حضرت جنید بغدادی اور توحید کے چند مسائل

حضرت جنید بغدادی اور توحید کے چند مسائل

حضرت جنید بغدادی اور توحید کے چند مسائل

مصنف: مائیکل انٹونی سیلز مئی 2016

تعارف  :

ابو القاسم ﴿حضرت﴾ جنید بغدادی ؒ  مشہور صوفی بزرگ حضرت سری سقطی ؒ  کے بھتیجے تھے جو حضرت سہل تستری ؒ کے شاگرد تھے- حضرت جنید ؒ کی تعلیمات نے بغداد کے صوفی مکتب ﴿سکول﴾ کو ایک نئی بلندی تک پہنچایا- ان کی تعلیمات کو صوفی ازم میں تسلیم کیا جاتا تھا اور اسی لئے آپ ؒ سید الطائفہ ﴿صوفیائ کے سردار﴾ کے لقب سے معروف ہوئے- آپ کی وفات ۷۹۲ہجری ، ۰۱۹ عیسوی میں بغداد میں ہوئی-

حضرت جنید ؒ کے اقوال کے حوالہ جات تذکروں اور دیگر کتب میں دیکھے جا سکتے ہیں لیکن ان کے اپنے مکمل رسائل چند ہی موجود ہیں- زیادہ تر یہ رسائل ایک ہی قلمی نسخے ﴿مینوسکرپٹ﴾ میں غیر تصحیح متن ﴿ٹیکسٹ﴾ کی صورت میں موجود پائے گئے ہیں- حضرت جنید ؒ کے رسائل کے آخر میں قرونِ وسطیٰ کے نقل نویس نے تکلیف دہ تبصرہ میں شکوہ کیا ہے کہ متن اُس تک عجمی لوگوں کے ذریعے پہنچا جس میں بہت سے مسائل ہیں- اس کا کہنا ہے کہ انشائ اللہ مستقبل میں ایک دن ایسا آئے گا جب زیادہ مستند متن مہیا ہو سکے گا- البتہ جب تک قلمی نسخوں کی مزید روایات دریافت نہیں ہوتیں، ہمارے گمنام مؤلفین کی امیدیں مزید التوا کا شکار رہیں گی-

ان کے ایک قلمی نسخے میں متن کی اچھی صورت نہ ہونے کے علاوہ بھی کئی دشواریوں کا سامنا ہے- حتیٰ کہ جن الفاظ کے متعلق ہمیں یقین ہے کہ یہ جنید کے الفاظ ہیں، اکثر ان کا انداز بھی پُر اسرار اور پیچیدہ ہوتا ہے - جیساکہ کہ حضرت سراج ؒ نے تبصرہ کیا ہے کہ حضرت جنید ؒ یہ فرض کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ ان کا سامع یا قاری وہ مشاہدہ رکھتا تھا جن کے متعلق وہ بات کر رہے ہیں یا پھر حضرت جنید ؒ کے الفاظ کا سامنا کرتے ہوئے وہ مشاہدہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے-

اوپر بیان کی گئی تمام مشکلات کے باوجود یہ رسائل ﴿treatises﴾ کسی بھی ابتدائی صوفی قاعدہ کی نسبت صوفی ازم کے تصورِ 'فنا' کو علمِ دین کی رو سے موثر اور عقلی طور پر مبارزت طلب انداز میں تفصیلاََ بیان کرتے ہیں- اس کے علاوہ یہ صوفیائ کی زندگی اور خیالات میں پیش آنے والی آزمائشوں کے کردار کو بھی ایک مختلف اور سختی کے انداز میں پیش کرتی ہیں-

حضرت جنید ؒ کی تحریروں کا، حتیٰ کہ اگر متن اچھی حالت میں بھی میسر آئے ﴿جیسا کہ نیچے دوسرے مضمون میں﴾، نحوی سطح پر بھی احاطہ کرنا مشکل ہے- حضرت جنید ؒ کے الفاظ ضمنی مگر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں- وہ علم المعانی کی ایک بہت ہی مخصوص اور جداگانہ جدو جہد کا مطالبہ کرتے ہیں، آزمائشوں کے تجربہ کو زندہ کرنا حضرت جنید ؒ کی روحانی تعلیمات کا مرکز ہے-

اس سیکشن میں توحید کے متعلق میسر کتب میں سے چار مختصر مضامین کو منتخب گیا ہے- ہر مضامین کو نسبتاََ بہتر تعلیمی موضوع، جیسے "توحید پر ایک مسئلہ" یا "ایک اور مسئلہ " کی صورت میں متعارف کرایا گیا ہے- اس کے باوجود کئی جگہ رسمی اور اختصار کے ساتھ استعمال ہوئے الفاظ جنید کی خصوصیات کے ساتھ مجادلاتی اور ڈرامائی ٹکرائو ہیں- پہلا مضمون خاص طور پر روحانی وصل پر ثقیل گفتگو ہے جس میں وجد کے مکمل معانی پر بات کی گئی ہے بنیادی تشریح ﴿امام﴾ قشیری ؒ کی جانب سے کی گئی ہے: وجد ﴿ecstasy, finding﴾ اور وجود ﴿ecstatic exixtentiality, found exixtentiality, founded exixtentialityاسے ایک قسم کی خود کار تحریر، شعوری ﴿یا شعور سے آگے﴾ تسلسل ﴿ جسے کسی نے دو رخی سٹرک پر ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ قرار دیا ہے﴾ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو اگلے مضامین میں واضح ہو جائیں گے-

دوسرا مضمون متن کے لحاظ سے دیگر کی نسبت زیادہ محفوظ ہے، اس کا پہلا دوتہائی حصہ ﴿رسالہ﴾ قشیریہ میں دیکھا جا سکتا ہے- یہ روحانی تجربات کے جذباتی مناظر کی لازوال اور تصویری سرگزشت پیش کرتا ہے- سب سے زیادہ نمایاں، موضوع ’’توحید پر ایک اور مسئلہ‘‘ کی تصوراتی خصوصیت اور مضمون کے پہلے الفاظ ’’خوف مجھے جکڑتا ہے، امید میرے لئے آسانی پیدا کرتی ہے‘‘ میں بظاہر ضمیر متکلم کی فوری ضرورت کے درمیان تضاد ہے-

تیسرا مضمون توحید پر گفتگو کو تجرباتی اور داخلی﴿subjective﴾ توحید پر زور دیتے ہوئے مزید آگے بڑھاتا ہے- مضمون ’’طلب‘‘ کے تصور اور اس کی نقیض ﴿paradox﴾ پر پر اسرار بحث سے شروع ہوتا ہے کہ جب تک مطلوب، طالب کو اس کی توقعات اور امیدوں سے پاک نہیں کر دیتا، طالب اپنی ہی خواہشات کے شیطانی چنگل میں پھنسا رہتا ہے- پھر یہ توحیدکے قولِ محال کی جانب بڑھتا ہے- توحید تب ہی حاصل ہوتی ہے جب مؤحد واحد کے وصل میں فنا ہوجاتا ہے-

پھر یہ مضمون خدا کے وصل میں فنا کے تین مقامات بیان کرتا ہے:-

﴿۱﴾اپنے نفس کی مسلسل مخالفت کرکے اپنی صفات کو فنا کرنا، 

﴿۲﴾ اپنی کامیابیوں کی لذت کو فنا کرنا یعنی ذاتی قابلیتوں، اطاعت کی مسرت کو فنا کرنا،  

﴿۳﴾ حقیقت کی بصیرت سے فنا ہونا ’’حقیقت کے آپ پر غالب آ جانے کی علامت کے طور پر اپنے وجدان سے‘‘-

چوتھا مضمون توحید کے چار درجات بیان کرتا ہے- پہلے درجہ میں ایک خدا پر ایمان لانے اور اس کے مقابلے میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانے پر مشتمل ہے جسے ہم مواحدانہ مذہب کا عقیدہ کہہ سکتے ہیں- دوسرا درجہ ظاہری اعمال کی سطح پر واقع ہے یعنی فرد کا دینی رسومات اور شریعت کی زندگی اپناتے ہوئے ایک خدا کے ساتھ مکمل ہم آہنگی ﴿harmonization﴾ اختیار کرنے پر مشتمل ہے- تیسرا درجہ فرد کی باطنی سرگرمیوںکو ایک مرکز و محورکے گرد ہم آہنگ کرتا ہے- چوتھے درجے کی منظر کشی فرد کی ذات کیلئے اس مقام کا حوالہ لاتی ہے ’’جیسا کہ وہ تھا، ہونے سے قبل‘‘ یعنی وجود میں آنے سے قبل، ازل سے قبل ﴿pre-eternal﴾ اللہ تعالیٰ کے قول:-

﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی﴾﴿سورۃ اعراف :۷، آیت: ۲۷۱

 ’’کیا میں تمہارا ر ب نہیں ہوں؟ کیوں نہیں-‘‘

 کے متعلق ہے- چوتھے درجہ پر ﴿حضرت﴾ جنید ﴿ بغدادیؒ﴾ وجود کا کھوج لگاتے ہوئے تمام بحث کو انجام تک پہنچاتے ہیں ’’جیسا وہ تھا ہونے سے قبل ‘‘- یہاں آپ کی گفتگو غنائیت، شاعری اور مذہبی حدت کا ملاپ اختیار کر لیتی ہے -

توحید کے چند مسائل:

توحید پر ایک باب:

’’جان لو کہ خدائے عزوجل کی عبادت کا پہلا درجہ اس کی معرفت ہے اور اس کی اصل معرفت اس کی توحید ہے- اس کی توحید قائم ہوتی ہے اس سے صفات کی نفی کرنے سے، یعنی اس امر کی نفی کرنے سے کہ وہ کیسا ہے؟کس حیثیت میں ہے؟ کہاں ہے؟ اسی توحید کے ذریعے انسان ذات خداوندی تک راہ پا سکتا ہے- اس تک راہ پانے اور پہنچنے کا دارومدار اصل اس کی بخشی ہوئی توفیق پر ہوتا ہے- چنانچہ اسی کی توفیق سے انسان اس کی توحید پر قائم رہ سکتا ہے- اس کی توحید سے ہی در اصل اس کی تصدیق ہوتی ہے اور اس کی تصدیق سے اس کی اصل حقیقت تک انسان کی رسائی ہوتی ہے اور اس کی اصل حقیقت واضح ہونے سے ہی اس کی حقیقی معرفت حاصل ہوتی ہے- جب اس کی پوری معرفت حاصل ہو گئی تو انسان اس کی دعوت پر لبیک کہہ سکتا ہے- جب اس نے اس کی دعوت پر لبیک کہہ دیا تو اس کا اس سے اتصال واقع ہو گیا- اتصال ہوتے ہی ذات حق کی توضیح و تبیین کا مرحلہ آتا ہے اور اس توضیح و تبیین سے حیرت کی کیفیت طاری ہوتی ہے- حیرت کی کیفیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ توضیح و تبیین کی یہ صلاحیت اس میں ختم ہو جاتی ہے، اور اس کے ختم ہونے سے قوتِ وصف و بیاں بھی اس میں باقی نہیں رہتی- جب انسان میں قوتِ وصف و بیاں باقی نہ رہے تو وہ ایسی حالت میں داخل ہو جاتا ہے جہاں اس کا وجود صرف خدا تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے- اور خدا تعالیٰ کی خاطر اس وجود کی منزل سے وہ حقیقتِ شہود کی منزل میں داخل ہوتا ہے اور ساتھ ہی اپنے وجود سے خارج ہو جاتا ہے- اس کے وجود کے اس طرح گم ہو جانے سے اس کا روحانی وجود صفا و مجلا ہو جاتا ہے- کامل لطافت کی اس حالت میں وہ اپنی ذاتی صفات بالکل گم کر دیتا ہے اور اس گمشدگی ٔ صفات کے باعث وہ وجودِ خدا وندی میں پوری طرح مدغم ہو جاتا ہے- ذات خداوندی میں مدغم اور متصل ہو جانے کے سبب وہ اپنے آپ سے بالکل گم ہو جاتا ہے- اس طرح جب وہ اپنے آپ سے گم ہوتا ہے تو پیش گاہِ خداوندی میں کلیتہً حاضر ہوتا ہے- دوسرے لفظوں میں وہ بیک وقت حاضر بھی ہوتا اور غائب بھی- وہ اس جگہ ہوتا ہے جہاں وہ پہلے نہیں تھا اور اس جگہ موجود نہیں ہوتا جہاں کہ وہ پہلے تھا- پھر جب اس کا وجود نہیں رہتا تو وہاں موجود ہوتا ہے کہ وہ ﴿قبل از آفرینش﴾ تھا- وہ اپنے آپ میں آ جاتا ہے بعد اس کے کہ وہ در حقیقت اپنے آپ میں نہیں تھا- اس مقام پر وہ اپنے آپ میں موجود ہوتا ہے اور ذات خدا وندی کے اندر بھی- حالانکہ اس سے پہلے وہ صرف ذاتِ خداوندی میں موجود تھا- اپنے آپ میں نہیں! وہ اس لیے کہ اب وہ غلبۂ خدا وندی کی سرشاری سے نکل کر حالتِ صحو ﴿ہوش کی حالت﴾ کی کُھلی فضا میں آ جاتا ہے اور اس کا مشاہدہ اسے واپس مل جاتا ہے- چنانچہ اب تمام چیزیں اپنی پہلی حالت پر آ جاتی ہیں اور خود اس کو بھی اپنی پہلی صفات واپس مل جاتی ہیں- اس حالتِ فنا کے بعد اس کے اندر اس کی ذاتی صفات اور اس دنیا میں اس کے اعمال و افعال موجود رہتے ہیں- روحانیت کے اس مقامِ بلند کی انتہائ کو پہنچ جانے کے بعد جب وہ واپس آتا ہے تو اس کا عمل اہلِ دنیا کے لیے ایک لائقِ اتباع نمونہ ہوتا ہے-‘‘

توحید کا ایک مسئلہ:

’’خوف سے میرے اندر انقباض پیدا ہوتا ہے اور امید کی حالت میں مَیں انبساط محسوس کرتا ہوں- حقیقت مجھے ﴿اپنے رب کے ساتھ﴾ مجتمع کرتی ہے لیکن حق تعالیٰ، اس ظاہر کی رسمی زندگی میں، مجھے علیحدہ رکھتا ہے- جب وہ حالتِ خوف میں مجھے اپنے حضور میں سمیٹ لیتا ہے تو وہ مجھے اپنے آپ سے اس وجود سمیت فنا کر دیتا ہے اور خود مجھ سے﴿یعنی میرے دنیاوی وجود سے﴾ میری حفاظت کرتا ہے- جب اس کی دلائی ہوئی امید کی وجہ سے میرے دل میں حالتِ انشراح پیدا ہوتی ہے تو وہ مجھے اس حالتِ فنا میں اپنے آپ کی طرف واپس لوٹا دیتا ہے اور مجھے اپنی حفاظت خود کرنے کا حکم دیتا ہے- وہ جب حقیقت کی رو سے مجھے اپنے ساتھ متحد کرنا چاہتا ہے تو مجھے بلا کر اپنے حضور میں حاضر کر لیتا ہے اور جب مجھے اس زندگی کی ظاہری رسم کی رو سے الگ کر دینا چاہتا ہے تو وہ مجھے وہ چیز دکھاتا ہے جو میرا اصل وجود نہیں ہوتا اور مجھ پر یوں چھا جاتا ہے ﴿کہ میں اسے دیکھ نہیں سکتا﴾- ان جملہ حالات میں وہ مجھے حرکت میں رکھتا ہے، ایک جگہ جامد نہیںکر دیتا اور مجھے اپنی ذات کی نسبت حالتِ اجنبیت میں رکھتا ہے، مانوس نہیں رہنے دیتا- مَیں جب اپنے آپ میں حاضر ہوتا ہوں تو اپنے ہی وجود کا مزا چکھتا ہوں- کاش وہ مجھے اپنے وجود سے کاملۃً فنا کر کے میرے لیے لذت کا سامان بہم پہنچاتا- یا مجھے اپنے آپ سے غائب کر کے راحت بخشتا اور حالتِ فنا کا مشاہدہ کراتا- فنا میں دراصل میری بقا ہے اور اس حقیقی فنا کی حالت میں حق تعالیٰ میرے اندر فنا اور بقا کی دونوں حالتیں ختم کر دیتا ہے- پس میں حقیقی فنا کی حالت میں نہ باقی ہوتا ہوں ، نہ فانی! اس لیے کہ جب میں اس حالت میں ہوتا ہوں تو بقا اور فنا کا اطلاق میرے سوا کسی اور ذات پر ہوتا ہے‘‘-

توحید کا ایک اور مسئلہ:

’’جان لو کہ تم ذاتِ خداوندی سے بسبب اپنے وجود کے محجوب ہو اور تم اُسے اپنے وجود کے ذریعے نہیں پا سکتے بلکہ خود اسی کے ذریعے ہی اس تک پہنچ سکتے ہو- وہ اس لیے کہ جب اس نے تمہیں اپنے اتصال کی کیفیت کا مشاہدہ کرایا تو اس نے تمہیں اپنی طلب کی طرف دعوت دی اور تم نے اس کی طلب شروع کر دی- پس وہ کیفیتِ اتصال تمہاری نظروں کے سامنے تھی جب کہ تم اس کی طلب کی حالت میں سے گزر رہے تھے اور اپنے مطلوب کو پانے کی خاطر مجاہدہ کر رہے تھے- باوجود اس کے کہ تم حالتِ طلب میں اس کی تلاش اور جستجو میں تھے اور اس کے ضرورت مند تھے، پھر بھی تم اس سے محجوب ہی تھے- پس حالتِ طلب میں تمہارا اصل سہارا اور بھروسہ یہی ہے کہ تمہاری طلب میں جوش و خروش ہو اور اس طلب و جستجو کی جو معرفت اور آگہی اس نے تمہارے لیے پسند کی ہے تو اس کے حقوق ادا کرو- اس ضمن میں اس نے تم پر جو شرائط عائد کی ہیں انہیں پورا کرو اور اُن امور کا خیال رکھو جو وہ خود تمہارے لیے چاہتا ہے کہ پیشِ نظر رکھی جائیں- اس نے تمہیں تمہارے وجود سے نکال کر اپنی حفاظت میں لے لیا- پس اب وہ تمہیں فنا کی حالت میں تمہاری بقا کی طرف لے چلے گا تاکہ تم اپنے مقصود کو پہنچ سکو- اس طرح ایک موّحد ذاتِ خداوندی کے بقا کے طفیل باقی رہتا ہے اور اس کی اپنی توحید اس ذاتِ واحد کی بقا کے سبب قائم رہتی ہے- اگرچہ موّحد خود فنا ہو جاتا ہے- پس اس وقت تم تُم ہی ہوتے ہو، جبکہ اس سے پہلے تم بغیر اپنی اصل حقیقت کے تھے- اس طرح تم حالتِ فنا میں ہوتے ہوئے بھی باقی رہتے ہو-

فنا تین قسم کا ہوتا ہے:-

پہلی قسم کا فنا یہ ہے کہ تم اپنی صفات ، اخلاق اور مزاج کی قید سے آزاد ہو جائو اور اس حالت پر اپنے اعمال سے دلائل بہم پہنچائو- وہ یوں کہ تم خوب محنت و ریاضت کرو اور اپنے نفس کی خواہشات کے خلاف عمل کرو- جو کچھ تمہارا نفس چاہتا ہے اس کی بجائے اسے وہ چیز دو جس سے وہ نفرت کرتا ہے-

دوسری قسم کا فنا یہ ہے کہ تم اپنے خطِّ نفس سے بالکل دستبردار ہو جائو یہاں تک کہ طاعات میں جو لذت ایک عابد و زاہد کو ملتی ہے اس کا احساس بھی تم سے جاتا رہے- تم خود اسی کے اور صرف اسی کے ہو جائو کہ تمہارے اور ذاتِ حق کے درمیان کوئی واسطہ ہی باقی نہ رہے-

اور تیسری قسم کا فنا یہ ہے کہ تجلیات ربانی کا تم پر اتنا غلبہ ہو جائے کہ تمہارے وجود کی حقیقت تمہاری آنکھوں سے اوجھل ہو جائے- ایسی حالت میں تم ایک وجودِ فانی ہو جائو گے جو وجودِ ابدی کے ساتھ متحد ہو کر خود بھی ابدی ہو گیا ہے- تمہارا وجود ، وجودِ خداوندی کے سبب ہی ہوگا، اس لیے کہ تمہاری فنا تو متحقق ہو چکی- تمہاری رسم ﴿یعنی ظاہری شکل﴾ باقی رہے گی لیکن تمہارا نام اور تمہاری انفرادیت مٹ جائے گی‘‘-

توحید کا ایک اور مسئلہ:

’’جان لو کہ توحید لوگوں کے اندر چار درجوں میں پائی جاتی ہے- پہلا درجہ تو عوام الناس کی توحید کا ہے- دوسرے درجے میں وہ توحید آتی ہے جو ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جو دین کے روایتی علم سے بہرہ ور ہیں- تیسرے اور چوتھے درجے کی توحید کا تجربہ ان خواص کو ہوتا ہے جنہیں معرفت حاصل ہوتی ہے-

جہاں تک ایک عام آدمی کی توحید کا تعلق ہے اس کا اظہار خدا کو واحد و لاشریک قرار دینے ، نیز بہت سے خدائوں، ساتھیوں، حریفوں، ہمسروں اور شبیہوں کا ابطال کرنے میں ہوتا ہے- لیکن اس کے ساتھ ’’غیر خدا‘‘ طاقتوں سے امید و خوف بھی وابستہ رکھے جاتے ہیں- اس طرح کی توحید اپنے اندر ضرور ایک فائدہ اور اثر رکھتی ہے کہ اس میں اقرار و احقاق بہر صورت قائم رہتا ہے-

رہی ان لوگوں کی توحید جو علم ظاہر ﴿باضابطہ مذہبی علم﴾ سے بہرہ ور ہیں تو اس اظہارِ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار، نیز دوسرے خدائوں ، شریکوں، حریفوں، ہمسروں اور مشابہتوں کے رد و ابطال سے ہوتا ہے- اس کے ساتھ جہاں تک ظاہری اعمال کا تعلق ہے ان میں ایجابی احکام کی بجا آوری کی جاتی ہے اور منہی ﴿ممنوعہ﴾ اُمور سے اجتناب کیا جاتا ہے- یہ سب کچھ نتیجہ ہو تا ہے اس طبقے کی امیدوں، خواہشوں اور اندیشوں کا- اس نوع کی توحید میں بھی ایک حد تک ضرور افادیت ہے- اس لیے کہ اس طرح خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا علی الاعلان ثبوت مہیا کیا جاتا ہے-

اس کے بعد توحید خاص کا درجہ ہے- اس کی پہلی صورت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا جائے اور ارباب و انداد اور اشباہ و اشکال کو نظر و مشاہدہ سے ساقط کر دیا جائے اور خدا کے حکم کو ظاہر اور باطن دونوں میں نافذ کیا جائے- خدا تعالیٰ کے سوا دوسری ہستیوں سے امید اور خوف کے جذبات کو بالکلیہ ختم کر دیا جائے- یہ سب کچھ انسان کے اس تصور کا نتیجہ ہو کہ حق تعالیٰ کی ذات ہر جگہ ہر آن اس کے ساتھ موجود ہے- نیز یہ کہ حق تعالیٰ اسے پکارتا ہے اور وہ اس کا جواب دیتا ہے-

توحیدِ خاص کی دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کے احساس سے یکسر عاری ہو کر ایک خیالی وجود ﴿شبح﴾ کی صورت میں حق تعالیٰ کے سامنے اس طرح حاضر ہو کہ ان دونوں کے درمیان کوئی تیسری چیز حائل نہ ہو- پھر جس جس طرح اس ذاتِ مطلق کی قدرتِ کاملہ طے کرتی ہے اس کی تدابیر اس خیالی وجود پر مختلف صورتوں میں اثر انداز ہوتی ہے ہیں- اِسے توحیدِ ذاتِ حق کے بحرِ زخّار میں پوری طرح غرق کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ خیالی وجود اپنی ذات میں بالکل فنا ہو جاتا ہے- پھر نہ حق تعالیٰ کی ندا کا سوال باقی رہتا ہے اور نہ اس کی طرف سے اس ندا کے جواب کا- یہاں پہنچ کر اسے حق تعالیٰ کی وحدانیت کا کامل ادراک اس کے قرب کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے- اس حالت میں انسان کے اندرحس اور حرکت ختم ہو جاتی ہے اس لیے کہ جو چیز حق تعالیٰ نے اس سے طلب کی تھی وہ اس نے خود ہی اسے مہیا کر دی- اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس آخری درجے میں پہنچ کر ایک سالک پنی اُس پہلی حالت میں آ جاتا ہے جہاں کہ وہ اس دنیا میں آنے سے پیشتر تھا- اس پر خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے:-

’’اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھو سے ان کی اولاد نکالی اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بنا لیا﴿اور ان سے پوچھا﴾ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں؟ وہ کہنے لگے کیوں نہیں!‘‘

پس کون یہاں موجود تھااور اپنا الگ وجود رکھنے سے پہلے وہ کس طرح موجود تھا- کیا خدا تعالیٰ کے استفسار کا جواب کسی شخص نے دیا تھا، سوائے ان پاک و صاف، لطیف اور مقدس روحوں کے، جنہیں خدا تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور مشیئتِ تامہ نے سامنے لا کھڑا کیا تھا؟

ہاں تو اب وہ ایسے مقام پر ہوتا ہے جہاں وہ آفرینش سے پہلے تھا- ایک موّحد کی حقیقتِ توحید کی آخری منزل ہے جس میں وہ انفرادیت گم کر دیتا ہے‘‘-

Courtesy: Suhail Academy Lahore

EARLY ISLAMIC MYSTICISM BY Michael A. Sells, 

تعارف  :

ابو القاسم ﴿حضرت﴾ جنید ﴿ بغدادی m﴾ مشہور صوفی بزرگ حضرت سری سقطی ﴿m﴾ کے بھتیجے تھے جو حضرت سہل تستری ﴿m﴾ کے شاگرد تھے- حضرت جنید ﴿m﴾ کی تعلیمات نے بغداد کے صوفی مکتب ﴿سکول﴾ کو ایک نئی بلندی تک پہنچایا- ان کی تعلیمات کو صوفی ازم میں تسلیم کیا جاتا تھا اور اسی لئے آپ ﴿m﴾ سید الطائفہ ﴿صوفیائ کے سردار﴾ کے لقب سے معروف ہوئے- آپ کی وفات ۷۹۲ہجری ، ۰۱۹ عیسوی میں بغداد میں ہوئی-

حضرت جنید ﴿m﴾ کے اقوال کے حوالہ جات تذکروں اور دیگر کتب میں دیکھے جا سکتے ہیں لیکن ان کے اپنے مکمل رسائل چند ہی موجود ہیں- زیادہ تر یہ رسائل ایک ہی قلمی نسخے ﴿مینوسکرپٹ﴾ میں غیر تصحیح متن ﴿ٹیکسٹ﴾ کی صورت میں موجود پائے گئے ہیں- حضرت جنید ﴿m﴾ کے رسائل کے آخر میں قرونِ وسطیٰ کے نقل نویس نے تکلیف دہ تبصرہ میں شکوہ کیا ہے کہ متن اُس تک عجمی لوگوں کے ذریعے پہنچا جس میں بہت سے مسائل ہیں- اس کا کہنا ہے کہ انشائ اللہ مستقبل میں ایک دن ایسا آئے گا جب زیادہ مستند متن مہیا ہو سکے گا- البتہ جب تک قلمی نسخوں کی مزید روایات دریافت نہیں ہوتیں، ہمارے گمنام مؤلفین کی امیدیں مزید التوا کا شکار رہیں گی-

ان کے ایک قلمی نسخے میں متن کی اچھی صورت نہ ہونے کے علاوہ بھی کئی دشواریوں کا سامنا ہے- حتیٰ کہ جن الفاظ کے متعلق ہمیں یقین ہے کہ یہ جنید کے الفاظ ہیں، اکثر ان کا انداز بھی پُر اسرار اور پیچیدہ ہوتا ہے - جیساکہ کہ حضرت سراج ﴿m﴾ نے تبصرہ کیا ہے کہ حضرت جنید ﴿m﴾ یہ فرض کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ ان کا سامع یا قاری وہ مشاہدہ رکھتا تھا جن کے متعلق وہ بات کر رہے ہیں یا پھر حضرت جنید ﴿m﴾ کے الفاظ کا سامنا کرتے ہوئے وہ مشاہدہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے-

اوپر بیان کی گئی تمام مشکلات کے باوجود یہ رسائل ﴿treatises﴾ کسی بھی ابتدائی صوفی قاعدہ کی نسبت صوفی ازم کے تصورِ 'فنا' کو علمِ دین کی رو سے موثر اور عقلی طور پر مبارزت طلب انداز میں تفصیلاََ بیان کرتے ہیں- اس کے علاوہ یہ صوفیائ کی زندگی اور خیالات میں پیش آنے والی آزمائشوں کے کردار کو بھی ایک مختلف اور سختی کے انداز میں پیش کرتی ہیں-

حضرت جنید ﴿m﴾ کی تحریروں کا، حتیٰ کہ اگر متن اچھی حالت میں بھی میسر آئے ﴿جیسا کہ نیچے دوسرے مضمون میں﴾، نحوی سطح پر بھی احاطہ کرنا مشکل ہے- حضرت جنید﴿m﴾ کے الفاظ ضمنی مگر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں- وہ علم المعانی کی ایک بہت ہی مخصوص اور جداگانہ جدو جہد کا مطالبہ کرتے ہیں، آزمائشوں کے تجربہ کو زندہ کرنا حضرت جنید ﴿m﴾ کی روحانی تعلیمات کا مرکز ہے-

اس سیکشن میں توحید کے متعلق میسر کتب میں سے چار مختصر مضامین کو منتخب گیا ہے- ہر مضامین کو نسبتاََ بہتر تعلیمی موضوع، جیسے "توحید پر ایک مسئلہ" یا "ایک اور مسئلہ " کی صورت میں متعارف کرایا گیا ہے- اس کے باوجود کئی جگہ رسمی اور اختصار کے ساتھ استعمال ہوئے الفاظ جنید کی خصوصیات کے ساتھ مجادلاتی اور ڈرامائی ٹکرائو ہیں- پہلا مضمون خاص طور پر روحانی وصل پر ثقیل گفتگو ہے جس میں وجد کے مکمل معانی پر بات کی گئی ہے بنیادی تشریح ﴿امام﴾ قشیری ﴿m﴾ کی جانب سے کی گئی ہے: وجد ﴿ecstasy, finding﴾ اور وجود ﴿ecstatic exixtentiality, found exixtentiality, founded exixtentialityاسے ایک قسم کی خود کار تحریر، شعوری ﴿یا شعور سے آگے﴾ تسلسل ﴿ جسے کسی نے دو رخی سٹرک پر ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ قرار دیا ہے﴾ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو اگلے مضامین میں واضح ہو جائیں گے-

دوسرا مضمون متن کے لحاظ سے دیگر کی نسبت زیادہ محفوظ ہے، اس کا پہلا دوتہائی حصہ ﴿رسالہ﴾ قشیریہ میں دیکھا جا سکتا ہے- یہ روحانی تجربات کے جذباتی مناظر کی لازوال اور تصویری سرگزشت پیش کرتا ہے- سب سے زیادہ نمایاں، موضوع ’’توحید پر ایک اور مسئلہ‘‘ کی تصوراتی خصوصیت اور مضمون کے پہلے الفاظ ’’خوف مجھے جکڑتا ہے، امید میرے لئے آسانی پیدا کرتی ہے‘‘ میں بظاہر ضمیر متکلم کی فوری ضرورت کے درمیان تضاد ہے-

تیسرا مضمون توحید پر گفتگو کو تجرباتی اور داخلی﴿subjective﴾ توحید پر زور دیتے ہوئے مزید آگے بڑھاتا ہے- مضمون ’’طلب‘‘ کے تصور اور اس کی نقیض ﴿paradox﴾ پر پر اسرار بحث سے شروع ہوتا ہے کہ جب تک مطلوب، طالب کو اس کی توقعات اور امیدوں سے پاک نہیں کر دیتا، طالب اپنی ہی خواہشات کے شیطانی چنگل میں پھنسا رہتا ہے- پھر یہ توحیدکے قولِ محال کی جانب بڑھتا ہے- توحید تب ہی حاصل ہوتی ہے جب مؤحد واحد کے وصل میں فنا ہوجاتا ہے-

پھر یہ مضمون خدا کے وصل میں فنا کے تین مقامات بیان کرتا ہے:-

﴿۱﴾اپنے نفس کی مسلسل مخالفت کرکے اپنی صفات کو فنا کرنا، 

﴿۲﴾ اپنی کامیابیوں کی لذت کو فنا کرنا یعنی ذاتی قابلیتوں، اطاعت کی مسرت کو فنا کرنا،  

﴿۳﴾ حقیقت کی بصیرت سے فنا ہونا ’’حقیقت کے آپ پر غالب آ جانے کی علامت کے طور پر اپنے وجدان سے‘‘-

چوتھا مضمون توحید کے چار درجات بیان کرتا ہے- پہلے درجہ میں ایک خدا پر ایمان لانے اور اس کے مقابلے میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانے پر مشتمل ہے جسے ہم مواحدانہ مذہب کا عقیدہ کہہ سکتے ہیں- دوسرا درجہ ظاہری اعمال کی سطح پر واقع ہے یعنی فرد کا دینی رسومات اور شریعت کی زندگی اپناتے ہوئے ایک خدا کے ساتھ مکمل ہم آہنگی ﴿harmonization﴾ اختیار کرنے پر مشتمل ہے- تیسرا درجہ فرد کی باطنی سرگرمیوںکو ایک مرکز و محورکے گرد ہم آہنگ کرتا ہے- چوتھے درجے کی منظر کشی فرد کی ذات کیلئے اس مقام کا حوالہ لاتی ہے ’’جیسا کہ وہ تھا، ہونے سے قبل‘‘ یعنی وجود میں آنے سے قبل، ازل سے قبل ﴿pre-eternal﴾ اللہ تعالیٰ کے قول:-

﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی﴾﴿سورۃ اعراف :۷، آیت: ۲۷۱

 ’’کیا میں تمہارا ر ب نہیں ہوں؟ کیوں نہیں-‘‘

 کے متعلق ہے- چوتھے درجہ پر ﴿حضرت﴾ جنید ﴿ بغدادی m﴾ وجود کا کھوج لگاتے ہوئے تمام بحث کو انجام تک پہنچاتے ہیں ’’جیسا وہ تھا ہونے سے قبل ‘‘- یہاں آپ کی گفتگو غنائیت، شاعری اور مذہبی حدت کا ملاپ اختیار کر لیتی ہے -

 

توحید کے چند مسائل:

توحید پر ایک باب:

’’جان لو کہ خدائے عزوجل کی عبادت کا پہلا درجہ اس کی معرفت ہے اور اس کی اصل معرفت اس کی توحید ہے- اس کی توحید قائم ہوتی ہے اس سے صفات کی نفی کرنے سے، یعنی اس امر کی نفی کرنے سے کہ وہ کیسا ہے؟کس حیثیت میں ہے؟ کہاں ہے؟ اسی توحید کے ذریعے انسان ذات خداوندی تک راہ پا سکتا ہے- اس تک راہ پانے اور پہنچنے کا دارومدار اصل اس کی بخشی ہوئی توفیق پر ہوتا ہے- چنانچہ اسی کی توفیق سے انسان اس کی توحید پر قائم رہ سکتا ہے- اس کی توحید سے ہی در اصل اس کی تصدیق ہوتی ہے اور اس کی تصدیق سے اس کی اصل حقیقت تک انسان کی رسائی ہوتی ہے اور اس کی اصل حقیقت واضح ہونے سے ہی اس کی حقیقی معرفت حاصل ہوتی ہے- جب اس کی پوری معرفت حاصل ہو گئی تو انسان اس کی دعوت پر لبیک کہہ سکتا ہے- جب اس نے اس کی دعوت پر لبیک کہہ دیا تو اس کا اس سے اتصال واقع ہو گیا- اتصال ہوتے ہی ذات حق کی توضیح و تبیین کا مرحلہ آتا ہے اور اس توضیح و تبیین سے حیرت کی کیفیت طاری ہوتی ہے- حیرت کی کیفیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ توضیح و تبیین کی یہ صلاحیت اس میں ختم ہو جاتی ہے، اور اس کے ختم ہونے سے قوتِ وصف و بیاں بھی اس میں باقی نہیں رہتی- جب انسان میں قوتِ وصف و بیاں باقی نہ رہے تو وہ ایسی حالت میں داخل ہو جاتا ہے جہاں اس کا وجود صرف خدا تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے- اور خدا تعالیٰ کی خاطر اس وجود کی منزل سے وہ حقیقتِ شہود کی منزل میں داخل ہوتا ہے اور ساتھ ہی اپنے وجود سے خارج ہو جاتا ہے- اس کے وجود کے اس طرح گم ہو جانے سے اس کا روحانی وجود صفا و مجلا ہو جاتا ہے- کامل لطافت کی اس حالت میں وہ اپنی ذاتی صفات بالکل گم کر دیتا ہے اور اس گمشدگی ٔ صفات کے باعث وہ وجودِ خدا وندی میں پوری طرح مدغم ہو جاتا ہے- ذات خداوندی میں مدغم اور متصل ہو جانے کے سبب وہ اپنے آپ سے بالکل گم ہو جاتا ہے- اس طرح جب وہ اپنے آپ سے گم ہوتا ہے تو پیش گاہِ خداوندی میں کلیتہً حاضر ہوتا ہے- دوسرے لفظوں میں وہ بیک وقت حاضر بھی ہوتا اور غائب بھی- وہ اس جگہ ہوتا ہے جہاں وہ پہلے نہیں تھا اور اس جگہ موجود نہیں ہوتا جہاں کہ وہ پہلے تھا- پھر جب اس کا وجود نہیں رہتا تو وہاں موجود ہوتا ہے کہ وہ ﴿قبل از آفرینش﴾ تھا- وہ اپنے آپ میں آ جاتا ہے بعد اس کے کہ وہ در حقیقت اپنے آپ میں نہیں تھا- اس مقام پر وہ اپنے آپ میں موجود ہوتا ہے اور ذات خدا وندی کے اندر بھی- حالانکہ اس سے پہلے وہ صرف ذاتِ خداوندی میں موجود تھا- اپنے آپ میں نہیں! وہ اس لیے کہ اب وہ غلبۂ خدا وندی کی سرشاری سے نکل کر حالتِ صحو ﴿ہوش کی حالت﴾ کی کُھلی فضا میں آ جاتا ہے اور اس کا مشاہدہ اسے واپس مل جاتا ہے- چنانچہ اب تمام چیزیں اپنی پہلی حالت پر آ جاتی ہیں اور خود اس کو بھی اپنی پہلی صفات واپس مل جاتی ہیں- اس حالتِ فنا کے بعد اس کے اندر اس کی ذاتی صفات اور اس دنیا میں اس کے اعمال و افعال موجود رہتے ہیں- روحانیت کے اس مقامِ بلند کی انتہائ کو پہنچ جانے کے بعد جب وہ واپس آتا ہے تو اس کا عمل اہلِ دنیا کے لیے ایک لائقِ اتباع نمونہ ہوتا ہے-‘‘

توحید کا ایک مسئلہ:

’’خوف سے میرے اندر انقباض پیدا ہوتا ہے اور امید کی حالت میں مَیں انبساط محسوس کرتا ہوں- حقیقت مجھے ﴿اپنے رب کے ساتھ﴾ مجتمع کرتی ہے لیکن حق تعالیٰ، اس ظاہر کی رسمی زندگی میں، مجھے علیحدہ رکھتا ہے- جب وہ حالتِ خوف میں مجھے اپنے حضور میں سمیٹ لیتا ہے تو وہ مجھے اپنے آپ سے اس وجود سمیت فنا کر دیتا ہے اور خود مجھ سے﴿یعنی میرے دنیاوی وجود سے﴾ میری حفاظت کرتا ہے- جب اس کی دلائی ہوئی امید کی وجہ سے میرے دل میں حالتِ انشراح پیدا ہوتی ہے تو وہ مجھے اس حالتِ فنا میں اپنے آپ کی طرف واپس لوٹا دیتا ہے اور مجھے اپنی حفاظت خود کرنے کا حکم دیتا ہے- وہ جب حقیقت کی رو سے مجھے اپنے ساتھ متحد کرنا چاہتا ہے تو مجھے بلا کر اپنے حضور میں حاضر کر لیتا ہے اور جب مجھے اس زندگی کی ظاہری رسم کی رو سے الگ کر دینا چاہتا ہے تو وہ مجھے وہ چیز دکھاتا ہے جو میرا اصل وجود نہیں ہوتا اور مجھ پر یوں چھا جاتا ہے ﴿کہ میں اسے دیکھ نہیں سکتا﴾- ان جملہ حالات میں وہ مجھے حرکت میں رکھتا ہے، ایک جگہ جامد نہیںکر دیتا اور مجھے اپنی ذات کی نسبت حالتِ اجنبیت میں رکھتا ہے، مانوس نہیں رہنے دیتا- مَیں جب اپنے آپ میں حاضر ہوتا ہوں تو اپنے ہی وجود کا مزا چکھتا ہوں- کاش وہ مجھے اپنے وجود سے کاملۃً فنا کر کے میرے لیے لذت کا سامان بہم پہنچاتا- یا مجھے اپنے آپ سے غائب کر کے راحت بخشتا اور حالتِ فنا کا مشاہدہ کراتا- فنا میں دراصل میری بقا ہے اور اس حقیقی فنا کی حالت میں حق تعالیٰ میرے اندر فنا اور بقا کی دونوں حالتیں ختم کر دیتا ہے- پس میں حقیقی فنا کی حالت میں نہ باقی ہوتا ہوں ، نہ فانی! اس لیے کہ جب میں اس حالت میں ہوتا ہوں تو بقا اور فنا کا اطلاق میرے سوا کسی اور ذات پر ہوتا ہے‘‘-

توحید کا ایک اور مسئلہ:

’’جان لو کہ تم ذاتِ خداوندی سے بسبب اپنے وجود کے محجوب ہو اور تم اُسے اپنے وجود کے ذریعے نہیں پا سکتے بلکہ خود اسی کے ذریعے ہی اس تک پہنچ سکتے ہو- وہ اس لیے کہ جب اس نے تمہیں اپنے اتصال کی کیفیت کا مشاہدہ کرایا تو اس نے تمہیں اپنی طلب کی طرف دعوت دی اور تم نے اس کی طلب شروع کر دی- پس وہ کیفیتِ اتصال تمہاری نظروں کے سامنے تھی جب کہ تم اس کی طلب کی حالت میں سے گزر رہے تھے اور اپنے مطلوب کو پانے کی خاطر مجاہدہ کر رہے تھے- باوجود اس کے کہ تم حالتِ طلب میں اس کی تلاش اور جستجو میں تھے اور اس کے ضرورت مند تھے، پھر بھی تم اس سے محجوب ہی تھے- پس حالتِ طلب میں تمہارا اصل سہارا اور بھروسہ یہی ہے کہ تمہاری طلب میں جوش و خروش ہو اور اس طلب و جستجو کی جو معرفت اور آگہی اس نے تمہارے لیے پسند کی ہے تو اس کے حقوق ادا کرو- اس ضمن میں اس نے تم پر جو شرائط عائد کی ہیں انہیں پورا کرو اور اُن امور کا خیال رکھو جو وہ خود تمہارے لیے چاہتا ہے کہ پیشِ نظر رکھی جائیں- اس نے تمہیں تمہارے وجود سے نکال کر اپنی حفاظت میں لے لیا- پس اب وہ تمہیں فنا کی حالت میں تمہاری بقا کی طرف لے چلے گا تاکہ تم اپنے مقصود کو پہنچ سکو- اس طرح ایک موّحد ذاتِ خداوندی کے بقا کے طفیل باقی رہتا ہے اور اس کی اپنی توحید اس ذاتِ واحد کی بقا کے سبب قائم رہتی ہے- اگرچہ موّحد خود فنا ہو جاتا ہے- پس اس وقت تم تُم ہی ہوتے ہو، جبکہ اس سے پہلے تم بغیر اپنی اصل حقیقت کے تھے- اس طرح تم حالتِ فنا میں ہوتے ہوئے بھی باقی رہتے ہو-

فنا تین قسم کا ہوتا ہے:-

پہلی قسم کا فنا یہ ہے کہ تم اپنی صفات ، اخلاق اور مزاج کی قید سے آزاد ہو جائو اور اس حالت پر اپنے اعمال سے دلائل بہم پہنچائو- وہ یوں کہ تم خوب محنت و ریاضت کرو اور اپنے نفس کی خواہشات کے خلاف عمل کرو- جو کچھ تمہارا نفس چاہتا ہے اس کی بجائے اسے وہ چیز دو جس سے وہ نفرت کرتا ہے-

دوسری قسم کا فنا یہ ہے کہ تم اپنے خطِّ نفس سے بالکل دستبردار ہو جائو یہاں تک کہ طاعات میں جو لذت ایک عابد و زاہد کو ملتی ہے اس کا احساس بھی تم سے جاتا رہے- تم خود اسی کے اور صرف اسی کے ہو جائو کہ تمہارے اور ذاتِ حق کے درمیان کوئی واسطہ ہی باقی نہ رہے-

اور تیسری قسم کا فنا یہ ہے کہ تجلیات ربانی کا تم پر اتنا غلبہ ہو جائے کہ تمہارے وجود کی حقیقت تمہاری آنکھوں سے اوجھل ہو جائے- ایسی حالت میں تم ایک وجودِ فانی ہو جائو گے جو وجودِ ابدی کے ساتھ متحد ہو کر خود بھی ابدی ہو گیا ہے- تمہارا وجود ، وجودِ خداوندی کے سبب ہی ہوگا، اس لیے کہ تمہاری فنا تو متحقق ہو چکی- تمہاری رسم ﴿یعنی ظاہری شکل﴾ باقی رہے گی لیکن تمہارا نام اور تمہاری انفرادیت مٹ جائے گی‘‘-

توحید کا ایک اور مسئلہ:

’’جان لو کہ توحید لوگوں کے اندر چار درجوں میں پائی جاتی ہے- پہلا درجہ تو عوام الناس کی توحید کا ہے- دوسرے درجے میں وہ توحید آتی ہے جو ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جو دین کے روایتی علم سے بہرہ ور ہیں- تیسرے اور چوتھے درجے کی توحید کا تجربہ ان خواص کو ہوتا ہے جنہیں معرفت حاصل ہوتی ہے-

جہاں تک ایک عام آدمی کی توحید کا تعلق ہے اس کا اظہار خدا کو واحد و لاشریک قرار دینے ، نیز بہت سے خدائوں، ساتھیوں، حریفوں، ہمسروں اور شبیہوں کا ابطال کرنے میں ہوتا ہے- لیکن اس کے ساتھ ’’غیر خدا‘‘ طاقتوں سے امید و خوف بھی وابستہ رکھے جاتے ہیں- اس طرح کی توحید اپنے اندر ضرور ایک فائدہ اور اثر رکھتی ہے کہ اس میں اقرار و احقاق بہر صورت قائم رہتا ہے-

رہی ان لوگوں کی توحید جو علم ظاہر ﴿باضابطہ مذہبی علم﴾ سے بہرہ ور ہیں تو اس اظہارِ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار، نیز دوسرے خدائوں ، شریکوں، حریفوں، ہمسروں اور مشابہتوں کے رد و ابطال سے ہوتا ہے- اس کے ساتھ جہاں تک ظاہری اعمال کا تعلق ہے ان میں ایجابی احکام کی بجا آوری کی جاتی ہے اور منہی ﴿ممنوعہ﴾ اُمور سے اجتناب کیا جاتا ہے- یہ سب کچھ نتیجہ ہو تا ہے اس طبقے کی امیدوں، خواہشوں اور اندیشوں کا- اس نوع کی توحید میں بھی ایک حد تک ضرور افادیت ہے- اس لیے کہ اس طرح خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا علی الاعلان ثبوت مہیا کیا جاتا ہے-

اس کے بعد توحید خاص کا درجہ ہے- اس کی پہلی صورت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا جائے اور ارباب و انداد اور اشباہ و اشکال کو نظر و مشاہدہ سے ساقط کر دیا جائے اور خدا کے حکم کو ظاہر اور باطن دونوں میں نافذ کیا جائے- خدا تعالیٰ کے سوا دوسری ہستیوں سے امید اور خوف کے جذبات کو بالکلیہ ختم کر دیا جائے- یہ سب کچھ انسان کے اس تصور کا نتیجہ ہو کہ حق تعالیٰ کی ذات ہر جگہ ہر آن اس کے ساتھ موجود ہے- نیز یہ کہ حق تعالیٰ اسے پکارتا ہے اور وہ اس کا جواب دیتا ہے-

توحیدِ خاص کی دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کے احساس سے یکسر عاری ہو کر ایک خیالی وجود ﴿شبح﴾ کی صورت میں حق تعالیٰ کے سامنے اس طرح حاضر ہو کہ ان دونوں کے درمیان کوئی تیسری چیز حائل نہ ہو- پھر جس جس طرح اس ذاتِ مطلق کی قدرتِ کاملہ طے کرتی ہے اس کی تدابیر اس خیالی وجود پر مختلف صورتوں میں اثر انداز ہوتی ہے ہیں- اِسے توحیدِ ذاتِ حق کے بحرِ زخّار میں پوری طرح غرق کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ خیالی وجود اپنی ذات میں بالکل فنا ہو جاتا ہے- پھر نہ حق تعالیٰ کی ندا کا سوال باقی رہتا ہے اور نہ اس کی طرف سے اس ندا کے جواب کا- یہاں پہنچ کر اسے حق تعالیٰ کی وحدانیت کا کامل ادراک اس کے قرب کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے- اس حالت میں انسان کے اندرحس اور حرکت ختم ہو جاتی ہے اس لیے کہ جو چیز حق تعالیٰ نے اس سے طلب کی تھی وہ اس نے خود ہی اسے مہیا کر دی- اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس آخری درجے میں پہنچ کر ایک سالک پنی اُس پہلی حالت میں آ جاتا ہے جہاں کہ وہ اس دنیا میں آنے سے پیشتر تھا- اس پر خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے:-

’’اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھو سے ان کی اولاد نکالی اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بنا لیا﴿اور ان سے پوچھا﴾ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں؟ وہ کہنے لگے کیوں نہیں!‘‘

پس کون یہاں موجود تھااور اپنا الگ وجود رکھنے سے پہلے وہ کس طرح موجود تھا- کیا خدا تعالیٰ کے استفسار کا جواب کسی شخص نے دیا تھا، سوائے ان پاک و صاف، لطیف اور مقدس روحوں کے، جنہیں خدا تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور مشیئتِ تامہ نے سامنے لا کھڑا کیا تھا؟

ہاں تو اب وہ ایسے مقام پر ہوتا ہے جہاں وہ آفرینش سے پہلے تھا- ایک موّحد کی حقیقتِ توحید کی آخری منزل ہے جس میں وہ انفرادیت گم کر دیتا ہے‘‘-

Courtesy: Suhail Academy Lahore

 

EARLY ISLAMIC MYSTICISM BY Michael A. Sells, 

 

تعارف:

ابو القاسم ﴿حضرت﴾ جنید ﴿ بغدادی m﴾ مشہور صوفی بزرگ حضرت سری سقطی ﴿m﴾ کے بھتیجے تھے جو حضرت سہل تستری ﴿m﴾ کے شاگرد تھے- حضرت جنید ﴿m﴾ کی تعلیمات نے بغداد کے صوفی مکتب ﴿سکول﴾ کو ایک نئی بلندی تک پہنچایا- ان کی تعلیمات کو صوفی ازم میں تسلیم کیا جاتا تھا اور اسی لئے آپ ﴿m﴾ سید الطائفہ ﴿صوفیائ کے سردار﴾ کے لقب سے معروف ہوئے- آپ کی وفات ۷۹۲ہجری ، ۰۱۹ عیسوی میں بغداد میں ہوئی-

حضرت جنید ﴿m﴾ کے اقوال کے حوالہ جات تذکروں اور دیگر کتب میں دیکھے جا سکتے ہیں لیکن ان کے اپنے مکمل رسائل چند ہی موجود ہیں- زیادہ تر یہ رسائل ایک ہی قلمی نسخے ﴿مینوسکرپٹ﴾ میں غیر تصحیح متن ﴿ٹیکسٹ﴾ کی صورت میں موجود پائے گئے ہیں- حضرت جنید ﴿m﴾ کے رسائل کے آخر میں قرونِ وسطیٰ کے نقل نویس نے تکلیف دہ تبصرہ میں شکوہ کیا ہے کہ متن اُس تک عجمی لوگوں کے ذریعے پہنچا جس میں بہت سے مسائل ہیں- اس کا کہنا ہے کہ انشائ اللہ مستقبل میں ایک دن ایسا آئے گا جب زیادہ مستند متن مہیا ہو سکے گا- البتہ جب تک قلمی نسخوں کی مزید روایات دریافت نہیں ہوتیں، ہمارے گمنام مؤلفین کی امیدیں مزید التوا کا شکار رہیں گی-

ان کے ایک قلمی نسخے میں متن کی اچھی صورت نہ ہونے کے علاوہ بھی کئی دشواریوں کا سامنا ہے- حتیٰ کہ جن الفاظ کے متعلق ہمیں یقین ہے کہ یہ جنید کے الفاظ ہیں، اکثر ان کا انداز بھی پُر اسرار اور پیچیدہ ہوتا ہے - جیساکہ کہ حضرت سراج ﴿m﴾ نے تبصرہ کیا ہے کہ حضرت جنید ﴿m﴾ یہ فرض کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ ان کا سامع یا قاری وہ مشاہدہ رکھتا تھا جن کے متعلق وہ بات کر رہے ہیں یا پھر حضرت جنید ﴿m﴾ کے الفاظ کا سامنا کرتے ہوئے وہ مشاہدہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے-

اوپر بیان کی گئی تمام مشکلات کے باوجود یہ رسائل ﴿treatises﴾ کسی بھی ابتدائی صوفی قاعدہ کی نسبت صوفی ازم کے تصورِ 'فنا' کو علمِ دین کی رو سے موثر اور عقلی طور پر مبارزت طلب انداز میں تفصیلاََ بیان کرتے ہیں- اس کے علاوہ یہ صوفیائ کی زندگی اور خیالات میں پیش آنے والی آزمائشوں کے کردار کو بھی ایک مختلف اور سختی کے انداز میں پیش کرتی ہیں-

حضرت جنید ﴿m﴾ کی تحریروں کا، حتیٰ کہ اگر متن اچھی حالت میں بھی میسر آئے ﴿جیسا کہ نیچے دوسرے مضمون میں﴾، نحوی سطح پر بھی احاطہ کرنا مشکل ہے- حضرت جنید﴿m﴾ کے الفاظ ضمنی مگر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں- وہ علم المعانی کی ایک بہت ہی مخصوص اور جداگانہ جدو جہد کا مطالبہ کرتے ہیں، آزمائشوں کے تجربہ کو زندہ کرنا حضرت جنید ﴿m﴾ کی روحانی تعلیمات کا مرکز ہے-

اس سیکشن میں توحید کے متعلق میسر کتب میں سے چار مختصر مضامین کو منتخب گیا ہے- ہر مضامین کو نسبتاََ بہتر تعلیمی موضوع، جیسے "توحید پر ایک مسئلہ" یا "ایک اور مسئلہ " کی صورت میں متعارف کرایا گیا ہے- اس کے باوجود کئی جگہ رسمی اور اختصار کے ساتھ استعمال ہوئے الفاظ جنید کی خصوصیات کے ساتھ مجادلاتی اور ڈرامائی ٹکرائو ہیں- پہلا مضمون خاص طور پر روحانی وصل پر ثقیل گفتگو ہے جس میں وجد کے مکمل معانی پر بات کی گئی ہے بنیادی تشریح ﴿امام﴾ قشیری ﴿m﴾ کی جانب سے کی گئی ہے: وجد ﴿ecstasy, finding﴾ اور وجود ﴿ecstatic exixtentiality, found exixtentiality, founded exixtentialityاسے ایک قسم کی خود کار تحریر، شعوری ﴿یا شعور سے آگے﴾ تسلسل ﴿ جسے کسی نے دو رخی سٹرک پر ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ قرار دیا ہے﴾ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو اگلے مضامین میں واضح ہو جائیں گے-

دوسرا مضمون متن کے لحاظ سے دیگر کی نسبت زیادہ محفوظ ہے، اس کا پہلا دوتہائی حصہ ﴿رسالہ﴾ قشیریہ میں دیکھا جا سکتا ہے- یہ روحانی تجربات کے جذباتی مناظر کی لازوال اور تصویری سرگزشت پیش کرتا ہے- سب سے زیادہ نمایاں، موضوع ’’توحید پر ایک اور مسئلہ‘‘ کی تصوراتی خصوصیت اور مضمون کے پہلے الفاظ ’’خوف مجھے جکڑتا ہے، امید میرے لئے آسانی پیدا کرتی ہے‘‘ میں بظاہر ضمیر متکلم کی فوری ضرورت کے درمیان تضاد ہے-

تیسرا مضمون توحید پر گفتگو کو تجرباتی اور داخلی﴿subjective﴾ توحید پر زور دیتے ہوئے مزید آگے بڑھاتا ہے- مضمون ’’طلب‘‘ کے تصور اور اس کی نقیض ﴿paradox﴾ پر پر اسرار بحث سے شروع ہوتا ہے کہ جب تک مطلوب، طالب کو اس کی توقعات اور امیدوں سے پاک نہیں کر دیتا، طالب اپنی ہی خواہشات کے شیطانی چنگل میں پھنسا رہتا ہے- پھر یہ توحیدکے قولِ محال کی جانب بڑھتا ہے- توحید تب ہی حاصل ہوتی ہے جب مؤحد واحد کے وصل میں فنا ہوجاتا ہے-

پھر یہ مضمون خدا کے وصل میں فنا کے تین مقامات بیان کرتا ہے:-

﴿۱﴾اپنے نفس کی مسلسل مخالفت کرکے اپنی صفات کو فنا کرنا،

﴿۲﴾ اپنی کامیابیوں کی لذت کو فنا کرنا یعنی ذاتی قابلیتوں، اطاعت کی مسرت کو فنا کرنا،

﴿۳﴾ حقیقت کی بصیرت سے فنا ہونا ’’حقیقت کے آپ پر غالب آ جانے کی علامت کے طور پر اپنے وجدان سے‘‘-

چوتھا مضمون توحید کے چار درجات بیان کرتا ہے- پہلے درجہ میں ایک خدا پر ایمان لانے اور اس کے مقابلے میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانے پر مشتمل ہے جسے ہم مواحدانہ مذہب کا عقیدہ کہہ سکتے ہیں- دوسرا درجہ ظاہری اعمال کی سطح پر واقع ہے یعنی فرد کا دینی رسومات اور شریعت کی زندگی اپناتے ہوئے ایک خدا کے ساتھ مکمل ہم آہنگی ﴿harmonization﴾ اختیار کرنے پر مشتمل ہے- تیسرا درجہ فرد کی باطنی سرگرمیوںکو ایک مرکز و محورکے گرد ہم آہنگ کرتا ہے- چوتھے درجے کی منظر کشی فر?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں