دستک : قافلہ سخت جان

دستک : قافلہ سخت جان

دستک : قافلہ سخت جان

مصنف: اکتوبر 2018

 قافلۂ سخت جان

’’أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘[1]            ’’خبردار! اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘-

انسان اپنے آپ اور کائنات کو پرکھنے اور سمجھنے کی کوششوں میں ہمیشہ سے مصروف ہے اور اس تناظر میں انسانی نفسیات کا مطالعہ ہمیشہ سے دلچسپی کا حامل رہا ہے- اس شعبہ سے متعلق علوم ہمیں صدیوں پر محیط صوفیانہ ادب میں بھی ملتے ہیں-قرانِ کریم بھی اس ضمن میں رہنمائی فراہم کرتا ہے اور انسان کی تسکین اور اطمینان کے متعلق حقائق بیان فرماتا ہے- گزشتہ صدی میں شعبہ نفسیات کی باقاعدہ اور سائنسی بنیادوں پر تشکیل کے بعد سے انسان کے اندرونی اور بیرونی عوامل کے تعلقات کو سمجھنے کی مختلف سطح پر کاوشیں کی گئی ہیں اور بہت سے فلاسفہ نے بھی اس ضمن میں اپنے اپنے خیالات پیش کئے ہیں-ایسے میں ضروری ہے کہ ان محرکات کا کثیر الجہتی مطالعہ کیا جائے جو صوفیانہ ادب میں ملتے ہیں اور جن کی عملی مثالوں سے نہ صرف تاریخ بھری پڑی ہے بلکہ آج بھی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں-

انبیائے کرام(علیھم السلام)، اولیائے کاملین اور علمائے عاملین(رحمتہ اللہ علیہم)نے اپنی تحاریک کی بنیاد انسان کے قلبی اطمینان پر رکھی اور اسی بنیاد پر کائنات کے احتساب اور عالمگیر امن کی منازل کے حصول کی جانب سفر فرمایا- بانی ٔاصلاحی جماعت سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ کی تحریک بھی بعین اسی انداز میں اپنی بنیاد ایک فرد کے اطمینانِ قلب پر قائم کرتی ہے-عصرِ حاضر میں تمام تر تحقیقات اور مادی وسائل کے استعمال کے باوجود مادی اعتبار سے ترقی یافتہ اقوام کے افراد بھی اپنی ذاتی حیثیت میں قلبی سکون سے محروم ہوتے جا رہے ہیں-ایسے حالات میں سلطان الفقر ششمؒ نے ان مسائل کے تریاق اور سکونِ قلب و روحانی استخلاص کیلئے کائنات کے سب سے قیمتی خزانے ’’اسم اللہ ذات‘‘ کو عام فرما کر سسکتی انسانیت کو ایک بار پھر اطمینانِ قلب کی راہ دکھائی ہے-آپ کی تحریک ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی دنیاوی آسائشوں اور خواہشاتِ نفسانی میں گھِرے اور زندگی سے بیزار افراد آپؒ کی خدمت میں حاضر ہونے اور اسم اللہ ذات کے خزانے سے سیر ہونے کے بعد نہ صرف اپنی خواہشات پر کنٹرول کرتے نظر آتے ہیں بلکہ اپنی زندگی کے عظیم مقصد سے روشناس ہونے کے بعد اپنی زندگی بھی دوسرں کو روحانی سکون کی جانب مائل کرواتے گزاری-

یہ ایک حقیقت ہے اور ہر انسان اس کا مشاہدہ کرتا ہے کہ انسان جس بھی چیز کے متعلق سوچتا ہے اسی سے اس کے جذبات اور احساسات مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں-عصرِ حاضر میں جب مادیت اپنے عروج پر پہنچ رہی ہے سلطان الفقر ششمؒ نے اسمِ اعظم کے ذکر اور تصورِ اسم اللہ ذات کے ذریعے بھٹکتی انسانیت کو نفسانیت کے اندھیروں سے نکالنے کا سدباب فرمایا-یہ وہ روحانی نسخہ ہے جو انسان کو روحانی اور نفسیاتی آسودگی بخشتا ہے اور انسان کی ترجیحات اپنے قلب و قالب سے منسلک ہوتی ہیں- اسی لئے سلطان الفقر ؒ کے تحریکی کارکنان نے عالمگیر امن کے قیام میں اپنی ساری ساری زندگیاں وقف کی ہیں اور قربانیوں کی ان مثالوں کو زندہ کیا ہے جو قرونِ اولیٰ کی تاریخ میں ملتی ہیں-

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ مملکتِ خداداد کا قیام ایک معجزے سے کم نہیں اور سلطان الفقر ششمؒ کی اس دنیا میں آمد کے ساتھ پاکستان کا قیام ہونا پاکستان کا ’’فقر کا فیضان‘‘ہونے کی واضح دلیل ہے-اس ملک کے ساتھ سلطان الفقر ششمؒ کا اپنا ذاتی تعلق اور آپ کی تحریک کا تحریکی تعلق اس قدر مضبوط اور گہرا ہے کہ کسی بھی مشکل مرحلے پر کتنی ہی مایوسی کی فضا کیوں نہ قائم ہو، آپؒ کی تحریک نے ہمیشہ پختہ یقین کے ساتھ فکری و روحانی محاذ پر اس ملک و قوم کیلئے ہر مشکل اور چیلنج کا جوان مردی سے سامنا کیا ہے-اس کی بنیادی وجہ بھی ہے کہ آپؒ نے اپنی تحریک کے ہر رکن کا تعلق اللہ رب العزت کی ذات سے جوڑا ہے جس کے باعث وہ مشکل ترین حالات میں بھی اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتے ہیں اور علامہ اقبال کی اس فکر کی عکاسی کرتے ہوئے کبھی عمل سے غافل نہیں ہوتے:

خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی

 

عمل سے غافل ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ

 سلطان الفقر ششمؒ نے اپنے کارکنان کو یہی درس دیا ہے کہ کسی بھی اچھائی کو اللہ رب العزت کی توفیق کی جانب لوٹایا جائے:

’’وَمَا تَوْفِيقِیْ إِلَّا بِاللَّـهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ إِلَيْهِ أُنِيْبُ‘‘[2]

 

’’اور میری توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع ہوتا ہوں‘‘-

جبکہ کسی بھی غلطی، کوتاہی یا سستی کو اپنے نفس کی کارستانی گردانا جائے- یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جو انسان کو ہر پل اپنے محاسبہ پر مائل رکھتا ہے اور عمل سے غافل نہیں ہونے دیتا اور فرد کو نفسیاتی اعتبار سے اس قدر تحرک اور پختگی دیتا ہے کہ وہ کبھی بھی جمود کا شکار نہیں ہوتا- کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ظاہری و باطنی انقلاب اسی صورت برپا ہوئے ہیں جب انقلابی قافلہ کے کارکنان ایسے راستہ پر چلتے ہیں جس میں کسی خاص موقع پر موجود محدود وسائل کے باعث منزل کا حصول بظاہر ناممکن بھی دکھائی دے تو وہ قافلہ پختہ یقین اور عملِ پیہم سے اپنا راستہ خود پیدا کر لے-یہ ہمیشہ سے صوفیاء کا طریق رہا ہے جس سے دنیا کے طول و عرض میں دینِ اسلام کا عالمگیر امن کا پیغام پہنچا- اسم اللہ ذات سے قلبی تعلق اور دنیاوی حیات میں فکر و عمل کا انقلاب سلطان الفقر ششم ؒ کی تحریک کا خاصہ ہے-آپؒ کی شخصیت اور آپؒ کی فکر و دانش کے ایسے گوشوں کو علمی سطح پر سامنے لانا بہت ضروری ہے جو ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کیلئے بہت اہم ہیں اور کسی بھی نفسیاتی و نفسانی حربے سے نبرد آزما ہونے کی طاقت رکھتے ہیں-


(الرعد: 28)

(ھود:88)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر