سیدنا حضرت سلیمان علیہ السلام (حیات و کمالات)

سیدنا حضرت سلیمان علیہ السلام (حیات و کمالات)

سیدنا حضرت سلیمان علیہ السلام (حیات و کمالات)

مصنف: مفتی مہرمحمدساجداقبال اگست 2016

اللہ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر انسانی رشد و ہدایت کے لیے مبعوث فرمائے جن کا مقصد بھٹکی ہوئی انسانیت کو کفر وظلم کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر نورِ وحدت میں غرق کرنا ہے تاکہ وہ انسان جو خواہشات نفسانی کے شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے وہ نفس مطمئنہ کے سٹیج پر فائز ہوکر اللہ پاک کی رضا کا اسیر بن جائے- جو لوگ منصبِ نبوت پر سرفرا ز کئے گئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو غیر معمولی علم، تدبر، قوتِ فیصلہ اور نور بصیرت عطا کیا گیا - ان منتخب ہستیوں میں حضرت سلیمان علیہ السلام وہ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے منصبِ نبوت کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر ملک و سلطنت بھی عطا فرمائی تاکہ آپ اپنی ظاہری اور باطنی دونوں قوتوں کے ساتھ معاشرۂ انسانی میں فتنہ و فساد پھیلانے والی شر کی طاقتوں سے نبرد آزما ہو سکیں-

اسم گرامی:

سلیمان بن دائود ابن أفشی بن عوید بن ناعر بن سلمون بن یخشون بن عمینا ذب بن ارم بن خضرون ابن فارص بن یہودا بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم أبو الربیع نبی اللہ ﴿d-

 حضرت داؤد ﴿d﴾ کے اُنیس بیٹے تھے مگر آپ کے علم و ملک و نبوت اور خلافت کے وارث حضرت سلیمان ﴿d﴾ بنے-

﴿ابنِ عساکر ، تاریخ مدینہ دمشق جلد:۲۲، ص:۰۳۲، دارالفکر، شام﴾

علامہ بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ یہ روایت بھی ہے کہ:-

’’حضرت سلیمان ﴿d﴾ ز مین کے مشارق و مغارب کے مالک تھے اور آپ ﴿d﴾نے ساڑھے سات سو سال تک تمام اہل دنیا جن و انس، پرند چرند اور درندوں پر حکومت کی اور اس کے ساتھ ساتھ آپ ﴿d﴾ کو ہر چیز کی زبان کا علم بھی عطا فرمایا گیا تھا‘‘-

﴿مظہری، ج:۷، ص:۵۵۱

روح البیان کے اندر بھی آپ ﴿d﴾ کی حکومت ساڑھے سات سو سال ذکر کی گئی ہے-

 حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ﴿h﴾ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﴿w﴾ نے فرمایاکہ:-

’’جب حضرت سلیمان﴿d﴾ نے بیت المقدس بنا لیا توآپ نے اللہ رب العزت سے تین چیزوں کا سوال کیا- اللہ تعالیٰ نے ان کو دو چیزیں عطا فرما دیں اور ہمیں امید ہے کہ تیسری چیز بھی ان کوعطا فرمادی گئی ہوگی پہلا سوال یہ تھا کہ وہ ایسا فیصلہ کریں جو اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے موافق ہو تو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ عطا فرماد یا اور انہوں نے دوسرا سوال یہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ایسا ملک عطا فرمائے جو ان کے بعد کسی غیر کو پھر کبھی میسر نہ آئے- اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ان کو عطا فرما دیا- تیسرا سوال یہ کیا کہ جو بھی اس مسجد میں دو رکعت نمازادا کرے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے جیسے بچہ اس دن گناہوں سے پاک ہوتا ہے جس دن والدہ اسے جنم دیتی ہے -مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیز بھی عطاکر دی ہوگی‘‘- ﴿تفسیر بغوی:جلد۳:ص :۶۷۴ العلمیہ﴾

ہوا کا مسخر ہونا:

حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے ہوا کو مسخر اور ان کے حکم کے تابع بنا دیا گیا حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:-

’’حضرت سلیمان ﴿d﴾ اپنے تخت پر بیٹھ کر صبح کے وقت دمشق سے روانہ ہوتے اور ’’اصطخر‘‘ پہنچ کر قیلولہ کرتے، اسی طرح شام کو ’’اصطخر‘‘ سے روانہ ہوتے اور کابل میں رات گزارتے ان دونوں شہروں کے درمیان تیز رفتار مسافر کے لئے ایک ماہ کی مسافت تھی‘‘-

﴿تفسیر حسن بصری :ج: ۲ :ص ۸۷۱، العلمیہ، بیروت﴾

محمد بن کعب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ:-

’’حضرت سلیمان ﴿f﴾ کے لشکر کی چھائونی سو ﴿۰۰۱﴾ فرسخ میں تھی ان میں سے پچیس ﴿۵۲﴾ فرسخ جنوں کے لیے، پچیس ﴿۵۲﴾ انسانوں کے لیے، پچیس ﴿۵۲﴾ پرندوں کے لیے اور پچیس ﴿۵۲﴾ فرسخ دیگر جانوروں کے لیے تھے- آپ کے لیے لکڑی کے تخت پر سو ﴿۰۰۱﴾ گھر تھے جن میں آپ کی باندیاں رہائش پذیر تھیں- ان میں سے تین سو منکوحہ تھیں اور سات سو لونڈیاں تھیں- آپ تیز ہوا کو حکم دیتے تو وہ آپ کو لے کر چل پڑتی تھی- پس ایک دن آپ علیہ السلام زمین و آسمان کے درمیان جا رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی کہ میں نے آپ کی حکومت میں اضافہ کر دیا ہے وہ اس طرح کہ مخلوق سے جو بھی کہیں بات کرے گا ہوا اسے آپ کے پاس لے آئے گی اور آپ کو اس سے آگاہ کردے گی‘‘- ﴿تفسیر مظہری، ج:۵، ص۷۲۳

 وادیٔ نملہ کا سفر:

ایک مرتبہ آپ کے لشکر کا گزر ایک وادی سے ہوا جو وادیٔ نملہ کہلاتی تھی- نملہ کی یہ وادی عسقلان کے قریب ہے- جب لشکر اس وادی کے قریب پہنچا تو ایک چیونٹی نے کہا کہ :-

﴿یٰآَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْدُہ، وَ ہُمْ لَا یَشْعُرُوْن﴾﴿النمل:۸۱

’’اے چیونٹیو! اپنے اپنے بِلوں ﴿سوراخوں﴾ میں گھس جائو کہیں تم کو سلیمان ﴿d﴾ اور ان کے لشکر والے بے خبری میں روند نہ ڈالیں‘‘-

حضرت سلیمان ﴿d﴾ نے ان کی یہ بات سن لی اور اللہ کی مخلوقات میں سے جو بھی مخلوق کوئی بات کرتی تھی تو ہوا اس بات کو حضرت سلیمان ﴿d﴾ کے کانو ں میں پہنچا دیتی تھی- مقاتل رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ :-

’’حضرت سلیمان ﴿d﴾نے چیونٹی کی بات کو تین میل کی مسافت سے سن لیا تھا‘‘-﴿امام بغوی ، معالم و التنزیل، ج:۳، ص:۱۵۳، العلمیہ﴾

حضرت سلیمان کا چیونٹی سے مکالمہ :

حضرت سلیمان ﴿f﴾ نے فرمایا کہ چیونٹی کو میرے پاس لاؤ- چنانچہ چیونٹی حاضر کی گئی -

حضرت سلیمان ﴿d: اے چیونٹی! کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میر الشکر کسی پر ظلم و ستم نہیں کرتا-

چیونٹی: بے شک میرا عقیدہ یہی ہے کہ آپ کا لشکر ظلم و ستم نہیں کرتا لیکن چونکہ مَیں ان سب کی سردار ہو ں اس لیے میرا فرضِ منصبی تھاکہ میں انہیں ہر نشیب و فراز سے آگاہ کروں-

حضرت سلیمان ﴿d: تیری اس تقریر سے میرے نزدیک تیری قدر و منزلت بڑھ گئی ہے- لہٰذا میرا جی چاہتا ہے کہ تو مجھے کوئی پند و نصیحت سنا ئے-

چیونٹی: آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے والد گرامی کا نام دائود ﴿d﴾ کیوں رکھا گیا؟

حضرت سلیمان ﴿d:مجھے معلوم نہیں!

چیونٹی: آپ کے والد گرامی کا نام دائود ﴿d﴾ اس لیے تھا کہ انہوں نے زخمی دل کا علاج کیا- گویا ان کانام ’’داوی جراحۃ قلبہ‘‘ کا مخفف ہے-

پھر چیونٹی نے سوال کیا کہ اے حضرت سلیمان ﴿d! کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کا نام سلیمان ﴿d﴾ کیوں ہے؟

حضرت سلیمان ﴿d: مجھے معلوم نہیں!

چیونٹی: اس لیے کہ آپ ’’سلیم الصدر و القلب‘‘ ہیں- گویا سلیمان ﴿d﴾ انہی الفاظ کا مخفف ہے-

تفسیر روح البیان میں علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’کشف الاسرار‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ :-

’’حضرت سلیمان ﴿d﴾ نے چیونٹی سے پوچھا کہ تمھاری سلطنت کا حدود اربع اور تمہارے لشکر کی تعداد کتنی ہے؟ چیونٹی نے عرض کی کہ لشکر کی نگرانی کے لیے مَیں چار ہزار ﴿۰۰۰۴﴾ کوتوال رکھتی ہوں اور ان میں سے ہر ایک کے ماتحت چالیس ہزار ﴿۰۰۰۰۴﴾ نقیب ہیں پھر ہر ایک نقیب کے تحت چالیس ہزار ﴿۰۰۰۰۴﴾ چیونٹیاں رہتی ہیں- پھر حضرت سلیمان ﴿d﴾ نے چیونٹی سے فرمایا کہ تو اپنے لشکر سے باہر کیوں نہیں جاتی؟ چیونٹی نے عرض کی کہ اے پیارے نبی ﴿d﴾ مجھے روئے زمین کا اختیار دیا گیا ہے لیکن میں نے ٹھکرا دیا صرف اس لیے کہ مجھے اپنے لشکر ﴿رعیت﴾ کو چھوڑ کر کہیں جانا گوارا نہیں بلکہ عرض کی کہ اے پروردگارِ عالَم ہمیں زیرِ زمین رکھنا تا کہ تیرے سوا ہمیں کوئی نہ جانے اور ہم بھی تیرے سوا کسی کو نہ جانیں‘‘- ﴿جلد:۶، ص :۷۵۳، ﴾

اس کے بعد چیونٹی نے حضرت سلیمان ﴿d﴾ سے کہا کہ آپ بھی تو مجھے بتا دیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑی کون سی نعمت عطا فرمائی ہے ؟ حضرت سلیمان ﴿d﴾ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو میرے تابع کر دیا ہے- مَیں صبح کو مشرق میں ہوتا ہوں اور شام کو مغرب میں- چیونٹی نے کہا کہ یہ تو کوئی بڑا کمال نہیں بلکہ اس میں تو یہ اشارہ ہے کہ آپ کی بادشاہی گویا ہوا پر سہارا کر رہی ہے- ﴿ایضاً﴾

حکیم الامت حضرت علامہ اقبال لکھتے ہیں:-

یافت مورے بر سلیمانے ظفر

سطوتِ آئینِ پیغمبر(ص) نگر

’’جناب رسول پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٰ وسلم کے آئین کی شان دیکھ کہ اس کی بدولت چیونٹی نے سلیمان پر فتح پائی‘‘-﴿رموزِ بیخودی ، حکایت سلطان مراد﴾

 چیونٹی کی بات سن کر حضرت سلیمان ﴿d﴾ نے دعا مانگی کہ:-

﴿رَبِّ اَوْزِعْنِیْْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ﴾

’’اے میرے رب! مجھے اس بات کی توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر فرمائی‘‘- ﴿النمل:۹۱

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس واقع کو شاعری کی صورت میں پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ:-

پیشِ قرآں بندہ و مولا یکے است

بوریا و مسندِ دیبا یکے است

’’قرآن پا ک کی نظر میں آقا و غلام برابر ہیں- کوئی بوریا نشیں ہو یا تخت کا وارث ان میں کوئی فرق نہیں‘‘-﴿ رموزِ بیخودی، حکایت سلطان مراد﴾

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٰ وسلم تک جتنے بھی انبیائ کرام تشریف لائے وہ سب اسلام کے سلسلے کی ہی مختلف کڑیاں ہیں اس لیے ان کی زندگیوں کو اسلام اور قرآن کی تعلیمات سے الگ نہیں کیا جاسکتا-

 حضرت سلیمان ﴿f﴾ کے فیصلے:

حضرت دائود ﴿d﴾ اس امر سے آگاہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان ﴿d﴾ کو علم و دانش ذکاوت و خطابت اور مقدمات کے فیصلے کی صلاحیت بچپن ہی سے عطا کردی تھی-ایک مرتبہ آپ ﴿d﴾نے حضرت سلیمان ﴿d﴾ سے چند سوالات پوچھے کہ سب سے اچھی چیز کیا ہے؟ جواب ملا ’’ایمان‘‘- پھر آپ ﴿d﴾ نے بری چیز کے بارے میں سوال کیا؟ تو جواب ملا ’’کفر‘‘- پھر آپ ﴿d﴾ نے میٹھی چیز کے بارے میں پوچھا تو آپ ﴿d﴾ نے فرمایا ’’خدا کی رحمت‘‘- پھر آپ ﴿d﴾ سے ٹھنڈک والی چیز کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا ’’خدا تعالیٰ کا لوگوں سے دَرگزرکرنا اور انسانوں کا ایک دوسرے کو معاف کردینا‘‘- یہ جوابات سن کر حضرت دائود ﴿d﴾ نے فرمایا کہ سلیمان ﴿d﴾ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں-بچپن ہی سے حضرت دائود ﴿d﴾ اُمورِ سلطنت اور نظام حکومت کے اہم فیصلوں میں انہیں شریک رکھتے- اہم اُمور اور مقدموں میں بھی آپ ﴿d﴾ سے مدد و مشورہ لیا کرتے- حضرت سلیمان علیہ السلام کے فیصلے کا ایک واقعہ حدیث مبارکہ میں یوں بیان ہوا ہے:-

﴿عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ: بَیْنَمَا امْرَاَتَانِ مَعَہُمَا ابْنَاہُمَا جَائَ الذِّئْبُ فَذَہَبَ بِابْنِ اِحْدَاہُمَا فَقَالَتْ ھٰذِہِ لِصَاحِبَتِہَا اِنَّمَا ذَہَبَ بِابْنِکِ اَنْتِ وَ قَالَتِ الاُخْرٰی اِنَّمَا ذَہَبَ بِابْنِکِ فَتَحَاکَمَتَا اِلٰی دَاوُدَ فَقَضٰی بِہِ لِلْکُبْرٰی فَخَرَجَتَا عَلٰی سُلَیْمَانَ بْنِ دَاوُدَ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ فَاَخْبَرَتَاہُ فَقَالَ ائْتُوْنِیْ بِالسِّکِّیْنِ اَشُقُّہُ بَیْنَہُمَا فَقَالَتِ الصُّغْرٰی لاَ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ ھُوَ ابْْنُھَا فَقَضٰی بِہِ لِلصُّغْرٰی﴾ ﴿صحیح مسلم ، کتاب الاقضیہ﴾

’’حضرت ابو ہریرہ ﴿h﴾ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٰ وسلم نے فرمایا کہ دو عورتیں اپنے اپنے بچوں کو ساتھ لے کرجارہی تھیں اتنے میں بھیڑیا آکر ان میں سے ایک بچے کو لے گیا- ایک عورت نے دوسری سے کہا کہ یہ میرا بچہ ہے اور بھیڑیا تمہارے بچے کو لے گیا ہے، دوسری نے کہا نہیں تمہارے بچے کو لے گیا ہے- وہ دونوں حضرت دائود ﴿d﴾ کے پاس اپنا مقدمہ لے کر گئیں- تو آپ ﴿d﴾ نے مقدمہ سن کرفیصلہ بڑی کے حق میں دے دیا ﴿کیونکہ بظاہربچہ بڑی کے قبضے میں تھا اور چھوٹی اس کے خلاف کوئی گواہی بھی پیش نہ کر سکی تھی ﴾ - وہ دونوں حضرت سلیمان ﴿d﴾ کے پاس آئیں اور آپ کو معاملے کی خبر دی- آپ ﴿d﴾ نے قصہ سن کر چھری لانے کا حکم دیا کہ بچے کے دو ٹکڑے کر دئیے جائیں- چھوٹی نے ﴿فیصلہ سن کر﴾ کہا کہ نہیں بچے کے ٹکڑے نہ کرو- یہ اس بڑی کا ہی بچہ ہے- یوں آپ نے بچے کا فیصلہ چھوٹی کے حق میںسنا دیا‘‘-

گھوڑوں کے بارے ایک اعتراض کا جواب :

زیادہ تر مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ حضرت سلیمان ﴿d﴾ گھوڑوں کے معائنہ میں اس قدر مشغول ہوئے کہ سورج غروب ہوگیا اور آپ کی نماز قضائ ہوگئی پھر اس کے غم اور غصہ میں آپ ﴿d﴾ نے ان گھوڑوں کی گردنوں اور پنڈلیوں کوکا ٹ ڈالا- لیکن امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس تفسیر کو حسب ذیل وجوہ سے رَد کردیا ہے کہ :-

﴿۱﴾ یہ تفسیر اس پرمبنی ہے کہ’’تورات بالحجاب‘‘ کی ضمیر مستتر سورج کی طرف لوٹائی جائے اور اس سے پہلے اس آیت میں سورج کا ذکر نہیں ہے بلکہ سدھائے ہوئے تیز رفتار گھوڑوں کا ذکر ہے اور اگر کوئی بعید تاویل کر کے سورج کی طرف ضمیر لوٹائی جائے تو اس سے بہتر ہے کہ بغیر تاویل کے گھوڑوں کی طرف ضمیر لوٹائی جائے یعنی جب وہ گھوڑے ان کی نظر سے اوجھل ہو گئے تو انہوں نے ان کو دوبارہ بلوایا-

﴿۲﴾ اس آیت میں مذکور ہے کہ حضرت سلیمان ﴿d﴾ نے کہا، میں نے اپنے رب کے ذکر کی وجہ سے خیر ﴿گھوڑوں﴾ سے محبت کی ہے کیونکہ یہ گھوڑے جہاد میں استعمال ہوتے ہیں تو جب ان کی گھوڑوں سے محبت اللہ کے ذکرکی وجہ سے تھی تو پھر روایت صحیح نہیں ہے کہ وہ گھوڑوں کے معائنہ میں مشغول ہونے کی وجہ سے نماز کو بھول گئے یا اللہ کے ذکر کو بھول گئے کیونکہ گھوڑوں کا معائنہ کرنا بھی تو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے محبت کی وجہ سے تھا، تو وہ معائنہ کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول تھے- لہذا یہ روایت صحیح نہیں ہے-

﴿۳﴾ قرآن مجید میں ہے کہ:-

﴿فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوْقِ وَاْلاَعْنَاق﴾﴿سورۃ:ص: ۳۳

’’تو ہاتھ پھیرنے لگے ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر‘‘-

اس آیت میں اس کا معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان ﴿d﴾ نے تلوار سے گھوڑوں کی پنڈلیاں اور گردنیں کاٹ ڈالیں-

جب کہ مسح کا معنی ہاتھ پھیرنا ہے نہ کہ تلوار سے کاٹنا ورنہ لازم آئے گا کہ:-

 ’’وامسحو برؤوسکم و ارجلکم‘‘ کا معنی ہو گا کہ تلوار سے اپنے سروں اور اپنے پیروں کو کاٹ دو اور کوئی عاقل بھی ایسا نہیں کہہ سکتا‘‘-

﴿تفسیر کبیر ، جز:۶۲، ص:۹۷۱

امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں :-

’’اس لیے قصہ کی توجیہ صرف اس طرح صحیح ہے کہ گھوڑوں کو پالنا اور ان کو اصطبل میں رکھنا ان کے دین میں اس طرح پسندیدہ تھا جس طرح دینِ اِسلام میں گھوڑوں کو جہاد کے لیے رکھنا پسندیدہ ہے- پھر حضرت سلیمان ﴿d﴾ جب جہاد کے لیے جانے لگے تو وہ ایک مجلس میں بیٹھے اور حکم دیا اور یہ فرمایا کہ میں دنیا کی وجہ سے ان گھوڑو ں سے محبت نہیں کرتا بلکہ میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کی اشاعت اور اس کے دین کی سر بلندی کے لیے گھوڑوں سے محبت کرتا ہوں کیونکہ جہاد میں ان پر سواری کی جاتی ہے-پھر آپ نے جب گھوڑوں کو دوڑانے کا حکم دیا اور وہ گھوڑے جب آپ کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تو آپ نے حکم دیا جو گھوڑوں کو مشق کرارہے تھے کہ وہ گھوڑوں کو واپس لائیں اور جب وہ گھوڑے واپس آگئے تو آپ شفقت سے ان گھوڑوں کی پنڈلیوں اور ان کی گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے اور ان پر ہاتھ پھیرنے سے حسب ذیل امور مطلوب تھے-

﴿۱﴾ گھوڑوں کی تکریم کرنا اور ان کی قدر و منزلت کو واضح کرنا کیونکہ دشمنانِ اسلام سے جنگ کرنے میں گھوڑوں کا بہت بڑا حصہ ہے-

﴿۲﴾ حضرت سلیمان ﴿d﴾ یہ بتانا چاہتے تھے کہ ملک کا نظم و نسق چلانے میں وہ بعض کاموں کو خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے تھے-

﴿۳﴾ حضرت سلیمان ﴿d﴾ گھوڑوں کے احوال، ان کی بیماریوں اور ان کے عیوب کو دوسروں کی بہ نسبت خود سب سے زیادہ جانتے تھے اس لیے وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیر کر یہ جانچ رہے تھے کہ ان میں کو ئی عیب یا مرض تو نہیں ہے-قرآن کی ان آیتوں کی یہ تفسیر جو ہم نے ذکر کی ہے یہ قرآن کے بالکل مطابق اور موافق ہے اور اس تفسیر پر ان اعتراضات میں سے کوئی اعتراض لازم نہیں آتا جو اکثر مفسرین کی تفسیر پر لازم آتے ہیں- مجھے اس پر سخت تعجب ہوتا ہے کہ ان مفسرین نے ان کمزور وجوہ اور اس روایت کو کیسے قبول کر لیا جب کہ اس روایت کی تائید میں ان کے پاس کوئی شبہ بھی نہیں ہے، چہ جائیکہ کوئی دلیل ہو‘‘-

﴿تفسیرکبیر، جز:۶۲، ص۰۸۱، ﴾

علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس ﴿i﴾ سے روایت کی کہ آپ گھوڑوں کی گردنوں اور پنڈلیوں پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگے- ﴿ابن کثیرج:۴ص۱۷

ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے فرماتے ہیں کہ:-

’’آپ سے یہ تصور کرنا ممکن نہیں کہ آپ جانوروں کی کونچیں کاٹ کر انہیں تکلیف دیں اور بلاوجہ اپنا مال ضائع کریں -محض اس لیے کہ ان کی طرف دیکھنے میں محو ہوجانے سے آپ کی نماز قضا ہوگئی حالانکہ اس میں گھوڑوں کا تو کوئی قصور نہ تھا- ﴿تفسیر ابن کثیر، جز:۴، ص:۱۷

 حضرت ابن عباس ﴿i﴾ نے فرمایا کہ مَیں نے حضرت علی ﴿h﴾ سے اس آیت﴿رُدُّوْہَا عَلَیَّ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوْقِ وَاْلاَعْنَاقْ﴾ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﴿h﴾ نے فرمایا کہ:-

’’ حضرت سلیمان ﴿d﴾ جہاد کی تیاری کی وجہ سے گھوڑوں کے معائنہ میں مصروف رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا -حضرت سلیمان ﴿d﴾ نے اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ان فرشوں کو حکم دیا جو سورج پر معین تھے کہ سورج کو لوٹائو تو فرشتوں نے سورج کو ان پر لوٹا دیا یہاں تک کہ حضرت سلیمان ﴿d﴾ نے عصر کے وقت نماز پڑھی - اللہ تعالیٰ کے انبیائ ظلم نہیں کرتے کیونکہ وہ معصوم ہیں‘‘- ﴿تفسیرروح المعانی، جلد:۲۱، ص:۴۸۲

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی القرطبی﴿المتوفی :۸۶۶ھ﴾ لکھتے ہیں کہ:-

’’حضرت سلیمان ﴿d﴾ کا ایک گول میدان تھا جس میں وہ گھوڑوں کا مقابلہ کرایا کرتے تھے حتی کہ جب وہ گھوڑے دور نکل کر ان کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئے- اس کا معنیٰ یہ نہیں ہے کہ سورج غائب ہوگیا اوران کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا کیونکہ اس آیت میں پہلے سورج کا ذکر نہیں ہے کہ اس کی طرف ضمیر لوٹائی جائے البتہ گھوڑوں کا ذکر ہے اس لیے اس کا معنی یہ ہے کہ وہ گھوڑے ان کی نظر سے غائب ہوگئے -اور نحاس﴿رحمۃ اللہ علیہ ﴾ نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت سلیمان ﴿d﴾ کے پاس مال غنیمت سے حاصل شدہ گھوڑے لائے گئے تا کہ وہ ان کا معائنہ کریں حضرت سلیمان ﴿d﴾ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے توآپ نے اشارہ کیا کہ ان گھوڑوں کو ان کے اصطبلوں میں پہنچا دیاجائے-حتی کہ وہ گھوڑے ان کی نظر سے اوجھل ہوگئے اور جب حضرت سلیمان ﴿d﴾ نماز سے فارغ ہوگئے تو آپ نے فرمایا کہ ان گھوڑوں کو دوبارہ میرے پاس لائو-پھر آپ ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے اور آپ کا ان کی گردنوں پر ہاتھ پھیرنا ان کے آرام کے لیے تھا تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اگر کوئی بڑا اور باوقار آدمی گھوڑوں کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرے تویہ کام اس کے مقام اور وقار کے خلاف نہیں ہے‘‘- ﴿الجامع لاحکام القرآن، جلد:۸۱، ص:۴۹۱،الرسالۃ العالمیہ ﴾

امام فخر الدین محمد ابن رازی ﴿المتوفی :۶۰۶ھ﴾ نے بھی اسی تفسیر کو بہتر قرار دیا ہے-

دورانِ حکمرانی عارضی آزمائش کا تذکرہ:

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام سے کچھ عرصہ کے لیے حکمرانی واپس لے لی گئی- اس کے متعلق بہت سی روایات ہیں لیکن امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر ’’درمنثور‘‘ میں ایک جامع حدیث مبارکہ اسی حوالے سے نقل کی ہے- حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:-

’’حضرت سلیمان علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ بیت الخلائ میں داخل ہوں - آپ نے اپنی انگوٹھی جرادہ کو دی - جرادہ آپ کی سب سے محبوب بیوی تھی- اسی دوران شیطان اس کے پاس حضرت سلیمان علیہ السلام کی صورت میں آیا اور کہا کہ میری انگوٹھی مجھے دے دو- جرادہ نے وہ انگوٹھی اسے دے دی- جب شیطان نے وہ انگوٹھی پہنی تو جن و انسان اور شیطان اس کے مطیع ہو گئے- جب حضرت سلیمان علیہ السلام بیت الخلائ سے نکلے تو جرادہ سے فرمایا میری انگوٹھی مجھے دو- اس نے کہا کہ میں نے وہ انگوٹھی حضرت سلیمان کو دے دی ہے- آپ نے فرمایا کہ سلیمان تو میں ہوں - جرادہ نے کہا تم جھوٹ بول رہے ہو تم سلیمان نہیں ہو- حضرت سلیمان علیہ السلام جس کے پاس بھی آتے اور کہتے کہ میں سلیمان ہوں تو وہ آپ کو جھٹلاتے- یہاں تک کہ بچے آپ کو پتھر مارنے لگے- جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ دیکھا تو پہچان گئے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے - شیطان لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگا- جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ بادشاہت حضرت سلیمان علیہ السلام کو واپس مل جائے تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں ڈالا کہ وہ اس شیطان کا انکار کر دیں - ان لوگوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی بیویوں کی طرف پیغام بھیجا کہ سلیمان کی کوئی بات عجیب لگتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں یہ اب ہمارے پاس اس وقت آتا ہے جب ہمیں حیض کا خون آتا ہے- جبکہ پہلے وہ ہمارے پاس اس حالت میں نہیں آتے تھے- جب شیطان نے یہ دیکھا کہ اس کی حقیقت کا لوگوں کو پتا چل گیا ہے تو اس نے کتابیں لکھیں جن میں جادو اور کفر تھا- ان کتب کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت کے نیچے دفن کر دیا اور پھر لوگوں کے سامنے انہیں نکلوا کرپڑھا اور کہا دیکھو کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ان کی مدد سے ہی تم پر غالب تھے چنانچہ لوگوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو کافر ٹھہرانا شروع کردیا- شیطان نے وہ انگوٹھی لے جا کر سمندر میں پھینک دی- اس کو ایک مچھلی نے نگل لیا- حضرت سلیمان علیہ السلام ساحلِ سمندر پر مزدوری کرتے تھے- ایک آدمی نے مچھلیاں خریدیں - ان میں سے ایک مچھلی کے پیٹ میں انگوٹھی تھی- اس شخص نے حضرت سلیمان کو بلایا اور کہا کہ کیا تم یہ مچھلیاں اٹھا کر لے چلو گے؟ آپ نے فرمایا کہ جی ہاں - اس نے پوچھا کیا اجرت لو گے؟ آپ نے فرمایا کہ ان میں سے ایک مچھلی لوں گا-حضرت سلیمان علیہ السلام مچھلیاں اٹھا کر لے گئے اور جب اس کے گھر کے دروزے تک پہنچے تو اس نے آپ کو وہ مچھلی دی جس کے پیٹ میں وہ انگوٹھی تھی - آپ نے اس مچھلی کا پیٹ چیرا تو اس میں سے وہ انگوٹھی برآمد ہوئی - آپ نے اسے لے کر پہن لیا - اس کو پہنتے ہی جن و انس اور شیاطین آپ کے تابع ہو گئے- آپ اپنی پہلی حالت پر واپس آگئے‘‘- ﴿تفسیر در منثور، ج:۵، ص:۱۶۸

ھُدھُد اور ملکہ بلقیس کا تذکرہ:

حضرت ابن عباس ﴿i﴾ وغیرہ سے مروی ہے کہ ہد ہد، علم ہندسہ کا ماہر تھا اور وہ حضرت سلیمان ﴿d﴾ کے لیے پانی کی نشاندہی کرتا تھا -جب آپ ﴿d﴾ جنگل میںہوتے تو پانی کی ذمہ داری اسے سونپ دیتے- زمین کے اندر کا پانی اسے اس طرح دکھائی دیتا جس طرح انسان کو زمین پر پڑی ہوئی چیز نظر آتی ہے چنانچہ یہ پانی کی نشاندہی کر دیتا اور سطح زمین سے اس کی گہرائی بھی بتا دیتا- حضرت سلیمان ﴿d﴾ جنات کو حکم دیتے وہ اس جگہ کنواں کھود لیتے اس طرح وہاں سے پانی پھوٹ پڑتا-﴿تفسیر ابن کثیر، ج:۳، ص:۵۰۶

امام ابو محمد الحسین بن مسعود البغوی ﴿المتوفی ۶۱۵ھ﴾ لکھتے ہیں کہ :-

’’جب حضرت سلیمان ﴿d﴾ حج کرنے کے بعد حرم شریف سے و اپس آئے تو زوال کے وقت یمن کے مقام صنعائ میں پہنچے- یہ جگہ حرم سے ایک ماہ کی مسافت پر تھی ان کو وہ جگہ اچھی لگی- انہوں نے کھانے اور نماز پڑھنے کے لیے وہاں اترنے کا قصد کیا جب وہ تخت سے اس جگہ اتر گئے تو ہدہد نے دل میں کہا حضرت سلیمان ﴿d﴾ تو اس جگہ کی سیر میں مشغول ہیں میں اڑ کر فضا میں گھومتا ہوں- اس نے دائیں بائیں دیکھا تو اس کو بلقیس کا باغ نظر آیا وہ اس کے سبزہ اور پھولوں کی طرف مائل ہوا وہ اس باغ میں اتر گیا وہاں بھی اس نے ایک ہد ہد کو دیکھا - حضرت سلیمان ﴿d﴾ کے ہدہد کا نام یعفور تھا اور یمن کے ہدہد کا نام یعفیر تھا- پس یمن کے یعفیر نے حضرت سلیمان ﴿d﴾ کے یعفور سے کہاتم کہاں سے آئے ہو اور کہاں کا ارادہ ہے؟ اس نے کہا میں اپنے بادشاہ سلیمان بن دؤاد کے ساتھ یمن میں آیا ہوں- اس نے پوچھا سلیمان کون ہے؟ یعفور نے کہا وہ جن و انس، شیاطین، پرندوں ، چرندوں اور ہواؤں کے بادشاہ ہیں؟ پھر یعفورنے اس سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ اس نے کہا میں اس ملک کا رہنے والا ہوں- یعفور نے پوچھا اس ملک کا بادشاہ کون ہے؟ اس نے کہا ایک عورت ہے جس کا نام بلقیس ہے، اور بے شک تمہارا مالک بہت بڑا بادشاہ ہے لیکن بلقیس کا ملک بھی اس سے کم نہیں ہے وہ پورے یمن کی ملکہ ہے اور اس کے ماتحت بارہ ہزار سردار ہیں اور ہر سردار کے تحت ایک لاکھ جنگجو ہیں کیا تم میرے ساتھ چلو گے تاکہ میں تمہیں اس کا ملک دکھاؤں؟ یعفور نے کہا مجھے خدشہ ہے کہ سلیمان ﴿d﴾ کو جب پانی کی ضرورت ہوگی تو وہ مجھے تلاش کریں گے کیونکہ میں ان کو پانی کی طرف رہنمائی کرتا ہوں- یمنی ہدہد نے کہا جب تم اپنے باد شاہ کے پاس اس ملک کی خبر لے کر جاؤ گے تو وہ خوش ہوگا، پھر یعفور اس کے ساتھ چلا گیا تو بلقیس اور اس کے ملک کو دیکھا- ہدہد عصر کے وقت حضرت سلیمان ﴿d﴾ کے پاس پہنچا- ادھر حضرت سلیمان ﴿d﴾ نماز کے وقت تخت سے اترے اس جگہ پانی نہیں تھا، آپ ﴿d﴾ نے انسان، جنات اور شیاطین سے پانی کے متعلق سوال کیا تو ان کو معلوم نہیں تھا- پھر آپ نے پرندوں کی تفتیش کی تو ہدہد کو غیر حاضر پایا- آپ نے پرندوں کے تلاش کرنے والے کو بلایا وہ گدھ تھا اس سے ہدہد کے متعلق سوال کیا، اس نے کہا اللہ تعالیٰ آپ کے ملک کو سلامت رکھے مجھے معلوم نہیں وہ کہاں ہے؟ حضرت سلیمان ﴿d﴾ غضب ناک ہوئے اور فرمایا ﴿لَاُعَذِّبَنَّہ، عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ لَاَذْبَحَنَّہ،ٓ﴾ میں اس کو ضرور سخت سزا دوں گا یا اس کو ذبح کر دوں گا- پھر پرندوں کے سردار عقاب کو بلایا اور اس سے کہا ابھی ہدہد کو لاکر حاضر کرو- عقاب ہوا میں بلند ہوا اور دائیں بائیں نظر ڈالی تو ہدہد یمن کی طرف سے آرہا تھا عقاب اس پر حملہ کرنے کے لئے چھپٹا تو ہدہد نے اس کو قسم دی کہ اس ذات کی قسم جس نے تجھ کو مجھ پر قدرت دی ہے مجھ پر حملہ نہ کر! عقاب نے اس کو چھوڑ دیا اور کہا کہ تجھ پر افسوس ہے تجھ پر تیری ماں روئے اللہ کے نبی نے یہ قسم کھائی ہے کہ وہ تجھ کو ضرور سزا دے گا یا ضرور ذبح کر دے گا- ہدہد نے پوچھا آیا اللہ کے نبی نے قسم کے ساتھ کوئی استثنائ بھی کیا ہے یا نہیں تو اس کو بتایا کہ حضرت سلیمان ﴿d﴾ نے کہا ہے کہ ورنہ وہ اس کی ﴿یعنی اپنی غیر حاضری کی﴾ صاف صاف وجہ بیان کرے- ہدہد نے کہا اب میری نجات ہو جائے گی پھر عقاب اور ہدہد حضرت سلیمان ﴿d﴾ کی خد مت میں حاضر ہوئے- اس وقت حضرت سلیمان ﴿d﴾ اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے عقاب نے کہا میں نے ہدہد کو حاضر کر دیا ہے- ہدہد نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور اپنی دُم اور پَر جھکا دئیے- حضرت سلیمان ﴿d﴾ نے اس سے پوچھا تم کہاں تھے؟ میں تم کو سخت سزا دوں گا- ہدہد نے کہا اے اللہ کے نبی! آپ وہ وقت یاد کیجیے جب آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں گے حضرت سلیمان ﴿d﴾ یہ سن کر کانپنے لگے اور اس کو معاف کر دیا پھر اس سے تاخیر کا سبب دریافت کیا تواس نے کہاکہ میں نے اس جگہ کا احاطہ کرلیا ہے جس کا آپ نے احاطہ نہیں کیا میں آپ کے پاس ﴿ملک﴾ سبا کی ایک یقینی خبر لایا ہوں، میں نے دیکھا کہ ان پر ایک عورت حکومت کر رہی ہے اور اس کو ہر چیز سے نواز دیا گیا ہے اور اس کا بہت بڑا تخت ہے‘‘- ﴿تفسیر بغوی :ج:۳ :ص ۳۵۳ :العلمیہ﴾

اِسی واقعہ کو علامہ زمخشری ﴿المتوفی: ۸۳۵ھ﴾ ،علامہ ابن جوزی ﴿المتوفی ۷۹۵ھ﴾، علامہ ابوالحیان اندلسی ﴿المتوفی ۴۵۷ ھ﴾ علامہ اسماعیل حقی ﴿المتوفی ۷۳۱۱ھ﴾ نے بھی بیان کیا ہے-

اُس کے تخت پہ اگر دیکھیں تو حضرت ابن عباس ﴿i﴾ نے فرمایا کہ:-

’’ اس تخت کی لمبائی اسی﴿۰۸﴾ ہاتھ تھی اور اس کی چوڑائی چالیس ﴿۰۴﴾ ہاتھ تھی اور اونچائی تیس ﴿۰۳﴾ ہاتھ تھی جس پر موتیوں، سرخ یا قوت اور سبز زبرجد کا تاج تھا‘‘- ﴿تفسیر قرطبی، جلد:۷، ص۸۹۱

علمائے تاریخ کا کہنا ہے کہ یہ تخت ایک عظیم الشان اور بڑے پختہ محل میں رکھا ہوا تھا جس کی مشرقی جانب تین سو ساٹھ دروازے تھے اور اتنی تعداد میں ہی مغربی جانب میں تھے- اس کی وضع ایسی تھی کہ ہر روز سورج ایک دروازے سے داخل ہوتا اوراس کے بالمقابل دروازے سے غروب ہوتا اس کے درباری صبح و شام اسے سجدہ کر تے تھے- اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادہے کہ ہدہد نے کہا:-

﴿وَجَدْتُّہَا وَقَوْمَہَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اﷲِ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَھُمْ لَا یَھْتَدُوْنَ﴾ ﴿النمل:۴۲

’’میں نے اس کو اور اس کی قوم کو دیکھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے لئے ﴿ان﴾ کاموں کو خوشنما بنا دیا ہے ، سو ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روک دیا ہے پس وہ ہدایت نہیں پائیں گے ‘‘-

ہدہد نے جب اہلِ سبا اور ان کی ملکہ کے متعلق حضرت سلیمان ﴿f﴾ کو آگاہ کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم تحقیق کریں گے کہ کیا تو نے سچ بولا ہے یا سزا سے بچنے کے لیے غلط بیانی کی ہے ہم اس کی تہہ تک پہنچیں گے-

اس کے بعد آپ ﴿f﴾ نے ملکہ بلقیس کے نام ایک خط لکھا اور ہد ہد کے حوالے کیا اور فرمایا اس کو لے جا چنانچہ ہد ہد اس خط کو اپنے پَر یا چونچ میں لے کر بلقیس کے محل تک پہنچ گیا وہ اس وقت سوئی ہوئی تھی ہدہدایک روشن دان سے دخل ہوا اور خط کو اس کے اوپر پھینک دیا- اس نے خط اٹھایا اور اسے کھول کر پڑھا تو اس کا مضمون یہ تھا-

’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم یہ خط اللہ کے بندے سلیمان بن دائود کی جانب سے بلقیس ملکہ سبا کی طرف ہے جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے لیے سلامتی ہے،اما بعد مجھ پر غلبہ کی خواہش نہ رکھو- میرے پاس اطاعت کرتے ہوئے حاضر ہوجائو‘‘-﴿ تفسیر در منثور، جلد:۵، ص:۶۰۳

ملکہ نے شاہی مشیروں کو خط پڑھ کر سنایا اور اس معاملہ میں ان سے مشورہ طلب کرتے ہوئے کہنے لگی کہ میں حضرت سلیما ن﴿d﴾ کی طرف ایک تحفہ بھیجتی ہوں- اگر انہوں نے قبول کر لیا تو وہ بادشاہ ہے میں اس سے جنگ کروں گی - لیکن اگر ا نہوں نے تحفہ قبول نہ کیا تو میں اس کی پیروی کروں گی کیونکہ وہ نبی ہیں -

امام ابو القاسم محمود بن عمر الزمخشری ﴿المتوفیٰ:۸۳۵ھ﴾ نے تفسیر ’’کشاف‘‘ میں لکھا ہے کہ بلقیس نے جو تحفے حضرت سلیمان ﴿d﴾ کی خدمت میں بھیجے تھے پانچ سو لونڈیوں کو خوب آراستہ کیا اور ہزار سونے کی اینٹیں ایک سونے کا تاج جس میں یا قوت اور موتی جڑے ہوئے تھے- جب ملکہ بلقیس کے قاصد حضرت سلیمان ﴿d﴾ کے قریب پہنچے تو حضرت سلیمان ﴿d﴾ کو ان کی خبر پہنچ گئی- آپ نے جنوں کو حکم دیا تو انہوں نے سونے اور چاندی کے ایک ہزار محلات بنادیے- جب ملکہ بلقیس کے قاصد وں نے سونے کے محلات دیکھے تو انہوں نے کہا اسے ہمارے تحائف سے کیا سروکار جبکہ اس کے محلات سونے اور چاندی کے ہیں- جب وہ تحائف کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت سلیمان﴿d﴾ نے تحفہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں واپس بھجوا دیا-

جب نمائندے بلقیس کے پاس پہنچے اور جا کر سلیمان﴿d﴾ کے حالات سنائے تو کہنے لگی میںتو پہلے ہی سمجھ گئی تھی کہ وہ بادشاہ نہیں بلکہ نبی ہیں ہم سے ان کا مقابلہ نہیں ہوسکے گا- یہ کہہ کر حضرت سلیمان ﴿d﴾ کی طرف ایک قاصد بھیج دیا اور عرض کی کہ میں اپنے سرداروں کو لے کر حاضر ہو رہی ہوں جو آپ کا حکم ہوگا اسے بجا لائیںگے اور آپ کا دین قبول کریں گے- ﴿تفسیر روح البیان، ج:۶، ص:۱۷۳

تخت بلقیس:

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر