دستک : شامی خانہ جنگی : بدترین سانحہ کاملزم کسے ٹھہرائیں؟

دستک : شامی خانہ جنگی : بدترین سانحہ کاملزم کسے ٹھہرائیں؟

دستک : شامی خانہ جنگی : بدترین سانحہ کاملزم کسے ٹھہرائیں؟

مصنف: اپریل 2018

  شامی خانہ جنگی: بدترین سانحہ کا ملزم کسے ٹھہرائیں؟

مشرقِ وسطیٰ کی وسطی اہمیت کا حامل شام مارچ 2011ءسے خانہ جنگی کاشکارہے- شامی حکومت اور باغیوں کے مابین خانہ جنگی میں حالات انتہائی تشویش ناک رُخ اختیار کر چکے ہیں-جنگ میں شامل ملکی، علاقائی اور عالمی طاقتیں اپنی اپنی برتری ثابت کرنےلئے حملے کر رہی ہیں جن کی بھینٹ بے قصور و معصوم شہری چڑھ رہے ہیں- امریکہ اور اس کے حامیوں کی طرف سے مجموعی طور پر تقریباً 16733 جبکہ فروری 2017ء سے فروری 2018ء تک کم و بیش7961 فضائی حملے (Airstrikes)کئےجاچکے ہیں- اسی طرح غوطہ کےمشرق میں روسی حمایت یافتہ گروہوں اور شامی حکومت کی جانب سے باغیوں کے خلاف حالیہ فضائی حملےمیں 125 بچوں سمیت 500 سے زائد لوگ مارے گئے ہیں -

اس طاقت اور خود پرستی کی جنگ میں جہاں معصوم شہری، بچے اور عورتیں بے دردگی سےقتل کیےجارہےہیں اور معاشی، معاشرتی، اقتصادی، مذہبی، سماجی بنیادی حقوق کی حق تلفی ہو رہی ہے وہیں بہت سےتاریخی، ثقافتی و مذہبی اہمیت کےحامل آثارِ قدیمہ کےاہم مقامات، عبادت گاہیں، رہائش گاہیں، سکولوںسمیت دیگرکئی تعلیمی ادارے اور ہسپتال تباہ کیے جا چکے ہیں-اقوامِ متحدہ کی حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق مارچ 2011 ءسے فروری 2018ء تک کم و بیش 3 لاکھ معصوم، نہتے عام شہریوں سمیت 4 لاکھ70 ہزار سے زائد شامی مارے جا چکے ہیں جبکہ 2 ملین سے زائد عام شامی شہری ابھی شدید زخمی ہیں- ملک کی موجودہ نصف آبادی، تقریباً 6.4 ملین سے زائدلوگ ملک میں اندرونی طور پر بے یارو مددگار بے گھر(Internally Displaced People-IDPs)ہو چکے ہیں-بد قسمتی سے مرنے والے عام شہریوں میں30 ہزار سے زائد خواتین اور ایک لاکھ سے زائد معصوم بچے شامل تھے -

’یونیسف‘یعنی ’’اقوام متحدہ کا فنڈ برائے اطفال ‘‘( United Nations International Children's Emergency Fund) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دو ملین سے زائد بچے شام میں بنیادی تعلیم سےمحروم ہیں - علاوہ ازیں خانہ جنگی اور افراتفری کے باعث بہت سی خواتین اور معصوم بچیاں لاپتہ ہو چکی ہیں- جنگ و کرب سے بچ کر دوسرے ممالک میں جانے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کی تعداد 5.5 ملین سے تجاوز کر چکی ہے اور انتہائی افسوسناک بات ہے کہ پناہ گزین ممالک میں شامی بچوں اور عورتوں کو جنسی تشدد، کم سنی کی شادی،چائلڈلیبر، چائلڈ سولجر، ناقص و ناکافی انتظامِ صحت اور امتیازی سلوک جیسے تشویش ناک مسائل درپیش ہیں-پہلی دفعہ عالمی سطح پر بعداز جنگِ عظیم دوئم، اتنی بڑی تعدادمیں لوگوں نے ہجرت کی جس پراقوامِ متحدہ جیسا عالمی ادارہ بھی قابو پانے میں بری طرح ناکام ہواہے- مشرقِ وسطیٰ سے یورپ جانے والے بیشترمہاجرین سمندرکی موجوں کی نظر ہوئے اور جو لوگ طوفانی موجوں سےبچ کر یورپ پہنچے وہاں بہت سے ممالک میں روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک، ناقص انتظامات اور خود ساختہ الزامات انہیں مزید بدتر حالت میں مبتلا کر دیتے ہیں -

مزید براں شامی جنگ میں اب تک 35 فیصدسے زائدرہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور نصف سے زائد ملکی ہسپتال،سکول اور دیگر تعلیم و صحت کے مراکزملیا میٹ کیے جا چکے ہیں جس کے باعث جنگ میں بچنے والے لوگ انتہائی کرب کی حالت میں رہ رہے ہیں-حالیہ تحقیقات کےمطابق اب تک صرف رہائشی مکانات کی زد میں کم و بیش 30 بلین امریکی ڈالر مالیت کا نقصان ہو چکا ہے- ’’یونائٹڈ نیشنز ہائی کمیشن فار ریفیو جیز‘‘ کی رپورٹ کےمطابق ملک بھر میں کم و بیش13.1 ملین لوگوں کو فوری انسانی مددکی اشد ضرورت ہے-جنہیں انفراسٹرکچر کی تباہی کے باعث امداد پہنچانے میں شدید مسائل کا سامنا ہے-بمطابق ’’UNHRC‘‘ شام کے2.98 ملین لوگ ایسے علاقوں میں ہیں جہاں امدادی ساز و سامان کے ساتھ پہنچنا انتہائی مشکل ہے- ورلڈ بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق شامی شہریوں میں ہر 10سے 6 شدید غربت کا شکار ہیں -ملک بھر میں بےروز گاری 78 فیصدسےبھی بڑھ چکی ہے- اسی رپورٹ کے مطابق شام میں سالانہ کم و بیش 538000 سے زائد ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں -حالات اس قدر تشویش ناک ہیں کہ ملک میں (قابلِ ملازمت عمر کے لوگوں میں )ہر چار میں سے تین یعنی تقریبا 9 ملین لوگ بےروزگار ہیں اور سالانہ بے روزگارلوگوں کی شرح 55 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے جس کی باعث بہت سے نوجوان شدت پسند اور دہشت گرد تنظیموں کا بآسانی شکار ہو رہے ہیں -

انسانی تباہی کے ساتھ ساتھ ملکِ شام کو معاشی، تاریخی و ثقافتی سطح پر بھی شدید نقصانات کا سامناہے-ورلڈ بنک کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق جنگ کی وجہ سے ملکی معیشت کو 226 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے جو 2010ء میں شام کے جی ڈی پی سے چار گناہ زیادہ ہے- اقوام متحدہ کےتعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے کے تحت نامزد کردہ چھ (6)عالمی ثقافتی و تاریخی اہمیت کے حامل آثارِ قدیمہ کے مقامات سمیت ملک بھر میں دیگر کئی اہم مقامات کو تباہ کیا جا چکاہے-پچھلے7سالوں میں سینکڑوں سال قبل تعمیر ہونے والی تاریخی اہمیت کی حامل مساجد و دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں تباہ کی جا چکی ہیں- ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بعض تاریخی اہمیت کی حامل مساجد سمیت کم و بیش 2500 مساجدتباہ کی جا چکی ہیں - تباہ ہونے والے اہم تاریخی، ثقافتی و عبادتی مقامات میں، عالمِ اسلام کے 7بڑے عجائبات میں شامل اور مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور مسجدِ اقصی ٰ کے بعد چوتھی بڑی اہمیت کی حامل آٹھویں صدی عیسوی میں حلب میں تعمیر ہونے والی جامع امیہ مسجد، خلیفہ دوم حضرت عمرؓکے دورِ مبارک میں آپ کے حکم مبارک سے تعمیر کردہ جامع مسجد العمری، تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والی جامع مسجد خالد بن ولید (جسے انیسویں صدی میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا)، پانچویں صدی عیسوی میں حمص میں تعمیر ہونے والا کلیسا امِ الذنار، دوسری صدی قبل از مسیح کا معبد بال شامن، گیارہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والا قلعہ دمشق، قلعہ المشہور’’حصن الاکراد‘‘ (Krak des Chevaliers)، قدیم شہر تدمر (City of Palmyra)، حلب، دمشق اور بصری وغیرہ سرِ فہرست ہیں- ان مقامات پرموجودتاریخی و ثقافتی اہمیت کے حامل اثاثہ جات کچھ بلیک مارکیٹ کی نذر ہوئے تو کچھ تباہی کی- قبل از جنگ شام کی آمدن کا 12 فیصد سے زائد حصہ سیاحت پر منحصر تھا-

 

گزشتہ8برس میں شام کی صورتحال یکسر بدل چکی ہےمسائل میں روز اضافہ ہو رہا ہے اور حالات بد تر سے بد ترین ہوتے جا رہے ہیں- لہذا!ایسے میں امتِ مسلمہ کی ذمہ داری بنتی ہےکہ اپنی غلطیاں دہراتے جانے کی بجائے ہوش کےناخن لیں- درست ہے کہ اس جنگ میں عالمی مفادات شامل ہیں مگر اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ مفادات کے اس ٹکراؤ کو میدانِ جنگ مسلمان ممالک نے ہی مہیا کیا ہے - عرب و عجم کی سرد جنگ پر ہی اس تباہی کی اولین ذمہ دای عائد ہوتی ہے-حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ عرب و عجم کی نسلی تفاخر و برتری کی جنگ ہے جسے فرقہ واریت کے لحاف میں لپیٹ کے لڑا جا رہا ہے جس کے منفی اثرات پوری دُنیائے اِسلام پہ مرتب ہو رہے ہیں -افسوس! اس بات کا ہے کہ فریقین کی جانب سے فہم و فراست کا مظاہرہ کرنے کی بجائے الزامات ایک دوسرے پر عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور کوئی بھی فریق اہلِ شام اور مجموعی طور پر اہلِ اسلام کو اس فرقہ وارانہ جنگ سے باہر لانے کیلئے تیار نہیں- عربی اور عجمی لیڈرشپ سمیت تمام عالمِ اسلام کے حکمرانوں کوفہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا وگرنہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی- خود پرستی، فرقہ وارانہ، نسلی،لسانی اور جغرافیائی مفادات اور فروعی اختلافات سےبالاتر ہوئے بغیر بقائے باہمی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا-

 شامی خانہ جنگی: بدترین سانحہ کا ملزم کسے ٹھہرائیں؟

مشرقِ وسطیٰ کی وسطی اہمیت کا حامل شام مارچ 2011ءسے خانہ جنگی کاشکارہے- شامی حکومت اور باغیوں کے مابین خانہ جنگی میں حالات انتہائی تشویش ناک رُخ اختیار کر چکے ہیں-جنگ میں شامل ملکی، علاقائی اور عالمی طاقتیں اپنی اپنی برتری ثابت کرنےلئے حملے کر رہی ہیں جن کی بھینٹ بے قصور و معصوم شہری چڑھ رہے ہیں- امریکہ اور اس کے حامیوں کی طرف سے مجموعی طور پر تقریباً 16733 جبکہ فروری 2017ء سے فروری 2018ء تک کم و بیش7961 فضائی حملے (Airstrikes)کئےجاچکے ہیں- اسی طرح غوطہ کےمشرق میں روسی حمایت یافتہ گروہوں اور شامی حکومت کی جانب سے باغیوں کے خلاف حالیہ فضائی حملےمیں 125 بچوں سمیت 500 سے زائد لوگ مارے گئے ہیں -

اس طاقت اور خود پرستی کی جنگ میں جہاں معصوم شہری، بچے اور عورتیں بے دردگی سےقتل کیےجارہےہیں اور معاشی، معاشرتی، اقتصادی، مذہبی، سماجی بنیادی حقوق کی حق تلفی ہو رہی ہے وہیں بہت سےتاریخی، ثقافتی و مذہبی اہمیت کےحامل آثارِ قدیمہ کےاہم مقامات، عبادت گاہیں، رہائش گاہیں، سکولوںسمیت دیگرکئی تعلیمی ادارے اور ہسپتال تباہ کیے جا چکے ہیں-اقوامِ متحدہ کی حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق مارچ 2011 ءسے فروری 2018ء تک کم و بیش 3 لاکھ معصوم، نہتے عام شہریوں سمیت 4 لاکھ70 ہزار سے زائد شامی مارے جا چکے ہیں جبکہ 2 ملین سے زائد عام شامی شہری ابھی شدید زخمی ہیں- ملک کی موجودہ نصف آبادی، تقریباً 6.4 ملین سے زائدلوگ ملک میں اندرونی طور پر بے یارو مددگار بے گھر(Internally Displaced People-IDPs)ہو چکے ہیں-بد قسمتی سے مرنے والے عام شہریوں میں30 ہزار سے زائد خواتین اور ایک لاکھ سے زائد معصوم بچے شامل تھے -

’یونیسف‘یعنی ’’اقوام متحدہ کا فنڈ برائے اطفال ‘‘( United Nations International Children's Emergency Fund) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دو ملین سے زائد بچے شام میں بنیادی تعلیم سےمحروم ہیں - علاوہ ازیں خانہ جنگی اور افراتفری کے باعث بہت سی خواتین اور معصوم بچیاں لاپتہ ہو چکی ہیں- جنگ و کرب سے بچ کر دوسرے ممالک میں جانے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کی تعداد 5.5 ملین سے تجاوز کر چکی ہے اور انتہائی افسوسناک بات ہے کہ پناہ گزین ممالک میں شامی بچوں اور عورتوں کو جنسی تشدد، کم سنی کی شادی،چائلڈلیبر، چائلڈ سولجر، ناقص و ناکافی انتظامِ صحت اور امتیازی سلوک جیسے تشویش ناک مسائل درپیش ہیں-پہلی دفعہ عالمی سطح پر بعداز جنگِ عظیم دوئم، اتنی بڑی تعدادمیں لوگوں نے ہجرت کی جس پراقوامِ متحدہ جیسا عالمی ادارہ بھی قابو پانے میں بری طرح ناکام ہواہے- مشرقِ وسطیٰ سے یورپ جانے والے بیشترمہاجرین سمندرکی موجوں کی نظر ہوئے اور جو لوگ طوفانی موجوں سےبچ کر یورپ پہنچے وہاں بہت سے ممالک میں روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک، ناقص انتظامات اور خود ساختہ الزامات انہیں مزید بدتر حالت میں مبتلا کر دیتے ہیں -

مزید براں شامی جنگ میں اب تک 35 فیصدسے زائدرہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور نصف سے زائد ملکی ہسپتال،سکول اور دیگر تعلیم و صحت کے مراکزملیا میٹ کیے جا چکے ہیں جس کے باعث جنگ میں بچنے والے لوگ انتہائی کرب کی حالت میں رہ رہے ہیں-حالیہ تحقیقات کےمطابق اب تک صرف رہائشی مکانات کی زد میں کم و بیش 30 بلین امریکی ڈالر مالیت کا نقصان ہو چکا ہے- ’’یونائٹڈ نیشنز ہائی کمیشن فار ریفیو جیز‘‘ کی رپورٹ کےمطابق ملک بھر میں کم و بیش13.1 ملین لوگوں کو فوری انسانی مددکی اشد ضرورت ہے-جنہیں انفراسٹرکچر کی تباہی کے باعث امداد پہنچانے میں شدید مسائل کا سامنا ہے-بمطابق ’’UNHRC‘‘ شام کے2.98 ملین لوگ ایسے علاقوں میں ہیں جہاں امدادی ساز و سامان کے ساتھ پہنچنا انتہائی مشکل ہے- ورلڈ بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق شامی شہریوں میں ہر 10سے 6 شدید غربت کا شکار ہیں -ملک بھر میں بےروز گاری 78 فیصدسےبھی بڑھ چکی ہے- اسی رپورٹ کے مطابق شام میں سالانہ کم و بیش 538000 سے زائد ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں -حالات اس قدر تشویش ناک ہیں کہ ملک میں (قابلِ ملازمت عمر کے لوگوں میں )ہر چار میں سے تین یعنی تقریبا 9 ملین لوگ بےروزگار ہیں اور سالانہ بے روزگارلوگوں کی شرح 55 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے جس کی باعث بہت سے نوجوان شدت پسند اور دہشت گرد تنظیموں کا بآسانی شکار ہو رہے ہیں -

انسانی تباہی کے ساتھ ساتھ ملکِ شام کو معاشی، تاریخی و ثقافتی سطح پر بھی شدید نقصانات کا سامناہے-ورلڈ بنک کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق جنگ کی وجہ سے ملکی معیشت کو 226 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے جو 2010ء میں شام کے جی ڈی پی سے چار گناہ زیادہ ہے- اقوام متحدہ کےتعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے کے تحت نامزد کردہ چھ (6)عالمی ثقافتی و تاریخی اہمیت کے حامل آثارِ قدیمہ کے مقامات سمیت ملک بھر میں دیگر کئی اہم مقامات کو تباہ کیا جا چکاہے-پچھلے7سالوں میں سینکڑوں سال قبل تعمیر ہونے والی تاریخی اہمیت کی حامل مساجد و دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں تباہ کی جا چکی ہیں- ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بعض تاریخی اہمیت کی حامل مساجد سمیت کم و بیش 2500 مساجدتباہ کی جا چکی ہیں - تباہ ہونے والے اہم تاریخی، ثقافتی و عبادتی مقامات میں، عالمِ اسلام کے 7بڑے عجائبات میں شامل اور مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور مسجدِ اقصی ٰ کے بعد چوتھی بڑی اہمیت کی حامل آٹھویں صدی عیسوی میں حلب میں تعمیر ہونے والی جامع امیہ مسجد، خلیفہ دوم حضرت عمرؓکے دورِ مبارک میں آپ کے حکم مبارک سے تعمیر کردہ جامع مسجد العمری، تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والی جامع مسجد خالد بن ولید (جسے انیسویں صدی میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا)، پانچویں صدی عیسوی میں حمص میں تعمیر ہونے والا کلیسا امِ الذنار، دوسری صدی قبل از مسیح کا معبد بال شامن، گیارہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والا قلعہ دمشق، قلعہ المشہور’’حصن الاکراد‘‘ (Krak des Chevaliers)، قدیم شہر تدمر (City of Palmyra)، حلب، دمشق اور بصری وغیرہ سرِ فہرست ہیں- ان مقامات پرموجودتاریخی و ثقافتی اہمیت کے حامل اثاثہ جات کچھ بلیک مارکیٹ کی نذر ہوئے تو کچھ تباہی کی- قبل از جنگ شام کی آمدن کا 12 فیصد سے زائد حصہ سیاحت پر منحصر تھا-

گزشتہ8برس میں شام کی صورتحال یکسر بدل چکی ہےمسائل میں روز اضافہ ہو رہا ہے اور حالات بد تر سے بد ترین ہوتے جا رہے ہیں- لہذا!ایسے میں امتِ مسلمہ کی ذمہ داری بنتی ہےکہ اپنی غلطیاں دہراتے جانے کی بجائے ہوش کےناخن لیں- درست ہے کہ اس جنگ میں عالمی مفادات شامل ہیں مگر اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ مفادات کے اس ٹکراؤ کو میدانِ جنگ مسلمان ممالک نے ہی مہیا کیا ہے - عرب و عجم کی سرد جنگ پر ہی اس تباہی کی اولین ذمہ دای عائد ہوتی ہے-حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ عرب و عجم کی نسلی تفاخر و برتری کی جنگ ہے جسے فرقہ واریت کے لحاف میں لپیٹ کے لڑا جا رہا ہے جس کے منفی اثرات پوری دُنیائے اِسلام پہ مرتب ہو رہے ہیں -افسوس! اس بات کا ہے کہ فریقین کی جانب سے فہم و فراست کا مظاہرہ کرنے کی بجائے الزامات ایک دوسرے پر عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور کوئی بھی فریق اہلِ شام اور مجموعی طور پر اہلِ اسلام کو اس فرقہ وارانہ جنگ سے باہر لانے کیلئے تیار نہیں- عربی اور عجمی لیڈرشپ سمیت تمام عالمِ اسلام کے حکمرانوں کوفہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا وگرنہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی- خود پرستی، فرقہ وارانہ، نسلی،لسانی اور جغرافیائی مفادات اور فروعی اختلافات سےبالاتر ہوئے بغیر بقائے باہمی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر