سلطان سیدمحمدبہادرعلی شاہ ؒ

سلطان سیدمحمدبہادرعلی شاہ ؒ

سلطان سیدمحمدبہادرعلی شاہ ؒ

مصنف: افضل عباس خان فروری 2016

آباؤ اجداد     :-

سلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلۂ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی اولاد میں سے حضرت اِمام موسیٰ کاظم(رض) سے جاملتا ہے - حضرت سیّد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہ نسب یوں درج ہے :

سیّد بہادر شاہ ولدسیّد فتح شاہ ولدسیّد شرف ولد سیّد کمال ولدسیّد گل محمد ولدسیّد کریم ولدسیّد فتح محمد ولدسیّدمالی شاہ ولدسیّد سجاد ولدسیّد ملہیوشاہ ولد سیّد حبیب اللہ ولدسیّد غالب ولدسیّد عبدالرحمٰن ولدسیّد محمد یوسف ولدسیّد محمد فاروق ولدسیّد ریاض الدین ولد سیّد شہاب الدّین ولدسیّد محمد فخرالدّین ولدسیّد سلطان غیاث الدّین شاہ ولدسیّد ابو القاسم حسین ولد سیّد محمد امیر ولدسیّد عبدالرحمٰن ولد سیّد محمد شانی ولدسیّد اسحاق ثانی ولدسیّد موسیٰ زاہد اَبی الحسن ولد سیّد شاہ عالم اَبی الحسن ولدسیّد قاسم علیہم الرحمہ ولدسیّد محمداوّل ابو عبداللہ ولد سیّد اسحاق موافق(رض) ولد سیّد اِمام موسیٰ کاظم (رض) ولدسیّد اِمام جعفر صادق ولدسیّد اِمام محمد باقر (رض) ولدسیّد نا اِمام عالی مقام اِمام حسین (رض) ولد حضرت علی المرتضی(رض) شیرِ خدا-

شہبازِ عارفاں سلطان الاو لیائ محبوبِ سلطانی حضر ت سخی سیّد سلطان محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہ حضرت اِمام موسیٰ کاظم (رض) سے ملتا ہے اوراُن کی رہائش ایران کے شہر مشہد میں تھی اِسی نسبت سے حضور پیر صاحب کاظمی المشہدی سیّد ہیں آپ کا شجرۂ نسب ۶۳ پشت میں حضرت علی (رض) سے جاکرملتا ہے-

آپ (رض) کے آباؤ اَجداد ایران سے برصغیر پاک وہند میں تشریف لائے اُس وقت برصغیر پاک وہند میں اَمیر تیمور کا زمانہ تھا- آپ رحمۃ اللہ علیہ سے ۱۲ پشت اوپرسیّد ابولقاسم وہ بزرگ تھے جو سب سے پہلے ایران سے برصغیر میں تشریف لائے - آپ کی اولاد نے ملتان ،چکوال اور جہلم کے اَضلاع میں رہائش رکھی جن علاقوں میں آپ کے آباؤ اَجداد نے رہائش رکھی ان میںڈنگی ڈہری ، کرسُیال سید قصراںاور ڈہری سیداں مشہور بستیاں ہیں- جہاں آج بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد رہائش پذیر ہے-شہبازِ عارفاں محبوبِ سلطانی سخی سید محمد بہادر علی شاہ کے آبائو اَجداد میں سے بعض ڈیرہ غازی خان میں بھی رہائش پذیر ہیں اُن کے مزارات آج بھی دریائے سندھ کے درمیان میں واقع ہیں اور دریاان مزارات کے آس پاس سے گزر رہا ہے -آپ رحمۃ اللہ علیہ کے آبائو اجداد میں سے پندرہ پشت اوپر’’ شیر محمد شاہ ‘‘ تلہ گنگ سے ڈہری سیداں پر تشریف لائے جو کہ تحصیل چوآ سیّدن شاہ ضلع چکوال کا علاقہ ہے- آپ کی وفات کے بعد یہ علاقہ ڈہری سیداں سے مشہور ہوا-اس کے بعد ڈہری سیداں سے سیّد عظیم شاہ کے دوبیٹوں گل محمد شاہ اور بڈھے شاہ صاحب نے سترھویں صدی عیسوی میں موضع حسو والی تحصیل شور کوٹ ضلع جھنگ میں ہجرت کی-

بعض روایات کے مطابق آپ کے بزرگوں میں سیّد گل محمد شاہ رحمۃ اللہ علیہ اُس وقت سرکاری فوج میں ملازم تھے اور اپنے لشکر سے واپس اپنے گھر ڈہر ی سیداں جارہے تھے - راستے میںشام ڈھلنے پر حسّو والی کے سیالوں کے پاس رات رہنے کیلئے رک گئے ،اس وقت سیال قوم کی کاٹھیہ قوم سے لڑائی چل رہی تھی - سیال قوم نے درخواست کی کہ اگر آپ رحمۃ اللہ علیہ مستقل ہمارے پاس رہائش رکھ لیں تو کاٹھیہ قوم ہم پر حملہ آور نہ ہو گی - چنانچہ سیالوں کی یہ درخواست آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بزرگ گل محمد شاہ نے قبول کرلی اور ڈہری سیداں سے اَپنے بچے لے کر موضع حسّو والی میں رہائش رکھ لی-آج بھی موضع حسّو والی میں آپ کا خاندان آباد ہے- آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم سید فتح محمد شاہ او ر آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی حافظ محمد عالم رحمۃ اللہ علیہ کے مزارات تحصیل شور کوٹ ضلع جھنگ کے پیر لعلن شاہ والے قبرستان میں واقع ہیں -

والدین:-

شہبازِ عارفاں محبوب ِسلطانی سخی سلطان سیّد محمد بہادرعلی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی کا نام سیّد فتح شاہ صاحب ہے- آپ رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش موضع حسّووالی میں ہوئی- آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم اِنتہائی نیک پار سا اورصوفی با صفاعالم تھے -شریعت محمدی ﷺ کی پابندی فرماتے - اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خاص خیال رکھتے - ایک روایت کے مطابق آپ کے والد محترم سید فتح شاہ صاحب کی ایک بھینس رسی تڑوا کر پڑوسیوں کا چارا کھا گئی-شام کو جب آپ کو اس کا علم ہو تو آپ نے اپنی بھینس کا دودھ یہ کہہ کر پڑوسیوں کے گھر بھجوا دیا کہ بھینس نے چارا آپ کا کھایا ہے اِس لئے اِس دودھ پر بھی آپ کا حق ہے اور یہ دودھ میرے بچوں پر جائز نہیں ہے - یعنی آپ کے والد گرامی نے آپ کی پرورش ایسے فرمائی کہ اس میں کسی دوسرے کا مال یا حق شامل نہ تھا-

 

آپ کے والد محترم ملتان کے مولانا عبیداللہ ملتانی کے مرید تھے-آپ نے اپنے بچوں کو رائج الوقت اعلیٰ تعلیم دِلوائی جس سے یہ اَندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ محترم کو علم واَدب سے کافی لگائو تھا- آپ کے والدِ محترم اکثر مزارات پربھی باطنی علم کے حصول کے لئے تشریف لے جاتے -آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد ِمحترم کھیتی باڑی بھی کرتے اور آپ کو مطالعہ ِ کتب کا بھی شوق تھا -دربار سلطان العارفین پر حاضری بھی باقاعدگی سے دیتے تھے- آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک پیر لعلن شاہ والے قبر ستان شور کوٹ میں ہے -

پیدائش:-

شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان سیّد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش موضع حسّو والی ہوئی -بعض روایا ت میں ۹۰۸۱ ئ اور بعض روایات میں ۱۰۸۱ ئ درج ہے لیکن سب آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخِ وفات پر متفق ہیں، سینہ بہ سینہ چلتی روایات کے پیشِ نظر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی عمر مبارک ایک سو تیس سال سے زیادہ بتائی جاتی ہے اگر تو ان روایات کو جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں کے مطابق آپ رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ۱۰۸۱ئ بنتی ہے-

ابتدائی تعلیم:-

 شہبازِ عارفا ں محبوبِ سلطانی سخی سلطان محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ ایک علمی گھرانہ میں پیدا ہوئے -آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد ِمحترم نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت خا لصتاً مذہبی بنیادوں پر کی -شہبازِ عارفاں سخی سلطان بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو گھر میں نہایت دِینی اور پاکیزہ ماحول ملا -اس ماحول اور بزرگوں کی محبت کی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا رُجحان شروع ہی سے دِین کی طرف ہوگیا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کے والددِینی علوم سکھانے کیلئے اپنے مرشد سیّد مولانا محمد عبید اللہ شاہ کے مدرسہ جو کہ ملتان میں واقع تھا -مدرسہ میں چھوڑنے کیلئے گھر سے روانہ ہوئے، یہاں اس بات کا ذکر بھی کرتا جاؤں کہ ُاس وقت یعنی اُنیسویں ﴿۹۱﴾صدی کے شروع کا دَور تھا اور معاشرے میں فاضل و عالم کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا-آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے بھائی جن کا نام سیّد محمد عالم شاہ تھا وہ بھی اس مدرسے میں زیرِ تعلیم تھے- اُس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کی عمرِ مبارک تقریباسات سال تھی، بعض حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی عمراُس وقت ۲۱ سال تھی - چونکہ اُس وقت کے ماحول کے مطابق لوگ پانچ سال کی عمر میں ہی اپنے بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دِلوانا شروع کردیتے تھے-

 آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد ِمحترم کو دربار پُر اَنوار سلطان العافین حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ سے خاص عقیدت رکھتے تھے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ اکثر ملتان آتے جاتے حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دیتے تھے-اِسی لئے جب آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد ِمحترم سیّد فتح شاہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو لے کر ملتان جارہے تھے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دربارعالیہ حضرت سخی سلطان باھورحمۃ اللہ علیہ پر بھی قیام کیا اور بارگاہِ سلطان العارفین میں اپنے بیٹے کی تعلیم کے بارے میں بھی عرض کی- بعض حوالوں اور سینہ بہ سینہ روایات کے مطابق آپ شہبازِ عارفاں سخی سلطان بہادر علی شاہ صاحب نے اپنے والد محترم کے ساتھ یہاں پر سات روز قیام فرمایا-اور اِن سات روزہ قیام میں آپ حضوربادشاہ کریم کے درِ اَقدس پر حاضر ہوئے اور اپنے لئے دعا کرتے رہے-

اِس کے بعد آپ کے والد ِمحترم آپ رحمۃ اللہ علیہ کو لے کر ملتان کی طرف روانہ ہوگئے- مولاناسیّد محمد عبید اللہ شاہ کے مدرسے میں پہنچے، عبیداللہ صاحب نے آنے کی وجہ پوچھی- توآپ کے والد ِمحترم نے اُن کو آپ کی تعلیم کے حوالے سے عرض کی اورشاہ صاحب کی مصروفیت کا بتایا- مگر یہ فرمایا کہ میں اِس کویعنی شہبازِ عارفاںحضرت سخی سلطان بہادر علی شاہ صاحب کو بھی اپنے پاس بلایا اور ابتدائی طور پر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھانا شروع کی تو شہباز ِعارفاں محبوبِ سلطانی سخی سلطان بہادر علی شاہ نے پورا قاعدہ پڑھ کر سنا دیا-مولانا سمجھے کہ شاید آپ نے یہ قاعدہ پہلے گھر میں ہی پڑ ھ لیاہو-تو قرآن مجید کا پہلا پارہ آپ کے سامنے رکھاجو فوراً ہی آپ نے اُستادِ محترم کو سنا دیا،آپ کے اُستادِ محترم نے دو سراپارہ آپ کے سامنے رکھا وہ بھی آپ نے پڑھ کر سنا دیاپھر تیسرا پارہ آ پ کے سامنے رکھا وہ بھی آپ نے پڑھ کر سنا دیا، اِس کے بعد مولانا صاحب قرآن کے پارے آپ کے سامنے رکھتے گئے اور آپ اُن کو سناتے گئے -اِس طرح شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان بہادر علی شاہ صاحب نے مولانا صاحب کو پورا قرآن پاک سنا دیا-قرآن مجید سننے پر مولانا صاحب سمجھے کہ آپ نے پورا قرآن پاک پڑھا ہو ا ہے، اِس کے بعد وہ آپ کو درسِ نظا می کی کتابیں پڑھانے لگے لیکن وہ جو بھی کتاب آپ کے سامنے رکھتے وہ آپ پڑھ کر سنا دیتے - اِس طرح تقریباً سترہ دِنوں میں آپ نے مولانا صاحب کودرسِ نظامی کی تمام کتب سنا دی -

جب آپ رحمۃ اللہ علیہ شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان بہادر علی شاہ صاحب نے درس ِنظامی کی تمام کتب بھی اُن کو سنادی تو وہ بڑے حیران ہوئے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ سے سارا ماجرا پوچھا کہ آپ نے اتنی کم عمر میں یہ تمام کتب کیسے اور کہاں سے پڑھی ہیں؟ تو آپ نے اپنے استادِ محترم کو بتایا کہ آپ کے پا س آنے سے پہلے میرے والد ِمحترم مجھے دربار پُر اَنوار سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ لے کر گئے - وہاں پر مجھے یہ تمام علوم و کتب سلطان الفقر سلطان العارفین عارفوں کے بادشاہ حضرت سخی سلطان باھوصاحب رحمۃ اللہ علیہ نے عطا فرمائے اور مجھ پر کرم فرما کر مجھے علمِ لدّنی عطاکیا جس سے میں تمام علوم سے واقف ہو گیا اور زمین و آسمان کے درمیان پائی جانے والی ہر چیز کے بارے مجھے علم ہو گیا-اِسی لئے اپنے کلام میں فرمایا ہے:-

سبحان اللہ سلطان صاحب دا محل مقدس وادی

ھُوا للہ تے یا ھُو دی ہے سدا ندا منادی

وِجدانی عرفانی دا ہے قبلہ روز اَزل دا عادی

بخشے لکھ ہا گنج الٰہی خاص جمعیت شادی

اَکسیر نظر تے قلزم رَحمت تعریف ہے اُس رہنمادی

 سن فریاد نمانے دی یا اَکمل مرشد ہادی

یہ سارا ماجرا سُن کر آپ کے اُستاد مولانا عبیدا للہ صاحب نے آپ کے والد گرامی سیّد فتح محمد شاہ صاحب کو خط لکھا کہ آپ کے بیٹے شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان بہادر علی شاہ نے اپنی تعلیم مکمل کرلی ہے، آپ آکر اِنہیں لے جائیں -مولانا صاحب کاخط جب آپ کے والد ِمحترم کو ملا تو خط پڑھ کر بہت رنجیدہ ہوئے کیونکہ وہ آپ کو عالم و فاضل بنانا چاہتے تھے مگر یہ خط پڑھ کر اُن کو اپنا خواب چکنا چور ہوتا نظر آرہا تھا- وہ سوچنے لگے کہ شاید میرا بیٹا اُستادِ محترم کے معیار پر پورا نہیںاُترا- اِس لئے استادِ محترم اُس کو واپس بھیجنا چاہتے ہیں -یہ خیالات لے کر آپ مولانا عبیداللہ صاحب کے مدرسے میں پہنچے اور مولانا صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر جب شہبازِ عارفاں سخی سلطان سیّد بہادر علی شاہ کی تعلیم کے حوالے سے عرض کی ،تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ تمہارے بیٹے کو تمام علوم کا علم ہے اورمَیں نے اِس سے تمام کتابیں اور قرآن پاک سُنا ہے -اِس میں وہ عالم فاضل ہے، جس پر آپ کے والد محترم بہت حیران ہوئے- جس پر مولانا عبیدا للہ صاحب نے شہبازِ عارفاں محبوب سلطانی کو بلایا اورسیّد فتح محمدشاہ صاحب کے سامنے تمام درس ِنظامی کی کتابیں اور قرآن پاک سُنا - اِس کے بعد اُستادِ محترم نے دریافت کیا کہ آپ نے یہ تمام کتابیں کہاں سے پڑھی ہیں ؟جس پر حضور پیر سیّد بہادر علی شاہ نے فرمایا کہ آپ کے ہاں آنے سے پہلے میرے والدِمحترم سید فتح محمد شاہ مجھے دربار سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ پر لے گئے تھے- جہاں پر ہم نے سات راتیں گزاری ،ان دِنوں میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو سرکار نے مجھ پر کرم فرمایا اور مجھے اِن علوم بلکہ زمین وآسمان کے درمیان موجود تمام رازِ الٰہی اور علوم سکھا دیئے اور مجھے علمِ لدّنی عطا فرما دیا- یہ تمام باتیں سننے کے بعد آپ کے والد ِمحترم کو مولانا عبیداللہ صاحب نے فرمایا کہ اِن کو واپس دربار پُر اَنوار سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو پر پہنچاؤجہاں سے اِن کو یہ سارا خزانہ ملا ہے چنانچہ آپ کے والد ِمحترم آپ کو واپس دربارِعالیہ حضرت سخی سلطان باھُو لے آئے جب آپ کے والدِ محترم آپ کو دربار سلطان العارفین پر لے کر پہنچے تو حضرت سخی سلطان باھُو سرکار نے فرمایاکہ سیّد بہادر علی شاہ کو یہیں پر چھوڑ کر واپس چلے جائیں -چنانچہ آ پ کے والد ِمحترم آپ کو چھوڑ کر اپنے گھر حسّو والی واپس تشریف لے گئے -

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل عرصہ دربار پُر اَنوار پر گزارا-اِس طویل عرصہ میں حضور بادشا ہ کریم نے آپ کی باطنی تربیت فرمائی اورآپ کوخزانۂ فقر منتقل کرنے کے لیے قبول فرمالیا-شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان سیّد بہادرعلی شاہ صاحب نے کافی عرصہ دربار پُراَ نوار پر آنے والے حاضرین کے لیے وضو کاپانی بھرنے کی ڈیوٹی سرانجام دی - اِس کے بعد جب باطنی منازل طے ہوچکی اوروقت اُمت محمدی ﷺ کی ہدایت کاآیا توسلطان العارفین نے حکم دیا کہ آپ پیر عبدالغفور شاہ صاحب سے ظاہری بیعت کرلیں جوکہ دربار پُراَنوار حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ سے فیض یافتہ خلیفہ پیر سیّد عبداللہ شاہ بخاری جو کہ مدینہ شریف سے ہجرت کرکے آئے تھے کے ہاتھ پر بیعت یافتہ اورفقرِ سلطانی کے بھی امین تھے-

 

جب سلطان العارفین نے حکم فرمادیا توشہبازِ عارفاں حضرت سیّدبہادر علی شاہ صاحب پیر عبدالغفور شاہ صاحب کے مرید ہوگئے اور امانتِ فقر بادشاہ حضور سے براہِ راست و بلا واسطہ حضور پیر صاحب کو منتقل ہوئی تھی- سلطان العارفین نے شہبازِ عارفاں پیر سیّد بہادر علی شاہ صاحب کو حکم فرمایا کہ میرا یہ خزانۂ فقر آپ کے پاس بطورِامانت ہے جو آپ نے میری اولاد میں لوٹانا ہے -شہبازِ عارفاں پیرسیّدبہادر علی شاہ صاحب نے فرمایا کہ میرے لیے آپ کی تمام اُولاد برابر ہے- مَیں کس کو یہ خزانہ فقر واپس دوں گا تو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اُس شہنشاہِ ولایت شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحب کے والد ِمحترم کانام بتایا کہ حضرت سخی سلطان فتح محمد کے ہاں ایک فرزند ختنہ شدہ پیدا ہوگا ،اوراُس کانام سلطان محمد عبدالعزیز صاحب ہوگا-آپ نے میرا فقر کایہ خزانہ اُن تک پہنچانا ہے تو پیرسیّدبہادر علی شاہ صاحب اُس دن کاانتظار کرنے لگے کہ جب وہ شہنشاہ ہستی پاک اِس دُنیا میں آئے گی روایات سے اِس بات کا پتا بھی چلتا ہے کہ اِس سلسلے میں دو مرتبہ حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عمر مبارک سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو کی بارگاہ سے بڑھائی گئی -

آخر وہ دن بھی آگیا جب سلطان محمد عبدالعزیزصاحب اِس دُنیا میں تشریف لائے تو آپ نے آنکھیں نہ کھولیںکیونکہ عموماً بچے پیدائش کے ایک یادو دن بعد آنکھیں کھولتے ہیں مگر جب حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب نے تیسرے دن بھی آنکھیں نہ کھولیں تو آپ کے والد جو کہ خود بھی صاحبِ حال تھے اور اِس سے بھی واقف تھے کہ اُن کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ حضور بادشاہ کریم کے خزانۂ فقر ا وارث ہوگا چنانچہ انہوں حضور بادشاہ کریم کے محبوب خلیفہ اور اِس امانت فقر کے حامل حضرت سلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کی کہ وہ آکر بچے کو دَم کر دیں کیونکہ اُس وقت پورا خانوادہ حضرت سلطان باھُو اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ بادشاہ کریم سلطان العارفین کاخزانۂ فقر حضور پیر صاحب کے پاس ہے اور اکثر اولادِ سلطان العارفین اپنے لیے حضور پیر صاحب سے دعا کے لیے عرض کرتے - جب حضور پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو اِس بات کی خبر ہوئی تو آپ چونکہ اسی انتظار میں تھے کہ امانتِ فقر جس ہستی کو منتقل کرنی ہے ، اُس کے والدِ محترم کا نام مبارک حضرت سلطان فتح محمد ہوگا- تو آپ وہاں تشریف لے گئے اور حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب کو اپنی گود میں لیا اور پیار کیا تو حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور اپنی پہلی نظر حضور پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے چہرہ مبارک کی طرف اٹھائی اور حضرت سلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ بھی جان گئے کہ وہ ہستی پاک تشریف لا چکی ہے جس کا مدت سے انتظار تھا -

وقت گزرتا گیا حتٰی کہ حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب کی عمرمبارک بیس سال ہوئی توآپ بھی دربار پُرانوار پر حاضری دینے جاتے توسلطان العارفین کی بارگاہ میں اپنے حصے کے خزانے کی اورمرشد کی بیعت کی عرض کرتے -تو محل پاک سے حکم ہوا کہ آپ میرے خزانۂ فقر کے مالک ہوں گے اورآپ کویہ خزانۂ فقر میرے محبوب خلیفہ حضرت سیّد محمدبہادر علی شاہ کے دَر سے ملے گا ، آپ اُن کے پاس تشریف لے جائیں وہ آپ کے انتظار میں ہیں لیکن آپ بضد تھے کہ مَیں یہ خزانہ آپ سے لوں گا تو حضرت سلطان باھُو سرکار نے ایک دن پیر سیّد بہادرعلی شاہ صاحب سے فرمایا-

کہ آج جب حضرت سخی سلطان محمد عبدا لعزیزصاحب محل پاک پر حاضری کیلئے تشریف لائیں تو آپ رحمۃ اللہ علیہ بھی آجانا- چنانچہ ایسا ہی ہوا،اور اِس طرح محل پاک کے اندرحضرت پیر سیّد بہادر علی شاہ صاحب نے وہ خزانۂ فقر بادشاہ کریم کے سامنے شہبازِ عارفاں سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحب کو پیش کردیااور بیعت بھی فرمائی-

اِس کے بعد حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحب نے پیر صاحب کے ساتھ اَیسا رشتہ قائم کیا کہ آج تک کوئی یہ نہیں سمجھ پایا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ میں سے عاشق کون تھا اور معشوق کون تھا؟ شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحب اپنے مرشد کی بارگاہ میں اِنتہائی عاجزی کے ساتھ حاضر ہوتے - کبھی چارپائی پر نہ سوتے، اونچی آواز میں کبھی بات نہ فرماتے بلکہ یہاں تک فرما دیاکہ آج کے بعد کوئی طالب مولیٰ آئے اور وہ یہ چاہے کہ وہ بارگاہِ خداوندی میں حاضری کر سکے تو اُس کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ میرے مرشد کریم حضرت پیر سیّد بہادر علی شاہ کی چوکھٹ پر حاضری دے- پیر سیّد بہادر علی شاہ صاحب کی اپنی کوئی اُولاد نہیں تھی اِس لئے حضور پیر سیّد بہادر علی شاہ صاحب نے آپ کو اپنا سجادہ نشین بنانے کا بھی فرمایا مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کہہ کر اِنکار کر دیا کہ مَیں اور میری اُولاد یہاں پیر نہیں فقیر بن کر آیا کریں گے- حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز جب تک حضرت پیر سید بہادر علی شاہ صاحب زندہ رہے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میںرہے اور اکٹھے سفر بھی فرماتے رہے-شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد بہادر علی شاہ (رح)(رح)، حضور پیر عبدالغفور شاہ قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت کرنے کے بعد جب گھر تشریف لے گئے تودِن کو حسّو والی اور رات کو دربار پُر اَنوار پر حاضری دینے پہنچ جاتے-

آپ نے اپنی عمر کے ابتدائی پچاس سال حسّو والی میں گزارے-اِس کے ساتھ ساتھ آپ کھیتی باڑی بھی کرتے - اِس سلسلے میں آپ رحمۃ اللہ علیہ علاقہ رَاوی کی طرف بھی گئے اور وہاں پر بھی کھیتی باڑی کرتے رہے مگراس میںدربار پُر اَنوار حضرت سخی سلطان باھُو صاحب سے دُور ہو گئے جو کہ آپ کو قطعاً اچھا نہیں لگااور پھر بحکمِ سلطان العارفین واپس قاسم آباد﴿موجودہ﴾میں تشریف لے آئے- اُس وقت یہ علاقہ جنگل اور ویران تھا جب آپ نے یہاں پر قیام فرمایا تو یہ جگہ’’ پیر دی بھینی‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئی- آپ نے یہاں پر ایک مسجد بھی تعمیر کروائی اور اہل ِعلاقہ کو اِسلام کی تعلیمات سے رُوشناس کرنا شروع کردیا -یہاں یہ بات بھی کرتا چلوں کہ آپ نے یہاں مسجد تعمیر کروائی-آپ نے اپنے مزار کی جگہ بھی منتخب فرمادی بعد اَزاں آپ کی حیاتی میں ہی آپ کے رشتہ دارں نے اِس جگہ پر کسی اور کو دفن کردیا- جس کا آپ کو بہت رنج ہوا اور آپ نے اِس جگہ کو چھوڑنے کا اِرادہ کرلیا مگر حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحب کے اصرار کرنے اور پھر سلطان باھُوصاحب نے آپ کے مزار مبارک کے لئے موجودہ جگہ منتخب فرمائی - آپ نے یہاں پر رہائش رکھی -شہبازِ عارفاں حضرت سلطان سیّد محمدبہادر علی شاہ صاحب نے وہاڑی، عبد الحکیم ، تلمبہ،خانیوال ،راوی اور وادیٔ سون سکیسر کے علاقوں میں سفر کئے اِن سفروں میں سلطان محمد عبدالعزیز صاحب بھی ساتھ ہوتے تھے-

خلفائ:-

شہباز ِعارفاں حضرت سلطان سیّدمحمدبہادر علی شاہ صاحب کے سبھی مرید خاص ہوتے ہیں- آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بہت کم لوگوں کو بیعت فرمایالیکن جس کو بھی بیعت فرمایااِس کو واصل باللہ کے مرتبہ ومقام تک پہنچایا -آپ رحمۃ اللہ علیہ کے خلفائ میں سے سید محمد عبدالقادر شاہ صاحب ، حضور سید محمد قاسم علی شاہ صاحب ، شہبازِ عارفاںحضرت سخی سلطان محمدعبدالعزیز صاحب کے نام نمایاں ہیں-

وصال:-

 

آپ کا وصال مبار ک ۷۲فروری ۴۳۹۱ھ کو ہوا اور آپ کا مزار مبارک تحصیل شور کوٹ اڈا قاسم آباد سے مشرق کی جانب ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور آپ کا عرس مبارک ۵۲،۶۲،۷۲فروری کو منعقدہوتاہے -

آباؤ اجداد :-

سلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلۂ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی اولاد میں سے حضرت اِمام موسیٰ کاظم(رض) سے جاملتا ہے - حضرت سیّد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہ نسب یوں درج ہے:

سیّد بہادر شاہ ولدسیّد فتح شاہ ولدسیّد شرف ولد سیّد کمال ولدسیّد گل محمد ولدسیّد کریم ولدسیّد فتح محمد ولدسیّدمالی شاہ ولدسیّد سجاد ولدسیّد ملہیوشاہ ولد سیّد حبیب اللہ ولدسیّد غالب ولدسیّد عبدالرحمٰن ولدسیّد محمد یوسف ولدسیّد محمد فاروق ولدسیّد ریاض الدین ولد سیّد شہاب الدّین ولدسیّد محمد فخرالدّین ولدسیّد سلطان غیاث الدّین شاہ ولدسیّد ابو القاسم حسین ولد سیّد محمد امیر ولدسیّد عبدالرحمٰن ولد سیّد محمد شانی ولدسیّد اسحاق ثانی ولدسیّد موسیٰ زاہد اَبی الحسن ولد سیّد شاہ عالم اَبی الحسن ولدسیّد قاسم علیہم الرحمہ ولدسیّد محمداوّل ابو عبداللہ ولد سیّد اسحاق موافق(رض) ولد سیّد اِمام موسیٰ کاظم (رض) ولدسیّد اِمام جعفر صادق ولدسیّد اِمام محمد باقر (رض) ولدسیّد نا اِمام عالی مقام اِمام حسین (رض) ولد حضرت علی المرتضی(رض) شیرِ خدا-

شہبازِ عارفاں سلطان الاو لیائ محبوبِ سلطانی حضر ت سخی سیّد سلطان محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہ حضرت اِمام موسیٰ کاظم (رض) سے ملتا ہے اوراُن کی رہائش ایران کے شہر مشہد میں تھی اِسی نسبت سے حضور پیر صاحب کاظمی المشہدی سیّد ہیں آپ کا شجرۂ نسب ۶۳ پشت میں حضرت علی (رض) سے جاکرملتا ہے-

آپ (رض) کے آباؤ اَجداد ایران سے برصغیر پاک وہند میں تشریف لائے اُس وقت برصغیر پاک وہند میں اَمیر تیمور کا زمانہ تھا- آپ رحمۃ اللہ علیہ سے ۱۲ پشت اوپرسیّد ابولقاسم وہ بزرگ تھے جو سب سے پہلے ایران سے برصغیر میں تشریف لائے - آپ کی اولاد نے ملتان ،چکوال اور جہلم کے اَضلاع میں رہائش رکھی جن علاقوں میں آپ کے آباؤ اَجداد نے رہائش رکھی ان میںڈنگی ڈہری ، کرسُیال سید قصراںاور ڈہری سیداں مشہور بستیاں ہیں- جہاں آج بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد رہائش پذیر ہے-شہبازِ عارفاں محبوبِ سلطانی سخی سید محمد بہادر علی شاہ کے آبائو اَجداد میں سے بعض ڈیرہ غازی خان میں بھی رہائش پذیر ہیں اُن کے مزارات آج بھی دریائے سندھ کے درمیان میں واقع ہیں اور دریاان مزارات کے آس پاس سے گزر رہا ہے -آپ رحمۃ اللہ علیہ کے آبائو اجداد میں سے پندرہ پشت اوپر’’ شیر محمد شاہ ‘‘ تلہ گنگ سے ڈہری سیداں پر تشریف لائے جو کہ تحصیل چوآ سیّدن شاہ ضلع چکوال کا علاقہ ہے- آپ کی وفات کے بعد یہ علاقہ ڈہری سیداں سے مشہور ہوا-اس کے بعد ڈہری سیداں سے سیّد عظیم شاہ کے دوبیٹوں گل محمد شاہ اور بڈھے شاہ صاحب نے سترھویں صدی عیسوی میں موضع حسو والی تحصیل شور کوٹ ضلع جھنگ میں ہجرت کی-

بعض روایات کے مطابق آپ کے بزرگوں میں سیّد گل محمد شاہ رحمۃ اللہ علیہ اُس وقت سرکاری فوج میں ملازم تھے اور اپنے لشکر سے واپس اپنے گھر ڈہر ی سیداں جارہے تھے - راستے میںشام ڈھلنے پر حسّو والی کے سیالوں کے پاس رات رہنے کیلئے رک گئے ،اس وقت سیال قوم کی کاٹھیہ قوم سے لڑائی چل رہی تھی - سیال قوم نے درخواست کی کہ اگر آپ رحمۃ اللہ علیہ مستقل ہمارے پاس رہائش رکھ لیں تو کاٹھیہ قوم ہم پر حملہ آور نہ ہو گی - چنانچہ سیالوں کی یہ درخواست آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بزرگ گل محمد شاہ نے قبول کرلی اور ڈہری سیداں سے اَپنے بچے لے کر موضع حسّو والی میں رہائش رکھ لی-آج بھی موضع حسّو والی میں آپ کا خاندان آباد ہے- آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم سید فتح محمد شاہ او ر آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی حافظ محمد عالم رحمۃ اللہ علیہ کے مزارات تحصیل شور کوٹ ضلع جھنگ کے پیر لعلن شاہ والے قبرستان میں واقع ہیں -

والدین:-

شہبازِ عارفاں محبوب ِسلطانی سخی سلطان سیّد محمد بہادرعلی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی کا نام سیّد فتح شاہ صاحب ہے- آپ رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش موضع حسّووالی میں ہوئی- آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم اِنتہائی نیک پار سا اورصوفی با صفاعالم تھے -شریعت محمدی


ö کی پابندی فرماتے - اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خاص خیال رکھتے - ایک روایت کے مطابق آپ کے والد محترم سید فتح شاہ صاحب کی ایک بھینس رسی تڑوا کر پڑوسیوں کا چارا کھا گئی-شام کو جب آپ کو اس کا علم ہو تو آپ نے اپنی بھینس کا دودھ یہ کہہ کر پڑوسیوں کے گھر بھجوا دیا کہ بھینس نے چارا آپ کا کھایا ہے اِس لئے اِس دودھ پر بھی آپ کا حق ہے اور یہ دودھ میرے بچوں پر جائز نہیں ہے - یعنی آپ کے والد گرامی نے آپ کی پرورش ایسے فرمائی کہ اس میں کسی دوسرے کا مال یا حق شامل نہ تھا-

 

آپ کے والد محترم ملتان کے مولانا عبیداللہ ملتانی کے مرید تھے-آپ نے اپنے بچوں کو رائج الوقت اعلیٰ تعلیم دِلوائی جس سے یہ اَندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ محترم کو علم واَدب سے کافی لگائو تھا- آپ کے والدِ محترم اکثر مزارات پربھی باطنی علم کے حصول کے لئے تشریف لے جاتے -آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد ِمحترم کھیتی باڑی بھی کرتے اور آپ کو مطالعہ ِ کتب کا بھی شوق تھا -دربار سلطان العارفین پر حاضری بھی باقاعدگی سے دیتے تھے- آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک پیر لعلن شاہ والے قبر ستان شور کوٹ میں ہے -

پیدائش:-

شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان سیّد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش موضع حسّو والی ہوئی -بعض روایا ت میں ۹۰۸۱ ئ اور بعض روایات میں ۱۰۸۱ ئ درج ہے لیکن سب آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخِ وفات پر متفق ہیں، سینہ بہ سینہ چلتی روایات کے پیشِ نظر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی عمر مبارک ایک سو تیس سال سے زیادہ بتائی جاتی ہے اگر تو ان روایات کو جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں کے مطابق آپ رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ۱۰۸۱ئ بنتی ہے-

ابتدائی تعلیم:-

 شہبازِ عارفا ں محبوبِ سلطانی سخی سلطان محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ ایک علمی گھرانہ میں پیدا ہوئے -آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد ِمحترم نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت خا لصتاً مذہبی بنیادوں پر کی -شہبازِ عارفاں سخی سلطان بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو گھر میں نہایت دِینی اور پاکیزہ ماحول ملا -اس ماحول اور بزرگوں کی محبت کی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا رُجحان شروع ہی سے دِین کی طرف ہوگیا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کے والددِینی علوم سکھانے کیلئے اپنے مرشد سیّد مولانا محمد عبید اللہ شاہ کے مدرسہ جو کہ ملتان میں واقع تھا -مدرسہ میں چھوڑنے کیلئے گھر سے روانہ ہوئے، یہاں اس بات کا ذکر بھی کرتا جاؤں کہ ُاس وقت یعنی اُنیسویں ﴿۹۱﴾صدی کے شروع کا دَور تھا اور معاشرے میں فاضل و عالم کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا-آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے بھائی جن کا نام سیّد محمد عالم شاہ تھا وہ بھی اس مدرسے میں زیرِ تعلیم تھے- اُس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کی عمرِ مبارک تقریباسات سال تھی، بعض حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی عمراُس وقت ۲۱ سال تھی - چونکہ اُس وقت کے ماحول کے مطابق لوگ پانچ سال کی عمر میں ہی اپنے بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دِلوانا شروع کردیتے تھے-

 آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد ِمحترم کو دربار پُر اَنوار سلطان العافین حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ سے خاص عقیدت رکھتے تھے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ اکثر ملتان آتے جاتے حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دیتے تھے-اِسی لئے جب آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد ِمحترم سیّد فتح شاہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو لے کر ملتان جارہے تھے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دربارعالیہ حضرت سخی سلطان باھورحمۃ اللہ علیہ پر بھی قیام کیا اور بارگاہِ سلطان العارفین میں اپنے بیٹے کی تعلیم کے بارے میں بھی عرض کی- بعض حوالوں اور سینہ بہ سینہ روایات کے مطابق آپ شہبازِ عارفاں سخی سلطان بہادر علی شاہ صاحب نے اپنے والد محترم کے ساتھ یہاں پر سات روز قیام فرمایا-اور اِن سات روزہ قیام میں آپ حضوربادشاہ کریم کے درِ اَقدس پر حاضر ہوئے اور اپنے لئے دعا کرتے رہے-

اِس کے بعد آپ کے والد ِمحترم آپ رحمۃ اللہ علیہ کو لے کر ملتان کی طرف روانہ ہوگئے- مولاناسیّد محمد عبید اللہ شاہ کے مدرسے میں پہنچے، عبیداللہ صاحب نے آنے کی وجہ پوچھی- توآپ کے والد ِمحترم نے اُن کو آپ کی تعلیم کے حوالے سے عرض کی اورشاہ صاحب کی مصروفیت کا بتایا- مگر یہ فرمایا کہ میں اِس کویعنی شہبازِ عارفاںحضرت سخی سلطان بہادر علی شاہ صاحب کو بھی اپنے پاس بلایا اور ابتدائی طور پر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھانا شروع کی تو شہباز ِعارفاں محبوبِ سلطانی سخی سلطان بہادر علی شاہ نے پورا قاعدہ پڑھ کر سنا دیا-مولانا سمجھے کہ شاید آپ نے یہ قاعدہ پہلے گھر میں ہی پڑ ھ لیاہو-تو قرآن مجید کا پہلا پارہ آپ کے سامنے رکھاجو فوراً ہی آپ نے اُستادِ محترم کو سنا دیا،آپ کے اُستادِ محترم نے دو سراپارہ آپ کے سامنے رکھا وہ بھی آپ نے پڑھ کر سنا دیاپھر تیسرا پارہ آ پ کے سامنے رکھا وہ بھی آپ نے پڑھ کر سنا دیا، اِس کے بعد مولانا صاحب قرآن کے پارے آپ کے سامنے رکھتے گئے اور آپ اُن کو سناتے گئے -اِس طرح شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان بہادر علی شاہ صاحب نے مولانا صاحب کو پورا قرآن پاک سنا دیا-قرآن مجید سننے پر مولانا صاحب سمجھے کہ آپ نے پورا قرآن پاک پڑھا ہو ا ہے، اِس کے بعد وہ آپ کو درسِ نظا می کی کتابیں پڑھانے لگے لیکن وہ جو بھی کتاب آپ کے سامنے رکھتے وہ آپ پڑھ کر سنا دیتے - اِس طرح تقریباً سترہ دِنوں میں آپ نے مولانا صاحب کودرسِ نظامی کی تمام کتب سنا دی -

جب آپ رحمۃ اللہ علیہ شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان بہادر علی شاہ صاحب نے درس ِنظامی کی تمام کتب بھی اُن کو سنادی تو وہ بڑے حیران ہوئے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ سے سارا ماجرا پوچھا کہ آپ نے اتنی کم عمر میں یہ تمام کتب کیسے اور کہاں سے پڑھی ہیں؟ تو آپ نے اپنے استادِ محترم کو بتایا کہ آپ کے پا س آنے سے پہلے میرے والد ِمحترم مجھے دربار پُر اَنوار سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ لے کر گئے - وہاں پر مجھے یہ تمام علوم و کتب سلطان الفقر سلطان العارفین عارفوں کے بادشاہ حضرت سخی سلطان باھوصاحب رحمۃ اللہ علیہ نے عطا فرمائے اور مجھ پر کرم فرما کر مجھے علمِ لدّنی عطاکیا جس سے میں تمام علوم سے واقف ہو گیا اور زمین و آسمان کے درمیان پائی جانے والی ہر چیز کے بارے مجھے علم ہو گیا-اِسی لئے اپنے کلام میں فرمایا ہے:-

سبحان اللہ سلطان صاحب دا محل مقدس وادی

ھُوا للہ تے یا ھُو دی ہے سدا ندا منادی

وِجدانی عرفانی دا ہے قبلہ روز اَزل دا عادی

بخشے لکھ ہا گنج الٰہی خاص جمعیت شادی

اَکسیر نظر تے قلزم رَحمت تعریف ہے اُس رہنمادی

 سن فریاد نمانے دی یا اَکمل مرشد ہادی

یہ سارا ماجرا سُن کر آپ کے اُستاد مولانا عبیدا للہ صاحب نے آپ کے والد گرامی سیّد فتح محمد شاہ صاحب کو خط لکھا کہ آپ کے بیٹے شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان بہادر علی شاہ نے اپنی تعلیم مکمل کرلی ہے، آپ آکر اِنہیں لے جائیں -مولانا صاحب کاخط جب آپ کے والد ِمحترم کو ملا تو خط پڑھ کر بہت رنجیدہ ہوئے کیونکہ وہ آپ کو عالم و فاضل بنانا چاہتے تھے مگر یہ خط پڑھ کر اُن کو اپنا خواب چکنا چور ہوتا نظر آرہا تھا- وہ سوچنے لگے کہ شاید میرا بیٹا اُستادِ محترم کے معیار پر پورا نہیںاُترا- اِس لئے استادِ محترم اُس کو واپس بھیجنا چاہتے ہیں -یہ خیالات لے کر آپ مولانا عبیداللہ صاحب کے مدرسے میں پہنچے اور مولانا صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر جب شہبازِ عارفاں سخی سلطان سیّد بہادر علی شاہ کی تعلیم کے حوالے سے عرض کی ،تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ تمہارے بیٹے کو تمام علوم کا علم ہے اورمَیں نے اِس سے تمام کتابیں اور قرآن پاک سُنا ہے -اِس میں وہ عالم فاضل ہے، جس پر آپ کے والد محترم بہت حیران ہوئے- جس پر مولانا عبیدا للہ صاحب نے شہبازِ عارفاں محبوب سلطانی کو بلایا اورسیّد فتح محمدشاہ صاحب کے سامنے تمام درس ِنظامی کی کتابیں اور قرآن پاک سُنا - اِس کے بعد اُستادِ محترم نے دریافت کیا کہ آپ نے یہ تمام کتابیں کہاں سے پڑھی ہیں ؟جس پر حضور پیر سیّد بہادر علی شاہ نے فرمایا کہ آپ کے ہاں آنے سے پہلے میرے والدِمحترم سید فتح محمد شاہ مجھے دربار سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ پر لے گئے تھے- جہاں پر ہم نے سات راتیں گزاری ،ان دِنوں میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو سرکار نے مجھ پر کرم فرمایا اور مجھے اِن علوم بلکہ زمین وآسمان کے درمیان موجود تمام رازِ الٰہی اور علوم سکھا دیئے اور مجھے علمِ لدّنی عطا فرما دیا- یہ تمام باتیں سننے کے بعد آپ کے والد ِمحترم کو مولانا عبیداللہ صاحب نے فرمایا کہ اِن کو واپس دربار پُر اَنوار سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو پر پہنچاؤجہاں سے اِن کو یہ سارا خزانہ ملا ہے چنانچہ آپ کے والد ِمحترم آپ کو واپس دربارِعالیہ حضرت سخی سلطان باھُو لے آئے جب آپ کے والدِ محترم آپ کو دربار سلطان العارفین پر لے کر پہنچے تو حضرت سخی سلطان باھُو سرکار نے فرمایاکہ سیّد بہادر علی شاہ کو یہیں پر چھوڑ کر واپس چلے جائیں -چنانچہ آ پ کے والد ِمحترم آپ کو چھوڑ کر اپنے گھر حسّو والی واپس تشریف لے گئے -

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل عرصہ دربار پُر اَنوار پر گزارا-اِس طویل عرصہ میں حضور بادشا ہ کریم نے آپ کی باطنی تربیت فرمائی اورآپ کوخزانۂ فقر منتقل کرنے کے لیے قبول فرمالیا-شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان سیّد بہادرعلی شاہ صاحب نے کافی عرصہ دربار پُراَ نوار پر آنے والے حاضرین کے لیے وضو کاپانی بھرنے کی ڈیوٹی سرانجام دی - اِس کے بعد جب باطنی منازل طے ہوچکی اوروقت اُمت محمدی


öکی ہدایت کاآیا توسلطان العارفین نے حکم دیا کہ آپ پیر عبدالغفور شاہ صاحب سے ظاہری بیعت کرلیں جوکہ دربار پُراَنوار حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ سے فیض یافتہ خلیفہ پیر سیّد عبداللہ شاہ بخاری جو کہ مدینہ شریف سے ہجرت کرکے آئے تھے کے ہاتھ پر بیعت یافتہ اورفقرِ سلطانی کے بھی امین تھے-

 

جب سلطان العارفین نے حکم فرمادیا توشہبازِ عارفاں حضرت سیّدبہادر علی شاہ صاحب پیر عبدالغفور شاہ صاحب کے مرید ہوگئے اور امانتِ فقر بادشاہ حضور سے براہِ راست و بلا واسطہ حضور پیر صاحب کو منتقل ہوئی تھی- سلطان العارفین نے شہبازِ عارفاں پیر سیّد بہادر علی شاہ صاحب کو حکم فرمایا کہ میرا یہ خزانۂ فقر آپ کے پاس بطورِامانت ہے جو آپ نے میری اولاد میں لوٹانا ہے -شہبازِ عارفاں پیرسیّدبہادر علی شاہ صاحب نے فرمایا کہ میرے لیے آپ کی تمام اُولاد برابر ہے- مَیں کس کو یہ خزانہ فقر واپس دوں گا تو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اُس شہنشاہِ ولایت شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحب کے والد ِمحترم کانام بتایا کہ حضرت سخی سلطان فتح محمد کے ہاں ایک فرزند ختنہ شدہ پیدا ہوگا ،اوراُس کانام سلطان محمد عبدالعزیز صاحب ہوگا-آپ نے میرا فقر کایہ خزانہ اُن تک پہنچانا ہے تو پیرسیّدبہادر علی شاہ صاحب اُس دن کاانتظار کرنے لگے کہ جب وہ شہنشاہ ہستی پاک اِس دُنیا میں آئے گی روایات سے اِس بات کا پتا بھی چلتا ہے کہ اِس سلسلے میں دو مرتبہ حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عمر مبارک سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو کی بارگاہ سے بڑھائی گئی -

آخر وہ دن بھی آگیا جب سلطان محمد عبدالعزیزصاحب اِس دُنیا میں تشریف لائے تو آپ نے آنکھیں نہ کھولیںکیونکہ عموماً بچے پیدائش کے ایک یادو دن بعد آنکھیں کھولتے ہیں مگر جب حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب نے تیسرے دن بھی آنکھیں نہ کھولیں تو آپ کے والد جو کہ خود بھی صاحبِ حال تھے اور اِس سے بھی واقف تھے کہ اُن کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ حضور بادشاہ کریم کے خزانۂ فقر ا وارث ہوگا چنانچہ انہوں حضور بادشاہ کریم کے محبوب خلیفہ اور اِس امانت فقر کے حامل حضرت سلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کی کہ وہ آکر بچے کو دَم کر دیں کیونکہ اُس وقت پورا خانوادہ حضرت سلطان باھُو اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ بادشاہ کریم سلطان العارفین کاخزانۂ فقر حضور پیر صاحب کے پاس ہے اور اکثر اولادِ سلطان العارفین اپنے لیے حضور پیر صاحب سے دعا کے لیے عرض کرتے - جب حضور پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو اِس بات کی خبر ہوئی تو آپ چونکہ اسی انتظار میں تھے کہ امانتِ فقر جس ہستی کو منتقل کرنی ہے ، اُس کے والدِ محترم کا نام مبارک حضرت سلطان فتح محمد ہوگا- تو آپ وہاں تشریف لے گئے اور حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب کو اپنی گود میں لیا اور پیار کیا تو حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور اپنی پہلی نظر حضور پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے چہرہ مبارک کی طرف اٹھائی اور حضرت سلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ بھی جان گئے کہ وہ ہستی پاک تشریف لا چکی ہے جس کا مدت سے انتظار تھا -

وقت گزرتا گیا حتٰی کہ حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب کی عمرمبارک بیس سال ہوئی توآپ بھی دربار پُرانوار پر حاضری دینے جاتے توسلطان العارفین کی بارگاہ میں اپنے حصے کے خزانے کی اورمرشد کی بیعت کی عرض کرتے -تو محل پاک سے حکم ہوا کہ آپ میرے خزانۂ فقر کے مالک ہوں گے اورآپ کویہ خزانۂ فقر میرے محبوب خلیفہ حضرت سیّد محمدبہادر علی شاہ کے دَر سے ملے گا ، آپ اُن کے پاس تشریف لے جائیں وہ آپ کے انتظار میں ہیں لیکن آپ بضد تھے کہ مَیں یہ خزانہ آپ سے لوں گا تو حضرت سلطان باھُو سرکار نے ایک دن پیر سیّد بہادرعلی شاہ صاحب سے فرمایا-

کہ آج جب حضرت سخی سلطان محمد عبدا لعزیزصاحب محل پاک پر حاضری کیلئے تشریف لائیں تو آپ رحمۃ اللہ علیہ بھی آجانا- چنانچہ ایسا ہی ہوا،اور اِس طرح محل پاک کے اندرحضرت پیر سیّد بہادر علی شاہ صاحب نے وہ خزانۂ فقر بادشاہ کریم کے سامنے شہبازِ عارفاں سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحب کو پیش کردیااور بیعت بھی فرمائی-

اِس کے بعد حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحب نے پیر صاحب کے ساتھ اَیسا رشتہ قائم کیا کہ آج تک کوئی یہ نہیں سمجھ پایا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ میں سے عاشق کون تھا اور معشوق کون تھا؟ شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحب اپنے مرشد کی بارگاہ میں اِنتہائی عاجزی کے ساتھ حاضر ہوتے - کبھی چارپائی پر نہ سوتے، اونچی آواز میں کبھی بات نہ فرماتے بلکہ یہاں تک فرما دیاکہ آج کے بعد کوئی طالب مولیٰ آئے اور وہ یہ چاہے کہ وہ بارگاہِ خداوندی میں حاضری کر سکے تو اُس کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ میرے مرشد کریم حضرت پیر سیّد بہادر علی شاہ کی چوکھٹ پر حاضری دے- پیر سیّد بہادر علی شاہ صاحب کی اپنی کوئی اُولاد نہیں تھی اِس لئے حضور پیر سیّد بہادر علی شاہ صاحب نے آپ کو اپنا سجادہ نشین بنانے کا بھی فرمایا مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کہہ کر اِنکار کر دیا کہ مَیں اور میری اُولاد یہاں پیر نہیں فقیر بن کر آیا کریں گے- حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز جب تک حضرت پیر سید بہادر علی شاہ صاحب زندہ رہے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میںرہے اور اکٹھے سفر بھی فرماتے رہے-شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد بہادر علی شاہ (رح)(رح)، حضور پیر عبدالغفور شاہ قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت کرنے کے بعد جب گھر تشریف لے گئے تودِن کو حسّو والی اور رات کو دربار پُر اَنوار پر حاضری دینے پہنچ جاتے-

آپ نے اپنی عمر کے ابتدائی پچاس سال حسّو والی میں گزارے-اِس کے ساتھ ساتھ آپ کھیتی باڑی بھی کرتے - اِس سلسلے میں آپ رحمۃ اللہ علیہ علاقہ رَاوی کی طرف بھی گئے اور وہاں پر بھی کھیتی باڑی کرتے رہے مگراس میںدربار پُر اَنوار حضرت سخی سلطان باھُو صاحب سے دُور ہو گئے جو کہ آپ کو قطعاً اچھا نہیں لگااور پھر بحکمِ سلطان العارفین واپس قاسم آباد﴿موجودہ﴾میں تشریف لے آئے- اُس وقت یہ علاقہ جنگل اور ویران تھا جب آپ نے یہاں پر قیام فرمایا تو یہ جگہ’’ پیر دی بھینی‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئی- آپ نے یہاں پر ایک مسجد بھی تعمیر کروائی اور اہل ِعلاقہ کو اِسلام کی تعلیمات سے رُوشناس کرنا ?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر