حضرت نوح علیہ السلام

حضرت نوح علیہ السلام

’’ لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ‘‘[1]

’’بے شک ان کے قصوں میں سمجھداروں کے لیے عبرت ہے ‘‘-

اللہ تعالیٰ نے جن اُمتوں  کوعبرت بنایاان کے متعلق ہمیں بارہا آگاہ کیا،ان کے تذکرے کیے،ان کے اعمال،ان کی عادات و خصائل کو بیان کیا تاکہ اُمتِ مصطفےٰ (ﷺ) ان سے نصیحت و سبق حاصل کرے-یعنی ان جیسے  برےافعال کو چھوڑدو نیک افعال کو اپنا لو تاکہ تم آسانی کے ساتھ گوہر مراد کو پاسکو-جس طرح قوم عاد، قومِ ثمود، قومِ لوط، قومِ شعیب اور دیگر اقوام کا ذکر کیا انہی میں سے ایک قومِ نوح ہے-

عصرِ حاضر کے حالات کے پیشِ نظر قومِ نوح کا ذکر کرنا زیادہ مناسب سمجھتاہوں کیونکہ اُمتِ مصطفےٰ(ﷺ) ہر قسم کے طوفان میں پھنس چکی ہے اور سفینہ نوح کی تلاش میں ہے-

شجرۂ نسب:

حضرت نوح علیہ السلام کا شجرہ نسب  نوح بن لاملک بن متوشلخ بن خنوخ بن یردبن مہلا ییل بن قینن بن الفرش بن شبت بن آدم ابو البشر (علیہ السلام)ہے-

ولادت:

’’ حضرت نوح (علیہ السلام) کی ولادت حضرت آدم (علیہ السلام) کی وفات  کے ایک سو چھبیس (۱۲۶) سال بعد ہوئی اور اہل کتاب کی تاریخ  میں مذکور ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک سو چھالیس(۱۴۶) سال کا عرصہ ہے‘‘-[2]

’’قال مقاتل اسمہ السکن وقیل الساکن وقال السدی انما سمی سکنا لان الارض سکنت بہ وقیل اسمہ عبد الغفار ذکرہ الطبری وسمی نوحا لکثرۃ نوحہ و بکانہ فسمی نوحا و بقال انہ نظر یوما الی کلب تبیع المنظر فقال مااقبح صدرۃ ھذا الکلب فانطقہ اللہ عزوجل وقال یا مسکین علی من عبت علی النقش او علی النقاش فان کان علی النقش فلو کان خلقی بیدی حسنۃ وان کان علی النقاش فالعیب علیہ اعتراض فی ملکہ نعلم ان اللہ تعالیٰ انطقہ فناح علی نفسہ ولکی اربعین سنۃ‘‘[3]

’’مقاتل نے کہا ہے کہ ان کانام السکن ہے ایک قول ہے کہ ان کانام الساکن ہے طبری نے کہا کہ ان کا نام عبدا لغفار ہے اور بہت زیادہ رونے کی وجہ سے ان کا نام نوح ہوگیا نوح کا معنی نوحہ کرنایعنی رونا –ایک دن انہوں نے کتے کو دیکھ کر دل میں کہا یہ کس قدر بد شکل ہےاللہ تعالیٰ نے اس کتے کو گویائی دی اس نے کہا اے مسکین!آپ نے کس پر عیب لگایا ہے نقش پر یا نقاش پر اگر نقش پر عیب ہے، اگر میرا بنانا میرے اختیار میں ہوتا تو میں خود کو حسین بنالیتا اگر نقاش پر عیب ہے تو وہ خوداللہ تعالیٰ ہے اور اس کی ملک پر اعتراض کرنا جائز نہیں –نوح (علیہ السلام)نے جان لیا کہ اس کتےکو اللہ تعالیٰ  نے گویائی دی ہے پھر وہ اپنے اس خیال میں چالیس(۴۰) سال تک روتے رہے‘‘-

’’تفسیر مظہری میں ہے کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ آپ (علیہ السلام ) کا نام شاکر ہے بعض کہتے ہیں آپ کا نام یشکر ہے‘‘[4]-

کان ابو انوح علیہ السلام مومنین و اسم امہ قیشوش بنت برکابیل[5]

’’نوح علیہ السلام کے ماں باپ دونوں مومن تھے اور ان کی والدہ کا نام قیشوش بنت برکابیل تھا‘‘-

حضرت نوح (علیہ السلام) کے والد کا نام شیث تھا- آپ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت مبعوث فرمایا جب بتوں کی عبادت اورشیطانوں کی  اطاعت شروع ہوچکی تھی-لوگ کفراور گمراہی میں مبتلا ہوچکے تھے تو یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کلام مقدس میں بارہا مقامات پر بتوں کی پوجا سے روکا گیا ہے اور ان کی مذمت اور بے بسی کا جابجا ذکر کیا گیا ہے کہ نفع اور نقصان کا تعلق ان سے نہیں اور نہ ہی یہ کسی کا نفع کرسکتے ہیں جب ان کی ماندگی کا یہ عالم ہے کہ اپنے اوپر سے مکھی کو بھی نہیں اُڑا سکتے تو تمہارا نفع اور نقصان کیا کرسکتے ہیں-تو اس کی ابتداء کیسے ہوئی ؟ابن جریر ؒ نے اپنی سند کے ساتھ محمد بن قیس سے روایت کی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام)کے درمیان کچھ نیک لوگ تھے اور ان کے پیروکار ان کی اقتداء کرتے تھے جب وہ نیک لوگ فوت ہوگئے تو ان کے پیروکاروں نے کہا کہ اگر ہم ان کی تصویریں بنائیں تو اس سے ہماری عبادت میں زیادہ ذوق اور شوق ہوگا سو انہوں نے اُن نیک لوگوں کی تصویریں بنادیں-جب وہ فوت ہوگئے اور ان کی دوسری نسل آئی تو ابلیس ملعون نے ان کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ ان کے آباء تصویروں کی عبادت کرتے تھے اور اسی سبب سے ان پر بارش ہوئی سو انہوں نے ان تصویروں کی عبادت کرنا شروع کردی-

وَد، یغوث، یعوق، سراغ، نسر ودان تمام نیک تھا-امام ابن حاتم ؒ نے امام باقر ؒ سے روایت کی کہ وَد ایک نیک شخص تھا اوروہ اپنی قوم میں بہت محبوب تھا-جب وہ فوت ہوگیا تو اس کی قوم کے لوگ بابل کی سرزمین میں اس کی قبر کے اردگرد بیٹھ کر روتے رہے-جب ابلیس نے ان کی آہ و بکاہ دیکھی تو وہ ایک انسان کی صورت میں متمثل ہوکر آیا اور کہنے لگا مَیں نے تمہارے رونے کو دیکھا ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ مَیں تمہارے لئے بت کی ایک تصویر بنادوں تم اپنی مجلس   میں اس تصویر کو دیکھ کر اسے یاد کیا کرو تو انہوں نے اس سے اتفاق کیا تو اس نے بت کی تصویر بنادی جس کو وہ اپنی مجلسوں میں رکھ کر اس کا ذکر کیا کرتے-جب ابلیس نے یہ منظر دیکھا تو کہا مَیں تم میں سے ہر ایک کے گھر بت کا ایک مجسمہ بناکر رکھ دوں تاکہ تم میں سے ہر شخص اپنے گھر میں بت کاذکر کیا کرے انہوں نے اس بات کو بھی مان لیا پھر ہر گھر میں وَد کا ایک بت بنا کر رکھ دیا گیا- پھر ان کی اولاد بھی یہی کچھ کرنے لگی پھر اس کے بعد ان کی جو بھی  نسلیں آئیں تو وہ بھول گئی کہ وَد ایک انسان تھا- وہ اس  کوخدا مان  کر اس کی عبادت کرنے لگیں -پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس بت کی پرستش شروع کردی -پس اللہ پاک کو چھوڑ کر جس بت کی سب سے پہلے پرستش شروع کی گئی وہ وَد نام کا بت تھا[6]-

اللہ تعالیٰ نے سورۃ نوح میں ان کے نام ذکر کئے گئے ہیں کہ:

’’وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا‘‘[7]

’’اور کہتے رہے کہ تم اپنے معبودوں کو مت چھوڑنا اور وَدّ اور سُوَاع اور یَـغُـوْث اور یَـعُـوْق اور نَـسْر (نامی بتوں) کو (بھی) ہرگز نہ چھوڑنا‘‘-

حافظ ابن عساکر(رضی اللہ عنہ)حضرت شیث علیہ السلام کے واقعہ میں حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت آدم( علیہ السلام) کے چالیس (۴۰)بچے تھے بیس (۲۰)بیٹے اور بیس (۲۰)بیٹیاں ان میں سے جنہوں  نے طویل عمر یں پائیں-ہابیل،قابیل ، صالح اور عبدالرحمٰن تھے جن کا پہلا نام عبدالحارث تھا آپ (علیہ السلام) کے ایک بیٹے وَد تھے جنہیں شیث اور’’ھبۃ اللہ‘‘ کہا جاتا تھا-تمام بھائیوں نے سیارت ان کے سپردکر رکھی تھی-سراع، یغوث، یعوق اور نسر ان کی اولاد تھی-ابن ابی حاتم میں حضرت عروہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) بیمار ہوئے توآپ کے پاس اس وقت پانچ(۵) بیٹے تھے-وَد، یغوث، یعوق، سواع اور نسر-وَد سب سے بڑا اور سب سے زیادہ فرمانبردار اور حسن سلوک والا تھا[8]-

عرب میں سب سے پہلے بت پرستی کا آغاز کرنے والا عمر و بن لحیّ بن قمعہ تھا-یہ ان لوگوں سے متاثر ہوا اس نے تین سو چالیس (۳۴۰)سال کی طویل  عمر پائی -کعبہ کی تولیت پانچ سو(۵۰۰) سال تک اس کے اور اس کی اولاد کے پاس رہی اور اس نے بت پرستی کو رواج دینے میں اپنی پوری کوششیں صرف کیں-کعبۃ اللہ جس کو حضرت خلیل (علیہ السلام) نے اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لئے تعمیر کیا تھا اسی بدبخت کے زمانے میں بت خانہ بنا-عرب کے مختلف قبائل کے ہاں جو بت تھے ان میں سے جن بتوں کو بڑی شہرت اور ناموری حاصل تھی وہ پانچ (۵)بت بھی تھے جن کے نام،وَد، سواع، یغوث، یعوق اور نسر تھے[9]-

جب زمین میں بت پرستی عام ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنا بندہ اور اپنے رسول حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھیجا-وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی  دعوت دیتے تھے اور ان کو غیر اللہ کی عبادت سے منع کرتے تھے اور حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے پہلے رسول ہیں جن کو زمین والوں کی طرف بھیجا گیا-حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو تبلیغ فرمائی کہ میری دعوت کے تین(۳) بنیادی اصول ہیں:

1) کفر و شرک چھوڑ دو ،اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرو اس سے تمہارے عقائد درست ہونگے، توہمات اور وسوسوں سے تمہاری عقلیں آزاد ہوں گی اور جب نورِ توحید چمکے گا تو تمہارا سینہ وادی ایمن بن جائے گا-

2) تم تقویٰ کو اپنا شعاربنا لو،جب تم متقی اور  پرہیز گار بن جاؤ گے تو فسق و فجور کی پالیدگیوں سے تمہارا دامن پاک ہوجائےگا ،ظلم و ستم ، لوٹ کھسوٹ، جھوٹ اور غیبت، خود غرضی اور حرص کا تمہارے معاشرے میں نام و نشان بھی باقی نہیں رہےگا -خود سوچو اس طرح تمہارے معاشرے میں کتنی خوش آئین تبدیلی رونما ہوگی-

3) تم میری اطاعت کرو ،تمہارے رب نے مجھے مرشد و رہنما بنا کر مبعوث فرمایا ہے میں تمہیں سیدھی راہ پر لے چلوں گا اور  منزل مراد تک پہنچادوں گا جب تم مجھے اپنا رہنما اور پیشوا تسلیم کرلوگے تو تم  میں انتشار اور طوائف الملوکی کی بجائے قومی اتحاد پیدا ہوجائےگا-تم منظم اور متحد ملت کی طرح قوت اور شوکت سے زندگی بسر کروگے[10]-

حضرت نوح (علیہ السلام) کے یہ وہ بنیادی اصول تھے جن کو بنظر غائر دیکھا جائے تو فساد و بربادی کی جو بنیادی وجہ ہے وہ حقیقتاً ان اصول کی خلاف ورزی ہے ،چہ جائے کہ وہ خلاف ورزی انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی طور پر-پہلا اصول وحدانیت،دوسرا تقویٰ اور تیسرا مرشد و رہنما کی اطاعت-ساتھ یہ بھی فرمادیا  کہ اگر ان اُصولوں کو اپنالو گے تو اس سےکیا حاصل ہو گا؟ چونکہ بنیادی طور پر آدمی ہر عمل کی جزاء کا متمنی ہوتا ہے اور جب اسے کہا جائے یہ کرو، وہ کرو تو فوراً اس کے دماغ  میں جوسوال پیدا ہوتا  ہےیا زبان سے ظاہر ہوتا ہےوہ یہی ہے کہ مجھے ایسا کرنے سےکیا حاصل ہوگا؟ تو فرمایا کہ اطاعت  اور فرمابنرداری کرو گےتو یہ  ثمرات ملیں گے کہ،تمہارے سابقہ گناہ معاف فرمادیے جائیں گے،گناہوں کی وجہ سے جو عذاب عنقریب تم پر نازل ہوا چاہتا تھا وہ ٹل جائے گا، تمہارے لئے دریا بہا دیا جائےگا،تم پر موسلا دھار بارش ہوگی، مال اور بیٹیوں سے تمہاری مدد ہوگی اورتمہارے لئے باغات اُگائے جائیں گے- لیکن افسوس! بجائے سرتسلیم خم ہونےکے اُنہوں نے آپ (علیہ السلام)کی ذا ت پرمزید تضحیک و تکذیب شروع کردی جس کو قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ  نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے:

’’فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِج وَمَا نَرٰی لَـکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍم بَلْ نَظُنُّکُمْ کٰذِبِیْنَ‘‘[11]

’’سو ان کی قوم کے کفر کرنے والے سرداروں اور وڈیروں نے کہا: ہمیں تو تم ہمارے اپنے ہی جیسا ایک بشر دکھائی دیتے ہو اور ہم نے کسی (معزز شخص) کو تمہاری پیروی کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے ہمارے (معاشرے کے) سطحی رائے رکھنے والے پست و حقیر لوگوں کے (جو بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے لگ گئے ہیں)، اور ہم تمہارے اندر اپنے اوپر کوئی فضیلت و برتری (یعنی طاقت و اقتدار، مال و دولت یا تمہاری جماعت میں بڑے لوگوں کی شمولیت الغرض ایسا کوئی نمایاں پہلو) بھی نہیں دیکھتے بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں‘‘-

1. گمراہی کی پہلی وجہ اللہ رب العزت کے محبوب بندوں کو ،مقرب بندوں کو  اورانیباء(علیہ السلام) کی جماعت مقدس کو اپنی طرح سمجھنا-

2. گمراہی کی دوسری وجہ پس ماندہ اور کمزور لوگوں کا ایمان لانا کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو اعلیٰ و مالدار لوگ ایمان لاتے -یہ تنگ دست  و مفلس جن کو نہ گھر میں کوئی جانتا ہے نہ قوم قبیلہ کے اندر ان کی کوئی حیثیت ہے اور نہ  معاشرہ میں لوگ ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں-معاذ اللہ! یہ سب سے بیکار اور مفلس لوگ ان کے پیروکار ہیں لہٰذا یہ حق پر نہیں ہیں لیکن ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ رب العزت نے یہ سعادت ہمیشہ ہمیشہ انہی غریب کم حیثیت اور ایسے مفلس لوگوں کے حصہ میں لکھ دی ہےجو تنگ دست و مفلس ہوں ، جن کا تعلق ایسے پیشے سے ہو جس کو معاشرہ میں نیچ و خبیس اور گھٹیا سمجھا جاتا ہو-احادیث مبارکہ میں ہے ابو سفیان بن حرب نے بیان کیا جس کی مدت میں ابو سفیان اور کفار قریش کا رسول اللہ (ﷺ) سے معاہدہ ہوا تھا-اس مدت میں وہ شام میں تجارت کے لئے گئے روم کے بادشاہ ہرقل نے ان کو اپنے  دربار میں بلایا اس وقت وہ ایلیا (بیت المقدس)میں تھے- اُس نے ایک ترجمان کو بُلا کر ابو سفیان سے آقا علیہ السلام کے متعلق چند سوال کیے ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کیا قوم کے معزز لوگ ان کی پیروی کررہے ہیں یا پسماندہ اور کمزور لوگ؟ ابو سفیان نے کہا پسماندہ اور کمزور لوگ ہر قل نے کہا ہمیشہ رسولوں کی پیروی پسماندہ اور کمزور لوگ ہی کرتے ہیں[12]-

3. حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا ہم اپنے اوپر تمہاری کوئی فضیلت نہیں سمجھتے ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ فضیلت کی وجہ مال و زر، جائیداد  و دنیا ہے یا علم و عمل-تو علم و عمل فضیلت کی وجہ ہے جب کہ وہ فضیلت کی بنیادی  وجہ کو بھی نہ سمجھ سکے-ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے قلوب پر مہر ِگمراہی ثبت کردی  جس کا نتیجہ یہ نکلا  کہ نو سو پچاس(۹۵۰) سال کی وعظ و نصیحت ان کے قفل شقاوت کو نہ کھول سکی-

جب درس توحید دیتے دیتے مدتیں گزر گئیں ان پر کوئی اثر نہ ہواتو اُن کی مخالفت اور دشمنی میں اضافہ ہوتا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے اطمینان کے لئے ان کی طرف وحی فرمائی کہ:جن کی قسمت میں دولتl ایمان تھی وہ ایمان لاچکے ان کے علاوہ ایمان نہیں لائیں گے اس لئے آپ (علیہ السلام)ان کے لئے غم زدہ نہ ہوں اب مہلت کی گھڑیاں  ختم ہونے والی ہیں ان کی تباہی کا مقررہ وقت آپہنچا ہے- کیونکہ علم الٰہی میں انہیں ایک عظیم سیلاب سے بلاک کرنا مقدر ہوچکا تھا اس لئے پہلے ہی اپنے نبی کو کشتی بنانے کا حکم دیا تاکہ اس دن استعمال کر سکے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہےکہ:

’’وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا‘‘[13]

’’اور ہمارے حکم کے مطابق ہمارے سامنے ایک کشتی بنائیے‘‘-

حکم ملتے ہی حضرت نوح (علیہ السلام) کمر بستہ ہوگئے ،لکڑی لائی جارہی ہے،اسے چیراجارہا ہے، تختے نکالے جارہے ہیں،دیگر ضروری چیزیں فراہم کی جارہی ہیں- آپ(علیہ السلام)  کل تک تو ایک وعظ و تذکیر کرنے میں مصروف و محو تھے اب تیشہ اور آری ہاتھ میں لئے دنیا و مافیہا سے بے خبر کشتی بنائی جارہی ہے -آپ (علیہ السلام) کے ہم وطنوں کو مذاق اور تمسخر کرنے کاایک انوکھا بہانہ مل گیا طرح طرح کی آوازیں آنےلگیں، حضرت کیا نبوت چھوڑکر بڑھئی بن گئے ہیں،صاحب کیا یہ کشتی خشکی میں چلے گی، یہاں تو کوئی دریا اور سمندر نہیں ،غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں- نبوت تعمیل ِ حکم  میں مصروف ہے،اللہ کے نبی نے کشتی تیار کردی اس کا طول و عرض کتنا تھا، اس کی بلندی کتنی تھی ،کھڑکیاں اور دروازےکتنے تھے،ان کی منزلیں کتنی تھیں، ان تمام تفصیلات کا عبرت پذیری سےکوئی تعلق نہیں- مختصراً وہ اتنی وسیع تھی کہ اس میں حضرت نوح علیہ السلام کا کُنبہ، آپ (علیہ السلام) کے پیروکار اور جانوروں کا جوڑا جوڑا سماسکتا تھا -جب کشتی تیار ہوگئی تو عذاب کامقررہ وقت بھی آگیا[14]-

جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہےکہ:

’’حَتّٰی اِذَا جَآئَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّـنُّوْرُ قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَط وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌ‘‘[15]

’’یہاں تک کہ جب ہمارا حکمِ (عذاب) آ پہنچا اور تنور (پانی کے چشموں کی طرح) جوش سے اُبلنے لگا (تو) ہم نے فرمایا: (اے نوح!) اس کشتی میں ہر جنس میں سے (نر اور مادہ) دو عدد پر مشتمل جوڑا سوار کر لو اور اپنے گھر والوں کو بھی (لے لو) سوائے ان کے جن پر (ہلاکت کا) فرمان پہلے صادر ہو چکا ہے اور جو کوئی ایمان لے آیا ہے (اسے بھی ساتھ لے لو)، اور چند (لوگوں) کے سوا ان کے ساتھ کوئی ایمان نہیں لایا تھا‘‘-

یہاں تنور کی وضاحت  کرتا چلوں کہ حضرت ابن عباس(رضی اللہ عنہ) ،حضرت حسن بصری (رضی اللہ عنہ)اور حضرت مجاہد تابعی (رضی اللہ عنہ)کا قول ہے کہ تنور سے مراد روٹی پکانے والا تنور ہے-پھر ان کا اختلاف ہے، بعض نے کہا یہ حضرت نوح علیہ السلام کا تنور تھا، بعض نے کہا یہ حضرت آدم علیہ السلام کا تنور تھا اور بعض نے کہا یہ حضرت حوا(علیہا السلام) کا تنور تھا-پھر اس کی جگہ میں اختلاف ہے ،امام شعبی ؒ فرماتے ہیں کہ  یہ کوفہ کی ایک جانب تھا، حضرت علی پاک(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں  کہ یہ کوفہ کی ایک مسجد میں تھا اور اس مسجد میں ستّر(۷۰) انبیاء(علیہ السلام) نے نماز ادا کی تھی- ایک قول  یہ  ہے کہ شام میں ایک جگہ پر تنور تھا جس کا نام عین الوردان ہے-ایک قول یہ ہے کہ یہ تنور ہند میں تھا-ایک قول یہ ہے کہ تنور سے مراد مسلح زمین ہے اور عرب میں سطح زمین کو تنور کہتے ہیں[16]-

امام بغوی ؒ نے  امام عکرمہ ؒ اور امام زہری ؒ سے روایت کی ہے کہ تنور سےمراد سطح زمین ہے- حضرت قتادہ (رضی اللہ عنہ) نے کہاتنور سے زمین کے بلند ٹیلے مراد ہیں- حضرت سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) کا ایک قول ہے کہ تنور کا معنی صبح کا طلوع ہونا ہے[17]-

جب حضرت نوح (علیہ السلام) کشتی سے اُترے ان کی اولاد کے علاوہ دوسرے مسلمان جو اس کشتی میں سوار تھے وہ سب کشتی میں فوت ہوچکے تھے اس طوفان کے بعد جو نسل انسانی دنیا میں پھیلی وہ سب حضرت نوح (علیہ السلام) کی زریت تھی جیسا کہ فرمان ِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَنَجَّیْنٰـہُ وَاَھْلَہٗ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِo وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّـتَـہٗ ھُمُ الْبٰـقِیْنَo وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَo سَلٰمٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعٰـلَمِیْنَo‘‘[18]

’’اور ہم نے اُنہیں اور اُن کے گھر والوں کو سخت تکلیف سے بچالیااور ہم نے فقط اُن ہی کی نسل کو باقی رہنے والا بنایااور پیچھے آنے والوں (یعنی انبیاء و امم) میں ہم نے ان کا ذکرِ خیر باقی رکھا-سلام ہو نوح پر سب جہانوں میں‘‘-

یہ عذاب طوفانِ نوح کی صورت میں قومِ نوح پر آیا اوران کا نام و نشان صفاء ہستی سے مٹا کر رکھ دیا حتیٰ کہ چند ایک افراد کے علاوہ کوئی روئے زمین پر زندہ نہ رہااوراس عظیم طوفان اور عذابِ خداوندی سے نجات صرف اس نے پائی جوکشتی میں سوارہوگیا-توجہ طلب امر یہ ہےکہ کشتی میں سوار کون کون تھے؟تو قرآن مقدس نے فرمایا ہر نر اور مادہ کے جوڑوں  کوسوار کر لو تو جو نراورمادہ اس کشتی میں سوار ہوئے،  تو اکثر ان میں وہ تھے جن میں فطرتی عداوت، جس میں بغض و عناد ہے جو ان کے اکھٹے رہنے کے لئے مانع ہے مثلاً شیر، گائے،بھیڑیے، بکری، بلی،کبوتر جب کہ کشتی ایک ہے تو پھر وہ کیسے رہے؟اُن کی اتنی عداوت الفت میں،حسد،تکبر،بغض، عناد کیسے شفقت و محبت میں بدل گیا؟درحقیقت جتنی بھی فطرتی  عداوتیں، دشمنیاں اور دوریاں تھیں فقط اس کشتی کی برکت کی وجہ سے شفقت و محبت میں تبدیل ہوگئیں اور وہ ایک دوسرے کے لئےنقصان پہنچانے کی بجائے نفع رساں ثابت ہوئے-یہ جتنی بھی فطرتی عداوتیں، دشمنیاں اور بغض و عناد ہیں یہ سب محبت و الفت میں بدل سکتے ہیں لیکن ان کے لئے شرط صرف و صرف سفینہ نوح ہے-کیونکہ نجات بھی انہی لوگوں نے پائی  جو اس کشتی میں موجود تھے- اب ہمارے درمیان یہ جو طوفان چل رہے ہیں مثلاً قتل و غارت،بغض و عناد، حرص و حسد،چوری ڈاکہ،سنگ دلی و بے رحمی،بے حیائی و بے راہ روی، قوم پرستی، مال و جاہ، اعلیٰ و ادنیٰ اورامیر و غریب ان سے آدمی کب نجات پائے گا؟توفرمایا ان کے لئے شرط صرف و صرف سفینہ نوح ہے – جیسا کہ شہبازِ عارفاں،سلطان الاولیاء، مرشد اکمل محبوب سلطانی حضرت سلطان سید محمد بہادرعلی شاہ صاحب (قدس اللہ سرّہٗ ) فرماتے ہیں:

زیان کرے شیطان تنہاں جیہڑے مرشد نوں بَہندے وسار بیلی
ہوئے غرق طوفان، کنعان وانگوں، کیتے نفس خبیث خوار بیلی
صورت پیر دی کشتی امان میاں ہو سوار نہ رکھ افکار بیلی
سلطاں سید محمد بہادر شاہؒ رفیق تحقیق ہویا سوہنا ہادی غفور غفار بیلی

یعنی دُنیا طوفان ہے ، شیطان بھٹکانے والا ہے ، مرشد و رہبر سفینۂ نوح ہے ، جس نے رہبر و مرشد کی پیروی چھوڑی وہ کنعان کی طرح ہلاک ہوا ۔ اُس طوفان سے محفوظ وہی رہے جو سفینہ نوح میں سوار ہوگئے کیونکہ اُس وقت نجات کا ذریعہ سفینہ نوح ہی تھی-تاریخ عالم کو پڑھ کر دیکھیں بچے وہی،منزل تک وہی پہنچے جو کشتی میں سوار ہوئے جو رہ گئے وہ ہلاک ہوگئے-اس لئےاگر ہم عصر حاضر کے طوفانوں سے جان بچا کر منزل تک پہنچنا چاہتےہیں  تو آئیں سفینہ نوح میں سوار ہوکر اپنے آپ کو محفوظ کرلیں کیونکہ اس کےعلاوہ کوئی راہِ نجات کا ذریعہ نہیں-  اِصلاحی جماعت کی دعوت اُسی راہِ نجات و راہِ فلاح کی جانب ہے جس میں ہماری قومی و ملی بقا ہے ، یہ جماعت اور اس کے سرپرستِ اعلیٰ جانشینِ سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد علی صاحب اسی سفینۂ نوح کی طرف بُلاتے ہیں کہ آئیں اور اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کریں تاکہ ہم بھی قومِ نوح کی طرح نشانِ عبرت بننے سے بچ جائیں-

٭٭٭


[1](یوسف:۱۱۱)

[2](تبیان القرآن،جلد:۴،ص:۱۹۰)

[3](عمدۃ القاری شرح صحیح الخاری الجز الخامس عشر،ص:۲۹۹)

[4](تفسری مظہری،جلد:۳،ص:۲۹۸)

[5](عمدۃ القاری،جلد:۱۵،ص:۲۹۸)

[6](تبیان القرآن،جلد،۴،ص:۱۹۱)

[7](نوح:۲۳)

[8](تفسیر ابن کثیر، جلد:۴،ص:۷۲۸)

[9](ضیاء القرآن،جلد:۲،ص:۳۸۰)

[10](ضیاء القرآن،جلد:۵، ص:۳۷۴)

[11](ھود:۲۷)

[12](نعمۃ الباری، کتاب الومی،جلد:۱، ص۱۵۰)

[13](ھود:۳۷)

[14](ضیاء القرآن، جلد:۲،ص:۳۵۹)

[15](ھود:۴۰)

[16](تبیان القرآن،جلد:۵،صـ۵۴۶)

[17](ضیاء القرآن، جلد:۲، ص:۳۶۱)

[18](الصافات:۷۶-۷۹)

’’ لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ‘‘[1]

’’بے شک ان کے قصوں میں سمجھداروں کے لیے عبرت ہے ‘‘-

اللہ تعالیٰ نے جن اُمتوں  کوعبرت بنایاان کے متعلق ہمیں بارہا آگاہ کیا،ان کے تذکرے کیے،ان کے اعمال،ان کی عادات و خصائل کو بیان کیا تاکہ اُمتِ مصطفےٰ (ﷺ) ان سے نصیحت و سبق حاصل کرے-یعنی ان جیسے  برےافعال کو چھوڑدو نیک افعال کو اپنا لو تاکہ تم آسانی کے ساتھ گوہر مراد کو پاسکو-جس طرح قوم عاد، قومِ ثمود، قومِ لوط، قومِ شعیب اور دیگر اقوام کا ذکر کیا انہی میں سے ایک قومِ نوح ہے-

عصرِ حاضر کے حالات کے پیشِ نظر قومِ نوح کا ذکر کرنا زیادہ مناسب سمجھتاہوں کیونکہ اُمتِ مصطفےٰ(ﷺ) ہر قسم کے طوفان میں پھنس چکی ہے اور سفینہ نوح کی تلاش میں ہے-

شجرۂ نسب:

حضرت نوح علیہ السلام کا شجرہ نسب  نوح بن لاملک بن متوشلخ بن خنوخ بن یردبن مہلا ییل بن قینن بن الفرش بن شبت بن آدم ابو البشر (علیہ السلام)ہے-

ولادت:

’’ حضرت نوح (علیہ السلام) کی ولادت حضرت آدم (علیہ السلام) کی وفات  کے ایک سو چھبیس (۱۲۶) سال بعد ہوئی اور اہل کتاب کی تاریخ  میں مذکور ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک سو چھالیس(۱۴۶) سال کا عرصہ ہے‘‘-[2]

’’قال مقاتل اسمہ السکن وقیل الساکن وقال السدی انما سمی سکنا لان الارض سکنت بہ وقیل اسمہ عبد الغفار ذکرہ الطبری وسمی نوحا لکثرۃ نوحہ و بکانہ فسمی نوحا و بقال انہ نظر یوما الی کلب تبیع المنظر فقال مااقبح صدرۃ ھذا الکلب فانطقہ اللہ عزوجل وقال یا مسکین علی من عبت علی النقش او علی النقاش فان کان علی النقش فلو کان خلقی بیدی حسنۃ وان کان علی النقاش فالعیب علیہ اعتراض فی ملکہ نعلم ان اللہ تعالیٰ انطقہ فناح علی نفسہ ولکی اربعین سنۃ‘‘[3]

’’مقاتل نے کہا ہے کہ ان کانام السکن ہے ایک قول ہے کہ ان کانام الساکن ہے طبری نے کہا کہ ان کا نام عبدا لغفار ہے اور بہت زیادہ رونے کی وجہ سے ان کا نام نوح ہوگیا نوح کا معنی نوحہ کرنایعنی رونا –ایک دن انہوں نے کتے کو دیکھ کر دل میں کہا یہ کس قدر بد شکل ہےاللہ تعالیٰ نے اس کتے کو گویائی دی اس نے کہا اے مسکین!آپ نے کس پر عیب لگایا ہے نقش پر یا نقاش پر اگر نقش پر عیب ہے، اگر میرا بنانا میرے اختیار میں ہوتا تو میں خود کو حسین بنالیتا اگر نقاش پر عیب ہے تو وہ خوداللہ تعالیٰ ہے اور اس کی ملک پر اعتراض کرنا جائز نہیں –نوح (علیہ السلام)نے جان لیا کہ اس کتےکو اللہ تعالیٰ  نے گویائی دی ہے پھر وہ اپنے اس خیال میں چالیس(۴۰) سال تک روتے رہے‘‘-

’’تفسیر مظہری میں ہے کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ آپ (علیہ السلام ) کا نام شاکر ہے بعض کہتے ہیں آپ کا نام یشکر ہے‘‘[4]-

کان ابو انوح علیہ السلام مومنین و اسم امہ قیشوش بنت برکابیل[5]

’’نوح علیہ السلام کے ماں باپ دونوں مومن تھے اور ان کی والدہ کا نام قیشوش بنت برکابیل تھا‘‘-

حضرت نوح (علیہ السلام) کے والد کا نام شیث تھا- آپ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت مبعوث فرمایا جب بتوں کی عبادت اورشیطانوں کی  اطاعت شروع ہوچکی تھی-لوگ کفراور گمراہی میں مبتلا ہوچکے تھے تو یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کلام مقدس میں بارہا مقامات پر بتوں کی پوجا سے روکا گیا ہے اور ان کی مذمت اور بے بسی کا جابجا ذکر کیا گیا ہے کہ نفع اور نقصان کا تعلق ان سے نہیں اور نہ ہی یہ کسی کا نفع کرسکتے ہیں جب ان کی ماندگی کا یہ عالم ہے کہ اپنے اوپر سے مکھی کو بھی نہیں اُڑا سکتے تو تمہارا نفع اور نقصان کیا کرسکتے ہیں-تو اس کی ابتداء کیسے ہوئی ؟ابن جریر(﷫) نے اپنی سند کے ساتھ محمد بن قیس سے روایت کی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام)کے درمیان کچھ نیک لوگ تھے اور ان کے پیروکار ان کی اقتداء کرتے تھے جب وہ نیک لوگ فوت ہوگئے تو ان کے پیروکاروں نے کہا کہ اگر ہم ان کی تصویریں بنائیں تو اس سے ہماری عبادت میں زیادہ ذوق اور شوق ہوگا سو انہوں نے اُن نیک لوگوں کی تصویریں بنادیں-جب وہ فوت ہوگئے اور ان کی دوسری نسل آئی تو ابلیس ملعون نے ان کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ ان کے آباء تصویروں کی عبادت کرتے تھے اور اسی سبب سے ان پر بارش ہوئی سو انہوں نے ان تصویروں کی عبادت کرنا شروع کردی-

وَد، یغوث، یعوق، سراغ، نسر ودان تمام نیک تھا-امام ابن حاتم (﷫)نے امام باقر (﷫)سے روایت کی کہ وَد ایک نیک شخص تھا اوروہ اپنی قوم میں بہت محبوب تھا-جب وہ فوت ہوگیا تو اس کی قوم کے لوگ بابل کی سرزمین میں اس کی قبر کے اردگرد بیٹھ کر روتے رہے-جب ابلیس نے ان کی آہ و بکاہ دیکھی تو وہ ایک انسان کی صورت میں متمثل ہوکر آیا اور کہنے لگا مَیں نے تمہارے رونے کو دیکھا ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ مَیں تمہارے لئے بت کی ایک تصویر بنادوں تم اپنی مجلس   میں اس تصویر کو دیکھ کر اسے یاد کیا کرو تو انہوں نے اس سے اتفاق کیا تو اس نے بت کی تصویر بنادی جس کو وہ اپنی مجلسوں میں رکھ کر اس کا ذکر کیا کرتے-جب ابلیس نے یہ منظر دیکھا تو کہا مَیں تم میں سے ہر ایک کے گھر بت کا ایک مجسمہ بناکر رکھ دوں تاکہ تم میں سے ہر شخص اپنے گھر میں بت کاذکر کیا کرے انہوں نے اس بات کو بھی مان لیا پھر ہر گھر میں وَد کا ایک بت بنا کر رکھ دیا گیا- پھر ان کی اولاد بھی یہی کچھ کرنے لگی پھر اس کے بعد ان کی جو بھی  نسلیں آئیں تو وہ بھول گئی کہ وَد ایک انسان تھا- وہ اس  کوخدا مان  کر اس کی عبادت کرنے لگیں -پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس بت کی پرستش شروع کردی -پس اللہ پاک کو چھوڑ کر جس بت کی سب سے پہلے پرستش شروع کی گئی وہ وَد نام کا بت تھا[6]-

اللہ تعالیٰ نے سورۃ نوح میں ان کے نام ذکر کئے گئے ہیں کہ:

’’وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا‘‘[7]

’’اور کہتے رہے کہ تم اپنے معبودوں کو مت چھوڑنا اور وَدّ اور سُوَاع اور یَـغُـوْث اور یَـعُـوْق اور نَـسْر (نامی بتوں) کو (بھی) ہرگز نہ چھوڑنا‘‘-

حافظ ابن عساکر (﷫)حضرت شیث علیہ السلام کے واقعہ میں حضرت ابن عباس (﷠) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت آدم( علیہ السلام) کے چالیس (۴۰)بچے تھے بیس (۲۰)بیٹے اور بیس (۲۰)بیٹیاں ان میں سے جنہوں  نے طویل عمر یں پائیں-ہابیل،قابیل ، صالح اور عبدالرحمٰن تھے جن کا پہلا نام عبدالحارث تھا آپ (علیہ السلام) کے ایک بیٹے وَد تھے جنہیں شیث اور’’ھبۃ اللہ‘‘ کہا جاتا تھا-تمام بھائیوں نے سیارت ان کے سپردکر رکھی تھی-سراع، یغوث، یعوق اور نسر ان کی اولاد تھی-ابن ابی حاتم میں حضرت عروہ بن زبیر (﷫) فرماتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) بیمار ہوئے توآپ کے پاس اس وقت پانچ(۵) بیٹے تھے-وَد، یغوث، یعوق، سواع اور نسر-وَد سب سے بڑا اور سب سے زیادہ فرمانبردار اور حسن سلوک والا تھا[8]-

عرب میں سب سے پہلے بت پرستی کا آغاز کرنے والا عمر و بن لحیّ بن قمعہ تھا-یہ ان لوگوں سے متاثر ہوا اس نے تین سو چالیس (۳۴۰)سال کی طویل  عمر پائی -کعبہ کی تولیت پانچ سو(۵۰۰) سال تک اس کے اور اس کی اولاد کے پاس رہی اور اس نے بت پرستی کو رواج دینے میں اپنی پوری کوششیں صرف کیں-کعبۃ اللہ جس کو حضرت خلیل (علیہ السلام) نے اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لئے تعمیر کیا تھا اسی بدبخت کے زمانے میں بت خانہ بنا-عرب کے مختلف قبائل کے ہاں جو بت تھے ان میں سے جن بتوں کو بڑی شہرت اور ناموری حاصل تھی وہ پانچ (۵)بت بھی تھے جن کے نام،وَد، سواع، یغوث، یعوق اور نسر تھے[9]-

جب زمین میں بت پرستی عام ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنا بندہ اور اپنے رسول حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھیجا-وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی  دعوت دیتے تھے اور ان کو غیر اللہ کی عبادت سے منع کرتے تھے اور حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے پہلے رسول ہیں جن کو زمین والوں کی طرف بھیجا گیا-حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو تبلیغ فرمائی کہ میری دعوت کے تین(۳) بنیادی اصول ہیں:

1)              کفر و شرک چھوڑ دو ،اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرو اس سے تمہارے عقائد درست ہونگے، توہمات اور وسوسوں سے تمہاری عقلیں آزاد ہوں گی اور جب نورِ توحید چمکے گا تو تمہارا سینہ وادی ایمن بن جائے گا-

2)              تم تقویٰ کو اپنا شعاربنا لو،جب تم متقی اور  پرہیز گار بن جاؤ گے تو فسق و فجور کی پالیدگیوں سے تمہارا دامن پاک ہوجائےگا ،ظلم و ستم ، لوٹ کھسوٹ، جھوٹ اور غیبت، خود غرضی اور حرص کا تمہارے معاشرے میں نام و نشان بھی باقی نہیں رہےگا -خود سوچو اس طرح تمہارے معاشرے میں کتنی خوش آئین تبدیلی رونما ہوگی-

3)              تم میری اطاعت کرو ،تمہارے رب نے مجھے مرشد و رہنما بنا کر مبعوث فرمایا ہے میں تمہیں سیدھی راہ پر لے چلوں گا اور  منزل مراد تک پہنچادوں گا جب تم مجھے اپنا رہنما اور پیشوا تسلیم کرلوگے تو تم  میں انتشار اور طوائف الملوکی کی بجائے قومی اتحاد پیدا ہوجائےگا-تم منظم اور متحد ملت کی طرح قوت اور شوکت سے زندگی بسر کروگے[10]-

حضرت نوح (علیہ السلام) کے یہ وہ بنیادی اصول تھے جن کو بنظر غائر دیکھا جائے تو فساد و بربادی کی جو بنیادی وجہ ہے وہ حقیقتاً ان اصول کی خلاف ورزی ہے ،چہ جائے کہ وہ خلاف ورزی انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی طور پر-پہلا اصول وحدانیت،دوسرا تقویٰ اور تیسرا مرشد و رہنما کی اطاعت-ساتھ یہ بھی فرمادیا  کہ اگر ان اُصولوں کو اپنالو گے تو اس سےکیا حاصل ہو گا؟ چونکہ بنیادی طور پر آدمی ہر عمل کی جزاء کا متمنی ہوتا ہے اور جب اسے کہا جائے یہ کرو، وہ کرو تو فوراً اس کے دماغ  میں جوسوال پیدا ہوتا  ہےیا زبان سے ظاہر ہوتا ہےوہ یہی ہے کہ مجھے ایسا کرنے سےکیا حاصل ہوگا؟ تو فرمایا کہ اطاعت  اور فرمابنرداری کرو گےتو یہ  ثمرات ملیں گے کہ،تمہارے سابقہ گناہ معاف فرمادیے جائیں گے،گناہوں کی وجہ سے جو عذاب عنقریب تم پر نازل ہوا چاہتا تھا وہ ٹل جائے گا، تمہارے لئے دریا بہا دیا جائےگا،تم پر موسلا دھار بارش ہوگی، مال اور بیٹیوں سے تمہاری مدد ہوگی اورتمہارے لئے باغات اُگائے جائیں گے- لیکن افسوس! بجائے سرتسلیم خم ہونےکے اُنہوں نے آپ (علیہ السلام)کی ذا ت پرمزید تضحیک و تکذیب شروع کردی جس کو قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ  نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے:

’’فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِج وَمَا نَرٰی لَـکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍم بَلْ نَظُنُّکُمْ کٰذِبِیْنَ‘‘[11]

’’سو ان کی قوم کے کفر کرنے والے سرداروں اور وڈیروں نے کہا: ہمیں تو تم ہمارے اپنے ہی جیسا ایک بشر دکھائی دیتے ہو اور ہم نے کسی (معزز شخص) کو تمہاری پیروی کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے ہمارے (معاشرے کے) سطحی رائے رکھنے والے پست و حقیر لوگوں کے (جو بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے لگ گئے ہیں)، اور ہم تمہارے اندر اپنے اوپر کوئی فضیلت و برتری (یعنی طاقت و اقتدار، مال و دولت یا تمہاری جماعت میں بڑے لوگوں کی شمولیت الغرض ایسا کوئی نمایاں پہلو) بھی نہیں دیکھتے بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں‘‘-

1.              گمراہی کی پہلی وجہ اللہ رب العزت کے محبوب بندوں کو ،مقرب بندوں کو  اورانیباء(﷩) کی جماعت مقدس کو اپنی طرح سمجھنا-

2.              گمراہی کی دوسری وجہ پس ماندہ اور کمزور لوگوں کا ایمان لانا کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو اعلیٰ و مالدار لوگ ایمان لاتے -یہ تنگ دست  و مفلس جن کو نہ گھر میں کوئی جانتا ہے نہ قوم قبیلہ کے اندر ان کی کوئی حیثیت ہے اور نہ  معاشرہ میں لوگ ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں-معاذ اللہ! یہ سب سے بیکار اور مفلس لوگ ان کے پیروکار ہیں لہٰذا یہ حق پر نہیں ہیں لیکن ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ رب العزت نے یہ سعادت ہمیشہ ہمیشہ انہی غریب کم حیثیت اور ایسے مفلس لوگوں کے حصہ میں لکھ دی ہےجو تنگ دست و مفلس ہوں ، جن کا تعلق ایسے پیشے سے ہو جس کو معاشرہ میں نیچ و خبیس اور گھٹیا سمجھا جاتا ہو-احادیث مبارکہ میں ہے ابو سفیان بن حرب نے بیان کیا جس کی مدت میں ابو سفیان اور کفار قریش کا رسول اللہ (ﷺ) سے معاہدہ ہوا تھا-اس مدت میں وہ شام میں تجارت کے لئے گئے روم کے بادشاہ ہرقل نے ان کو اپنے  دربار میں بلایا اس وقت وہ ایلیا (بیت المقدس)میں تھے- اُس نے ایک ترجمان کو بُلا کر ابو سفیان سے آقا علیہ السلام کے متعلق چند سوال کیے ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کیا قوم کے معزز لوگ ان کی پیروی کررہے ہیں یا پسماندہ اور کمزور لوگ؟ ابو سفیان نے کہا پسماندہ اور کمزور لوگ ہر قل نے کہا ہمیشہ رسولوں کی پیروی پسماندہ اور کمزور لوگ ہی کرتے ہیں

واپس اوپر