم ہے کہ ان کے یہاں جو مصاحف کا طرز تحریر رائج ہے،اسی کےمطابق قرآن پاک کی اشاعت  کا اہتمام کریں، ورنہ  بے علم لوگ  اس طرح کےاختلافات کے سامنے آنے سے پریشان ہو کر کسی شیطانی وسوسے کا شکار ہو سکتے ہیں ان کی رعایت کرنا اور لوگوں کو فتنے سے بچانا لازم ہے-

اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشادفرماتا ہے:

’’وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ‘‘[8]                        ’’فتنہ (اپنے مابعد نتائج کے اعتبار سے)قتل  سے بھی سخت ہے‘‘-

علامہ جلال الدین السیوطی (﷫)’’الجامع الصغیر‘‘میں حدیث پاک لکھتے ہیں:

’’الْفِتْنَةُ نَائِمَةٌ لَعَنَ الله مَنْ أَيْقَظَهَا‘‘[9]             ’’فتنہ سو رہا ہے، جو اس کو جگائے  اس پراللہ کی لعنت ہو‘‘-

یہ حدیث اگرچہ سنداً ضعیف ہے،لیکن معنی کے اعتبار سے صحیح ہے-

رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا‘‘[10]

 

 

(دین میں)آسانی پیدا کرو اور دشواری پیدا نہ کرو اور(دین کے بارے میں) خوش خبری سناؤ اور (لوگوں کو دین سے)متنفر نہ کرو‘‘- 

مقاصدِ شریعت میں سد ذرائع بھی ہے،یعنی امکانی طور پردر آنے والی خرابیوں کا راستہ روکنا-رسول پاک(ﷺ)نے بھی اسی دینی حکمت کے تحت اپنے بعض پسندیدہ امور کو ترک فرمایا ہے-مثال کے طور پر آپ(ﷺ)کی خواہش تھی کہ بنائے قریش پر بنی ہوئی کعبۃ اللہ کی عمارت کو شہید کر دیں اور پھر اس میں حطیم کو شامل کر کے بنائے ابراہیم پر تعمیر کریں-اسلام کو حجاز میں غلبہ حاصل ہو چکا تھا اور آپ کے پاس مالی وسائل بھی تھے،لیکن آپ (ﷺ) نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہا)سےفرمایا:

’’لَوْلَا حَدَاثَةُ عَهْدِ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، وَلَجَعَلْتُهَا عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيمَ، فَإِنَّ قُرَيْشًا حِينَ بَنَتِ الْبَيْتَ اسْتَقْصَرَتْ، وَلَجَعَلْتُ لَهَا خَلْفًا‘‘[11]

 

’’اگر تمہاری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑاہوتا تو میں بیت اللہ کی عمارت کو منہدم کر دیتا اور اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی ہوئی بنیادوں پر تعمیر کرتا،کیونکہ جب قریش نے اس کو بنایا تھا تو (وسائل کی کمی کے سبب ایک جانب سے)اُس کو چھوٹا کر دیا تھا اور میں اس کی پچھلی جانب بھی ایک دروازہ بناتا‘‘-

برصغیر پاک وہند کے عظیم فقیہ امام الشاہ احمد رضاخان ؒ لکھتے ہیں:

’’پس ان امور میں ضابطہء کلیّہ واجبۃ ُالحفظ (یعنی ایسا ضابطہ وقانون ِ شرعی جسے لازماً یاد رکھنا چاہے) کہ فعلِ فرائض وترک ِمحُرَّمات (یعنی فرائض کو ادا کرنےاور حرام کا موں کے چھوڑنے)کو ارضائے خلق (لوگوں کی خوشنودی)پر مقدَّم رکھے اور ان اُمور میں کسی کی مُطلقاً پروا نہ کرے اور اِتیانِ مستحب(مستحب کو ادا کرنے) وترک ِغیر اَولٰی(غیر افضل کاموں کو چھوڑنے) پر مُداراتِ خَلق ومُراعات ِقلوب (مخلوق کی دلداری)کو اہم جانے اور فتنہ ونفرت و ایذا و وحشت کا باعث ہونے سے بہت بچے-اسی طرح جو عادات و رسوم خَلق میں جاری ہوں اور شرع ِمُطہَّر سے اُن کی حُرمت وشَناعت  ثابت نہ ہو،اُن میں اپنے تَرفُّع(بڑائی) وتنزُّہ(دعوائے پارسائی) کے لئے خلاف وجُدائی نہ کرے کہ یہ سب امور ایِتلاف وموانَست (لوگوں کے دلوں کو جوڑنے اور دین کی طرف مائل کرنے)کے مُعارِض (خلاف)اور مُراد ومحبوب شارع کے منُاقِض (خلاف)ہیں،ہاں ہاں! ہوشیار وگوش دار (کان لگا کرسن)کہ یہ وہ نکتہ جمیلہ وحکمتِ جلیلہ (عظیم حکمت)و کُوچہ سلامت و جادَہ کرامت ہےجس سے بہت زاہدانِ خشک و اہلِ تکشُّف غافل وجاہل ہوتے ہیں وہ اپنے زَعم میں ُمحتاط و دین پرور بنتے ہیں اور فی الواقع مغزِحکمت ومقصودِ شریعت سے دور پڑتے ہیں خبردار ومحکم گیر(یعنی اس مشورے کو مضبوطی سے تھام لے) یہ چند سطروں میں علمِ غزیر(وافر علم) وباللّٰہِ التوفیق والیہِ المصیر (یہ سب اللہ تعالٰی کی توفیق سے ہے اور اسی کی طرف رجوع کرنا ہے‘‘[12]-

اعراب وغیرہ  آسانی کےلئے لگائے گئے:

جہاں تک قرآن پاک کے الفاظ پر اِعراب کی بات ہےتو مصحف عثمانی میں الفاظ پر اعراب نہیں لگائے گئے تھے-بعد میں جب اسلام غیر عربی اقوام تک پہنچا اور ان کو قرآن پاک کی صحیح قرأت میں دشواری پیش آنے لگی تو حجاج بن یوسف کے حکم پر قرآن پاک کے الفاظ پر اعراب لگائے گئے-ابتداء میں اس کے لئے نقطوں کا سہارا لیا گیا لیکن بعد میں آج کل مروَّجہ اعراب یعنی زبر کے لئے لفظ کے اوپر اور زیر کے لئے لفظ کے نیچے ایک ترچھی لکیر لگائی گئی ’’علٰی ھٰذا القیاس ‘‘-

الفاظ پر اعراب لگانے کو ضبط وشکل  کہتے ہیں،آج کل  اعراب کو تحریر کرنے کا اندازعرب ممالک میں برصغیر پاک وہند میں مروَّج مصاحف سے کچھ مختلف ہے،مثلاً:ہمارے یہاں  رائج مصاحف میں جس حرف پر کھڑی زبر ہواس کے ساتھ کوئی اور حرکت نہیں لگائی جاتی،جیسے لفظ:’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘-جبکہ عرب ممالک میں کھڑی زبر کے ساتھ فتح (زبر) کی حرکت بھی لگائی جاتی ہے، یعنی یوں لکھا جاتا ہے:’’مَٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘-اعراب کا مقصد قرآن پاک کو صحیح اور درست پڑھنا ہے اس لئے ہر خطے میں رائج ضبط وشکل کے انداز سے اس خطے کے مسلمانوں کے لئے قرآن پاک کو درست پڑھنا نسبتاًآسان ہوتا ہے،اس لئے عوام میں رائج انداز پرہی  قرآن پاک پر اعراب لگانے چاہیں کیونکہ غیر مانوس اور اجنبی انداز سے لوگ درست قرآن پڑھنے سے محروم ہو جائیں گے-

جو لوگ حرمین طیبین گئے ہیں،انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ برصغیر پاک وہند کے لوگ مسجد حرام اور مسجد نبوی شریف ’’على صاحبہا الصلاۃ والتسلیم‘‘ میں نیلی جلد والے قرآن پاک کی تلاش میں رہتے ہیں کیونکہ سبز جلد والے قرآن پاک  میں عربی انداز میں اعراب لگے ہوتے ہیں اور ان کو اس قرآن پاک سے تلاوت کرنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے،جبکہ نیلی جلد والے قرآن پاک سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے پاک وہندکے حاجیوں کی آسانی کے لئے انہی کے انداز پر چھپوائے جاتے ہیں،اس لئے اس خطے کے لوگ اُن سے بآسانی تلاوت کر لیتے ہیں جب سعودی عرب نے بھی پاک  وہند کے لوگوں کی رعایت کی ہے،تو ہمارے یہاں کے ارباب اقتدار کو اپنی رعایا کی سہولت کا ان سے بھی بڑھ کراحساس ہونا چاہیے اور لوگوں کی آسانی کے لئے مروجہ انداز میں ضبط وشکل والے مصاحف کی نشر و اشاعت کی اجازت دینی چاہیے اور اس کے علاوہ مصاحف کی نشرواشاعت پر پابندی عائد کر دینی چاہیے-

قرآن پاک میں آیات کے درمیان وقف اور وصل کی علامات بھی لگائی جاتی ہیں،مصحف عثمانی اس سے بھی خالی تھا کیونکہ عربی زبان سے واقف شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ کلام کی انتہا کہاں ہو رہی ہے کہ وہاں رک جائیں اور کس مقام پرکلام ابھی جاری ہے  تاکہ وہاں نہ رکیں-غیر عربی اقوام کی آسانی کے لئے قرآن پاک کی آیات کے درمیان وقف و وصل کی علامات علماء کے اتفاق اور اجتہاد سے لگائی گئی ہیں-بعض جگہ پر وقف اور وصل کے اعتبار سے علماء میں اختلاف بھی ہو جاتا ہے،چنانچہ  برصغر پاک و ہند اور عالم عرب میں رائج مصاحف کے مابین ان علامتوں میں اختلاف  کایہی سبب  ہے-ہماری تجویز ہے  کہ حکومتی سطح پر  اس بارے میں علمِ قرأت کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے،جو پاک و ہند میں چھپنے والے قرآن پاک میں تحریر کردہ وصل اور وقف کی علامات پر نظر ثانی کریں اور تمام مصاحف میں ایک ہی طرح کی علامات تحریر کی جائیں تاکہ عوام صحیح طور پر قرآن پاک پڑھ سکیں -

تحقیق کا ماحاصل:

خلاصہ کلام یہ ہے کہ برصغیر پاک وہند میں مروج رسم اور ضبط والے قرآن پاک بالکل درست ہیں-سعودی عرب نے’’مجمع الفہد لطباعۃ المصحف الشریف‘‘کے لئے اپنے ثقہ علماء اور مستند قراء کرام کا باقاعدہ ایک بورڈ قائم کیا اور ان کی نگرانی میں برصغیر پاک و ہند ،بنگلہ دیش ،ملحق ممالک اور اکثر غیر عربی ممالک کے لئے ان خطوں میں جاری شِعارکے مطابق قرآن کریم طبع کیے،حجاج،مُعتَمرین میں تقسیم کیے اور آج بھی حرمین طیبین میں ان کی تلاوت کے لئے دستیاب ہیں،لہذا اسی انداز ہی میں قرآن پاک کی نشرواشاعت  کومملکت پاکستان قانونی قرار دے- حکومتِ اِسلامی جمہوریّہ پاکستان پر لازم ہے کہ قرآن کی خدمت کے نام پر کوئی نیا فتنہ کھڑا نہ ہونے دے ، بلکہ قرآن کےرسم الخط اور طباعت کے حوالے سےصدیوں سے رائج،نافذ العمل اور قبول عام شِعار کواختیار کرے-

واللہ تعالی اعلم-                                       ٭٭٭


[1](القیامۃ:۱۶-۱۹)

[2](التوبہ:۱۲۸)

[3](صحيح البخاري،ج:۶،ص:۷۱،دار طوق النجاة)

[4](صحيح بخاری،باب:جمع القرآن،ج:۶ص:۱۸۳، ۱۸۴)

[5](الحجر:۹)

[6](المحکم فی نقط المصاحف،ص:۱۱،دار الفكر)

[7](مناهل العرفان فی علوم القرآن، ج:۱، ص:۳۷۹)

[8](البقرۃ:۱۹۱)

[9]( الجامع الصغير،حديث:۸۴۵۵)

[10](صحیح بخاری،ج:۱،ص:۲۵)

[11](صحیح مسلم،ج:۲،ص:۹۶۸،دار إحياء التراث)

[12]( فتاوی رضویہ،ج:۴،ص: ۵۲۸)

ہندو پاک میں قرآن کریم کی کتابت  جو بطور رسم ِعثمانی متعارف ہے،اس کا مرکز و محور  اِس فن کے امام ابو عمروالدانی(﷫)(م: ۴۴۴ھ) کی نصوص و ترجیحات ہیں،جبکہ عرب دنیا میں متعارف رسم الخط  ان کے شاگرد امام ابوداؤد بن نجاح (﷫)( م: ۴۹۶ ھ) کی ترجیحات کے مطابق ہے-جبکہ نُقَط،وقف اور اعراب کے لیے وضع کردہ علامات اجتہادی ہیں،جن میں عرب و عجم کے علماء نے اپنی علاقائی ضروریات کو پیش نظر رکھا اور تا حال اسی پر عمل ہورہا ہے -مگر اب ایک مخصوص  طبقے نے آواز اٹھائی ہےکہ اس کو بدل کر عربوں میں رائج رسم و ضبط کو ہند و پاک میں بھی رائج کرنا چاہیےجس سے چند سوالات وقوع پذیر ہوتے ہیں:

1)       عام طور پر شائع ہونے والا رسم وضبط (مثلاً: تاج کمپنی والا) جو ہندو پاک میں رائج ومتعارف ہے، وہ صحیح ہے یا غلط ؟

2)       کیا ہندو پاک میں عرب ممالک کے (علامات واعراب)کو رائج کرنا ضروری ہے ؟

3)       ایسی تبدیلی کیا  امت میں ایک نئے اختلاف کی بنیاد بن سکتی ہے یا نہیں ؟

ہم نے اس مقالہ میں انہیں سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے-

جمعِ قرآن کی ابتداء:

رسول اللہ(ﷺ)پر اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کو تئیس (۲۳)سال کے عرصے میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا -

رسول اللہ (ﷺ)پر جو بھی وحی نازل ہوتی،آپ(ﷺ)صحابہ کرام (﷢)کو اس کی تعلیم فرمایا کرتے اورجو صحابہ کرام لکھنا (﷢) جانتے تھے، ان کے ذریعے اس وحی ِالہی کو  تحریر  ی صورت میں بھی محفوظ کر لیا جاتا تھااور یہ سب کام حکم خداوندی کے مطابق انجام پاتاتھا-

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:

’’لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖo أِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰ نَہٗo فَاِذَا قَرَاْنٰـہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗo ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ‘‘[1]

 

 

’’(اے حبیب(ﷺ)آپ (قرآن کو یاد کرنے کی) جلدی میں (نزولِ وحی کے ساتھ) اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں-بےشک اسے (آپ(ﷺ) کے سینہ میں) جمع کرنا اور اسے (آپ کی زبان سے) پڑھانا ہمارا ذِمّہ ہے-پھر جب ہم اسے (زبانِ جبریل سے) پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی پیروی کیا کریں-پھر بے شک اس (کے معانی) کا کھول کر بیان کرنا ہمارا ہی ذِمّہ ہے‘‘-

صحابہ کرام  (﷢) نے حفظ اور تحریر دونوں ذرائع سے قرآنِ کریم کو رسول اللہ (ﷺ)سے حاصل کیا-

رسول اللہ(ﷺ)کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعدجب جنگ یمامہ میں کئی حفاظِ صحابہ کرام شہید ہو گئے تو حضرت عمر فاروق (﷜) کے مشورے پر خلیفہ اول حضرت ابوبکر(﷜) نےجمعِ قرآن  کے لئے حضرت زید بن ثابت (﷜)  کی سربراہی میں اکابر اور جلیل القدر صحابہ کرام (﷢)کی ایک مجلس بنائی،جس نے کڑی شرائط کے تحت جمعِ قرآن کا فريضہ انجام دیا -اس مرتّب و مدوّن  مصحف مقدس کو ’’مصحف ِ صدیقی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کی اساس اس عہد کے قُرَّاءِ قرآن کی یاد داشت اور صحابہ کرام(﷢) کے پا س متفرق طور پر مکتوب آیا ت وسُوَر ِ قرآنی تھیں-حضرت ابوبکر(﷜) کے جمع کردہ قرآنِ کریم کی صحت پر تمام صحابہ کرام  (﷢)و امت مسلمہ کا اجماع واتفاق ہے-

’’ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيَّ ()-وَكَانَ مِمَّنْ يَكْتُبُ الوَحْيَ - قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَك

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں