1945 - 46 کے انتخابات اور کابینہ مشن پلان

1945 - 46 کے انتخابات اور کابینہ مشن پلان

1945 - 46 کے انتخابات اور کابینہ مشن پلان

مصنف: مدثر ایوب اگست 2019

برطانیہ میں 5 جولائی 1945ء میں انتخابات ہوئے اور ان انتخابات میں لیبر پارٹی برسرِ اقتدار آگئی اور لیبر پارٹی کی حکومت نے ہندوستان میں بھی انتخابات کا فیصلہ کیا اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کانگرس کل ہند نمائندہ جماعت کا دعویٰ کرتی تھی جبکہ مسلم لیگ اپنے  آپ کو مسلم ہند کی واحد نمائندہ جماعت قرار دیتی تھی برطانوی حکومت ان دعووں پر کسی قسم کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی اس کے علاوہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے  14 جولائی 1945ء کو ایک قرارداد منظور کی جس کے ذریعے برطانوی حکومت کی توجہ فوری انتخابات کی طرف مبذول کرائی گئی- 6 اگست 1945ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے بمبئی کے ایک جلسے میں فرمایا:

’’ہم الیکشن لڑنا چاہتے ہیں اس لیے کہ جن کو ہماری نمائندہ حیثیت میں شُبہ ہے ان کو ہمیشہ کیلیے اس کا یقین دلا دیں‘‘-[1]

لیبر پارٹی خود بھی ہندوستان میں انتخابات سے دلچسپی رکھتی تھی اور جب وائسرائے کے توسط سے مسلم لیگ کی انتخابات سے متعلق قرارداد کو وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی کو پیش کی گئی اس ساری صورتِ حال کے پیش نظر21اگست 1945ء کو وائسرائے نے دو اہم اعلانات کیے :

  1. مرکزی و صوبائی قانون ساز مجالس کیلیے انتخابات موسم سرما میں ہوں گے -
  2. انہوں برطانوی حکومت سے مشاورت کیلئے لندن جانےکا اعلان کیا-

لارڈ ویول نے 19 ستمبر1945ء کو برطانوی حکومت کی طر ف سے بیان جاری کیا جس میں ہندوستان میں انتخابات کے انعقاد کی توثیق کی گئی اور یہ کہا گیا کہ انتخابات کے بعد ایک آئین ساز اسمبلی قائم کی جائے گی- عام انتخابات کے بعد سیاسی جماعتیں صوبوں میں اقتدار سنبھال لیں گی- وائسرائے ایک ایسی نئی انتظامی کونسل کو وجود میں لانے کی تدبیر اختیار کریں گے جسے ہندوستان کی بڑی جماعتوں کی حمایت حاصل ہوگی تاکہ اس کونسل کے فیصلے اور انتظامات تمام سیاسی جماعتوں کے لیے قابل ِ قبول ہوں -[2]

ان اعلانات پر ہندوستانی سیاسی جماعتوں کا ردِ عمل امید افزاء نہ تھا- قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے مسلم لیگ کی طرف سے اعلان کیا کہ:

“No attempt will succeed except on the basis of Pakistan”[3]

’’ایک بات واضح ہے کہ کوئی تصفیہ بجز اس کے کہ جو پاکستان کی بنیاد پر ہو،قابل قبول نہیں ہوگا -“[4]

آل انڈیا کانگرس کمیٹی نے ان تجاویز کو’مبہم، ناکافی اور غیر اطمینان بخش‘بتایا اور اس غلطی کی طرف توجہ دلائی کہ اس میں آزادئ کامل کا کوئی ذکر نہیں ہے -[5]

اگرچہ ہندوستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں برطانیہ کی انتخابات پالیسی پہ متفق نہ ہوئے مگر پھر بھی دونوں جماعتوں نے 1945-46ء میں ہندوستان میں ہونے والے انتخابات کے لیے سنجیدہ تیاریاں شروع کر دیں- ان انتخابات کے حوالے سے دونوں جماعتوں کے مختلف منشور تھے مثلاً مسلم لیگ کے منشور کا خلاصہ دو جملوں میں کیا جا سکتاہے:

  1. ہندوستان کے مسلمان ایک قو م ہیں-
  2. ہندوستانی مسئلے کا واحد اور معقول حل پاکستان ہے-

دوسری طرف کانگرس کا مؤقف ان کے دو نعروں پر تھا کہ:

  1. کانگرس تمام ہندوستانیوں کی نمائندہ جماعت ہے-
  2. ہندوستان ایک غیر منقسم ملک رہے گا-

آزادی کی یہ جدوجہد دو ناقابلِ مُفاہمت نظریات کے درمیان تھی -[6]

مسلم لیگ کا انتخابی مہم کا جائزہ:

قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے متذبذب مسلمانوں کومتحد کرنے کیلیے ہندوستان کا دورہ کیا - انہوں نے اتحاد قائم کرنے، اختلافات کو دور کرنے، عزم و اعتماد کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے اور ایک متحدہ قوم کی حیثیت سے کھڑے ہوجانے کی شدید ضرورت پر اپنی قوم کو رغبت دلائی-وقت کا ایک نا گزیز تقاضا تھا کہ نہ صرف اپنی قومی نوعیت کو بلکہ اپنے قومی دعوے کو بھی ثابت کرو، انہوں نے مسلمانوں کو مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے کاکہا-[7]

کانگریس کی انتخابی مہم کا جائزہ:

 کانگرس نے مسلم لیگ کی مہم کا جواب سیاسی دشنام طرازی سے دیا- کانگرسی اخبارات نے جناحؒ صاحب کی متعصبانہ تصویر عوام کے سامنے پیش کی اور پاکستان کے مطالبے کو مادر ہند کی چیر پھاڑ اور مذہبی بربریت سے تعبیر کیا-انہوں نے مسلم لیگ پہ الزام لگایا کہ وہ خان بہادر، سرمایہ داروں، زمین داروں، ٹوڈیوں اور سرکاری پینشن خوروں کا حد سے زیادہ قدامت پسند گروہ ہے -کانگرس نےمختلف مذہبی، سیاسی و سماجی اور غیر مسلم لیگی گروہوں سے اپنے روابط مزید مستحکم کر لیے اور پنجاب میں کانگرس نے مسلم لیگ کے خلاف یونینسٹ پارٹی کی حمایت کی-[8]

1945-46 کے انتخابات کا جائزہ:

امتحانات دو مرحلوں میں منعقد ہوئے - دسمبر 1945ء میں مرکزی قانون ساز مجلس کا انتخاب ہوا-نتائج نے ظاہر کردیا کہ قانون سازمجلس مسلم لیگ اور کانگرس کے درمیان کس قدر صاف تقسیم تھی- مسلم لیگ نے ہر واحد مسلم نشست جیت لی اور بہت سی جگہوں پہ مسلم نیشنلسٹوں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں-[9] غیر مسلم حلقہ ہائے انتخاب میں کانگرس کی کامیابی بھی اسی طرح حیرت انگیز تھی-مسلم لیگ نے کل مسلم نشستوں میں سے 86.6 فیصد اور کانگرس نے کل عام نشستوں میں91.3 فیصد حاصل کیں-مرکزی قانون ساز مجلس کے حتمی اعداد و شمار حسب ذیل تھے :

کانگرس                                      57

مسلم لیگ                                     30

آزاد                                          5

اکالی سکھ                                     2

یورپی                                          8

میزان                                       102

سابقہ مجلس قانون ساز میں جو  1934ء میں منتخب ہوئی تھی برخاستگی کے وقت حسبِ ذیل اعداد و شمار تھے:

کانگرس                                     36

مسلم لیگ                                   25

آزاد                                          21

نیشنلسٹ پارٹی                              10

یورپی                                        8

میزان                                       100

صوبائی انتخابات اوائل  1946ء میں منعقد ہوئے اور یہاں پھر دو بڑی جماعتیں اپنے اپنے حلقہ ہائے انتخابات پر چھا گئیں- کانگرس نے کل 930 نشستیں جیت لیں اور اسے 8 صوبوں میں مطلق اکثریت حاصل ہوگئی- مسلم لیگ نے 492 مختص مسلمان نشستوں میں سے 428 نشستیں حاصل کرلیں -سندھ کا معاملہ خاص طور پر قابل ذکر ہے-انتخابات کے بعد قانون ساز مجلس کی نصف نشستیں مسلم لیگ کے پاس تھیں-اس لیے دسمبر 1946 ء میں ایک تازہ انتخاب ہواجس میں مسلم لیگ کو دوسری تمام جماعتوں پر اکثریت حاصل ہوگئی- [10]

صوبائی وزارتوں کی تشکیل:

آسام میں کانگرس کی واضح اکثریت تھی اور اس نے گوپی ناتھ بار دولائی کی سر کردگی میں وزارت بنائی-کابینہ میں ایک نیشنلسٹ مسلمان کو شامل کیا گیا-دونشستیں مسلم لیگ کو اس لیے پیش کی گئیں کہ وہ کانگرس کے پارلیمانی لائحہ عمل کو چلائے گی مگر مسلم لیگ نے وزارت میں ایک نیشنلسٹ مسلمان کی موجودگی کے باعث اس پیشکش کو مسترد کر دیا-

اس طرح کانگرس نے بہار (Bihar)، صوبہ متحدہ (United Province)، بمبئی (Bombay)، مدراس (Madras)،  صوبہ متوسط (Central Provinces) اور اُڑیسہ  (Orissa) میں وزارتیں بنائیں-ان تمام صوبوں میں کانگرس نے مسلم لیگ کو تعاون کی پیشکش کی مگر شرائط بھی پیش کیں جن کی وجہ سے مسلم لیگ کے لیے ان پیشکشوں کو مسترد کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا-

جہاں تک مسلم اکثریتی صوبوں کا تعلق ہے صوبہ سرحد کا تذکرہ مختصراً کیا جا سکتا ہے- کانگرس نے ایک واضح اکثریت حاصل کر لی اورعبد الجبار خان صاحب  کی سر براہی میں وزارت بنائی-سندھ میں لیگ کو 27 نشستیں حاصل ہوئیں اور ایک آزاد مسلمان بعد میں جماعت میں شامل ہوگیا، تین نشستیں نیشنلسٹ مسلمانوں کو ملیں اور چار جی-ایم سید کے گروہ کو جس نے عین انتخابات سے قبل مسلم لیگ کو چھوڑا تھا- کانگرس کے پاس 21 اور یورپیوں کے پاس تین نشستیں تھیں اور ایک نشست آزاد مزدور رکن کی تھی-سید گروہ نے کانگرس اور نیشنلسٹ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک مخلوط جماعت بنائی- اس طرح دونوں جماعتوں کے پاس اٹھائیس اٹھائیس نشستیں ہو گئیں گورنر نے مسلم لیگ کے قائد غلام حسین ہدایت اللہ کو وزارت بنانے کی دعوت دی- انہوں نے کانگرس کو دو نشستیں پیش کیں مگر اس نے اس پر اسرار کیا کہ مخلوط جماعت کے قائد جی -ایم - سید سے درخواست کی جائے ،چونکہ مسلم لیگ غیر مسلم لیگی مسلمانوں سے اصولاً کوئی معاملہ نہیں کرتی تھی - اس لیے یہ پیشکش معطل کردی گئی؛ بعد میں ایک اور انتخاب منعقد ہوا جس میں لیگ کو واضح اکثریت حاصل ہو گئی-

بنگال میں مسلم لیگ پارلیمانی جماعت کے قائد حسین شہید سہروردی کو وزارت بنانے کی دعوت دی گئی-چونکہ 250 کے ایوان میں مسلم لیگ کو صرف 113 نشستیں حاصل ہوئی تھیں ، لہٰذا سہروردی نے ایک مخلوط وزارت بنانے کیلیے کانگرس سے گفت و شنید کی مگر یہ گفتگو بغیر کامیابی کے ختم ہوگئی اور آزاد عناصر کی حمایت سے ایک لیگی وزارت قائم کردی گئی-

پنجاب میں 86 مسلم نشستوں میں سے 57 لیگ کے پاس تھیں- حکمران یونینسٹ جماعت کو، کانگرس اور سکھوں کی حمایت کے باوجود ایک ذلت آمیز شکست اٹھانی پڑی تھی اور وہ کم ہوکر صرف 20 ارکان کا ایک غیر مؤثر گروہ بن گئی تھی- بعد میں چار یونینسٹ لیگ میں شریک ہوگئے جس سے لیگ کی تعداد 79 ارکان تک پہنچ گئی اور چھ آزاد دوسرے بینچوں پر چلے گئے اور یونینسٹ پارٹی صرف 10 ارکان پر مشتمل رہ گئی- یہی وہ یونینسٹ گروہ تھا جس کے نمائندے کو لارڈ ویول منصوبے کے ذریعے مجوزہ عبوری حکومت میں شامل کرانے کی کوشش کی گئی تھی اور اسی وجہ سے شملہ کانفرنس ناکام ہوگئی تھی-1932ء میں مسلم لیگ جو ایوان میں سب سے بڑی جماعت تھی خود اپنی ذات سے وزارت نہیں بنا سکی تھی-کانگرس اور سکھوں میں اتحاد ہوگیا اور انہوں نے لیگ سے تعاون کے لیے تین شرطیں پیش کیں:

  1. پہلی شرط یہ کہ کانگرس کو اس کی آزادی ہوگی کہ وہ کسی ملت کے اشخاص کو بطور وزراء نامزد کر سکے-
  2. دوسری شرط یہ کہ کانگرس اکالی گروہ کو حکومت میں آدھی نشستیں حاصل ہونگی-
  3. تیسری شرط غیر صوبائی مسائل مثلاً پاکستان، قانون ساز مجلس میں پیش نہیں کیے جائیں گے-

یہ شرائط بعین طور مسلم لیگ کیلیے ناقابلِ قبول تھیں-اس نے تنہا اکالی سکھوں سے مفاہمت کی کوشش کی جنہوں نے اپنے تعاون کے لیے اس شرط پر اسرار کیا کہ اگر پاکستان کی تخلیق ہوگئی تو پنجاب میں ایک سکھ ریاست بنائی جائے گی چونکہ مسلم لیگ اس قسم کی ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں تھی اس لیے سکھ مسلم لیگ مخلوط وزارت نہیں آ سکی- اس کے بعد ہی ایک مخلوط وزارت بنانے کے لیے کانگرس نے اکالی سکھوں اور یونینسٹوں سے اتحاد کر لیا -[11]

پنجاب کے یہ واقعات دو تبصروں کے متقاضی ہیں- پہلا یہ کہ مسلم لیگ کے دشمنوں سے اتحاد کرنے کے لیے کانگرس کی زبردست خواہش نے یہ ظاہر کردیا کہ وہ ایک ایسے صوبے میں ہیں جسے عام طور پر پاکستان کے لیےاہم سمجھا جاتا تھا مسلم لیگ کو حکومت سے باہر رکھنے کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتی تھی-کانگرس نے سکھوں کے اشتراک ِ عمل سے جو شرطیں مسلم لیگ کے سامنے قبول کرنے کے لیے رکھیں ان توہین آمیز شرائط کی یا د تازہ کرتی تھیں جو صوبہ متحدہ کی کانگرسی جماعت نے  1937ء میں صوبائی مسلم لیگ کے سامنے آمرانہ انداز میں پیش کی تھیں- کانگرس کی طرف سے مسلم لیگ وزراء کی نامزدگی کو مسلم لیگ جس قدر نفرت سے دیکھتی تھی اس کے پیش نظریہ بالکل ظاہر ہےکہ مخلوط وزارت کے لیے کانگرس کی پیشکش ایک ڈھکوسلا تھی اور وہ مسلم لیگ کے ساتھ کام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی- کانگرس کا رویہ معلوم ہوتا تھا کہ چونکہ وہ خود کوئی وزارت تشکیل دے سکتی تھی اس لیے وہ ایسی تدبیر اختیار کرے گی کہ مسلم لیگ کو بھی وزارت میں داخل نہ ہونے دیا جائے-

دوسری بات یہ کہ یو نینسٹوں کے ساتھ مل کر مخلوط وزارت بننے پر کانگرس کی شدید توجہ ناصرف اس لیے انتخابی منشور کے منافی تھی بلکہ اس کے گذشتہ دعوؤں اور تاریخ کے بھی خلاف تھی -1937ء میں کانگرس نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون سے اس بنا پر انکار کر دیا تھا کہ کانگرسی راہنماؤں کے نزدیک مسلم لیگ ایک رجعت پسند جماعت تھی اور کانگرس اس کے ساتھ کام کرکے اپنی  پالیسیز سے انحراف کر سکتی تھی- مگر اب کانگرس پر یہ انکشاف ہو گیا تھا کہ یونینسٹ بڑے ترقی پسند ہیں اور ان سے تعاون کانگریس کےمعاشرتی اور معاشی ترقی منصوبوں کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے-مزید برآں یونینسٹ ایک ایسا گروہ تھا جو اپنی ساکھ کھو بیٹھا تھا اور جس کی حکمت عملی اور لائحہ عمل کو سوائے دس ارکان کے باقی سب نے مسترد کردیا تھا کیونکہ انتخابات کے ختم ہونے اور مخلوط جماعت کے بننے کے درمیانی مختصر سے وقفے میں 120 ارکان کا یہ گروہ سکڑ کر صرف 10 ارکان پر مشتمل رہ گیا- ان میں سے بیشتر زمیندار تھے جو ترقی پذیر نظریات کو نا پسند کرتے تھے اور ہر معیار کے مطابق انتہائی رجعت پسند مسلم لیگیوں سے بھی زیادہ پسماندہ اور دقیا نوسی تھے مگر یہ تمام قابل توجہ امور برباد کر دیے گئے اور ابو الکلام آزاد نے کانگرس اور یونینسٹوں کے درمیان اتحاد کا اعلان بڑے فاتحانہ انداز میں کیا- مزید برآں یہ ہوا  کہ اس وزارت کا جو پندرہ کانگرسی ارکان 22 اکالی سکھوں اور دس یونینسٹوں سے مل کر بنی تھی سربراہ مخلوط وزارت سب سے چھوٹے جزو ترکیبی کے قائد سر خضر حیات خان ٹوانہ کو بنا دیا گیا جن کی جماعت کا انتخابات میں صفایا کرکے اسے آخری کنارے تک پہنچا دیا گیا تھا-ارادہ یہ تھا کہ مسلم لیگ کی پارلیمانی جماعتوں کو اس قدر ستایا جائے اور پریشان کیا جائے کہ کوئی لیگی وزارت بر سرِ اقتدار نہ آسکے اور یہ کوشش بار آور نا ہو تو لیگی جماعتوں کو توڑنے کے لیے ان کے خلاف سازش کی جائے- سندھ اور پنجاب میں جو حالات نمایاں ہوئے وہ اس استدلال کا بعین ثبوت ہیں- [12]

مسلم لیگی قانون سازوں کا کنونشن:

اپریل 1946ء میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ان تمام اشخاص کو کنونشنِ دہلی میں طلب کیا جو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر صوبائی اور مرکزی ِ قانون ساز مجالس کے ارکان منتخب ہوئے تھے- 500 سے زائد ارکان اس بے مثال اجتماع میں شریک ہوئے جسے ایک مصنف نے بجا طور پر ’’مسلم آئین ساز مجلس ‘‘ کہا ہے[13]جبکہ مشاہدہ کرنے والوں میں بعض اکالی راہنما بشمول گیانی کرتار سنگھ بھی تھے -[14]

قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنی افتتاحی تقریر میں پاکستانی مسئلے پر توجہ مرکوز کی اور فرمایا:

’’اس کی تفصیلات شرح و بسط سے بیان کیں پاکستان کی تخلیق کیلیے دلائل پیش کیے اور ان شدید حالات کی پیش گوئی کی جو برطانیہ کی جگہ ہندو اکثریت کی حکومت قائم ہونے کی صورت میں ہندوستان کے مسلمانوں کو درپیش ہونگے-پاکستان پر اپنے عقیدے کا دوبارہ اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا وہ ہمیں روک سکتے ہیں وہ ہمارے راستے میں روڑے اٹکا سکتے ہیں مگر کوئی شخص ہمیں منزل مقصود تک پہنچنے سے باز نہیں رکھ سکتا وہ ہمیں تھوڑی سی دیر کروا سکتے ہیں امید ہمت اور ایمان کی قوت سے ضرور فتح یاب ہونگے‘‘-[15]

حسین شہید سہروردی نے خاص قرار داد پیش کی جس میں شمال مشرقی منطقے میں بنگال اور آسام اور شمال مغربی منطقےمیں پنجاب صوبہ سرحد اور بلوچستان پر مشتمل ایک مقتدر اعلیٰ آزاد مملکت کا مطالبہ کیا گیا جس میں اعلان کیا گیا کہ ’’مسلم قوم ایک متحدہ ہندوستان کے لیے کسی دستور کو کبھی قبول نہیں کرے گی اور کبھی کسی ایسے واحد آئین ساز نظام میں شریک نہیں ہوگی جو اس مقصد کے لیے قائم کیا جائےگا‘‘-برطانوی حکومت سے کہا گیا مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کو کرنا اور بلا تاخیر اس کو نافذ کرنا ’’مسلم لیگ کے تعاون اور مرکز میں ایک عبوری حکومت کی تشکیل کے لیے لازمی شرط ہے‘‘-[16]اس سے قبل کہ کنونشن منتشر ہو،  مرکزی اور صوبائی مجالس قانون ساز کے ہر رکن نے مندرجہ ذیل حلف اٹھایا:

’’مَیں اس اظہار کےذریعے، پوری متانت و سنجیدگی کے ساتھ اپنے اس پختہ عقیدے کا اعلان کرتا ہوں کہ ہندوستان کے بر عظیم میں بسنے والے مسلم قوم کی نجات اور اس کا مقدر صرف پاکستان کے حصول سے وابستہ ہے جو آئینی مسئلے کا واحد، عادلانہ اور آبرو مندانہ اور منصفانہ حل ہے اور جس سے اس برعظیم کی مختلف قومیتیں اور ملتیں امن،آزادی اور خوشحالی سے ہمکنار ہونگی- مَیں انتہائی متانت اور سنجیدگی سے یہ اقرارِ صالح کرتا ہوں کہ پاکستان کی عزیز ترین قومی منزل مقصود کے حصول کی غرض سے آل انڈیا مسلم لیگ جو تحریک بھی شروع کرے گی اس کی پیروی میں لیگ کی طرف سے جاری کردہ تمام احکام و ہدایات کی تعمیل برضا و رغبت اور بغیر کسی جھجک کے کروں گا- مجھے اپنے مقصد کی حقانیت و معقولیت کا یقین ہے اور مَیں اس کی بنا پر ہر اس خطرے آزمائش یا قربانی کو جس کا مجھ سے مطالبہ کیا جائے گا برداشت کرنے کا عہد کرتا ہوں‘‘-[17]

کابینہ مشن: ایک نئی کوشش:

شملہ کانفرنس کی ناکامی نے ہندوستانی سیاست میں ایک خطرناک جمود پیدا کردیا تھا- عام انتخابات کے نتائج سے جنہوں نے ہندو مسلم مسئلے کی حقیقت کوواضح کردیا اس کے حل کی ضرورت ناگزیز ہوگئی-وائسرائے نے ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام ہوگئے-

19 فروری 1946ء کو وزیر ہند لارڈ پیتھک لارنس نے دار الامراء میں اور وزیر اعظم سی -آر - ایٹلی نے دار العوام میں ایک اہم اعلان کیا اس میں کہا گیا کہ ہندوستانی مسئلے کی بالاترین اہمیت کے پیش نظر بادشاہِ معظم کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وزرائے کابینہ کا ایک خاص مشن ہندوستان بھیجا جائے جو وزیر ہند (لارڈ پیتھک لارنس) تجارتی بورڈ کےصدر (سر اسٹیفورڈ کرپس) اور بحریہ کے پہلے لارڈ(اے -وی-الیگزینڈر) پر مشتمل ہو-وائسرائے کو اس مشن کی عملی کاروائیوں سے پوری طرح وابستہ رہنا ہوگا-مشن کو ایک ایسے طریقے پر غور کرنا ہوگا جو مندرجہ ذیل لائحہ عمل کو بروئے کار لانے میں سب سے زیادہ مفید ثابت ہو-

دستور سازی کے طریقے پر زیادہ سے زیادہ اتفاقِ رائے حاصل کرنے کے لیے برطانوی ہندوستان اور ہندوستانی ریاستوں کے نمائندوں سے ابتدائی بات چیت کرنا -

ایک دستور ساز اسمبلی کا قیام

ایک ایسی عاملہ کونسل کو وجود میں لانا جسے بڑی ہندوستانی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو- [18]

مایوس کن جمود کو توڑنے کے لیے جو اقدام بھی کیا جاتا ہندوستان میں اس کا خیر مقدم ہونا لازمی تھا-اس حقیقت نے کہ اس اعلان میں کسی قسم کی پابندی نہیں تھی اس کے استقبال کو اور بھی زیادہ پر جوش بنا دیا-عام احساس یہ تھا کہ آخر کار کوئی نا کوئی قدم پوری مستعدی کے ساتھ اٹھایا جا رہا ہے اور محض کسی حل کی تلاش میں آگے بڑھنے کا تصور نہیں ہے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کہا کہ:

’’انہیں یہ امید ہے کہ وہ کابینہ مشن کو صحیح صورت حال محسوس کرا دیں گے اور اسے اس کا یہ یقین دلا دیں گے کہ بر عظیم کو پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم کر دینا ہی مسئلے کا منصفانہ اور معقول حل ہے ‘‘-

15 مارچ کو دار العوام میں اس مشن کے دورہ ہند کے متعلق جو بحث ہو رہی تھی اس کے دوران ایٹلی نے مداخلت کر کے ایک اہم اعلان کیا:

’’ہمیں اقلیتوں کے حقوق کا خیال ہے اور اقلیتوں کو اس قابل ہونا چاہیےکہ وہ خوف سے آزاد رہ سکیں دوسری طرف ہم کسی اقلیت کو اس کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ اکثریت کی ترقی پر اپنا حقِ استرداد استعمال کرے‘‘-[19]

اس اعلان سے کانگرس بہت خوش ہوئی کیونکہ یہی وہ مؤقف ہے جسے کانگریس برطانوی سیاستدانوں پہ واضح کرتی آ رہی تھی ، پنڈت نہرو کی کاوشیں رنگ لائیں-کانگرسی اخبارات کھلم کھلا اعلان کر رہے تھے  کہ برطانیہ نے اب مسلمانوں کو نظر انداز کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے [20]گاندھی اس پر بہت مسرور تھے- [21]مگر جناح صاحب کا ردِ عمل مختلف تھا - انہوں نے کہا کہ:

’’ایٹلی اس جھوٹے پروپیگنڈے کے جال میں پھنس گئے ہیں جو کچھ عرصہ سے کیا جاتا رہا ہے-کسی اقلیت کا آئینی ترقی کو روکنے یا ہندوستان کی آزادی میں روڑے اٹکانے کا کوئی سوال نہیں ہے-مَیں اس کا پرزور اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے مسلمان اقلیت نہیں ہیں بلکہ ایک قوم ہیں اور حق خود ارادیت ان کا پیدائشی حق ہے‘‘-[22]

گفت و شنید کا دور:

کابینہ مشن دہلی میں 24 مارچ کو پہنچا -اگلے 14روز تک مشن جماعتی رہنماؤں، صوبائی وزرائے اعلیٰ، قائدینِ حزبِ اختلاف، اقلیتوں کے ترجمانوں، مخصوص مفادات کے نمائندوں،  والیان ِ ریاست اور ان کے وزراء اور مشیروں سے ملاقاتیں اور تبادلئہ رقعات کرتا رہا-ان ملاقاتوں کے بعد مشن کچھ دن کے لیے کشمیر چلا گیا واپس آنے پر مشن نے قائد اعظم اور کانگرسی راہنما ابو الکلام آزاد سے ملاقات کر کے ایک سہ فریقی مشترکہ اجلاس کی خواہش ظاہر کی جس میں مشن کے ساتھ لیگ اور کانگرس کے ارکان ہوں-دونوں جماعتوں کے راہنماؤں نے آمادگی ظاہر کی- [23]

5سے 12 مئی شملہ میں ایک مشترکہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مشن کے ساتھ دونوں بڑی جماعتوں نے ملاقات کی-بعض ابتدائی اور تلاش کارانہ گفتگوؤں کے بعد مشن نے کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان سمجھوتے کے مجوزہ نکات پیش کیے جو درج ذیل تھے:

  1. ایک کل ہند یونین حکومت (All India Union Government)اور مقننہ ہوگی جو امور خارجہ، دفاع، مواصلات اور بنیادی حقوق کا انتظام کرے گی اور جسے ان مضامین کیلیے مطلوبہ مالیات کی تحصیل کے ضروری اختیارات حاصل ہونگے -
  2. دوسرے تمام اختیارات مستقلاً صوبوں کے پاس ہونگے-
  3. صوبوں کے گروہ بنائے جا سکتے ہیں اور اس قسم کے گروہ ان صوبائی مضامین کو معین کر سکتے ہیں جنہیں وہ مشترک رکھنا چاہتے ہیں-
  4. یہ گروہ خود اپنی عاملہ اور مقننہ قائم کر سکتے ہیں -
  5. یونین کی مقننہ میں مسلم اکثریت کے صوبوں سے اور ہندو اکثریت کے صوبوں سے، خواہ انہوں نے یا ان میں سے کسی نے اپنے آپ کو گروہوں میں تشکیل دیا ہو یا نہ دیا ہو، مساوی ارکان شامل ہونگے اور ان کے ساتھ ریاستوں کے نمائندے بھی ہو نگے -
  6. یونین کی حکومت اسی تناسب سے بنائی جائی گی جو تناسب مقننہ میں ہو گا -
  7. یونین اور گروہوں (اگر کوئی ہوں) کے دستوروں میں ایک دفعہ ایسی ہوگی جس کی رو سے ہر صوبہ 10 سال کی ابتدائی مدت کے بعد اور پھر ہر دس سال کے وقفے کے بعد اپنی مجلس ِ قانون ساز کی کثرت آراء سے دستور کی شرائط پر نظر ثانی کا مطالبہ کر سکے گا-

مذکورہ بالا اساس پر دستور مرتب کرنے کے لیے آئین ساز نظام بھی پیش کیا گیا -

ان نکات پر 9 اور 11 مئی کو بحث ہوئی اور جب اختلافِ رائے ظاہر ہوا تو مشن نے دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک سے کہا کہ وہ ایک تحریری بیان مہیا کرے جس میں ان نکات کے متعلق جو ہنوز باقی رہتے ہیں اپنے رویے کی وضاحت کرے-

مسلم لیگ نے اپنی یادداشت 12 مئی کو ارسال کردی اور مسلم لیگ کے وفد نے یہ واضح کر دیا کہ یہ پیشکش اپنی کلیت پر قائم ہے اور اس میں جو معاملات مذکور ہیں وہ ایک دوسرے پر منحصر ہیں- اسی روز کانگرس نے بھی اپنی پیشکش کی شرائط ارسال کردیں- پیشکش کی ان شرائط کے ساتھ کانگرس نے ایک یادداشت بھی پیش کی جس میں یہ واضح کیا گیا کہ کانگرس کی شرائط مسلم لیگ سے کس طرح مختلف ہیں-

ان زیر بحث شرائط، پیشکش کی شرائط اور اختلاف کی شرائط سے بالکل واضح تھا کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان خلیج اتنی وسیع ہے کہ اس کو دور کرنا ناممکن تھا- مگر یہ قابل توجہ ہے کہ جہاں مسلم لیگ نے اپنے مطالبۂ پاکستان کو ایک سہ درجاتی وفاقی یونین تک کم کر کے معتدبہ سمجھوتا کرلیا وہاں کانگرس نے اسی درجے کی مراعات دینے کی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی- وہ اس خیال پہ جمی رہی کہ ایک مقتدر اعلیٰ وفاقی مرکز (Sovereign Federal Center)کو مکمل مالی اختیار مہیا کر دیاجائے - اس نے صرف گروہوں کی تشکیل کو قبول کیا ، مگر وہاں بھی اس نے آسام اور صوبہ سر حد کو مستثنیٰ کردیا- اس نے دوسرے فریق سے سمجھوتا کرنے کیلیے اپنے ابتدائی نظریات میں کوئی ترمیم نہیں کی- اس کے برعکس لیگ ایک مکمل آزاد پاکستان کو چھوڑ کر اور ایک کل ہند وفاقی یونین (All Indian Federal Union)میں داخلہ پسند کرکے سمجھوتے کے لیے معتد بہ حد تک آگے بڑھی-

کابینہ مشن کی طرف سے پیش کیا گیا منصوبہ:

کابینہ مشن نے دونوں بڑی جماعتوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو ناکام ہونے کے بعد اپنی طرف سے ایک ایسا منصوبہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا جسے وہ ایسے بہترین ممکنہ انتظامات پر مشتمل سمجھتا تھا جن کے ذریعے ہندوستانی اپنے لیے ہندوستان کے آئندہ دستور کا فیصلہ کر سکتے ہیں-

ایک یونین ہوگی جو برطانوی ہندوستان اور ہندوستانی ریاستوں دونوں پر مشتمل ہوگی- اس کا واسطہ امورِ خارجہ، دفاع اور مواصلات سے ہوگا اور اسے ان مضامین کے لیے مطلوبہ مالیات کی تخصیص کا ضروری اختیار حاصل ہوگا- یونین کی ایک مقننہ اورایک عاملہ ہوگی- مقننہ میں ہر اس سوال کے فیصلے کیلیے جس سے کوئی بڑا ملت ورانہ مسئلہ پید ا ہوگا، دونوں بڑی ملتوں میں سے ہر ایک کے حاضر اور رائے دینے والے ارکان کی اکثریت درکار ہوگی- تمام اختیارات باقی صوبوں کیلیے ہوں گے-صوبوں کو آزادی ہوگی کہ وہ ایسے گروہ بنائیں جن میں سے ہر ایک کی عاملہ اور مقننہ ہو اور ہر گروہ ان مضامین کو معین کر سکے جو اس کے لیے مشتر ک ہوں گے - ہر صوبہ ابتدائی دس سال کی مدت کے بعد اور پھر دس سالہ وقفوں پر اپنی ِ قانون ساز مجلس کی اکثریت سے دستور کی شرائط پر نظر ثانی کا مطالبہ کر سکے گا-[24]

ایک قانون ساز مجلس کا انتخاب کرنے کی غرض سے ہر صوبے کے لیے اس کی آبادی کےتناسب سے نشستوں کی کل تعداد مقرر کی جائے گی جو قریباً دس لاکھ پر ایک کی نسبت سے ہوگی-اس صوبائی نصاب کو ہر صوبے میں بڑی ملتوں کے درمیان ان کے تناسب کی آبادی کے حساب سے تقسیم کیا جائے گا اور صوبے کی ہر ملت کے لیے جو نمائندے مخصوص کیے جائیں گے ان کا انتخاب اس صوبے کی مجلسِ مقننہ میں اس ملت کے ارکان کریں گے- اس مقصد کے لیے جو تین بڑی جماعتیں تسلیم کی گئیں وہ عام (تمام غیر مسلم اور غیر سکھ) ، مسلم اور سکھ تھیں- [25]

چئیر مین کے انتخاب کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک ابتدائی اجلاس کے بعد، صوبائی نمائندے تین حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے -یہ حصے ان صوبوں کے لیے جو ہر حصے میں شامل ہونگے صوبائی دستوروں کا تصفیہ کریں گے اور یہ فیصلہ بھی کریں گے کہ ان صوبوں کے لیے کوئی گروہی دستور بننا چاہیے یا نہیں اور اگر بننا چاہیے تو گروہ کو کون سے صوبائی مضامین سے واسطہ رکھنا چاہیے- دستوری انتظامات پر عمل درآمد ہونے کے بعد ہر صوبے کو اس کی اجازت ہوگی کہ جس گروہ میں اسے رکھا گیا ہے اس میں سے باہر نکلنا چاہے تو نکل جائے - اس قسم کا فیصلہ نئے دستور کے تحت پہلے انتخابات کے بعد اس صوبے کی مجلسِ قانون ساز کرے گی- [26]

مشن نے ’’سب سے زیادہ اہمیت اس امر کو دی کہ فوراً ایک ایسی عبوری حکومت قائم کی جائے جسے بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو‘‘- وائسرائے نے اس مقصد کیلئے مذاکرات شروع کردیے تھے اور یہ امید کی جاتی تھی کہ ایک عبوری حکومت بہت جلد بنائی جائے گی جس میں تمام محکمے اور دفاع سمیت دیگر معاملات ان ہندوستانی رہنماؤں کو دئیے جائیں گے جنہیں عوام کا مکمل اعتماد حاصل ہوگا -[27]

اس منصوبے پر ہندوستانی ردِ عمل:

کابینہ مشن کی تجاویز پر جس نے سب سے پہلے تبصرہ کیا وہ گاندھی تھے اور وی پی مینن نے ان کی رائے کا بہترین خلاصہ پیش کیا ہے:

’’مجلس دستور ساز اس کی مجاز ہے کہ ان تجاویز کو بدل دے،  انہیں مسترد کردے یا ان میں اصلاح کردے ورنہ مجلسِ دستور ساز ایک مقتدر اعلیٰ جماعت نہیں ہوسکتی- اس طرح مشن نے یونین کے مرکز کیلیے بعض مضامین تجویز کیے ہیں: مجلسِ دستور ساز اگر چاہے تو ان میں اضافہ یا تخفیف کر سکتی ہے- اس طرح مجلسِ دستور ساز اس کے لیے بھی آزاد ہے کہ مسلم اور غیر مسلم کے امتیاز کو بھی ختم کر دے جسے مشن نے مجبوراً تسلیم کر لیا ہے-جہاں تک گروہوں کا تعلق ہے کسی صوبے کو اس پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی مخصوص گروہ میں اپنی مرضی کے خلاف شامل ہو جائے - گاندھی جی نے کہا ان تشریحات کے تحت مشن نے ایک ایسی چیز پیش کی ہے جس پر وہ ہر اعتبار سے فخر کر سکتا ہے ‘‘-[28]

22 مئی کو قائداعظم محمد علی جناح نے ایک بیان جاری کیا جس میں منصوبے کے متعلق ان کے خیا لات بیا ن کیے گئے تھے انہوں نے اس بات پر اظہارِ افسوس کیا کہ مشن نے مسلمانوں کے مطالبے کو رد کردیا ہے-

’’جسے ہم اب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے آئینی مسئلے کا واحد حل ہے اور تنہا اس کے ذریعے مستحکم حکومتیں حاصل ہوسکتی ہیں اور نا صرف دو بڑی ملتیں بلکہ اس برِّ اعظم کے تمام باشندے مسرت و شادمانی اور فلاح و بہبود سے بہر اندوز ہوسکتے ہیں‘‘-[29]

انہوں نے کہا آخری فیصلہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ اور کونسل ہی کرے گی-

6 جون کو مسلم لیگ کونسل کا اجلاس دہلی میں منعقد ہوا- قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی افتتاحی تقریر میں کونسل کو وقت کے ان فوری اہم مسائل کی یاد دہانی کرائی جو مسلمانوں کو در پیش تھے انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ مسلم ہندوستان اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک کہ مکمل اور مقتدرِ اعلیٰ پاکستان قائم نہ کر لے گا- حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی بنیاد اور اساس خود اس (کابینہ مشن )منصوبے میں موجود ہے-[30] کونسل قرار دادِ پاکستان کے متعلق مشن کے نا واجب ، نا جائز اور نا معقول اظہار رائے پر احتجاج سے شروع کی گئی-اس میں کہا گیا کہ اس قسم کے جذبات کو ایک سرکاری دستاویز میں جگہ نہیں ملنی چاہیے تھی جو برطانوی حکومت کی طرف سے اور اس کی سند کے ساتھ شائع کی گئی ہے‘‘-[31]

کونسل نے تمام شکوک و شبہات کو رفع کرنے کی غرض سے اس کا پرزور اعادہ کیا کہ:

’’مکمل مقتدر اعلیٰ پاکستان کی منزل مقصود کو حاصل کرنا اب بھی ہندوستان کے مسلمانوں کا ناقابلِ تبدیل مقصد ہے- جس میں کامیابی کے لیے اگر ضرورت پڑی تو وہ ان تمام ذرائع کو استعمال کریں گے جو ان کے بس میں ہیں اور کسی قربانی یا مصیبت کو حد سے زیادہ بڑی نہیں سمجھیں گے‘‘-

٭٭٭


[1] ( پروفیسر عثمان جان ، ڈاکٹر حمید رضا صدیقی ،طلوع پاکستان (تحریک پاکستان اور اس کا پس منظر) لاہور: عبداللہ برادرز ص: 374)

[2](ویول ،ای ڈبلیو آر لمبی The Transfer of Power in India ص: 83-85)

[3]Editt. Nicholas Mansergh, Penderel Moon, Transfer of Power 1942=7: Volume VI the Post-war Phase: new Moves by the labour Government 1 August 1945-22 March 1946, London: Her Majesty’s Stationary Office, 1976, p 297

[4](مینن ، ای ڈبلیو آر لمبی The Transfer of Power in India ص:220)

[5]( Indian Annual Register, 1945، ج: 2، ص:93-94)

[6] ( ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، جدوجہدِ پاکستان، مترجم ہلال احمد زبیری کراچی: شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کراچی یونیورسٹی، 1986ء،ص: 333)

[7]( Indian Annual Register, 1945، ج: 2، ص:282-374)

[8]( اے بی راجپوت ،Muslim League yesterday and Today لاہور: 1948، ص: 97)

[9]( مینن ، ای ڈبلیو آر لمبی The Transfer of Power in India ص:226)

[10]( ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، جد وجہدِ پاکستان، مترجم ہلال احمد زبیری کراچی: شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کراچی یونیورسٹی، 1986ء،ص: 333)

[11]( اے-اے رؤفMeet Mr Jinnah Lahoreتیسری اشاعت 1955،ص: 186)

[12]( ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، جدوجہدِ پاکستان، مترجم ہلال احمد زبیری کراچی: شعبہ تصبیف و تالیف و ترجمہ کراچی یونیورسٹی، 1986ء،ص:337)

[13]( اے -اے رؤف، محولہ بالا، ص: 186)

[14]( ایم-ایچ-سید، Muhammad Ali Jinnah A Political Study لاہور: 1962، ص: 405)

[15]( ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، جدوجہدِ پاکستان، مترجم ہلال احمد زبیری کراچی: شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کراچی یونیورسٹی، 1986ء،ص:338)

[16](ایضاً)

[17]( قائد اعظم محمد علی جناح کی تقریر، قرارداد اور عہد نامے کا متن ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ 10 اور 11 اپریل 1946ء میں ہے-)

[18]( Indian Annual Register, 1945، ج: 1، ص:129)

[19](H.C. 420. 5s, col. 1422)

[20]( ملاحظہ دی ٹائمز (The Times) 18، 19 مارچ1946ء)

[21](کے-پی-بھگت’’A Decade of Indo-British Relations‘‘بمبئی: 1959ء،ص: 340)

[22]( محمد اشرف Cabinet Mission and After لاہور: 1946ء، ص: 73)

[23]( مینن ، ای ڈبلیو آر لمبی The Transfer of Power in India ص: 254)

[24]( گوائر اور اپا ڈورائےلاہور: 1939Outlines of a Scheme of Indian Federation, Speeches and Documents on the Indian Constitution پیرا نمبر 16،15)

[25]( پروفیسر عثمان جان ، ڈاکٹر حمید رضا صدیقی ،طلوع پاکستان (تحریک پاکستان اور اس کا پس منظر) لاہور: عبداللہ برادرز ص: 387-400)

[26](ابو الکلام آزاد، India Wins Freedom: An Autobiographical Narrative بمبئی : 1959ء ص: 184)

[27]( مینن ، ای ڈبلیو آر لمبی The Transfer of Power in India ص: 254)

[28]( مینن ، ای ڈبلیو آر لمبی The Transfer of Power in India ص: 269)

[29]( جمیل الدین احمد ، Pakistan Literature Series No. 3, Some Aspects of Pakistanلاہور 389-401)

[30]( جمیل الدین احمد ، Pakistan Literature Series No. 3, Some Aspects of Pakistanلاہور401-407)

[31]( ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، جدوجہدِ پاکستان، مترجم ہلال احمد زبیری کراچی: شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کراچی یونیورسٹی، 1986ء،ص:365)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر