اسمائےقرآن

اسمائےقرآن

ہر وہ نام اور صفت جو قرآن مجید نے اپنے لئے استعمال کی ہے،اس کے کچھ انسانی اور کچھ ربانی مضمرات ہیں اور ان معانی میں بے انتہاء وسعت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر نام میں پائی جاتی ہے-مندرجہ ذیل سطور میں ہم قرآن مجید کے چند اسماء کا ذکر کریں گے اور مختصراً یہ بتائیں گے کہ مسلمان قارئین کے لیے ان اسماء میں کیا کچھ  مضمر ہے-

حضرت حسن(رضی اللہ عنہ) کا جو قول ہم نے ابھی نقل کیا،اس میں قرآن مجید کا دوسرا مشہور نام مذکور ہوا ہے،’’الفرقان‘‘-اس اصطلاح کا بنیادی مفہوم ہے:’’الگ کرنا،جدا کرنا، فرق کرنا‘‘-بہت سے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس نام سے قرآن مجید کے دوسرے نام، یعنی القرآن کی تکمیل ہوتی ہے-’’قرآن‘‘ کا اگرمطلب ہے،’’وہ جو،  ہر حکمت  و دانائی کو یکجا کرتا ہے‘‘ تو فرقان کے معنی ہیں ’’وہ جو حق کو باطل سے جدا کرتا ہے اور حکمت و دانائی کو پرکھنے کی کسوٹی فراہم کرتا ہے‘‘-قرآن مجید نے فرقان کا لفظ تورات کے لئے بھی استعمال کیا ہے:

’’وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی وَ ہٰـرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَضِیَآئً وَّذِکْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘[1]

’’اور بے شک ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو (حق و باطل میں) فرق کرنے والی اور (سراپا) روشنی اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت (پر مبنی کتاب تورات) عطا فرمائی‘‘-

’’تَبٰـرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا‘‘[2]

’’(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈر سنانے والا ہو جائے‘‘-

قرآن اپنے آپ کو صرف ’’الکتاب‘‘کے نام سے  بھی یاد کرتا ہے-جیسا کہ ہم نے دیکھا یہ اصطلاح قرآن نے صحائف سماوی کے لئے بالعموم اور تورات و انجیل کے لئے بالخصوص استعمال کی ہے-واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس لفظ کو دو سو (۲۰۰)سے زیادہ مقامات پر استعمال  کیا ہے اور ان سب آیات میں یہ لفظ وحی ’’revelation ‘‘کے لئےایک عنوان کے طور پر برتا گیا ہے-خود ’’وحی‘‘ اور ’’تنزیل‘‘(اتارنا) کے الفاظ کہیں کم استعمال ہوئے ہیں:

’’ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لَارَیْبَ فِیْہِج ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘[3]

’’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے‘‘-

’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِااللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ‘‘[4]

’’اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول (ﷺ) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (ﷺ) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جواس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی‘‘-

ان دو (۲)اسماء کے علاوہ قرآن مجید اپنے لئے جو اسماء اور صفات استعمال کرتا ہے، ان کو دو(۲) دستہ کیا جاسکتا ہے-ایک وہ جو علم،حکمت اور حق و باطل کے مابین امتیاز کی اس قوت پر زور دیتے ہیں جو قرآن  فراہم کرتا ہے اور دوسرے وہ اسماء جو یہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب کیوں نازل کی-اس سے ان کی غرض کیا تھی،یعنی اس کا کرم،اس کی رحمت-پہلی قسم کے اسماء یہ ہیں:

v     الہدی

v     العدل

v     البیان

v     تذکرہ

v     الحق

v     النور

v     التبیین

v     ذکر

v     الحکمت

v     البرہان

v     ذکریٰ

 

دوسرے اسماء میں شامل ہیں:

v     الرحمت

v     کریم

v     الشفاء

v     مبارک

ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ ہدایت کا تصور مسلمانوں کے تصورِ نبوت کو سمجھنے کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے-یہاں ایک بات کا اور اضافہ کردیں تاکہ سورۃ فاتحہ جو سارے پیامِ قرآنی کو اپنی سات(۷) مختصر آیات   میں سمیٹے ہوئے ہے، ایک دعا کے گرد  گھومتی ہے اور اس دعا کا محور ہے ہدایتِ خدا وندی:

’’اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘[5]

’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘-

اگر اللہ تعالیٰ اس دعائے خاص کو قبول کرلے تو پھر انسان کو کچھ اور نہیں چاہیے یا یو ں کہیے کہ باقی سب کچھ خود سے ہوجائے گا-

قرآن کا نام الحق بھی ہے اس پر ہم بطوراسمِ خداوندی کے گفتگو کرچکے ہیں-

’’اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ بِالْحَقِّ بَشِیْراً وَّنَذِیْراً ‘‘[6]

’’اے محبوبِ مکرّم(ﷺ)!)بے شک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے ‘‘-

’’یٰـٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ ‘‘[7]

’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس یہ رسول (ﷺ) تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تشریف لایا ہے‘‘-

اللہ تعالیٰ الحق ہے-قرآن حق بھی ہے اور دلیلِ حق بھی-اس طرح قرآن مجید حکمت بھی ہے-حکمت کی عام طور  پرتعریف یوں کی جاتی ہے:

’’حق کی شناخت کرنا اور عملی صورتِ حال پر اس کا اطلاق کرنا‘‘-

دانا  اور حکیم وہ ہے جو حق کو جانے اور صحیح انداز میں اسے عمل میں لائے-قرآن حق کو جانتا ہے، بلکہ یوں کہیے کہ قرآن خود الحق ہے-پھر اس کو عمل میں لانے کے لئے قرآن مجید نے اسے بولے ہوئے لفظ کی صورت انسانوں تک پہنچایا-انسان اس کی حکمت کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ خود کو الحق کی مرضی کے مطابق ڈھال سکے،اس سے سازگاری اور ہم آہنگی حاصل کر سکے-

’’وَ اَنْزَلَ اللہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ‘‘[8]

’’اور (اللہ نے)حکمت نازل فرمائی ہے اور اس(اللہ) نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے‘‘-

’’ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ‘‘[9]

’’یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں‘‘-

چونکہ قرآن مجید حکمت بھی عطا کرتا ہے اور قوتِ امتیاز بھی اس لئے یہ اشیاء کے لئے حَکَم بھی بن جاتا ہے-فیصلہ کرنے اور حکم لگانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ علم کا کسی خاص صورت حال پر اطلاق کرکے نتیجہ مرتب کرنا، حق کو باطل سے الگ کردینا اور معاملے کی صحیح صورت کو واشگاف کردینا-اسلام کے تصورِ عدل کا حکمت سے گہرا تعلق ہے، بلکہ دونوں الفاظ ایک ہی بنیادی سہ حرفی مادے سے نکلے ہیں-ان کے بنیادی معنی ایک ہیں:

’’وَ کَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰـہُ حُکْمًا عَرَبِیًّا ‘‘[10]

’’اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو حکم بنا کر عربی زبان میں اتارا ہے‘‘-

ہم عرض کرچکے ہیں کہ ’’توحید‘‘کی ماہیت کو جاننے کے لئے  نور کا تصور کس قدر اہم ہے-نوروہ شے ہے جو پوشیدہ کو عیاں اور چھپے ہوئے کو آشکار کرتی ہے،اسی لئے قرآن مجید نور ہے کہ اس سے وہ خدائی حکمت آشکار ہو جاتی ہے جو عالمِ مخلوقات میں مخفی ہے اور غفلت کے سبب انسان کی آنکھ اور اس کے فہم سے اوجھل رہتی ہے-

’’فَاٰمِنُوْا بِااللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِیْٓ اَنْزَلْنَا‘‘[11]

’’پس تم اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ) پر اور اُس نور پر ایمان لاؤ جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ‘‘-

نور سے ہر شے صاف اور واضح ہوجاتی ہے اور جو فیصلہ بھی ہوتا ہے،وضاحت سے ہوتا ہے،ابہام سے پاک ہوتا ہے-چنانچہ قرآن نے اپنے آپ کو ’’برہان‘‘(دلیل)، ’’بیان‘‘(Clear explication)اور ’’التبیین‘‘(elucidation) کے طور پر پیش کیا:

’’یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْہَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا‘‘[12]

’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذاتِ محمدی (ﷺ)کی صورت میں ذاتِ حق جل مجدہٗ کی سب سے زیادہ مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساتھ قرآن کی صورت میں) واضح اور روشن نُور اتار دیا ہے‘‘-

’’ وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ‘‘[13]

’’اور ہم نے آپ(ﷺ) پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے‘‘-

’’ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّ مَوْعِظَۃٌ  لِّلْمُتَّقِیْنَo

’’یہ قرآن لوگوں کے لیے واضح بیان ہے اور ہدایت ہے اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت ہے‘‘-

ہدایت دینے کی صفت کا صاف  اور صریح تعلق حق و باطل میں امتیاز اور راہِ راست کی جانب رہنمائی سے تو ہے ہی، اس میں ایک تصور اور بھی مضمر ہے-یہ صفت اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ ہدایت دینے والا اس کا بھلا چاہتا ہے،جسے ہدایت دی جا رہی ہے اور اس طرح اسے ہدایت یافتگان کی بہبود عزیز ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ کے اسمائے رحمت و جمال میں سے ایک نام ’’الہادی‘‘ہے-اب ہم آتے ہیں قرآن کے ان ناموں کی طرف جو دوسرے دستے میں شامل ہیں، وہ جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید اور دوسری الہامی کتابوں کو نازل کرنے سے اللہ تعالیٰ کی غرض کیا تھی:

’’وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتٰبُ مُوسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَۃً ‘‘[14]

’’اور اس (قرآن) سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب (تورات) پیشوا اور رحمت تھی‘‘-

’’تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ‘‘[15]

’’یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں‘‘-

’’ہُدًی وَّرَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَ‘‘[16]

      جو نیکوکاروں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے‘‘-

’’ھٰذَا بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ‘‘[17]

’’یہ (قرآن) تمہارے رب کی طرف سے دلائل قطعیہ (کا مجموعہ) ہے اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں ‘‘-

قرآن ایک رحمت ہے، کیونکہ یہ انسان کو اس کی اپنی تکمیل اور فلاح و بہبود کی جانب ہدایت کرتا ہے، چنانچہ اس سے انسان کی سرشت اور فطرت میں پائی جانے والی ہر بیماری کو اس کا مداوا اور ہر زخم کو اس کا مرہم مل جاتا ہے اور وہ پوری صحت سے توحید پر کاربند ہوسکتا ہے:

’’یٰٓـایُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْن‘‘[18]

’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں اور ہدایت اور اہلِ ایمان کے لیے رحمت ‘‘-

’’وَنُـنَـزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآئٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘[19]

’’اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرما رہے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفاء ہے‘‘-

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن ہر اچھی چیز  کا مظہر ہے، کیونکہ اگر ہدایت نہ ہوتو نوعِ انسانی برباد ہوجائے-قرآن ان کو ان کے اپنے نفوس کے اندر مال، شفاء،سالمیت اور فلاح و بہبود فراہم کرتا ہے، اسی لیے اسے ’’مبارک‘‘ کا نام دیا گیا ہے-اس لفظ میں یہ معنی شامل ہیں کہ یہ کتاب ہر برکت، ہر خیر اور ہر مطلوبہ شے کا مأخذ ہے-

’’وَھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰـہُ مُبٰـرَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ‘‘[20]

’’اور یہ (قرآن) برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے سو (اب) تم اس کی پیروی کیا کرو اور (اﷲ سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘-

مسلمان جب بات کرتے ہیں تو قرآن مجید کو صرف قرآن کے نام سے نہیں پکارتے-عام طور پر قرآن کے لفظ کے ساتھ کوئی نہ  کوئی صفاتی نام شامل کیا جاتا ہے-یہ  کلام اللہ کے احترام کا تقاضا ہے-بعض انگریزی گو مسلمانوں نے قرآن  کو’’قرآنِ مقدس‘‘(The Holy Quran)کہنا شروع کردیا ہے، جیسا کہ انجیل کو کتابِ مقدس کہا جاتا ہے،لیکن قرآن میں یا کسی بھی اسلامی زبان میں ’’Holy‘‘کے لفظ کے کسی بھی لسانی مترادف کو قرآن کے نام کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا-سب سے زیادہ جو اسمِ صفت قرآن کے نام کے ساتھ استعمال ہوتا ہے، وہ ہے ’’کریم‘‘ اور اس کی بنیاد اس آیت پر ہے جس میں یوں آیا ہے:

’’اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ‘‘[21]

’’بے شک یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے (جو بڑی عظمت والے رسول (ﷺ)پر اتر رہا ہے)‘‘-

الحق اور  النور کی طرح الکریم بھی اللہ کا ایک نام ہے اور یہ اس کے اسمائے جمال اور اسمائے رحمت میں سے ہے-مزید برآں اگر زمانی اعتبار سے دیکھیے تو شاید صفاتِ تخلیق کے بعد یہ پہلی صفت ہے جو قرآن میں نازل ہوئی-اسی سے پتہ چلتا ہے کہ  انسان کے لئے ہدایت فراہم کرنے کا خدائی سبب کیا ہے-جیسا کہ پہلے ہم نے عرض کیا کہ عام طور پر یہی کہا گیا ہے کہ قرآن مجید کی سب سے پہلے نازل ہونے والی آیات مندرجہ ذیل ہیں:

’’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍoاِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُo الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ‘‘[22]

’’(اے حبیب(ﷺ)!)اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا-اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا-پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے-جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا-جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘-

اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی صرف انسان کو علم عطا کرنے اور اسے ہدایت دینے میں ہی ظاہر نہیں ہوتی، بلکہ ایک گہرے اور بنیادی مفہوم میں تخلیق خود اللہ تعالیٰ کے جود  و  کرم کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ مخلوقات اپنی ہستی کے لئے کوئی حق جتلانے کی حیثیت نہیں رکھتی‘‘-

٭٭٭

(اقتباس از: اسلام اپنی نگاہ میں /مصنف: ولیئم سی چیٹک، ڈاکٹر ساچیکو مراتا | مترجم: محمد سہیل عمر/ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان)


[1](الانبیاء:۴۸)

[2](الفرقان:۱)

[3](البقرۃ:۲)

[4](النساء:۱۳۶)

[5](الفاتحہ:۵)

[6](البقرۃ:۱۱۹)

[7](النساء:۱۷۰)

[8](النساء:۱۱۳)

[9](الیونس:۱)

[10](الرعد:۳۷)

[11](التغابن:۸)

[12](النساء:۱۷۴)

[13](النحل:۸۹)

[14](الاحقاف:۱۲)

[15](القمان:۲)

[16](القمان:۳)

[17](الاعراف:۲۰۳)

[18](الیونس:۵۷)

[19](بنی اسرائیل/الاسرا:۸۲)

[20](الانعام:۱۵۵)

[21](الواقعہ:۷۷)

[22](العلق:۱-۵)

ہر وہ نام اور صفت جو قرآن مجید نے اپنے لئے استعمال کی ہے،اس کے کچھ انسانی اور کچھ ربانی مضمرات ہیں اور ان معانی میں بے انتہاء وسعت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر نام میں پائی جاتی ہے-مندرجہ ذیل سطور میں ہم قرآن مجید کے چند اسماء کا ذکر کریں گے اور مختصراً یہ بتائیں گے کہ مسلمان قارئین کے لیے ان اسماء میں کیا کچھ  مضمر ہے-

حضرت حسن(﷜) کا جو قول ہم نے ابھی نقل کیا،اس میں قرآن مجید کا دوسرا مشہور نام مذکور ہوا ہے،’’الفرقان‘‘-اس اصطلاح کا بنیادی مفہوم ہے:’’الگ کرنا،جدا کرنا، فرق کرنا‘‘-بہت سے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس نام سے قرآن مجید کے دوسرے نام، یعنی القرآن کی تکمیل ہوتی ہے-’’قرآن‘‘ کا اگرمطلب ہے،’’وہ جو،  ہر حکمت  و دانائی کو یکجا کرتا ہے‘‘ تو فرقان کے معنی ہیں ’’وہ جو حق کو باطل سے جدا کرتا ہے اور حکمت و دانائی کو پرکھنے کی کسوٹی فراہم کرتا ہے‘‘-قرآن مجید نے فرقان کا لفظ تورات کے لئے بھی استعمال کیا ہے:

’’وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی وَ ہٰـرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَضِیَآئً وَّذِکْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘[1]

’’اور بے شک ہم نے موسیٰ اور ہارون (﷩) کو (حق و باطل میں) فرق کرنے والی اور (سراپا) روشنی اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت (پر مبنی کتاب تورات) عطا فرمائی‘‘-

’’تَبٰـرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا‘‘[2]

’’(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈر سنانے والا ہو جائے‘‘-

قرآن اپنے آپ کو صرف ’’الکتاب‘‘کے نام سے  بھی یاد کرتا ہے-جیسا کہ ہم نے دیکھا یہ اصطلاح قرآن نے صحائف سماوی کے لئے بالعموم اور تورات و انجیل کے لئے بالخصوص استعمال کی ہے-واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس لفظ کو دو سو (۲۰۰)سے زیادہ مقامات پر استعمال  کیا ہے اور ان سب آیات میں یہ لفظ وحی ’’revelation ‘‘کے لئےایک عنوان کے طور پر برتا گیا ہے-خود ’’وحی‘‘ اور ’’تنزیل‘‘(اتارنا) کے الفاظ کہیں کم استعمال ہوئے ہیں:

’’ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لَارَیْبَ فِیْہِج ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘[3]

’’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے‘‘-

’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِااللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ‘‘[4]

’’اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول (ﷺ) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (ﷺ) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جواس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی‘‘-

ان دو (۲)اسماء کے علاوہ قرآن مجید اپنے لئے جو اسماء اور صفات استعمال کرتا ہے، ان کو دو(۲) دستہ کیا جاسکتا ہے-ایک وہ جو علم،حکمت اور حق و باطل کے مابین امتیاز کی اس قوت پر زور دیتے ہیں جو قرآن  فراہم کرتا ہے اور دوسرے وہ اسماء جو یہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب کیوں نازل کی-اس سے ان کی غرض کیا تھی،یعنی اس کا کرم،اس کی رحمت-پہلی قسم کے اسماء یہ ہیں:

v     الہدی

v     العدل

v     البیان

v     تذکرہ

 

v     الحق

v     النور

v     التبیین

v     ذکر

v     الحکمت

v     البرہان

v     ذکریٰ

 

دوسرے اسماء میں شامل ہیں:

v     الرحمت

v     کریم

v     الشفاء

v     مبارک

ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ ہدایت کا تصور مسلمانوں کے تصورِ نبوت کو سمجھنے کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے-یہاں ایک بات کا اور اضافہ کردیں تاکہ سورۃ فاتحہ جو سارے پیامِ قرآنی کو اپنی سات(۷) مختصر آیات   میں سمیٹے ہوئے ہے، ایک دعا کے گرد  گھومتی ہے اور اس دعا کا محور ہے ہدایتِ خدا وندی:

’’اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘[5]

’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘-

اگر اللہ تعالیٰ اس دعائے خاص کو قبول کرلے تو پھر انسان کو کچھ اور نہیں چاہیے یا یو ں کہیے کہ باقی سب کچھ خود سے ہوجائے گا-

قرآن کا نام الحق بھی ہے اس پر ہم بطوراسمِ خداوندی کے گفتگو کرچکے ہیں-

’’اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ بِالْحَقِّ بَشِیْراً وَّنَذِیْراً ‘‘[6]

’’اے محبوبِ مکرّم(ﷺ)!)بے شک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے ‘‘-

’’یٰـٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ ‘‘[7]

’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس یہ رسول (ﷺ) تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تشریف لایا ہے‘‘-

اللہ تعالیٰ الحق ہے-قرآن حق بھی ہے اور دلیلِ حق بھی-اس طرح قرآن مجید حکمت بھی ہے-حکمت کی عام طور  پرتعریف یوں کی جاتی ہے:

’’حق کی شناخت کرنا اور عملی صورتِ حال پر اس کا اطلاق کرنا‘‘-

دانا  اور حکیم وہ ہے جو حق کو جانے اور صحیح انداز میں اسے عمل میں لائے-قرآن حق کو جانتا ہے، بلکہ یوں کہیے کہ قرآن خود الحق ہے-پھر اس کو عمل میں لانے کے لئے قرآن مجید نے اسے بولے ہوئے لفظ کی صورت انسانوں تک پہنچایا-انسان اس کی حکمت کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ خود کو الحق کی مرضی کے مطابق ڈھال سکے،اس سے سازگاری اور ہم آہنگی حاصل کر سکے-

’’وَ اَنْزَلَ اللہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ‘‘[8]

’’اور (اللہ نے)حکمت نازل فرمائی ہے اور اس(اللہ) نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے‘‘-

’’ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ‘‘[9]

’’یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں‘‘-

چونکہ قرآن مجید حکمت بھی عطا کرتا ہے اور قوتِ امتیاز بھی اس لئے یہ اشیاء کے لئے حَکَم بھی بن جاتا ہے-فیصلہ کرنے اور حکم لگانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ علم کا کسی خاص صورت حال پر اطلاق کرکے نتیجہ مرتب کرنا، حق کو باطل سے الگ کردینا اور معاملے کی صحیح صورت کو واشگاف کردینا-اسلام کے تصورِ عدل کا حکمت سے گہرا تعلق ہے، بلکہ دونوں الفاظ ایک ہی بنیادی سہ حرفی مادے سے نکلے ہیں-ان کے بنیادی معنی ایک ہیں:

’’وَ کَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰـہُ حُکْمًا عَرَبِیًّا ‘‘[10]

’’اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو حکم بنا کر عربی زبان میں اتارا ہے‘‘-

ہم عرض کرچکے ہیں کہ ’’توحید‘‘کی ماہیت کو جاننے کے لئے  نور کا تصور کس قدر اہم ہے-نوروہ شے ہے جو پوشیدہ کو عیاں اور چھپے ہوئے کو آشکار کرتی ہے،اسی لئے قرآن مجید نور ہے کہ اس سے وہ خدائی حکمت آشکار ہو جاتی ہے جو عالمِ مخلوقات میں مخفی ہے اور غفلت کے سبب انسان کی آنکھ اور اس کے فہم سے اوجھل رہتی ہے-

’’فَاٰمِنُوْا بِااللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِیْٓ اَنْزَلْنَا‘‘[11]

’’پس تم اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ) پر اور اُس نور پر ایمان لاؤ جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ‘‘-

نور سے ہر شے صاف اور واضح ہوجاتی ہے اور جو فیصلہ بھی ہوتا ہے،وضاحت سے ہوتا ہے،ابہام سے پاک ہوتا ہے-چنانچہ قرآن نے اپنے آپ کو ’’برہان‘‘(دلیل)، ’’بیان‘‘(Clear explication)اور ’’التبیین‘‘(elucidation) کے طور پر پیش کیا:

’’یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْہَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا‘‘[12]

’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذاتِ محمدی (ﷺ)کی صورت میں ذاتِ حق جل مجدہٗ کی سب سے زیادہ مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساتھ قرآن کی صورت میں) واضح اور روشن نُور اتار دیا ہے‘‘-

’’ وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ‘‘[13]

’’اور ہم نے آپ(ﷺ) پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے‘‘-

’’ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّ مَوْعِظَۃٌ  لِّلْمُتَّقِیْنَo

’’یہ قرآن لوگوں کے لیے واضح بیان ہے اور ہدایت ہے اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت ہے‘‘-

ہدایت دینے کی صفت کا صاف  اور صریح تعلق حق و باطل میں امتیاز اور راہِ راست کی جانب رہنمائی سے تو ہے ہی، اس میں ایک تصور اور بھی مضمر ہے-یہ صفت اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ ہدایت دینے والا اس کا بھلا چاہتا ہے،جسے ہدایت دی جا رہی ہے اور اس طرح اسے ہدایت یافتگان کی بہبود عزیز ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ کے اسمائے رحمت و جمال میں سے ایک نام ’’الہادی‘‘ہے-اب ہم آتے ہیں قرآن کے ان ناموں کی طرف جو دوسرے دستے میں شامل ہیں، وہ جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید اور دوسری الہامی کتابوں کو نازل کرنے سے اللہ تعالیٰ کی غرض کیا تھی:

’’وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتٰبُ مُوسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَۃً ‘‘[14]

’’اور اس (قرآن) سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب (تورات) پیشوا اور رحمت تھی‘‘-

’’تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ‘‘[15]

’’یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں‘‘-

’’ہُدًی وَّرَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَ‘‘[16]

      جو نیکوکاروں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے‘‘-

’’ھٰذَا بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ‘‘[17]

’’یہ (قرآن) تمہارے رب کی طرف سے دلائل قطعیہ (کا مجموعہ) ہے اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں ‘‘-

قرآن ایک رحمت ہے، کیونکہ یہ انسان کو اس کی اپنی تکمیل اور فلاح و بہبود کی جانب ہدایت کرتا ہے، چنانچہ اس سے انسان کی سرشت اور فطرت میں پائی جانے والی ہر بیماری کو اس کا مداوا اور ہر زخم کو اس کا مرہم مل جاتا ہے اور وہ پوری صحت سے توحید پر کاربند ہوسکتا ہے:

’’یٰٓـایُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْن‘‘[18]

’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں اور ہدایت اور اہلِ ایمان کے لیے رحمت ‘‘-

’’وَنُـنَـزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآئٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘[19]

’’اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرما رہے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفاء ہے‘‘-

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن ہر اچھی چیز  کا مظہر ہے، کیونکہ اگر ہدایت نہ ہوتو نوعِ انسانی برباد ہوجائے-قرآن ان کو ان کے اپنے نفوس کے اندر مال، شفاء،سالمیت اور فلاح و بہبود فراہم کرتا ہے، اسی لیے اسے ’’مبارک‘‘ کا نام دیا گیا ہے-اس لفظ میں یہ معنی شامل ہیں کہ یہ کتاب ہر برکت، ہر خیر اور ہر مطلوبہ شے کا مأخذ ہے-

’’وَھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰـہُ مُبٰـرَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ‘‘[20]

’’اور یہ (قرآن) برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے سو (اب) تم اس کی پیروی کیا کرو اور (اﷲ سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘-

مسلمان جب بات کرتے ہیں تو قرآن مجید کو صرف قرآن کے نام سے نہیں پکارتے-عام طور پر قرآن کے لفظ کے ساتھ کوئی نہ  کوئی صفاتی نام شامل کیا جاتا ہے-یہ  کلام اللہ کے احترام کا تقاضا ہے-بعض انگریزی گو مسلمانوں نے قرآن  کو’’قرآنِ مقدس‘‘(The Holy Quran)کہنا شروع کردیا ہے، جیسا کہ انجیل کو کتابِ مقدس کہا جاتا ہے،لیکن قرآن میں یا کسی بھی اسلامی زبان میں ’’Holy‘‘کے لفظ کے کسی بھی لسانی مترادف کو قرآن کے نام کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا-سب سے زیادہ جو اسمِ صفت قرآن کے نام کے ساتھ استعمال ہوتا ہے، وہ ہے ’’کریم‘‘ اور اس کی بنیاد اس آیت پر ہے جس میں یوں آیا ہے:

’’اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ‘‘[21]

’’بے شک یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے (جو بڑی عظمت والے رسول (ﷺ)پر اتر رہا ہے)‘‘-

الحق اور  النور کی طرح الکریم بھی اللہ کا ایک نام ہے اور یہ اس کے اسمائے جمال اور اسمائے رحمت میں سے ہے-مزید برآں اگر زمانی اعتبار سے دیکھیے تو شاید صفاتِ تخلیق کے بعد یہ پہلی صفت ہے جو قرآن میں نازل ہوئی-اسی سے پتہ چلتا ہے کہ  انسان کے لئے ہدایت فراہم کرنے کا خدائی سبب کیا ہے-جیسا کہ پہلے ہم نے عرض کیا کہ عام طور پر یہی کہا گیا ہے کہ قرآن مجید کی سب سے پہلے نازل ہونے والی آیات مندرجہ ذیل ہیں:

’’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍoاِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُo الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ‘‘[22]

’’(اے حبیب(ﷺ)!)اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا-اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا-پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے-جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا-جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘-

اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی صرف انسان کو علم عطا کرنے اور اسے ہدایت دینے میں ہی ظاہر نہیں ہوتی، بلکہ ایک گہرے اور بنیادی مفہوم میں تخلیق خود اللہ تعالیٰ کے جود  و  کرم کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ مخلوقات اپنی ہستی کے لئے کوئی حق جتلانے کی حیثیت نہیں رکھتی‘‘-

٭٭٭

(اقتباس از: اسلام اپنی نگاہ میں /مصنف: ولیئم سی چیٹک، ڈاکٹر ساچیکو مراتا

 مترجم: محمد سہیل عمر/ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان)



[1](الانبیاء:۴۸)

[2](الفرقان:۱)

[3](البقرۃ:۲)

[4](النساء:۱۳۶)

[5](الفاتحہ:۵)

[6](البقرۃ:۱۱۹)

[7](النساء:۱۷۰)

[8]<

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں