دستک

دستک

مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور ٹوٹتا ہندوستان

کشمیر میں بھارتی افواج کی بربریت کی حالیہ لہراُس ناپاک و غیر قانونی بھارتی تجارتی پا لیسی کا حصہ ہے ، جِس میں بھارتی حکومت کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ ملکر بھارتی شہریت رکھنے والے ہندوؤں کو غیر قانونی طور پر کشمیر میں بسنے اور اُن کو کشمیر میں کاروبار کرنے کی اجازت دینا ہے - اس حکمت عملی کو تر کی خبر رساں ایجنسی نے علاقے کی خود مختاری ، اسکی سماجی اور ثقافتی ہیت کو تبدیل کرنے سے منسوب کیاہے-جِس کے خلاف پہلے کی ستائی کشمیری عوام نے پر امن مظاہرے شروع کئے- ان مظاہروں میں اُس وقت شدت آئی جب بائیس سالہ نوجوان حریت رہنما برہان مظفر وانی بھارتی بربریت کا نشانہ بنا اور شہید ہوا-جس کے بعد مظاہروں میں شدت آئی- بھارت نے ان مظاہروں کو کچلنے کیلئے بربریت اور خون ریزی کے سابقہ تمام ریکارڈ تو ڑ دئیے اور گزشتہ پندرہ روز سے ۶۵ بے گناہ کشمیریوں کو شہیداور ۰۰۰۵ سے زائد کو زخمی کیا جا چکا ہے- ڈاکٹرز کے مطابق گذشتہ دنوں پیلٹ گنز اور آنسو گیس سے متاثرہ سینکڑوں افراد کی آنکھ کی سرجری کی گئی اور اس بات کا خد شہ ہے کہ اکثریت اپنی بینائی کھو سکتی ہے -

کشمیری عوام دورِ حاضر کے تقاضوں کو اپناتے ہوئے سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں اور دنیا کے سامنے جدوجہدِ آزادی کی اصل تصویر لا رہے ہیں جِس کے تشخص کو بھارتی میڈیا نے دہشتگردی کا نام دے کر خراب کرنے کی ناکام کوشش کی ہے- سوشل میڈیا پر بھارتی مظالم کی وحشیانہ ریاستی دہشتگردی کے حقائق سامنے آنے پر بین الاقوامی میڈیا کی توجہ بھی کشمیر کی طرف مبذول ہوئی ہے جو اس سے قبل کشمیر کو پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ اور بسا اوقات بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے کر نظر انداز کر تا رہا ہے اور اکثر بھارتی پراپیگنڈہ کے زیرِ اثر آ کر دہشتگردی کو کشمیری جدوجہد سے منصوب کرتا تھا- کشمیری جدوجہد کی اصل روح دنیا کے سامنے آنے پر اب عالمی اداروں اور عالمی میڈیا نے اِس کے جلد حل کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا ہے- نیو یارک ٹائمز نے ریاست میں لاگو کالے قوانین اور بھارتی مظالم کی مذمت کی ہے اور دی گارڈئین نے بھی تحریر کیا ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت بھارت سے آزادی چاہتی ہے-

ہندوستان میں اسلام کی اشاعت نے اِس خطہِ زمین پر موجود مسلمانوں کو ایک مضبوط رشتے میں جوڑ دیا جِس کا اظہار کشمیری عوام کے دلوں سے نکلتی آواز کرتی ہے کہ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان سے رشتہ کیا تو بلند آواز میں جواب ملتا ہے لا الہ الا اللہ- کشمیری عوام کی اِس رشتے سے پاسداری اور حریت کی خاطر دی جانے والی قربانیوں کو جتنا خراجِ تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہو گا جیسا کہ ۳۱ جولائی انیس سو بتیس کو سرینگر کی سنٹرل جیل کے باہر آذانِ فجر کی تکمیل کے لیے بائیس کشمیری جوان شہید ہوئے جِن کی شہادت کو آج بھی ہر سال ۳۱ جولائی کو یومِ شہدا کے طور پر منایا جاتا ہے-انیس سو سنتالیس کے بعد کشمیری عوام نے بھارتی بندوقوں کے سامنے کرفیو کے پرواہ کیے بغیر اُسی رشتے کی پہچان سبز ہلالی پرچم کو اپنے گھروں ،مسجدوں ،مظاہروں حتیٰ کہ شہیدوں کے اجسام کے گرد لپیٹ کر اُسی رشتے کا اظہار کیا ہے- اتنے مضبوط رشتوں کو کسی جبر یا ظلم کے سائے میں ختم نہیں کیا جا سکتا-

پاکستان نے مسئلہ ِ کشمیر کو دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر بلند کیا ہے اور بھر پور کوشش کی ہے کہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کروائے اور اپنے کشمیری بھائیوں کی ہر ممکن سفارتی، سیاسی اور سماجی مدد جاری رکھی جائے- حالیہ صورت حال میں پاکستانی سول و عسکری قیادت اور قوم نے بھر پور طریقے سے کشمیری بہنوں اور بھائیوں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ دنیا کے سامنے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا- موجودہ صورت حال کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے پاکستان کے وزیراعظم نے انیس جولائی کو یومِ الحاق اور بیس جولائی کو بھارتی مظالم کے خلاف یومِ سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا- قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں کشمیر کو ایک بار پھر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے پلیٹ فارم پر پھر پور طریقے سے اجاگر کرنے کا عزم کیا گیا جِس کے اعلامیہ میں کشمیری عوام کی جدوجہد کی عکاسی کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کی جانب سے کہا گیا کہ ہم منتظر ہیں 'کشمیر بنے گا پاکستان'- وزیر اعطم پاکستان کے بیان کے جواب میں بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا کہ 'کشمیر بنے گاپاکستان' ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں جو کبھی پورا نہیں ہوگا- شائد بھارتی وزیر خارجہیہ بھول بیٹھی ہیں کہ بھارت کے قیام سے اب تک وقتاًفوقتاً کئی علیحدگی پسند تحریکوں نے بھارتی ہندوئوں وحکومت کی ناانصافیوں،نظریاتی ،مذہبی و معاشرتی تفریق اور حقوق کی عدم فراہمی سے تنگ آ کر سیکولر بھارت کو ٹھکراتے ہوئے اپنی الگ آزاد ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا کیونکہ بھارتی ہندوؤں کا سیکولرازم کا نعرہ صرف دنیا کو دکھانے کے لئے ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے حقوق انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں پامال کئے جاتے ہیں آر آر ایس کے وحشی غنڈوں کے شر سے بھارت میں موجود تمام اقلیتیں غیر محفوظ ہیں جنہیں حکومتی آشیرباد حاصل ہے لیکن اب سیکولرازم کا بھارتی لبادہ آہستہ آہستہ اتر رہا ہے اور مظلوم، ظالم کے خلاف اُٹھ رہے ہیں- بھارتی مظالم سے تنگ آکر بہت سی قوموں نے بھارت سے آزادی کا مطالبہ کیا ہے جو اب زور پکڑتی جا رہی ہیں جِس کی عکاسی جولائی میں بھارت کے شہر ممبئی میں دلت کمیونٹی کی طرف سے آزادی کے بلند ہونے والے نعرے کرتے ہیں- اسی طرح خالصتان،ناگالینڈ،مانی پور اور تری پورا اور بھارت کے شمال مشرق میں سات بہنوںکے نام سے مشہور ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکیں قابلِ ذکر ہیں- بھارتی وزیر خارجہ کا بیان شائد اس حقیقت سے ماورا ہے جِس میں بھارت ایک طرف تو خطہ کی سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے مگر دوسری طرف جگہ جگہ سے سر اٹھاتی علیحدگی پسند تحریکیں اِس کے اپنے وجود کیلئے خطرہ ہیں اس صورتحال میں کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے، کشمیریوں پر مظالم ڈھانے اور پاکستان کے خلاف راگ الاپنے کی بجائے بھارت کو اپنے اندرونی معاملات پر توجہ دینی چاہئے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر