دستک

دستک

 ! سانحہ بلوچستان

15جون 2013ءکوکوئٹہ میں ہونے والے انتہائی المناک سانحات نہ صرف صوبہ بلوچستان بلکہ پاکستان اور عالَمِ اِسلام کے لیے تاریخ کا ایک سیا ہ باب ہیں-بلوچستان میں حکومت کی تشکیلِ نَو کے بعد یہ پہلی بڑی واردات ہے-بلوچ قوم پرست قیادتوں کو اعتماد میں لیکر ایک متفقہ صوبائی حکومت کی تشکیل کے بعد امن کی توقعات کی جارہی تھیں کہ یہ سانحہ ہوگیا- سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی جن طالبات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے وہ پاکستان کی تیسری اورصوبہ بلوچستان میں خواتین کی پہلی اور واحد یونیورسٹی ہے ، اس جامعہ میں کم و بیش تین ہزار طالبات زیرِ تعلیم ہیں-خواتین کا استحصال اور ان پر حملے اگر بلوچ یا پختون تہذیب کا حصہ ہوتے تو نہ یہاں کوئی جامعہ ہوتا نہ اتنی خواتین- تاریخِ اسلام سے یہ بات ثابت ہے کہ نرسنگ صحابیات کی سنت ہے - بولان میڈیکل کمپلیکس میں مامور ہماری بہنوں پر ظالمانہ حملہ کسی اسلامی فکر رکھنے والوں کی جانب سے نہیں ہوسکتا- ہمارے گرد و نواح میں ایک ثقافت ایسی ضرور ہے جہاں زندہ بیویوں کو ستی کرنے کی رسم اور خواتین کے ساتھ سفاکانہ سلوک کی روایات ابھی تک موجود ہیں ایسے دھماکے اور ایسی کاروائیاں یقینا اُسی ثقافت کا حصہ ہیں-یہ چھوت اچھوت سے انسان کو تقسیم اور صنفِ نازک سے بہیمانہ درندگی کرنے والی یہ ثقافت،دنیا کو انسانیت سے محبت کا کیا درس دے سکتی ہے -بغل میں چھری منہ میں رام رام- اِس لئے ہمیں دوستی کے ہاتھ لمبے کرنے سے قبل تدبّر اور حقیقت پسندی کا سہارا ضرور لینا چاہئے -  وزیرِ داخلہ نے اس سانحہ پر اپنے ریمارکس میں اس کے ذمہ داران کو جس سزا کا مستحق قرار دیا ہے، قوم منتظر ہے کہ وہ اس پر عمل داری میں کس قدر ہمتِ مردانہ رکھتے ہیںکیونکہ دہشت گردی صرف پاکستان کا ہی نہیں ناموسِ اسلام کا بھی مسئلہ ہے ، جس نبی کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں ایسی کاروائیوں سے آپ ﷺکے دین کی عزت تار تار ہورہی ہے -اب دینِ اسلام کی نہتی بیٹیوں پر حملے شروع ہوگئے ہیںیہ دشمن کی مایوسی اور بے بسی کی واضح علامات ہیں-

”اسلامی جمہوریہ“ پاکستان میں رمضان کی آمد 

مجھے نہایت افسوس سے ایک بات کا اعتراف کرنا پڑرہا ہے کہ جب دنیا کے ہر مذہب میں ان کے مذہبی ایام اور تہواروں میں اشیائے خورد و نوش انتہائی سستی ہوجاتی ہیں وہیں ہمارے اسلامی تہواروں بالخصوص رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میںجب شیطان بھی قید ہوتا ہے ہماری ہوسِ زر انتہاءکو پہنچ جاتی ہے اور ہم ذخیرہ اندوزی کرکے عام اجناس کی قیمتیں بڑھا کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون چوستے ہیںجو کہ سراسر غیر اخلاقی اور غیر اسلامی فعل ہے - واعظین حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے خطبات میں ان مواقع پرناجائز فائدہ اٹھانے والے منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوںاور چور بازاروں کی اصلاح کریں- رمضان المبارک ایک نہایت ہی متبرک مہینہ ہے کم از کم اس مہینے میں تو ایک عام اور غریب انسان کو اپنے مسلمان بھائیوں پر فخر محسوس ہونا چاہیے-یورپی تہذیب کے دلدادہ مسلمان بزنس مین کرسمس ڈے سے ہی سبق سیکھ لیںجس دن ہر چیز کی سیل لگی ہوتی ہے-مقامی، لوکل اور گورنمنٹ انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ماہ مبارک میں چند افراد کو عام مسلمانوں کی مذہبی ضرورت سے فائدہ نہ اٹھانے دیںاور قیمتوں کو کنٹرول کرکے صرف پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے بلکہ حقیقی ثمرات عوام الناس کو نظر بھی آئیں۔

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر