قرآنی تحدّیات

قرآنی تحدّیات

قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے-کلامِ نفسی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے-قرآنِ مجید نے اپنے کلام الٰہی ہونے کے بارے میں شک کرنے والوں کو مختلف انداز سے تحدّیات کیں یعنی چیلنجز(challenges)دیے-مصحفِ مبارک کی ترتیب کے مطابق قرآن نے سورۂ بقرہ کی ابتداء ہی میں دعویٰ کیاکہ:

’’ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہ‘‘[1]                

’’(یہ )وہ (عظیم المرتبت )کتاب ہے -جس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘-

اس آیت کی تفسیر میں علامہ قاضی بیضاوی (رحمتہ اللہ علیہ) لکھتے ہیں:

’’اس کے معنی یہ ہیں:اپنے معنی پر واضح ہونے اور اپنی برہان کے غالب ہونے کے سبب قرآن کا مقام یہ ہے کہ اس میں غوروفکر کرنے کے بعد کسی بھی عقلمند انسان کے دل و دماغ میں اس بارے میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہتاکہ یہ وحیِ ربّانی ہے اوریہ کلامِ اعجاز کی اُس رفعت کو پہنچا ہوا ہے جس سے آگے کوئی اور مقام نہیں ہے-الغرض یہ باری تعالیٰ کا معجزہ ہے-اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کبھی کسی نے اس میں شک کیا ہی نہیں کیونکہ باطل پرست ہمیشہ شک کرتے رہے ہیں-یہی سبب ہے کہ ازالۂ شک کے لیے قرآنِ مجید نے اُن کو چیلنج کیا اور انہیں وہ طریقہ بتایا کہ اس پر غور کر کے ہر قسم کے شک کا ازالہ ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر عقلی،علمی اور فکری صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنے کی انتہائی کوشش کر کے دیکھ لیں-جب وہ اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز آجائیں گےتو اُن پر یہ بات آشکار ہوجائے گی کہ اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے (ملخصاً)‘‘-

قرآنِ مجیدکی تحدّیات یا چیلنج کئی مراحل پر مشتمل ہیں:

’’قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلیٰ أَن یَأْتُواْ بِمِثْلِ ہَـذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرا ‘‘[2]

’’(اے نبی مکرم(ﷺ)!) کَہ دیجیئے :اگر تمام انسان اور جنّ مل کر اس قرآن کی مثل لانا چاہیں تو وہ اس کی مثل نہیں لاسکیں گے-خواہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں‘‘-

ایک مرحلے پر پورے قرآن کی مثل لانے کا چیلنج دیا گیا اور جب فُصحائے عرب نے اس چیلنج کو قبول نہ کیا تو اس میں تھوڑی نرمی کی اور فرمایا:

’’ أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہِ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللہِ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن‘‘[3]

’’کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں(یعنی نبی کریم (ﷺ) نے اس قرآن کو خود گھڑ لیا ہے-آپ کہیے: پھر تم بھی اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں (بناکر) لے آؤ اور (اپنی مدد کے لیے )اللہ کے سوا جس کو بلا سکتے ہو،بلا لو-اگر تم (اپنے اس دعوے میں)سچے ہو(کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے)‘‘-

پھر اس چیلنج کا بھی فُصحائے عرب کی طرف سے کوئی جواب نہ آیاتو قرآن پاک نے مزید نرمی کی اور فرمایا:

’’وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَاء کُم مِّن دُونِ االلہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنoفَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ ‘‘[4]

’’اور اگر تمہیں اس (کتاب کے کلامِ الٰہی ہونے)میں کوئی شک ہے-جس کو ہم نے اپنے (محبوب)بندے پر نازل کیا ہےتو اس کی مانند کوئی ایک سورۃ (بناکر)لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو-سو اگر تم (یہ) نہ کرسکو اور تم ہرگز نہ کرسکو گےتو اُس آگ سے بچو!جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے جسے کافروں کے لیے تیار کیا گیا ہے‘‘-

’’قُلْ فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّثْلِہِ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللہِ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن ‘‘[5]

’’آپ(ﷺ) کَہ دیجیے:اس جیسی ایک سورۃلے آؤ اور اللہ کے سوا جسے بلا سکتے ہو بلالو اگر تم سچے ہو (کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے )‘‘-

اپنی فصاحت وبلاغت پر ناز کرنے والے فُصحائے عرب کی طرف سے اس چیلنج کا بھی کوئی جواب نہ آیا تو قرآن نے مزید نرمی برتی :

’’أَمْ یَقُولُونَ تَقَوَّلَہُ بَل لَّا یُؤْمِنُونَ o فَلْیَأْتُوا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہِ إِن کَانُوا صَادِقِیْن o‘‘[6]

’’کیا وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی طرف سے اس قرآن کو گھڑ لیا ہے،بلکہ وہ ایمان نہیں لارہے-پس اگر وہ سچے ہیں تو اس جیسی کوئی بات (یا آیت) بنا کر لے آئیں‘‘-

تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کی ان تحدّیات (چیلنج) کو کسی نے قبول نہیں کیا اور اس کے مقابل چیلنج کرنے کے لیے اپنا کلام بنا کر نہیں لاسکے کیونکہ اُن کا بغض و عداوت اور ساری ابلیسی چالیں جو عداوتِ مصطفےٰ(ﷺ)میں انہوں نے اختیار کیں سب کی سب تاریخ میں مذکور ہیں-قرآن نے اپنے بارے میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ لسانِ عربی میں ہے-عربی مبین میں ہے اور مندرجہ ذیل آیاتِ مبارکہ اس دعوے پر شاہد ہیں:

v     النحل:۱۰۳

v     الشعراء:۱۹۵

v     یوسف: ۲

v     الرعد:۳۷

v     طٰہٰ:۱۱۳

v     الزمر: ۲۸

v     حم السجدہ:۳

v     الشوریٰ:۷

v     الزخرف:۳

v     الاحقاف:۱۲

ایک مقام پر مَیں نے پڑھا تھا کہ مشرکینِ مکہ طویل مشاورت اور منصوبہ بندی کے بعد یہ چیلنج لے کر آئے کہ:قرآن کا دعویٰ ہے کہ یہ فصیح عربی میں نازل ہوا ہے اور ہم نے دیکھا کہ اس میں تین کلمات ایسے ہیں جو فصیح عربی کے معیار پر پورا نہیں اترتے اور وہ یہ ہیں:

’’(الف):سُخْرِیّاً: ’’أَہُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْْنَہُم مَّعِیْشَتَہُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضاً سُخْرِیّاً وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُون ‘‘[7]

(ب):عُجَابٌ:’’أَجَعَلَ الْآلِہَۃَ إِلٰہاً وَاحِداً إِنَّ ہَذَا لَشَیْْء ٌ عُجَابٌ‘‘[8]

(ج):کُبَّاراً:’’وَمَکَرُوا مَکْراً کُبَّاراً‘‘[9]

رسول اللہ(ﷺ)نے اُن سے فرمایا: اس خطے میں تمہارے نزدیک سب سے زیادہ فصیح وبلیغ شخص کون ہے-جسے عربی کی فصاحت و بلاغت میں حجت (Authority)تسلیم کیا جاتا ہو-انہوں نے باہمی مشاورت کے بعد کہا:’’شہر سے باہر دور ایک بستی میں ایک بزرگ شخص رہتا ہے‘‘-رسول اللہ(ﷺ)نے فرمایا: اُسے بلا لاؤ- وہ اُسے آپ کے سامنے بلا کر لے آئے-آپ نے اُس بزرگ شخص سے فرمایا: بیٹھ جاؤ- پھر فرمایا: کھڑے ہوجاؤ -آپ نے یہی بات تین بار فرمائی -اس پر اُس شخص کو غصہ آگیا اور اُس نے غصے میں آکر کہا:

اَتَتَّخِذُنِیْ سُخْرِیّاًوَاَنَا شَیْخٌ کُبَّار،اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ          

’’آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں حالانکہ میں بزرگ آدمی ہوں ،بے شک یہ بڑی عجیب بات ہے‘‘-

الغرض جن تین کلماتِ قرآنی کو قریشِ مکہ نے چیلنج کیا تھاکہ یہ عربی کے معیارِ فصاحت پر پورا نہیں اترتے-اللہ تعالیٰ نے وہی کلمات اُس شخص کی زبان پر جاری کردیے ، جو اُن کے نزدیک عربی فصاحت وبلاغت پر اتھارٹی مانا جاتا تھا،پس وہ لاجواب ہوگئے-کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن کے گھر سے قرآنِ مجید کی حقانیت کی شہادت فراہم فرمادی- ’’وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیْز‘‘قریشِ مکہ نے قرآن پر ایک شبہ یہ واردکیا :

’’وَقَالُوا أَسَاطِیْرُ الْأَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلیٰ عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَأَصِیْلا‘‘[10]

’’اور انہوں نے کہا:یہ گزشتہ لوگوں کی (افسانوی )کہانیاں ہیں جن کو اِس (رسول )نے (کسی سے )لکھوا لیا ہے - جو اس پر صبح وشام پڑھی جاتی ہیں‘‘-

اس آیت میں قرآن نے اس ممکنہ الزام کا رد کیا ہے کہ سابق الہامی کتابوں کا کوئی خزینہ یا دفینہ آپ کے ہاتھ لگ گیا ہے اور آپ اُس میں سے وقتاً فوقتاً پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں-اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیت میں اس امکان کو بھی رد کرتے ہوئے فرمایا:

’’وَمَا کُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِہٖ مِن کِتَابٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِکَ إِذاً لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ ‘‘[11]

’’اور آپ اس( نزولِ قرآن) سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے-ورنہ باطل پرست شک میں پڑ جاتے‘‘-

یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرم(ﷺ)کو اپنی حکمت کے تحت اُمّی رکھا تاکہ آپ پر یہ الزام نہ لگ سکے کہ   الہامی کتابوں کاکوئی سابق دفینہ یا خزینہ آپ(ﷺ)کے ہاتھ آگیا ہے جسے آپ وقتاً فوقتاً پڑھ کر سناتے ہیں-

نوٹ:واضح رہے کہ’’ اُمِّی ‘‘کے معنی جاہل یا اَن پڑھ کے نہیں ہیں بلکہ اس کے معنی ہیں:جس شخص نے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو-یعنی نہ وہ لکھ سکتا ہو اور نہ لکھے ہوئے کو پڑھ سکتا ہو-امام المحدثین والمفسرین علامہ غلام رسول سعیدی (رحمتہ اللہ علیہ) نے اپنی تفسیر تبیان القرآن میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ بعد میں نبی کریم (ﷺ)نے لکھا بھی ہے اور آپ لکھے ہوئے کو پڑھ بھی سکتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیے بغیر یہ ملکہ آپ کو عطا فرمایا تھا-

قرآنِ مجید نے اپنی حقانیت کی ایک دلیل یہ بھی پیش کی کہ قرآن تضادات (Contradictions)سے پاک ہے-اگر یہ کلامِ بشر ہوتا تو اس میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی تضاد مخالفین کو مل جاتا -

’’أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْرِاللہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْراً‘‘[12]

’’تو کیا وہ قرآن میں غورنہیں کرتے اگر یہ قرآن اللہ کے غیر کے پاس سے آیا ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے ‘‘-

 اس آیت پاک کامطلب یہ ہے کہ قرآن کا تضادات سے پاک ہونا اس کے کلام اللہ ہونے کی دلیل ہے-اسی لیے مفسرین کرام نے کہا: قرآن کا بعض،بعض کی تفسیر کرتا ہے اور تفسیر کا اعلیٰ درجہ بھی یہی ہے کہ خود قرآن اپنی تفسیر بیان کرے-اسی طرح قرآن پاک نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس میں باطل کی آمیزش نہیں ہوسکتی-ارشاد فرمایا:

’’لَا یَأْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ ‘‘[13]

’’اس میں باطل کہیں سے نہیں آسکتا، نہ سامنے سے نہ پیچھے سے ،یہ کتاب بہت حکمت والے حمد کیے ہوئے (اللہ ) کی طرف سے نازل شدہ ہے‘‘-

قرآنِ مجید کی اعجاز آفرینی اور بے پناہ تاثیر کو دیکھ کر مشرکینِ مکہ کو رسولِ اکرم(ﷺ)سے متنفر کرنے کے لیے قرآن کے حوالے سے طرح طرح کے حربے استعمال کر تے-کبھی کہتے :یہ جادو گر ہیں،یعنی قرآن کی سحر آفرینی پر جادو کا لیبل لگا کر لوگوں کو اس سے دور کرتے-کبھی کہتے:یہ مجنون ہیں-کبھی کہتے:یہ شاعر ہیں-کبھی کہتے:یہ کاہن ہیں-اللہ تعالیٰ نے ان تمام باطل الزامات کو مہبطِ وحیِ ربانی سیدنا محمد رسول اللہ (ﷺ) کی ذاتِ پاک سے دور فرمایا -ارشاد فرمایا:

’’کَذٰلِکَ مَا أَتَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ‘‘[14]

’’اسی طرح ان سے پہلے لوگوں کی طرف بھی جب کوئی رسول آیا-توانہوں نے (یہی)کہا:یہ جادو گر ہے یا دیوانہ ہے‘‘-

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ منکرینِ وحیِ ربّانی اورتمام کتبِ الٰہیہ کے منکرین کا وتیرہ ایک جیسا رہا ہے اور بالعموم تمام انبیائے کرام(علیہ السلام)پر ایک جیسے الزام عائد کرتے رہے ہیں-چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’فَذَکِّرْ فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّکَ بِکَاہِنٍ وَلَا مَجْنُونٍoأَمْ یَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہِ رَیْبَ الْمَنُونo‘‘[15]

’’سو آپ نصیحت کرتے رہیے کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون -یا وہ (کفار) کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں-ہم ان پر مصائبِ زمانہ (یعنی ان کی موت) کا انتظار کر رہے ہیں‘‘-

اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:

’’إِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِیْمٍo وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِیْلاً مَا تُؤْمِنُونَoوَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ قَلِیْلاً مَا تَذَکَّرُونoتَنزِیْلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِیْن ‘‘[16]

’’بے شک یہ قرآن ضرور رسولِ کریم کا قول ہے اور یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے-تم بہت کم ایمان لاتے ہو اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا قول ہےتم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے‘‘-

الغرض قرآن نے اپنی ناموس کی حفاظت کے لیے حاملِ قرآن سیدنا محمد رسول اللہ (ﷺ) پر وارد ہونے والے ہر طَعن اور ہر الزام کا رد کیا اور اس حقیقت کو نہایت مدلَّل اور مُبَرھَن کر کے پیش کیا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور آپ(ﷺ)پر مجنون، شاعر، ساحر،کاہن اور خود ساختگی (تَقَوُّلْ اور افترا)کے سب الزامات باطل اور بے اصل ہیں اور یہ سابق انبیائے کرام(علیہ السلام)کے عہد کے کفار ومشرکین کا حربہ اور چلایا ہوا کارتوس ہے-

قرآن کی ایک شانِ اعجاز یہ ہے کہ وہ سائنسی اور طبّی حقائق،جن تک انسانی ذہن کئی صدیوں کا علمی،مشاہداتی اور تجرباتی سفر طے کرنے کے بعد پہنچا-قرآن نے وہ حقیقت روزِ اوّل سے بیان کردی تھی اور جوں جوں انسان کا علمی سفر ارتقائی منزلیں طے کرتا رہے گا-قرآنی حقائق کی تصدیق ہوتی رہے گی-آج انسان نے یہ دعویٰ کیا کہ ایک ذی حیات کے خَلیے (Cell)سے دوسرا ذی حیات پیدا کیا جاسکتا ہے-قرآنِ مجید نے یہ بات صدیوں پہلے بتا دی تھی-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء ‘‘[17]

’’اے لوگو! اپنے اُس پروردگار سے ڈرتے رہا کرو جس نے تمہیں ایک جان (آدم)سے پیدا کیا اور اُسی سے اُس کا جوڑا (یعنی حوّاکو) پیدا کیااور اُن دونوں سے بہ کثرت مردوں اور عورتوں کو پھیلادیا ‘‘-

اگرچہ سنتِ الٰہیہ یہ ہے کہ جانور نَر اور مادہ، انسان مرد اور عورت کے اختلاط سے پیدا ہوتے ہیں-لیکن حضرت حوا(علیہاالسلام) کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کسی مرد کے واسطے کے بغیر اور حضرت آدم علیہ السلام کو دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کرکے بتادیا کہ اُس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہےبس یہ اُس کی سنتِ جاریہ مستمرّہ ہے-لیکن وہ خارقِ اسباب بھی اپنی قدرت کا ظہور فرماسکتا ہے اور فرماتا رہا ہے-چنانچہ حضرت حوا (علیہاالسلام)کا کسی مرد کے واسطے کے بغیر پیدا کرنا ایسا ہی خارقِ عادت فعلِ الٰہی ہے- قرآن نے اس سے بحث نہیں کی کہ حضرت حوا (علیہاالسلام)کو آدم علیہ السلام کے وجود کے کس حصے سے پیدا کیا،لہٰذا اس میں توسُّع کی گنجائش موجود ہے-

٭٭٭


[1](البقرۃ:۲)

[2](بنی اسرائیل:۸۸)

[3](ھود:۱۳)

[4](البقرۃ:۲۳،۲۴)

[5](یونس:۳۸)

[6](الطور:۳۳،۳۴)

[7](الزخرف:۳۲)

[8](ص:۵)

[9](نوح:۲۲)

[10](الفرقان:۵)

[11](العنکبوت:۴۸)

[12](النساء:۸۲)

[13](حم سجدہ:۴۲)

[14](الذاریات:۵۲)

[15](الطور:۳۲،۳۳)

[16](الحاقۃ:۴۰-۴۳)

[17](النساء:۱)

قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے-کلامِ نفسی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے-قرآنِ مجید نے اپنے کلام الٰہی ہونے کے بارے میں شک کرنے والوں کو مختلف انداز سے تحدّیات کیں یعنی چیلنجز(challenges)دیے-مصحفِ مبارک کی ترتیب کے مطابق قرآن نے سورۂ بقرہ کی ابتداء ہی میں دعویٰ کیاکہ:

’’ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہ‘‘[1]                

’’(یہ )وہ (عظیم المرتبت )کتاب ہے -جس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘-

اس آیت کی تفسیر میں علامہ قاضی بیضاوی (﷫) لکھتے ہیں:

’’اس کے معنی یہ ہیں:اپنے معنی پر واضح ہونے اور اپنی برہان کے غالب ہونے کے سبب قرآن کا مقام یہ ہے کہ اس میں غوروفکر کرنے کے بعد کسی بھی عقلمند انسان کے دل و دماغ میں اس بارے میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہتاکہ یہ وحیِ ربّانی ہے اوریہ کلامِ اعجاز کی اُس رفعت کو پہنچا ہوا ہے جس سے آگے کوئی اور مقام نہیں ہے-الغرض یہ باری تعالیٰ کا معجزہ ہے-اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کبھی کسی نے اس میں شک کیا ہی نہیں کیونکہ باطل پرست ہمیشہ شک کرتے رہے ہیں-یہی سبب ہے کہ ازالۂ شک کے لیے قرآنِ مجید نے اُن کو چیلنج کیا اور انہیں وہ طریقہ بتایا کہ اس پر غور کر کے ہر قسم کے شک کا ازالہ ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر عقلی،علمی اور فکری صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنے کی انتہائی کوشش کر کے دیکھ لیں-جب وہ اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز آجائیں گےتو اُن پر یہ بات آشکار ہوجائے گی کہ اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے (ملخصاً)‘‘-

قرآنِ مجیدکی تحدّیات یا چیلنج کئی مراحل پر مشتمل ہیں:

’’قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلیٰ أَن یَأْتُواْ بِمِثْلِ ہَـذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرا ‘‘[2]

’’(اے نبی مکرم(ﷺ)!) کَہ دیجیئے :اگر تمام انسان اور جنّ مل کر اس قرآن کی مثل لانا چاہیں تو وہ اس کی مثل نہیں لاسکیں گے-خواہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں‘‘-

ایک مرحلے پر پورے قرآن کی مثل لانے کا چیلنج دیا گیا اور جب فُصحائے عرب نے اس چیلنج کو قبول نہ کیا تو اس میں تھوڑی نرمی کی اور فرمایا:

’’ أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہِ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللہِ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن‘‘[3]

’’کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں(یعنی نبی کریم (ﷺ) نے اس قرآن کو خود گھڑ لیا ہے-آپ کہیے: پھر تم بھی اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں (بناکر) لے آؤ اور (اپنی مدد کے لیے )اللہ کے سوا جس کو بلا سکتے ہو،بلا لو-اگر تم (اپنے اس دعوے میں)سچے ہو(کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے)‘‘-

پھر اس چیلنج کا بھی فُصحائے عرب کی طرف سے کوئی جواب نہ آیاتو قرآن پاک نے مزید نرمی کی اور فرمایا:

’’وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَاء کُم مِّن دُونِ االلہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنoفَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ ‘‘[4]

’’اور اگر تمہیں اس (کتاب کے کلامِ الٰہی ہونے)میں کوئی شک ہے-جس کو ہم نے اپنے (محبوب)بندے پر نازل کیا ہےتو اس کی مانند کوئی ایک سورۃ (بناکر)لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو-سو اگر تم (یہ) نہ کرسکو اور تم ہرگز نہ کرسکو گےتو اُس آگ سے بچو!جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے جسے کافروں کے لیے تیار کیا گیا ہے‘‘-

’’قُلْ فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّثْلِہِ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللہِ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن ‘‘[5]

’’آپ(ﷺ) کَہ دیجیے:اس جیسی ایک سورۃلے آؤ اور اللہ کے سوا جسے بلا سکتے ہو بلالو اگر تم سچے ہو (کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے )‘‘-

اپنی فصاحت وبلاغت پر ناز کرنے والے فُصحائے عرب کی طرف سے اس چیلنج کا بھی کوئی جواب نہ آیا تو قرآن نے مزید نرمی برتی :

’’أَمْ یَقُولُونَ تَقَوَّلَہُ بَل لَّا یُؤْمِنُونَ o فَلْیَأْتُوا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہِ إِن کَانُوا صَادِقِیْن o‘‘[6]

’’کیا وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی طرف سے اس قرآن کو گھڑ لیا ہے،بلکہ وہ ایمان نہیں لارہے-پس اگر وہ سچے ہیں تو اس جیسی کوئی بات (یا آیت) بنا کر لے آئیں‘‘-

تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کی ان تحدّیات (چیلنج) کو کسی نے قبول نہیں کیا اور اس کے مقابل چیلنج کرنے کے لیے اپنا کلام بنا کر نہیں لاسکے کیونکہ اُن کا بغض و عداوت اور ساری ابلیسی چالیں جو عداوتِ مصطفےٰ(ﷺ)میں انہوں نے اختیار کیں سب کی سب تاریخ میں مذکور ہیں-قرآن نے اپنے بارے میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ لسانِ عربی میں ہے-عربی مبین میں ہے اور مندرجہ ذیل آیاتِ مبارکہ اس دعوے پر شاہد ہیں:

v     النحل:۱۰۳

v     الشعراء:۱۹۵

v     یوسف: ۲

v     الرعد:۳۷

v     طٰہٰ:۱۱۳

v     الزمر: ۲۸

v     حم السجدہ:۳

v     الشوریٰ:۷

v     الزخرف:۳

v     الاحقاف:۱۲

ایک مقام پر مَیں نے پڑھا تھا کہ مشرکینِ مکہ طویل مشاورت اور منصوبہ بندی کے بعد یہ چیلنج لے کر آئے کہ:قرآن کا دعویٰ ہے کہ یہ فصیح عربی میں نازل ہوا ہے اور ہم نے دیکھا کہ اس میں تین کلمات ایسے ہیں جو فصیح عربی کے معیار پر پورا نہیں اترتے اور وہ یہ ہیں:

’’(الف):سُخْرِیّاً: ’’أَہُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْْنَہُم مَّعِیْشَتَہُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضاً سُخْرِیّاً وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُون ‘‘[7]

(ب):عُجَابٌ:’’أَجَعَلَ الْآلِہَۃَ إِلٰہاً وَاحِداً إِنَّ ہَذَا لَشَیْْء ٌ عُجَابٌ‘‘[8]

(ج):کُبَّاراً:’’وَمَکَرُوا مَکْراً کُبَّاراً‘‘[9]

رسول اللہ(ﷺ)نے اُن سے فرمایا: اس خطے میں تمہارے نزدیک سب سے زیادہ فصیح وبلیغ شخص کون ہے-جسے عربی کی فصاحت و بلاغت میں حجت (Authority)تسلیم کیا جاتا ہو-انہوں نے باہمی مشاورت کے بعد کہا:’’شہر سے باہر دور ایک بستی میں ایک بزرگ شخص رہتا ہے‘‘-رسول اللہ(ﷺ)نے فرمایا: اُسے بلا لاؤ- وہ اُسے آپ کے سامنے بلا کر لے آئے-آپ نے اُس بزرگ شخص سے فرمایا: بیٹھ جاؤ- پھر فرمایا: کھڑے ہوجاؤ -آپ نے یہی بات تین بار فرمائی -اس پر اُس شخص کو غصہ آگیا اور اُس نے غصے میں آکر کہا:

اَتَتَّخِذُنِیْ سُخْرِیّاًوَاَنَا شَیْخٌ کُبَّار،اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ          

’’آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں حالانکہ میں بزرگ آدمی ہوں ،بے شک یہ بڑی عجیب بات ہے‘‘-

الغرض جن تین کلماتِ قرآنی کو قریشِ مکہ نے چیلنج کیا تھاکہ یہ عربی کے معیارِ فصاحت پر پورا نہیں اترتے-اللہ تعالیٰ نے وہی کلمات اُس شخص کی زبان پر جاری کردیے ، جو اُن کے نزدیک عربی فصاحت وبلاغت پر اتھارٹی مانا جاتا تھا،پس وہ لاجواب ہوگئے-کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن کے گھر سے قرآنِ مجید کی حقانیت کی شہادت فراہم فرمادی- ’’وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیْز‘‘قریشِ مکہ نے قرآن پر ایک شبہ یہ واردکیا :

’’وَقَالُوا أَسَاطِیْرُ الْأَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلیٰ عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَأَصِیْلا‘‘[10]

’’اور انہوں نے کہا:یہ گزشتہ لوگوں کی (افسانوی )کہانیاں ہیں جن کو اِس (رسول )نے (کسی سے )لکھوا لیا ہے - جو اس پر صبح وشام پڑھی جاتی ہیں‘‘-

اس آیت میں قرآن نے اس ممکنہ الزام کا رد کیا ہے کہ سابق الہامی کتابوں کا کوئی خزینہ یا دفینہ آپ کے ہاتھ لگ گیا ہے اور آپ اُس میں سے وقتاً فوقتاً پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں-اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیت میں اس امکان کو بھی رد کرتے ہوئے فرمایا:

’’وَمَا کُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِہٖ مِن کِتَابٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِکَ إِذاً لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ ‘‘[11]

’’اور آپ اس( نزولِ قرآن) سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے-ورنہ باطل پرست شک میں پڑ جاتے‘‘-

یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرم(ﷺ)کو اپنی حکمت کے تحت اُمّی رکھا تاکہ آپ پر یہ الزام نہ لگ سکے کہ   الہامی کتابوں کاکوئی سابق دفینہ یا خزینہ آپ(ﷺ)کے ہاتھ آگیا ہے جسے آپ وقتاً فوقتاً پڑھ کر سناتے ہیں-

نوٹ:واضح رہے کہ’’ اُمِّی ‘‘کے معنی جاہل یا اَن پڑھ کے نہیں ہیں بلکہ اس کے معنی ہیں:جس شخص نے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو-یعنی نہ وہ لکھ سکتا ہو اور نہ لکھے ہوئے کو پڑھ سکتا ہو-امام المحدثین والمفسرین علامہ غلام رسول سعیدی (﷫) نے اپنی تفسیر تبیان القرآن میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ بعد میں نبی کریم (ﷺ)نے لکھا بھی ہے اور آپ لکھے ہوئے کو پڑھ بھی سکتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیے بغیر یہ ملکہ آپ کو عطا فرمایا تھا-

قرآنِ مجید نے اپنی حقانیت کی ایک دلیل یہ بھی پیش کی کہ قرآن تضادات (Contradictions)سے پاک ہے-اگر یہ کلامِ بشر ہوتا تو اس میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی تضاد مخالفین کو مل جاتا -

’’أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْرِاللہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْراً‘‘[12]

’’تو کیا وہ قرآن میں غورنہیں کرتے اگر یہ قرآن اللہ کے غیر کے پاس سے آیا ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے ‘‘-

 اس آیت پاک کامطلب یہ ہے کہ قرآن کا تضادات سے پاک ہونا اس کے کلام اللہ ہونے کی دلیل ہے-اسی لیے مفسرین کرام نے کہا: قرآن کا بعض،بعض کی تفسیر کرتا ہے اور تفسیر کا اعلیٰ درجہ بھی یہی ہے کہ خود قرآن اپنی تفسیر بیان کرے-اسی طرح قرآن پاک نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس میں باطل کی آمیزش نہیں ہوسکتی-ارشاد فرمایا:

’’لَا یَأْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ ‘‘[13]

’’اس میں باطل کہیں سے نہیں آسکتا، نہ سامنے سے نہ پیچھے سے ،یہ کتاب بہت حکمت والے حمد کیے ہوئے (اللہ ) کی طرف

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر