حضرت امام سری سقطی رحمة اللہ علیہ

حضرت امام سری سقطی رحمة اللہ علیہ

حضرت امام سری سقطی رحمة اللہ علیہ

مصنف: علامہ مفتی منظور حسین جولائی 2013

تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیںجو ہر طرح کی افضل و بر تر نعمتوں عناےتوں اور بخششوں سے اپنے بندوں پر احسان فرماتا ہے بڑے بڑے صاحب عزت و عظمت و جلال و بزرگی والے اس کی حمد و ثناءو توصےف مےں رطب اللسان ہےں- زمےن و زماں مےں وہی لائقِ عبادت ہے اور وہی مالک ِعزت و جاہ و جلال و بزرگی و عظمت بلند تر ہے جو اپنے انوارِ اقدس مےں عوام کی نظروں سے اگرچہ پوشےدہ ہے لےکن اپنے ان بندگانِ عشقِ حقےقی کی چشمِ بصےرت افروز کے قرےب تر ہے جو لوگ اس کے بحرِ توحےد مےں غوطہ لگانے والے ہےں اُن کے بقا کے پہلو کو فنا سے ہمکنار کر دےا اور جو اس کی عظمت کے قرب کی پناہ مےں بچنے والے ہےں ان کے شرف فنا کو بقائے خاص سے ہمکنار کر دےا ہے اور اےسے ہی لوگوں کو قربت ومعےت کے شکرانہ کی توفےق عطا فرمائی ہے جو اس کے احسانات کے قرائن مےں ہے انہےں بسبب فنا کے بقاءسے اور بسبب بقاءکے فنا سے مستغنی کر دےاہے اس لےے وہ فنا الفناءکے نورِ سرمدی سے معمور اور ہوا و حرص سے بے پرواہ ہےں اورطالبانِ حق کو دےنِ اسلام سے سرفراز عہد وتَیَقُّن± کے عمدہ خزانے جمع کرنے کی توفےق بخشی اور انبےاءکرام کے راز ہائے پنہانی کا انہےں راز داں بناےا جنہےں آنکھےں دےکھنے سے معذور اور عقلےں جاننے پر مجبور ہےں- ان کے قلوب پاک کو ےہاں تک رسائی عطا فرمائی جس سے مطالب پنہاں آشکار ہو گئے اور ان کی اَرواحِ مقدس کو نور قدس سے منور کر دےا - انہی مےں سے اےک ہستی جو راہِ حق کے سالکوں کے لئے مےنارِ نور کی سی حےثےت رکھتے ہےں جن کا نامِ نامی اسمِ گرامی حضر ت ملکوت، شاہد عزت جبروت، نقطہ دائرہ ملکوت، حضرت شےخ سری سقطی رحمتہ اللہ علےہ ہیں-

آپ کی ولادت باسعادت میں مختلف اقوال بیان کیے گئے ہیں تاریخ پیدائش ایک قول کے مطابق ۵۵۱ یا ۵۷۱ھ، دوسرے قول کے مطابق ۹۰۱ یا ۹۲۱ ھ ہے اور آپ کی تاریخِ وصال میں بھی دو قول ہیں ۷۰۲ ھ یا ۳۵۲ ھ ۸۷ یا ۸۹ سال کی عمر میں آپ کا وصال مبارک ہوا-سری عربی میں السری عظیم الشان کے مفہوم میں مستعمل ہے - ”السقطی“ پرانے لوہے اور کپڑوں کا کاروبار کرنے والے کے ہیں جیسے (السقط المتاع) بے کار نکمی یا ٹوٹی پھوٹی چیزیں-(۱)

آپ اہل تصوف کے امام و مقتداءگردانے جاتے ہےں آپ علم میںحدِ کمال کو پہنچے ہوئے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ حلم و ثبات کے پہاڑ اور مروّت و شفقت کا خزانہ و خزےنہ تھے اور اَسرار و رُموز مےں آپ کو اس قدر اعجاز حاصل تھا کہ جو بھی سنتا حیران و ششدر رہ جاتاسب سے پہلے جس نے بغداد کے اندر حقائق و توحید کے متعلق کچھ کیا وہ آپ ہی تھے عراق کے بہت سے مشائخ آپ کے حلقہ¿ اِرادت میں سے تھے ۔ حضرت شیخ فرید الدین عطا راپنی مشہور ِ زمانہ کتاب ”تذکرة الاولیا ئ“ میں لکھتے ہیں کہ آپ حضرت شیخ جنید بغدادی ؒ کے ماموںاور شیخ المشائخ حضرت معروف کرخی ؒ رحمة اللہ علیہ کے مرید تھے -آپؒ کے زہد اور تقو یٰ کا یہ عالم تھا کہ آپؒ نے بغداد کے اندر دکان میں ایک پردہ لٹکا یا ہوا تھا اور ہر روز پردے کے پیچھے ہزار رکعت نماز ادا کرتے تھے ایک شخص لگام سے آپؒ کی زیارت کو آیا اور پردہ اٹھا کر سلا م عرض کیا اور کہا کہ لگام کے فلاں پیر زادہ نے آپؒ کو سلام پیش کیا ہے آپؒ نے فرمایا وہ تو پہاڑ میں ساکن ہو گئے ہیں اور یہ کوئی جواں مردی نہیں ہے-مرد ایسا ہونا چاہیے کہ بازار میں رہ کر حق تعالیٰ کے ساتھ ایسا مشغول ہوکہ اس سے غافل نہ ہو- اسی مقام کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمة اللہ علیہ ؒ فرماتے ہیں؛

شیطان عارف باللہ فقیر ولی اللہ آدمی پر سات قسم کے حربے استعمال کر تا ہے- (ان سات حربوں میں سے ایک شیطانی حربہ یہ بھی ہے) دوسرا شیطانی حربہ یہ ہے کہ اسے اس بات پر مائل کرتا ہے کہ خلوت،دشت و بیاباںمیں ہونی چاہیے تاکہ اس سے باجماعت نماز کی سنت چھوٹ جائے- (۲)

جو شخص اپنے ظاہر باطن کو آباد کر لیتا ہے تو اس کا یہی مقام ہوتا ہے۔ کہ اس کو بازار نقصان نہیں دے سکتا وہ مسجد میں رہے یا بازار میں اس کا تعلق اپنے مالک کے ساتھ استوار رہتا ہے جیسا کہ سلطان العارفین حضر ت سلطان باھُوؒرحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں

پاک پلیت نہ ہوندے ہر گز توڑے رہندے وچ پلیتی ھُو

وحدت دے دریا اچھلے ہک دل صحی نہ کیتی ھُو

ہک بتخانیں واصل ہوئے ہک پڑھ پڑھ رہن مسیتی ھُو

فاضل سٹ فضیلت بیٹھے باھُو عشق نماز جاں نیتی ھُو

(۳)

حضرت شیخ جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ ؒ فرماتے ہیں کہ مَیں نے حضرت سری سقطی ؒ سے بڑھ کر کسی کو عبادت میں کامل تر نہیں پایا، ۸۹سال گزر گئے آپ ؒنے اپنا پہلو زمین پر نہ رکھا سوائے بیمار ی ¿مرگ کے -

حضرت جنید بغدادی حضرت سری سقطی کے الفاظ نقل فرماتے ہیں : 

٭”میرے نفس نے ۰۴سال تک شہد کی آرزو کی لیکن مَیں نے اس کو نہ دیا“-

٭”مَیں دن بھر میں کئی بار آئینہ دیکھتا ہو ںکہ شاید گناہوں کے سبب میرا چہرہ سیاہ نہ ہو“ -

٭”میں چاہتا ہوں کہ تما م جہاں کا غم میرے دل ہی میں ہوتا کہ لوگ اندو ہ وغم سے فارغ ہوں “ - 

٭”نوجوانوں ! بڑھاپے سے پہلے کچھ کام کر لوکیونکہ ضعیف ہو کر کچھ نہ کر سکوگے جیسے کہ مَیں نہیں کر سکتا “- (حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ آپ ؒجب یہ فرما رہے تھے اس وقت بھی آپؒ کی حالت یہ تھی کہ جوان بھی آپؒ کی طرح عبادت نہ کر سکتا تھا)- 

اِ ن دونوں روایتوں سے اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ آپؒ کے دل میں خلق ِ خد ا اور خدا ئے لا شریک کے ساتھ کس قدر گہرا تعلق ہے کہ مخلوق ِ خدا کے غم لینا چاہتے ہیںتاکہ خلق ِ خدا کو کوئی غم و تکلیف نہ پہنچے اور بارگاہِ ایزدی میں اس قدر حاضری کے باوجود عاجزی و انکساری کا اظہار فرما رہے ہیں - اس اَمر کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے ۔ جےسا کہ تذکرة الاولےاءمےںہے آپ ؒ فرماتے ہےںکہ اےک روز بغداد کے بازار مےں آگ لگ گئی اور مےری دُکان جلنے سے محفوظ رہی اےک شخص نے مجھ سے کہا کہ آپؒ کی دُکان نہےں جلی مَےں نے کہا الحمد للہ تو اس بات پر مجھے شرم آئی کہ مَیںنے اپنے آپ کو دوسرے مسلمان بھائےوں سے بہتر خےا ل کےا اور دُنےا کے مال بچ جانے پر شکرادا کےا-دُکان مےں جو کچھ تھا خےرات کر دےا پھر تصوّف کے طرےقہ کو اختےا ر کےا اسی لےے تو آپؒ فرماتے ہےںامےر ہمساےوں ،بازاری قارےوں اور دولت مند عالموں سے دور رہو فرماےا جو شخص چاہتا ہے کہ مےرا دےن سلامت رہے اور جان و تن راحت حاصل کرےں اور غم مےں کمی ہو، اس سے کہہ دو کہ دُنےا سے عُزلت اختےا ر کرے ۔سوائے پانچ اشےاءکے تمام دُنےا فضول ہے -

۱۔روٹی اس قدر کے جس سے زندگی قائم رہے -

۲۔ پانی اتنا جس سے پےاس رفع ہو سکے-

۳۔ کپڑا تنا جس سے ستر عورت (شرعی لباس)ہو سکے-

۴۔ گھر جس میں رہائش ہو سکے-

۵۔ علم اتنا جس پر عمل ہو سکے -

 جو گناہ خواہش کے سبب ہو اس کی بخشش کی اُمےد ہو سکتی ہے اور جو گناہ تکبر کی وجہ سے ہو اس کی بخشش کی اُمےد نہےں کےونکہ گناہ بھی تکبر کی وجہ سے تھافرماےا ادب دل کا مترجم ہے - سب سے زےادہ قوت ےہ ہے کہ تجھے اپنے نفس پر غلبہ ہو جو اپنے نفس کی تادےب سے عاجز ہے وہ غےر کوکےا ادب دے گا اور فرماےا جس شخص کو نعمت کی قدر نہےں ہوتی اس کی نعمت وہاں سے زوال پذےر ہو ناشروع ہوتی ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہےں ہوتا - 

دوسرے مقام پر فرماتے ہےںجو حق تعالیٰ کا مطےع ہو جاتا ہے سب اس کے مطےع ہو جاتے ہےںتےری زبان تےرے دل کی ترجمان ہے اور تےرا چہرہ تےرے دل کا آئینہ ہے تےرے چہرے سے دل کی حقےقت ظاہر ہوتی ہے اور فرماےا دل کی تےن اقسام ہےں جن میں سے اےک پہاڑ کی مانند ہے انہےں کوئی شخص اپنی جگہ سے نہےں ہلا سکتا جےسا کہ فرمانِ باریٰ تعالیٰ ہے:

 ﴾ثُمَّ قَسَت± قُلُو±بُکُم± مِّن±م بَع±دِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَال±حِجَارَةِ﴿(۴)

 ترجمہ: پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے پس وہ پتھروں کی مثل ہےں-

 اےک دل درخت کی طرح ہے جو ہوا کی تےزی سے کبھی کبھی جھک جاتا ہے اور اےک دل پَر کی طرح ہے کہ ہوا کا جھونکا اس کو ادِھر اُدھر لےے پھرتا ہے 

آپ تصوف کے متعلق فرماتے ہےں کہ تصوف کے تےن معنی ہیں-

 اےک توےہ ہے کہ اس کی معرفت نورِ ورع کو نہ بجھائے-دوسرا ےہ ہے کہ علم باطن کے متعلق کوئی اےسی بات نہ کرے جس سے کتاب ظاہر کا نقص لازم آتا ہے-تیسرا اس کی کرامت وہ کام کرے کہ لوگ حرام سے محفوظ رہےں۔ (۵)

تصوف کے بارے مےں شےخ بغددای رحمة اللہ علیہ ؒ فرماتے ہےں 

”اےں را ہ کسے ےابد کہ کتاب بر دست راست گرفتہ باشد و سنت مصطفی صلی اللّٰہ علےہ وسلم بر دست چپ و در روشنائی اےں دو شمع مے رود تانہ در سفاک شبہات افتد و نہ در ظلمت بدعت“(۶)

ترجمہ :ےہ راہ تو صرف وہی پا سکتا ہے جس کے دائےں ہاتھ مےں قُرآن اور بائےں ہاتھ مےں سنتِ رسول ﷺ ہو اور ان دو چراغوں کی روشنی مےں راستہ طے کرے تاکہ نہ شبہات کے گڑھوں مےں گرے اور نہ بدعت کی تارےکی مےں بھٹکے-

شےخ ابو بکر ؒ فرماتے ہےں : 

﴾الطرےق واضح والکتاب والسنت قائم بےن اظہرنا﴿(۷)

ترجمہ : :راستہ واضح ہے اور کتاب و سنت ہمارے سامنے ہےں-

ابو الحسےن نوری فرماتے ہےں :

﴾التصوف ترک کل حظ للنفس﴿ (۸)

ترجمہ : تصوف نفس کی تمام خواہشات چھوڑنے کا نام ہے-

ابو علی قزوےنی فرماتے ہےں:

﴾ التصوف ھوالاخلاق المرضےتہ﴿(۹)

ترجمہ : تصوف پسندےدہ اخلاق کانام ہے-

ابو محمد الجرےری فرماتے ہےں: 

﴾التصوف الدخول کل خلق سنی والخروج من کل خلق دنی﴿ (۰۱)

ترجمہ : تصوف ہر اچھی خصلت اپنانے اورہر بُری عادت سے بچنے کا نام ہے۔

سلطان العارفےن حضرت سلطان باھُورحمة اللہ علیہ فرماتے ہےں: ”تصوف کے کےا معنی ہےں؟تصوف دل کی کامل صفائی، معرفت الٰہی استغراقِ توحےدِ ربانی کا نام ہے-“ (۱۱)

”تصوف کے کےا معنی ہےں ؟ تصوف کے معنی ہےں توحےد اور توحےد کے کےا معنی ہےں ؟اللہ ہی اللہ -“(۲۱)

تصوف دل سے ماسویٰ اللہ کا زنگ اُتارنے کی راہ ہے جس مےں تصورِ ربانی سے حضوری کا شرفِ لطےف ،رُوحانےت ِ قبور کا تصرف ،توجہ قرب اللہ کی توفےق تفکر فنا فی اللہ کی تحقےق جامع الجمعےت رفاقت ِ حق پائی جاتی ہے- (۳۱)

حضرت سری سقطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہےں:

 علامت ِزہد نفس کا آرام پکڑنا ہے طلب و تلاش سے اور اس چےز پہ قناعت کرنا جو بھوک کو زائل کرے اور ستر چھپانے والی چےزوں پر راضی ہونا ہے اور نفس کا فضولےات سے نفرت کرنا اور مخلوق کو دل سے باہر نکال دےنا ہے-آپ عبادت کا سرماےہ بےان کرتے ہوئے فرماتے ہےں عباد ت کا سرماےہ زہد ہے اور دُنےا سے رُوگردانی سرماےہ قناعت ہے فرماےا کہ زہد میں عےش اچھا نہےں کےونکہ وہ اپنے آپ میں مشغول ہوتا ہے عارف کا عےش اچھا ہے کےونکہ وہ اپنے آپ سے علےحدگی اختےار کرتا ہے-

حضرت جنےدرحمة اللہ علیہ فرماتے ہےں آپ کی طبیعت ناساز ہوئی تو مےں بےمار پُرسی کے لےے حاضر ہوا اور درےافت کےا آپ کا کےا حال ہے ؟

کےف اشکو الی طبیبی ما بی 

 والذی بی اصابنی من طبیبی

 ترجمہ: مَیں اپنی مصیبت کا شکوہ طبیب سے کیا کروں کہ جو مصیبت مجھے پہنچی ہے وہ طبیب ہی کی طرف سے ہے-

القلب محترق والدمع مستبق 

والکرب مجتمع والصبر مفترق

 ترجمہ:دل جل رہا ہے اور اشک تیزی سے رواں ہےں اور رنج اکٹھے ہیں اور صبر دور ہے-

کیف القرار علی من لا قرارلہ

مما جناہ الھوا والشوق والقلق 

ترجمہ:جسے قرار نہیں اس پر کیسے قرار ہو کیونکہ محبت شوق اور بے چینی نے اس پر مصیبت ڈال رکھی ہے-

یا رب! ان کان لی شیی بہ فرج

فامنن علی بہ ما دام بی رمق

ترجمہ:اے میرے رب ! اگر مجھے کسی چیز میں قرار ہو تو جب تک مجھ میں رمق باقی ہے وہ چیز عطا فرما-(۴۱)

اقوال:

 ۱:- بندہ محبت میں اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے کہ اگر تم اسے تیر یا شمشیر مارو تو اس کو خبر نہ ہو-

 ۲:- ہمیشہ عبادت میں کوتاہی کا اقرار کرو جس طرح مَیں کرتا ہوں۔

 ۳:- جو وِرد میرا ہے اگر ایک حرف بھی اس سے فوت ہو جائے تو اس کی قضا نہیں-

۴:- حیا اور اُنس دل کے دروازے پر آتے ہیں اگر دل میں زہد اور پاکیزگی پاتے ہیں تو قیام کرتے ہیں ورنہ لوٹ جاتے ہیں-

۵:- اگر دل میںکوئی اور چیز ہوتی ہے تو یہ پانچ چیزیں اس میں نہیں ٹھہرتیں۔(۱:خدا کا خوف ،۲:خدا تعالیٰ سے اُمید رکھنا ،۳:خدا کے ساتھ دوستی، ۴:خدا سے حیا ،۵:خدا تعالیٰ کے ساتھ اُنس-)

۶:- جس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس قدر قربت ہے اسی قدر اس کی فہم ہے-

۷:- لوگو ںمیں سب سے زیادہ سمجھدار اور عاقل وہ ہے جو قرآن کے اَسرار سمجھتا ہے اور اس پر غوروفکر کرتا ہے-

۸:- قوی ترین خلق وہ ہے جو حق پر صبر کر سکے-

۹:- کل قیامت کے دن (عام )اُمتیوں کو ان کے نبی کی طرف سے پکاریں گے اور اولیاءاللہ کو خدا کی طرف سے پکاریں گے-

۰۱:- عارف(فیض عطا¿ کرنے میں) آفتاب صفت ہوتا ہے جو سب پر چمکتا ہے-

۲۱:- بندہ اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک اپنے دین کو خواہش نفسانی پر ترجیح نہیں دیتا-(۵۱)

قارئین کرام! اولیائے کرام عرفان و ایقان، سلوک وتصوّف، اخلاق و محبت،تعلیم و تربیت، کردار اور انسان دوستی کے مظہراور تبلیغِ حق وصداقت کا سر چشمہ ہیں-ان معزز و مکرم ہستیوں کے ارفع و اعلیٰ نظامِ اصلاح سازی نے جہاں عوام الناس کی اخلاقی قدروں کو بلندوبالا کیا وہاں ایمان و ایقان کی پُر نور شعاعوں کو ان کے قلوب واَذہان میں سرایت کر کے خدا شناسی کی فضا قائم کی- بندگانِ الٰہی کو ذاتِ حق کی اطاعت گذاری اور اس کے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کا درس دیا اور مخلوق کو اس کے خالق سے ملانے کی سعی و بلیغ کی-جیسے کہا گیا ہے،

ََ”تو برائے وصل کردن آمدی“

ان معززومحترم اور برگذیدہ ہستیوں نے ہر دور، ہر زمانے،ہر شہر،ہر خطے، ہر ملک اور ہر نگر میںعرفان و ایقان کی قندیلیں روشن کیںاور خلقِ خدا کو صیحح اور سچے راستے پر گامزن کرنے کی مسلسل جدوجہدکرتے رہے- یہی ان کا مطمع نظر تھا اور ہے اور یہی ان کا مقصد حیات ہے اور یہی ان کے فکر و خیال کا محور و مرکز ہے-

آج بھی اس مشن کوقریہ قریہ،بستی بستی،کوچہ کوچہ اور نگر نگر ہر فرد تک پہنچانے کے لیے سرپرست اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقرحضرت سلطان محمد علی صاحب دامت برکاتہم القدسیہ نے اصلاحی جماعت کی صورت میںیہی دعوت عام کی ہے کہ آپ آئیں اور اسم اللہ ذات کی دولت حاصل کر کے اسے اپنے دل پر نقش کریں اور معرفتِ الٰہی،قربِ خداوندی اور دولتِ ایقانی حاصل کریںنہ کہ محض اولیائے کاملین اور صوفیائے کرام کی کرامات و مقامات کو بیان کرنے تک محدود رہیں بلکہ ان کی تعلیمات اور فرامین پر عمل پیرا ہو کر عملی جامہ پہن کر اپنے آپ کو ان کے راستے پر گامزن کر کے ان کے فیوض و برکات کے حصول کے بعدمعراجِ انسانیت کو حاصل کریں-

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا؟

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں!

(۶۱)

ژژژ

 حوالہ جات:

(۱)(دائرة المعارف الاسلامیہ جلد ۱۱ صفحہ۳)

(۲)(کلید التو حید کلان صفحہ نمبر۱۰۴)

(۳)(ابیاتِ باھُو)

(۴)( البقرة ۴۷)

(۵)(تذکرة الاولےاءص۸۳۲)

(۶)(تذکرة الاولےاءص ۸)

(۷)(اخبارالاخےار ص۱۸)

(۸)(کشف المحجوب باب سوم)

(۹)(کشف المحجوب باب سوم)

(۰۱)(رسالہ قشےرےہ ۷۲۱)

(۱۱)(محک الفقر )

(۲۱)(ایضاً)

(۳۱)(عقلِ بےدار)

(۴۱)(بزمِ اولیاءاز امام عبداللہ بن اسعد یافعی ص ۱۷۔۰۷۳)

(۵۱)(ذکر جمیل ص۲۳۳،۴۳۳)

(۶۱)(بانگِ درا)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر