مقبوضہ یروشلم(القدس شریف)، موجودہ صورتحال، عالمی ردِعمل اوراُمت مسلمہ کی ذمہ داری

مقبوضہ یروشلم(القدس شریف)، موجودہ صورتحال، عالمی ردِعمل اوراُمت مسلمہ کی ذمہ داری

مقبوضہ یروشلم(القدس شریف)، موجودہ صورتحال، عالمی ردِعمل اوراُمت مسلمہ کی ذمہ داری

مصنف: جنوری 2018

  مقبوضہ یروشلم (القدس شریف)، موجودہ صورتحال ، عالمی ردِعمل اور امت مسلمہ کی ذمہ داری

امریکی صدر کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ مقبوضہ علاقہ یروشلم (القدس الشریف) کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے اعلان نے پوری دنیا کے باضمیر انسانوں بالخصوص مسلمانوں کو جھنجھوڑ دیا ہے-مسلمان ممالک، جرمنی، برطانیہ اور امریکہ سمیت دیگر کئی ممالک میں اس فیصلے اور اسرائیلی غیر قانونی قبضے کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے ہیں جو وقت کے ساتھ شدت اختیار کر رہے ہیں-امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عالمی قوانین کے خلاف اس اعلان سے نہ صرف اسرائیل کی خطے میں ہٹ دھرمی، دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے بلکہ القدس الشریف کے ساتھ وابستہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات و احساسات بھی مجروح ہوئے ہیں-جنگِ عظیم اول کے زمانے میں کئے گئے ’’بالفور ڈیکلیریشن ‘‘سے لے کر ’القدس شریف‘کو دہشت گرد اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کے اعلان تک استعماری طاقتوں کی صیہونی نواز اسلام دشمن پالیسی بالکل واضح ہے-

اس صورتحال میں عالمی برادری کے رد ِعمل کو دیکھا جائے توایک طرف  اسلامی دنیا سمیت دیگرکئی ممالک کے بیشتر شہروں میں عوام احتجاج کر رہی ہے اور امریکی قونصل خانوں کے باہر بھی غم و غصہ کا اظہار کر رہی ہے تو دوسری طرف بیشتر ممالک نے  امریکہ کی طرف سے دی جانے والی کُھلم کُھلا دھمکیوں کو پسِ پشت ڈال کر فلسطینیوں  کے ساتھ یکجہتی کا ثبوت دیا ہے-اس متعصبانہ  اور غیر منصفانہ فیصلے کے باعث عالمی امن و امان کو در پیش خطرات کے پیش نظر 8 دسمبر2017ء کو سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جس میں 14 ممالک(بشمول برطانیہ، فرانس، روس اور چین ) کے ووٹ اور سفارشات کوطاقت کے نشے میں چُور  امریکہ اس غلط فہمی کی بنیاد پر ویٹو کر دیتا ہے کہ اس کے کسی بھی  غیر قانونی و غیر اخلاقی اقدام کو عالمی برادری حرفِ آخر سمجھتے ہوئے خاموش تماش بین بنی دیکھتی رہے گی لیکن امریکی خوش فہمی کے بر عکس 21 دسمبر 2017ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا تاکہ اس مسئلہ  پر عالمی رائے لی  جا سکے-اجلاس میں 193 ممالک میں سے امریکی اتحادیوں سمیت 128 ممالک نے ڈونلڈ ٹرمپ کی سفارتی کوششوں  اور دھمکیوں کے باوجود امریکہ کی مخالفت کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 35 ممالک نے خاموشی اختیار کی جس کا واضح مطلب یہی تھا کہ وہ سیاسی پیچیدگیوں کے باعث ظالم کو کھل کر ظالم نہیں کَہ سکتے اور صرف 9 ممالک نے امریکہ کا ساتھ دیا جن میں سے عالمی سیاست میں متحرک قابلِ ذکر کوئی ملک شامل نہیں-ایسے حالات میں یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ سفارتی محاذ پر صہیونی لابی کے پیچھے بھاگنے والا  ظالم استعمار عالمی سفارتی سطح پرتنہائی کا شکار ہوا ہے  اور فلسطینیوں کا یروشلم پہ حقِّ ملکیّت تسلیم کیا گیا ہے-

25 ستمبر 1969ء(12رجب 1389ء ہجری )کو یروشلم میں بیت المقدس کو آگ لگائے جانے کی مذموم کوشش پر مراکش کے دارالحکومت رباط میں مسلمان ممالک کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں اسلامیانِ عالم نے مل کر دنیا کی دوسری بڑی بین الاقوامی تنظیم او آئی سی (OIC)کی بنیاد رکھی تاکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے لیکن صد حیف کہ دنیا کی 25 فیصد سے زائد آبادی یعنی ایک ارب ساٹھ کروڑ سے زائد مسلمان،57 سے زائد اسلامی ممالک اور عالمی معاشی اداروں میں نصف سے زائد دولت ہونے کے باوجود مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو سکا-آج عالمِ اسلام میں اتحاد و اتفاق نہ ہونے کے باعث استعمار و استبداد کے حمایت یافتہ غیر قانونی و غیر آئینی ناجائز ملک اسرائیل نے کروڑوں مسلمانوں کو یرغمال بنا رکھا ہے اور کرۂ ارض پر پھیلے 57اسلامی ممالک کچھ بھی کر سکنے سے قاصر نظر آ رہے ہیں -عالمی سطح پر فلسطینیوں کے حق میں بولنے والے ماہرین کی بڑی تعدادمیں بھی مسلمانوں کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے-مثلاًنوم چومسکی، نورمن فنکلسٹن وغیرہ پیدائشی یہودی ہیں لیکن اصول پرست ہونے کے باعث وہ یہودیوں کے فلسطین پر غیر قانونی قبضے اور تسلط کے سخت خلاف ہیں-

اس تمام صورتحال میں ترک صدر رجب طیب اردگان کا کردار قابلِ ستائش ہے جنہوں نے استعماری و استبدادی طاقتوں کو للکارتے ہوئے نہ صرف اسرائیل کو رسمی طور پر دہشت گرد اور قابض ملک قرار دیا بلکہ دنیائے جدید کے انتہائی لاچار و بے یار و مددگار فلسطینیوں کے حق میں آوازِحق بلند کی اور یروشلم کو مسلمانوں کی غیرت اور سرخ لائن قرار دیا- ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان سے قبل بھی طیب اردگان نے امریکہ کو باور کروایا تھا کہ اس فیصلہ کے نتائج شدید حد تک گھمبیر ہو سکتے ہیں-اس اعلان کے فوراً بعد رجب طیب اردگان کی جانب سے ترکی میں بلائے گئے او آئی سی (OIC) کے ہنگامی اجلاس میں مقبوضہ مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کر لیا گیا اور امریکی فیصلہ کی مخالفت بھی کی گئی-اس کے ساتھ ساتھ اردگان نے برطانوی وزیراعظم سمیت دیگر کئی ممالک کے سربراہان کے ساتھ بات چیت کر کے انہیں اس مسئلہ پر اعتماد میں لیا تاکہ بین الاقوامی امن و امان کی سلامتی کو لاحق شدید خطرات اور انسانیت پر ہونے والے تشددکو بین الاقوامی سطح پر پُرامن طریقہ سے حل کیا جائے-

 

اسلامی ممالک کے تمام نمائندگان و سربراہان کو ترکی کے با غیرت صدر رجب طیب اردگان کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے مسلما نوں کے فلسطین سمیت دیگر تمام مسائل کے حل کیلیے اپنا بھرپور مثبت کردار ادا کرنا ہو گا- اب وقت ہے کہ فقط قراردادوں سے بڑھ کر اس مسئلہ کو منصفانہ طور پر حل کیا جائے - مزید برآں یہ مسئلہ عالمی امن و امان کے لیے بہت بڑا چیلنج ثابت ہو گا جیسا کہ مشرق وسطیٰ کیلئے گزشتہ سات آٹھ دہائیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے-البتہ جہاں تمام اسلامی ممالک کو ترکی کی طرح سفارتی سطح پر اپنا موثر اور مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے وہیں باہمی اتحاد و اتفاق، اسلامی جذبات، ایمانی احساسات، یقینی کیفیات ، روحانی امکانات اور پختہ عزم و ثبات جیسے ہتھیاروں سے لیس ہو کر خودی پر یقین رکھتے ہوئے خودداری کے ساتھ میدانِ عمل میں آنا ہوگا-

 مقبوضہ یروشلم (القدس شریف)، موجودہ صورتحال ، عالمی ردِعمل اور امت مسلمہ کی ذمہ داری

امریکی صدر کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ مقبوضہ علاقہ یروشلم (القدس الشریف) کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے اعلان نے پوری دنیا کے باضمیر انسانوں بالخصوص مسلمانوں کو جھنجھوڑ دیا ہے-مسلمان ممالک، جرمنی، برطانیہ اور امریکہ سمیت دیگر کئی ممالک میں اس فیصلے اور اسرائیلی غیر قانونی قبضے کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے ہیں جو وقت کے ساتھ شدت اختیار کر رہے ہیں-امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عالمی قوانین کے خلاف اس اعلان سے نہ صرف اسرائیل کی خطے میں ہٹ دھرمی، دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے بلکہ القدس الشریف کے ساتھ وابستہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات و احساسات بھی مجروح ہوئے ہیں-جنگِ عظیم اول کے زمانے میں کئے گئے ’’بالفور ڈیکلیریشن ‘‘سے لے کر ’القدس شریف‘کو دہشت گرد اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کے اعلان تک استعماری طاقتوں کی صیہونی نواز اسلام دشمن پالیسی بالکل واضح ہے-

اس صورتحال میں عالمی برادری کے رد ِعمل کو دیکھا جائے توایک طرف  اسلامی دنیا سمیت دیگرکئی ممالک کے بیشتر شہروں میں عوام احتجاج کر رہی ہے اور امریکی قونصل خانوں کے باہر بھی غم و غصہ کا اظہار کر رہی ہے تو دوسری طرف بیشتر ممالک نے  امریکہ کی طرف سے دی جانے والی کُھلم کُھلا دھمکیوں کو پسِ پشت ڈال کر فلسطینیوں  کے ساتھ یکجہتی کا ثبوت دیا ہے-اس متعصبانہ  اور غیر منصفانہ فیصلے کے باعث عالمی امن و امان کو در پیش خطرات کے پیش نظر 8 دسمبر2017ء کو سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جس میں 14 ممالک(بشمول برطانیہ، فرانس، روس اور چین ) کے ووٹ اور سفارشات کوطاقت کے نشے میں چُور  امریکہ اس غلط فہمی کی بنیاد پر ویٹو کر دیتا ہے کہ اس کے کسی بھی  غیر قانونی و غیر اخلاقی اقدام کو عالمی برادری حرفِ آخر سمجھتے ہوئے خاموش تماش بین بنی دیکھتی رہے گی لیکن امریکی خوش فہمی کے بر عکس 21 دسمبر 2017ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا تاکہ اس مسئلہ  پر عالمی رائے لی  جا سکے-اجلاس میں 193 ممالک میں سے امریکی اتحادیوں سمیت 128 ممالک نے ڈونلڈ ٹرمپ کی سفارتی کوششوں  اور دھمکیوں کے باوجود امریکہ کی مخالفت کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 35 ممالک نے خاموشی اختیار کی جس کا واضح مطلب یہی تھا کہ وہ سیاسی پیچیدگیوں کے باعث ظالم کو کھل کر ظالم نہیں کَہ سکتے اور صرف 9 ممالک نے امریکہ کا ساتھ دیا جن میں سے عالمی سیاست میں متحرک قابلِ ذکر کوئی ملک شامل نہیں-ایسے حالات میں یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ سفارتی محاذ پر صہیونی لابی کے پیچھے بھاگنے والا  ظالم استعمار عالمی سفارتی سطح پرتنہائی کا شکار ہوا ہے  اور فلسطینیوں کا یروشلم پہ حقِّ ملکیّت تسلیم کیا گیا ہے-

25 ستمبر 1969ء(12رجب 1389ء ہجری )کو یروشلم میں بیت المقدس کو آگ لگائے جانے کی مذموم کوشش پر مراکش کے دارالحکومت رباط میں مسلمان ممالک کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں اسلامیانِ عالم نے مل کر دنیا کی دوسری بڑی بین الاقوامی تنظیم او آئی سی (OIC)کی بنیاد رکھی تاکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے لیکن صد حیف کہ دنیا کی 25 فیصد سے زائد آبادی یعنی ایک ارب ساٹھ کروڑ سے زائد مسلمان،57 سے زائد اسلامی ممالک اور عالمی معاشی اداروں میں نصف سے زائد دولت ہونے کے باوجود مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو سکا-آج عالمِ اسلام میں اتحاد و اتفاق نہ ہونے کے باعث استعمار و استبداد کے حمایت یافتہ غیر قانونی و غیر آئینی ناجائز ملک اسرائیل نے کروڑوں مسلمانوں کو یرغمال بنا رکھا ہے اور کرۂ ارض پر پھیلے 57اسلامی ممالک کچھ بھی کر سکنے سے قاصر نظر آ رہے ہیں -عالمی سطح پر فلسطینیوں کے حق میں بولنے والے ماہرین کی بڑی تعدادمیں بھی مسلمانوں کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے-مثلاًنوم چومسکی، نورمن فنکلسٹن وغیرہ پیدائشی یہودی ہیں لیکن اصول پرست ہونے کے باعث وہ یہودیوں کے فلسطین پر غیر قانونی قبضے اور تسلط کے سخت خلاف ہیں-

اس تمام صورتحال میں ترک صدر رجب طیب اردگان کا کردار قابلِ ستائش ہے جنہوں نے استعماری و استبدادی طاقتوں کو للکارتے ہوئے نہ صرف اسرائیل کو رسمی طور پر دہشت گرد اور قابض ملک قرار دیا بلکہ دنیائے جدید کے انتہائی لاچار و بے یار و مددگار فلسطینیوں کے حق میں آوازِحق بلند کی اور یروشلم کو مسلمانوں کی غیرت اور سرخ لائن قرار دیا- ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان سے قبل بھی طیب اردگان نے امریکہ کو باور کروایا تھا کہ اس فیصلہ کے نتائج شدید حد تک گھمبیر ہو سکتے ہیں-اس اعلان کے فوراً بعد رجب طیب اردگان کی جانب سے ترکی میں بلائے گئے او آئی سی (OIC) کے ہنگامی اجلاس میں مقبوضہ مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کر لیا گیا اور امریکی فیصلہ کی مخالفت بھی کی گئی-اس کے ساتھ ساتھ اردگان نے برطانوی وزیراعظم سمیت دیگر کئی ممالک کے سربراہان کے ساتھ بات چیت کر کے انہیں اس مسئلہ پر اعتماد میں لیا تاکہ بین الاقوامی امن و امان کی سلامتی کو لاحق شدید خطرات اور انسانیت پر ہونے والے تشددکو بین الاقوامی سطح پر پُرامن طریقہ سے حل کیا جائے-

اسلامی ممالک کے تمام نمائندگان و سربراہان کو ترکی کے با غیرت صدر رجب طیب اردگان کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے مسلما نوں کے فلسطین سمیت دیگر تمام مسائل کے حل کیلیے اپنا بھرپور مثبت کردار ادا کرنا ہو گا- اب وقت ہے کہ فقط قراردادوں سے بڑھ کر اس مسئلہ کو منصفانہ طور پر حل کیا جائے - مزید برآں یہ مسئلہ عالمی امن و امان کے لیے بہت بڑا چیلنج ثابت ہو گا جیسا کہ مشرق وسطیٰ کیلئے گزشتہ سات آٹھ دہائیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے-البتہ جہاں تمام اسلامی ممالک کو ترکی کی طرح سفارتی سطح پر اپنا موثر اور مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے وہیں باہمی اتحاد و اتفاق، اسلامی جذبات، ایمانی احساسات، یقینی کیفیات ، روحانی امکانات اور پختہ عزم و ثبات جیسے ہتھیاروں سے لیس ہو کر خودی پر یقین رکھتے ہوئے خودداری کے ساتھ میدانِ عمل میں آنا ہوگا-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر