دستک

دستک

جامع مذاکرات: پاکستان کاعزم اوربھارتی کھوکھلاپن

پاک بھارت مذاکرات کے تناظر میں پاکستانی قوم ،سیاست دان، میڈیا ،فوج اور پاکستانی حکومت نہ صرف ایک پیج پہ ہیں بلکہ حصولِ مقصد کے لیے مخلص بھی ہیں- البتہ ہمارے ہاں مغربی طاقتوں اور بھارت کی چُوری کھانے والی این جی اوز کے میاں مٹھو ناقدین کی بات الگ ہے کیونکہ پا کستان اور اَفواجِ پاکستان کو تنقیدکا نشانہ بنانا نہ صرف اُن کاوتیرہ ہے بلکہ اُن کے آقاؤں کی جانب سے اُن پہ عائد کیا گیا فرضِ اوّل ہے - دوسری جانب بھارت میں حکومت ،سیاستدان ،میڈیا اور فوج اِس حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں اور وہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں -بھارتی سرکار عالمی برادری کے رُوبرو جامع مذاکرات کاعہد تو ضرور کر کے آتی ہے لیکن دہلی سے اِسلام آباد تک کے سفر میں وہ جامع مذاکرات کی تان کو’’مذاق رات‘‘ میں بدل دیتی ہے- پاک بھارت تعلقات کے بارے میں پاکستان کا مؤقف شروع دن سے ہی اِنتہائی مثبت ،تعمیری اورنیک نیتی پہ مبنی رہاہے- حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی خواہش تھی کی تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے مابین امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات قائم ہوجائیں -جب کہ بھارتی نیتا ئوں پہ پہلے دِن سے ہی اکھنڈ بھارت کا خبط سوار تھا اور وہ دِن میں خواب دیکھتے تھے کہ نوزائیدہ پاکستان ایک ناتواں ریاست ہے اِسے اگر مزید کمزور کردیا جائے تویہ پکّے ہوئے پھل کی طرح اِن کی جھولی میں آن پڑے گا - اِسی اندازِ فکر سے بھارتی سیاست میں تخریبی و منفی طرزِ عمل پیدا ہوگیا اور اُنہوں نے پاکستان کوزچ کرنے کی ٹھان لی کیونکہ انہوں نے دِل سے اسے تسلیم نہیں کیا تھا ، آج تک نہیں کیا - بھارت نے پاکستان کے منظور شدہ وسائل کی فراہمی روک لی ،کشمیر پہ غاصبانہ قبضہ جمالیا ،جونا گڑھ ، مناوادر اورحیدرآباددکن پہ فوج کشی کرکے بھارت میں ضَمّ کر لیا ، مشرقی پاکستان ﴿بنگلہ دیش ﴾ میں دہشت گردانہ دَراَندازی اورپراکسی وار کی وہ اِنتہاکی کہ پناہ خداکی ! بھارت نے اب ان مجرمانہ سرگرمیوں کاسرکاری سطح پہ اعتراف بھی کرلیاہے ، افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کانہ رکنے والا سلسلہ شروع کردیا،اَسی کی دہائی میں بھارت نے سیاچین گلیشیر پہ قبضہ کرکے دُنیا کابلند ترین محاذِ جنگ گرم کیا-

ناقدین بھلے نہ سجھیں لیکن عام فہم پاکستانی اِس اَمر کااِدراک ضرور رکھتا ہے کہ بھارت مذکورہ کرتوتوں کی بنا پہ کبھی مذاکرات کی میز پہ نیک نیتی سے نہیں بیٹھے گا-وہ کیوں انجان بنتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ باہمی مذاکرات میں سنجیدگی ،ہوش مندی اورمَتانت دِکھائی ہے - اِس اَمرکامنطقی اِستِدلال یہ ہے کہ باہمی مذاکرات ہمیشہ ’’کچھ لواورکچھ دو ‘‘ کی پالیسی کے تحت ہی کامیاب ہوتے ہیں- اگر جامع مذاکرات ہوں تویقینی طور پہ بھارت کوکشمیر سے دست بردار ہونا پڑے گا،سیاچین گلیشیر پہ قبضہ برقرار رکھنے کاکیا جواز پیش کرے گا؟جونا گڑھ پاکستان کے حوالے کرے گایا حیدرآباد دکن پہ بات کرے گا؟ جب کہ بھارت زیادہ سے زیادہ پاکستان سے دَراَندازی نہ ہونے کی یقین دہانی طلب کرے گا یا پھر دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اِقدامات کی مانگ کرے گا-یہ اَمر اَظہرمن الشمس ہے کہ پاکستان نے مذکورہ محاذ پہ بھی گِراں قدر کامیابیاں سمیٹیں ہیں-یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بلند وبانگ دعووں کے باوصف بھارت اَب تک ہونے والی کاروائیوں میں پاکستان کے کسی سرکاری اِدارے کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم نہیں کرسکا- جب کہ پاکستان دوبار ’’بھارتی را‘‘کی کارستانیوں کے شواہد عالمی برادری کو پیش کرچکاہے - ناقدین اُن ٹھوس حقائق کو پرکھیں جو چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ جامع مذاکرات کاحامی رہاہے جب کہ بھارت نے ’’تماشا دِکھا کے مداری گیا‘‘کی روش اپنائی ہوئی ہے-مذکورہ حقائق یہ ہیں :

﴿۱﴾ پاکستان کی عامۃ الناس نے بھارت کے معاملے میں ہوش مندی اوربالغ نظری کاثبوت دیا ہے اوربھارت دُشمنی میں اندھی تقلید سے عموماً پرہیز کیاہے- پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں بھارت دُشمنی کانمایاں نہ ہونا اس اَمر کی شہادت ہے ، جب کہ بھارت کے ہاں صورتحال اِس کے برعکس ہے-﴿۲﴾مسلمانوں پہ دِین کی رُو سے یہ فریضہ عائد ہوتاہے کہ وہ ہر حال میں اپنے دفاع کاسازو سامان تیار رکھیں اس لیے جنگ نہ ہونے کی صورت میں بھی پاکستانیوں کی اپنی بہادر اَفواج کے ساتھ دِلی وابستگی ہمیشہ قائم رہے گی-یہ بھی حقیقت ہے کہ پاک افواج نے حتی الوسع جنگ سے گریز کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے-یاد رہے کہ اَسی کی دہائی میں پاکستان کے ایک فوجی حکمران نے کرکٹ ڈِپلومیسی کے ذریعے خود بھارت جاکر راجیو گاندھی کو ممکنہ پاک بھارت جنگ سے روکا تھا- اِس لیے ناقدین کایہ کہنا باطل ہے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلیشمنٹ باہمی امن کے قائم ہونے میں رکاوٹ ہے اوریہ کہ جنگ نہ ہونے کی صورت میں اس اِدارے کی اہمیت کم ہوجائے گی، البتہ بھارتی افواج کوتنائو کی کیفیت درکارہوتی ہے ،اِسی لیے تو پاکستانی ایک سال میں اتنے تہوار نہیں مناتے جتنی دھمکیاں ہر سال بھارت کی جانب سے جنگ کرنے کی آتی ہیں-﴿۳﴾ پاکستانی میڈیا پاک بھارت تعلقات کو معمول پہ لانے کے لیے کردار ادا کر رہا ہے ، دوسری جانب بھارتی میڈیا اپنی حکومت کی طرح اِنتہائی متعصب ہے اوررائی کاپہاڑ بناکرپیش کرنے کاماہر ہے ، اب تک اُس نے باہمی مذاکرات کو سبوتاژ کرنے میں کلیدی کردار اَدا کیا ہے - ﴿۴﴾ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے پاکستان مستقل مزاجی اوردھیان سے کام کررہا ہے،لیکن مودی سرکار حالیہ دو سال میں مسلسل گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہی ہے ، وہ کبھی مُنہ سے انگارے برساتے ہیں ،توکبھی لاہور میں آکر رُومانوی ماحول پیدا کرتے ہیں ،ان کی وزیرِخارجہ امن کی بات کرتیں ہیں تو اُن کے وزیر ِ منوہر پاریکر جنگ کے علاوہ دوسری بات ہی نہیں کرتے-اب وہ دھمکی دے رہے ہیں کہ ’’ہمارا صبر جواب دے چکا ہے ،اب ہم کچھ نہ کچھ ضرورکریں گے اوردُنیا ایک سال کے اندر اس کے تنائج دیکھے گی‘‘ - اس گیڈر بھبکی کاجواب صرف یہ ہے کہ وہ پاکستان کے سالار جنرل راحیل شریف کی تنبیہ یاد رکھیں، انہوں نے یوم دفاع کی تقریب میں کہاتھا کہ ’’اَیڈونچراِزم کے شوقین یاد رکھیں ! گڑبڑکرنے والوں کو ناقابلِ برداشت نقصان کے لیے تیاررہنا چاہیے ،کولڈسٹارٹ ہو یاپھر ہاٹ سٹارٹ ہو ہم تیار ہیں‘‘ - پاک بھارت تعلقات کے لیے پاکستان نے اپنے حصہ کاکام کرلیا ہے اب بال بھارت کے کورٹ میں ہے-عالمی برادری کی ثالثی کے بغیر مذاکرات کاثمرآور ہونا ایک مشکل اَمر ہوتاہے-

جامع مذاکرات: پاکستان کاعزم اوربھارتی کھوکھلاپن

پاک بھارت مذاکرات کے تناظر میں پاکستانی قوم ،سیاست دان، میڈیا ،فوج اور پاکستانی حکومت نہ صرف ایک پیج پہ ہیں بلکہ حصولِ مقصد کے لیے مخلص بھی ہیں- البتہ ہمارے ہاں مغربی طاقتوں اور بھارت کی چُوری کھانے والی این جی اوز کے میاں مٹھو ناقدین کی بات الگ ہے کیونکہ پا کستان اور اَفواجِ پاکستان کو تنقیدکا نشانہ بنانا نہ صرف اُن کاوتیرہ ہے بلکہ اُن کے آقاؤں کی جانب سے اُن پہ عائد کیا گیا فرضِ اوّل ہے - دوسری جانب بھارت میں حکومت ،سیاستدان ،میڈیا اور فوج اِس حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں اور وہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں -بھارتی سرکار عالمی برادری کے رُوبرو جامع مذاکرات کاعہد تو ضرور کر کے آتی ہے لیکن دہلی سے اِسلام آباد تک کے سفر میں وہ جامع مذاکرات کی تان کو’’مذاق رات‘‘ میں بدل دیتی ہے- پاک بھارت تعلقات کے بارے میں پاکستان کا مؤقف شروع دن سے ہی اِنتہائی مثبت ،تعمیری اورنیک نیتی پہ مبنی رہاہے- حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی خواہش تھی کی تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے مابین امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات قائم ہوجائیں -جب کہ بھارتی نیتا ئوں پہ پہلے دِن سے ہی اکھنڈ بھارت کا خبط سوار تھا اور وہ دِن میں خواب دیکھتے تھے کہ نوزائیدہ پاکستان ایک ناتواں ریاست ہے اِسے اگر مزید کمزور کردیا جائے تویہ پکّے ہوئے پھل کی طرح اِن کی جھولی میں آن پڑے گا - اِسی اندازِ فکر سے بھارتی سیاست میں تخریبی و منفی طرزِ عمل پیدا ہوگیا اور اُنہوں نے پاکستان کوزچ کرنے کی ٹھان لی کیونکہ انہوں نے دِل سے اسے تسلیم نہیں کیا تھا ، آج تک نہیں کیا - بھارت نے پاکستان کے منظور شدہ وسائل کی فراہمی روک لی ،کشمیر پہ غاصبانہ قبضہ جمالیا ،جونا گڑھ ، مناوادر اورحیدرآباددکن پہ فوج کشی کرکے بھارت میں ضَمّ کر لیا ، مشرقی پاکستان ﴿بنگلہ دیش ﴾ میں دہشت گردانہ دَراَندازی اورپراکسی وار کی وہ اِنتہاکی کہ پناہ خداکی ! بھارت نے اب ان مجرمانہ سرگرمیوں کاسرکاری سطح پہ اعتراف بھی کرلیاہے ، افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کانہ رکنے والا سلسلہ شروع کردیا،اَسی کی دہائی میں بھارت نے سیاچین گلیشیر پہ قبضہ کرکے دُنیا کابلند ترین محاذِ جنگ گرم کیا-

ناقدین بھلے نہ سجھیں لیکن عام فہم پاکستانی اِس اَمر کااِدراک ضرور رکھتا ہے کہ بھارت مذکورہ کرتوتوں کی بنا پہ کبھی مذاکرات کی میز پہ نیک نیتی سے نہیں بیٹھے گا-وہ کیوں انجان بنتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ باہمی مذاکرات میں سنجیدگی ،ہوش مندی اورمَتانت دِکھائی ہے - اِس اَمرکامنطقی اِستِدلال یہ ہے کہ باہمی مذاکرات ہمیشہ ’’کچھ لواورکچھ دو ‘‘ کی پالیسی کے تحت ہی کامیاب ہوتے ہیں- اگر جامع مذاکرات ہوں تویقینی طور پہ بھارت کوکشمیر سے دست بردار ہونا پڑے گا،سیاچین گلیشیر پہ قبضہ برقرار رکھنے کاکیا جواز پیش کرے گا؟جونا گڑھ پاکستان کے حوالے کرے گایا حیدرآباد دکن پہ بات کرے گا؟ جب کہ بھارت زیادہ سے زیادہ پاکستان سے دَراَندازی نہ ہونے کی یقین دہانی طلب کرے گا یا پھر دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اِقدامات کی مانگ کرے گا-یہ اَمر اَظہرمن الشمس ہے کہ پاکستان نے مذکورہ محاذ پہ بھی گِراں قدر کامیابیاں سمیٹیں ہیں-یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بلند وبانگ دعووں کے باوصف بھارت اَب تک ہونے والی کاروائیوں میں پاکستان کے کسی سرکاری اِدارے کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم نہیں کرسکا- جب کہ پاکستان دوبار ’’بھارتی را‘‘کی کارستانیوں کے شواہد عالمی برادری کو پیش کرچکاہے - ناقدین اُن ٹھوس حقائق کو پرکھیں جو چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ جامع مذاکرات کاحامی رہاہے جب کہ بھارت نے ’’تماشا دِکھا کے مداری گیا‘‘کی روش اپنائی ہوئی ہے-مذکورہ حقائق یہ ہیں :

﴿۱﴾ پاکستان کی عامۃ الناس نے بھارت کے معاملے میں ہوش مندی اوربالغ نظری کاثبوت دیا ہے اوربھارت دُشمنی میں اندھی تقلید سے عموماً پرہیز کیاہے- پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں بھارت دُشمنی کانمایاں نہ ہونا اس اَمر کی شہادت ہے ، جب کہ بھارت کے ہاں صورتحال اِس کے برعکس ہے-﴿۲﴾مسلمانوں پہ دِین کی رُو سے یہ فریضہ عائد ہوتاہے کہ وہ ہر حال میں اپنے دفاع کاسازو سامان تیار رکھیں اس لیے جنگ نہ ہونے کی صورت میں بھی پاکستانیوں کی اپنی بہادر اَفواج کے ساتھ دِلی وابستگی ہمیشہ قائم رہے گی-یہ بھی حقیقت ہے کہ پاک افواج نے حتی الوسع جنگ سے گریز کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے-یاد رہے کہ اَسی کی دہائی میں پاکستان کے ایک فوجی حکمران نے کرکٹ ڈِپلومیسی کے ذریعے خود بھارت جاکر راجیو گاندھی کو ممکنہ پاک بھارت جنگ سے روکا تھا- اِس لیے ناقدین کایہ کہنا باطل ہے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلیشمنٹ باہمی امن کے قائم ہونے میں رکاوٹ ہے اوریہ کہ جنگ نہ ہونے کی صورت میں اس اِدارے کی اہمیت کم ہوجائے گی، البتہ بھارتی افواج کوتنائو کی کیفیت درکارہوتی ہے ،اِسی لیے تو پاکستانی ایک سال میں اتنے تہوار نہیں مناتے جتنی دھمکیاں ہر سال بھارت کی جانب سے جنگ کرنے کی آتی ہیں-﴿۳﴾ پاکستانی میڈیا پاک بھارت تعلقات کو معمول پہ لانے کے لیے کردار ادا کر رہا ہے ، دوسری جانب بھارتی میڈیا اپنی حکومت کی طرح اِنتہائی متعصب ہے اوررائی کاپہاڑ بناکرپیش کرنے کاماہر ہے ، اب تک اُس نے باہمی مذاکرات کو سبوتاژ کرنے میں کلیدی کردار اَدا کیا ہے - ﴿۴﴾ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے پاکستان مستقل مزاجی اوردھیان سے کام کررہا ہے،لیکن مودی سرکار حالیہ دو سال میں مسلسل گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہی ہے ، وہ کبھی مُنہ سے انگارے برساتے ہیں ،توکبھی لاہور میں آکر رُومانوی ماحول پیدا کرتے ہیں ،ان کی وزیرِخارجہ امن کی بات کرتیں ہیں تو اُن کے وزیر ِ منوہر پاریکر جنگ کے علاوہ دوسری بات ہی نہیں کرتے-اب وہ دھمکی دے رہے ہیں کہ ’’ہمارا صبر جواب دے چکا ہے ،اب ہم کچھ نہ کچھ ضرورکریں گے اوردُنیا ایک سال کے اندر اس کے تنائج دیکھے گی‘‘ - اس گیڈر بھبکی کاجواب صرف یہ ہے کہ وہ پاکستان کے سالار جنرل راحیل شریف کی تنبیہ یاد رکھیں، انہوں نے یوم دفاع کی تقریب میں کہاتھا کہ ’’اَیڈونچراِزم کے شوقین یاد رکھیں ! گڑبڑکرنے والوں کو ناقابلِ برداشت نقصان کے لیے تیاررہنا چاہیے ،کولڈسٹارٹ ہو یاپھر ہاٹ سٹارٹ ہو ہم تیار ہیں‘‘ - پاک بھارت تعلقات کے لیے پاکستان نے اپنے حصہ کاکام کرلیا ہے اب بال بھارت کے کورٹ میں ہے-عالمی برادری کی ثالثی کے بغیر مذاکرات کاثمرآور ہونا ایک مشکل اَمر ہوتاہے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر